كيا اذان کے دوران باتیں کرنا موت کے وقت کلمہ پڑھنے سے محروم كرتا ہے
سوال: یہ حدیث کہاں تک صحیح ہے کہ:
جو شخص اذان کے دوران باتیں کرتا ہے تو وہ موت کے وقت کلمہ پڑھنے سے محروم رہتا ہے؟
جواب: حمد وصلاہ کے بعد یہ گذارش ہے کہ: یہ بات بالکل بے اصل ہے، اور اس طرح کی باتوں کی نسبت بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جائز نہیں ہے، کیونکہ سراسر جہوٹ ہے۔ ویسے اذان کے دوران بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جائز ہے، تاہم باتیں کرنا اگر مؤذن کی متابعت اور اذان کے جواب دینے سے مشغول کردے، تو خاموش ہوکر اذان کا جواب دینا جو مسنون ہے، یہ زیادہ بہتر ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے (موطا) میں بروایت ابن شھاب، حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے، فرماتے ہیں کہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں، جمعہ کے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کے لئے باہر تشریف لانے سے پہلے ہم لوگ نوافل پڑھتے تھے، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ منبر پر تشریف فرماتے، اور مؤذن اذان دیتا تو ثعلبہ کہتے ہیں کہ:
ہم بیٹھ کر باتیں کرتے،
جب مؤذن اذان سے فارغ ہوجاتا اور خطبہ شروع ہوتا تو ہم خاموش ہوجاتے، پھر کوئی بات نہ کرتا۔ ابن شہاب کہتے ہیں:
امام کا باہر آنا ہی گفتگو کو ختم کر دیتا ہے۔
تو مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ خیر القرون میں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اذان کے دوران باتیں کرتے تھے، جو واضح حجت ہے اس کے جواز پر دلالت کرنے میں۔
مسلم شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم طلوع فجر کے وقت دشمنوں پر حملہ کرتے تھے، اور کان لگا کر اذان سنتے، اگر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اذان سنتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے،
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ایک شخص کو (اَللَّهُ أَکْبَرُ اَللَّهُ أَکْبَرُ ) کہتے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
یہ مسلمان ہے،
پھر اس نے
(أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه ُ)
کہا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
وہ جہنم سے آزاد ہوگیا،
اس کے بعد جب لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
اس روایت میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اذان کے وقت بات کرنا ثابت ہے۔
تو واضح ہوگیا کہ اذان کے سننے والے کے لئے اذان کے دوران بات چیت کرنا جائز ہے، رہا مسئلہ خود مؤذن کا باتیں کرنا، تو اس سلسلہ میں بعض اہل علم کراہت کے قائل ہیں، اور بعض بلا کراہت جائز کہتے ہیں، لیکن مؤذن کی بات چیت کرنا اگر طویل ہوجائے یہاں تک پے در پے اذان دینے کے خلاف ہوجائے، تو اذان از سر نو دینا ضروری ہے ۔
مذہب حنبلی کی کتاب (المغنی) میں ہے: مؤذن کے لئے اذان کے دوران باتیں کرنا مناسب نہیں ہے ، بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے ۔ امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ: مجھے معلوم نہیں کہ کوئی معتبر عالم نے ایسا کیا ہو۔ تاہم حسن بصری، عطاء، قتادہ اور سلیمان بن صرد رحمہم اللہ جواز کے قائل ہیں، بشرطیکہ مختصر بات کی ہو، مگر جب بات طویل ہوکر موالات میں خلل ڈالے جو اذان کی شرط ہے، تو اذان باطل ہوگی، چونکہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ اس نے اذان دی۔
امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اذان دیتے ہوئے بات کرتاہے؟
کہا: ہاں،
پھر دریافت کیا گیا کہ اگر اقامت دیتے ہوئے بات کرے؟
تو جواب دیا: نہیں۔
واللہ اعلم
http://www.suffahpk.com/doran-azan-baat-karny-ka-hukum-2/
…..
