مسئلہ زکوٰۃسے متعلقہ ایک اہم استفتاء اور اس کا جواب

انتخاب مضامین

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ
حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی نے تحریر فرمایا ہے کہ گائے کا نحر کرنا کہیں منقول نہیں ہے۔ اگرچہ مسئلہ یہی ہے کہ گائے میں ذبح سنت ہے لیکن نحر بھی جائز ہے کیونکہ احادیث سے گائے کا نحر بھی معلوم ہوتا ہے۔

روت عمرۃ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا انھا قالت دخل علینا یوم النحر بلحم تقیل نحر رسول اللّٰہﷺ عن ازواجہ البقر

عمرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کوگوشت لے کر تشریف لائے تو کہا گیا کہ آپﷺنے اپنی ازواج کی طرف سے گائے نحر کی ہے۔

حافظ عینی لکھتے ہیں:

اما البقر فجاء فی القرآن ذکر ذبحھا فی السنۃ ذکرنحرھا
گائے کے بارے میں قرآن میں تو ذبح کا ذکر آیا ہے اور حدیث میں نحر بھی آیا ہے اور اس سلسلہ میں فقہاء کے مذاہب اس طرح بیان کرتے ہیں:

جن جانوروں میں ذبح مسنون ہے، اگر ان کو نحر کرلیا جائے یا جن میں نحر ہے، اگر ان کو ذبح کرلیا جائے تو اس میں اختلاف ہے۔ جمہور نے جائز کہا۔ ابن قاسم نے ممانعت کی۔ابن المنذر کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ، ثوری، لیث، مالک، شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ جواز مع کراہت کے قائل ہیں۔ احمد، اسحاق، ابو ثر مکروہ بھی نہیں کہتے اور یہی قول عبدالعزیز بن ابی سلمہ کا ہے۔اشہب کا قول یہ ہے کہ اگر بلا ضرورت ذبح کرلیا جائے تو اس کو نہ کھایا جائے۔

مسئلہ زکوٰۃسے متعلقہ ایک اہم استفتاء اور اس کا جواب
فضیلۃ المفتی!

یہ ثابت ہے کہ ’’آلات المحترفین‘‘ پر زکوٰۃ نہیں ہے، اب سوال یہ ہے کہ کارخانے، صنعت کی مشینیں، ملیں، فیکٹریاں، جہاز، ہوائی جہاز (شرکات النقل کی ملکیت) یہ سب آلات المحترفین (مما ینتفع بعینھا) کے ذیل میں آتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ عروض التجارۃ کی صنف میں تو یہ داخل نہیں۔ زمین کی قیمت کچھ بھی ہو اس پر زکوٰۃ نہیں اس کی پیداوار پر عشر لیا جائے گا۔ کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ آلات المحترفین میں فرق کیا جائے، خواہ وہ کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی قیمت کچھ بھی ہو۔ معاشیات کی رو سے اس میں یہ مصلحت نظر آتی ہے کہ صنعت کار پر جو بھی ٹیکس لگایا جاتا ہے، وہ کبھی خود اس کا متحمل نہیں ہوتا بلکہ اس کو پیداوار کے خریداروں (مستہلکین) کے ذمہ ڈال دیتا ہے اس طرح یہ بالواسطہ ٹیکس بن جاتا ہے جس کی شریعت میں گنجائش نہیں۔’’لیس بالمکس ولکنہ النجس‘‘ میں یہی حکمت بتائی گئی ہے۔

حکم شرعی کے ساتھ ایسے حوالے مرحمت فرمائیں جو علمی بحث میں کام آسکیں۔ محترم مولانا بنوری تشریف رکھتے ہوں اور ان کا استصواب ممکن ہو تو’’لیطمئن قلبی‘‘ کا مصداق ہوگا۔

