محترم دوستو :۔
آج آپ کے سامنے حضرت عبداللہ کے لخت جگر۔۔۔ سیدہ آمنہ کے نور نظر۔۔۔ مقصود کائنات۔۔۔ محبوب رب العالمین۔۔۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا ذکر خیر کیا جائیگا ۔کیونکہ میرے اور میرے مشائخ علماء دیوبند کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کا ذکرکرنا نہایت ہی پسند یدہ اور اعلی درجہ کی نیکی ہے۔(المھند صفحہ نمبر ۶۵)
حضرت سیدہ آمنہؓ فرماتی ہیں :۔
’’جب میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میرے بطن میں تشریف لائے لا وجدت لہ ثقلۃ کما تجد النساء مجھے عام عورتوں کی طرح کوئی بوجھ محسو س نہیں ہوتا تھا ‘‘
سید ہ فرماتی ہیں ایک د ن اتانی آت وانا بین النوم والیقظان میں خواب وبیداری کی حالت میں تھی کہ کسی نے آکر مجھے کہا انک حملت بسیدھذا الامۃ ونبیہا
اے آمنہ خاتون تیرے بطن اطہر میں اس امت کا نبی وسردار تشریف فرما ہے ۔
جناب عبدالمطلب نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خواب دیکھا کہ میری پشت سے ایک زنجیر نکلی ظاہر ہوئی۔۔۔جس کی ایک جانب آسمان میں ہے ایک زمین میں ہے ایک جانب مشرق میں ہے اور ایک جانب مغرب میں ہے کچھ دیر کے بعد وہ زنجیر درخت بن گیا ،جس کے ہر پتہ پر سورج کے نور سے ستر گنا زیادہ نور ہے مشرق ومغرب کے لوگ اس درخت کو چمٹے ہوئے ہیں کچھ قریش بھی ہیں۔
جب جناب عبدالمطلب نے تعبیر معلوم کی تو علماء نے کہا آپ کی نسل میں ایسا لڑکا پیدا ہوگا ،جس کی مشرق و مغرب کے لوگ اتباع کریں گے ۔۔۔اور آسمان وزمین والے حمد وثنا کریں گے ۔ (سیرۃ المصطفی جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۲۔البدایہ والنھایہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۸۶)
امی فرماتی ہیں دن گذرتے رہے یہانتک کہ زمانہ ولادت قریب آیا پھر وہی کہنے والا مجھے کہتا ہے، آمنہ یہ جملے ارشاد فرماویں اعیذہ بالواحدالصمد من شرکل حاسد یہ جملے میں نے بھی ساتھ ساتھ پڑھے (طبقات ابن سعدج۱ صفحہ نمبر۶۵ )
مگر حافظ ابن کثیر ؒ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں :۔
فاذا وقع فسمیہ محمدًا فان اسمہ فی التوراۃ احمد یحمدہ اہل السماء وأہل الارض واسمہ فی الانجیل احمد یحمدہ اہل السماء واہل الارض واسمہ فی القرآن محمد
(البدایہ والنہایہ۔ ج نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۱۹ )
اپنے مولود کو (اللہ) واحد وصمد کی پناہ میں دیتی ہوں ہر حاسد کے شر سے (اور یہ بھی کہا گیا ) جب پیدا ہوں تو ان کا نام محمد رکھنا ۔ان کا ذکر خیر توراۃو انجیل میں احمد کے نام سے کیا گیا ہے ،کیونکہ ارض وسماوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں۔ اور ان کا نام قرآن مجید میں محمد کے نام سے کیا گیا ہے ۔
امی آمنہؓ فرماتی ہیں :۔
میں نے یہ اپنی کیفیات بعض عورتوں کے سامنے پیش کیں تو انہوں نے عرب کے رواج کے مطابق مجھے اپنے پاس لوہا رکھنے کا مشورہ دیا۔۔۔ تاکہ حمل شیطان کی شرارتوں سے محفوظ رہے میں نے بھی مشورہ مان لیا۔ مگر ہوا یہ قد قطعپیٹ والے کی برکت سے وہ لوہے کی کڑی ٹوٹ گئی (طبقات ابن۔ سعدجلد۱۔صفحہ۶۵)
معزز سامعین :۔
میں کیوں نہ عرض کروں ۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا تھا بدعتوں کو ختم کرنے والا۔۔۔ رسم ورواج کو توڑنے و الا ۔۔۔غلط عقائد ونظریات کو مٹانے والا۔۔۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بطن اطہر میں تشریف فرماہوں۔۔۔اور رسوم جاہلیہ ادا کی جاسکیں ؟
امی فرماتی ہیں زمانہ حمل میں عجیب وغریب کیفیات کا مشاہد ہ کیا یہاں تک کہ ماہ ربیع الاول میں وہ بابرکت ساعات آئیں جن کے لیے زمانہ مدت سے منتظر تھا ۔
سیدہ آمنہؓ فرماتی ہیں:۔
فما وجدت لہ مشقۃً حتی وضعتہ
وضع حمل میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
(طبقات ابن سعد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۵۔ البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۱۹)
سیدہ آمنہ فرماتی ہیں زمانہ حمل میں میں نے دیکھا تھا ۔۔۔کہ مجھ سے ایک نور نمودار ہو ا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ،پھر میں نے یہی کیفیت بحالت بیداری بوقت ولادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھی ۔
قاضی عیاض نے’’ شفاء‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:
کہ آپ کی دائی ام عبدالرحمن بن عوف فرماتی ہیں ،جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو میں نے غیبی آواز سنی یرحمک اللہاللہ آپ پر رحم کرے وانہ سطع منہ نور رئیت منہ قصور الشام اور حضرت سے ایک نور چمکا جس سے شام کے محلات نظر آنے لگے (البدایہ والنھایہ۔ صفحہ نمبر ۲۲۰جلد نمبر ۲)
ویسے کعب احبار بھی فرماتے ہیں سابقہ کتب میں حضور کی یہ شان بیان کی گئی ہے ۔
محمدرسول اللہ مولدہ بمکۃ و مھاجرہ بیثرب وملکہ با لشام ۔
سامعین گرامی قدر : ۔
آپ کے علمی اضافہ کے لیے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ واقعہ معراج میں بھی مسجد اقصی کا ذکر ہے (سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی ) جو کہ شام میں واقع ہے۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات نے قرب قیامت شام کی طرف ہجرت کی ترغیب دی ہے۔
(رواہ الحاکم ۔وابن حبان بحوالہ سیرۃالمصطفی۔جلدنمبر ۱ صفحہ نمبر ۵۳ )
قابل غور بات:۔
زمانہ حمل میں سیدہ کو شام کے محلات منور ہوتے دکھائے گئے
بوقت ولادت بھی سیدہ اسی بات کا مشاہدہ فرماتی ہیں
شب معراج بھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی طرف لیجایا گیا
پھر شام ہی کی طرف ہجرت کی ترغیب دی جارہی ہے۔
آخر اس میں راز کیا ہے؟ نکتہ کیا ہے ؟
میری ناقص عقل یہ سمجھ سکی:۔
کہ دنیا میں قبلہ دو ہیں
(۱)۔۔۔ مسجد اقصی میں بیت المقدس
(۲) ۔۔۔مسجد الحرام میں بیت اللہ
اول شام میں اورثانی مکہ مکرمہ حجاز میں ۔
ان تمام حالات ومشاہدات میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت ان کی لائی ہوئی کتاب وشریعت ہر اس انسان کیلیے واجب الاتباع اور واجب العمل ہے۔۔۔ جس کا تعلق خواہ بیت المقدس سے ہو۔۔۔خواہ بیت اللہ سے ہو۔
بالفاظ دیگر اس طرح عرض کروں ،کہ ان واقعات میں اشارہ تھا کہ اب صرف اورصرف مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے قوانین ہی نافذ ہونگے اورلِیُظْہِرَ ہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کا نظارہ کھلی آنکھوں کے ساتھ پوری دنیا کرے گی ۔
حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ فرماتے ہیں :۔
ولد رسول اللہ مختونا مسرورا (البدایہ والنھایہ۔ ص۔ ۲۲۱ ج ۲)
جب آپ کے جد امجد حضرت عبد المطلب نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مختون پیدا ہوئے ہیں اور آپ کی ناف مبارک بریدہ ہے تو فرمانے لگے:
لیکونن لا بنی ھذاشان
یعنی میرا بیٹا نہایت عظمت والا ہوگا ۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے:۔
حضورؐ نے فرمایا
من کرامتی علی اللہ انی ولدت مختونا ولم یرأ سواتی احد
اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر جو کرم نوازیاں فرمائیں ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ میں مختون پیداہوا میراستر کسی نے نہیں دیکھا۔
سیدہ آمنہؓ فرماتی ہیں :۔
جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر کسی قسم کی آلائش نہ تھی۔۔۔ بلکہ نہایت صاف ونظیف تھے۔
(زرقانی ج ۱ صفحہ نمبر ۱۲۴۔ بحوالہ سیرۃ المصطفی طبقات ابن سعد ج۱ نمبر ۶۸ )
سیدہ طیبہ طاہر ہ عائشہؓ فرماتی ہیں :۔
ایک یہودی بغرض تجارت مکہ مکرمہ میں قیام پذیر تھا ۔۔۔جس رات حضورصلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے وہ قریشیوں سے کہنے لگا یامعشرالقریش ہل ولد فیکم الیلۃ مولود ؟کیا آج کی شب قریش میں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟ جاؤ تلاش کرو آج کی شب امت کا نبی پیدا ہوا ہے۔ یہ خبر سن کر سب تلاش میں نکلے معلوم ہوا۔۔۔واقعی جناب عبداللہ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔یہودی کہنے لگا مجھے بھی دکھاؤ جب اس نے حضرت اقدس کی زیارت کی اور دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا توبیہوش ہو کر گر پڑا۔۔۔ جب ہوش آئی تو کہنے لگا آج بنی اسرائیل سے نبوت چلی گئی۔اے اہل قریش واللہ یہ مولود ایک ایسا حملہ کرے گا جس کی خبر مشرق و مغرب میں سنائی دے گی ۔علماء فرماتے ہیں اس کا اشارہ فتح مکہ کی طرف تھا ۔(البدایہ والنھایہ جلد نمبر ۲ طبقات ابن سعد ج ا صفحہ نمبر ۱۱۰ )
