فتنہ انکارِحدیث


مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 592)
فتنہ انکارِحدیث:
جب وضع حدیث سے ملحدین کی مراد پوری نہیں ہوئی تو انہوں نے پینتر ابدلا اور حدیث کو دین کا مأخذ ماننے سے انکار کردیا اور پھر اس کو ثابت کرنے کے لئے کہ حدیث دین و شریعت کا مأخذ نہیں حدیث پر طرح طرح کے اعتراضات شروع کیے۔ کبھی کہا کہ یہ عجمی ساز ش ہے اور حضور اکرمﷺ کی دوسوسال بعد وجود میں آئی اور کبھی ضعیف وموضوع احادیث کو بنیاد بنا کر حدیث کا مذاق اُڑایا، کبھی خبر واحد کی حجیت سے انکار کیا، کبھی کسی خاص موضوع سے متعلق احادیث کو ناقابل تسلیم گردانا اور اس تمام کوشش کا مقصد وحید یہ تھاکہ وہ دین جس کی تکمیل احادیث سے ہوئی ہے اس کے بہت سے احکام احادیث سے ثابت ہیں اور بہت سے احکام کی جزئیات اور تفصیل احادیث متعین کرتی ہیں۔ اس کی بنیادہی کو متزلزل کردیا جائے تاکہ مذہب اسلام کی عظیم الشان عمارت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔

فتنۂ انکارِ حدیث کی ابتداء:۔
سب سے پہلے احادیث کا جنہوں نے انکار کیا وہ خوارج تھے۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلاف کے آخر میں ظاہر ہوئے ،انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت اور آپ کے طرزِ حکومت پر نکتہ چینی کی۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے مگر تحکیم( ثالثی) کے واقعہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہہ کر بغاوت کردی کہ قرآن کے ہوتے ہوئے تحکیم کو قبول کرنے کی وجہ سے سب کافر ہوگئے۔ اس بنا پر ان کے نزدیک تمام صحابہ کرام اور راویان حدیث کافر ہوگئے اب صرف قرآن ہی کو حجت مانا جا سکتا ہے۔

ان کے بعد احادیث کا انکار کرنے والے روافض تھے جو صحابہ کرام علیہم اجمعین کے دشمن تھے ان کے نزدیک بھی اہل بیت اطہار کے علاوہ تمام صحابہ کرام کافر ہوگئے تھے( العیاذ باللہ) پھر معتزلہ نے( جن پر عقل کا بھوت سوار تھا) احادیث کا انکار کیا اس طرح یہ فتنہ انکار حدیث ملحدین وزائغین کے ہاتھوں پروان چڑھتا رہا۔

تمام فتنوں کا مرجع و مأخذ:
انکار حدیث ایک ایسا فتنہ ہے جو ہر فتنہ کی بنیاد اور ہر فتنہ کا مرکز و محور ہے اور غورکیا جائے تو تمام فتنوں میں انکار حدیث قدر مشترک کے طور پر پایا جاتا ہے اور تمام فتنہ پر داختوں نے الحادوزندقہ کو ملمع کرنے میں انکار حدیث ہی کا سہارا لیا ہے کیونکہ احادیث رسول علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم ہی وہ مضبوط بند ہے جس کے ذریعہ الحادو زندقہ اور دین میں تصرفات و تحریفات کے سیلاب کو روکا جا سکتا ہے اور خود ساختہ دورازکار تاویلات و تلبیسات کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے تمام ملحدین نے احادیث کو اپنی راہ کا سنگِ گراں سمجھتے ہوئے اسے ہٹانے کی کوشش کی اور ان کو ماننے سے ہی انکار کردیا تاکہ نہ یہ مضبوط بند باقی رہے او نہ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہو اور وہ اپنی من مانی کرسکیں اور قرآن کریم میں تحریف و تلبیس کا خوب کھل کر مظاہرہ کرسکیں۔

