کھڑکی مسجد؛ ذمہ دار کون؟
ایس اے ساگر
جنوبی دہلی کے علاقہ میں واقع کھڑکی سرخیوں میں ہے. سماجی روابط کی ویب سائٹس پر فیروز شاہ تغلق کے وزیر اعظم جونان شاہؔ المعروف خان جہاں مقبولؔ تلنگی کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت مسجد لرزہ خیز حالات کی زد میں ہے. مندرجہ ذیل لنک میں پیش کردہ ویڈیو میں پیش کردہ حقائق کسی بھی حساس شخص کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں. ماہرین کے مطابق یہ مسجد ہندو اور اسلامی آرکیٹیکٹ کی ملی جلی کیفیت کو اپنے اندر رکھتی ہے، شمالی ہند میں عام طور پر مساجد کے ایک بڑے حصے میں صحن رکھا جاتا تھا اور اس کے اطراف برآمدہ اور دالان بنایا جاتا لیکن اس مسجد میں بیشتر حصے کو چھت سے ڈھانک دیا گیا جو اپنی نوعیت کی ایک ندرت آمیز طرز تعمیر ہے، مقبول تلنگی اور فیروز شاہ نے باہم مشورے سے دہلی کو بہترین تعمیرات دی ہیں جن میں مختلف انداز تعمیر رکھنے والی سات مساجد بھی شامل ہیں جن میں ہر مسجد ایک علیحدہ انفرادیت رکھتی ہے لیکن اس کی شہکارتعمیر ’’کھڑکی مسجد ‘‘ہے جس میں مقبول ؔ تلنگی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کیا ۔
خان جہان مقبول تلنگی ایک بہترین آرکیٹیکٹ تھا، وہ دراصل ہندو تھا ، اس کا تعلق ورنگل کی کاکتیہ سلطنت سے تھا، کاکتیہ سلطنت(Kakatiya Dynasty) جنوبی ہند کی مشہور سلطنت رہی ہے،جو ورنگل(Warangal) سے جنوبی ہند کے ایک بڑے علاقے پر حکومت کیا کرتی تھی، ملک مقبولؔ تلنگی ورنگل کی سلطنت کا کمانڈر تھاجو ترقی کرتا ہوا فیروز تغلق کے دور حکومت میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوا۔ 1323ء میں جب کاکتیہ حکومت کا زوال ہوا تو دہلی سلطنت نے راجہ پرتاپ ردراؔ دوم اور اس کے تین کمانڈرس کو دہلی لانے کے احکامات دیئے ان میں گنّما نائک عرف یوگندھر کنیاؔ بھی شامل تھا جس کو گرفتار کرکے دہلی لے جایا گیا۔ دہلی میں راجہ اور اس کے کمانڈروں کو دوبرس تک مہمان رکھا گیا اور راجہ پرتاب رودرا ؔ کو تغلق حکومت نے واپس ورنگل بھیج دیا تو راجہ سکون کے دن گذارنے کے لئے منتھنی کے مندر کو چلا گیا چونکہ حکومت ختم ہوچلی تھی اسی لئے راجہ پرتاب دوم نے اپنے آخری دن وہیں یعنی منتھنی میں گذارنے پسند کئے۔ لیکن بعض مورخین نے لکھا ہے کہ گرفتار ہونے کے بعد راجہ نے دہلی جاتے ہوئے دریائے نرمدا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی،لیکن میں ایک اولالعزم بادشاہ سے ایسی بزدل حرکت کی امید نہیں رکھتا بعض مورخین کے مطابق منتھنی میں اس راجہ کی سمادھی موجود ہے۔دہلی میں قیام کے دوران کمانڈر یوگندھر کنیاؔ نے اسلام قبول کیا اور اپنی فطری ذہانت کے باعث فیرو زتغلق کے قریبی مشیروں میں شامل ہوگیا اور ’’مسند عالی اعظم ہمایونی خان جہان مقبول‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، اس کے بعد ابتداً تغلق نے خان جہان مقبولؔ کو ملتان کا گورنر بنایا لیکن تلنگانہ کے حالات میں عدم استحکام کے باعث کچھ عرصہ بعداس کو ورنگل بھیج دیا گیا تاکہ یہاں سے اٹھنے والی بغاوت کو ختم کیا جاسکے۔لیکن ورنگل میں Masunuri Nayakکی قیادت میں نائیکوں نے فتح حاصل کی اور مقبولؔ ملک ناکام ہوکر دہلی لوٹ گیا۔ خان جہان کی ذات میں کمانڈرانہ صلاحیتوں کے علاوہ ایک بہترین آرکیٹیکٹ بھی چھپا تھا، جس کا ثبوت دیتے ہوئے اس نے ہند اسلامی تعمیری تہذیب کی روایتوں کو سمو کر کئی ایک عمارات تعمیر کروائی جس میں وہ سات مساجد بھی شامل ہیں جو فیروز آباد اور اس کے نواح میں تھیں۔ کھڑکی مسجد دہلی میں اپنی طرز تعمیر کے اعتبار سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے مسجد پر نصب کتبوں سے اس بات کو پتہ چلتا ہے کہ اس کو خان جہاں نے بنوایا لیکن سن تعمیر کا پتہ نہیں چلتا بہت ممکن ہے اس مسجد کو 1375 تا 1380کے درمیان تعمیر کیا گیا ۔مسجد مکمل مربع ہے جس کا ہر ضلع 52میٹر یعنی 170.6 فٹ ہے ،مکمل مسجد 936مربع فٹ پر بنائی گئی ہے ۔ مسجد کو تقریباً 3میٹر اونچے پلیٹ فارم پر بنایا گیا ہے مسجد کے درمیان چار عدد چھوٹے چھوٹے صحن ہیں جن کی لمبائی چوڑائی 30فٹ ہے ، مسجد کے چاروں جانب موجود صحن میں کمانیں موجود ہیں، یہ صحن مسجد میں ہوا اور روشنی کی ہموار فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ان کھلے حصوں کی وجہہ سے چھت کی کیفیت بدل گئی اور چھت سے اندرونی حصے کے نظارے کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔مسجد کے چاروں جانب چھت پر مینار جیسی ساختیں بنی ہوئی ہیں۔مکمل مسجد کو تقریباً 180گنبدان سے بنایا گیا ہے ہر قطار میں ان کی تعداد 15ہے چونکہ یہ مسجد مربع ہے اسی لئے یہ 15گنبدان لمبائی اور چوڑائی میں موجود ہیں، ہر گنبد اونچائی میں چھوٹی اور لمبائی چوڑائی میں تقریباً دس، دس فٹ طول و عرض رکھتی ہیں چھت پر نو، نو گنبدان کے جوڑے بنا کر ایک ترتیب قائم کی گئی ہے، یعنی طول و عرض میں 9 اور 9 گنبدان کے پانچ پانچ جوڑے بنائے گئے ہیں اور پوری چھت پر چار مقامات ایسے ہیں جہاں نو، نو گنبدان کے جوڑے موجود نہیں ہیں،یہ مقامات مربع احاطہ رکھتے ہیں اوریہی کھلے مقامات مسجد کے اندر روشنی و ہوا پہچانے کا انتظام کرتے ہیں اور گندی ہوا کو خارج کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں Skylights یا تلنگانہ کی مقامی زبان میں ’’بھونتی‘‘ کہا جاتا ہے ،جو جنوبی ہند کی قدیم تعمیرات میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مسجد کھڑکی دہلی میں چار عدد ’’ چار بھونتیاں ‘‘ موجود ہیں۔ جو اس دور میں مساجد کی تعمیری دنیا کا ایک انقلابی تصور تھا۔ مسجد کو ہر جانب کھڑکیوں سے (Windows) مزین کیا گیا ہے جس میں ترشی جالیاں لگی ہیں جو نہ صرف اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں بلکہ روشنی کو اندر پہنچانے کا اہتمام بھی کرتی ہیں ۔ مشرقی دروازہ اونچا ہے جس پر کئی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ، اس دروازے کے اوپر دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مینار بنے ہوئے ہیں جو مسجد کے مجموعی حسن و وجاہت میں اضافہ کرتے ہیں۔ بیرونی جانب سے یہ مسجد کی دوسری منزل پر نظر آتی ہیں۔قبلے کی دیوار پر محراب ہے جو قدرے بیرونی جانب نکلا ہوا ہے لیکن روشنیاں چھن کر اسی مقدار میں محراب تک نہیں پہنچتیں جس قدر عبادت گاہ کے درمیانی حصے میں پہنچتی ہیں۔