جناب حسان بن ثابتؓ فرماتے ہیں:۔
میری عمر سات آٹھ سا ل تھی میں نے دیکھا ایک یہودی زور زور سے کہہ رہا ہے
یا معشرالیہود فاجتمعوالیاے یہودیو میری طرف آؤ سب نے آکر پوچھا کیا ہوا خیر تو ہے؟ اس نے کہاقد طلع نجم احمد الذی یولد بہ فی ہذہ اللیلۃآج کی رات احمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو چکے ہیں ۔کیونکہ آسمان پر انکا ستارہ طلوع ہو چکا ہے ۔
اخرجہ الحاکم فی المستدرک (بحوالہ البدایہ والنھایہ ج ۲ صفحہ۲۲۳)
جناب زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں :۔
جب علماء یہود نے سرخ ستارے کو طلوع ہوتے دیکھا تو کہنے لگے واقعی یہ مولود نبی ہے۔۔۔ اس کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔۔۔اس کا نا م احمد ہو گا اور یثرب انکا دارالہجرت ہوگا۔
حضرت زید بن عمر وبن نفیل کہتے ہیں:۔
مجھے علماء شام میں ایک عالم نے کہا تمہارے شہر میں نبی پیدا ہوچکا ہے کیونکہ خرج نجمہاس کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے جاؤ ان کی تصدیق کرو ۔(البدایہ جلد نمبر ۲ ص نمبر ۲۲۴۔)
باذوق دوستو :۔
ان تمام واقعات بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ کتب میں میرے محبوب کی آمد اور انکی علامات کا تذکرہ فرمادیاتھا۔ تب ہی تو علماء یہود ان علامات کے پیش نظر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دے رہے ہیں ۔
سچ ہے ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ
شب ولادت
ولادت کی شب ایوان کسرٰی کے چودہ کنگرے گر گئے۔۔۔ نہر ساوہ خشک ہوگئی۔۔۔ فارس کا ہزار سا ل سے مسلسل روشن رہنے والا آتش کدہ بجھ گیا ۔حافظ ابن کثیر اسی کو بیان فرماتے ہیں
لما کانت اللیلۃ التی ولد فیہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارتجس ایوان کسری، وسقطت منہ أربع عشرۃ شرفۃ، وخمدت نار فارس، ولم تخمد قبل ذالک بألف عام ،وغاضت بحیرۃ ساوۃ(ا لبدایہ والنھایہ ج نمبر۲ص نمبر ۲۲۵ )
ان حالات کو دیکھ کر کسریٰ سخت پریشان ہو ا۔۔۔ علماء وقت کو بلا کر ان علامات وواقعات کے متعلق سوال کرتا ہے ۔۔۔علماء نے کہا ۔۔۔ساسان کی حکومت چودہ حکومتوں کے بعد ختم ہوجائے گی۔۔۔ کسرٰی سن کر کہنے لگا چودہ حکومیتں گزرتے تو بہت وقت لگے گا ۔
مگر خدا کی قدرت دس سلطنتیں تو چار سا ل میں ختم ہوگئیں اور باقی چار سلطنتیں خلافت سیدنا عثمانؓ میں ختم ہوگئیں ۔
جس وقت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے جناب عبد المطلب کعبہ میں تھے۔۔۔آپ فر ما تے ہیں ہم نے دیکھا تمام بت منہ کے بل گر پڑے
حضرت ورقہ بن نوفل وغیرہ فرماتے ہیں اسی رات ہم نے عجیب چیز دیکھی کہ ہمار ا وہ بت جس کے پاس ہم اکثر و بیشتر آتے تھے منہ کے بل گر گیا ہم نے سیدھا کیا پھر گرگیا ۔(قصص الانبیاء صفحہ ۶۹۲ )
جناب عثمان بن العاصؓ کی والدہ فرماتی ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت میں سیدہ آمنہ کے گھر موجود تھی میں نے دیکھا سار ا گھر منور ہوگیا
وانی أنظرالی النجوم تدنو حتی انی لاقول لیقعن علی
اور آسمان کے ستارے اتنے قریب ہوگئے گویا وہ ہم پر گرتے ہیں۔
(البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۲۰ )
مکرم سامعین :۔
عثمان بن العاصؓ کی والدہ فرماتی ہیں ۔۔۔سیدہ آمنہ کا گھرمنور ہوگیا۔۔۔ روایات بتاتی ہیں علاقہ منور ہوگیا ۔۔۔امی آمنہ فرماتی ہیں شام کے محلات منور ہوگئے ۔۔۔مگر میں بصد عجز امی سیدہ آمنہ کے حضور عرض کرتا ہوں ۔۔۔امی تیرے لال کے آنے سے صرف تیرا گھر نہیں۔۔۔بلکہ آسمان وزمین منور ہوگئے ۔۔۔شمس و قمر منور ہوگئے ایسا آفتاب ہدایت طلوع ہوا۔۔۔جس کے نور نبوت سے۔۔۔کا رخانہ کائنات منور ہوگیا۔۔۔کفر وشرک ظلم وعدوان کی ظلمتیں چھٹتی گئیں۔۔۔ اور توحید ورسالت کے نور سے ۔۔۔جہان کا ذرہ ذرہ جگمگا اٹھا۔
سبحان اللہ سبحان اللہ :۔
جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اس وقت جناب عبدا لمطلب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جان کو اطلاع دی گئی۔۔۔ آپ مع احباب در عبداللہ پر تشریف لائے ۔۔۔اہل خانہ نے آپکی ولادت کے وقت پیش آنے والے تمام عجائبات قدرت سنائے ۔
حضرت عبدالمطلب بہت خوش ہوئے فرماتے ہیں مجھے پوتے کی زیارت کراؤ جب عبدالمطلب نے گود میں لیا تو چہرہ پر عجیب کیفیت ہے ۔متوفی بیٹا عبداللہ یاد آتا ہے تو دل غم سے بھر آتا ہے جب حسن مجسم کی زیارت کرتے ہیں تو بے حد مسرور ہوتے ہیں۔
محمد بن سعد لکھتے ہیں بالآخر :۔
فاحذہ عبدالمطلب فادخلہ الکعبۃ وقام عندھا یدعواللہ ویشکرمااعطاہ۔
جنا ب عبدالمطلب اپنے یتیم پوتے کو اٹھا کر کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے ۔اپنے دلی تأثرات اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔
الحمد للہ ا لذی اعطانی
ھذ ا ا لغلام ا لطیب الاردان
قد ساوفی المھدعلی الغلمان
اعیذہ با للہ ذی الار کا ن
(طبقات ابن مسعود صفحہ ۶۸ /۶۹ جلد نمبر ۲)
مجھے اجازت دیں میں اپنے اکابر کا ذوق تحریر اور شوق محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک بیان کروں ۔
بقول مولانا کاندھلوی ؒ :۔
سحائب الھام کے تقاطر اور رویائے صالحہ کے تواتر نے ماں اور دادا ۔۔۔احباب واقارب ۔۔۔یگانہ و بیگانہ کو ایک اسم مبارک پر مجتمع کردیا۔ اور وہ اسم گرامی ہے ۔۔۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی وامی وابی وولدی
ساتویں روز آپ کے جد امجد نے بہت بڑی دعوت کا اہتمام فرمایا اوراپنے نور نظر دریتیم پوتے کے اسم گرامی کا باقاعدہ اعلان فرمایا۔
دوستو :۔
جھگڑے ختم ہوگئے ۔۔۔اختلافات مٹ گئے ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کا نام ہی ایسا منتخب فرمایا۔ جو چومے بغیر منہ سے نکل نہیں سکتا۔۔۔ ایک مرتبہ بھی نہیں بلکہ دو مرتبہ چومنا پڑتا ہے ۔۔۔اپنا ہو یا بیگانہ۔۔۔ دوست ہو یادشمن ۔۔۔مسلم ہویا کافر ۔۔۔ ہاتھوں والاہویا معذور ۔۔۔پہلے چومے گا پھر اسم گرا می زبان سے ادا ہوگا ۔اگر انگوٹھوں کو چومنا ضروری ہوتا ۔۔۔تو پھر ہاتھ کٹا اس ثواب سے محروم ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں علماء کرام پر کیا عجیب وغریب نکات بیان فرماگئے ۔
نکتہ نمبر۔۔۔( ۱)
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام مبارک محمد۔۔۔بمعنی جن کے کمالات ومحاسن کو کثرت سے بار بار بیان کیا جائے۔۔۔ یعنی جس کی سب تعریف کریں ۔
یہی وجہ ہے جہاں خدا کا ذکر ہے وہاں محمد مصطفی ؐ کابھی ذکر خیر موجود ہے ۔
عالم ارواح میں:۔
اللہ کی ربوبیت کا ذکر۔۔۔بعدا زا ں مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ذکر
عالم دنیا میں:۔
قرآن میں خدا کا ذکر ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
توراۃو انجیل میں خداکا ذکر۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
مکہ میں خداکا ذکر ۔۔۔ ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
اذان میں خداکا ذکر ۔۔۔ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصطفی کا ذکر
اقامت میں خداکا ذکر ۔۔۔ ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
نماز میں خداکا ذکر۔۔۔ ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
عالم برزخ میں:۔
من ربک خدا کا ذکر ۔۔۔ساتھ من نبیک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
عالم قیامت میں: ۔
خدا کی قہاری کا ڈنکا ۔۔۔ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا چرچا
جنت کے دروازوں پر خدا کا نام ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م
جنت کے قندیلوں پر خدا کا نام ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م
