زندگی ایک عظیم نعمت اور عطیہ خداوندی ہے اس کا صحیح استعمال انسان کے درجات کو بلند کرتا اور اسے ضائع کرنا انسان کو ہلاک کرتا ہے قیامت میں انسان کو اپنے ہر قول و عمل کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پورا حساب دینا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہر عمل کو کرنے سے پہلے اس بات کو بہ خوبی سوچ بچار لے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کیا صفائی پیش کرے گا۔ آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی چیزیں اپنی زندگی میں لازم و ضروری قرار دے لی ہیں، من جملہ ان کے سالانہ یومِ پیدائش یعنی برتھ ڈے کی رسم بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں اگر کوئی چیز خلافِ شریعت نہ کی جائے یعنی محض کچھ حلال کھانے پینے کا انتظام ہو تو یہ فی نفسہ جائز ہے لیکن زندگی کے اوقات گزرنے پر خوشی منانا یا کسی دن کو بذاتِ خود خاص خوشی کا دن ٹھہرالینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اول تو زندگی کی منزلیں طے کرنا احتساب کا موقع ہوتا ہے نہ کہ خوشی کا، اس موقع پر اس بات کا حساب کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کی شکل میں آخرت کو سنوارنے کا ہمیں جو موقع عنایت فرمایا تھا، اس میں ہم نے کس حد تک کامیابی حاصل کی،
دوسرے یہ کہ مسلمان کی ہر خوشی اللہ کی خوشی میں ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے یومِ پیدائش پر کسی قسم کی خوشی منانے کا حکم نہیں دیا۔ پھر اس عمل میں اغیار کی نقّالی ہے جس سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر علماءِ اسلام نے ’’برتھ ڈے ‘‘ کے نام سے تقریبات منعقد کرنے سے منع فرمایا ہے۔
سب سے پہلے فتاویٰ حقانیہ سے ایک سوال وجواب ملاحظہ ہو:
سوال: آج کل خوشی منانے کی ایک عجیب رسم کا رواج ہے وہ یہ کہ جب کسی پیدائش کی تاریخ یا دن آجاتا ہے تو عزیزو اقارب کو کھانے کی دعوت دی جاتی ہے اور پھر بڑی دھوم دھام سے موم بتیاں جلاکر مخصوص قسم کا کیک کاٹا جاتا ہے. معاشرے میں اس کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے. لوگ اس خوشی میں ایک دوسرے کو گراں قدر تحفے تحائف دیتے ہیں اور اس سب کچھ کو ’سال گرہ‘ کہا جاتا ہے تو کیا شرعاً اس کا کوئی ثبوت ہے اور اس قسم کی دعوت میں شرکت کرنا تحفہ وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اسلام میں اس قسم کے رواج کا کوئی ثبوت نہیں ہے خیر القرون میں کسی صحابی، تابعی، تبع تابعی یا ائمۂ اربعہ میں سے کسی سے مروجہ طریقہ پر سالگرہ منانا ثابت نہیں، یہ رسم بد انگریزوں کی ایجاد کردہ ہے ان کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمانوں میں بھی یہ رسم سرایت کرچکی ہے، اس لئے اس کو ضروری سمجھنا، ایسی دعوت میں شرکت کرنا اور تحفے تحائف دینا فضول ہے، شریعتِ مقدسہ میں اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ (فتاویٰ حقانیہ: ۲؍۷۵-۷۴)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں:
’’یومِ میلاد منانا جس کو ’برتھ ڈے‘ کہتے ہیں نہ کتاب وسنت سے ثابت ہے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلفِ صالحین رحمہم اللہ کے عمل سے۔ شریعت نے بچوں کی پیدائش پر ساتویں دن عقیقہ رکھا ہے، جو مسنون ہے اور جس کا مقصد نسب کا پوری طرح اظہار اور خوشی کے اس موقع پر اپنے اعزہ و احباب اور غرباء کو شریک کرنا ہے۔برتھ ڈے کا رواج اصل میں مغربی تہذیب کی’بر آمدات میں سے ہے، جو حضرت مسیح علیہ السلام کا یومِ پیدائش بھی مناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری قوموں کی مذہبی اور تہذیبی مماثلت اختیار کرنے کو ناپسند فرمایا ہے اس لیے جائز نہیں۔مسلمانوں کو ایسے غیر دینی اعمال سے بچنا چاہئے۔ (جدید فقہی مسائل:۱؍۳۱۰)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’اسی طرح یومِ ولادت میں دعوت وغیرہ کااہتمام جسے سالگرہ بھی کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلفِ صالحین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں یہ مغربی اقوام سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ اسے دینی عمل سمجھ کر انجام نہیں دیا جاتا، اس لئے اسے بدعت تو نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ بدعت کا تعلق امرِ دین سے ہوتا ہے لیکن غیر مسلموں سے مماثلت اور غیر اسلامی تہذیب سے تاثر اور مشابہت کی وجہ سے کراہت سے بھی خالی نہیں، اس لئے احتراز کرنا چاہئے۔‘‘
