وصیت

وصیت کی تعریف نیز وصیت کس کو کی جاسکتی ہے؟

س… وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا موصی یہ وصیت ہر اس شخص کو کرسکتا ہے جو خاندان کا فرد ہو اور موصی کی وصیت پر عمل درآمد کراسکے؟ یا وصیت صرف اولاد ہی کو کی جاسکتی ہے؟

ج… ”وصی“ ہر اس شخص کو بنایا جاسکتا ہے جو نیک، دیانت دار اور شرعی مسائل سے واقف ہو، خاندان کا فرد ہو یا نہ ہو۔

س… ایک سرپرست کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مثال کے طور پر زید ایک مطلقہ عورت سے شادی کرے اور وہ خاتون ایک ڈیڑھ سالہ بچہ بھی اپنے سابقہ شوہر کا ساتھ لائے تو ایسے بچے کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا یہ بچہ اپنی ولدیت میں اپنے اصلی باپ کی جگہ اس سرپرست کا نام استعمال کرسکتا ہے؟ جواب سے مستفید فرمائیں۔

ج… سوتیلا باپ اعزاز و اکرام کا مستحق ہے، اور بچے پر شفقت بھی ضرور باپ ہی کی طرح کرنی چاہئے، لیکن نسب کی نسبت حقیقی باپ کے بجائے اس کی طرف کرنا صحیح نہیں۔

وصیت کس طرح کی جائے اور کتنے مال کی؟

س… میرا ارادہ ہے کہ میں سنت کے مطابق اپنی جائیداد کی وصیت کروں، میری صرف ایک لڑکی ہے، دُوسری کوئی اولاد نہیں، اور ہم چار بھائی ہیں اور پانچ بہنیں ہیں، جو سب شادی شدہ ہیں، ہم چار بھائیوں کی کمائی جدا جدا ہے اور والد مرحوم کی میراث صرف برساتی زمین ہے، جو اَب تک تقسیم نہیں ہوئی، باقی ہر کسی نے اپنی کمائی سے دُکان، مکان خرید لیا ہے، جو ہر ایک کے اپنے اپنے نام پر ہے، اور میری اپنی کمائی سے دو دُکان اور رہائشی مکان ہیں، ایک میں، میں خود رہتا ہوں، اور دُوسرے مکان کو کرایہ پر دے رکھا ہے، اور ایک آٹے کی چکی ہے جس کی قیمت تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ ہے۔ اب میرا خیال ہے کہ میں ایک دُکان لڑکی اور اپنی زوجہ کے نام کروں اور دُوسری دُکان اور چکی اور مکان جو کرایہ پر ہے، ان کے بارے میں خدا کے نام پر وصیت کروں، یعنی کسی مسجد یا دِینی مدرسہ میں ان کی قیمت فروخت کرکے دے دی جائے، اور بقایا زمین کا میرا حصہ بھائیوں اور بہنوں کو ملے، اور کیونکہ میرا لڑکا وغیرہ نہیں ہے جو بعد میں میرے لئے دُعا فاتحہ کرے، اس لئے اب میرے دِل میں فکر رہتا ہے کہ میں اپنی تمام جائیداد کی وصیت کرکے دُنیا سے جاوٴں، اور تمام جائیداد اللہ تعالیٰ کے دِین کے لئے وقف کروں، جو صدقہٴ جاریہ بن جائے۔ اور میں نے ایک عالمِ دِین سے مسئلہ وصیت کا دریافت کیا، اس نے کہا کہ آپ زندگی میں اپنی جائیداد فروخت کرکے کسی دِینی مدرسہ میں لگادیں کیونکہ آج کل بھائی لوگ وصیت کو پورا نہیں کریں گے، اس لئے آپ اپنی زندگی میں یہ کام کریں۔ لیکن مولانا صاحب! آج کل حالات اجازت نہیں دیتے ہیں، کیونکہ میری دس سال کی کمائی ہوئی چیزیں ہیں اور کوئی دُوسرا ذریعہ نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی بسر کروں اور مزدوری نہیں کرسکتا ہوں، زمین وغیرہ برساتی ہے، اس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اگر میں ان کو اپنی زندگی میں فروخت کرکے صدقہ کروں تو ڈَر ہے محتاج ہونے کا، اور اب میری عمر چالیس بیالیس سال ہے۔ آپ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں، کیا کروں؟ اور باقی میرے بھائی وغیرہ سب الحمدللہ اچھی حالت میں ہیں، محتاج نہیں، صاحبِ دولت ہیں، اگر میں کسی اور کو اپنا وکیل مقرّر کروں کہ آپ میرے مرنے کے بعد یہ فروخت کرکے دِینی کام میں لگادیں یا کسی عالمِ دِین کو وکیل بنادوں تو کیسا ہے؟ کیونکہ وارثوں پر بھروسہ نہیں ہے، وہ اپنے لالچ میں وصیت کو پورا نہ کریں گے، اس لئے آپ میری جائیداد تقسیم کرکے اور وصیت کے بارے میں بتاکر شکریہ کا موقع دیں۔ میرے وارث یہ ہیں: چار بھائی، پانچ بہن، ایک لڑکی، بیوہ اور میری والدہ صاحبہ۔