جنت کے جھنڈوں پر خدا کا نام ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م
حوران جنت کے ترانوں میں خدا کا نام ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م
عرش کے پائے پر خدا کا نام ۔۔۔ساتھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م
(ملاحظہ ہو منہاج التبلیغ ۔بحث کلمہ طیبہ )
صلٰو ۃاللہ کلام اللہ جہا ں دیکھا تو یہ دیکھا
اگر دیکھا لکھا اللہ محمد بھی لکھا دیکھا
دوسرااسم گرامی احمد صلی اللہ علیہ وسلم:۔
جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرے ۔یقیناً ہم سب لوگ مل کر قیامت تک جتنی بھی اپنے رب کی تعریف کریں یہ ساری تعریف محبوب کے اس ایک سجدہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی جوروز محشر بارگاہ ایزدی میں سربسجود ہو کر اپنے رب تعالیٰ کی حمد وثنا ء فرمائیں گے
عجیب نکتہ نمبر۔۔۔( ۲ )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء طیبہ میں دو نام زیادہ مشہور ہیں۔
(۱)۔۔۔محمد ۔۔۔صلی اللہ علیہ وسلم(۲)۔۔۔ احمد ۔۔۔صلی اللہ علیہ وسلم
کلام مبارک میں بھی انکا ذکر خیر ہے۔
(۱ )۔۔۔مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ
(۲) ۔۔۔وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنمْ بَعْدِ ی اسْمُہٗ ٓاَحْمَدُ
اگر غور کیا جائے تو دونوں کا مادہ حمد ہے ۔
انبیاء سابقین نے آپ کی بشارت لفظ احمد اور ان کی امت کی بشارت لفظ حمادین سے دی۔اسی طرح اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الحمد عطا فرمائی
روز قیامت آپکو مقام محمود دیا جائیگا
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جھنڈا عطا کیا جائے گا اس کانا م لواء الحمد ہوگا
نیز اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خورد ونوش اورسفر سے واپسی پربلکہ ہر دعا کے اختتام پر الحمد پڑھنے کا حکم دیا ہے
روز محشر تمام انبیاء آپ کی حمد وثناء بیان فرمائیں گے ۔
مقام تو محمود نامت محمد
بدنیاں مقامے دنامے کہ دارد
خلاصتہ الکلام :۔
ارشاد خداوندی اور فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیک کام کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء مستحسن وپسندیدہ ہے۔
اس بات پر مزید قرآنی آیات سن کر ایمان کو جلا بخشیں۔
(۱) ۔۔۔ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(۲)۔۔۔وَاٰخِرُدَعْوٰہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(۳)۔۔۔کُلُوْامِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْالَہٗ
(۴) ۔۔۔نماز کے اختتام پر حضرت پڑھا کرتے تھے ۔سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(۵)۔۔۔جب سفر ختم ہوتا تو آپ پڑھتے اٰئبون ۔تائبون ۔عابدون ۔لربنا حامدون
نہایت ہی واجب الاحترام بزرگو :۔
میرے ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ حمد شئی کے اختتام پر ہوتی ہے ۔
اتنی قدر سمجھ لینے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ رسو ل اکرم ۔۔۔حسن مجسم ۔۔۔سید ولد آدم۔۔۔ حضرت مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء گرامی محمد واحمد میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ
اب دنیامیں انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کی مستقل تشریف آوری کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔۔۔کیونکہ اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں آچکے ہیں۔
یعنی اسم گرامی۔۔۔ محمدؐ۔۔۔ احمدؐ ۔۔۔ بھی آپکی ختم نبوت کی دلیل ہے
مزید تفصیل کے لیے روض الانف ۔جلد نمبر ۱ اور فتح الباری باب اسماء النبی ملاحظہ فرمائیں ۔
اشکال :۔
ہوسکتاہے میرے ان معروضات کے بعد کسی صاحب کے دل میں اشکال پیدا ہو کہ آپ نے ثابت کیا ہے کہ حمد آخر میں ہوتی ہے حالانکہ سورۃ الحمد شریف قرآن مجید کی ابتدا میں ہے۔ نیز حمید اللہ تعالی کی صفت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی انتہا نہیں ۔
جواب :۔
ان کی خدمت میں گزارش کروں گا تھوڑا ذہن کو حاضر فرمائیں چونکہ قرآن مجید آسمان سے اترنے والی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہونی اس لیے فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔
رہا اللہ رب العزت کا حمید ہونا تو اسے ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ ( جوکہ اللہ تعالیٰ کی صفا ت ہیں ) کے معنی میں سمجھنا چا ہیئے ۔
رضاعت
آپ کو اولًا سیدہ آمنہ صاحبہ نے دودھ پلایا۔۔۔پھرابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ نے دودھ پلایا۔۔۔اور بعد ازاں سیدہ حلیمہ نے دودھ پلایا۔
وأر ضعتہ مع أ مہ علیہ السلام مولاۃ عمہ أبی لہب ثویبۃقبل حلیمۃ السعدیہ (البد ایہ والنہایہ ج۔۲صفحہ۲۲۹)
فائدہ :۔
جب ابو لہب کو ثوبیہ کنیز نے جاکر حضرت محمد بن عبداللہ کی ولادت کی خبر سنائی تو خوشی میں ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا (البدایہ والنھایہ۔ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۳۰)
دوستو:۔
ایک ہے ولادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری ہے رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔۔۔ اس وقت اپنے بیگانے سب خوش ہوئے
مشرک وموحد کی کوئی تمیز نہیں ۔۔۔کوئی فرق نہیں ۔سب کے سب میلاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشیاں منارہے ہیں ۔یہاں تک کہ نامی گرامی مشرک ابو لہب اس خوشی میں لونڈی آزاد کررہا ہے۔ البتہ جب حضرت نے اظہار رسالت کیا ۔۔۔پھر فرق ظاہر ہوا ۔
جنہوں نے انکار کیا ابو لہب ابو جہل عتبہ عتیبہ بن گئے۔
جنہوں نے اقرار کیا ابوبکرؓ ۔۔۔ عمرؓ ۔۔۔ عثمانؓ ۔۔۔علی ؓ بن گئے ۔
خدا اورمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دربار میں اپنے بیگانے ۔۔۔عربی عجمی۔۔۔ قریشی غیر قریشی کا کوئی فرق نہیں ۔یہاں تو نور ایمان دیکھا جاتا ہے۔
معلوم ہوا محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار جشن نہیں۔۔۔ مشن ہے۔
عرب کا دستور :۔
شرفا ء اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے دیہات میں بھیج دیتے تھے تاکہ
(۱)۔۔۔بچے کھلی فضاء میں پرورش پائیں۔
(۲)۔۔۔ہر قوم کی اصل تہذیب وتمدن اصل لغت وزبان دیہات میں ہوتی ہے تاکہ بچے اصل عربی خصوصیات سے متصف ہو کر آئیں۔
بقول ابن سعد کے اس سال (قدم مکۃ عشر نسوۃ من بنی سعد بن بکر ) (طبقات ابن سعدجلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۷۳)
قبیلہ بنی سعد کی دس عورتیں شیر خوار بچوں کی تلا ش میں مکہ مکرمہ میں آئیں۔۔۔ ہر ایک نے بستی کا چکر لگایا جو دائی بھی آمنہ کے لخت جگر کو دیکھتی دل دے بیٹھتی لے جانے کی درخواست کرتی ۔مگر جب انہیں معلوم ہوتاآپ یتیم ہیں سوچتیں یہاں سے دنیوی مال ومتاع ملنا مشکل ہے یتیم سن کر چلی جاتیں ۔
دیگر دائیاں شرفا کے بچے اٹھا کر جانے کی تیاری میں ہیں ۔ادھر کمزور سواری والی سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا ان سے پوچھتی ہیں کوئی بچہ باقی بھی ہے یا سب اٹھ چکے ہیں دائیاں جواب دیتی ہیں حلیمہ صرف عبداللہ کا یتیم بیٹا عبدالمطلب کا یتیم پوتا باقی ہے اٹھانا ہے تو دیکھ لے۔
سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں :۔
میں سیدہ آمنہ کے دروازے پر پہنچی دستک دی اند ر سے جواب ملا کون ؟
عرض کرتی ہیں میرا نام حلیمہ ہے۔۔۔قبیلہ بنی سعد سے تعلق ہے ۔۔۔دائی ہوں۔۔۔ آپ کے نور نظر کے لیے حاضری ہوئی ہے ۔دروازہ کھلا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید چادر میں آرام فرماتھے حضرت حلیمہ نے زیارت کی ۔
سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں:۔
پہلی نظر نے دل موہ لیا ۔
عرض کرتی ہیں ایک منٹ ذرا اپنے خاوند حارث سے مشورہ کرلوں ۔حارث نے سوالیہ نگاہوں سے پوچھا بتاؤ بچہ کیسا ہے ؟
امی حلیمہ عرض کرتی ہیں: ۔
او میرے خاوند زندگی گزر گئی بچے اٹھاتے خدمت کرتے مگر
آفاق ہا گر دیدہ ام
مہر بتاں و رزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام
لیکن تو چیزے دیگری
