کفریاتِ پرویز (۵)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 615)
کفریاتِ پرویز
انکارِ معراج:
سورئہ بنی اسرائیل کی آیت اسریٰ میں کہاگیا ہے کہ خدا اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا تاکہ وہاں سے اپنی آیات دکھائے، خیال ہے کہ اگر یہ واقعہ خواب کا نہیں تو یہ حضورﷺ کی شب ہجرت کا بیان ہے اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی جسے آپﷺ نے وہاں جا کر تعمیر فرمایا۔
عقیدئہ تقدیر کا انکار:
مجوسی اساورہ نے یہ سب کچھ اس خاموشی سے کیا کہ کوئی بھانپ ہی نہ سکا کہ اسلام کی گاڑی کس طرح دوسری پٹڑی پر جاپڑی، انہوں نے تقدیر کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دی کہ اسے مسلمانوں میں جزو ایمان بنادیا چنانچہ ہمارے ایمان میں ’’ولقدرخیرہ وشرہ من اللّٰہ تعالیٰ‘‘ کا چھٹا جزوانہی کا داخل کیا ہوا ہے۔
وزن اعمال کی افیون:
اس پیشوائیت نے جس کا ہمارے یہاں ملائیت نام ہے آہستہ آہستہ مسلمانوں کو یہ افیون پلانی شروع کی کہ معاملات دنیا داروں کا حصہ ہیں جو اس مردار کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، مذہب انسان کی ،یہ ہوچکی ہے کہ اقیموا الصلوٰۃ سے ذہن نماز پڑھنے کے علاوہ کسی اور طرف منتقل ہی نہیں ہوتا اور نماز پڑھنے سے مراد ہے خداکی پرستش کرنا۔
۲)قرآن کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا قیام صلوٰۃ یعنی نماز کے نظام (Institution)کے قیام کا حکم دیا ہے۔ مسلمان نمازیں پڑھتے ضرور ہیں لیکن انہوں نے نظام صلوٰۃ کو قائم نہیں کیا، ان کی نماز ایک وقت معینہ کے لئے ایک عمارت( مسجد) کی چاردیواری کے ( اندر) ایک عارضی عمل بن کر رہ جاتی ہے۔( پرویز کے نزدیک اقامۃ الصلوٰۃ سے مراد)
۳)معاشرہ کو ان بنیادوں پر قائم کرنا جن پر ربوبیت نوع انسانی کی عمارت استوار ہوتی جائے، قلب و نظر کا وہ انقلاب جو اس معاشرہ کی روح ہے۔
کم ازکم دووقت کی نماز:
سورہ نور میں صلوۃ الفجر اور صلوۃ العشاء کا ذکر( ضمناً) آیا ہے، جہاں کہا گیا ہے کہ تمہارے گھر کے ملازمین کو چاہئے کہ وہ تمہاری(Privacy)کے اوقات میں اجازت لے کر کمرے کے اندر آیا کریں یعنی من قبل صلوۃ الفجرو حین تضعون ثیابکم من الظھیرۃ ومن بعد صلوۃ العشاء،صلوۃ الفجر سے پہلے اور جب تم دوپہر کو کپڑے اُتاردیتے ہو اور صلوۃ العشاء کے بعد۔ اس سے واضح ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اجتماعات صلوٰۃ کے لئے( کم ازکم) یہ دواوقات متعین تھے جبھی تو قرآن کریم نے ان کا ذکر نام لے کر کیا ہے۔
نماز میں ردوبدل:
جس اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادات دونوں پر منطبق ہوگایعنی اگر جانشین رسول اللہ( یعنی قرآنی حکومت) نماز کی کسی جزئی شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا اپنے زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ ردوبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی اصولاً مجاز ہوگی۔
زکوٰۃ:
۱)زکوٰۃ اس ٹیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے، اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی اس لئے کہ شرح ٹیکس کا انحصار ضروریات ملّی پر ہے حتی کہ ہنگامی صورتوں میں حکومت وہ سب کچھ وصول کرسکتی ہے جو کسی ضرورت سے زائد ہو، لہٰذا جب کسی جگہ اسلامی حکومت نہ ہو تو پھر زکوٰۃ بھی باقی نہیں رہتی ۔
۲)ظاہر ہے کہ ہماری حکومت ہنوز اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے آج کل زکوٰۃ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حکومت ٹیکس وصول کر رہی ہے اگر یہ حکومت اسلامی ہوگئی تو یہی ٹیکس زکوٰۃ ہو جائے گا ایک طرف ٹیکس اور اس کے ساتھ دوسری طرف زکوٰۃ۔ قیصر اور خدا کی غیر اسلامی تفریق ہے۔
۳)اگر خلافت راشدہ نے اپنے زمانے کی ضروریات کے مطابق اڑھائی فیصد مناسب سمجھا تھا تو اس وقت یہی شرح شرعی تھی اگر آج کوئی اسلامی حکومت کہے کہ اس کی ضرورت کا تقاضا بیس فیصدی ہے تو یہی بیس فیصدی شرعی شرح قرار پاجائے گا اور جب قرآنی نظام ربوبیت اپنی آخری شکل میں قائم ہوگا تو اس کی نوعیت کچھ اور ہی ہوجائے گی۔
۴)زکوٰۃ( یعنی حکومت کے ٹیکس) کی شرح میں تغیر و تبدل کی ضرورت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نظر نہیں آتی۔
۵)زکوٰۃ سے مراد اڑھائی فیصد ٹیکس نہیں بلکہ یہ ایک پروگرام ہے جس کی سرانجام دہی مومنین کے ذمہ ہے۔
۶)ایتاء زکوٰۃ نوع انسانی کی نشوونما کاسامان بہم پہنچانا ( تزکیہ کے معنی ہیں نشوو نما بالیدگی)
صدقات اور صدقہ فطر:
۱)صدقات ان ٹیکسوں کا نام ہے جو حکومت اسلامیہ کی طرف سے ہنگامی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے عائد کئے جاتے ہیں انہی میں صدقہ فطر ہے۔
۲)اب سنت رسول اللہﷺ کا صرف اتنا حصہ پیش کیا جاتا ہے کہ نماز سے پہلے صدقہ فطر نکال کر اپنے اپنے طور پر غریبوں میں تقسیم کردیا جائے اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو روزے معلق رہ جائیں گے جنہیں روزوں پر چسپاں کر کے لیٹر بکس میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ روزے مکتوب الیہ( اللہ تعالیٰ) تک پہنچ جائیں غور فرمایا آپ نے بات کیا کی تھی اور کیا بن گئی لیکن جب تک دین کی باگ دوڑ مولوی کے ہاتھ میں ہے صدقات نکلتے رہیں گے زکوٰۃ دی جاتی رہے گی قربانیاں ہوتی رہیں گی لوگ حج بھی کرتے رہیں گے اور قوم بدستور بے گھر بے دربھوکی ننگی اسلام کے ماتھے پر کلنک کے ٹکے کا موجب بنی رہے گی، کتنا بڑا ہے یہ انتقام جو ہزار برس سے اسلام سے لیا جارہا ہے اور غور کیجئے اس انتقام کے لئے آلہ کارکن لوگوں کو بنایا جاتا ہے۔
حج
۱)نماز ان کی پوجا پاٹ، حج ان کی یاترارسوم باقی خود فنا…حج کرنے جاتے ہیں تاکہ عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ ادا کرآئیں اورآتے وقت زمزم کا پانی ٹین کی ڈبیوں میں بند کر کے لیتے آئیں تاکہ اسے مردوں کے کفن پر چھڑ کا جائے نتیجہ اس کا وہ سکراتِ موت کی ہچکیاں جن میں پوری کی پوری اُمت آج گرفتار ہے۔
۲)اول تو حج ہی اپنے مقصد کو چھوڑ کر محض یاترابن کررہ گیا ہے حاجی وہاں جاتے ہیں تاکہ اپنے تمام سابقہ گناہ آب زمزم سے دھو کر اس طرح واپس آجائیں جس طرح بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
۳)حج عالم اسلامی کا وہ عالمگیر اجتماع ہے جو اس امت کے مرکز محسوس( کعبہ) میں اس غرض کے لئے منعقد ہوتا ہے کہ ملت کے تمام اجتماعی امور کا حل قرآنی دلائل و حجت کی رو سے تلاش کیا جائے اور اس طرح یہ امت اپنے فائدے کی باتوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے۔
٭…٭…٭
کفریاتِ پرویز (۶)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 615)
قربانی
۱)…حج عالم اسلامی کی بین الملّی کانفرنس کا نام ہے اس کانفرنس میںشرکت کرنے والوں کے خورونوش کے لئے جانور ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں آیا ہے بس یہ تھی قربانی کی حقیقت جو آج کیا سے کیا بن کررہ گئی ہے۔
۲)…قرآن کریم میں جانور ذبح کرنے کا ذکر حج کے ضمن میں آیا ہے، عرفات کے میدان میں جب یہ تمام نمائندگان ملت ایک لائحہ عمل طے کرلیں گے تو اس کے بعد منیٰ کے مقام پر دوتین دن تک ان کا اجتماع رہے گاجہاں یہ باہمی بحث وتمحیص سے اس پروگرام کی تفصیلات طے کریں گے ان مذکرات کے ساتھ باہمی ضیافتیں بھی ہوں گی آج صبح پاکستان والوں کے ہاں، شامل کو اہل افغانستان کے ہاں، اگلی صبح اہل شام کی طرف وقس علی ذلک، ان دعوتوں میں مقامی لوگ بھی شامل کرلئے جائیں گے امیر بھی غریب بھی ،اس مقصد کے لئے جو جانور ذبح کئے جائیں گے قربانی کے جانور کہلائیں گے۔
۳)…مقام حج کے علاوہ کسی دوسری جگہ ( یعنی اپنے اپنے شہروں میں) قربانی کے لئے کوئی حکم نہیں، اس لئے یہ ساری دنیا میں اپنے اپنے طور پر قربانیاں ایک رسم ہے ذرا حساب لگائیے کہ اس رسم کو پورا کرنے میں اس غریب قوم کا کس قدر روپیہ ہر سال ضائع ہوجاتا ہے اگر آپ ایک کراچی شہر کو لے لیں تو اس آٹھ دس لاکھ کی آبادی میں سے اگر پچاس ہزار نے بھی قربانی دی ہو اور ایک جانور کی قیمت تیس روپے بھی سمجھ لی جائے تو پندرہ لاکھ روپیہ ایک دن میں صرف ایک شہر سے ضائع ہوگیا، اب اس حساب کو پورے پاکستان پر پھیلائیے اور اس سے آگے ساری دنیا کے مسلمانوں پر اور پھر سوچئے کہ ہم کدھر جارہے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں سوچنا آجائے تو پھر ہماری بربادی کیوں ہو؟
۴)…مذہبی رسومات کی ان دیمک خوردہ لکڑیوں کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے سہارے دئیے جاتے ہیں کہیں قربانی کو سنت ابراہیمی قرار دیا جاتا ہے، کہیں اسے صاحب نصاب پر واجب ٹھہرایا جاتا ہے، کہیں اسے تقرب الہٰی کا ذریعہ بتایا جاتا ہے، کہیں دوزخ سے محفوظ گزر جانے کی سواری بنا کر دکھایا جاتا ہے۔
۵)…قربانی تو وہاں کھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کا ذریعہ تھی اب جس طرح وہاں جانور ذبح کر کے دبائے جاتے ہیں نہ ہی وہ مقصود خداوندی ہے اور نہ ہی ان کی ہم آہنگی میں ہر جگہ جانوروں کا ذبح کرنا بغیر کسی مقصد و غایت کو اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے، وہاں بھی سب کچھ ضائع کردیا جاتا ہے اور یہاں بھی …وذلک خسران المبین
تلاوت قرآن کریم:
یہ عقیدہ بلا سمجھے قرآن کے الفاظ دہرانے سے’’ثواب‘‘ ہوتا ہے یکسر غیر قرآنی عقیدہ ہے، یہ عقیدہ درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے۔
ایصال ثواب:
اس سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ ایصال ثواب کا عقیدہ کس طرح مکافات عمل کے اس عقیدہ کے خلاف ہے جو اسلام کا بنیادی قانون ہے۔ خدا جانے اس قوم نے کہاں کہاں سے ان عقائد کو پھر سے لے لیا جنہیں مٹانے کے لئے قرآن آیا تھا اور اس صورت میں جبکہ خود قرآن اپنی اصل شکل میں ان کے پس موجود ہے اس سے بڑاتغیر بھی آسمان کی آنکھ نے کم ہی دیکھا ہوگا۔
دین کے ہر گوشہ میںتحریف ہوچکی ہے:
وہ دین جو محمد رسول اللہﷺ نے دنیا تک پہنچایا تھا اس کا کونسا گوشہ اور کونسا شعبہ ہے جس میں تحریف نہیں ہوچکی۔
برہمو سماجی مسلمان:
یہ ہر رنگ کی’’خدا پرستی‘‘میں’’نیک عملی‘‘ کی راہیں بتانے والے برہمو سماجی مسلمان کیا جانیں کہ قرآن کی رو سے’’خدا پرستی‘‘ کسے کہتے ہیں اور’’نیک عملی ‘‘ کیا ہوتی ہے۔
قرآن کی رو سے سارے مسلمان کافر ہوگئے:
اسی حقیقت کو قرآن نے سورہ آل عمران میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا ہے اس میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کی راہ کونسی ہے اور اسے حضرات انبیاء کرام نے کس طرح اختیار کیا، اس کے بعد اس حقیقت کا اعلان ہے کہ فوزو فلاح اور سعادت و برکات کی یہی ایک راہ ہے۔
ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین
جو قوم اس راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرلے گی تو اس کی یہ راہ قابل قبول نہیں ہوگی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ آخر تباہ وبرباد ہوجائے گی۔
اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ سامنے لائی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
کیف یھدی اللّٰہ قوما کفروا بعدایمانھم،بھلا سوچو کہ خدا اس قوم پر زندگی کی راہیں کس طرح کشادہ کردے گا جس نے ایمان کے بعد کفر کی روش اختیار کرلی ہو وشھدواان الرسول حق وجاء ھم البینت حالانکہ ان کی طرف خدا کا واضح ضابطہ حیات آچکا تھا اور وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے تھے ان کے رسول نے اس ضابطہ حیات پر عمل پیرا ہو کر کس طرح تعمیری نتائج پیدا کر دکھائے تھے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اس قوم نے کفر کی راہ اختیار کرلی ،واللّٰہ لا یھدی القوم الظلمین، سوایسی ظالم قوم کو خدا کس طرح سعادتوں کی راہ دکھائے ، اولئک جزاء ھم ان علیھم العنۃ اللّٰہ و الملئکۃ والناس اجعمین، ان کی اس روش کا فطری نتیجہ یہ ہواکہ یہ قوم ان تمام آسودگیوں سے محروم ہوگئی جو نظام خداوندی سے وابستگی سے حاصل ہوئی تھی اور ان تمام آسائشوں سے بھی محروم ہوگئی جو فطرت کی قوتوں کو مسخر کرنے سے ملنی تھیں حتی کہ ان کی ذلت و پستی کی وجہ سے دوسری قومیں انہیں اپنے پاس نہیں آنے دیتیں اور دور دور رکھتی ہیںلا یخفف عنھم العذاب ولاھم ینظروناس بناء پر کہ انہوں نے اپنا نام مسلمان رکھ چھوڑا ہے ان کی اس تباہی میں کسی طرح کمی واقع نہیں ہو سکتی نہ ہی انہیں اس سے زیادہ مہلت مل سکتی تھی جتنی مہلت خدا کے قانون امہال و تدریج کی رو سے ملا کرتی ہے۔
دیکھو سلیم قرآن نے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ اس امت کو جوسرفرا زیاں شروع میں نصیب ہوئی تھیں وہ ان بینات( قرآن کے واضح قوانین)پرچلنے کا نتیجہ تھیں جو انہیں خداکی طرف سے ملے تھے پھر جب انہوں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تویہ ان تمام برکات سے محروم ہوگئے
پرویزی شریعت میں صرف چار چیزیں حرام ہیں:
(محمد صبیح ایڈوکیٹ نے دارالاشاعت قرآن ٹھٹھہ سے ۹۶ صفحات کا ایک رسالہ شائع کیا تھا جس کا نام ہے حلال و حرام کی تحقیق ماہنامہ طلوع اسلام بابت مئی ۱۹۵۳ء میں اس رسالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو داد تحقیق دی گئی وہ درج ذیل ہے)
سید صبیح صاحب نے اس رسالہ میں بتایا ہے کہ قرآن کی رو سے صرف مردار، بہتا خون، لحم خنزیر اور غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں ان کے علاوہ اور کچھ حرام نہیں۔ یہ قرآن کا واضح فیصلہ ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ہمارے مروّجہ اسلام میں حرام و حلال کی جو طولانی فہرستیں ہیں وہ سب انسانوں کی خود ساختہ ہیں اور کسی انسان کو حق نہیں کہ کس شے کو حرام قرار دیدے یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
٭…٭…٭
کفریاتِ پرویز (۷)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 618)
رافضی کی نماز جنازہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
شیعہ کی نماز جنازہ میں سنی کی شرکت ازروئے شرع کیسی ہے؟جبکہ ۲۱ دسمبر ۱۹۷۳ء کو اخبار ’’روزنامہ جنگ کراچی‘‘ میں ہمارے علماء کرام کی شرکت کی خبر شائع ہوچکی ہے۔ لہٰذا اگر شیعہ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنا شرعاً جائز ہے تو خیر ،ورنہ ان علماء کرام کی شرکت کیا معنی ہے؟ امیدہے کہ جواب باصواب سے ہماری تشفی فرمائیں گے۔
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
روافض جن کے عقائد کفر کی حدتک پہنچ چکے ہوں، آج کل اس قسم کے روافض بکثرت موجود ہیں، یہ لوگ معاذ اللہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اُلوہیت کے قائل ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگاتے ہیں، قرآن کریم کو محرف کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکارکرتے ہیں، جبکہ قرآن کے نصوص قطعیہ ان کے عقائد کے خلاف شاہد عدل ہیں۔ ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں کیونکہ شرائط صلوٰۃ جنازہ میں سے اسلام میت بھی ہے۔
علاوہ ازیں نماز جنازہ دعاء ہے اور کافر کے لئے دعاء بنص قرآنی حرام ہے۔ علمائے امت نے ان کے نماز جنازہ پڑھنے کو صراحۃً منع فرمایا ہے۔
حضرت علامہ کشمیریؒ نے اپنی بے نظیر کتاب’’اکفار الملحدین‘‘ میںحضرات عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ، ابو ہریرہ، ابن عباس، انس بن مالک ،عبداللہ بن ابی اوفی، عقبہ بن عامر الجہنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا فتویٰ قدریہ کے بارے میں یہ نقل کیا ہے:
۱:لایسلموا علی القدریۃ ولا یصلوا علی جنائزھم ولا یعود مرضاھم ( بحولہ الفرق بین الفرق)
’’کہ قدریوں کو نہ سلام کرے نہ ان کا جنازہ پڑھایا جائے، نہ ان کے بیماروں کی عیادت کی جائے۔‘‘
صحابہ کرام کا یہ فتویٰ حضور اکرمﷺ کی حدیث کے عین مطابق ہے:
کماروی احمد وابوداؤد عن ابن عمر قال رسول اللّٰہﷺ القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ ان مرضوا فلاتعودوا وان ماتوافلا نشھدوھم (کذافی المشکوٰۃ)
’’یعنی ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:منکرین تقدیر اس امت کے مجوسی ہیں، وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو اور وہ مریں تو ان کے جنازوں میں شرکت نہ کرو۔
روافض قدریہ سے کم نہیں بلکہ اپنے عقائد کفریہ اور خبث باطنی میں ان سے کہیں زیاد ہ ہیں ،امام دارالہجرۃ مالک بن انس نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ:’’الروافض مجوس ھذہ الامۃ ‘‘( روافض اس امت کے مجوسی ہیں)
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا کہ’’اکذب الطواف‘‘(گمراہ فرقوں میں سب سے جھوٹے ہیں) (بحوالہ اختصار منہاج السنہ ازامام ذہبی طبع جدید)
اگر کسی رافضی کے مندرجہ بالا کفریہ عقائد نہ بھی ہو ں تب بھی علماء دین کے لئے ان کی نماز جنازہ پڑھنا مداہنت ہے اور قطعاً جائز نہیں، حضرت تھانوی قدس سرہ العزیز اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
’’روافض دوقسم کے ہیں: ایک وہ جن کے عقائد حد کفر تک پہنچ گئے ہوں ایسے شخص کے جنازہ کی نماز اصلاً درست نہیں کیونکہ شرائط صلوۃ جنازہ میں اسلامیت بھی ہے اور دوسرا وہ جس کے عقائد صرف بدعت تک ہوں، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کے جنازہ کی نماز کسی نے نہ پڑھی ہو تب تو پڑھ لینا چاہئے کیونکہ جنازہ مسلم کی نماز فرض علی الکفایہ ہے اور کسی نے پڑھ لی ہو مثلاً اس کے ہم مذہب لوگ موجود ہیں وہ پڑھ لیں گے تو اس صورت میں اہل سنت ہر گز نہ پڑھیں۔
’’فرمان مصطفوی‘‘کے نام سے شائع شدہ اشتہار کا حکم
مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹائون کراچی کے دارالافتاء میں پاکستان اور بیرونی ممالک سے استفتاء موصول ہوتے رہتے ہیں جن میں مسلمانوں کے معاشرتی مسائل میں شریعت اسلامی کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ان فتاویٰ اور فقہی احکام کی افادیت کو عام کرنے کی غرض سے’’بیناب‘‘ میں ان کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ قارئین بہ سہولت ان احکام سے واقفیت اور رہنمائی حاصل کر سکیں ۔ اس سلسلہ کا پہلا استفتاء ایک ایسے فتنہ سے متعلق ہے جو ایک عرصہ سے مسلمانوں میں پھیلایا جارہا اور ہر شہر وقصبہ میںتقریباً ہر پڑھے لکھے مسلمان کو اس سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔
خلاصہ استفتاء
وصیت نامہ’’ فرمان مصطفوی‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار مدینہ منورہ کے کسی شیخ احمد کی طرف سے اس کے حلفیہ بیان کے ساتھ وقتاً فوقتا شائع ہوتا رہا ہے کہ رسول اللہﷺ نے خواب میں شیخ احمد کو ہدایت فرمائی ہے:
۱)میری امت کو نیک اعمال کی تلقین کرو( وصیت نامہ میں کچھ نیک اعمال کا ذکر کیا گیا ہے۔
۲)آثار قیامت کے تذکرہ اور ان سے خوف دلانے کے بعد رسول اللہﷺ سے یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ جو کوئی اس وصیت نامہ پر ایمان لائے گا اور نقل کرکے یا چھپوا کر اس کو پھیلائے گا اس کو حضورﷺ کی شفاعت، جنت اور دنیا میں مال ودولت کی فراوانی، مرادوں میں کامیابی اور قرض ادا ہونے کی نعمتیں حاصل ہوں گی اور حضور ان باتوں کے ذمہ دار ہوں گے اور جو اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ آخرت میں شفاعت رسول اور رحمت الہٰی سے محروم رہے گا اور دنیا میں بھی وبال و عذاب میں گرفتار ہوگا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس وصیت نامہ کے متعلق شرعی نقطہ نظر کیا ہے؟
۱)کیا اس وصیت نامہ پر ایمان لانا ضروری ہے؟ اور اس کو فرمان مصطفوی کی اہمیت دی جا سکتی ہے؟
۲)کیا اس پر ایمان موجب شفاعت اور باعث رحمت الہٰی ہے اور اس کو نہ ماننا و بال و آفات کا سبب ہو سکتا ہے؟
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
یہ وصیت نامہ جناب رسول اللہﷺکی ذات گرامی پر سراسر بہتان اور افتراء ہے۔ جناب رسول اللہﷺ کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرنا جس کو آپﷺ نے نہ کہا ہو سخت گنا ہ ہے۔
اس پر شدید وعید بیان کی گئی ہے، ارشاد ہے:
من کذب علی متعمدافلیتبوأمقعدہ من النار
’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘
اس حدیث کو تقریباً تیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیان فرمایا ہے۔ اس لئے علماء نے اس کو اسناداً( باعتبار سند) متواتر کہا ہے…
یہ وصیت نامہ عرصہ پچاس سال سے مختلف عنوانوں کے ساتھ شہروں، قصبوں اوردیہاتوں میں تقسیم ہوتارہا ہے اور علماء حق نے ہمیشہ اس کے خلاف فتویٰ دیا اور اس کو دجل وتلبیس اور افتراء کا نمونہ قرار دیا،چنانچہ اس سلسلہ میںمفتی اعظم حضرت مولاناکفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ اور مفتی دارالعلوم دیوبند مولاناعزیزالرحمن صاحبؒ کے فتاویٰ موجود ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں جوکچھ لکھا گیا ہے،اکثر وبیشتر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غلط ہے۔اس میں کہاگیا ہے کہ توبہ کادروازہ بند ہونے والا ہے، جو شخص اس وصیت نامے کو ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجے وہ دولت سے مالامال ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔مسلمانوں کے پاس بحمد اللہ جناب رسول اللہﷺ کی واضح ہدایات موجود ہیں اوردین بصورت قرآن وحدیث موجود اورمحفوظ ہے۔ پھر ان کو کیا پڑی کہ اس قسم کے مجہول وصیت ناموں پر عمل کریں۔ جناب رسول اللہﷺ کا صحیح وصیت نامہ آپﷺ کی حدیث مبارکہ ہیں۔اُنہیں پر عمل کرنے میں دین ودنیا کی سعادتیں مضمر ہیں۔
علاوہ ازیں یہ وصیت شیخ احمد خادم کے نام سے چھپوایا جاتا ہے۔ حضرات علمائے کرام کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ پچاس سال کے عرصہ میں اس نام کا کوئی شخص مسجد نبوی میں نہیں رہا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عیسائی مشنریز کی شرارت ہے۔ عیسائی مشنریز اسلام کی شدید ترین دشمن ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ اُٹھانہیں رکھا۔اُمراء وحکام اور تعلیم یافتہ حضرات کو دوسرے راستوں سے گمراہ کرتے ہیں اور عوام اورناخواندہ طبقہ کو فرقہ ورانہ آویزش اور اس قسم کے نام نہاد وصیت ناموں سے گمراہ کرتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان دین اسلام سے مایوس ہوجائیں اور سمجھ لیں کہ اب تو توبہ کادروازہ بھی بند ہونے والا ہے ،لہٰذا اب ہمارے لیے (العیاذ باللہ) اسلام میں کیا رکھاہے۔ اس کے بعد عیسائیوں کو موقع مل جائے گا کہ عیسائیت میں نجات ہے ہمارے یہاں توبہ کادروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ہمارے یہاں گناہ معاف کرانے کا سستا نسخہ موجود ہے وہ یہ کہ مرتے وقت پادری کے کان میں اپنے سب گناہ کہہ دیئے جائیں، سب گناہ معاف ہوجائیں گے۔
اسی طرح اس وصیت نامہ میں جو کہا گیا ہے کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ساٹھ ہزار آدمی مرے جن میں سے کوئی ایماندار نہ تھا،یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ اس میں بھی مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ (العیاذ باللہ) اسلام اب ایماندار ہونے کا ضامن نہیں ہے۔ اگر تم ایماندار ہونا چاہتے ہو تو عیسائیت کے تثلیثی دامن میں پناہ لو۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں میں بدعملی عام ہے اور اس کے اسباب ظاہر وباہرہیں لیکن بایں بدعملی اب بھی مسلمان ہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بنسبت بہت زیادہ مذہب پرست ہیں۔ ان میں آج بھی عقائد صحیحہ،عمل صالح سے آراستہ لوگ بڑی کثرت سے موجود ہیں۔ایسے نفوس قدسیہ اب بھی موجود ہیں جو اسوۂ رسول اللہﷺ پر ٹھیک ٹھیک عمل پیرا ہیں۔ عیسائیوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو صحیح معنی میں عیسائی ہو۔ مسخ شدہ عقائد، شراب وخنزیر وبدکاری کی کثرت ان کی خصوصیات ہیں بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ مسلمان قوم کا وجود باعث بقائے عالم ہے تو وہ اسلامی تعلیمات کے پش نظر غلط نہ ہوگا،کیونکہ احادیث میں بتلایا گیا ہے کہ دنیا کی روح ذکر الٰہی ہے ظاہر ہے کہ صحیح معنی میں ذکرالٰہی کرنے والے مسلمان اور صرف مسلمان ہیں۔
باقی رہا یہ امر کہ اس وصیت نامہ میں کچھ ایسی باتیں شامل کردی گئیں ہیں مثلاً نماز پڑھو، عورتیں بے پردہ ہوگئی ہیںوغیرہ تو ان باتوں کو مسلمان اس وصیت نامے کے بغیر بھی جانتے ہیں۔ ان (عیسائی مشنریز) کا مقصد یہ ہے کہ کچھ صحیح باتیں بھی اس میں شامل کی جائیں تاکہ دجل وفریب میں آسانی ہو۔
الغرض سراسر جھوٹ لغو اور بے اصل ہے۔ اس کی اشاعت ہرگز نہ کرنا چاہیے۔
٭…٭…٭