ناصبیت اور انکار حدیث:


مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ
ناصبیت اور انکار حدیث:
جس طرح روافض انکار حدیث کرتے ہیں خصوصاً ان احادیث کا جو مناقب صحابہ کے متعلق ہیں، اسی طرح یہ نواصب بھی حدیث کا انکار کرتے ہیں، اس فتنہ کی گہرائی میں بھی انکار حدیث پایاجاتا ہے،یہ حضرات خصوصیت کے ساتھ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں جو اہل بیت حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہم کے مناقب میں وارد ہوئی ہیں۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق اورواقعہ افک کے بارے میں جو احادیث ہیں ان کا بھی یہ حضرات انکار کرتے ہیں۔ ایک صاحب حکیم نیاز صاحب ہیں، میں ان کی کتاب ’’تحقیق عمر عائشہ( جو حال ہی میںشائع ہوئی اور چھ سو صفحات پر مشتمل ہے) دیکھ رہا تھا جہاں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر بحث کی ہے، وہاں اس میں بخاری کی روایت، امام حدیث زہری پر اعتراض اور سخت تنقیدیں کی ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق حدیث کا انکار وغیرہ کیا ہے۔ یہ بھی رفض کی طرح ایک بہت بڑا فتنہ ہے، کچھ عرصہ کے لیے یہ فتنہ دب گیا تھا آج کل پھر ایک طبقہ اس فتنہ کو زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف کارہے جس طرح روافض کا مقصد ہے کہ مسلمانوں کا اعتماد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اُٹھ جائے اسی طرح نواصب بھی اس کوشش میں ہیں کہ اہل بیت پر مسلمانوں کا اعتماد اور ان سے محبت ختم ہوجائے۔

ناصبیت کا فلسفہ بھی کس قدر عجیب اور لغو ہے کہ وہ شخص جو پورے عالم اور پوری انسانیت کے لیے مینارئہ نور اور مشعل ہدایت بن کر آیا تھا، وہ جب اس دنیا سے گیا تو اس کی بے چارگی کا یہ عالم ہے کہ اس کے گھر والے، اس کی بیٹی ، اس کے نواسے کوئی بھی تربیت یافتہ نہ تھا اور انہوں نے اپنی اونچ نیچ اور اپنے ذاتی مفادات اور حکومت و سلطنت کے لیے لڑائیاں لڑیں، مسلمانوں کا خون بہایا، ان کے فلسفہ سے ایک عجیب سی تصویراُبھر کر سامنے آتی ہے جو سراسر غلط ہے، عقل جس کا بداہۃً انکار کرتی ہے، ہو سکتا ہے کوئی گمراہ ان کی تائید کرے مگر قرآن و حدیث سے ان کی ذرہ برابر بھی تائید نہیں ہوتی۔

فرقہ معتزلہ اور انکار حدیث:
معتزلہ مسلمانوں کا وہ فرقہ ہے جو یونانی منطق اور اس کے فلسفیانہ افکارو خیالات سے مرعوب تھا اور انہی باطل افکار و خیالات نے ان کو دین سے منحرف کردیا تھا۔ انہوں نے قرآن کریم کو یونانی فلسفہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قرآن میں جا بجا تاویلیں کر کے قرآنی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف خبر واحد کو صاف طور پر حجت ماننے سے انکار کردیا اور اس کے علاوہ وہ احادیث جوان کے غلط نظریات اور باطل افکار اور یونانی عقلیت سے متفق نہیں ہو سکتی تھیں ان کا صاف انکار کردیا۔ چنانچہ امام ابن حزم اندلسی معتزلہ کے خبر واحد کو حجت ماننے سے انکار کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تمام معتزلہ اور خوارج کا مسلک ہے کہ خبر واحد موجب علم نہیں، ان کا کہنا ہے کہ جس خبر میں جھوٹ یا غلطی کا امکان ہو اس سے اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی بھی حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی نسبت خدا کی طرف کی جا سکتی ہے اور نہ خدا کے رسول کی طرف۔‘‘(احکام الا حکام لابن حزم: ج۱ص ۱۱۹)

اور حافظ ابن قیمؒ معتزلہ کاانکار حدیث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’معتزلہ نے گنہگار مسلمانوں کی شفاعت کے ثبوت میں جتنی واضح اور محکم نصوص صریح احادیث میں موجود ہیں ان سب کا ’’فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین‘‘جیسی متشابہ اور محتاج تاویل آیات کی بنا پر انکار کردیا۔‘‘