فنی اعتبار سے مستحکم یہ مسجد حوادثات زمانہ کا شکار ہوتی جارہی ہے، ان دنوں یہاں نماز ادا نہیں کی جاتی کیونکہ اس کے کچھ حصے منہدم ہوتے جارہے ہیں لیکن نہ صرف دہلی بلکہ ہندوستانی تعمیری تاریخ میں یہ مسجد اپنی مستقل جگہ رکھتی ہے کیونکہ اسی مسجد سے بہت کچھ اخذ کرتے ہوئے مغل بادشاہوں نے اپنی تعمیرات کو پر رونق بنایا تھا۔یہ مسجد فیروز تغلق کے دور کا ایک انمٹ نقش ہے جس کو دہلی کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔اسی لئے INTACH نے اس کواپنی فہرست کے کیٹیگری “A” کے زمرے میں رکھا ہے۔
Article – Khirki Masjid – Delhi
By – Dr Aziz Ahmed Ursi
Warangal – Telengana State – India
……
http://www.jahan-e-urdu.com/khirki-masjid-new-delhi-by-aziz-ahmed-ursi/
………………………….
بابری مسجد تنازع:
عدالت میں مضبوط دلائل پیش کرنے کیلئے جمعیتہ علما ہند نے کر لی تیاری
نئی دہلی۔ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں 8فروری سے سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت ہوگی،جس میں فریق اول یعنی جمعیۃ علماء علماء ہند کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں مضبوط دلائل پیش کرنے کیلئے وکلاء کی ٹیم پوری طرح مستعد ہوگئی ہے۔ کل سے شروع ہونے والی مقدمہ جاتی کارروائی کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور ڈاکٹر راجو رام چندرن عدالت میں اپنا موقف رکھیں گے۔ یہ اطلاع آج جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے ذرائع ابلاغ کو دی ہے۔
بابری مسجد کی اراضی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیل میں قانونی محاذ پرجاری لڑائی اب اِس لحاظ سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ عدالت عظمیٰ یومیہ بنیاد پر اس مقدمہ کی سماعت کرے گی۔چنانچہ صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس ضمن میں قانونی تیاری مکمل کرلی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشراء کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ جس میں جسٹس عبدالنظیراور جسٹس بھوشن شامل ہیں، کے روبرو کل سے معاملے کی سماعت ہوگی جس کی تیاری کو حتمی شکل دینے میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سینئر وکلاء سے مسلسل رابطہ میں ہیں تاکہ مقدمہ کی سماعت کے وقت جمعیۃعلماء ہند عدالت کے سامنے اپنے مضبوط دلائل پیش کرسکے۔
عدالت کے حکم کے مطابق ہندی،اردو،فارسی،سنسکرت ودیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کے ترجمے بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ ذہن نشیں رہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرن بحث کریں گے جبکہ ان کی معاونت کیلئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ طاہر، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگربھی موجود ہوں گے ۔ خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب میں بابری مسجد کے اندر رام للا کے مبینہ ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا فیصلہ ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کردیا گیا تھا ۔ اسی فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر جمعرات سے سماعت عمل میں آئے گی ۔