والسلام مع الکرام

محمد یوسف۔ القسم العربی بجامعہ کراتشی

الجواب باسمہٖ تعالیٰ

آلات المتحرفین (صنعت وحرفت والوں کے اوزار) خواہ وہ معمولی حیثیت اور مالیت کے ہوں جیسے کہ بڑھئی کے آلات، سنار کے آلات وغیرہ یا غیر معمولی حیثیت اور مالیت کے ہوں جیسے کہ صنعتی کارخانوں کی مشینیں، ملیں، بحری جہاز، ہوائی جہاز، بسیں، ٹیکسیاں وغیرہ ان سب پر قطعاً زکوٰۃ واجب نہیں بلکہ ان سے جو آمدنی اور پیداوار حاصل ہوگی اس پر حولان حول کے بعد زکوٰۃ کا فریضہ عائد ہوگا، دلائل مختصراً درج ذیل ہیں:

(۱) قرآن کریم میں اس فریضہ مالی کو’’زکوٰۃ‘‘ کے لفظ سے بیان فرمایاہے اور زکوٰۃ کے معنی ’’نماء اور زیادۃ‘‘ کے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ مال نامی سبب زکوٰۃ ہے اور آلات المتحرفین اموال نامیہ میں سے نہیں ہیں جبکہ ان سے مقصد تجارت نہ ہو بلکہ پیداوار کا حصول ہو، کیونکہ اموال نامیہ وہ کہلائے جاتے ہیں جن کے عین سے ’’نمائ‘‘ مطلوب ہونہ کہ ان کے منافع سے۔ شمس الائمہ سرخسی ایک بحث کے ذیل میں بطور کلیہ کے لکھتے ہیں:

ثم مال الزکوٰۃ ما یطلب النماء من عینہ لا من منافعہ
پھر زکوٰۃ کا مال وہ ہے جس کے عین سے نمو (زیادتی) مطلوب ہونہ کہ اس کے منافع سے۔ (ص ۱۶۵ج ۲)

ملک العلماء کا سانی نے شرط نماء پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے فرماتے ہیں:

منھا کون المال نامیاً لان معنی الزکوٰۃ ھو النماء لا یحصل الا من المال النامی ولسنا نعنی بہ حقیقۃ النماء لان ذلک غیر معتبرۃ وانما نعنی بہ کون المال معد الااستنماء بالتجارۃ اوبالا سامۃ لان الاسامۃ سبب الحصول الدروالنسل والسمن والتجارۃ سبب لحصول الربح فیقام السبب مقام المسبب وتعلق الحکم بہ کالسفر مع المشقۃ والنکاح مع الوطی والنوم مع الحدیث ونحو ذلک
ان (اسباب وجوب الزکوٰۃ) میں سے ایک مال کا نامی ہونا ہے اس لیے کہ زکوٰۃ کے معنی ہی نمو (بڑھوتری) کے ہیں اور یہ نمو مال نامی (خود بڑھنے والے مال) میں ہی ہوسکتا ہے۔ ہماری مراد اس نمو سے حقیقتاً نمو کا پایا جانا نہیں ہے اس لیے کہ شریعت میں اس کا اعتبار نہیں ہے بلکہ ہماری مراد اس نمو سے مال کے نامی ہونے کی صلاحیت ہے خواہ یہ (نمو) تجارت کے ذریعے ہو یا (مویشیوں کی) پرورش کے ذریعے ہو اس لیے کہ مویشیوں کی پرورش ان کے دودھ، گھی اور نسل کے حصول کا ذریعہ ہے ( اور یہی ان کا نمو ہے) اور تجارت منافع کے حصول کا ذریعہ ہے (اور یہی منافع تجارت کا نمو ہیں) اور سبب (یعنی تجارت یا مویشیوں کی پرورش) کومسبب ( حصول دودھ، گھی یا نسل کشی) کے قائم مقام کردیا گیا اور اسی سے وجوب زکوٰۃ کا حکم وابستہ کردیا گیا جیسے کہ سفر اور مشقت سفر میں نکاح اور جماع میں اور سونے اور وضو ٹوٹنے میں ۔وغیر ذلک
مسئلہ زکوٰۃسے متعلقہ ایک اہم استفتاء اور اس کا جواب (۲)
انتخاب مضامین