ایسا حسن وجمال کا پیکر میں نے نہیں دیکھا ۔حارث کہتے ہیں جاؤ لیکر آؤ اگر ہم بھی یتیم سمجھ کر چھوڑ جائیں نا معلوم بیوہ کے دل پر کیا گذرے گی ۔باقی رہا رزق وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔اللہ تعالیٰ خود مہربانی فرمائیں گے۔ اس مضمون کو حافظ ابن کثیر اور صاحب طبقات اس انداز میں بیان فرماتے ہیں
سیدہ حلیمہ نے خاوند سے کہا
واللہ انی لاکرہ ان ارجع من بین صواحبی لیس معی رضیع لانطلقن الی ذلک الیتیم فلاخذنہ فقا ل لا علیک ان تفعلی فعسی اللہ ان یجعل اللہ لنا فیہ برکۃ فذہبت فاخذتہ فواللہ مااخذتہ اللا انی لم اجد غیرہ
(طبقات ابن سعد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۳۱ البدایہ والنھایہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۷۴ )
برادران مکرم :۔
لوگ کہتے ہیں ان عورتوں نے اٹھایا نہیں میں عرض کرتا ہو ں رب نے اٹھانے دیانہیں ۔یہ در یکتا ٰ۔۔۔گوھر بے بہا ۔۔۔ہر ایک کی قسمت میں کہاں۔
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے
بالآخر حضرت حلیمہ نے سیدہ آمنہ سے ر وانگی کی درخواست کی اس وقت بڑا رقت آمیز منظر تھا۔۔۔ امی آمنہ کبھی اپنے نور نظر کے رخسار چومتی ہے ۔۔۔کبھی پیشانی کے بوسے ۔۔۔کبھی اپنے لخت جگر کو سینہ سے لگاتی ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا
جد ا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے جو کسی دشمن کو نصیب نہ ہو
سبحان اللہ سبحان اللہ :۔
سیدہ آمنہ دے رہی ہیں۔۔۔ سیدہ حلیمہ لے رہی ہیں۔ میرا محبوب امن سے ۔۔۔حلم وحوصلہ کی طر ف منتقل ہورہا ہے۔
باالفاظ دیگر :۔دنیا جانتی ہے ماں کے دودھ کا۔۔۔ ماں کی گود کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
دوستو:۔اندازہ تو فرمائیں پہلا دودھ امن والا۔۔۔آخری دودھ حلم والا۔۔۔پہلی گود امن والی ۔۔۔دوسری گود حلم والی۔
چشم فلک نے فتح مکہ کے موقع پر ان مبارک گودوں کا او ر باعزت دودھ کا اثر دیکھاکہ طاقت وقوت کے باوجود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن وسکون۔۔۔ حلم وحوصلہ کا اظہار فرماکر سیدنا یوسف علیہ السلام کے جواب لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کی یاد تازہ فرمادی
سیدہ حلیمہؓ فرماتی ہیں:۔
جب میرا محبوب میری گود میں تشریف فرماہوا ۔تو میرے خشک سینہ میں دودھ اتر آیا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیا اور میرے دوسرے بیٹے نے بھی پیا۔ نیز آپ ہمیشہ دائیں جانب استعمال فرماتے تھے۔
امی حلیمہؓ فرماتی ہیں ہماری وہ اونٹنی جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی ۔۔۔دودھ کا نام ونشان نہ تھا۔۔۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ہم نے دیکھا اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں ۔میں نے اور میرے شوہر نے خوب سیر ہوکر پیا ۔اس رحمت خداوندی کو دیکھ کر میرا شوہر کہنے لگا
واللہ یاحلیمہ لقدا خذت نسمۃ مبارکۃ
اے حلیمہ خوب سمجھ لے بخدا تو نے نہایت مبارک بچہ اٹھا یا ہے۔
حضرت حلیمہؓ نے جواباً فرمایا
واللہ انی لارجوذالک
میں اسی رحمت کی امید رکھتی ہوں۔
(البدایہ والنھایہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۳۱ ،طبقات ابن سعد جلد نمبر ۱ ،صفحہ ۷۴ سیرۃ ابن ہشام )
سیدہ آمنہ اپنے نور نظر کو جاتے دیکھ کر فرماتی ہیں:۔
اعیذہ باللہ ذی الجلال
من شرما مرعلی الجبال
(طبقات ابن سعد ج ۱،صفحہ نمبر ۷۴)
قافلہ کی روانگی :۔
حضرت حلیمہ کی سواری جسے چابک مار مار کر چلایا جاتا تھا آج برق رفتار بن گئی روکے رکتی نہیں ساتھ آنے والی عورتیں پوچھتی ہیں ۔
ھذ ہ اتتک التی خرجت علیھا معنا
کیا یہ وہی سواری ہے جس پر سوار ہوکر ہمارے ساتھ آئی تھی ؟
سیدہ حلیمہؓ جواباً فرماتی ہیں
نعم واللہ انھا لھی
خدا کی قسم وہی سواری ہے (البدایہ والنھایہ،جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۳۱)
عورتیں پوچھتی ہیں ماصنعت ؟یہ تو کمزور تھی اب تیز رفتار ہے تو نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے ؟
آپؓ فرماتی ہیں
اخذت واللہ خیر مولودیہ سب میرے بچے کی برکت ہے ۔
اب لگیں ایک دوسرے کو دیکھنے ۔اور حسر ت بھرے انداز میں پوچھتی ہیں اہو ابن عبدالمطلب ؟کیا وہی عبدالمطلب کا پوتا ہے ؟امی اپنے مقدر پر نازاں ہوکر فرماتی ہیں نعم۔۔۔جی ہاں۔(طبقات ابن سعد صفحہ نمبر ۷۴ جلد نمبر ۱ )
جب سیدہ حلیمہ اپنی جھولی میں در یتیم لیکر قبیلہ بنی سعد میں پہنچی ۔وہاں کی زمین پر خشک سالی کا راج تھا۔۔۔ چراگاہیں ختم ہوچکی تھیں۔۔۔جانور بھوک کے مارے بدحال تھے مگر حضرت کے جانے کے بعد اہل علاقہ نے یہ کرامت دیکھی کہ حضرت حلیمہ کی بکریاں سیر ہوکر واپس لوٹتیں ہیں ۔۔۔دودھ ہی دودھ ہے۔
سبحان اللہ :۔
کل جو حلیمہ لوگوں سے دودھ طلب کیا کرتی تھی ۔آج لوگوں کو دودھ مل رہا ہے
خدا کی یہ سب رحمتیں ہیں رحمۃا للعالمین کے طفیل نصیب ہوئیں۔
مکرم سامعین :۔
میرے ان معروضات سننے کے بعد کیا آپ نے غور فرمایا ہے ۔
سیدہ حلیمہؓ اور ان کے گھر میں یک لخت یہ تبدیلیاں کیوں رونما ہونے لگیں (حضرت حلیمہ کے سینہ میں دودھ اترنا ۔۔۔اونٹنی کا دودھ سے لبریز ہونا ۔۔۔بنی سعد کی زمین کا حضرت حلیمہؓ کے ریوڑ کے لیے سر سبز وشاداب ہوجانا۔۔۔خشک بکریوں کے تھنوں میں دودھ جاری ہوجانا )
دوستو:۔
اس کے سوا کوئی جواب نہیں کہ اب نسبت بدل گئی ہے ۔
پہلے سیدہ حلیمہ عبداللہ انیسہ اور شیما کی ماں تھی
اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والد ہ بن گئی
پہلے اونٹنی سیدہ حلیمہ کی سواری تھی
اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بن گئی
پہلے ارض بنی سعد پر بنی سعد رہتے تھے
اب قیام گاہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بن گئی
پہلے جنگل میں عبداللہ وانیسہ جاتے تھے
اب جنگل میں حضرت محمدکریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے
پہلے بکریاں سیدہ حلیمہ کے گھر کی تھیں
اب بکریاں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں
نسبت بھی عجیب چیز ہے :۔
غار حرا محض ایک غار تھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی تو۔۔۔ مہبط وحی بن گئی۔ غار ثور محض ایک غار تھی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی تو ۔۔۔تذکرہ عرش پر ہونے لگا ( ثانی اثنین اذ ہمافی الغار)ام معبد کی بکری جو مدت سے خشک تھی۔۔۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تھنوں میں دودھ اتر آیا(البدایہ والنہایہ ۔ج ۲ صفحہ ۵۷۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل یثرب تھا ۔۔۔حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی مدینہ طیبہ بن گیا(طبقات ابن سعد جلد ۱صفحہ ۱۵۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل یثرب میں وباء ہی وباء ہوتی تھی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی اس کی مٹی شفاء کے لئے اکسیر بن گئی
قال النبیصلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ ان فی غبارہا شفاء من کل داء۔ وفاء الوفاء ج۱ ص ۶۷)
پہلے ابوبکرؓ ابن ابی قحافہ مکہ کے تاجر تھے ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی صحابیت کا ذکر قرآن مجید نے کیا ( اذ یقول لصاحبہ ) پہلے عمر بن خطابؓ مکہ مکرمہ میں محض ایک نامور دلیر تھے ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں محل کا مشاہدہ فرمایا(روا ہ مسلم مشکٰوۃ صفحہ ۵۶۱ )
پہلے عثمان بن عفانؓ مکہ کے ایک مالدار شخص تھے ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی تو ملائکۃ اللہ حیاء کر نے لگے۔ پہلے علی بن ابی طالبؓ محض ابن ابی طالب تھے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی اسد اللہ الغالب بن گیا ۔پہلے ابو ہریرہ ؓ ایک نامعلوم شخص تھے ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی تو محد ث اعظم بن گئے ( خود ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں
انی لا اعرف احد ا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یکون احفظ لحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبقات ابن سعد ج ۳ صفحہ ۳۴ )
