جمعۃ الوداع اورقضاء عمری
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
اﷲ تعالیٰ کو نماز سے زیادہ کوئی عبادت پسند نہیں اور اسی واسطے کسی عبادت کی اس قدر سخت تاکید اور فضیلت شریعت میں وارد نہیں ہوئی اور اسی وجہ سے پروردگارِ عالم نے اس عبادت کو اپنے ان غیر متناہی نعمتوں کے ادائے شکر کیلئے جن کا سلسلہ ابتدائی پیدائش سے آخر وقت تک بلکہ موت کے بعد اور قبل پیدائش بھی منقطع نہیں ہوتا ۔ ہر دن میں پانچ وقت مقرر فرمایا ہے اور جمعہ کے دن چونکہ تمام دنوں سے زیادہ نعمتیں فائز ہوئی ہیں حتیٰ کہ حضرت آدم علیہ السلام جو انسانی نسل کیلئے اصل اول ہیں اسی دن پیدا کئے گئے لہٰذا اس دن ایک خاص نماز کا حکم ہوا ۔ شریعت نے ہفتے میں ایک دن ایسا مقرر فرمایا جس میں مختلف محلوں اور گائوں کے مسلمان آپس میں جمع ہو کر اس عبادت کو ادا کریں اور چونکہ جمعہ کا دن تمام دنوں میں افضل و اشرف تھا لہٰذا یہ تخصیص اسی دن کیلئے کی گئی ۔جمعۃ الوداع رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں بعض لوگوں کے ذہنوں میں کچھ خاص تصورات ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے ۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آخری جمعہ جس کو ’’ جمعۃ الوداع ‘‘ بھی کہتے ہیں ، یہ کوئی مستقل تہوار ہے اور اس کے کچھ خاص احکام ہیں ، اس کی کوئی خاص عبادتیں ہیں جو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے تجویز فرمائی ہیں ۔ اور لوگوں نے اس دن عبادت کرنے کے مختلف طریقے گھڑ رکھے ہیں ۔ مثلاً جمعۃ الوداع کے دن اتنی رکعتیں نوافل پڑھنی چاہئیں اور ان رکعتوں میں فلاں فلاں سورتیں پڑھنی چاہئیں ۔ اس قسم کی کوئی ہدایت حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہیں دی ۔ جمعۃ الوداع بحیثیت جمعۃ الوداع کوئی تہوار نہیں ، نہ اس کیلئے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی احکام الگ سے عطا فرمائے ، نہ اس دن میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ بتلایا ، نہ اس دن میں کسی خاص عمل کی تلقین فرمائی جو عام دنوں میں نہ کیا جاتا ہو ۔ بلکہ یہ عام جمعوں کی طرح ایک جمعہ ہے ۔رمضان کا آخری جمعہ ہونے کی وجہ سے جمعۃ الوداع کی فضیلت سے انکار نہیں مگر ہر جمعہ خاص فضیلت رکھتا ہے ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعت ’’ قضائے عمری ‘‘ کی نیت سے پڑھنی چاہئیں اور اس طرح چار رکعت نماز پڑھنے سے تمام عمر کی قضا نمازیں معاف ہوجاتی ہیں ۔ ان کے بارے میں طریقے بھی مختلف ہیں اور نظریات بھی علیحدہ علیحدہ ہیں ۔پہلا نظریہ :رمضان کے آخری جمعہ میں سری جہری نمازیں باجماعت اذان و اقامت کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ اس نیت سے کہ جو میری نمازیں چھوٹ چکی ہیں ان کی قضا ء کرتا ہوں ،گویا ایک فجر سے فجر کی تمام قضاء نمازوں کی ادائیگی ہوجائے گی ، اس طرح باقی تمام نمازیں ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء قضاء نمازوں کا کفارہ بن جاتی ہیں ۔ دوسرا نظریہ : لوگوں کو بلاکر چار رکعت نفل باجماعت پڑھی جاتی ہے تو یہ چار رکعت سابقہ قضاء شدہ تمام نمازوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔حوالے کے طور پراس موضوع اور ضعیف حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے:
جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے ان سے اس کے سال بھر کی جتنی نمازوں میں خلل رہا , ان سب کی قضا ہوجاتی ہے. “کسی شک کے بغیر موضوع(من گھڑت) ہے. “(الفوائد المجموعہ للشوکانی: ص 54/1)واللہ تعالی اعلم بالصواب رمضان شریف کے آخری جمعہ میں قضائے عمری کی دو رکعت پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ یہ قبیح بدعت ہے. اس کے بارے میں جو روایات ہیں ان روایات کو محدیثین قضاء عمری کا نام دیتے ہیں اور انہیں موضوع (من گھڑت) قرار دیتے ہیں.جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں ایک فرض نماز قضا پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں ان سب کی تلافی ہو جاتی ہے”یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے اجماع اس پر ہے کہ کوئ بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئ نمازوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتی”(الموضوعات الکبری :ص352)