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 627)
آگے چل کر ذہب اور فضہ کو اس سے مسثنیٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الا ان الاعداد للتجارۃ فی الاثمان المطلقۃ من الذھب والفضۃ ثابت باصل الخلقۃ لانھالا تصلح للانتفاع باعیانھا فی رفع الحوائج الاصلیۃ فلاحاجۃ الی الاعداد من العبد للتجارۃ بالنیۃ اذا لنیۃ للتعیین وھی متعینۃ للتجارۃ باصل الخلقۃ فلا حاجۃ الی التعیین بالنیۃ فیجب الزکوٰۃ فیھا نوی التجارۃ اولم ینو اصلاً او نوی النفقۃ واما فیما سوی الاثمان من العروض فانما یکون الاعداد فیھا للتجارۃ بالنیۃ لانھا کما تصلح للتجارۃ تصلح للانتفاع باعیانھا بل المقصود الاصلی فیھا ذلک فلا بد من التعیین للتجارۃ وذلک بالنیۃ (بدائع الصنائع ص۱۱ج ۲)
لیکن سونا، چاندی وغیرہ زر خالص میں تجارت کرنے کی صلاحیت اصل خلقت کے اعتبار سے رکھی ہوئی ہے کیونکہ ان کی ذات انسان کی بنیادی ضرورت (خوراک، پوشاک، مکان وغیرہ) نفع پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں (بجز اس کے کہ ان سے بنیادی ضروریات خریدی جائیں) اس لیے انسان کی جانب سے ان میں تجارت کی نیت سے رکھنے کے قصد کی ضرورت نہیں اس لیے کہ نیت تو تعین کے لیے ہوتی ہے، وہ اصل خلقت کے اعتبار سے متعین ہیں تجارت کے لیے (اور کسی کام آہی نہیں سکتے) لہٰذا سونے، چاندی وغیرہ خالص میں بہرحال زکوٰۃ واجب ہوگی تجارت کی نیت کرے یا نہ کرے یا خرچ کرنے کی نیت کرے۔ لیکن سونے چاندی وغیرہ زر خالص کے علاوہ اور سامان میں تو تجارت کی نیت سے رکھنے کی صورت میں وہ ہی مال تجارت کے حکم میں ہوں گے (ورنہ نہیں) اس لیے کہ ان سامانوں سے جیسے تجارت کی جاسکتی ہے ایسے ہی وہ اور انسانی ضروریات میں بھی کام آسکتے ہیں اس لیے ان کے مال تجارت بننے کے لئے تعیین کی ضرورت ہے اور وہ نیت سے ہوتی ہے۔

(۲) بوجہ لادنے والے، کھیتی کے کام آنے والے اونٹ اور بیلوں میں تو حضور اکرمﷺ نے خود فریضہ زکوٰۃ کی نفی فرمائی ہے۔ ایک شخص کے پاس سو اونٹ ہیں، جو بار برداری اور ان سے کرایہ کمانے کے کام میں استعمال ہوتے ہیں اور ان پر زکوٰۃ نہیں ہے اونٹوں اور بیلوں کی حیثیت بالکل آلات المتحرفین کی ہے اس سلسلہ میں احادیث اور آثار صحابہ موجود ہیں، حافظ جمال الدین الزیلعی کہتے ہیں:

وفی العوامل احادیث منھا مارواہ ابو داؤد فی سننہ من حدیث زھیر ثنا ابو اسحاق عن عاصم عن ضمرہ والحارث عن علی قال زھیر واحسبہ عن النبیﷺ انہ قال ھاتوا ربع العشور من کل اربعین درھماً درھم فذکر الحدیث وقال فیہ ولیس علی العوامل شیء ورواہ الدارقطنی مجزوماً لیس فیہ زھیر واحسبہ قال ابن القطان فی کتابہ ھذا سند صحیح وکل من فیہ ثقۃ معروف ولا اعنی روایۃ الحارث وانما اعنی روایۃ عاصم انتھی وھذا من توثیق العاصم ورواہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا ابوبکر بن عیاش عن ابی اسحاق مرفوعاً ووقفہ عبدالرزاق فی مصنفہ (نصب الرایہ ص ۳۶۰ج ۲)
بار برداری کے جانوروں کے بارے میں متعدد حدیثیں ہیں جن میں سے ایک وہ حدیث ہے جس کو ابو دائود نے اپنی سنن میں زہیر کی حدیث بسند ابو اسحاق عن عاصم عن ضمرۃ اور حارث عن علی کی سند سے روایت کیا ہے جس میں زہیر کہتا ہے کہ میرا گمان ہے کہ یہ نبی کریمﷺ نے ہی فرمایا ہے:

چالیسواں حصہ دو بحساب ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم اور اسی حدیث میں فرمایا: بار برداری کے جانوروں میں کچھ نہیں واجب ہوتا۔ دار قطنی نے اسی حدیث کو یقین کے ساتھ مرفوعاً نقل کیا ہے اس میں قال زہیر واحسبہ نہیں ہے۔

ابن القطان نے اپنی کتاب میں کہا کہ یہ سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوی ثقہ اور معروف ہیں میری مراد حارث کی روایت نہیں بلکہ میری مراد عاصم کی روایت ہے۔ زیلعی کہتے ہیں: ابن قطان کی جانب سے عاصم کی توثیق ہے اور ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مصنف میں حدثنا ابو بکر بن عیاش عن ابی اسحاق کی سند سے اس حدیث کی روایت کی ہے لیکن عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں موقوفا روایت کیا ہے۔

غرض یہ حدیث اصل کلی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر فقہاء امصار نے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔قاضی ابو یوسف کتاب الخراج میں فرماتے ہیں:

فاما ابل العوامل و البقر العوامل فلیس فیہ صدقۃ لم یا خذ معاذ منھا شیء
’’باقی بار برداری کے اونٹ اور بیل توان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے،معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں اور بیلوں میں سے کچھ بھی نہیں لیا۔‘‘

ابو عبید قاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں حضرت حسنؒ اور دوسرے تابعین کے آثار بھی نقل کئے ہیں اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور اس کو سفیان ثوریؒ اور تمام اہل عراق کا قول بتلایا ہے ۔

عوامل پر زکوٰۃ نہیں باوجود یکہ تو الدوتناسل اور ایک قسم کا نموان کے اندر ہوتا ہے اور عوامل کی جنس کے بقیہ اصناف میں زکوٰۃ واجب ہونے کے باوجود بھی جب ان میں وجوب زکوٰۃ نہیں تو آلات المتحرفین میں باولیٰ زکوۃ واجب نہ ہوگی۔

نظر فقہی کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ آلات المتحرفین پر زکوٰۃ نہ ہونی چاہیے کیونکہ ان کی آمدنی (پیداوار) پر حولان حول کے بعد زکوٰۃ عائد ہوتی ہے اگر خودان پر بھی زکوٰۃ عائد کردی تو ایک چیز پر ایک سال میں دومرتبہ زکوٰۃ دینا لازم آئے گا، وھذا لم یعھد فی الشرع وقدصرحوابہ

دوسرے یہ کہ زکوٰۃ پانچ قسم کی اشیاء پر آتی ہے:

(۱) انعام(۲)ذہب و فضہ)(۳) عروض التجارت (۴)المعدن والرکاز(۵) الزروع والثمار

آلات المتحر فین ان میں سے کسی قسم میں بھی داخل نہیں ہیں کما ھو الظاھر

آلات المتحرفین پر زکوٰۃ نہ آنے کی فقہاء کے یہاں بھی تصریحات ملتی ہے:

’’قال فی الدرالمختاروکذلک آلات المحترفین قال فی ردالمختار ای سواء کانت ممالا تستھلک عینہ فی الانتفاع کالقدم و المبرد‘‘
(جاری ہے)