پہلے بلالؓ مکہ مکرمہ میں بحیثیت ایک غلام کے تھے ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوئی تو قدمو ں کی آہٹ جنت میں سنائی گئی ( مشکٰوۃ صفحہ ۵۷۷ )
یہی وہ نسبت ہے جس کے سبب بوریانشینوں ،اونٹوں کے چرواہوں ،کئی کئی دن کے فاقہ کشوں کے خوف سے دنیا کفر لرزہ براندام ہوئی ۔
بات کیا تھی کہ نہ روما اور ایراں سے دبے
چند با تربیت اونٹوں کو چرا نے والے
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا
بن گئے دنیا کو اکسیر بنانے والے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سال تک سیدہ حلیمہ کے ہاں قیام فرمایا اور یہی مدت رضاعت تھی ۔(البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۳۲ طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۷۴)
اس دوران حضرت حلیمہ سعدیہؓ ہر چھ ماہ بعد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ اور جد امجد جناب عبدالمطلب کے ہاں لے جایا کرتی تھیں ۔
( تاریخ اسلا م ،جلد ۱ صفحہ ۷۳ )
سیدہ حلیمہؓ فرماتی ہیں :۔
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش بڑی تیزی سے ہوئی یہاں تک کہ آٹھ ماہ کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاف بولنے لگے ۔۔۔ دس ماہ کی عمرمیں بڑے بچوں کے ساتھ تیر اندازی فرماتے ۔
سیدہ فرماتی ہیں ایام طفولیت میں روزانہ ایک نور آپ پر اترتا تھا جس کی روشنی کا مقابلہ سورج نہیں کرسکتا ۔آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبوسے ہمارا قبیلہ ہر وقت معطر رہتا ۔
جناب ابن عباسؓ فرماتے ہیں :۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دودھ چھڑایاگیا تو سب سے پہلی کلام آپ کی زبان مبارک سے اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا نکلی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے کوئی چیز بغیر بسم اللہ پڑھے نہ اٹھاتے تھے ۔ نیز اگرکسی کو پھوڑا پھنسی ہوتا یاکوئی انسان وحیوان بیمار ہوجاتا تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک لگانے سے فورًا بفضل خدا شفاء یاب ہوجاتا۔
(قصص الانبیاء صفحہ ۶۹۷ البدایہ والنہایہ صفحہ ۲۳۲ جلد۲ )
مکہ روانگی
سیدہ حلیمہ دو برس گزرنے کے بعد حسب وعدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوواپس امی کے پاس پہنچانے آ ئیں ۔مگر فضائل وبرکات کو دیکھ کر دل دل میں یہ خیا ل آتاہے ۔۔۔کہ یہ نعمت عظمٰی کچھ دن اور میرے پاس رہے۔ مشہور مثل کے مطابق نیت صاف منزل آسان
ان دنوں مکہ مکرمہ میں وباء پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔ سیدہ حلیمہ نے ساتھ لے جانے کا اصرار کیا وبا ء ظاہری سبب بن گئی سیدہ آمنہ نے غیر معمولی اصرار کو دیکھ کر اجازت مرحمت فرمائی ۔( قصص الانبیاء ص ۶۹۸۔ البدایہ والنہایہ ج ۲ ص ۲۳۲۔طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۷۴)
حاضرین مکرم :۔
سیدہ حلیمہ اس نعمت غیر مترقبہ کو لیکر واپس گھر لوٹیں ۔ چند ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رضائی بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل تشریف لے گئے ۔
امی حلیمہؓ فرماتی ہیں :۔
ایک دن میرا سگا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور آکر کہنے لگا۔امی دو سفید لباس میں ملبوس شخص آئے اوروہ میرے قریشی بھائی کو اٹھا کر لے گئے ۔ پھر انہوں نے ان کے سینہ کو چاک کردیا ۔
سیدہ حلیمہؓ فرماتی ہیں یہ خبر سنتے ہی میرے قدموں سے زمین نکل گئی ۔میں اور میرا خاوند ہم دونوں دوڑے ہوئے آئے تو کیا دیکھتے ہیں ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن کھڑے ہیں البتہ چہرہ انور پر کچھ خوف کے آثار تھے ہم نے جلدی سے گلے لگایا ۔۔۔ خیریت معلوم کی ۔۔۔ واقعہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو سفید لباس والوں نے مجھے لٹایا اور میرا سینہ چاک کردیا پھر کوئی چیز تلاش کرتے رہے ( قصص الانبیاء صفحہ ۶۹۸ )
اسی واقعہ کو البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۳۲اور طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۷۵ پر قریب قریب انداز میں نقل کیا گیا ہے ۔
فقال ذاک اخی القرشی جاء ہ رجلان علیہما ثیاب بیض فاضجعاہ فشقا بطنہ فخرجت انا وابوہ نشتد نحوہ نحوہ فنجدہ قائما منتقعا لونہ فاعتنقہ ابوہ وقال یابنی ماشأنک قال جاء نی رجلان علیہما ثیاب بیض اضجعانی وشقا بطنی ثم استخرجا منہ شیئا فطرحا ہ ثم رادہ کماکان فرجعنا بہ معنا
حضرت حلیمہ کے خاوند اس غیر معمولی واقعہ کو دیکھ کر گھبرا گئے اور فیصلہ کیا کہ ہوسکتا ہے اس سے بڑا کوئی اور واقعہ پیش آئے ۔۔۔ ان کی والدہ آمنہ صاحبہ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑجائے لہذا اس امانت کو سیدہ آمنہ کے ہاں پہنچا دیا جائے ۔
فائدہ:۔
شق صدر کا واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص خصوصیت ہے۔ زندگی مبارک میں چار دفعہ یہ واقعہ پیش آیا ۔
(۱) ۔۔۔ جب آپ سیدہ حلیمہ کے ہاں تھے ۔
(۲)۔۔۔ جب عمر شریف دس سال ہو گئی ۔
(۳) ۔۔۔ بوقت بعثت ۔
(۴)۔۔۔ بوقت معراج ۔
اور اسے اپنے اصلی مفہوم میں ہی مانا جائے ۔بعض لوگوں نے جو شق صدر سے انشراح صدر کا مفہوم بیان کیا ہے وہ ان کی کم علمی اور غلط فہمی ہے ۔اسی بات کو علماء تاریخ و سیر کے علاوہ علماء دیوبند میں سے حضرت العلامہ مولانا کاندھلوی ؒ نے سیرت المصطفی ج ۱ صفحہ ۷۹ اور علماء بریلوی میں سے سید نعیم الدین مراد آبادی کنزالایمان فی ترجمۃ القران مؤلفہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کے حاشیہ صفحہ ۱۰۹۷ پر تحریر کرتے ہیں
ابتدائے عمر شریف میں ۔اور ابتدائے نزول وحی کے وقت ۔اور شب معراج جیسا کہ ا حادیث میں آیا ہے اس کی شکل یہ تھی کہ جبرائیل امین نے سینہ پاک چاک کرکے قلب مبارک نکالا اور زریں طشت میں آب زم زم سے غسل دیا اور انوار و حکمت سے بھر کر اس کو اسکی جگہ رکھ دیا ۔
جبکہ علماء اہل تشیع میں سے ملا باقر مجلسی نے حیات القلوب ج ۲ صفحہ ۷۸ پر بایں الفاظ ذکر کیا ہے ۔
دو مرد مر ا خوابانید ند ویکے شکم مرا شگافت بے آنکہ الم بمن رسید ودل مرا بشگافت و ازآن نقطۂ سیاہی بیروں آورد وانداخت
علماء اہل حدیث میں سے محمد جونا گڑھی کے ترجمے کے ساتھ جو قرآن کریم سعودیہ کی طرف سے شائع ہو ا ہے اس کے صفحہ ۱۷۲۸ کے تفسیری نوٹ میں لکھا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کرکے دل نکالا گیا اسے آب زم زم سے دھو کر ا پنی جگہ رکھ دیا گیا ۔
ان سب علماء کے اقوال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو میں یہ بات سمجھا سکوں کہ شق صدر اپنے اصلی اور حقیقی معنی میں ہے نہ کہ بمعنی انشراح صدر
اس کی مزید تائید مسلم شریف ج۱ صفحہ ۹۲ باب الاسراء میں حضرت انسؓ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے
قد کنت اری اثر المخیط فی صدرہ
میں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں سلائی کے نشان دیکھے ۔
شق صد ر میں کیا دھویا گیا ؟
چونکہ باجماع اہل السنۃ فخر موجودات حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم باعتبارذات ونسب کے ابوالانسانیت حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں بایں سبب موجود خواہشات نفسانیہ کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر سے دھو ڈالا گیا اور اس کی جگہ نور کو بھر دیا گیا ۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے:۔
فاخذہ فصرعہ فشق عن قلبہ فاستخرج القلب فاستخرج منہ علقۃ
ساتھ ہی دوسری روایت میں حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ فنزل جبرئیل فخرج صدری ثم غسلہ بماء زمزم ثم جاء بطست من ذھب ممتلئ حکمۃ وایمانا فافرغہا فی صدری ثم اطبقہ
( مسلم شریف ج ۱ صفحہ ۹۲ کتاب الایمان باب الاسراء )
شق صدر کے سبب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت :۔