قرآن وسنت اور فقہائے کرامؒ کے اتفاق کی روشنی میں یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ جس مسلمان نے اپنی عمر کے ابتداء میں نمازیں اپنی غفلت یا لاپروائی کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں اور بعد میں اسے تنبہ اور توبہ کی توفیق ہو، اس کے ذمے یہ ضروری ہے کہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا محتاط حساب لگا کر انہیں ادا کرنے کی فکر کرے۔ امام مالکؒ، امام احمدؒ اور امام شافعیؒ تینوں بزرگ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر نمازیں کسی عذرکے بغیر چھوڑی ہیں تو تنبہ ہونے کے بعد اس کا فرض ہے کہ وہ ان نمازوں کی ادائیگی فوراً کرے، اور صرف ضروری حاجتوں کا وقت اس سے مستثنیٰ ہو گا، لیکن فقہاء حنفیہ نے کہا ہے کہ چونکہ انسان اپنی وسعت کی حد تک ہی کا مکلف ہے اس لئے قضا نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر جائز ہے جو انسان کی معاشی اور دوسری حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے درکار ہو۔چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا پڑھنے میں تاخیر جائز ہے، اگرچہ ان کو وجوب علی الفور ہوتا ہے، مگر عیال کیلئے معاش کے انتظام اور دوسری حاجتوں کے عذر کی وجہ سے تاخیر کی جاسکتی ہے۔لہٰذا ایسا شخص اپنے کام کرتا رہے اور فارغ ہونے کے بعد جتنی نمازیں پڑح سکے، قضا کرتا رہے یہاں تک کہ تمام نمازیں پوری ہو جائیں۔
قضا ء نمازوں کی آسان تدبیر یہ ہےکہ یہ نیت کرے کہ فجر کی جتنی نمازیں مجھ سے قضا رہ گئی ہیں ان میں سے پہلی ادا کرتا ہوں ۔ جب یہ ادا ہوجائے گی تو اگلی نماز پہلی بن جائے گی پھر اس کی ادائیگی بھی اسی طرح ہوگی ۔اسی طرح ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور وتروں کی ادائیگی میں نیت کی جائے ۔ ایک دن میں بہت سی نمازیں پڑھنا مشکل ہے تو اس کی آسان تدبیر یہ ہےکہ ایک دن کی قضا رکعتوں کی کل تعداد بیس ہوتی ہے ۔ فجر کی دو ، ظہر کی چار ، عصر کی چار ، مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور تین وتر کل بیس رکعت ہیں جن کی ادائیگی کیلئے متوسط طریقہ پر کل بیس منٹ درکار ہیں جو چوبیس گھنٹے کا گویا صرف بہترواں حصہ ہے ، اس لئے اگر صبح سے دوپہر تک یا عشاء کے بعد سے صبح تک کسی وقت بھی یہ بیس منٹ صرف کرلیں تو سب نمازیں ادا ہوجائیں ۔ دوسری تدبیر یہ ہے کہ ہر نماز سے قبل یا بعد میں جو وقت مکروہ نہ ہو ایک قضاء پڑھ لیں ، سب آسانی سے ادا ہوجائیں گی قضا نمازیں سوائے تین اوقات یعنی طلوع شمس ، عین زوال اور عین غروب کے سب وقتوں میں جائز ہے ۔ ترتیب بے ترتیب سب ادا ہوسکتی ہے ۔ نیز قضا نماز فجر اور عصر کی نمازوں کے بعد بھی ادا کی جاسکتی ہے مگر خفیہ ہو کہ اوروں کو قضاء کا علم نہ ہو اس لئے کہ قضاء کرنا گناہ تھی اور گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے ۔ نماز فجر اور عصر کے بعد ادا کرنے سے اظہار گناہ ہے اس لئے کہ ان دو وقتوں میں نفل مکروہ ہے ، ہر شخص سمجھ جائے گا کہ قضاء پڑھ رہا ہے اس لئے خفیہ پڑھے ، جبکہ مغرب اور عشاء کے بعد یہ بات نہیں ہے ۔
دین اتباع کا نام ہے ۔ دین کی ساری بنیاد یہ ہے کہ کسی خاص عمل کا نام دین نہیں ۔ کسی خاص شوق کا نام دین نہیں ۔ دین نام اللہ ورسول ﷺ کی اتباع کا ۔نبی کریمﷺ جیسا کہیں ویسا کرنے کا نام دین ہے ۔ ان کو جو چیز پسند ہے ، اس کو اختیار کرنے کا نام دین ہے ۔ اور اپنے آپ کو ان کے حوالے کردینے کا نام دین ہے ۔ وہ جیسا کرارہے ہیں وہی بہتر ہے ۔ یہ ساری بدعتیں جتنی رائج ہیں ۔ ان سب کی جڑ یہاں سے کٹتی ہے ۔ اگر یہ فہم دل میں پیدا ہوجائے کہ ہمارا شوق کچھ نہیں ۔ وہ جو حکم دیں اس پر عمل کرنا ہے ۔ بدعت کے معنی کیا ہیں ؟ بدعت کے معنی یہ ہیں کہ ہم خود راستہ نکالیں گے کہ اﷲ کو راضی کرنے کا کیا راستہ ہے ؟ اﷲ تعالیٰ سے نہیں پوچھیں گے ۔
