یہ ڈی این اے کیا بلا ہے؟
ایس اے ساگر
قصور کی بے قصور مرنے والی زینب کے قاتل پر قانون نے بالآخر شکنجہ کس ہی لیا ۔14 دن تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد زینب سمیت آٹھ بچیوں کے ساتھ منہ کالا کرنے اور قتل کے ملزم عمران علی کو لاہور کے قریب واقع شہر قصور سے گرفتار کیا گیا۔عمران علی کے گھر سے ایک جیکٹ ملی جس کے دو بٹنوں کی مدد سے یہ پولیس ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کا ڈی این اے جب مکمل میچ ہوا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔ گویا شناخت کا سہرا ڈی این اے ٹیسٹ کے سرجاتا ہے جس نے سو فیصد تائید کردی ہے۔ عام طور طر لوگوں کو علم نہیں کہ ہر انسان کی کتاب مخصوص ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہر انسان کی انگلیوں کے نشان مخصوص ہوتے ہیں۔ ڈی این اے یعنی کہ ڈی اے کسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً؛ اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
کیسے کیا جاتا ہے ڈی این اے ٹیسٹ؟
جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال، خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنالی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت قطعی نا ممکن ہو تو ایسی صورت میں ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں اسی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟
ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔ ولدیت ثابت کرنے کے لیے اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔
مجرم کی شناخت کے لیے:
ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حالیہ مثال قصور میں زینب اور سات دوسری بچیوں کے قاتل کی گرفتاری کی دی جاسکتی ہے جو ڈی این اے کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس موقعے پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالیہ نشان قائم ہوناشروع ہو گئے کہ ڈی این اے کے ذریعے کسی شخص کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟ ڈی این اے کو سمجھنے کے لیے عام طور پر جو مثال دی جاتی ہے وہ کسی مکان کے بلیو پرنٹ یا نقشے کی ہے جس پر عمل کر جسم کا پورا ڈھانچہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ جیسے ہر مکان کا تعمیر کا نقشہ الگ ہوتا ہے، اسی طرح ہر انسان کے جسم کی تعمیر کے لیے الگ الگ نقشے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی مکان کا نقشہ مل جائے تو اس کی مدد سے آپ اس گھر کو شناخت کر سکتے ہیں۔ جسم تعمیر کرنے اور اس کا نظام چلانے کے لیے ڈی این اے کی ہدایات ایک خاص زبان میں درج ہوتی ہیں۔ اس زبان کے حروفِ تہجی صرف چار ہوتے ہیں اور انھیں عام طور پر رومن حروف A, C, T, G کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایک انسان کا مجموعی ڈی این اے ،جسے’جینوم‘ کہا جاتا ہے،تین ارب الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ڈی این اے کے چار ’حروف‘ کسی زبان کے حروف کی طرح نہیں، بلکہ دراصل کیمیائی مرکبات ہیں جنھیں A, C, T, G کا نام دے دیا گیا ہے اور یہ جینوم میں ایک مخصوص ترتیب سے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جس طرح اردو کے الفاظ کو ایک خاص ترتیب میں لکھنے سے ایک کتاب مرتب ہوتی ہے، اس طرح سے ڈی این اے کے ان مرکبات کی مخصوص تکرار سے کسی ایک مخصوص انسان کا جینوم تیار ہو جاتا ہے۔ اگر یہ ساری ہدایات مکمل طور پر لکھی جائیں تو اس سے عام سائز کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں بن جائیں گی۔
ٹیسٹنگ میں کیا جانچا جاتا ہے؟
ڈی این اے کے بنیادی حروف چونکہ کیمیائی مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے لیبارٹری میں کیمیائی طریقوں سے ٹیسٹ کر کے کسی ملزم کو شناخت کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ڈی این اے فنگر پرنٹنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلا مرحلہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملزم کے جسم کے کسی بھی حصے کا نمونہ مل جائے۔ یہ نمونہ اس کے بالوں، تھوک، جنسی رطوبت، خون یا جلد کے کسی ٹکڑے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے کہ اسے کسی اور کا ڈی این اے آلودہ نہ کر دے۔ اگر نمونہ حاصل کرنے والے اہلکار کو چھینک بھی آ جائے تو اس کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔ڈی این اےاس کے بعد ڈی این اے کو صاف کیا جاتا ہے، اور اگر اس کی مقدار کم ہے تو اسے پی سی آر کے ذریعے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔پنجاب فورینسک لیبارٹری کے ایک عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا کہ قصور میں متاثرہ لڑکیوں کے جسم سے ملزم کا ڈی این اے حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ ایک جگہ سے صرف تین سپرم ملے تھے، جبکہ ایک اور لڑکی کے جسم سے صرف تین نینوگرام یعنی محض ایک گرام کا ایک اربواں حصہ حاصل ہوا جسے حساس طریقے استعمال کر کے اس قابل بنا دیا گیا کہ اسے ٹیسٹ کیا جا سکے۔
