تربیتِ اولاد کا طریقہ


الله تعالیٰ کی منجملہ نعمتوں میں اولاد ایک عظیم نعمت  ہے اور دنیوی زندگی کی زیب وزینت ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿المال والبنون زینة الحیاة الدنیا﴾
یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے رب کائنات سے درخواست کی
﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ﴾․ (سورة الصافات:100 و101)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی
﴿وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً،یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّاً، یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً﴾․(سورة مریم آیت:5،7)
الله تعالیٰ کے مخصوص بندوں کی پکار بھی یہی رہی ہے
﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُن﴾․(سورة الفرقان، آیت:74)
بعض کے نزدیک:
”اشھی ثمرات الحیاة الی الانسان: الاولاد“
انسان کے نزدیک پوری زندگی کی مرغوب اشیا میں سب سے مرغوب چیز اولاد ہے۔ اور یہی زندگی کا خوش گوار پھل ہے۔ تعمیر ارض ان ہی پر منحصر ہے اوریہی تخلیق کائنات کا منشا ہے۔ ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بیٹے یزید پر ناراض ہوئے تو احنف رحمة اللہ علیہ نے کہا:
اے امیر المومنین!
”اولادنا ثمار قلوبنا وعماد ظہورنا“
اولاد ہمارے دلوں کے ثمرات ہیں اور کمر کے ستون ہیں۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
”الصبی امانة عند والدیہ وقلبہ الطاہر جو ہرة نفسیة ساذجة خالیة من کل نقش وصورة، وھو قابل لکل ما نقش علیہ…“
اولاد والدین کے نزدیک ایک امانت ہیں، جن کے قلوب سادہ لوح کی مانند ہیں، جو چیز نقش کرنا چاہیں کرلیں۔ الله کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے باز رہو۔ اپنی اولاد کو احکامات الہیہ کو بجالانے کی تلقین کرو اور محرمات سے متنبہ کرو، اسی میں تمہارے او رتمہاری اولاد کے لیے بچاؤ ہے، عذاب نار سے۔ جیسا کہ خود الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارا﴾․( سورة التحریم، آیت:6) ضروری ہے کہ جس وقت بچے بولنا سیکھیں سب سے پہلے انہیں اپنے خالق ومالک
” الله“
کا مبارک نام سکھائے، پھر کلمہ توحید
”لا الہ الله“
سکھائے۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”افتحوا علی صبیانکم اول کلمة بلا الہ الا الله․“ (رواہ الحاکم)
اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے
”لا الہ الا الله“
سے کھلواؤ۔ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال وحرام کی تعلیم دیں۔
حضرات فقہاء اسی آیت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن)
حضرت عبدالله بن عمر حضرات فقہاء اسی آیت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن)
حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وہم ابناء عشر، وفرقوا بینھم المضاجع․“ (ابوداؤد)
بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں۔ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وہم ابناء عشر، وفرقوا بینھم المضاجع․“ (ابوداؤد)
بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اعملوا بطاعة الله، واتقوا معاصی الله، ومروا اولادکم بامتثال الاوامر واجتناب النواھی، فذلک وقایة لھم ولکم عن النار․“ (رواہ ابن جریر)
جب بچے کے بال میں کنگھی کرو تو اسے بتاؤ کہ بالوں ميں کنگھی کرنا پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
(مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ)
جس کے پاس بال ہوں تو اسے سنوارنا چاہئے. (رواه أبو داود (3632) وصححه الشيخ الألباني)
جب اپنے بجے کو خوشبو لگاؤ تو اسے بتاؤ کہ خوشبو لگانا پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے. ارشاد نبوی ہے:
(حبِّب إليَّ من دنياكم النساء والطيب، وجعلت قرة عيني في الصلاة)
مجھے تمہاری دنیا کی خوشبو اور عورت پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے. (رواه النسائى (3939) وصححه الحاكم (2 / 174) ووافقه الذهبي ، وصححه الحافظ ابن حجر في “فتح البارى” (3 /15) و (11 / 345).
جب بچے کو مدرسہ بھیجو تو اسے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سناؤ:
(من سلك طريقاً يطلب فيه علماً سهل الله له طريقاً إلى الجنة.)
جو علم سیکھنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے. (رواه البخاري / كتاب العلم/10)
جب بچے کے سامنے مسکراؤ تو اسے بتاؤ کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرانے کو صدقہ (نیکی) قرار دیا ہے:
(تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ)
اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے. (ترمذى (1956) وصححه الألباني)
جب بچے کی تعریف کرو تو اسے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سناؤ:
(الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ)
ترجمہ: اچھی بات بهی صدقہ (نیکی) ہے. (البخارى ( 2734)
جب تم اپنا کھانا بچے کے پلیٹ ميں ڈالو تو اسے بتاؤ کہ یہ بھی نیکی کا کام ہے ارشاد نبوی ہے:
(… وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ.)
ترجمہ: اپنے برتن سے کوئی چیز لے کر اپنے بھائی کے برتن ميں ڈالنا صدقہ اور نیکی ہے. (ترمذى (1956) وصححه الألباني)
جب تم کہیں ایسی محفل میں ہو جہاں بڑے بزرگ لوگ ہوں تو اپنے بچے کو ان کی خدمت کے لئے کہو اور اسے بتاؤ کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کا یہ ایک طریقہ ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
(لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا)
ترجمہ: جو چھوٹے پر رحم  اور بڑے کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں. (رواه الترمذى (1919) وصححه الألباني)
اولاد کی تعلیم وتربیت میں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، اس لیے باپ ہی سے فطرةً اولاد ڈرتی ہے اور لحاظ کرتی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، والامیر راع، والرجل راع علی اہل بیتہ، والمراةٴ راعیة علی بیت زوجھا وولدہ․“ (متفق علیہ)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اس کی ذمے داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر او ربچوں کی ذمہ دار ہے۔
”عن ابی موسی الاشعری رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما نحل والد ولدا عن نحل افضل عن ادب حسن․“ (ترمذی)
اس حدیث میں سب سے بہترین تحفہ اولاد کے لیے ادب حسن بتلایا گیا ہے۔
”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اکرموا اولادکم، واحسنوا ادبھم․“ (ابن ماجہ) اس حدیث میں اولاد کی عزت او راچھی تربیت کا حکم دیا گیا ہے۔
”عن علی قال: علموا اولادکم واھلیکم الخیر وادبوھم․“
حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے اہل وعیال کو بھلائی کی تعلیم دوا اور انہیں ادب سیکھاؤ۔
”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ، ویحسن اسمہ․“ (البیہقی)

اس طرح اپنے بچوں کی تمام حرکات و سکنات کو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور سیرت طیبہ سے جوڑنے کا اہتمام کرنا چاہئے اور انهیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری حدیثیں سکھانی چاہئے.اللہ تعالى ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.