علماء کرام ادا م اللہ فیوضہم نے اس مقام پر نہایت عمدہ اور نفیس مباحث فرمائیں ہیں جنہیں دیکھ کر عقلی انسانی سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس امت کے علماء کا یہ علم ہے خدا جانے اس امت کے آقا کا کیا علم ہوگا مگر عوامی خطاب ان نکات کے بیان کا محل نہیں ۔سادہ عنوان کے ساتھ گذارش کرتا ہوں ۔
قرب موسٰی اورہے قرب محمدؐاورہے
طور سینا اور ہے عرش معلٰی اورہے
اگر شق صدر کی فضیلت کو سمجھنا ہو تو یوں سمجھیں جس ذات بابرکات کا شق صدر نہیں ہوا کوہ طور پر کھڑے ہوکر عرض کرتی ہے رب ارنی ۔۔۔مالک دیدار کرا مگر جواب ملتا ہے۔۔۔ لن ترانی
اور جس کو شق صدر کی نعمت میسر آئی وہ سدرۃ المنتہٰی سے اوپر پہنچتا ہے پھر بھی آواز آتی ہے
ادن یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ادن یا احمد صلی اللہ علیہ وسلم ادن یا خیر البریہ (مواہب اللدنیہ ج۲ ص ۲۹ ،بحوالہ منہاج التبلیغ ج ۱ )
براق تھکے جبرائیل رکے اک قدم بھی آگے جا نہ سکے
رب ادن حبیبی منی کہے تیرے قرب خدا کا کیا کہنا
خیر بات ہورہی تھی سیدہ آمنہ کے گھر میں حضرت مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی دوران ایک مرتبہ سیدہ حلیمہ نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں آرام فرما ہیں دریافت کرتی ہیں بیٹے اس گر می میں سوئے ہو آپ کی بیٹی کہنے لگی
یا امہ وجد اخی حرا رأیت غمامۃ تظل علیہ اذا وقفہ وقفت واذاسارتامی جان میرا بھائی (محمد بن عبدا للہ ) گرمی محسوس نہیں کرتا آپ کے ساتھ ساتھ اوپر بادل سایہ کر کے چلتا ہے ( البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۳۲ طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۷۵ )
برادران اسلام :۔
میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سا ل تک بنی سعد کو اپنی خدمت کی سعادت سے نوازا ۔با لآخر حضرت حلیمہ سعدیہ اور جناب حارث نے یہ عظیم امانت آمنہ کے گھر پہنچائی ۔ساتھ ساتھ اپنے ہاں زمانہ قیام کے دوران پیش آنے والے تمام واقعات وبرکات بھی سنائے ۔
مگر والدہ محترمہ سن کر متعجب نہ ہوئیں :۔
بلکہ فرمایا میر ا فرزند نہایت ہی شان و مرتبہ والا ہے ۔۔۔میں نے اس سے بڑے حالات و برکات زمانہ حمل میں اور بوقت ولادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ دیکھے ہیں
(البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۳۲ )
اب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مکہ مکرمہ میں والدہ محترمہ کی آغوش رحمت میں رہنے لگی ۔جب عمر شریف چھ بر س کی ہوئی تو حضرت آمنہ اپنے عزیزو اقارب کو ملنے کے لیے عازم مدینہ ہوئیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ ہیں ۔۔۔جناب عبدالمطلب نے ام ایمن کو بغرض خدمت ساتھ روانہ کیا ۔
مدینہ میں ایک ماہ قیام کرنے کے بعد واپسی ہوئی ۔۔۔ راستہ میں طبیعت خراب ہوگئی ۔۔۔سخت بخار کی حالت میں مقام ابواء(جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے ) تشریف فرما ہوئیں ۔یہاں تک کہ آخری وقت آیا
سر میں درد کی تکلیف حد سے زیادہ محسوس فرمانے لگیں ام ایمن سے فرمایا جاؤ میرے لخت جگر کو لے آؤ ۔
ام ایمن فرماتی ہیں :۔
آج بھی وہ منظر میرے سامنے ہے جب میں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکر آئی ۔
سیدہ آمنہ نے گلے سے لگایا۔۔۔ رخ انور کے بوسے لیے۔۔۔ حسرت بھری نگاہوں سے بیٹے کے چہرہ کو دیکھ رہی ہیں۔۔۔اور دل دل میں سوچتی ہیں بیٹے اللہ نے تیرا کیا عجیب مقدر بنایا ۔۔۔ پیدائش سے پہلے والد کا سایہ اٹھا لیا ۔۔۔میری جان اب تیر ا وقت تھا میرے ساتھ چلتا۔۔۔ میرے دکھ درد سنتا۔۔۔ ماں بیٹا مل بیٹھ کر باتیں کرتے ۔۔۔ پھر میں تیری جوانی دیکھتی۔۔۔ یہ تو مجھے یقین ہے تو بڑی عزت وعظمت والا ہوگا ۔۔۔دنیا تیری مطیع وفرمانبردار ہوگی۔۔۔ مشرق ومغرب تیرے غلام ہونگے
میر ے یتیم بیٹے:۔
مخلو ق کو تیرے دروازے پر فیض ملے گا۔۔۔کائنات میں تیرے مقام ومرتبہ کی دھوم ہوگی ۔۔۔میرے بیٹے۔۔۔ میرے نورنظر ۔۔۔ میرے لخت جگر ۔۔۔تیر ی ماں یہ مناظر نہ دیکھ سکے گی ۔۔۔ دادا کے پاس تواکیلا جائیگا ۔۔۔بے شک وہ تیر ی تربیت میں کمی نہیں چھو ڑیں گے لیکن ماں کی شفقت سے تو محروم ہوجائیگا۔ادھر وقت مقرر قریب سے قریب ترہوتاجارہاہے
پھر ام ایمن فرماتی ہیں :۔
سیدہ آمنہ میری طرف متوجہ ہوئیں
آنکھوں میں آنسو ہیں فرماتی ہیں ۔۔۔ام ایمن
ان کے دادا کو سلام عرض کرنا ۔۔۔ اور یاد سے دکھی ماں کا پیغام دینا ۔کہ میرے لخت جگر ۔۔۔ میرے یتیم بیٹے کا خیال کرنا ۔یہ باتیں سن کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ سے لپٹ گئے اور فرماتے ہیں امی کیا مجھے چھوڑ کے جارہی ہو ۔۔۔؟
امی ۔امی زبان اقدس پر ہے:
کہ والدہ داعی اجل کولبیک کہتے ہوئے قیامت تک کے لیے خاموش ہوگئیں ۔ اور وہیں دفن کیا گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ام ایمن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکر واپس پہنچی تو سواری پردو سوار نظر آتے ہیں سیدہ آمنہ نظر نہیں آتیں ۔ سردار قریش حضرت عبدالمطلب کا دل کانپ گیا کہ کچھ عرصہ قبل سواری پر عبداللہ نظر نہ آئے تھے آج آمنہ نظر نہیں آرہی ۔اتنے میں ام ایمن نے امانت دادا کے سپرد کی ۔سیدہ آمنہ کی وفات سے باخبر کیا۔۔۔آخری وصیت سنائی ۔یہ واقعا ت سن کر باوجود سردار ہونے کے ضبط وتحمل میں شہرہ آفاق ہونے کے برداشت نہ کر سکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔عبدالمطلب راضی برضاخداہوکرنہایت ہی اہتمام سے پوتے کی کفالت کرنے لگے۔
جہاں تشریف لے جاتے آپ کو ساتھ رکھتے یہاں تک کہ جب آپ مسجد الحرام میں داخل ہوتے ان کے لیے مخصوص قالین بچھائی جاتی جس پر عبدالمطلب تشریف فرماہوتے۔۔۔کسی کو کیامجال کہ اس پر قدم رکھے ۔آپ کے حقیقی صاحبزادے بھی کنارہ پر بیٹھتے مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بلا جھجک آکر اس پر جلوہ افروز ہوتے ۔
ایک دن عبدالمطلب نے دیکھا کہ محمد بن عبداللہصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا چچا وہاں بیٹھنے سے روک رہاہے تو فرمایا
دعوا ابنی فواللہ ان لہ شأناً
انکو اپنے حال پر رہنے دو یہ بڑے مقام والے ہیں
(البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۴ قصص الانبیاء صفحہ ۶۹۹ )
عبدالمطلب کی والہانہ محبت
ایک مرتبہ حضرت عبدالمطلب نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش میں بھیجا ( کیونکہ عبدالمطلب کو یقین تھا بلکہ بارہا کا تجربہ تھا کہ جس کام پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روانہ کرتے کامیابی ہوتی ) مگر واپس آنے میں دیر ہوگئی ۔۔۔ جد محترم بڑے پریشان ہوکر کعبۃ اللہ کاطواف کرتے ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے
رد الی راکبی محمدا
ردہ الی واصطنع عندی یدا
اے اللہ میرے (کندھوں پر ) سوار ہونے والے محمد کو واپس بھیج اور میرے اوپر عظیم الشان احسان فرما ۔
تھوڑی دیر کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم مع اونٹ کے تشریف لائے دیکھتے ہی عبدالمطلب نے گلے سے لگایا اور کہابیٹے آج کے بعد تجھے اکیلا نہیں بھیجوں گا۔
(طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۴۹ )
سیرت حلبیہ میں ہے :۔
کہ ایک دن عبدالمطلب حجراسود کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کے پاس اہل نجران کا سب سے بڑا پادری آکر بیٹھ گیا کہنے لگا ہماری کتب میں آخری پیغمبر کی یہ علامات درج ہیں نیز وہ مکہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے پیدا ہوگا آپ خاموش بیٹھے سن رہے تھے اتنے میں کسی کے ساتھ حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تشریف لائے اوردادا کے ساتھ بیٹھ گئے ۔
بس پھر کیاتھا ؟
پادری کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں ۔ جلدی سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں آنکھوں اور شانوں کو دیکھنے لگا ۔ اور بے ساختہ بو ل اٹھا ۔۔۔وہ نبی آخر الزماں یہی ہے ۔
وہ عالم عبدالمطلب سے پوچھتاہے یہ آپ کے کیالگتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا میرے بیٹے ہیں