(کتاب الفتاویٰ:۱؍ ۴۰۵)
نیز ایسی تقریبات میں شریک ہوتے وقت یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ فضول چیزوں میں شرکت بھی فضول ہے۔ جب سال گرہ کی خوشی ہی بے معنی ہے (کہ انسان کی عمر حقیقتاً اس دنیامیں بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہے) اس میں شرکت بھی معنیٰ ہے۔ اگر کوئی ان تقریبات میں شرکت نہ کرے اور وہ خود جس کی سال گرہ ہو آکر کیک وغیرہ لاکر دے تو ان کے کھانے کے متعلق حکم یہ ہوگا کہ اگر اس فضول رسم میں شرکت مطلوب ہو تو کھا لیا جائے ورنہ انکار کر دیا جائے۔ ایسے موقعوں پر جنھیں انکار کرنا عجیب لگتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دل ودماغ میں انگریزیت رچ بس گئی ہے۔ایسے موقعوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے تحفے تحائف لینا دینا بھی درست نہیں۔
(ماخوذ از آپ کے مسائل اور ان کا حل:۲؍۵۱۹-۵۱۸ جدید محقق)
اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
مولانا ندیم احمد انصاری
http://www.suffahpk.com/birthday-ki-sharai-hesiyat/
…..
سوال: اسلام میں برتھ ڈے کی تقریب منانے کی ممانعت سے متعلق میں نے آپ کا فتوی پڑھا۔ مگر آپ کے فتووں میں کوئی حوالہ یا تاریخ مذکورنہیں ہے۔ میرے لئے تو یہ موضوع واضح ہے مگر میرا ایک شیعہ دوست ہے جس نے فقہ بھی پڑھا ہے اس کا کہنا ہے کہ اگر ذیل میں مذکور سوالوں کے جواب دے دو تو میں بھی برتھ ڈے منانا چھوڑ دوں گا: برتھ ڈے (یوم پیدائش) کی تاریخی تفصیل۔ مشابہت کی شرعی تعریف۔ غیر مسلم کی کون سی مشابہت جائز ہے اور کون سی ناجائز؟
اس کی تعریف کرنے کا معیار کیا ہے؟ کیوں کہ ہم غیر مسلموں کے جہاز پر سفر کرتے ہیں ان کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال کرتے ہیں، تو یہ کیوں نہیں مشابہت میں آ تا اور ناجائز ہوجاتاہے؟
غیر مسلم کی مشابہت کی ممانعت سے متعلق قرآن و سنت سے دلائل (خاص طور پر برتھ ڈے کے بارے میں)۔ اپنی محدود معلومات اور سمجھ کی وجہ سے میں صحیح طریقہ پر ان سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا ہوں۔ براہ کرم اپنے جوابات حوالہ کے ساتھ عنایت فرماویں۔ کون سی کتاب اور ویب سائٹ میں مکمل تفصیل اور بیان موجود ہے، مجھے اس کے بارے میں بتائیں۔ میں اس کو خریدلوں گا۔
Published on: Sep 2, 2008
جواب # 7155
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1429=1345/ د
غیروں کے مذہبی طور طریقوں کو اختیار کرنا یا ان کے خصوصی شعار کو اپنانا حرام ہے، ان کے دیگر رسوم وعادات کو اپنانا مکروہ ہے،
من تشبہ بقوم فہو منہم (الحدیث)
برتھ ڈے عیسیٰ علیہ السلام کی یوم پیدائش مانے کا اہتمام بطور مذہبی طریقے کے ہے اور دیگر لوگوں کے لیے اپنا برتھ ڈے منانے کا رواج عیسائیوں (غیروں) کا شعار ہے، ان دونوں سے مسلمانوں کو احتراز کرنا لازم ہے۔ عام روز مرہ کے استعمال کی چیزوں میں مشابہت (تشبہ) نہیں ہوتا۔ آپ کے شیعہ دوست نے کونسی فقہ پڑھی ہے؟ قرآن کریم کی حقانیت، صحابہٴ کرام کی عظمت، اور اسلام کے عقائد صحیحہ صریحہ کے بارے میں وہ اپنی اصلاح نہ کرسکے، برتھ ڈے کے سلسلہ میں وہ اپنی اصلاح کیا کریں گے۔ اور کر بھی لیں تو ان کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ جب کہ مذکورہ تینوں بنیادی امور سے متعلق فساد و بگاڑ رگ وریشہ میں سرایت کیے ہوئے ہے، ان کو چاہیے کہ الأہم فالأہم پر عمل کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
………..