ج… آپ کے خط کے جواب میں چند ضروری مسائل ذکر کرتا ہوں:

۱:… آپ اپنی صحت کے زمانے میں کوئی دُکان یا مکان بیوی کو یا لڑکی کو ہبہ کردیں تو شرعاً جائز ہے، مکان یا دُکان ان کے نام کرکے ان کے حوالے کردیں۔

۲:… یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال مساجد و مدارس میں دے دیا جائے۔

۳:… وصیت صرف ایک تہائی مال میں جائز ہے، اس سے زیادہ کی وصیت وارثوں کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں، اگر کسی نے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کی تو تہائی مال میں تو وصیت نافذ ہوگی، اس سے زیادہ میں وارثوں کی اجازت کے بغیر نافذ نہیں ہوگی۔

۴:… اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ وارث اس کی وصیت کو پورا نہیں کریں گے تو اس کو چاہئے کہ ایک دو ایسے آدمیوں کو، جو متقی اور پرہیزگار بھی ہوں اور مسائل کو سمجھتے ہوں، اس وصیت کو پورا کرنے کا ذمہ دار بنادے، اور وصیت لکھواکر اس پر گواہ مقرّر کردے، اور گواہوں کے سامنے یہ وصیت ان کے سپرد کردے۔

۵:… وفات کے وقت آپ جتنی جائیداد کے مالک ہوں گے، اس میں سے ایک تہائی میں وصیت نافذ ہوگی، اور باقی دو تہائی میں درج ذیل حصے ہوں گے:

بیوی کا آٹھواں حصہ، والدہ کا چھٹا حصہ، بیٹی کا نصف، باقی بھائی بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بھائی کا حصہ بہن سے دُگنا ہو۔

اسیٹمپ پر تحریر کردہ وصیت نامے کی شرعی حیثیت

س… ہمارے والد صاحب کا انتقال اس ماہ کی ۷ تاریخ کو ہوا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں ایک وصیت نامہ اسیٹمپ پیپر پر اپنی اولاد کے لئے چھوڑا ہے، جس کی رُو سے ایک مکان ہم دونوں بھائیوں میں تقسیم کیا جائے، اور اسی طرح دُوسرا مکان دو بہنوں میں برابر تقسیم کیا جائے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وصیت نامہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، والد صاحب اگر اپنی زندگی میں جائیداد کا بٹوارہ کرجاتے تو ٹھیک ہوتا۔ ہمارے والد کی والدہ صاحبہ بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں اور ان کی ایک بہن بھی حیات ہیں اور وہ شادی شدہ ہیں، وصیت نامے کی رُو سے تو صرف ان کی اولاد ہی جائز حق دار ہوسکتی ہے۔ براہِ کرم بتائیں کہ اسلامی رُو سے اسیٹمپ پیپر پر وصیت نامہ کی کیا حیثیت ہے؟

ج… اس وصیت نامے کی حیثیت صرف ایک مصالحتی تجویز کی ہے، اگر سب وارث بخوشی اس پر راضی ہوں تو ٹھیک ہے، ورنہ جائیداد شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے اور آپ کی دادی صاحبہ کا بھی حصہ لگایا جائے۔

کیا ماں کے انتقال پر اس کا وصیت کردہ حصہ بیٹے کو ملے گا

س… ایک ماں اپنے مرحوم بیٹے کی املاک میں سے اپنے حصے کی وصیت لکھتی ہے کہ میرا حصہ میرے فلاں بیٹے ”ع“ کو دیا جائے، تو کیا ماں کے انتقال کے بعد بھی وہ وصیت قابلِ عمل ہوگی؟ اور کیا وہ بیٹا ماں کا وہ حصہ لینے کا شرعی اور قانونی طور سے حق دار ہوگا یا نہیں؟ اور مرحوم بیٹے کی بیوہ پر وہ حصہ دینا شرعی اور قانونی طور سے لازم ہے یا نہیں؟ اَز راہِ کرم جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

