ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد حجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔ ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے ؟ پرفتن نجد کون سا ہے ؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں؟ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے؟ اس مضمون میں غیرجانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا۔
اس تحقیقی مضمون کا خاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔ آخر میں مسلمہ فقہائے کرام، معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی۔
آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ قال : اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ فاظنه قال في الثالثة : هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان .
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد میں ؟ فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی ؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔ ‘‘ [ مسند الإمام أحمد : 118/2، صحيح البخاري : 1051/2، ح : 1709، سنن الترمذي : 3953]
حدیث نمبر ②
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مستقبل المشرق يقول : الا إن الفتنة هاهنا الا إن الفتنة هاهنا من حيث يطلع قرن الشيطان .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔“ [ صحيح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحيح مسلم : 4/2 39، ح : 7292]
حدیث نمبر ③
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
انه قام إلى جنب المنبر فقال : الفتنة ها هنا، الفتنة ها هنا، من حيث يطلع قرن الشيطان او قال قرن الشمس .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا، فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [ صحيح بخاري : 1050/2، ح : 7092، صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 47]
❀ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال، وهو مستقبل المشرق : ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“
حدیث نمبر ④
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير إلى المشرق فقال : ها إن الفتنة ها هنا، إن الفتنة ها هنا، من حيث يطلع قرن الشيطان .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“ [ المؤطا للإمام مالك : 1975/2، صحيح البخاري : 463/1، ح : 3279]
حدیت نمبر ⑤
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سمعت النبى صلى الله عليه وسلم، واوما بيده نحو المشرق، هاهنا الفتنة، هاهنا الفتنة، حيث يطلع قرن الشيطان .
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا : فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [ مسند الإمام أحمد : 111/2، و سندهٔ حسن]
حدیت نمبر ⑥
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رأس الكفر نحو المشرق .
”کفر کا منبع مشرق کی جانب ہے۔“
[صحيح البخارى : 466/1، ح : 3301، صحيح مسلم : 53/1، ح : 52]
صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے
قارئین کرام! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں :
حدیت نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير بيده، يوم العراق، ها إن الفتنة ها هنا، ها إن الفتنة ها هنا، ثلاث مرات، من حيث يطلع قرن الشيطان .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [ مسند الإمام أحمد : 143/2، ح : 6302، وسندۂ صحيح]
حدیث نمبر ②
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مكتنا، وبارك لنا فى شامنا، وبارك لنا فى يمننا، وبارك لنا فى صاعنا ومدّنا، فقال رجل : يا رسول الله ! وفي عراقنا، فأعرض عنه، فقال : فيها الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان .
’’ یا اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو با برکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے، ہمارے صاع (قریبا 2.099 کلوگرام کا پیمانہ) اور مد (قریبا 524.88 گرام کاپیمانہ) میں برکت دے۔ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔ وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [مسند الشاميين للطبراني : 1276، المعرفة والتاريخ للحافظ يعقوب بن سفيان الفسوي : 747/2، 748، المخلصيات : 196/2، ح : 1341، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6، تاريخ ابن عساكر : |131/1، و سندهٔ صحيح]
حدیت نمبر ③
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى صاعنا ومدّنا، فرددها ثلاث مرّات، فقال رجل : يا رسول الله ! ولعراقنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بها الزلازل والفتن، ومنها يطلع قرن الشيطان .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[المعجم الكبير للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفة والتاريخ للفسوي : 747/2، مسند البزار : 5881، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6، و سندهٔ صحيح]
حدیث نمبر ④
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صلى النبى صلى الله عليه وسلّم صلاة الفجر، فأقبل على القوم، فقال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! فسك ثم قال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللَّهُمُ ! بارك لنا فى حرمنا، وبارك لنا فى شأمنا ويمينا،فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! قال : من ثم يطلع قرن الشيطان، وتهيج الفتن.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ مبارک کیا اور فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔“
[المعجم الأوسط للطبراني : 4098، فضائل الشأم و دمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20، تاريخ الرقة لأبي على القشيري، ص : 95، ح : 145، تاريخ دمشق لابن عساكر : 132/1، و سندهٔ حسن]
🔹 اس حدیث کے راویوں کے بارے میں :
◈ حافظ ہیثمی (735-807 ھ ) فرماتے ہے :
رجاله ثقات . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ [ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3]
◈ اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) نے ”صدوق عابد“ قرار دیا ہے۔ [ تقريب التهذيب : 2057]
◈ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
صدوق، قانِت . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔“ [ الكاشف : 275/1، الرقم : 1687]
◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے :
ليس به باس . ”اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [ ميزان الاعتدال للذهبي : 87/2، تهذيب التهذيب لابن حجر : 256/3]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات (247/8)“ میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
كانَ شَيْخًاصَالحًا. ”یہ نیک شیخ تھا۔ ‘‘
◈ شیخ ابوملیح حسن بن عمر رقی نے ان کی تعریف کی ہے۔ [ التاريخ الكبير للبخاري : 346/3، و سندهٔ صحيح]
◈ علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکر کیا ہے۔ [إكمال تهذيب الكمال للمغلطائيي : 97/5]
🔹 ایسے راوی کی روایت ”حسن“ درجے سے کم نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر ⑤
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى شأمنا، اللهم ! بارك لنا فى يمينا فقالھا مرارا، فلما كان فى الثالثة او الرابعة، قالوا: يا رسول الله! وفي عراقنا، قال ان بها الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان
”اے اللہ ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اللہ ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔ جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمایئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔ یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [المعجم الكبير للطبراني : 293/12، ح : 13422، مسند البزار : 5880، و سندهٔ حسن]
حدیث نمبر ⑥
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويميناء، مرتين، فقال الرجل : وفي مشرقنا يا رسول الله ! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من هنالك يطلع قرن الشيطان، وبها تسعة أعشار الشر .