بتا دیں کہ جمعیۃ علماء ہند نے صدرجمعیۃعلماء مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا –
بابری مسجد تنازعہ: عدالت میں مضبوط دلائل پیش کرنے کیلئے جمعیتہ علما ہند نے کر لی تیاری – http://urdu.news18.com/news/north-india/jamiat-ulma-hind-on-babri-masjid-case-hearing-in-supreme-court-231795.html
………
कासगंजः सुरभी ने कहा मेरे पति का गुनाह मुसलमान होना है, पुलिसकर्मी ने कहा ‘तेरे लिए सारे ठाकुर मर गए थे कि मुसलमान के साथ चली गई।’
अब्बास पठान
कासगंज मामले में पुलिस ने एक “राहत” नाम के युवक को भी गिरफ्तार किया है जिसने पिछले वर्ष एक सुरभि चौहान नामक युवती से प्रेम विवाह किया था। सुरभि अपने पति की गिरफ्तारी से टूटी चुकी है। वो उसपे लगे सारे आरोपो को बेबुनियाद और घृणा से भरा हुआ बताती है। ये वही घृणा है जो बीजेपी ने “लव जिहाद” के नाम पे बोई है। सुरभि का कहना है कि राहत की ग़लती सिर्फ़ इतनी है कि उसने हिन्दू लड़की से प्रेम विवाह किया है।
उसने कहा कि 26 जनवरी को तिरंगा यात्रा के दौरान जो कुछ भी हुआ उसमें उनके पति की ज़रा सी भी ग़लती नहीं है। ’26 जनवरी को मैं राहत के साथ न्यूज़ देख रही थी। मैंने न्यूज़ में ही देखा कि बलिराम गेट चौराहे पर कुछ बवाल हो गया है। इसी दौरान राहत को किसी का फ़ोन आया कि यहां लड़ाई हो गई है। राहत को लोगों ने बुलाया लेकिन मैंने उसे मना किया कि तुम नहीं जाओगे। मैंने अपने पति को नहीं जाने दिया। हम अगले दिन 27 जनवरी को अलीगढ़ जा रहे थे। हमें रास्ते में ही पुलिस वालों ने पकड़ लिया। मैंने हाथ-पैर जोड़े कि मेरे पति को छोड़ दो।
पुलिस वालों ने कहा कि तेरे लिए सारे ठाकुर मर गए थे कि मुसलमान के साथ चली गई। तुझे कोई और नहीं मिला? सुरभि के बयान पे गौर करते हुए इस बात पे मोहर लग जाती है कि “उत्तर प्रदेश पुलिस खुद ऑनर किलिंग मानसिकता की है। ये लेख लिखना इसलिए भी जरूरी है कि ठकुराई के नशे में चूर पुलिस कही राहत का एनकाउंटर ना कर दे।
सुरभि ने बताया की ”मेरे पति के साथ पुलिस वालों ने बहुत बदतमीजी की, मैं गिड़गिड़ाती रही कि मेरे पति को छोड़ दो। जो असली गुनाहगार थे उन्हें पुलिस नहीं पकड़ पाई। जो बेकसूर हैं उन्हें पकड़ रही है। मेरे पति को हिन्दू लड़की से शादी के कारण गिरफ़्तार किया गया है। उत्तर प्रदेश पुलिस कासगंज के असली गुनाहगारों को कभी पकड़ भी नही पाएगी। उन्हें सब पता है की किन लोगों ने ये भयानक दृश्य लिखे है और अंजाम दिए है लेकिन पुलिस उन लोगों को हाथ लगाने से भी डरती है है।
(बीबीसी हिन्दी के इनपुट से)
…….
Abhay Dubey (@SirAbhay_) Tweeted:
दरिंदगी ऐसी की सैतान को भी शर्म आने लगे ऐसा ही हुआ उत्तर प्रदेश के प्रतापगढ़ में जहां इंसानियत एक बार फिर सर्मसार हुई एक 42 साल की औरत के साथ बलात्कार करने की कोशिश की गई बलात्कारी अपने नापाक मंसूबे में नाकाम हुए तो राबिया को इतना मारा की उनकी मौत हो गयी !! https://twitter.com/SirAbhay_/status/960566002000867328?ref_src=twcamp%5Eshare%7Ctwsrc%5Em5%7Ctwgr%5Eemail%7Ctwcon%5E7046%7Ctwterm%5E2
………
کھڑکی مسجد؛ ذمہ دار کون؟
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1627068034017450&id=120477478009854