ج… بیٹا، ماں کا وارث ہے، اور وارث کے لئے وصیت باطل ہے، لہٰذا جس طرح اس ”ماں“ کا دُوسرا ترکہ شرعی حصوں کے مطابق اس کی پوری اولاد کو ملے گا، اسی طرح مرحوم بیٹے سے اس کو جو حصہ پہنچتا ہے وہ بھی شرعی حصوں پر تقسیم ہوکر اس کی ساری اولاد کو ملے گا۔

ورثاء کے علاوہ دیگر عزیزوں کے حق میں وصیت جائز ہے

س… میرا ایک نابالغ لڑکا ہے، اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے، علاتی والدہ اور دو علاتی بھائی ہیں، اَز رُوئے فقہِ حنفی میرے وارث کون کون ہوسکتے ہیں؟ میں اپنی اولاد کے لئے تو وصیت نہیں کرسکتا، لیکن کیا کسی ایسے اشخاص کے لئے وصیت کرسکتا ہوں جن کے مجھ پر قطعی اور قرار واقعی احسانات ہیں؟ (باپ شریک کو ”علاتی“ کہتے ہیں)۔

ج… لڑکا آپ کا وارث ہے، لڑکے کی موجودگی میں بھائی اور سوتیلی والدہ وارث نہیں، جو آپ کے وارث نہیں ان کے حق میں وصیت (تہائی مال کے اندر) کرسکتے ہیں۔

مرحوم کی وصیت کو تہائی مال سے پورا کرنا ضروری ہے

س… میرے والد نے فوت ہونے سے چند ماہ قبل وصیت یہ کی کہ میری جائیداد میں میرا ثلث دو لاکھ روپے بنتا ہے، بعد میں اس ثلث کو اس طرح تقسیم کرلیں کہ دو حجِ بدل کریں، ایک میرے والد کے لئے، دُوسرا میرے لئے، باقی ماندہ رقم مدرسوں کو دے دیں۔ اب ہم خود یہ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ یہ ثلث جو کہ بعد از موت والد کا ترکہ ہے اس میں سے کچھ ہم رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

ج… مرنے والا اگر ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت کرجائے تو وارثوں کے ذمہ اس وصیت کا پورا کرنا فرض ہوجاتا ہے، پس آپ کے والد مرحوم نے جو ترکہ چھوڑا ہے اس کے ایک تہائی حصے کے اندر ان کی وصیت کو پورا کرنا آپ کے ذمہ لازم ہے، اور مرحوم نے جس طرح وصیت کی ہے، اسی طرح پورا کرنا ضروری ہے۔ یعنی ان کی طرف سے اور ان کے والد کی طرف سے حجِ بدل کرانا، اور جو کچھ تہائی مال میں سے اس کے بعد بچ رہے اس کو مدرسوں میں دینا۔

وصیت کردہ چیز دے کر واپس لینا

س… میرے دادا اور دادی جان حج پر جاتے وقت اپنا مکان اور دو ٹیکسیاں میرے نام وراثت میں لکھ گئے تھے، اور کچھ زیورات میری والدہ کو دے گئے تھے، میرے دادا کی دو اولاد ہیں، یعنی ایک میری شادی شدہ پھوپھی جو کہ امریکہ میں قیام پذیر ہیں، اور دُوسرے میرے والد جن کا میں اکلوتا بیٹا ہوں، اور حج سے واپسی کے بعد میرے دادا نے وراثت نامہ واپس لے کر مکان کو کرائے پر اُٹھادیا، اور اب وہ مکان اور ٹیکسیوں کا کرایہ خود لے رہے ہیں، نیز تمام کا تمام اپنے تصرف میں لا رہے ہیں۔ آپ براہِ کرم اس مسئلے پر اپنی عالمانہ رائے کا اظہار فرماکر ممنون فرمائیں۔

ج… آپ کے دادا نے آپ کے حق میں وصیت کی ہوگی اور وصیت کو مرنے سے پہلے واپس لیا جاسکتا ہے، اس لئے آپ کے دادا کی وہ وصیت منسوخ سمجھی جائے گی۔