پادری کہتاہے اگر واقعی یہ آپ کے بیٹے ہیں تو کتب سماویہ جھوٹی ہوتی ہیں کیونکہ ان میں مکتوب ہے کہ وہ یتیم ہوگا ۔
حضرت عبدالمطلب نے فرمایا ۔۔۔ یہ میرے پوتے ہیں اور ان کے والد کاانتقا ل ہو چکاہے پادری کی زبان سے یہ باتیں سن کر دادا کی توجہ آپ کی طرف اور زیادہ مبذو ل ہوئی ۔( قصص الانبیاء صفحہ ۷۰۰)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابو طالب کے پاس
حضرت عبدالمطلب نے اپنے ہونہار پوتے کو ابو طالب کے سپرد کیا ۔ ابو طالب ذاتی طور پر کثیر العیال اور قلیل المال شخص تھے ۔۔۔ مگر حفاظت وکفالت اور حضانت وشرافت کاحق اداکیا۔
ابو طالب نے اپنے گھر میں پہلی برکت یہ دیکھی کہ اگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک فی الطعام کیاجاتاتو قلیل طعام بھی سب پر کافی ہوجاتا ۔اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کھاناپیش کیاجاتاتووہ برکات نظر نہ آتیں ۔
ملاحظہ ہو (البدایہ والنہایہ ج۲صفحہ ۲۴۲،طبقات ابن سعد ج۱ صفحہ ۸۰)
پہلی برکت:۔
وکان ابو طالب لامال لہ وکان اذااکل عیال ابی طالب جمیعا اوفرادی لم یشبعواواذااکل معہم رسول اللہ شبعوا
دوسری برکت :۔
یصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دہیناکہیلا
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اٹھتے تو صاف و نظیف اٹھتے ۔
لفظی معنی یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیل لگے ہوئے اور سرمہ ڈالے ہوئے ہوتے
تیسری برکت :۔
ایک مرتبہ مکہ میں قحط پڑا تو لوگوں نے ابو طالب سے بارش کیلئے دعاکی درخواست کی
جناب ابو طالب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر ایک عظیم مجمع کے ساتھ حرم محترم میں داخل ہوئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ مبارک کو بیت اللہ شریف سے لگادیا۔
آپ نے باندازعجز اپنی انگلی مبارک سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا ہر طرف سے باد ل امنڈتے چلے آئے اتنی بارش ہوئی کہ ندی نالے بہہ پڑے ۔۔۔اس بر کت کو دیکھ کر ابو طالب کہتے ہیں۔
وابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثما ل الیتامی عصمۃ للار امل
اے روشن ومنور کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے جویتیموں کی پناہ اور بیواؤں کاملجاہے ۔(سیرۃ المصطفی جلد۱ صفحہ ۸۸)
ملک شام کاسفر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ شام کی طرف سفر فرمایا ۔
(۱) ۔۔۔ جب آپ کی عمر بارہ برس تھی :۔
ابو طالب بغرض تجارت شام کی طرف جانے لگے اور سفر کی صعوبت کے پیش نظر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں چھوڑنے کا ارادہ کیا ۔عین اسی وقت جب ابو طالب پا برکاب تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور پرآثارحزن وملال ظاہر ہوئے ۔۔۔ابو طالب پوچھتے ہیں بیٹا پریشان کیوں ہو؟
فرماتے ہیں چچا مجھے آج دادا کے چلے جانے کا احساس ہورہا ہے وہ کبھی بھی مجھے اکیلاچھوڑ کر نہ جاتے تھے عموما کندھوں پر سوار فرماتے تھے
یہ سنتے ہی ابوطالب نے حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے لیا قافلہ رواں دواں ہے جب یہ قافلہ بحیرہ راہب کے صومعہ کے قریب پہنچا تو سب نے وہیں آرام کرنے کامشورہ کیا۔
دیکھتے کیاہیں راہب اپنی عبادت گاہ سے نکل کر قافلہ کے قریب آیااور ایک ایک کوبغو ر دیکھنے لگا جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو آپ کے ہاتھ مبارک کو پکڑ کرکہنے لگا
ہذا سیدا لعالمین ہذارسول رب العالمین ۔۔۔یبعثہ اللہ رحمۃ اللعالمین۔قافلہ میں شریک بزرگوں نے پوچھا آپ کو کیسے علم ہوا ؟
راہب کہتا ہے :۔
جب تم آرہے تھے اس وقت تمام شجر وحجر کو میں نے سربسجود ہوتے دیکھا ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت بھی علامات نبوت میں سے ہے پھر راہب نے تمام قافلہ کی دعوت کی تمام اہل قافلہ شریک ہوئے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ نہ تھے ۔
راہب پوچھتا ہے وہ ولد مسعود کہاں ہے ؟
جواب ملتا ہے اونٹوں کے ساتھ ہیں ۔
مگر راہب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک دعوت ہونے پر مصر ہے ۔
آخر حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے تو بادل کا ٹکڑا سر مبارک پرسایہ کیے ہوئے تھا ۔
خیر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو سایہ میں جگہ باقی نہ تھی کیونکہ سایہ میں سب لوگ پہلے سے موجود تھے آپ دھوپ میں ہی بیٹھ گئے تو
مال فئ الشجرۃ علیہ
درخت کا سایہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگیا ۔
راہب کہنے لگا (انظرو االی فئ الشجرۃ مال علیہ ) یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ۔
اختتام دعوت پر وہ راہب قافلہ والوں کو قسمیں دینے لگا کہ آپ انہیں ساتھ نہ لے جائیں ۔ورنہ رومی علامات نبوت دیکھ کرحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیں گے چنانچہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کردیا گیا ۔
(ملخصًا ترمذی شریف ج۲ صفحہ ۲۲۵ قصص الانبیاء ۲۰۷ تاریخ اسلام صفحہ ۷۵ البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۴۴ )
شام کی طرف دوسرا سفر
دوسر ا سفر اس وقت کیا جب عمر مبارک پچیس بر س تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ ؓ کا مال تجارت لے کر عازم شام ہوئے سیدہ خدیجہ ؓ نے میسرہ نامی غلام بھی ساتھ روانہ کیا ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بصری پہنچے تو ایک درخت کے نیچے بغرض آرام ٹھہر گئے ساتھ ہی ایک راہب رہتا تھا (جس کا نام نسطورا تھا )وہ آپ کے قریب آیا شرف زیارت سے مشرف ہوا ۔
میسرہ سے پوچھتا ہے کیا آپ کو ان کی آنکھوں میں قدرے سرخی نظر آتی ہے ؟ میسرہ نے کہا یہ سرخی تو ہر وقت رہتی ہے تو یہ سن کر راہب کہنے لگا ۔۔۔ وہونبی وہوآخر الانبیا ء ۔بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ کہنے لگا اس درخت کے نیچے نبی کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھتا ۔
نیز میسرہ کا بیان ہے جب سخت گرمی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بادل سایہ فگن رہتا تھا ۔ بعض روایات میں ملائکہ کے سایہ کرنے کا ذکر ہے ۔ہوسکتا ہے مختلف اوقات میں دونوں سورتیں پیش آئی ہوں ۔اور یہی کیفیت شام سے واپسی پر حضرت خدیجہ ؓ نے خود بھی مشاہدہ فرمائی ۔ ( البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۵۵ قصص الانبیاء صفحہ ۷۰۴ طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۸۷ )
عجیب انداز تربیت
سامعین گرامی :۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگرانبیاء علیہم السلام نے اعلان نبوت سے قبل بکریاں چرائیں جیساکہ میر ے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
وہل من نبی الارعاہا
کوئی نبی ایسے نہیں گزرے جنہوں نے بکریاں نہ چرائیں ہوں۔
(بخاری شریف ۔ج۲صفحہ ۸۲کتا ب الاطعمہ ۔ وکتاب الاجارہ )
اس روایت سے دو باتیں واضح طور پر سمجھ آتی ہیں ۔
(۱)۔۔۔ان فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ اللہ رب العزت نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ابتداءً بکریاں چرواکر تحمل وبرداشت کی عملی پریکٹس کروائی۔تاکہ کل اعلان نبوت کے بعد امت کی گلہ بانی کرتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔نیز امت کو بھی عظمت نبوت کادرس دیاگیاکہ جس طرح بکریاں درندے کے حملے سے بے خبر ہوتی ہیں مگرچرواہا باخبر ہوکر حفاظت کرتاہے ۔
اسی طرح امت بھی نفس وشیطان کے حملو ں سے بے خبر ہے مگر اللہ کے نبی اپنے اپنے دور میں دن رات ان کی نگرانی ومحافظت کی فکر میں ہوتے ہیں ۔
(۲)۔۔۔اس حدیث پاک سے ہر صاحب بصیرت سمجھ سکتاہے کہ تربیت قبل از وقت ہونی چاہیے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے آج ہم غافل ہیں ۔ اولا دکے معاملہ میں نہایت ہی بے پرواہی کی جاتی ہے ۔اگر کوئی سمجھائے تو کہا جاتا ہے جی ابھی تو بچے ہیں عقل آجائے گی جب یہی بچے بڑے ہوکر ماں باپ کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں تو پھر ہمیں ہوش آتی ہے ۔ مگر اس وقت پچھتاوا بیکار ہوتا ہے ۔