تکرار کی مدد سے شناخت:
ڈی این اے کے ان حصوں کو کیمیائی طور پر شناخت کرنا آسان ہوتا ہے جہاں بار بار ایک ہی حرف دہرایا گیا ہو۔ اسے شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (STR) کہا جاتا ہے۔ کسی ایک ایس آر ٹی کی مثال کچھ یوں ہو گی:
ATATATATAT
اس مثال میں AT پانچ بار دہرایا گیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آلات اس قسم کی تکرار کو آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔ چوں کہ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے، اس لیے اس کے اندر پائی جانے والی تکراریں بھی منفرد ہوتی ہے۔ عام طور پر چار حروف کی تکرار زیادہ آسانی سے پکڑی جاتی ہے۔ قصور واقعے کی متاثرہ بچیوں کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے کا جب ملزم علی عمران کے ڈی این اے سے تقابل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان دونوں قسم کے نمونوں میں ایک ہی تکرار پائی جاتی ہے۔ اگر صرف چند تکرار کے نمونے ملتے ہوں تو ایسا اتفاقی طور پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ بار تکرار ہو بہو ایک جیسی ہو تو ایسے اتفاق کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ ڈی این اےانتہائی کم امکان پولیس کے مطابق علی عمران کے ڈی این اے اور بچیوں کے جسم کے اندر سے ملنے والے ملزم کے ڈی این اے کے درمیان اتفاقی مماثلت کا امکان ایک کے مقابلے پر 178 کواڈریلین ہے۔ یعنی 178 کے بعد 15 صفر، یعنی 78,000,000,000,000,000,000اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 178 کواڈریلین انسان موجود ہوں، تو ان میں سے دو کے ڈی این اے کے آپس میں ملنا کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا کی مجموعی آبادی اس رقم کے مقابلے پر دو کروڑ گنا سے بھی کم ہے اس لیے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پولیس کو اس کا مطلوب شخص مل گیا ہے۔
جین تھیراپی:
اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔
جینیٹک جینیالوجی:
اگر کوئی اپنے آباو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔تاہم یہ سوال منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ ڈی این اے کی مدد سے ملزم عمران علی کو پکڑ تو لیاگیا ہے لیکن کیا جدید ٹیکنالوجی کیا عدالتوں سے سزا بھی دلوا سکے گی؟
‘Beast’ arrested over rape and murder of Zainab
POLICE have arrested a suspected serial killer over the rape and murder of a seven-year-old girl in Pakistan, describing him as a ‘beast’. Accoding to reports, Police working on the investigation into Zainab’s murder have discovered DNA traces matching those found in seven other attacks on young girls in the same city. Out of the seven attack victims, four – including Iman – were murdered. Police found Zainab Ansari’s body in a garbage dumpster in Kasur district near the eastern city of Lahore last week, four days after she was reported missing. She was the 12th child found raped and murdered within a 2km radius in the district in two years, sparking riots, with thousands swarming on police stations and setting fire to politicians’ homes, accusing authorities of inaction. Shahbaz Sharif, chief minister of Punjab province, where Kasur is located, said Imran Ali, 24, had confessed to Zainab’s murder and that his DNA matched samples found on her body. “The beast has confessed to have committed the past such crimes,” Chief Sharif told a press conference late Tuesday. “His DNA was matched 100 per cent with samples collected from crime scenes. Then in a polygraph test, the culprit confessed all of his wrong doings, we have the video recording.”