ایصالِ ثواب کے لئے آنحضرت ﷺ سے شروع کیا جائے
س… میں ذکر کرنے سے پہلے ایک بار سورہٴ فاتحہ، تین بار قل ہو اللہ شریف، اوّل آخر دُرود شریف پڑھ کر اس طرح دُعا کرتا ہوں: “یا اللہ! اس کا ثواب میرے مخدوم و مکرم حضرت ․․․․․ دامت برکاتہم سے لے کر میرے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک میرے سلسلے کے تمام مشائخ کرام تک پہنچادے اور ان کے فیوض و برکات سے ہمیں بھی حصہ نصیب فرمادے۔
ج… حضرتِ شیخ نوّر اللہ مرقدہ کے سلسلے کے مطابق گیارہ بار دُرود شریف اور تیرہ بار قل ہو اللہ شریف پڑھ کر (اور اس کے ساتھ اگر سورہٴ فاتحہ بھی پڑھ لی جائے تو بہت اچھا ہے) ایصالِ ثواب کیا جائے اور ابتدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمِ مبارک سے کی جائے، باقی ٹھیک ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ کے لئے نوافل سے ایصالِ ثواب کرنا
س… میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایصالِ ثواب کے لئے روزانہ سورہٴ یٰسین کی تلاوت کرتا تھا، اب کچھ عرصے سے یہ عمل دو رکعت نفل کے ذریعے ادا کرتا ہوں، کیا اس طرح کرنے میں ذاتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام میں کوئی کوتاہی تو نہیں؟
ج… کوئی حرج نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بدنی اور مالی عبادات کے ذریعے ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا محبت کی بات ہے۔
آنحضرت ﷺ کے لئے ایصالِ ثواب، اِشکال کا جواب
س… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسئلے کے متعلق کہ مسلمان حضرات بخدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایصالِ ثواب کرتے ہیں، ہمارے ایصالِ ثواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ جبکہ آپ دوجہانوں کے سردار ہیں، اور جنت کے اعلیٰ ترین مقام آپ کے لئے یقینی ہیں۔
دُرود و سلام تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بھیجتے ہیں، کما فی النص، اپنے کسی عزیز کو ایصالِ ثواب کرنے کی وجہ معقول ہے، اس کی بخشش کے لئے، اور رفعِ درجات کے لئے۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایصالِ ثواب کرنے کی حقیقت پر روشنی ڈالئے، اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا صحیح جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
ج… اُمت کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایصالِ ثواب نصوص سے ثابت ہے، چنانچہ ایصالِ ثواب کی ایک صورت آپ کے لئے ترقیٴ درجات کی دُعا،اور مقامِ وسیلہ کی درخواست ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
“اذا سمعتم الموٴذّن فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علیّ فانہ من یصلی علیّ صلٰوة صلی الله علیہ وسلم بھا عشرًا، ثم سلوا الله لی الوسیلة فانھا منزلة فی الجنة لا ینبغی الا لعبد من عباد الله وارجوا ان اکون انا ھو، فمن سأل لی الوسیلة حلت علیہ الشفاعة۔” (مشکوٰة ص:۶۴)
ترجمہ:… “جب تم موٴذّن کو سنو تو اس کی اذان کا اسی کی مثل الفاظ سے جواب دو، پھر مجھ پر دُرود پڑھو، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار دُرود پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے “وسیلہ” کی درخواست کرو، یہ ایک مرتبہ ہے جنت میں، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے شایانِ شان ہے، اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، پس جس شخص نے میرے لئے وسیلہ کی درخواست کی، اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی۔”
اور صحیح بخاری میں ہے:
“من قال حین سمع النداء، اللّٰھم رب ھٰذہ الدعوة التامة والصلٰوة القائمة اٰت محمدن الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقامًا محمودن الذی وعدتہ، حلت لہ شفاعتی یوم القیامة۔” (مشکوٰة ص:۶۵)
ترجمہ:…”جو شخص اذان سن کر یہ دُعا پڑھے: “اے اللہ! جو مالک ہے اس کامل دعوت کا، اور قائم ہونے والی نماز کا، عطا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت اور کھڑا کر آپ کو مقامِ محمود میں، جس کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے” قیامت کے دن اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمرہ کے لئے تشریف لے جارہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُخصت کرتے ہوئے فرمایا:
“لا تنسنا یا اخی من دعائک۔ وفی روایة: اشرکنا یا اخی فی دعائک۔”
(ابوداوٴد ج:۱ ص:۲۱۰، ترمذی ج:۲ ص:۱۹۵)
ترجمہ:…”بھائی جان! ہمیں اپنی دُعا میں نہ بھولنا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: بھائی جان! اپنی دُعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا۔”
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حیاتِ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دُعا مطلوب تھی، اسی طرح وصال شریف کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دُعا مطلوب ہے۔
ایصالِ ثواب ہی کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کی جائے، حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم فرمایا تھا:
“عن حنش قال رأیت علیًّا رضی الله عنہ یضحی بکبشین، فقلت لہ: ما ھٰذا؟ فقال: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اوصانی ان اضحی عنہ، فانا اضحی عنہ۔” (ابوداوٴد، باب الاضحیة عن المیّت ج:۲ ص:۲۹)
ترجمہ:…”حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مینڈھوں کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: یہ کیا؟ فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، سو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔”
“وفی روایة: امرنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ ابدًا۔”
(مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۰۷)
“وفی روایة: فلا ادعہ ابدًا۔” (ایضاً ج:۱ ص:۱۴۹)
ترجمہ:…”ایک روایت میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، سو میں آپ کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرتا ہوں۔”
ترجمہ:…”ایک روایت میں ہے کہ میں اس کو کبھی نہیں چھوڑتا۔”
علاوہ ازیں زندوں کی طرف سے مرحومین کو ہدیہ پیش کرنے کی صورت ایصالِ ثواب ہے، اور کسی محبوب و معظم شخصیت کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس ہدیہ سے اس کی ناداری کی مکافات ہوگی، کسی بہت بڑے امیر کبیر کو اس کے احباب کی طرف سے ہدیہ پیش کیا جانا عام معمول ہے، اور کسی کے حاشیہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں کہ ہمارے اس حقیر ہدیہ سے اس کے مال و دولت میں اضافہ ہوجائے گا، بلکہ صرف ازدیادِ محبت کے لئے ہدیہ پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں گناہگار اُمتیوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کے ذریعہ ہدیہ پیش کرنا اس وجہ سے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حقیر ہدایا کی احتیاج ہے، بلکہ یہ ہدیہ پیش کرنے والوں کی طرف سے اظہارِ تعلق و محبت کا ایک ذریعہ ہے، جس سے جانبین کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس کا نفع خود ایصالِ ثواب کرنے والوں کو پہنچتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجاتِ قرب میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی نے ردالمحتار میں باب الشہید سے قبیل اس مسئلے پر مختصر سا کلام کیا ہے، اتمامِ فائدہ کے لئے اسے نقل کرتا ہوں:
“ذکر ابن حجر فی الفتاویٰ الفقھیة ان الحافظ ابن تیمیة زعم منع اھداء ثواب القرائة للنبی صلی الله علیہ وسلم لان جنابہ الرفیع لا یجرأ علیہ الا بما اذن فیہ وھو الصلٰوة علیہ وسوال الوسیلة لہ۔
قال: وبالغ السبکی وغیرہ فی الردّ علیہ بان مثل ذٰلک لا یحتاج لاذن خاص الا تری ان ابن عمر کان یعتمر عنہ صلی الله علیہ وسلم عمرًا بعدہ موتہ من غیر وصیة وحج ابن الموفق وھو فی طبقة الجنید عنہ سبعین حجة وختم ابن السراج عنہ صلی الله علیہ وسلم اکثر من عشرة اٰلاف ختمة وضحی عنہ مثل ذٰلک۔ اھ۔
قلت: رأیت نحو ذٰلک بخط مفتی الحنفیة الشھاب احمد بن الشلبی شیخ صاحب البحر نقلًا عن شرح الطیبة للنویری ومن جملة ما نقلہ ان ابن عقیل من الحنابلة قال: یستحب اھدائھا لہ صلی الله علیہ وسلم۔
قلت: وقول علمائنا لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ، یدخل فیہ النبی صلی الله علیہ وسلم فانہ احق بذٰلک حیث انقذنا من الضلالة ففی ذٰلک نوع شکر واسدأ جمیل لہ والکامل قابل لزیادة الکمال وما استدل بہ بعض المانعین من انہ تحصیل الحاصل لان جمیع اعمال امتہ فی میزانہ یجاب عنہ بانہ لا مانع من ذٰلک فان الله تعالیٰ اخبرنا بانہ صلی علیہ ثم امرنا بالصلٰوة علیہ بان نقول اللّٰھم صل علی محمد، والله اعلم۔” (شامی ج:۲ ص:۲۴۴، طبع مصر)
ترجمہ:…”ابنِ حجر (مکی شافعی) نے فتاویٰ فقہیہ میں ذکر کیا ہے کہ حافظ ابنِ تیمیہ کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوت کے ثواب کا ہدیہ کرنا ممنوع ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں صرف اسی کی جرأت کی جاسکتی ہے جس کا اذن ہو، اور وہ ہے آپ پر صلوٰة و سلام بھیجنا اور آپ کے لئے دُعائے وسیلہ کرنا۔
ابنِ حجر کہتے ہیں کہ: امام سبکی وغیرہ نے ابنِ تیمیہ پر خوب خوب رَدّ کیا ہے کہ ایسی چیز اذنِ خاص کی محتاج نہیں ہوتی، دیکھتے نہیں ہو کہ ابنِ عمر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرے کیا کرتے تھے، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی وصیت بھی نہیں فرمائی تھی۔ ابن الموفق نے جو جنید کے ہم طبقہ ہیں، آپ کی طرف سے ستر حج کئے، ابن السراج نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار ختم کئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتنی ہی قربانیاں کیں۔
میں کہتا ہوں کہ میں نے اسی قسم کی بات مفتی حنفیہ شیخ شہاب الدین احمد بن الشلبی، جو صاحبِ بحر الرائق کے اُستاذ ہیں، کی تحریر میں بھی دیکھی ہے، جو موصوف نے علامہ نیویری کی “شرح الطیبہ” سے نقل کی ہے، اس میں موصوف نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حنابلہ میں سے ابنِ عقیل کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہٴ ثواب مستحب ہے۔
میں کہتا ہوں کہ ہمارے علماء کا یہ قول کہ: “آدمی کو چاہئے کہ اپنے عمل کا ثواب دُوسروں کو بخش دے” اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے ہمیں گمراہی سے نجات دلائی، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثواب کا ہدیہ کرنے میں ایک طرح کا تشکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا اعتراف ہے، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ہر اعتبار سے کامل ہیں، مگر) کامل زیادتِ کمال کے قابل ہوتا ہے۔ اور بعض مانعین نے جو استدلال کیا ہے کہ یہ تحصیلِ حاصل ہے، کیونکہ اُمت کے تمام عمل خود ہی آپ کے نامہٴ عمل میں درج ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ چیز ایصالِ ثواب سے مانع نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں، اس کے باوجود ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کے لئے رحمت طلب کرنے کے لئے اللّٰھم صل علیٰ محمد کہا کریں۔”
س… میں قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کے اکابر علمائے دین کو ایصالِ ثواب کرتا ہوں، لیکن چند روز سے ایک خیال ذہن میں آتا ہے، جس کی وجہ سے بے حد پریشان ہوں، خیال یہ ہے کہ ہم لوگ ان ہستیوں کو ثواب پہنچا رہے ہیں جن پر خدا خود دُرود و سلام پیش کرتا ہے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو، توبہ توبہ! معاذ اللہ! ہم اتنے بڑے ہیں کہ چند آیات پڑھ کر اس کا ثواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچا رہے ہیں، یہ تو نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
ج… ایصالِ ثواب کی ایک صورت تو یہ ہے کہ دُوسرے کو محتاج سمجھ کر ثواب پہنچایا جائے، یہ صورت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مقبولانِ الٰہی کے حق میں نہیں پائی جاتی، اور یہی منشا ہے آپ کے شبہ کا، اور دُوسری صورت یہ ہے کہ ان اکابر کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں، اور احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی خدمت میں کوئی ہدیہ پیش کیا کریں، ظاہر ہے کہ ان اکابر کی خدمت میں ایصالِ ثواب اور دُعائے ترقیٴ درجات کے سوا اور کیا ہدیہ پیش کیا جاسکتا ہے؟ پس ہمارا ایصالِ ثواب اس بنا پر نہیں کہ ․․․معاذ اللہ․․․ یہ حضرات ہمارے ایصالِ ثواب کے محتاج ہیں، بلکہ یہ حق تعالیٰ شانہ کی ہم پر عنایت ہے کہ ایصالِ ثواب کے ذریعے ہمارے لئے ان اکابر کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے کا دروازہ کھول دیا، جس کی بدولت ہمارا حق احسان شناسی بھی ادا ہوجاتا ہے اور ان اکابر کے ساتھ ہمارے تعلق و محبت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، اس سے ان اکابر کے درجات میں بھی مزید ترقی ہوتی ہے، اس کی برکت سے ہماری سیئات کا کفارہ بھی ہوتا ہے، اور ہمیں حق تعالیٰ شانہ کی عنایت سے بے پایاں حصہ ملتا ہے۔ اس کی مثال ایسی سمجھ لیجئے کہ کسی غریب مزدور پر بادشاہ کے بہت سے احسانات ہوں اور وہ اپنے تقاضائے محبت کی بنا پر کوئی ہدیہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہے اور بادشاہ ازراہ مراحم خسروانہ اس کے ہدیہ کو قبول فرماکر اسے اپنے مزید انعامات کا مورد بنائے، یہاں کسی کو یہ شبہ نہیں ہوگا کہ اس فقیر درویش کا ہدیہ پیش کرنا بادشاہ کی ضرورت کی بنا پر ہے، نہیں! بلکہ یہ خود اس مسکین کی ضرورت ہے۔
ایصالِ ثواب کا مرحوم کو بھی پتہ چلتا ہے اور اس کو بطور تحفے کے ملتا ہے
س… ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھی جائے، قرآن خوانی کی جائے یا صدقہٴ جاریہ میں پیسے دئیے جائیں، تو کیا مرحوم کی رُوح کو اس کا علم ہوتا ہے؟
ج… جی ہاں! ہوتا ہے، ایصالِ ثواب کے لئے جو صدقہ خیرات آپ کریں گے، یا نماز، روزہ، دُعا، تسبیح، تلاوت کا ثواب آپ بخشیں گے، تو اس کا اجر و ثواب میّت کو آپ کے تحفے کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر احادیث کا لکھنا طوالت کا موجب ہوگا۔
مسلمان خواہ کتنا ہی گناہگار ہو، اس کو خیرات کا نفع پہنچتا ہے
س… بعض علماء سے سنا ہے کہ کسی آدمی کے فوت ہونے کے بعد اگر وہ آدمی خود نیک نہیں گزرا ہو یا نیک عمل نہیں ہو تو خیرات، ختمِ قرآن شریف یا اس کی اولاد کی دُعا، کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی، یہ کہاں تک صحیح ہے؟
ج… مسلمان خواہ کتنا ہی گناہگار ہو، اس کو نفع پہنچتا ہے، کافر کو نہیں پہنچتا۔ آپ نے جو سنا ہے (بشرطیکہ آپ کو صحیح یاد ہو) اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آدمی کو نیکی کا خود اہتمام کرنا چاہئے، جس شخص نے عمر بھر نہ نماز، روزہ کیا، نہ حج و زکوٰة کی پروا کی، نہ کبھی قرآنِ کریم کی تلاوت کی اسے توفیق ہوئی، بلکہ کلمہ صحیح سیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی، ایسے شخص کے مرنے پر لوگوں کی قرآن خوانی یا تیجا، چالیسواں کرنے کی جو رسم ہے، اس سے اس کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ لوگ فرائض و واجبات کا ایسا اہتمام نہیں کرتے، جیسا ان رُسوم کا اہتمام کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
لاپتہ شخص کے لئے ایصالِ ثواب جائز ہے
س… میرے شوہر بارہ سال سے لاپتہ ہیں، گمشدگی کے وقت ان کی عمر کم و بیش ۴۲ سال تھی، ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا ان کا انتقال ہوگیا ہے، ہم لوگوں نے فالناموں اور دُوسرے متعدّد طریقوں سے معلوم کیا تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اگر ان کا انتقال ہوگیا ہو تو ان کی رُوح کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی وغیرہ کرائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم لوگ سب پریشان ہیں کہ اگر ان کا انتقال ہوگیا ہے تو ان کے لئے ہم لوگوں نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا ہے، آپ بتائیں کہ اس مسئلے کا شریعت میں کیا حل ہے؟ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
ج… جب تک خاص شرائط کے ساتھ عدالت ان کی وفات کا فیصلہ نہ کرے، اس وقت تک ان کی وفات کا حکم تو جاری نہیں ہوگا، تاہم ایصالِ ثواب میں کوئی مضائقہ نہیں، ایصالِ ثواب تو زندہ کے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ فالناموں کے ذریعہ پتہ چلانا غلط ہے، ان پر یقین کرنا بھی جائز نہیں۔
مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب کا طریقہ
س… ہمارے جو بزرگ فوت ہوگئے ہیں ان کی رُوح کو ثواب بخشنے کے لئے کھانا وغیرہ کھلانا کیسا ہے؟ اور ثواب بخشنے کا کیا طریقہ ہے؟ مہربانی کرکے اس مسئلے پر پوری روشنی ڈالئے۔
ج… مرحومین کو ایصالِ ثواب کے مسئلے میں چند اُمور پیشِ خدمت ہیں، آپ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
۱:… مرحومین کے لئے، جو اس دُنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں، زندوں کا بس یہی ایک تحفہ ہے کہ ان کو ایصالِ ثواب کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض پیرا ہوا: یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔ (ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مشکوٰة ص:۴۲۰)
ایک اور حدیث میں ہے کہ: کسی شخص کے والدین کا انتقال ہوجاتا ہے، یہ ان کی زندگی میں ان کا نافرمان تھا، مگر ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دُعا، اِستغفار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ماں باپ کا فرماں بردار لکھ دیتے ہیں۔ (بیہقی شعب الایمان، مشکوٰة ص:۴۲۱)
ایک اور حدیث میں ہے کہ: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے لئے مفید ہوگا؟ فرمایا: ضرور! اس نے عرض کیا کہ: میرے پاس باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کردیا۔ (ترمذی ص:۱۴۵)
۲:… ایصالِ ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ جو نیک عمل آپ کریں اس کے کرنے سے پہلے نیت کرلیں کہ اس کا ثواب جو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ میّت کو عطا کرے، اسی طرح کسی نیک عمل کرنے کے بعد بھی یہ نیت کی جاسکتی ہے اور اگر زبان سے بھی دُعا کرلی جائے تو اچھا ہے۔
الغرض کسی نیک عمل کا جو ثواب آپ کو ملنا تھا، آپ وہ ثواب میّت کو ہبہ کردیتے ہیں، یہ ایصالِ ثواب کی حقیقت ہے۔
۳:… امام شافعی کے نزدیک میّت کو صرف دُعا اور صدقات کا ثواب پہنچتا ہے، تلاوتِ قرآن اور دیگر بدنی عبادت کا ثواب نہیں پہنچتا، لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر نفلی عبادت کا ثواب میّت کو بخشا جاسکتا ہے۔ مثلاً: نفلی نماز، روزہ، صدقہ، حج، قربانی، دُعا و اِستغفار، ذکر، تسبیح، دُرود شریف، تلاوتِ قرآن وغیرہ۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ شافعی مذہب کے محققین نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر قسم کی عبادت کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جاتا رہے، مثلاً: قربانی کے دنوں میں اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو مرحوم والدین یا اپنے دُوسرے بزرگوں کی طرف سے بھی قربانی کریں، بہت سے اکابر کا معمول ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح نفل نماز، روزے کا ثواب بھی پہنچانا چاہئے، گنجائش ہو تو والدین اور دیگر بزرگوں کی طرف سے نفلی حج و عمرہ بھی کیا جائے۔ ہم لوگ چند روز مُردوں کو روپیٹ کر ان کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، یہ بڑی بے مروّتی کی بات ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں میّت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں ڈُوب رہا ہو، وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کیا کوئی اس کی دستگیری کے لئے آتا ہے؟ اسی طرح قبر میں میّت بھی زندوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کی منتظر رہتی ہے، اور جب اسے صدقہ و خیرات وغیرہ کا ثواب پہنچتا ہے تو اسے اتنی خوشی ہوتی ہے گویا اسے دُنیا بھر کی دولت مل گئی۔
۴:… صدقات میں سب سے افضل صدقہ جس کا ثواب میّت کو بخشا جائے، صدقہٴ جاریہ ہے، مثلاً: میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے کسی ضرورت کی جگہ کنواں کھدوادیا، کوئی مسجد بنوادی، کسی دینی مدرسہ میں تفسیر، حدیث یا فقہ کی کتابیں وقف کردیں، قرآنِ کریم کے نسخے خرید کر وقف کردئیے، جب تک ان چیزوں سے استفادہ ہوتا رہے گا، میّت کو اس کا برابر ثواب ملتا رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ مرنے سے پہلے وصیت نہیں کرسکیں، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں موقع ملتا تو ضرور وصیت کرتیں، کیا اگر ان کی طرف سے صدقہ کردوں تو ان کو پہنچے گا؟ فرمایا: ضرور! عرض کیا: کیا صدقہ کردوں؟ فرمایا: پانی بہتر ہے! حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ: یہ سعد کی والدہ کے لئے ہے۔ (صحیح بخاری)
۵:… ایصالِ ثواب کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ میّت کو اسی چیز کا ثواب پہنچے گا جو خالصتاً لوجہ اللہ دی گئی ہے، اس میں نمود و نمائش مقصود نہ ہو، نہ اس کی اُجرت اور معاوضہ لیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایصالِ ثواب کرتے ہیں، مگر اس میں نمود و نمائش کی ملاوٹ کردیتے ہیں، مثلاً: مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے دیگ اُتارتے ہیں، اگر ان سے یہ کہا جائے کہ جتنا خرچ تم اس پر کر رہے ہو، اسی قدر رقم یا غلہ کسی یتیم، مسکین کو دے دو، تو اس پر ان کا دِل راضی نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ چپکے سے کسی یتیم، مسکین کو دینے میں وہ نمائش نہیں ہوتی جو دیگ اُتارنے میں ہوتی ہے۔ اس عرض کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ کھانا کھلاکر ایصالِ ثواب نہیں ہوسکتا، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو حضرات ایصالِ ثواب کے لئے کھانا کھلائیں وہ نمود و نمائش سے احتیاط کریں، ورنہ ایصالِ ثواب کا مقصد انہیں حاصل نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ثواب اسی کھانے کا ملے گا جو کسی غریب مسکین نے کھایا ہو، ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے جو کھانا پکایا جاتا ہے اس کو برادری کے لوگ کھاپی کر چلتے بنتے ہیں، فقراء و مساکین کا حصہ اس میں بہت ہی کم لگتا ہے، کھاتے پیتے لوگوں کو ایصالِ ثواب کے لئے دیا گیا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص ایسے کھانے کا منتظر رہتا ہے اس کا دِل سیاہ ہوجاتا ہے۔ الغرض جو کھانا خود گھر میں کھالیا گیا، یا دوست احباب اور برادری کے لوگوں نے کھالیا اس سے ایصالِ ثواب نہیں ہوتا، مُردوں کو ثواب اسی کھانے کا پہنچے گا جو فقراء و مساکین نے کھایا ہو، اور جس پر خیرات کرنے والے نے کوئی معاوضہ وصول نہ کیا ہو، نہ اس سے نمود و نمائش مطلوب ہو۔
کیا ایصالِ ثواب کرنے کے بعد اس کے پاس کچھ باقی رہتا ہے؟
س… میں قرآن شریف ختم کرکے اس کا ثواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خاندان کے مرحومین اور اُمتِ مسلمہ کو بخش دیتا ہوں، تو کیا اس میں میرے لئے ثواب کا حصہ نہیں ہے؟ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے جو کچھ پڑھا وہ دُوسروں کو دے دیا، اب تمہارے لئے اس میں کیا ہے؟
ج… ضابطہ کا معاملہ تو وہی ہونا چاہئے جو اُن صاحب نے کہا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف ضابطہ کا معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ فضل و کرم اور انعام و احسان کا معاملہ ہوتا ہے، اس لئے ایصالِ ثواب کرنے والوں کو بھی پورا اجر عطا فرمایا جاتا ہے، بلکہ کچھ مزید۔
ایصالِ ثواب ثابت ہے اور کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے
س… تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد ثواب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام مسلمان مرد، عورت کو پہنچایا جاتا ہے، ہر روز اور ہر دفعہ بعد تلاوت اس طرح ثواب پہنچانا اپنے ذخیرہٴ آخرت اور سببِ رحمتِ خداوندی حاصل کرنے کے لئے مناسب ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اس طرح اپنا دامن خالی رہ جاتا ہے اور جس کو ثواب پہنچایا اس کو مل جاتا ہے۔
ج… پہلے میں بھی اس کا قائل تھا کہ ایصالِ ثواب کرنے کے بعد ایصال کرنے والے کو کچھ نہیں ملتا، لیکن دو حدیثیں اور ایک فقہی عبارت کسی دوست نے لکھ بھیجی جس سے معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کا اجر ملتا ہے، اور وہ یہ ہیں:
“من مر علی المقابر فقرأ فیھا احدی عشرة مرة قل ھو الله احد ثم وھب اجرہ للأموات اعطی من اجر بعدد الأموات۔” (الراقعی، عن علی، کنز العمال ج:۱۵ ص:۶۵۵ حدیث:۴۲۵۹۵، اتحاف ج:۱۰ ص:۳۷۱)
ترجمہ:…”جو شخص قبرستان سے گزرا اور قبرستان میں گیارہ مرتبہ قل ہو اللہ شریف پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کیا تو اسے مُردوں کی تعداد کے مطابق ثواب عطا کیا جائے گا۔”
“من حج عن ابیہ وامہ فقد قضی عنہ حجتہ وکان لہ فضل عشر حجج۔”
(دارقطنی، عن جابر، فیض القدیر ج:۶ ص:۱۱۶)
ترجمہ:…”جس شخص نے اپنے باپ یا اپنی ماں کی طرف سے حج کیا، اس نے مرحوم کا حج ادا کردیا، اور اس کو دس حجوں کا ثواب ہوگا۔”
(یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، اور دُوسری حدیث میں ایک راوی نہایت ضعیف ہے)
“وقدمنا فی الزکٰوة عن التاترخانیة عن المحیط الأفضل لمن یتصدق نفلًا ان ینوی لجمیع الموٴمنین والموٴمنات لأنھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شیئا۔” (شامی ج:۲ ص:۵۹۵)
ترجمہ:…”اور ہم کتاب الزکوٰة میں تاتارخانیہ کے حوالے سے محیط سے نقل کرچکے ہیں کہ جو شخص نفلی صدقہ کرے اس کے لئے افضل یہ ہے کہ تمام موٴمن مردوں اور عورتوں کی طرف سے صدقہ کی نیت کرلے، کہ یہ صدقہ سب کو پہنچ جائے گا اور اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔”
پوری اُمت کو ایصالِ ثواب کا طریقہ
س… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایصالِ ثواب کے الفاظ کی آپ نے تحسین فرمائی ہے، دیگر حضرات کو ایصالِ ثواب کرنے کے مناسب الفاظ تحریر فرمائیں۔
ج… “یا اللہ! اس کا ثواب میرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے طفیل میرے والدین کو، اساتذہ و مشائخ کو، اہل و عیال کو، اعزّہ و اقربا کو، دوست و احباب کو، میرے تمام محسنین اور متعلقین کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اُمت کو عطا فرما۔”
ایصالِ ثواب کرنے کا طریقہ، نیز دُرود شریف لیٹے لیٹے بھی پڑھنا جائز ہے
س… میرے روزانہ کے معمول میں قرآنِ پاک کی تلاوت میں سورہٴ یٰسین بھی شامل ہے، اگر میں روزانہ سورہٴ یٰسین پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشوں تو یہ فعل دُرست ہوگا؟ کیونکہ مجھے یہ بات نہیں معلوم کہ کیا کیا چیزیں (عمل) ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے؟ نیز دُرود شریف پڑھ کر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے یا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشنا ضروری ہے؟ اور لیٹ کر دُرود شریف پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں؟ ایصالِ ثواب کے متعلق ہی ایک سوال یہ ہے کہ نفل نماز اور روزے، حج وغیرہ کس طرح ایصالِ ثواب کئے جاتے ہیں؟ میں نے کسی سے سنا ہے کہ نماز کی نیت کرکے نماز نفل پڑھی اور بعد میں کہہ دیا کہ اس نفل نماز کا ثواب فلاں کو پہنچے، لیکن طریقہ آپ بتادیں تو میں آپ کی بہت زیادہ مشکور ہوں گی۔
ج… ایصالِ ثواب نماز اور نفلی عبادتوں کا جائز ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، ایصالِ ثواب کا طریقہ آپ نے صحیح لکھا ہے، یعنی نیک عمل کے بعد دُعا کرلی جائے کہ یا اللہ! میرے اس عمل کو قبول فرماکر اس کا ثواب فلاں کو عطا فرما۔ دُرود شریف ادب و احترام کے ساتھ پڑھنا چاہئے، اگر کوئی شخص لیٹا ہوا ہو اور اس وقت سے فائدہ اُٹھاکر لیٹے لیٹے دُرود شریف پڑھتا ہے تو یہ جائز ہے۔
زندوں کو بھی ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے
س… کیا جس طرح میّت کو قرآن مجید پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے، اس طرح اگر کوئی شخص اپنے زندہ والدین کو قرآن کا ختم پڑھ کر ثواب پہنچائے تو ان کو اس کا ثواب پہنچے گا؟ اور کیا وہ ایسا کرسکتا ہے؟
ج… زندہ لوگوں کو بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، مُردوں کو ایصالِ ثواب کا اہتمام اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ خود عمل کرنے سے قاصر ہیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ برسر روزگار کو کچھ ہدیہ بھیج دیں تو اس کو بھی پہنچ جائے گا، مگر زیادہ اہتمام ایسے لوگوں کو دینے کا کیا جاتا ہے جو خود کمانے سے معذور ہوں۔
تدفین سے پہلے ایصالِ ثواب دُرست ہے
س… ایک آدمی جو کہ ہمارا عزیز تھا، مدینہ شریف میں اس کی موت ہوگئی، اس کی لاش ہسپتال میں حکومت نے اسٹور کردی کہ اس آدمی کا وارث آئے گا تو دیں گے، اس آدمی کا وارث یہاں سعودیہ میں کوئی نہیں ہے، کفیل کے ذریعے بھی اگر لاش کو پاکستان بھیجیں تو تقریباً ایک ماہ لگ جائے گا، اس کی موت کے تقریباً ۵ دن بعد ہم لوگوں نے اس کی فاتحہ پڑھی، مگر ہمارے ایک مسجد امام ہیں، حافظِ قرآن بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے، کیونکہ جب تک جنازہ دفن نہ ہوجائے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے، اس بارے میں آگاہ کریں کہ کیا یہ دُرست ہے؟
ج… ایصالِ ثواب تو مرنے کے بعد جب بھی کیا جائے دُرست ہے۔ ایسی لاشوں کو پاکستان بھیجنے کا کیوں تکلف کیا جاتا ہے؟ غسل و کفن اور نمازِ جنازہ کے بعد وہیں دفن کردینا چاہئے۔ آپ کے حافظ صاحب نے جو کہا کہ جب تک میّت کو دفن نہ کیا جائے اس کے لئے ایصالِ ثواب نہ کیا جائے، غلط ہے۔
ایصالِ ثواب کے لئے کسی خاص چیز کا صدقہ ضروری نہیں
س… آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ میرے شوہر وفات پاچکے ہیں، آج کل عام طور پر کھانے کے علاوہ مرحوم کے لئے کپڑے، بستر، جانماز، لوٹا وغیرہ تمام ضرورت کی چیزیں کسی ضرورت مند کو دی جاتی ہیں۔ آپ بتائیں کہ آیا یہ سب دُرست ہے؟ اور کیا واقعی ان سب اشیاء کا ثواب ان کو پہنچے گا یا پہنچتا ہے؟ علاوہ ازیں کوئی اور بھی طریقہ عنایت فرمائیں کہ میرے شوہر کو زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچے، اور اگر ان سب چیزوں کے بجائے اتنی ہی قیمت کے پیسے دے دئیے جائیں تو کیا جب بھی اجر ملے گا؟ اور کیا کسی مرد کے بجائے عورت کو دیا جاسکتا ہے؟ جواب سے جلد نوازیں۔
ج… ایصالِ ثواب کے لئے کسی خاص چیز (کپڑے، بستر، جانماز، لوٹا وغیرہ) کا صدقہ ہی کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر ان چیزوں کی مالیت صدقہ کردی جائے تب بھی ثواب اتنا ہی پہنچے گا، اسی طرح مرد، عورت کی بھی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ جس محتاج کو بھی دے دیا جائے ثواب میں کوئی کمی بیشی نہ ہوگی، ہاں! نیک اور دین دار کو دینے کا زیادہ ثواب ہے۔
دُنیا کو دکھانے کے لئے برادری کو کھانا کھلانے سے میّت کو ثواب نہیں ملتا
س… ضلع مانسہرہ اور صوبہ سرحد کے دیہاتی علاقوں میں جب کوئی آدمی وصال پاتا ہے تو اس وصال والے دن تقریباً دس یا بارہ ہزار روپے خیرات اس طرح کی جاتی ہے کہ چاول، خالص گھی اور چینی، گوشت خرید کر عام لوگ کھاتے ہیں، کچھ لوگ یہ رقم اپنی جائیداد رہن رکھ کر اس خیرات کا اہتمام کرتے ہیں، اور وہاں کے علمائے کرام بھی باقاعدہ کھاتے ہیں، منع کرنے والوں کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ج… کسی مرحوم کے لئے ایصالِ ثواب تو بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ جتنی رقم ایصالِ ثواب کے لئے خرچ کرنی ہو، وہ چپکے سے کسی محتاج کو دے دی جائے، یا کسی دینی مدرسہ میں دے دی جائے، برادری کو کھلانا اکثر بطور رسم دُنیا کو دکھانے کے لئے ہوتا ہے، اس لئے ثواب نہیں ملتا۔
ایصالِ ثواب کے لئے نشست کرنا اور کھانا کھلانا
س… چار جمعرات علیحدہ علیحدہ عورت، مرد کی نشست ایصالِ ثواب کے لئے ہوتی ہے، پھر کھانا بھی کھایا جاتا ہے، پھر چالیسواں میں صاحبِ مال شرکت کرتے ہیں۔
ج… ایصالِ ثواب کے لئے نشستیں کرنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، اس لئے اپنے اپنے طور پر ہر شخص ایصالِ ثواب کرے، اس مقصد کے لئے اجتماع نہ ہونا چاہئے، ایصالِ ثواب کے لئے فقراء و مساکین کو کھانا کھلانے کا کوئی مضائقہ نہیں، مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ میّت کے بالغ وارث اپنے مال سے کھلائیں۔
کیا جب تک کھانا نہ کھلایا جائے مردے کا منہ کھلا رہتا ہے؟
س… سنا اور پڑھا بھی ہے کہ انسان کا مرنے کے بعد دُنیا سے تعلق ختم ہوجائے تو اس کے لئے دُعا کی ضرورت ہے، مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک کھانا کھلایا نہ جائے تو مردے کا منہ قبر کے اندر کھلا رہتا ہے۔
ج… صدقہ و خیرات وغیرہ سے مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنا بہت اچھی بات ہے، کھانا ہی کھلانا ایسا کوئی ضروری نہیں، اور مردے کا منہ کھلا رہنے کی بات، پہلی بار آپ کے خط میں پڑھی ہے، اس سے پہلے نہ کسی کتاب میں پڑھی، نہ کسی سے سنی۔
ختم دینا بدعت ہے، لیکن فقراء کو کھانا کھلانا کارِ ثواب ہے
س… ختم شریف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بعض حضرات ختم خیرات کرتے ہیں لیکن کھانے پر اکثر امیر ہوتے ہیں، جہاں پر زیادہ تعداد میں امیر ہوں وہاں خیرات کا طریقہٴ کار کیا ہونا چاہئے؟ چونکہ بعض حضرات اس کو جائز اس لئے نہیں سمجھتے کہ خیرات کھانا مسکینوں کا حق ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
ج… ختم کا رواج بدعت ہے، کھانا جو فقراء کو کھلایا جائے گا اس کا ثواب ملے گا، اور جو خود کھالیا وہ خود کھالیا، اور جو دوست احباب کو کھلایا وہ دعوت ہوگئی۔
تلاوتِ قرآن سے ایصالِ ثواب کرنا
س… ایصالِ ثواب کے سلسلے میں جو عمومی طریقے رائج ہیں، مثلاً: قرآنِ کریم پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا، وغیرہ، اللہ کی کتاب میں کہیں بھی اس کا حکم نہیں دیا گیا، یہ عقلی بات نہیں بلکہ نقلی ہے۔
ج… جناب کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ ایصالِ ثواب کا مسئلہ عقلی نہیں نقلی ہے، قرآنِ کریم میں موٴمنین و موٴمنات کے لئے دُعا و اِستغفار کا ذکر بہت مقامات پر آیا ہے، جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک موٴمن کا دُوسرے موٴمن کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا مفید ہے، ورنہ قرآنِ کریم میں اس کارِ عبث کو ذکر نہ کیا جاتا، اور احادیثِ صحیحہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دیگر اعمال کا ایصالِ ثواب بھی منقول ہے، اور قرآنِ کریم کی تلاوت کا ایصالِ ثواب بطورِ خاص بھی منقول ہے، ہم اسی ایصالِ ثواب کے قائل ہیں، جو قرآن و حدیث اور بزرگانِ اُمت سے ثابت ہے۔
اور جو نئے نئے طریقے لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں، ان کی میں خود تردید کرچکا ہوں۔
میّت کو قرآن خوانی کا ثواب پہنچانے کا صحیح طریقہ
س… کسی کے انتقال کرنے کے بعد مرحوم کو ثواب پہنچانے کی خاطر قرآن خوانی کرانا دُرست ہے؟
ج… حافظ سیوطی “شرح الصدور” میں لکھتے ہیں کہ: “جمہور سلف اور ائمہ ثلاثہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد) کے نزدیک میّت کو تلاوتِ قرآنِ کریم کا ثواب پہنچتا ہے، لیکن اس مسئلے میں ہمارے امام شافعی کا اختلاف ہے۔”
نیز انہوں نے امام قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ: “شیخ عزّالدین بن عبدالسلام فتویٰ دیا کرتے تھے کہ میّت کو تلاوتِ قرآنِ کریم کا ثواب نہیں پہنچتا، جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے کسی شاگرد کو خواب میں ان کی زیارت ہوئی، اور ان سے دریافت کیا کہ آپ زندگی میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے، اب تو مشاہدہ ہوگیا ہوگا، اب کیا رائے ہے؟ فرمانے لگے کہ: میں دُنیا میں یہ فتویٰ دیا کرتا تھا، لیکن یہاں آکر جو اللہ تعالیٰ کے کرم کا مشاہدہ کیا تو اس فتویٰ سے رُجوع کرلیا، میّت کو قرآنِ کریم کی تلاوت کا ثواب پہنچتا ہے۔” امام محی الدین نووی شافعی “شرح المہذب” (ج:۵ ص:۳۱۱) میں لکھتے ہیں کہ: “قبر کی زیارت کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ جس قدر ہوسکے قرآنِ کریم کی تلاوت کرے، اس کے بعد اہلِ قبور کے لئے دُعا کرے، امام شافعی نے اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس پر ہمارے اصحاب متفق ہیں۔” فقہائے حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی کتابوں میں بھی ایصالِ ثواب کی تصریحات موجود ہیں، اس لئے میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔
دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: “بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!”
سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لئے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لئے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لئے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)
قرآن خوانی کے دوران غلط اُمور اور ان کا وبال
س… قرآن خوانی میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھنا نہیں آتا، وہ شرما شرمی میں پارہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں، اور جب لوگ پڑھ کر رکھتے ہیں تو اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی پڑھے ہوئے پاروں میں رکھ دیتے ہیں، یا کچھ لوگ صحیح نہیں پڑھتے اور جلدی میں تلفظ صحیح ادا نہیں کرتے یا کچھ پڑھتے ہیں کچھ چھوڑ دیتے ہیں، تو اس کا گناہ قرآن خوانی کروانے والے پر ہوگا یا پڑھنے والے پر یا دونوں پر ہوگا؟
ج… جو نہ پڑھنے کے باوجود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے پڑھ لیا وہ گناہگار ہیں، اسی طرح جو غلط سلط پڑھتے ہیں وہ بھی، اور قرآن خوانی کرانے والا اس گناہ کا سبب بنا ہے، اس لئے وہ بھی گناہ میں شریک ہے۔
تیجا، دسواں اور قرآن خوانی میں شرکت کرنا
س… ہمارے مسلم معاشرے میں خودساختہ مذہبی رُسوم پر عمل کیا جاتا ہے، بنیاد اور حقیقت کچھ نہیں، مثلاً: تیجا، دسواں وغیرہ، لیکن پھر بھی حنفی عقیدہ (یعنی مذہب) کیا فرماتا ہے؟ قرآن خوانی کیسے ہے؟ یعنی قل شریف پڑھنا شکر وغیرہ پر، حنفی مسلک اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
ج… مرگ کے موقع پر جو رسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں، وہ زیادہ تر بدعت ہیں، ان کو غلط سمجھنا چاہئے اور حتی الوسع ان میں شریک بھی نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن خوانی ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، اکثر لوگ محض منہ رکھنے کے لئے شریک ہوتے ہیں، خال خال ہوں گے جن کا مقصود واقعی ایصالِ ثواب ہو۔ ایسے موقعوں پر میں یہ کہتا ہوں کہ اتنے پارے پڑھ کر اپنے طور پر ایصالِ ثواب کردوں گا۔
لیکن اگر کسی مجلس میں شریک ہونا پڑے تو اِخلاص کے ساتھ محض ایصالِ ثواب کی نیت ہونی چاہئے، باقی رسوم میں حتی الوسع شرکت نہ کی جائے، اگر کبھی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے۔
میّت کو قبر تک لے جانے کا اور ایصالِ ثواب کا صحیح طریقہ
س… فرض کیا میں مرگیا، مرنے کے بعد قبر تک کیا کیا حکم ہے؟ اس کے بعد قبر تک کا عرصہ اس کے لئے ایصالِ ثواب پہنچانے کا کیا صحیح طریقہ ہے؟ یعنی مرنے کے بعد جنازہ کے ساتھ اُونچا کلمہ پڑھنا، جنازے کے بعد دُعا کرنا، پھل اور دُوسری اشیاء ساتھ لے جانا (توشہ) جمعرات کرنا،چالیسواں کرنا، مسجد کے لئے رقم دینا جس کو زکوٰة کا نام دیا جاتا ہے، آیا وہ رقم جو کہ مسجد کے نام دی جاتی ہے، وہ مسجد کی ہوتی ہے یا کہ امامِ مسجد کی؟ اور وہ مرنے والے کی بخشش کے لئے کارآمد ہے یا کہ نہیں؟
ج… حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی صاحب کی کتاب “اَحکامِ میّت” ان مسائل پر بہت مفید اور جامع کتاب ہے، اس کا مطالعہ ہر مسلمان کو کرنا چاہئے، آپ کے سوال کے مختصر نکات حسبِ ذیل ہیں:
۱:…موت کے بعد سنت کے مطابق تجہیز و تکفین ہونی چاہئے اور اس میں جہاں تک ممکن ہو جلدی کرنے کا حکم ہے۔
۲:…جنازے کے ساتھ آہستہ ذکر کیا جائے، بلند آواز سے ذکر کرنا ممنوع ہے۔
۳:… ایصالِ ثواب کے لئے شریعت نے کوئی وقت مقرّر نہیں فرمایا، نہ دنوں کا تعین فرمایا ہے، بلکہ مالی اور بدنی عبادات کا ایصالِ ثواب جب چاہے کرسکتا ہے۔
۴:… مرنے کے بعد مرحوم کا مال اس کے وارثوں کو فوراً منتقل ہوجاتا ہے، اگر تمام وارث بالغ ہوں اور موجود ہوں، ان میں کوئی نابالغ یا غیرحاضر نہ ہو تو تمام وارث خوشی سے میّت کے لئے صدقہ خیرات کرسکتے ہیں، لیکن اگر کچھ وارث نابالغ ہوں تو ان کے حصے میں سے صدقہ و خیرات جائز نہیں، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں، بلکہ “یتیموں کا مال کھانے” پر جو وعید آتی ہے اس کا وبال لازم آئے گا۔ ہاں! بالغ وارث اپنے حصے سے ایصالِ ثواب کے لئے صدقہ خیرات کریں تو بہت اچھا ہے، یا اگر میّت نے وصیت کی ہو تو تہائی مال کے اندر اندر اس کی وصیت کے مطابق خیر کے کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں۔
نیا پڑھا ہو یا پہلے کا پڑھا ہو، سب کا ثواب پہنچاسکتے ہیں
س… اکثر محفلِ قرآن میں بعض مرد یا خواتین کہتے ہیں کہ انہوں نے اب تک گھر پر مثلاً: ۱۰، ۵ پارے پہلے پڑھے ہیں، وہ اس میں شامل کرلیں، یا پھر اکثر قلت قارئین کی وجہ سے سپارے گھر گھر بھیج دئیے جاتے ہیں، یہ کہاں تک دُرست ہے؟
ج… یہاں چند مسائل ہیں:
۱:… مل کر قرآن خوانی کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے، اگر کی جائے تو سب آہستہ پڑھیں تاکہ آوازیں نہ ٹکرائیں۔
۲:… آدمی نے جو کچھ پڑھا ہو اس کا ثواب پہنچاسکتا ہے، خواہ نیا پڑھا ہو یا پرانا پڑھا ہو۔
۳:… ایصالِ ثواب کے لئے پورا قرآن پڑھوانا ضروری نہیں، جتنا پڑھا جائے اس کا ثواب بخش دینا صحیح ہے۔
۴:…کسی دُوسرے کو پڑھنے کے لئے کہنا صحیح ہے، بشرطیکہ اس کو گرانی نہ ہو، ورنہ دُرست نہیں۔
خود ثواب حاصل کرنے کے لئے صدقہٴ جاریہ کی مثالیں
س… اگر کوئی اپنے وارثوں سے مایوس ہوکر اپنے ثوابِ آخرت کا سامان خود ہی کر جائے، مثلاً: قرآن شریف کے سپارے مسجد میں بھجوادے یا کنواں بنوادے، یا مسجد میں پنکھے لگوادے، تو کیا یہ جائز ہے؟
ج… یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ بہتر اور افضل ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اپنے لئے ذخیرہٴ آخرت جمع کرنے کا اہتمام کرے۔
متوفی کے لئے تعزیت کے جلسے کرنا صحیح مقاصد کے تحت جائز ہے
س… متوفی پر تعزیت کے جلسے کرنا اور بعض کے تو مستقل سالانہ جلسے کرنا، یہ عرس تو نہیں؟ جائز ہیں یا بدعت؟ قرآن و حدیث اور خیرالقرون میں اس عمل کی کوئی مثال ہے؟
ج… تعزیت کا مفہوم اہلِ میّت کو تسلی دینا اور ان کے غم میں اپنی شرکت کا اظہار کرکے ان کے غم کو ہلکا کرنا ہے، جو مأمور بہ ہے، نیز: “اذکروا موتاکم بخیر” میں مرحومین کے ذکر بالخیر کا بھی حکم ہے، پس اگر تعزیتی جلسہ انہی دو مقاصد کے لئے ہو، اور مرحوم کی تعریف میں غیرواقعی مبالغہ نہ کیا جائے تو جائز ہوگا۔ سالانہ جلسہ تو ظاہر ہے کہ فضول حرکت ہے، اور کسی مرحوم کی غیرواقعی تعریف بھی غلط ہے۔ بہرحال تعزیتی جلسہ اگر مذکورہ بالا مقاصد کے لئے ہو تو اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا، کیونکہ ان جلسوں کو نہ بذاتِ خود مقصد تصوّر کیا جاتا ہے، نہ انہیں عبادت سمجھا جاتا ہے۔
عذابِ قبر میں کمی اور نزع کی آسانی کے لئے وظیفہ
س… وہ وظیفے بتائیں جن کے کرنے سے قبر کا عذاب کم ہوتا اور نزع کے وقت کی تکلیف کم ہوتی ہے۔
ج… عذابِ قبر کے لئے سونے سے پہلے سورہٴ تبارک الذی پڑھنی چاہئے، اور نزع کی آسانی کے لئے یہ دُعا پڑھنی چاہئے:
“اللّٰھم اعنی علیٰ سکرات الموت وغمرات الموت۔”