مغربی ممالک میں اوقات نماز

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 619)
مغربی ممالک میں اوقات نماز سے متعلق ایک اہم استفتاء
مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ میں بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی آبادی کی بدولت اوقات نماز کا مسئلہ علماء کرام اور مفتیان عظام کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ مفتیان عظام اس مسئلہ پر غور وخوض کے بعد یہاں بسنے والوں کے لئے دین فطرت کے صحیح آسان اسلامی حل کیذریعہ مسلمانوں کے لئے موقعہ عمل فراہم فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے۔

محکمہ موسمیات اور ہیئت دانوں نے اپنی تحقیق کے مطابق شفق کو تین درجوں میںتقسیم کیا ہے:

۱)سول شفق(Civil Twilight)۶ درجہ والی شفق

۲)شفق بحری(Nautical Twilight) ۱۲ درجہ والی شفق

۳)شفق سیت(Astronomical Twilight) ۱۸ درجہ والی شفق

تفصیل:

سول شفق:سول شفق کو شفق احمر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس وقت آسمان صاف ہوتا ہے رات کے آثار کم ہوتے ہیں چند موٹے موٹے ستارے دکھائی دیتے ہیں۔

شفق بحری: اس شفق کو شفق ابیض سے تعبیر کر سکتے ہیں

شفق سیت:یہ وہ شفق ہے جس کے بعد آسمان پر مکمل تاریکی چھا جاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے تارے دکھائی دیتے ہیں۔ ماہرین فلکیات اس شفق کے بعد اپنے فنی تجربوں میں لگ جاتے ہیں۔

شفق کی اس تفصیل کے بعد اسلامی ممالک نیز ہندو پاک کرہ ارض پر اندرون’’۴۰‘‘ عرض البلد پر واقعہ ہونے کی بنا پر وہاں شفق کی غروب میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا ہے اس لئے ان ممالک میں عموماً نماز عشاء بعد غروب ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سال بھر ہوتی ہے۔

مگر برطانیہ اور وہ ممالک جو’’۴۵‘‘ عرض البلد سے اوپر واقع ہیں وہاں جوں جوں اوپر جانا ہوگا غروب شفق دیر سے ہوگی اور صبح صادق جلدی۔ اسی طرح موسم گرم کے بعض مہینوں اور دنوں میں تو غروب شفق اور ابتداء صبح صادق میں بالکل فصل نہیں ہوتا اور بعض دنوں میں بہت ہی کم فاصلہ رہتا ہے جو امید ہے حسب ذیل مثال سے اچھی طرح واضح ہوجائے گا۔

’’۵۴‘‘عرض البلد(انگلستان کے جس علاقہ) میں ہم رہتے ہیں ۲۰ جون کو طلوع آفتاب اور غروب حسب ذیل ہے۔

طلوع آفتاب ۳۵:۴…غروب شفق بحری ۱۹:۱۲

غروب آفتاب ۴۱:۹… صبح صادق ۵۸:۱

دن کی مقدار ۰۶:۱۷ … درمیانی فاصلہ ۳۸:۱

’’۵۶‘‘ عرض البلد( گلاسکو اور اطراف) پر ۲۰ جون سے ۱۲ جولائی تک شفق بحری غائب ہی نہیں ہوتی۔

’’۵۸‘‘،’’۶۰‘‘ عرض البلد بالائی(اسکاٹ لینڈ اسٹورناولے)۲۱ مئی سے ۲۵ جولائی تک شفق مذکور غائب نہیں ہوتی۔ ان دنوں ساری رات افق پراجالا رہتا ہے۔

مذکورہ حساب کی بنا پر جن مقامات پر یعنی’’۵۴‘‘عرض البلد پر جہاں۱۹:۱۲ کوشفق غائب ہوتی ہے اور ۳۵:۴ کو طلوع ہوتا ہے ہم ۳۰: ۱۲ سے قبل نماز عشاء نہیں پڑھ سکتے اور دوسری طرف فجر کی نماز چار بجے۔ درمیانی فاصلہ صرف ساڑھے تین گھنٹہ کا رہتا ہے۔ نماز عشاء کا یوں موخر کرنا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے۔

نیز بعض ائمہ کے نزدیک جمع بین الصلوٰتین سفر اور اعذار کی بنا پر جائز ہے اور اس پر عرب ممالک کے باشندوں کا انگلستان میں عمل بھی ہے تو کیا حنفی المسلک کے لئے اس میں آسانی کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی جو سارے عوام کے لئے قابل عمل ہو۔

تحقیق اوقات کا یہ مسئلہ صرف نمازوں کی حد تک نہیں آئندہ چند سالوں کے بعد رمضان المبارک بھی انہی مہینوں میں آئے گا تو اس وقت اس مسئلہ کی زیادہ نازک اور سنگین صورت ہوگی مذکورہ حساب کی بنا پر روزہ تو لمبا ہی ہوجائے گا بعض جگہوں پر تو ۱۱:۱۸ منٹ طلوع وغروب آفتاب کا حساب ہوگا اور جن جگہوں پر ۳۸:۱ کا فاصلہ نماز عشاء میں اور فجر صادق کے درمیان رہتا ہے ان کے لئے مختصر سے وقت میں نماز عشاء تراویح سحری وغیرہ کی ادائیگی ناممکن نہ سہی تو مشکل ترین ضرور ہوجاتی ہے، جس کا ادنیٰ حساب ہرایک کرسکتا ہے۔

نیز جو علاقے’’۵۶‘‘ عرض البلد پر واقع ہیں جہاں ۲۲ دن اور جو علاقے’’۵۸‘‘’’۶۰‘‘ عرض البلد پر واقع ہیں جہاں ۶۵ دن( دوماہ) شفق اور صبح صادق کے درمیان فاصلہ نہیں رہتا روزہ کی ابتدا کب سے ہو نیز نماز عشاء و تراویح کااختتام کب ہو سمجھ میں نہیں آتا۔

یادرہے مذکورہ ساری گزارشات عمل کے لئے پوچھی جارہی ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں مسلمان کافی تعداد میں آباد ہیں اور ان کی اچھی خاصی تعداد اس مسئلہ سے دوچار ہے، اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ مفتیان عظام اس مسئلہ پر بڑی سنجیدگی سے غور فرماکر اس کے قابل عمل حل سے ہم دور افتادوں کو نوازیں گے۔

سوال(۲)

برطانیہ میں مختلف مسلک کے لوگ آباد ہیں کوئی شافعی ہیں، تو کوئی حنفی ہیں تو کوئی اور مسلک کا ۔حنفی حضرات نماز عصر مثلین کے بعد پڑھتے ہیں۔ مثلین اور غروب آفتاب میں سردیوں کے موسم میں صرف گھنٹہ بھر کا فاصلہ رہتا ہے اور گرمیوں میں ظہر اور عصر کے درمیان کافی فاصلہ رہتا ہے جن شہروں میں حنفی عوام ہوتے ہیں اور امام حنفی ہوتا ہے تو وہاں یہ مسئلہ اور بھی زیادہ قابل بحث بن جاتا ہے، امام کا اصرار مثلین پر ہوتا ہے اور عوام کا اصرار مثل اولیٰ پر۔ ان کے اصرار کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہاں اکثریت کارخانوں میں کام کرتی ہے وہ موسم گرم میں مثل اولیٰ پرنماز ادا کرکے کارخانہ جا سکتے ہیں اور مثلین کے انتظار تک ان کے کار خانہ کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور بعض کارخانوںمیں نماز کی ادائیگی بہت مشکل ہوجاتی ہے نیز کتب فقہ میں اصفرار شمس کے بعد نماز عصر کو مکروہ لکھا ہے اب یہاں کے موسم میں مثلین کے وقت تو کیا اس سے پہلے سورج میںزردی آجاتی ہے اور نمازتو سارے دن نہیں ہوتی تو کیا ان صورتوں میں نماز عصر کو حنفی المسلک بھی مثل اولیٰ میں ادا کرے تو نماز صحیح ہوگی یا نہیں۔ بینو اتو جروا

٭…٭…٭
مغربی ممالک میں اوقات نماز۔۲
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 620)
سوال(۳):برطانیہ کا موسم اتنا غبار آلود ہے کہ یہاں سارے سال میں شاذونادر چاند کی رویت ہوتی ہے جن ملک میں کئی کئی دن تک آفتاب غبار کی وجہ سے نظر نہ آتا ہو وہاں چاند کی رویت کا سوال کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ جب رویت ہلال کا مسئلہ یوں ہے تو رمضان وعیدین کے تعین کا مسئلہ بھی پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے اور اس مسئلہ میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ سے مراسلت کے بعد جناب والا کے آخری استفتاء کے مطابق آج تقریباً تین سال سے عمل ہو رہا ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ رمضان کے تعین کے بارے میں تو قریبی ملک مراکش سے بذریعہ فون بات چیت ہونے پر ان کی خبر کے مطابق تعین کیاجاتا ہے اور عید رمضان کے لئے ملک میں ۲۹ رمضان کو چاند ثابت نہ ہو تو ۳۰ روزے مکمل کر کے عیدمنائی جاتی ہے اور عیدالاضحی کے لئے عموماً یہاں کے علماء یوں کرتے ہیںکہ ہندو پاک کے خطوط یا یکم ذی الحجہ متعین کر کے اسی کے حساب سے عیدالاضحی کا تعین بھی ہوتا ہے۔

مگر بادی النظر میں یہ کوئی مستقل حل نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ جو صاحب فون کرتے ہیں اگر وہ ملک میں موجود نہ ہوں یا جن کے ساتھ مراکش میں فون پر بات کی جاتی ہے وہ نہ ہوں ان دونوں صورتوں میں یہ بات پھر اسی پر یشانی کا باعث ہوگی۔ نیز خطوط والا مسئلہ بھی کتنی حدتک صحیح ہو تب بھی مستقل حل نہیں۔ یہی وجہ یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ خاص طور پر عرب ممالک کے طلباء اس کو قبول نہ کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے حساب سے تعین رمضان عید کرتے ہیں تو کیا ان مجبوریوں کی صورت میں علامہ سبکیؒ کی تحقیق کے مطابق محکمہ موسمیات والوں کے زمین سے قابل رویت ہونے پر عیدین و رمضان کا تعین کیا جائے تو اس کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

خدا کے فضل سے برطانیہ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ مسلمان آباد ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ان کے بچے بھی یہاں آباد ہیں۔ ملک بھر میںتقریباً ۷۰ سے ۸۰ مساجد قائم ہوگئی ہیں جن میں تراویح نماز پنجگانہ ہو رہی ہے اس قسم کے مسائل لائق توجہ اور قابل غور ہیں۔اس لئے حضرت والا سے صحیح شرعی آسان رہبری کے متوقع ہیں۔

الجواب باسمہٖ تعالیٰ

ج(۱):شفق کے سوال میں جو تین درجے شفق کے نام سے بیان کئے ہیں، شرعاً مداراحکام نہیں ہیں۔ شرعاً تو شفق کے دودرجے ہیں: شفق احمر، شفق ابیض، بعض ائمہ کے نزدیک مغرب کا آخری وقت شفق احمر کا غائب ہونا ہے اور اسی سے عشاء کا وقت شروع ہوجانا ہے، امام ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک شفق ابیض کے غائب ہونے سے مغرب کا وقت ختم ہوتا اور عشاء کاوقت شروع ہوتا ہے، شرح مہذب میں ہے:

اجمعت الامۃ علی ان وقت العشاء تغیب الشفق واختلفوا فی الشفق ھل ھوالحمرۃ أم البیاض ومذھبنا انہ الحمرۃ دون البیاض

شفق احمر اور شفق ابیض میں تین درجے کا فرق ہوتا ہے:

لما فی ردالمحتاران التفاوت بین الشفقین بثلث درج کمابین الفجرین
عام معتدل علاقوں اور ملکوں میںدونوں کے درمیان پندرہ منٹ کا فرق ہوگا اور سوال میں جن علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں زیادہ فرق ہوگا۔

جیسا کہ ابھی تحریر کیا امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک شفق ابیض کا اعتبار ہے، اسی پروقت مغرب ختم ہوتا ہے اور اسی سے عشاء شروع ہوتا ہے، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک شفق احمر کا اعتبار ہے اور بعض کبار حنفیہ نے صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا ہے:

لما فی الدرالمختاروحاشیتہ ردالمختار:ووقت المغرب منہ الی غروب الشفق وھو الحمرۃ عندھما وبہ قالت الثلاثۃ والیہ رجع الامام کمافی شروع المجمع وغیرھا فکان ھو المذھب…لکن تعامل الناس الیوم فی عامۃ البلاد علی قولھما وقد ابدہ فی النھر تبعاً الفقایہ والوقایہ والدرروالاصلاح ودررالبخار والامداد واھب شرحہ البرھان وغیرھم مصرحین بان الیہ فتویٰ وفی سراج قولھما اوسع وقولہ احوط ص۔۲۳۱ ج۱
لہٰذا برطانیہ اور وہ ممالک جو ۴۵ عرض البلد سے اوپر واقع ہیں اور جہاں شفق دیرسے غائب ہوتی ہے وہ صاحبین کے قول پر عمل کریں، غروب شمس کے بعد مغرب کی نماز پڑھیں اور شفق احمر کے غائب ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھیں اس طرح ان کو عشاء کی نماز کا زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا، عشاء اور صبح میں فاصلہ بڑھ جائے گا جن دنوں میں شفق احمر پرعمل کرنے کے باوجود غروب شفق اور طلوع صبح صادق میںفاصلہ بہت ہی کم ہوتا ہے اس میں عشاء کی نماز ہرگز ترک نہ کریں، آرام اور سونے کا وقت دن میں نکالیں البتہ جن ایام میں غروب شفق نہ ہو اور طلوع فجر ہوجائے ، اس صورت حال کو فقہاء’’فقد وقت العشاء‘‘ کے عنوان سے بیان کرتے ہیں اور اس میں فقہاء مختلف ہیں بقالی، حلوانی مرغنیانی کی رائے یہ ہے کہ عشاء اور وتر کی نماز اس صورت میں ذمہ مکلف ساقط ہوجاتی ہے، نہ اداواجب نہ قضاء واجب کیونکہ سبب معدوم ہے۔

کما فی الدرالمختار وقیل لایکلف بھا العدم سببھما وبہ جزم فی الکنزوالدرر و المتلتقی وبہ افتی البقائی وافقہ الحلوانی والمرغینانی ورجحہ الشرنبلالی والحلبی واوسعا المقال ومنعا ما ذکرہ الکمال(علی ھامش درالمختار ص ۲۴۳)
ابن الشخہ کا فیصلہ ہے کہ نماز عشاء ووتر ذمہ مکلف سے ساقط نہیں ہے ضرور پڑھے،کیونکہ قرآن کریم ،احادیث متواترہ سے پانچ نمازوں کی فرضیت معلوم ہو رہی ہے اور اس میں کسی علاقہ، ملک کی تخصیص نہیں ہے، رہا سبب کا مسئلہ تو سبب اجہتادی ہے، نصی نہیں ہے، اس لئے اس صورت میں اس کا اعتبار نہیں ہوگا، صلوات خمسہ کا حکم علی حالہٖ باقی ہے، محققین فقہاء نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، علامہ شیخ محمد اسماعیل کلینوی المتوفی ۱۲۰۵ھ نے اس پر ایک مبسوط رسالہ لکھا ہے اور محقق ابن الہمام کے قول کو ترجیح دی ہے اور اسی کو حکم شریعت قراردیا ہے ، ابن عابدین الشامی نے بھی اسی کو راجح کہا ہے۔

٭…٭…٭
مغربی ممالک میں اوقات نماز۔۳
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 621)
والحاصل انھما قولا مصححان ویتأید القول بالوجوب بانہ قال بہ امام مجتھد وھوالامام الشافعیؒ کما نقلہ فی الحیلہ عن المتوفی عنہ
امام العصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ بھی اس قول کو راجح اور مفتی بہٖ فرمایا کرتے تھے۔ کما اخبرنی بہ فضیلۃ الشیخ البنوری صاحب معارف السنن متعنا اللّٰہ تعالیٰ بطول حیاتہ

لہٰذا وہ لوگ عشاء کی نماز ترک نہ کریں اور علامہ زیلعیؒ کی تحقیق کے مطابق کسی وقت بطور قضا پڑھ لیں۔

کما فی ردالمحتار ’’اذا علمت ذلک ظھر لک ان من قال بالوجوب یقول بہ علی سبیل القضاء لا الادائ‘‘
اور بطور قضاء پڑھنے میں سہولت بھی ہے اس لئے اس کو اختیار کیا جائے۔

جمع بین الصلوٰتین سے آپ نے جو سہولت طلب کی ہے وہ قطعاً صحیح نہیں ہے کیونکہ جمع بین الصلوٰتین حضر میں کسی بھی امام مجتہد کے نزدیک جائز نہیں ہے کما فی بدایۃ المجتھد وشرح المھذب وغیرھا

دن طویل ہوجانے سے روزہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوئی، ہاں اس قدر طویل ہوجائے کہ روزہ رکھنے میں ہلاکت کا اندیشہ ہوتو روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ عام اور معتدل دنوں میں قضاء کرلی جائے۔

غروب طلوع میں فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے افطار، سحری، نماز تراویح کی دقتوں کا حل یہ نکل سکتا ہے کہ افطار کیا جائے، نماز مغرب پڑھی جائے، پھر نماز عشاء فرض و وتر، تراویح کے لئے اگر وقت نہ ملے تو نہ پڑھی جائے اور اگر کم وقت ملے تو بیس نہ پڑھی جائیں تو آٹھ پڑھ لی جائیں یا اس سے بھی کم۔ وہ علاقے جو ۵۶ عرض البلد پر واقع ہیں جہاں ۲۲ دن اور جو علاقے ۵۸، ۶۰ عرض البلد پر واقع ہیں جہاں دو ماہ تک شفق اور صبح صادق کے درمیان فاصلہ نہیں رہتا تو ایسے علاقوں کے لوگوں کے لئے نماز عشاء کا مسئلہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے۔ نماز عشاء کسی وقت پڑھ لیں، روزہ بھی اگر ان دنوں میں آجائے تو نہ رکھیں، بلکہ عام دنوں میں قضاء کریں۔ لما فی رد المحتار:

تتمہ لم ارمن تعرض عندنا لحکم صومھم فیما اذا کان یطلع الفجر عندھم کما تغیب الشمس او بعدہ بزمان لا یقدر فیہ الصائم علی اکل مایقیم بنیتہ ولا یمکن ان یقال بوجوب موالاۃ الصوم علیھم لا انہ یودی الی الھلاک فان قلنا بوجوب الصوم یلزم القول بالتقدیر وھل یقدر لیلھم باقرب البلاد الیھم کما قالہ الشافعیۃ ھنا ایضاً ام یقدر لھم بما یسع الاکل والشرب ام یجب القضاء فقط دون الاداء کل محتمل فلیتامل……ص ۳۳۹ ج ۱

غالباً آخری صورت زیادہ سہل معلوم ہوتی ہے لہٰذا اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

(۲) ایک مثل کے بعد نماز عصر پڑھ لی جائے، نماز صحیح ہوگی، صاحبینؒ کا مسلک ہے امام ابو حنیفہؒ سے بھی ایک روایت ہے:

لما فی ردالمحتار وعنہ مثلہ وھو قولھما وزفروالائمہ الثلاثۃ قال الامام الطحاوی وبہ ناخذ فی غررالاذکار وفی البرھان وھو اظھر لبیان جبریل وھو نص فی الباب وھی الفیض وعلیہ عمل الناس الیوم بہ یفتی علی ھامش ردالمحتار ص ۳۳۳ ج ۱
(۳)رمضان المبارک وعید کے سلسلہ میں محکمہ موسمیات کے حساب پر روزہ شروع کرنے یاعید کرنے کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔ علامہ سبکی کی تحقیق پر بہت سے علماء نے سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کی تغلیط کی ہے کیونکہ شریعت نے رویت کو سبب قرار دیا ہے، حساب کو سبب قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک نیا سبب شریعت کے سبب کے مقابلہ میں اختراع کیا جائے۔

لہٰذا اس سلسلہ میں تو مفتی محمد شفیع مدظلہ العالی کے فتویٰ پر عمل کیا جائے جیسا آپ کے یہاں عمل ہورہا ہے، ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ رمضان سے دو تین ماہ پیشتر رویت ہلال کا اہتمام کیا جائے، شروع ماہ اگر چاند نظر آجائے، تو مہینہ قمری سمجھا جائے اگر اس کے اختتام پر چاند نظر آجائے فبہا ورنہ تیس دن کا مہینہ شمار کیا جائے، اسی طرح رمضان اور عید کا حساب کیا جائے، یہاں مدار صرف حساب پر نہ ہو بلکہ رویت پر ہو، اگرچہ چار پانچ ماہ پہلے کیوں نہ ہو اس صورت کی گنجائش سمجھ میں آجاتی ہے (والعلم عنداللّٰہ) احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام میں ہے:

والذی اقول بہ ان الحساب لا یجوز ان یعتمد علیہ فی الصوم لمفارقۃ القمر الشمس علی مایراء المنجمون من تقدم الشھر بالرویۃ بیوم او یومین فان ذلک احداث السبب لم یشرعہ اللّٰہ تعالیٰ واما اذادل الحساب علی ان ھلال قد طلع من الافق علی وجہ یری لولا وجود المانع کالغیم مثلا فھذا یقتضی الوجوب لوجود السبب الشرعی ولیس حقیقۃ الرویۃ بمشروطۃ فی اللزوم لان الاتفاق علی ان المحبوس فی المطورۃ اذا علم بالحساب باکمال العدۃ اوبالا جتھاد بالامارات ان الیوم من رمضان وجب علیہ الصوم ان لم یرالھلال ولا اخبرہ من راہ (ص ۶ ج ۲)
علاوہ ازیں جب مفتی بہ قول کے مطابق اختلاف مطالع بلاد قریبہ میں نہیں اور ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ کے لئے بھی حجت ہے جبکہ بطریق شرعی پہنچے اور استفاضہ خبر بھی ثبوت رویت کے لئے شرعاً کافی ہے اس لئے آپ اپنے قریب کے اسلامی ریڈیوں پر اعتماد کرکے رمضان اور عید کرسکتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

٭…٭…٭