کیا سالگرہ یا برتھ ڈے منانا جائز ہے؟ اور کیا ایسے پروگرامز میں شرکت درست ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
كتاب و سنت كے شرعى دلائل سے معلوم ہوتا ہے كہ سالگرہ منانا بدعت ہے، جو دين ميں نيا كام ايجاد كر ليا گيا ہے شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ہے، اور نہ ہى اس طرح كى دعوت قبول كرنى جائز ہے، كيونكہ اس ميں شريک ہونا اور دعوت قبول كرنا بدعت كى تائيد اور اسے ابھارنے كا باعث ہوگا.
ارشاد باری تعالی ہے:
أم لهم شركاء شرعوا لهم من الدين ما لم يأذن به الله۔ (الشورى : 21)
كيا ان لوگوں نے ( اللہ كے ) ايسے شريک مقرر كر ركھے ہيں جنہوں نے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں۔
دوسری جگہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون . إنهم لن يغنوا عنك من الله شيئاً وإن الظالمين بعضهم أولياء بعض والله ولي المتقين۔ (الجاثيۃ : 18 – 19)
پھر ہم نے آپ كو دين كى راہ پر قائم كر ديا سو آپ اسى پر لگے رہيں اور نادانوں كى خواہشوں كى پيروى نہ كريں ،يہ لوگ ہرگز اللہ كے سامنے آپ كے كچھ كام نہيں آ سكتے كيونكہ ظالم لوگ آپس ميں ايك دوسرے كے دوست ہوتے ہيں اور اللہ تعالى پرہيزگاروں كا كارساز ہے ۔
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء قليلاً ما تذكرون۔ (الاعراف : 3)
اللہ تعالى كى جانب سے جو تمہارى طرف نازل كيا گيا ہے اس كى پيروى كرو، اور اللہ كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو۔
اور صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
’’ من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد ‘‘ (مسلم)
جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ مردود ہے۔
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
’’ خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم ، و شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة ‘‘
سب سے بہتر بات اللہ كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر راہنمائى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور بدعات ہيں اور ہر بدعت گمراہى ہے۔
اس موضوع كى متعدد احادیث نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں.
پھر ان تقريبات كا بدعت اور برائى ہونے كے ساتھ ساتھ شريعت اسلاميہ ميں كوئى اصل بھى نہيں ہے، بلكہ يہ تو يہود و نصارىٰ كے ساتھ مشابہت ہے، كيونكہ يہ تقريبات وہى مناتے ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو ان كے طريقہ اور راہ پر چلنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
” لتتبعن سنة من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا حجر ضب لدخلتموه : قالوا يا رسول الله : اليهود و النصارى ؟ .. قال : فمن ) أخرجاه في الصحيحين . ومعنى قوله ” فمن” أي هم المعنيون بهذا الكلام وقال صلى الله عليه وسلم : “من تشبه بقوم فهو منهم ” (بخاری،مسلم)
’’ تم لوگ ضرور اپنے سے پہلے لوگوں كى پيروى اور اتباع كرو گے بالكل اسى طرح جس طرح جوتا دوسرےجوتے كے برابر ہوتا ہے، حتى كہ اگر وہ گوہ كے سوراخ اور بِل ميں داخل ہوئے تو تم ميں اس ميں داخل ہونے كى كوشش كروگے. صحابہ كرام رض نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس سے مراد يہود و نصارىٰ ہيں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور كون ” اور كون ؟ كا معنىٰ يہ ہے كہ اس كلام سے مراد اور كون ہو سكتے ہيں۔
اور ايک حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے ”
[ فتاوى اسلاميۃ : 1 / 115 ]
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
……..
سوال: کیا کسی کی سالگرہ والے دن پر اس کو نیک دعائیں دینا ، مثلا دنیا وآخرت کی کامیابی کی دعا دینا جائز ھے ؟ جبکہ ویسے بھی اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہوں ؟ سالگرہ کی دیگر رسومات مثلا کیک کاٹنا اور مبارک باد دینا وغیرہ کیسا ہے ؟ برائےمہربانی وضاحت فرمائیے
جواب: مسلمان کی دعا مسلمان کے حق میں جلد قبول ہوتی ہے مگرخاص سالگرہ والے دن ہیکودعاؤں کے لیے خاص کرلینا مناسب نہیں، واضح رہے کہ سالگرہ غیر مسلموں کا طریقہ اور مغربی ثقافت کی دین ہے جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، نبی کریم ﷺ نے غیروں کی مشابہت سے اجتناب کا حکم دیا ہے ،سالگرہ منانا ، کیک کاٹنا ، سالگرہ کی مبارک باد دینا غیر اسلامی قوموں کے اثرات ہیں اس لیے ایسے رسم ورواج سے بچنا چاہیے۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/salgirah-birthday-mananay-ka-hukum/2014-05-31