بھائی کے وصیت کردہ پیسے اور مال کا کیا کریں؟

س… میرا بھائی پی آئی اے میں ملازم تھا، میرے بھائی کے اخراجات سب میں نے برداشت کئے تھے، مزید یہ کہ وہ میرے پاس ہی رہتا تھا۔ پی آئی اے ہر سال ایک فارم پُر کرواتی ہے جس میں ملازم سے پوچھا جاتا ہے کہ دورانِ ملازمت ملازم کے مرجانے کی صورت میں اس کو ملنے والی رقم کا حق دار کون ہوگا؟ اس میں دو آدمیوں کی گواہی بھی ہوتی ہے، اس طرح مرحوم ہر سال میرا ہی نام ڈلواتا رہا، اسی طرح مرحوم نے بیماری کے دوران اپنے قرض کا بھی تذکرہ کیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد ان، ان لوگوں کا میں قرض دار ہوں، جب پی آئی اے سے پیسے ملیں تو ان لوگوں کو پیسے دے دینا۔ مرحوم کی وفات کے کئی ماہ بعد پی آئی اے نے ہم سے رابطہ قائم کیا اور سارا پیسہ ہمارے اکاوٴنٹ میں ٹرانسفر کردیا، اسی دوران پی آئی اے کی طرف سے ہمیں خطوط موصول ہوئے جن میں پیسے کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ۱:فنڈ، ملازمت کے دوران محکمہ کچھ رقم ملازم سے لے لیتا ہے، اور مرنے کی صورت میں یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں جتنی رقم ہوتی ہے اتنی ہی ملاکر دے دیتا ہے۔ ۲:پنشن، ماہانہ پنشن مقرّر کی ہے جو ہر ماہ پی آئی اے ادا کرے گی۔ مرحوم کے دُوسرے بھائی بہن بھی ہیں، مرحوم کے انتقال کے بعد میں نے بھائیوں سے کہا کہ مرحوم کا ساز و سامان اپنے ساتھ لے جاوٴ، تو انہوں نے کہا کہ یہ سب آپ کا ہے، آپ جس کو چاہیں دے دیں۔ تحریر کردہ مسئلے کی روشنی میں یہ بتائیں کہ اس پیسے کا حق دار نامزد کردہ ہوگا یا تمام افراد؟ اور یہ بھی بتائیں کہ بینک کے پیسوں کا حق دار کون ہوگا؟

ج… آپ کے بھائی نے پی آئی اے کے فارم میں جو آپ کا نام نامزد کیا ہے، اس کی حیثیت وصیت کی ہے اور شرعی اُصول کے مطابق وارث کے لئے وصیت صحیح نہیں، اور اگر کردی جائے تو وصیت نافذ العمل نہیں ہوگی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے مرحوم بھائی کے نام پی آئی اے اور بینک سے جو رقم مل رہی ہے، سب سے پہلے تو اس رقم سے مرحوم کا قرضہ ادا کیا جائے، اس کے بعد جو رقم بچے اس کی حیثیت میراث کی ہے، اور اس کی تقسیم ورثاء میں ہونی چاہئے، لیکن اگر آپ کے چاروں بھائی اور بہن، مرحوم کی وصیت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ: ”ہم نے مرحوم بھائی کی ملنے والی رقم آپ کو ہبہ کردی“ تو پھر آپ کو وہ ساری رقم لینے کا حق ہوگا۔ بصورتِ دیگر ورثاء میں سے جو جو وارث مطالبہ کریں ان کے درمیان اس مال کی تقسیم میراث کے اُصولوں کے مطابق ہوگی۔

بہنوں کے ہوتے ہوئے مرحوم کا صرف اپنے بھائی کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں

س… ایک نیک آدمی جو گورنمنٹ ملازم تھا، نو ماہ کی بیماری کے بعد انتقال کرگیا، اس نے شادی نہیں کی تھی اور والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس کا صرف ایک بھائی ہے اور چار بہنیں ہیں۔ جس میں سے تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور ایک بہن کی شادی نہیں ہوسکی۔ مرنے سے پہلے اس آدمی نے اپنی زمین اور دفتر سے واجبات کی ادائیگی کے لئے بھائی کو نامزد کیا ہے، زبانی بھی سب بہنوں کے سامنے کہا اور لکھ کر بھی دیا کہ: ”میری ہر چیز کا مالک میرا چھوٹا بھائی ہے۔“ اب آپ سے فقہ کی روشنی میں یہ پوچھنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے مرنے والے کی پنشن اور دیگر واجبات مل جائیں تو صرف بھائی اس کا حق دار ہوگا یا بہنوں کو بھی حصہ دیا جائے گا، جبکہ مرنے والے نے صرف بھائی کو ہی نامزد کیا ہے، اور کہا ہے کہ: ”میری ہر چیز کا مالک میرا بھائی ہے۔“