بعینہٖ یہی حالت علماء امت اور واعظین کی ہے ابتدا ءً وہ قوم کو اعمال صالحہ ،نماز روزہ ،حج،زکوٰۃکے فضائل،آداب واخلاقیات کا وعظ کہتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی توحید ورسالت کا درس بھی مثبت انداز میں سنوادیتے ہیں اور ہر دلعزیز یا مصلحت پسند بننے کی سعی میں لگے رہتے ہیں ۔دشمنوں کے وساوس کی نشاندہی کرنا خلاف مصلحت سمجھتے ہیں ۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مدتوں ہمارے وعظ سننے والا ہماری مساجد کی رونق بننے والا دوسرے کے ہاتھوں شکار ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت پیش آجائے تو ہمیں اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیئے تاکہ اس گم گشتہ راہ کو
وقت پر کا فی ہے قطرہ ابر خوش ہنگام کا
جل گیا جب کھیت مینہ برسا تو اب کس کام کا
نہایت ہی ادب سے اپنے خطبا ء مقررین اور اہل علم دوستوں کی خدمت میں گذارش کروں گا کہ اگر اپنا مسلک بیان نہ کرنا مصلحت پسندی ہے تو نعوذباللہ ثم نعوذ با للہ یہ بات مصلح اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ کیوں نہ آئی جن کی بعثت کا مقصد ہی اصلاح امت ہے ؟
محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں راہ حق میں مصائب برداشت کیئے ۔
ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں چھوٹے منہ سے بڑی بات نہ نکل جائے مگر گذارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں اگر یہی روش رہی علماء امت کی تو پھر (خدا نہ کرے خدا نہ کرے ) وہ وقت دور نہیں جب تم اقلیت میں بدل جاؤ گے ۔
خدارا :
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ کے بعد وَجَادِلْہُمْ بِا لَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ پر بھی غور فرمائیے ۔۔۔ اور امت کے صحیح راہ نما بن کر سامنے آئیے ۔ انشاء اللہ دنیا وآخرت میں کامیابی ہوگی اور یہ آئندہ نسلوں پر آپ کا احسان عظیم ہوگا ۔
شادی خانہ آبادی
جب میرے محبوبصلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک پچیس بر س کی ہوئی تو سیدہ خدیجہؓ نے آپ کی شرافت ،دیانت ،نجابت ،اور خصوصاً سفر شام میں پیش آنے والے واقعات سے متأثر ہو کر بذریعہ عاتکہ بنت عبدالمطلب یا نفیسہ نامی عورت کے ذریعہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام نکاح بھیجا جسے بعد از مشاورت سید ولد آدم مقصود کائنات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا ۔
وقت مقرر پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع اکابرین قریش تشریف لے گئے دونوں طرف کے بزرگوں کی موجودگی میں بخیر وخوبی سادہ مگر باوقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی
یاد رہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس بر س پر سیدہ طاہرہ سیدہ خدیجۃالکبری ؓ کی عمرمبارک چالیس سال تھی ۔اس کی مزید تفصیل آپ کو البدایہ والنہایہ ج ۲ صفحہ ۲۵۶طبقات ابن سعد ج ۱ صفحہ ۸۸ زرقانی ج ۱ صفحہ ۳۷۰ قصص الانبیاء ۷۰۴ پر مل سکتی ہے
قابل غور بات :۔
جب ہم نکاح ام کلثوم ؓ بنت سیدنا علی ؓ با سیدنا عمر ؓ بن الخطاب بیان کرتے ہیں تو یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ چھوٹی عمر کی ام کلثومؓ کانکاح سن رسیدہ عمرسے کیسے ہوسکتا ہے
ہم گذارش کریں گے اگر کم عمر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح سن رسیدہ سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ ہوسکتا ہے
اگر کم عمرسیدہ عائشہؓ کا نکاح سن رسیدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوسکتا ہے تو کم عمر سیدہ ام کلثوم ؓ کا نکاح اپنے سے بڑی عمر کے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔
اولاد امجاد
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہؓ کے بطن اطہر سے نرینہ اولاد کے علاوہ چار صاحبزادیاں سیدہ زینبؓ ۔۔۔سیدہ رقیہؓ ۔۔۔سیدہ ام کلثومؓ ۔۔۔ سیدہ فاطمہؓ پیدا ہوئیں ۔
اہل السنۃ کے ہاں تو یہ مسئلہ اتفاقی ہے البتہ فریق ثانی کے لوگ اپنی کتب سے ناآشنا ہونے کے سبب اسے اختلافی بنانے کی ناکام سعی کرتے ہیں ۔مگر
جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے
اصول کافی ۔مرأۃالعقول ۔اعلام الوری ۔حیات القلوب ۔منتہی الآمال میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔کہ چاروں صاحبزادیوں کی والدہ حضرت خدیجہؓ تھیں اور چاروں کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔
جس طرح سیدہ فاطمہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی صاحبزادی ہے اسی طرح سیدہ زینبؓ ۔۔۔سیدہ رقیہؓ ۔۔۔ سیدہ ام کلثوم ؓ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی صاحبزادیاں ہیں فضیلت سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ بزبان سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
آئیے :۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس باعظمت ماں کی عظمت سن کر اپنے ایمان کو جلا ء بخشیں ۔
(۱) ۔۔۔ عن علی ؓ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول خیر نسا ۂا مریم بنت عمران وخیر نساۂا خدیجہ بنت خویلد (متفق علیہ ۔مشکٰوۃ صفحہ ۵۷۳ )
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا مریم بنت عمران اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں اور خدیجہ ؓ بنت خویلد اپنی امت میں سب سے بہتر عورت ہیں ۔
(۲)۔۔۔ عن ابی ھریرہ ؓ قال اتی جبرئیل النبیصلی اللہ علیہ وسلم فقا ل یا رسو ل اللہ ھذہ خدیجۃ قد اتت معہا اناء فیہ ادام وطعام فاذااتتک فاقرأعلیہا السلام من ربہا ومنی وبشرہا ببیت فی الجنۃ من قصب ولا صخب فیہ ولا نصب (مفتق علیہ *مشکٰوۃ ۵۷۳)
حضرت ابوھریرہؓ نے بیان کیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ابھی خدیجہؓ (مکہ سے چل کر غار حرا میں ) آرہی ہیں
ان کے ساتھ ایک برتن ہے جس میں سالن (اور روٹی ) ہے یا کھانا ہے جب وہ آپ کے پاس پہنچ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پرور دگار کی طرف سے اور میری طرف سے بھی ان کو سلام کہہ دیجیے اور ان کو جنت میں ایک محل کی خو شخبری سنادیجیے جو خول دار موتی کاہے اور اس محل میں نہ شور وغل ہے نہ تکلیف وتھکان ہے۔
(۳)۔۔۔سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہؓ کاذکر کثرت سے فرماتے تھے اگر گھر گوشت آتاتو خدیجہؓ کی ہم جولیوں کی طرف بھیجتے ایک مرتبہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے خدیجہؓ فضائل میں اپنی مثال آ پ تھیں ۔
(ملخصًامتفق علیہ ۔مشکٰوۃ صفحہ ۵۷۳)
حاضرین مکرم :۔
جو ں جوں دن گذرتے گئے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفات کو رؤیاصالحہ صادقہ نظر آنے لگے خلوت پسند آنے لگی وہیں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت تفکر فرمایا کرتے تھے اس کی تائید صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے
اول مابدی برسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الوحی الرؤ یا الصالحہ فی النوم فکان لایری رؤیا الاجا ء ت مثل فلق الصبح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء رؤیا صالحہ سے ہوئی جوخواب دیکھتے صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو کر آتا۔
نیز سیدہ خدیجہؓ سے مروی ہے: ثم حبب الیہ الخلاء
یعنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے خلو ت محبوب بنادی گئی
یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب صاحب حرا صاحب اقرأ بن کر بصورت آفتاب فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہو ا۔
گرنہ بیندبروزشپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
چہرہ آفتاب خودفاش است
بے نصیبی خفاش است
اللہ تعالیٰ سے دعا گوہوں میرے ان معروضات کواپنی بارگاہ میں قبو ل فرمائیں اور مجھ رو سیاہ کو بشمو ل آپ بزرگوں کے روز جزاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرماویں ۔آمین ثم آمین