دوران اذان بات چیت؟
جن لوگوں پہ نماز واجب ہے، اذان سن کر انہیں نماز کی تیاری میں لگ جانا یعنی اذان کا عملی جواب دینا ضروری ہے۔ اذان سن کر بھی نماز سے سستی وغفلت کا مظاہرہ کرنے اور جماعت ضائع کردینے پر حدیث رسول میں سخت وعید آئی ہے۔
اذان سن کر زبانی جواب دینا حنفیہ کے نزدیک مستحب وبہتر ہے۔۔۔۔
ویجیب وجوبا، وقال الحلواني: ندبا، والواجب الإجابۃ بالقدم۔ (تحتہ في الشامیۃ:) قال الحلواني: إن الإجابۃ باللسان مندوبۃ، والواجبۃ ہي الإجابۃ بالقدم۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، زکریا ۲/ ۶۵، کراچی ۱/ ۳۹۶)
’’ویجیب وجوبا‘‘ علی المعتمد للأمر بہ، في قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: فقولو مثل ما یقول۔ ’’قولہ ندبا‘‘: أي إجابۃ اللسان مندوبۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی الدر، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، کوئٹہ ۱/ ۱۸۸، الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الأذان، زکریا ۲/ ۱۵۲، رقم: ۲۰۰۷، المحیط البرہاني، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الفرائض، المجلس العلمي، جدید ۲/ ۱۰۲، رقم: ۱۳۱۳)
دوران اذان بیہودہ گفتگو میں اشتغال بڑی محرومی کی بات ہے۔ اذان بغور سن کر زبان سے اس کا جواب دیتے ہوئے جماعت کے ساتھ نماز کی ادائی میں ہمہ تن مشغول ہوجانا چاہئے۔
تاہم اگر واقعی کوئی ضرورت در پیش ہو تو دوران اذان گفتگو کرنے کی بھی شرعا اجازت ہے ۔ ضرورت کے تحت گفتگو کرتے ہوئے بھی اذان کا جواب دیا جاسکتا ہے۔دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے
دوران اذان ضرورت کے تحت کئے گئے گفتگو کے متعلق مستقل باب قائم فرمایا ہے۔ “باب الكلام في الأذان” یعنی باب : اذان کے دوران بات کرنے کے بیان میں” اور پہر اس باب کے تحت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سلیمان بن صرد کا دوران اذان گفتگو کرنا درج فرمایا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا میلان بھی جواز ہی کی طرف ہے ۔
بَاب الْكَلَامِ فِي الْأَذَانِ وَتَكَلَّمَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ فِي أَذَانِهِ وَقَالَ الْحَسَنُ لَا بَأْسَ أَنْ يَضْحَكَ وَهُوَ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ
591 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ وَعَبْدِ الْحَمِيدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ وَعَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ فَلَمَّا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَقَالَ فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ
صحيح البخاري
(ترجمہ: ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن حارث بصری سے، انھوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔)
“وتكلم سليمان بن صرد في أذانه. وقال الحسن لا بأس أن يضحك وهو يؤذن أو يقيم.”
(اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔ زیر بحث مسئلے کے جواز کی صریح اور بین دلیل ہے)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں مذاہب ائمہ تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
[ص: 116] قوله: (باب الكلام في الأذان) أي في أثنائه بغير ألفاظه . وجرى المصنف على عادته في عدم الجزم بالحكم الذي دلالته غير صريحة ، لكن الذي أورده فيه يشعر بأنه يختار الجواز ، وحكى ابن المنذر الجواز مطلقا عن عروة وعطاء والحسن وقتادة ، وبه قال أحمد ، وعن النخعي وابن سيرين والأوزاعي الكراهة ، وعن الثوري المنع ، وعن أبي حنيفة وصاحبيه أنه خلاف الأولى ، وعليه يدل كلام مالك والشافعي، وعن إسحاق بن راهويه يكره ، إلا إن كان فيما يتعلق بالصلاة، واختاره ابن المنذر لظاهر حديث ابن عباس المذكور في الباب ، وقد نازع في ذلك الداودي فقال : لا حجة فيه على جواز الكلام في الأذان ، بل القول المذكور مشروع من جملة الأذان في ذلك المحل.
(فتح الباری شرح صحيح البخارى)
ان نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ اذان کے دوران ضرورت کے تحت گفتگو کرنا جائز ہے ۔ ائمہ اربعہ کے یہاں اس کی گنجائش موجود ہے ۔اس بابت عوام میں جو بات مشہور کردی گئی ہے کہ:
“اذان کے وقت بات چیت کرنے سے مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا ہے.”
یہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس بات کی نسبت کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ ایسی بے سروپا باتوں کو بلاتحقیق مشتہر کرنا درست نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
2 فروری 2018 عیسوی
روز جمعہ