ج… مرحوم کی وصیت غلط ہے، بہنیں بھی حصہ دار ہوں گی، مرحوم کے ترکہ کے (جس میں واجبات وغیرہ بھی شامل ہیں) چھ حصے ہوں گے، دو بھائی کے اور ایک ایک چاروں بہنوں کا۔

س… فقہ کی روشنی میں کیا حکومت اور مرنے والے کے دفتر والوں کو اس کی پنشن اور دیگر واجبات جو کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتے ہیں، اس کے نامزد کردہ بھائی یا بہنوں کو ادا کرنے چاہئیں، جبکہ اس کے بیوی بچے نہیں ہیں، اور والدین بھی نہیں، یا یہ رقم دفتر والے خود رکھ لیں، کیونکہ دفتر والوں نے اس رقم کی ادائیگی سے نامزد کردہ حقیقی بھائی اور بہنوں کو انکار کردیا ہے یہ کہہ کر کہ مرنے والے کے بیوی بچے نہیں ہیں اور والدین بھی نہیں ہیں، جبکہ فقہ کی روشنی میں اگر سگے بہن بھائی موجود نہ ہوں تو حق دار اور وارث بھتیجے اور بھانجے ہوتے ہیں۔

ج… پنشن اور دیگر واجبات میں حکومت کا متعلقہ قانون لائقِ اعتبار ہے، اگر قانون یہی ہے کہ جب مرنے والے کے والدین اور بیوی بچے نہ ہوں تو کسی دُوسرے عزیز کو پنشن اور دیگر واجبات نہیں دئیے جائیں گے تو دفتر والوں کی بات صحیح ہے، ورنہ غلط ہے۔

وصیت کئے بغیر مرنے والے کے ترکہ کی تقسیم جبکہ ورثاء بھی معلوم نہ ہوں

س… ایک افغانی شخص دُوسری حکومت میں مثلاً: افغانستان میں فوت ہوجائے، اس کا ترکہ یہاں رہ جائے اور اس کا کوئی وارث معلوم نہ ہو اور نہ وصیت کی ہو تو کیا اس ترکہ کو یہاں کے مساکین یا مسجد یا مدرسہ یا دِینی کتابوں پر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

ج… اس شخص متوفی کا ترکہ اس کے ملک افغانستان بھیج دیا جائے، تاکہ وہاں کی حکومت تحقیق کے بعد اس کے ورثاء میں تقسیم کردے، یہاں اس کے متروکہ کو خرچ کرنے کی اجازت نہیں۔

ذَوِی الارحام کی میراث

”نوٹ:… ”ذَوِی الارحام“ ان وارثوں کو کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اور میّت کے درمیان عورت کا واسطہ ہو، مثلاً: بیٹی کی اولاد، یا پوتی کی اولاد۔“

س… ایک شخص فوت ہوا، اس کی چھٹی پشت میں اس کی اولاد میں صرف ذَوِی الارحام ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل نقشے سے معلوم ہوگی، اس شخص کا ترکہ چھٹی پشت کے ذَوِی الارحام پر کیسے تقسیم ہوگا؟

ج… چھ پشتوں کے لئے دو صدیاں درکار ہوتی ہیں، اور اس زمانے میں یہ عادةً ممکن نہیں کہ کوئی شخص مرے اور اس کی چھٹی پشت میں صرف نواسے نواسیاں رہ جائیں۔ اس لئے آنجناب کا یہ سوال محض اس ناکارہ کا امتحان لینے کے لئے ہے، اور امتحان کا موزوں وقت طالب علمی کا یا نوجوانی کا زمانہ تھا، اب اس غریب بڈھے کا امتحان لے کر آپ کیا کریں گے؟ اس لئے جی نہیں چاہتا تھا کہ اس کا جواب لکھوں، پھر اس خیال سے کہ آج تک کسی نے ذَوِی الارحام کی میراث کا مسئلہ نہیں پوچھا، جواب لکھنے کا ارادہ کر ہی لیا۔

پہلے یہ اُصول معلوم ہونا چاہئے کہ جب پہلی پشت کے بعد ذَوِی الارحام (بیٹی کی اولاد) ہوں تو اِمام ابویوسف تو آخری پشت کے افراد کو لے کر ان کو ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ کے قاعدے سے تقسیم کردیتے ہیں۔ اُوپر کی پشتوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔

مثلاً: آپ کے مسئلے میں چھٹی پشت میں آٹھ لڑکے ہیں، یعنی: ا، ۳، ۵، ۶، ۷، ۹، ۱۱، ۱۳۔ اور سات لڑکیاں ہیں، یعنی: ۲، ۴، ۸، ۱۰، ۱۲، ۱۴، ۱۵۔

پس اِمام ابویوسف کے نزدیک یہ ترکہ کل ۲۳ حصوں پر تقسیم ہوگا، دو، دو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کو دے دیا جائے گا۔

اور اِمام محمد سب سے پہلی پشت سے جس میں اختلاف ہوا ہو (یعنی اس پشت میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں) ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ (یعنی لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر) کے قاعدے سے تقسیم کرتے ہیں۔

دُوسرا قاعدہ ان کے یہاں یہ ہے کہ جہاں لڑکے اور لڑکیاں موجود ہوں، وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کا حصہ الگ کردیتے ہیں، اور اس قاعدے کو ہر پشت میں جاری کرتے ہیں۔

تیسرا قاعدہ ان کا یہ ہے کہ اُوپر سے تقسیم کرتے وقت ہر لڑکے اور لڑکی کو ان کے فروع کے لحاظ سے متعدد قرار دیتے ہیں۔

اب ان قواعد کی روشنی میں اپنے مسئلے پر غور کیجئے، اس میں پہلی پشت سے جو اختلاف شروع ہوا تو آخری پشت تک چلا گیا، اس لئے یہاں تقسیم پہلی پشت سے شروع کی جائے گی:

پہلی پشت میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، لیکن پہلے بیٹے کے نیچے چار فروع ہیں، لہٰذا وہ چار کے قائم مقام ہوگا، اور تیسرے بیٹے کے نیچے فروع ہیں، لہٰذا دو دو بیٹوں کے قائم مقام ہوگا۔ اس لئے لڑکے حکماً چار کے بجائے آٹھ ہوگئے، اور ہر لڑکیوں میں دُوسری لڑکی کے نیچے دو فروع اور چوتھی کے نیچے تین فروع ہیں، ادھر اس لئے چار لڑکیاں حکماً سات لڑکیوں کے قائم مقام ہوئیں، چونکہ آٹھ لڑکے ۱۶ لڑکیوں کے قائم مقام ہیں اس لئے ۲۳ سے مسئلہ نکلے گا، ۱۶ حصے لڑکوں کے اور ۷ حصے لڑکیوں کے۔

دُوسری پشت میں تقسیم کرتے ہوئے ہم نے لڑکوں اور لڑکیوں کے حصے الگ کردئیے، لڑکوں کے نیچے اس پشت میں تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے، لیکن پہلا لڑکا چار کے قائم مقام ہے اور تیسرا دو کے قائم مقام، لہٰذا حکماً سات لڑکے اور ایک لڑکی ہوئی، اور ان کے حصے ۱۵ بنے، ان کے پاس سولہ حصے تھے جو ان پر تقسیم نہیں ہوتے، اور ان کے روٴس اور حصص کے درمیان تباین ہے، لہٰذا اصل مسئلہ کو ۱۵ سے ضرب دینے کی ضرورت ہوگی۔ ادھر لڑکیوں کے خانے میں ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہیں، لیکن پہلی لڑکی دو لڑکیوں کے قائم مقام ہے، اور تیسری لڑکی تین لڑکیوں کے قائم مقام ہے، گویا حکماً چھ لڑکیاں ہوئیں، اور لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا ان کا مسئلہ آٹھ سے نکلا، جبکہ ان کے پاس ۷ حصے تھے جو ان پر تقسیم نہیں ہوتے، اور ان کے درمیان اور روٴس کے درمیان تباین ہے۔ لہٰذا لڑکوں کے فریق کے روٴس کو (جو ۱۵ تھے) پہلے لڑکیوں کے فریق کے روٴس سے (جو ۸ ہیں) ضرب دیں گے، حاصلِ ضرب ۱۲۰ نکلا، پھر ۱۲۰ کو اصل یعنی ۲۳ سے ضرب دیں گے، یہ ۲۷۶۰ ہوئے، اب لڑکوں کے حصوں (۱۶) کو ۱۲۰ سے ضرب دی تو ۱۹۲۰ لڑکوں کے فریق کا حصہ نکل آیا، اور وہ پندرہ پر تقسیم کیا تو لڑکی کا حصہ ۱۲۸ اور لڑکوں کا ۷۹۲ ہوا۔ ادھر لڑکیوں کے ۷ حصوں کو ۱۲۰ سے ضرب دیں تو ۸۴۰ ان کا حصہ نکل آیا، اسے آٹھ پر تقسیم کیا تو بیٹے کا حصہ ۲۱۰ اور بیٹیوں کا ۶۳۰ ہوا۔

تیسری پشت میں دُوسری پشت کے لڑکوں اور لڑکیوں کو پھر الگ خانوں میں بانٹ دیا۔ چنانچہ فریقِ اوّل میں سات لڑکے الگ اور ایک لڑکی الگ کردی گئی، اور اس لڑکی کے نیچے چھٹی پشت تک کوئی اختلاف نہیں، اس لئے اس کا حصہ آخری پشت کو منتقل کردیا گیا۔ اسی طرح فریقِ دوم میں بیٹے کو الگ اور چھ بیٹیوں کو الگ کردیا گیا، اور چونکہ بیٹے کے نیچے آخر تک کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے اس کا حصہ اس کے چھٹی پشت کے وارث کو دے دیا گیا۔ اب فریقِ اوّل میں تین بیٹوں کے نیچے ایک بیٹی ہے جو چار کے قائم مقام ہے اور ایک بیٹا ہے جو دو بیٹیوں کے قائم مقام ہے اور ایک بیٹی تنہا ہے، لہٰذا ان کا مسئلہ ۹ سے نکلا، مگر ان کے حصے ۱۷۹۲ نو پر تقسیم نہیں ہوتے، اس لئے اصل مسئلہ کو ۹ سے ضرب دی، حاصلِ ضرب ۲۴۸۴۰ ہوا، پھر فریقِ اوّل کے حصہ ۱۷۹۲ کو ۹ سے ضرب دی تو ۱۶۱۲۸ ہوئے، ان میں سے بیٹے کا حصہ (جو دو بیٹوں یعنی کہ چار لڑکیوں کے برابر تھے) ۷۱۶۸ نکلا، اور پانچ بیٹیوں کا حصہ ۸۹۶۰ نکلا۔ ادھر فریقِ دوم کے پاس ۶۳۰ حصے تھے، ان کو ۹ سے ضرب دی تو ان کے حصے ۵۶۷۰ بن گئے، اس فریق کے روٴس ۷ ہیں۔ پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا، جب ۵۶۷۰ کو ۷ پر تقسیم کیا تو بیٹے کا حصہ ۱۶۲۰ ہوا اور ۵ بیٹیوں کا حصہ ۴۰۵۰ ہوا، اب دونوں فریقوں کے بیٹوں کا حصہ الگ اور بیٹیوں کا حصہ جدا کردیا گیا۔

چوتھی پشت میں فریقِ اوّل کی بیٹیوں کے نیچے چار وارث ہیں۔ بیٹا، بیٹی (جو دو کے قائم مقام ہے) بیٹی، بیٹی، ان کا مسئلہ چھ سے نکلا۔ جبکہ ان کے حاصل شدہ حصے ۸۹۶۰ چھ پر تقسیم نہیں ہوتے، لہٰذا اصل مسئلہ کو چھ سے ضرب دینے کی ضرورت ہوگی۔ ادھر فریقِ دوم میں ایک بیٹا دو بیٹیوں کے قائم مقام ہے، اور ایک بیٹی تین بیٹیوں کے قائم مقام ہے، لہٰذا ان کا مسئلہ ۷ سے نکلا، اور ان کے حصے ۴۰۵۰ سات پر تقسیم نہیں ہوتے، لہٰذا سات کو بھی اصل مسئلہ سے ضرب دینے کی ضرورت ہوگی۔ پہلے فریقِ اوّل کے روٴس ”۶“ کو فریقِ دوم کے روٴس ”۷“ سے ضرب دی، حاصلِ ضرب ۴۲ نکلا، پھر اس حاصلِ ضرب کو اصل مسئلہ ۲۴۸۴۰ سے ضرب دی تو حاصلِ ضرب ۱۰۴۳۲۸۰ نکلا، اسی سے پوری تقسیم ہوگی، فریقِ اوّل ۸۹۶۰ حصوں کو ۴۲ سے ضرب کیا تو ۳۷۶۳۲۰ ہوئے، ان کو چھ پر تقسیم کیا تو لڑکے کا حصہ ۱۲۵۴۴۰ نکل آیا، اور چار لڑکیوں کا ۲۵۰۸۸۰ نکلا۔ ادھر فریقِ دوم کے ۴۰۵۰ حصوں کو ۴۲ سے ضرب دی تو ۱۷۰۱۰۰ ہوئے۔ ان کو سات پر تقسیم کیا تو بیٹے کا (جو دو بیٹیوں کے قائم مقام ہے)، حصہ ۹۷۲۰۰ نکلا، اور بیٹی کا، جو تین بیٹیوں کی جگہ ہے، حصہ ۷۲۹۰۰ ہوا۔ اب ہم نے دونوں فریقوں کے بیٹے اور بیٹیوں کو پھر الگ الگ کردیا۔

پانچویں پشت میں فریقِ اوّل میں تین لڑکوں کے نیچے تین وارث ہیں، ایک بیٹا جو دو کے قائم مقام ہے، ایک بیٹی، اور ایک بیٹا، ان کا مسئلہ ۷ سے نکلا، ان کے حاصل شدہ حصوں ۲۵۰۸۸۰ کو سات پر تقسیم کیا تو بیٹی کا حصہ ۳۵۸۴۰ نکل آیا، اور تین بیٹوں کا حصہ ۲۱۵۰۴۰ ہوا، اور فریقِ دوم میں بیٹے کے نیچے بیٹا اور بیٹی کے نیچے بیٹی ہے۔ اس لئے ان کا حصہ بلا کم و کاست دونوں کے نیچے کے وارثوں کو منتقل کردیا۔

چھٹی پشت میں نمبر۱ اپنے دادا کا تنہا وارث ہے، اس لئے اس کے حصے ۱۲۵۴۴۰ اس کو منتقل کردئیے۔ نمبر۲، نمبر۳ اور نمبر۵ کو دو لڑکوں کی وراثت ملی، جو تین کے برابر ہیں، اور ان کے حصے ۲۱۵۰۴۰ ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ کے اُصول سے ان کو دئیے گئے تو نمبر۲ کا حصہ ۴۳۰۰۸، نمبر۳ کا ۸۶۰۱۶، اور نمبر۵ کا ۸۶۰۱۶ نکلا، نمبر۴ اپنی والدہ کی تنہا وارث ہے، لہٰذا اس کا حصہ ۳۵۸۴۰ اس کو ملا، نمبر۶ اور نمبر۷ اپنے پرنانا کے وارث ہیں، اس کا حصہ ۳۰۱۰۵۶ دونوں کو برابر دیا گیا تو ہر ایک کا حصہ ۱۵۰۵۲۸ ہوا۔ نمبر۸ والی لڑکی اپنی دادی کی دادی کی تنہا وارث ہے، اس لئے اس کا حصہ ۴۸۳۸۴ اس کو ملا۔ نمبر۹ اپنے نانا کے نانا کا تنہا وارث ہے، لہٰذا اس کا حصہ ۷۹۳۸۰ اس کو ملا۔ نمبر۱۰ اور نمبر۱۱ پر ان کے دادا کے ۹۷۲۰۰ حصے ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ کے قاعدے سے تقسیم کئے گئے تو نمبر۱۰ کا حصہ ۳۲۴۰۰ اور نمبر۱۱ کا ۶۴۸۰۰ ہوا۔ نمبر۱۲ اپنی والدہ کے دادا کی تنہا وارث ہے، اس کا حصہ ۶۸۰۴۰ اس کو مل گیا۔ نمبر۱۳، نمبر۱۴ اور نمبر۱۵ اپنی نانی کے تین وارث ہیں۔ اس کا حصہ ۷۲۹۰۰ ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ کے قاعدے سے ان پر تقسیم ہوا تو نمبر۱۳ کو ۳۶۴۵۰، نمبر۱۴ کو ۱۸۲۲۵ اور نمبر۱۵ کو بھی ۱۸۲۲۵ ملے۔ ایک الگ کاغذ پر تقسیم کا نقشہ بھی لکھ کر بھیج رہا ہوں، کیونکہ آپ نے سوال کے خانے چھوٹے رکھے ہیں جن میں حصوں کا اندراج مشکل ہے۔