’’ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں خیر و برکت فرما۔ یہ دعا آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ ایک نے عرض کی : اللہ کے رسول ! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فى صد شر وہیں پر ہے۔“ [مسند الإمام احمد : 90/2، و سندهٔ حسن]
🔹 اس کے راوی عبید اللہ بن میمون کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
معروف الحديث. ”اس کی حدیث معروف ہے۔“ [التاريخ الكبير : 388/3، ت : 1247]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صالح الحديث . ”اس کی حدیث حسن ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 322/5]
حدیت نمبر ⑦
نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دعا فرمائی :
اللهم ! بارك لنا فى شامنا ويميننا، قال : قالوا : وفي نجدنا، فقال : قال : اللهم ؛ بارك لنا فى شامنا وفي يمين، قال : قالوا : وفي نجدنا، قال : قال : هناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان .
”اے اللہ ! : ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرما ئیے۔ انہوں نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ لوگوں نے پھر کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہا ں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [صحيح البخاري : 141/1، ح : 1037]
🔹 صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔ اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مر فوع ہے۔ اس بارے میں :
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں :
هكذا وقع فى هذه الروايات التى اتصلت لنا بصورة المؤقوف عن ابن عمر، قال : اللهم بارك . . .، لم يذكر النبى صلى الله عليه وسلم، وقال القابسي : سقط ذكر النبى صلى الله عليه وسلم من النسخة، ولا بد منه، لان مثلهٔ لايقال بالرأي
”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں، ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دعا کی ہے، اس میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔“ [فتح الباري : 522/2]
حدیت نمبر ⑧
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا :
يا أهل العراق ! ما أسألكم عن الصغيرة وأركبكم للكبيرة ! سمعت أبى عبد الله بن عمر يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الفتنة تجيء من ههنا، وأؤما بيده نحو المشرق، من حيث يطلع قرنا الشيطان .
”عراق کے باشندو ! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کی کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو ! میں نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔“ [صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 50]
حدیت نمبر ⑨
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فقال : رأس الكفر من ههنا، من حيث يطلع قرن الشيطان، يعني المشرق .
”اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے، وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 48]
حدیت نمبر ⑩
بدری صحابی سیدنا ابومسعود رضى اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
من ههنا جاءت الفتن، نخو المشرق .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔“ [صحيح البخاري : 496/1، ح : 3498]
🔹 تلك عشرة كاملة. یہ پوری دس دلیلیں ہیں۔
صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد“ بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے ”نجد“ ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد“ کی تشریح ”مشرق“ اور ”عراق“ سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو ”نجد“ فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔
اسی بارے میں :
◈ مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں :
ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔ [ لسان العرب : 413/3 ]
◈ احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں :
والنجد : ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .
”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔“ [النهاية فى غريب الحديث والاثر : 19/5]
◈ علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) ’’ نجد“ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو غور کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ غور ہے۔ مکہ بھی اسی غور میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔“ [ إعلام الحديث للخطابي : 4/2 127- ط – المغربية ]
◈ امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( 368 – 463ھ) لکھتے ہیں :
اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم – والله اعلم – الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .
”واللہ اعلم ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔“ [ الاستذكار : 519/8 ]
◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م : 449 ھ) لکھتے ہیں :
قال الخطابي : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق : ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس : إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن : الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر : مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره : كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.
حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا ! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“ [ شرح صحيح البخاري : 44/10 ]
◈ حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں :
أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.
”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔“ [ كشف المشكل على الصحيحين : 493/2 ]
◈ شارح بخاری، علامہ کرمانی ”نجد“ اور ’’ غور“ کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل : إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.
”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔“ [ شرح الكرماني للبخاري : 168/24 ]
◈ شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق کے تحت لکھتے ہیں :
مطابقته للترجمة فى قوله : ”وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان“، وأشار بقوله : ”هناك“ نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي : نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب : بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب : إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.
”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔“ [ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 200/24 ]
◈ نیز لکھتے ہیں :
وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔“ [ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 199/24 ]
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
وقال غيره : كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.
”علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔“ [ فتح الباري : 47/13 ]
🔹 تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا۔
◈ شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ يخرج قرن الشيطان کی شرح میں فرماتے ہیں :
يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل : يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.
”علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔ “ [ تحفة الاحوذي : 381/4 ]
◈ رأس الكفر نحو المشرق کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م : 1014 ھ) لکھتے ہیں :
رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال : منشأة نحو المشرق.
”سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔“ [ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9 ]
◈ نیز لکھتے ہیں :
وقال النووي : المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.
”علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔“ [ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح : 4037/9، ح : 6268 ]
فائدہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا :
هل ترون ما أرى ؟ قالوا : لا، قال : فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .
”جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں اللہ کے رسول !، فرمایا : بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔“ [صحيح البخاري : 1046/2، ح : 7060 صحيح مسلم : 389/1، ح 389/1]
اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے :
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرما تے ہیں :
وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.
”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ ( خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے ) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ “ [ فتح الباري : 13/13 ]
الحاصل : احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ازعثمان احمد May 3, 2017
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری