ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
تحریر:…قاری محمد اکرام
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب بیوی ہیں۔ آپ کے والد ماجد خلیفہ اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں۔ ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میںسب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و حضر کے ساتھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جو بے مثال قربانیاں دی ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرا نے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دامن بھی ہمیشہ کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن کے اس دور کو ضائع ہونے نہیں دیابلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے قیمتی حافظے سے کام لیتے ہوئے بہت کچھ یاد کیا جو بعد میں امت کے لیے منافع کا سبب بنا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں ۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دوسری اولاد کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی اور انھیںد تاریخ و ادب کے علاوہ اُس زمانے کے ضروری علوم بھی پڑھائے۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہو گیا اُس کے بعد بھی اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔ والدِ ماجد کی اِن ہی تربیت کا اثر تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح میں آ جانے کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے زیادہ ترمسائل اور اُن کی ضروریات کی باتیںحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہی پہنچیں،جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں آ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بنا ہوا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لینا مقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کیں،اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن پر مجھے چار چیزوں میں فضیلت حاصل تھی۔ (۱)نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کنواری ہونے کی حالت میں شادی فرمائی جب کہ میرے علاوہ کوئی بھی بیوی کنواری نہیں تھی۔ (۲) جب سے میں آپﷺ کے نکاح میںآئی قرآن میرے ہی گھر میںنازل ہوتا تھا کسی اور بیوی کے گھر میں نازل نہیں ہوتا تھا۔(۳) میرے معاملہ میں صفائی کے لیے قرآنِ کریم کی آیتیں نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جائیں گی۔ (۴)میرے نکاح سے پہلے دو مرتبہ حضرت جبریل امین علیہ السلام میری تصویر لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ : ’’جب ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کوئی ایسی مشکل بات پیش آئی اور ہم نے اس کے متعلق حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا تو ہم نے اس (مسئلے) کے بارے میں انھیںہی ذی علم پایا ۔‘‘حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں( کہ :’’ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصاحت والاکسی کو نہیں پایا۔‘‘ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک آدمی نے بُرے انداز میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا دفع ہو جا تجھ پر کتے بھونکیں کیا تو محبوبۂ حبیبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میںہوئی اس دوران مروان مدینے کا حاکم تھا۔ وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف سڑ سٹھ سال تھی۔ ۵۸ھ رمضان المبارک میںآپ بیمار ہوئیں چند روز علیل رہیں ۔ بالآخر منگل کے روز ۱۷؍ رمضان المبارک ۵۸ھ کو نمازِ وتر کے بعد رات کے وقت میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