عقیقہ میں نام کب رکھا جائے؟
کیا نام تبدیل کردینے سے عقیقہ کا اعادہ ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرمی مفتی صاحب
السلام عليكم
مشہور ہے کہ جس نام سےعقیقہ ہوا ہے اسی نام سے نکاح بهی ہو،
دوسرے یہ کہ عقیقہ ہونے کے بعد اگر نام بدلنا چاہیں تو پھر عقیقہ کرنا پڑے گا؟
مدلل واضح فرماکر ممنون ہوں
محمد انور داؤدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق؛
نام سے شخصیت کا تعارف، اس کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ نام شخصیت کی حقیقت نہیں، اسی لئے نام کی تبدیلی سے مسمی تبدیل نہیں ہوتا۔۔۔۔
بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا اور نام رکھنا مستحب ہے۔ نام رکھنے میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ ساتویں دن نام رکھا جائے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنین کے نام ساتویں دن رکھے تھے۔ پھر ساتویں دن میں بھی افضل اور اولی یہ ہے کہ پہلے نام رکھ دیا جائے پھر عقیقہ کیا جائے۔ ہرچند کہ تاخیر بھی جائز ہے!
لیکن بخاری کی روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائش کے پہلے دن بھی بعض بچوں کے نام رکھے ہیں۔ اسی طرح روایات میں وارد عمل عقیقہ کی ترتیب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے کے بعد بھی نام رکھا جاسکتا ہے:
ابن ماجہ وترمذی کی روایت میں تاخیر تسمیہ علی الذبح کی تصریح ہے لیکن شراح اس ذیل میں لکھتے ہیں کہ تقدیم التسمیہ علی الذبح اگرچہ افضل و بہتر ہے! لیکن مسنون دونوں طریقے ہیں:
1522 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغُلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُسَمَّى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ [ص: 86] قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنْ الْغُلَامِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عُقَّ عَنْهُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ وَقَالُوا لَا يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنْ الشَّاةِ إِلَّا مَا يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ
سنن الترمذي
وقد ثبت تسمية المولود يوم يولد. ففي صحيح البخاري عن أبي موسى قال: ولد لي غلام فأتيت به النبي صلى الله عليه وسلم فسماه إبراهيم فحنكه بتمرة الحديث. وفيه عن أبي أسيد أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم بابنه حين ولد فسماه المنذر، وفي صحيح مسلم عن أنس رفعه قال: ولد لي الليلة غلام فسميته باسم أبي إبراهيم الحديث۔۔۔ تحفة الأحوذي
3165 حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ [ص: 1057] عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُسَمَّى
سنن إبن ماجة۔
ذبح وتسمیہ کے حوالہ سے الفاظ حدیث کی ظاہری ترتیب یہ بتادینے کے لئے کافی ہے کہ نام رکھنے یا نہ رکھنے یا نام کی تبدیلی سے عقیقہ کی اصلیت پہ کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔۔
جس طرح بعد عقیقہ نام رکھنے سے عقیقہ پہ کچھ فرق نہیں پڑتا اسی طرح تقدیم تسمیہ کی صورت میں بعد عقیقہ نام بدل دینے سے بھی سابقہ عقیقہ پہ کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔
جس نام سے عقیقہ ہوا ہو اسی نام سے نکاح پڑھایا جانا بھی رسم ورواج کے قبیل سے ہے۔شریعت میں اس قسم کی کوئی تعلیم وہدایت نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف صحابہ وصحابیات کے برے اور غیر مناسب نام وکنیت تبدیل فرمائے ہیں۔
نہ کسی کے عقیقہ کا اعادہ ہوا نہ نکاح کا۔
2139 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرَ كَانَتْ يُقَالُ لَهَا عَاصِيَةُ فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيلَةَ
صحيح مسلم
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس کو بدل کر جمیلہ (خوبصورت) رکھ دیا۔
[ص: 2289] بَاب تَحْوِيلِ الِاسْمِ إِلَى اسْمٍ أَحْسَنَ مِنْهُ
5838 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلٍ قَالَ أُتِيَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَأَبُو أُسَيْدٍ جَالِسٌ فَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَمَرَ أَبُو أُسَيْدٍ بِابْنِهِ فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَفَاقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيْنَ الصَّبِيُّ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ قَلَبْنَاهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا اسْمُهُ قَالَ فُلَانٌ قَالَ وَلَكِنْ أَسْمِهِ الْمُنْذِرَ فَسَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ الْمُنْذِرَ۔
صحيح البخاري. ومسلم برقم 2149.
حضرت سہل بن سعد ص کہتے ہیں جب منذر بن ابی اسید پیدا ہوئے تو ان کو نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے ان کو اپنی گود میں رکھا اور پوچھا کہ اس (بچے) کا کیا نام ہے۔ بتایا کہ اس کا یہ نام ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (یہ نام درست نہیں ) بلکہ اس کا نام (آئندہ سے) منذر (ڈرانے والا) ہوگا (جو آدمی دین میں تفقہ حاصل کرکے بنتا ہے)۔
4954 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ عَمِّهِ أُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ أَصْرَمُ كَانَ فِي النَّفَرِ [ص: 289] الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اسْمُكَ قَالَ أَنَا أَصْرَمُ قَالَ بَلْ أَنْتَ زُرْعَةُ
سنن أبي داؤد
وَقَالَ (ابوداؤد) وَغَیَّرَ النَّبِیُّ ﷺ اِسْمَ الْعَاصِ وَعَزِیْزٍ وَعَتَلَۃَ وَشَیْطَانٍ وَالْحَکَمِ وَغُرَابٍ وَحُبَابٍ وَشِھَابٍ۔
حضرت اسامہ بن اخدری ص سے روایت ہے کہ ایک شخص جس کا نام اصرم (یعنی کٹا ہوا) تھا ان لوگوں میں تھا جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے (اس شخص سے) پوچھا تمہارا کیا نام ہے۔ اس نے جواب دیا کہ (میرا نام) اصرم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (اصرم ٹھیک نہیں ہے) بلکہ (میں تمھارا بہتر نام تجویز کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم زرعہ ہو (یعنی کھیتی ہو)۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی