حفاظت حدیث اور اُمت کی خدمات


مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 596)

اس کے ساتھ ساتھ پوری امت حدیث کی حفاظت اوراس کے پڑھنے اورپڑھانے میں لگ گئی کیونکہ امت جانتی تھی کہ دین کی تکمیل و تشکیل قرآن و حدیث دونوں سے ہوئی ہے توقرآن کی طرح حدیث کی حفاظت بھی لازمی اور ضروری ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو احادیث کی زندہ اور چلتی پھرتی کتابیں تھیں اور جنہوں نے حضور اکرمﷺ کے ایک ایک قول کو سنا اور آپ ﷺکی ایک ایک ادا کو دیکھا تھا اور صرف سنا اور دیکھا ہی نہیں بلکہ انہیں اپنے سینوں میں جوں کا توں محفوظ رکھا۔ یہ صحابہ کرامؓ ہر جگہ پھیل گئے اور جگہ جگہ حلقہ ہائے درس قرآن وحدیث قائم کئے اور اس طرح پوری امت کو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حضور اکرمﷺ کی احادیث کی تعلیم بھی دی۔

جب اسلام مختلف اطراف و بلاد اور دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا تو صحابہ کرام ؓ بھی قرآن و حدیث کی تعلیم ان تک پہنچانے کے لئے ان اطراف و بلاد میں پھیل گئے تاکہ ان کو قرآن و حدیث کی تعلیم دیں تو صحابہ کرامؓ کے اس طرح مختلف بلاد میں منتشر ہوجانے کی وجہ سے تابعینؒ نے ضرورت محسوس کی کہ ان احادیث کو یکجا جمع کردیا جائے، چنانچہ اس کے لیے انہوں نے سفر کئے اور جہاں سے بھی ان کو حدیث مل سکی انہوں نے جمع کی۔

تدوین حدیث کا پہلا دور:
علاوہ ازیں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے حدیث کے جمع وتدوین کا مہتم بالشان کا م شروع کیا اور اس عظیم کا م کو آپ نے تین اشخاص حضرت ابو بکر بن حزم، حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر اور امام الحدیث محمد بن مسلم بن شہاب زہری کے سپرد کیا اور ان حضرات نے باقاعدہ حدیث کو جمع اور مدون کیا، اس سلسلہ میں امام زہری نے سب سے زیادہ قابل قدر خدمات انجام دیں اور ان کی کوششوں سے حدیث کا ایک ایسا مکتوب ذخیرہ تیار ہوا جس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کئی اونٹ درکار ہوتے تھے جن پر ان کو لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام زہری کو حدیث کا پہلا مدون شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تو حدیث میں تالیفات کا مستقل سلسلہ شروع ہوگیااور بڑے بڑے جلیل القدر محدثین کرام تدوین حدیث کے کام میں لگ گئے، چنانچہ مکہ معظمہ میں ابن جریج، مدینہ طیبہ میں مالک ابن انسؓ، بصرہ میں ربیع بن صبیح، کوفہ میں سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ،خراسان میں عبداللہ بن مبارک نے تدوین حدیث کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دیں یہ تدوین حدیث کا پہلا دور تھا۔

تدوین حدیث کا دوسرا دور:
تدوین حدیث کے پہلے دور میں احادیث کے مجموعے تو تیار ہوگئے تھے مگر ان میں صحیح، مسند ،منقطع، مرسل وغیرہ میں فرق کا التزام نہیں کیا گیا تھا ۔تیسری صدی کے آغاز میں محدثین نے ضرورت محسوس کی کہ احادیث مرفوعہ کو احادیث مرسلہ سے بالکل جدا کردیا جائے، چنانچہ اس دور کی تصنیفات و تالیفات میں مرفوع احادیث کو دوسری تمام احادیث سے جدا کردیا گیا اور اس کے لیے مختلف تصنیفات مسند کے نام سے سامنے آئیں۔ یہ تدوین حدیث کا دوسرا دور تھا۔

تدوین حدیث کا تیسرا دور:
مگر ان تصنیفات میں مرفوع احادیث میں صحیح، احسن، ضعیف سب یکجا تھیں، اس ضرورت کے پیش نظر کہ مرفوعات میں صحیح احادیث کو جدا کردیاجائے، محدثین نے اپنی توجہ اس جانب مبذول کی اور اس سلسلہ میں امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور دیگر ائمہ حدیث نے صحیح کے نام سے کتابیں لکھیں یہ تدوین حدیث کا تیسرا دور کہلاتا ہے اور جیسے جیسے فتنہ انکار حدیث زور پکڑتا گیا، علماء نے اسی شدت سے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے اعتراضات کے بھرپور اور دندان شکن جواب دئیے اور اس فتنہ کے مقابلہ میں مستقل کتاب السنہ کے نام سے کتابیں لکھیں ۔ چنانچہ امام شافعیؒ نے، امام دار قطنی نے ،امام بیہقی اور دوسرے ائمہ حدیث نے کتاب السنہ لکھی اور علماء کرام نے احادیث کی اہمیت، اس کی ضرورت و فضیلت اور اس کی حفاظت پر کتابیں لکھیں۔

بہر حال جب فتنۂ انکار حدیث اُٹھا تو پوری امت حدیث میں لگ گئی اور حدیث کی اس طور پر حفاظت کی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔

حفاظت حدیث کے سلسلہ میں امت کی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حفاظت حدیث کے لیے مختلف علوم ایجاد کئے، حدیث کے متن سے متعلق ، اس کی سند کے متعلق ،راویان حدیث سے متعلق ،متواتر، مشہور، احاد، غریب، مولف، مختلف ،منکر، ناسخ و منسوخ علل وغیرہ جن کی تعداد سو کے قریب پہنچتی ہے اور جن کی تفصیل اصول حدیث کی کتابوں میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔

امت نے صرف یہی نہیں کیاکہ آپﷺ کے اقوال کو محفوظ رکھا بلکہ آپﷺ کی ایک ایک ادا، آپﷺکا ہر ہر فعل، ہر قول اور زندگی کا ہر شعبہ اور ہر ہر گوشہ محفوظ کردیا۔

دنیا میں کوئی نبی اور کوئی بھی بڑا آدمی ایسا نہیں گزرا جس کی زندگی اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ حضور اکرمﷺ کی زندگی محفوظ ہے ،اس کا اعتراف اپنوں ہی نے نہیں کیا بلکہ اعداء بھی اس کے معترف ہیں۔’’جان ڈیون پورٹ‘‘ اپنی کتاب’’ اپالوجی فار محمد اینڈدی قرآن‘‘ کو ان الفاظ سے شروع کرتا ہے:

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمام مقنین اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اورسچے ہوں۔‘‘( بحوالہ خطبات مدراس)

دوسرے انبیاء اور دوسری قوموں کے پیشوائوں کے حالات زندگی میں صرف چند جھلکیاں تو معلوم ہوسکتی ہیں، مگر ان کی زندگی کے حالات اس تفصیل سے کہیں بھی مذکور نہیں جن کوسامنے رکھ کر کوئی بھی جویائے حق اپنے لیے راہ عمل متعین کر سکے جبکہ ان کے مقابلہ میں حضور اکرمﷺ کا ایک ایک فعل محفوظ ہے، آپﷺ گھر میں کس طرح رہتے تھے، باہر کی زندگی کس طرح گزارتے تھے ، غزوات ، سفر و حضر، آپﷺ کا چلنا پھر نا، سونا جاگنا سب کچھ ہی تو محفوظ ہے جو ہر شخص کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں اور جن کی روشنی میں ہر شخص اپنے لیے راہ عمل متعین کر سکتا ہے۔ ریورنڈ یاسورتھ اسمتھ فیلو آف ٹرینٹی کالج آکسفورڈکہتا ہے:

’’ہم درحقیقت مسیح کی زندگی کے ٹکڑے میں ٹکڑا جانتے ہیں، ان تیس برسوں کی حقیقت سے کون پردہ اٹھا سکتا ہے، جس نے تین سال کے لیے راستہ تیار کیا، جو کچھ ہم جانتے ہیں اس نے دنیا کی ایک تہائی کوزندہ کیا ہے اور شاید اور بہت زیادہ کرے ، ’’ایک آئیڈیل لائف‘‘ جو بہت دور تھی ہے اور قریب بھی، ممکن بھی ہے اور ناممکن بھی لیکن اس کا کتنا حصہ ہے جو ہم جانتے ہی نہیں، ہم مسیح کی ماں، مسیح کی خانگی زندگی، ان کے ابتدائی احباب، ان کے ساتھ ان کے تعلقات ، ان کے روحانی مشن کے تدریجی طلوع یا یک بیک ظہور کی نسبت ہم کیا جانتے ہیں؟ان کی نسبت کتنے سوالات ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو ہمیشہ سوالات ہی رہیں گے، لیکن اسلام میں ہر چیز ممتاز ہے یہاں دھندلاپن اور راز نہیں ہے ہم تاریخ رکھتے ہیں ہم محمدﷺ کے متعلق جانتے ہیں ، جس قدر لیو تھر اور ملٹن کے متعلق جانتے ہیں۔( بحوالہ خطبات مدراس)

٭…٭…٭