فرقۂ قدریہ وجبر یہ اور انکارِ حدیث:
فرقہ قدریہ جو قضاء وقدر ہی کا منکر تھا جس کے نزدیک بندہ مختار مطلق ہے اور جبر یہ جس نے بندہ کو مجبور محض بنا کر چھوڑدیا تھا یہ حضرات بھی ان تمام احادیث کا انکار کرتے ہیں یا ان میں تاویلات کر کے ان کی حیثیت ختم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جن میںقضا وقدر اور ان کی تفصیلات کا ذکر ہے۔

مرجئہ اور انکارِ حدیث:
مرجئہ کے نزدیک تو صرف کلمہ پڑھ لینا اور ایمان لے آنا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد کسی عمل کی ضرورت نہیں تو ان حضرات کے نزدیک وہ احادیث جو احکام اور ان کی تفصیلات متعین کرتی ہیں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں، کوئی ان کو مان کر ان پر عمل کرے یا نہ کرے اور صاف انکار کردے ان کے نزدیک سب برابر ہے۔

فتنہ استشراق اور انکار حدیث:
صلیبی جنگوں میں جب یہودیوں کو شکست فاش کا سامنا کرناپڑا اور انہوں نے ان صلیبی جنگوں میں اپنی تمام ترقوتیں صرف کردیںاور مسلمانوں کو ناکام و نامرادکرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر اس کے باوجود ان کوکوئی خاطر خواہ فائدہ اور قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیااور انہوں نے ایسے رجال کا ر پیدا کئے جنہوں نے دین کے معتمدات اور شریعت کے احکام کا مطالعہ کیا جس سے یہ بات ان پر واضح ہوگئی کہ ان احکام اور ان عقائد کو ختم کرنا یا ان میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلمانوں کے پاس احادیث کا ذخیرہ محفوظ ہے تو انہوںنے شریعت کے اس ماخذ کو کمزور بنانے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کردیں اور اپنے دجل وفریب سے کام لیتے ہوئے علمی تحقیقات( سائینٹیفک ریسرچ) کے نام سے حدیث و سنت کے خلاف منظم سازش شروع کی۔ کبھی احادیث کو عجمی سازش کہا، کبھی حاملین احادیث صحابہ کرام، ائمہ تابعین اور ائمہ احادیث کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا، کبھی اپنی ناقص عقل کو معیار بنا کر احادیث پر عقلی شبہات ااور وساوس کا طوفان باندھا اور اسلام کے بنیادی عقائد ،جنت و جہنم، جزاوسزا، ملائکہ، جنات، عذاب قبر وغیرہ اور اسلامی احکام نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں نئے نئے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی اور عجیب بات ہے کہ موجودہ دور کے منکرین حدیث نے بھی اپنامأخذو مرجع انہی دشمنان اسلام مستشرقین کوبنایا ہے اور یہ حضرات انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جو اعتراضات و شبہات یہ منکرین حدیث بھی پیش کرتے ہیں ۔ان کی تمام کفریات ولغویات کا اگر بنظر غائز مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کی تحقیقات کا تمام تر ماخذ مستشرقین کی یہی سائینٹفک ریسرچ ہے جو سراسر دجل وفریب اورمکاری پر مشتمل ہے۔

نیچریت اور انکارِ حدیث
موجودہ دور میں جو نئے نئے فتنے اسلام میں پیدا ہوئے ہیں ان میں سب سے گمراہ کن اور خطرناک فتنہ نیچریت ہے۔ فرقۂ نیچریت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے علوم جدید حاصل کر کے احکام شریعت کو قبول کرنے اور ان پر عمل کر نے کے لیے اپنی جزوی عقل کو معیار بنایا ااور مغربی تہذیب وتمدن کو حق وباطل کا معیار ٹھہرایا۔ جنہوں نے اپنا اصول ہی یہ بنایا تھا کہ جو چیز ان کی عقل سے باہر اور یورپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہو وہ غلط اور ناقابل قبول ہے خواہ قرآن و حدیث ان کی تائید کرتے ہوں،چنانچہ ان حضرات نے انبیاء کرام کے تمام معجزات، ملائکہ، جنات،جنت و دوزخ وغیرہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ مسلمات کا انکار کیا ہے اس فرقہ کے بانی مبانی سرسید تھے، سر سید کے یہاں بھی ان باتوں کا انکار اور معجزات کا انکار پایا جاتا ہے۔

٭…٭…٭