ذرا ان فرقوں اور گروہوں پر اجمالی نظر ڈالیے جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے اور بھیڑ کی شکل میں بھیڑئیے کا کردارادا کرتے ہیں تاکہ ان کی حدیث دشمنی اور انکار حدیث معلوم ہوسکے۔

خوارج اور انکار حدیث:
جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ انکار حدیث کے فتنہ کی بنیاد سب سے پہلے خوارج نے رکھی کیونکہ ان کے عقائد کی بنیاد ہی اس پر تھی کہ جو بات قرآن سے ملے گی اسے اختیار کریں گے۔

چنانچہ ان کے یہاں بڑی حدتک احادیث کا انکار پایا جاتا ہے اور اسی انکار حدیث کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے رجم کے شرعی حد ہونے سے انکار ہی اس بنا پر کیا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر نہیں ہے اور احادیث کو وہ نہیں مانتے اور بعض لوگوں نے خوارج کی تکفیر ہی اس رجم کے انکار کی وجہ سے کی ہے۔ چنانچہ محدث العصر علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

کتکفیرالخوارج بابطال الرجم للزانی والزانیۃ المحصنین فانہ مجمع علیہ صارمعلوماً من الدین بالضرورۃ

’’رجم چونکہ متفق علیہ ہے لہٰذا ضروریات دین میں داخل ہے اسی لیے شادی شدہ مردوعورت زانی کی سزارجم کے انکار کی وجہ سے خوارج کی تکفیر کی جاتی ہے۔‘‘( اکفار الملحدین ص۵۸)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ میں بھی یہ خوارج موجود تھے انہوں نے جب رجم کا انکار کیا تو ان کے سرکردہ لوگوں کو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بلا کر پوچھا کہ تم رجم کا انکار کیوں کرتے ہو؟

اس سلسلہ میں عمر بن عبدالعزیزؒ اور خوارج کے درمیان جو مکالمہ ہوا اسے فقہ حنبلی کے مشہور فقیہ علامہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہ مکالمہ بڑادلچسپ ہے جو درج ذیل ہے۔

جب خوارج کے نمائندے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تویوں گویا ہوئے:

خوارج:قرآن کریم میں صرف جلد( کوڑے لگانے) کا حکم ہے رجم کا ذکر نہیں پھر رجم کو شرعی سزاکیوں قراردیا گیا۔

عمربن عبدالعزیز: جی ہاں

عمر بن عبدالعزیز:قرآن کریم میں فرض نمازوں کی تعداد، ارکان کی تعداد، اوقات نماز کی تفصیل کہاں ہے اور یہ کہ فلاں نماز میں اتنی رکعتیں ہیں اور فلاں میں اتنی، قرآن کریم میں کہاں ہے؟

زکوٰۃ کس مال پر واجب ہوتی ہے کس پر نہیں، زکوٰۃ کی مقدار کتنی ہے، زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے یہ سب تفصیل قرآن میں کہاں ہے؟

خوارج:ہمیں کچھ مہلت دیجئے۔

خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مہلت دے دی مشورہ کر کے پھر حاضر ہوئے ۔

خوارج:قرآن کریم میں تو کچھ نہیں۔

عمر بن عبدالعزیز:پھرتم ان باتوں کے کیونکر قائل ہوئے؟

خوارج:رسول اللہﷺ اور صحابہؓ اور مسلمانوں نے اس پر عمل کیا۔

عمر بن عبدالعزیز:جب تم ان باتوں کو اس لیے مانتے ہو کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ نے ان پر عمل کیا تو رجم پر بھی رسول اللہﷺ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا ہے۔

رفض ااور انکار حدیث:
رفض اور شیعیت میں اگرچہ بہت سے حقائق کا انکار ہے مگر سب سے بڑی وہ حقیقت جس کا انکار ان کے یہاں پایاجاتا ہے وہ احادیث نبویہ اور خصوصاً وہ احادیث ہیں جو مناقب صحابہ میں وارد ہوئی ہیں یہ حضرات ان کو نہیں مانتے، چاہے وہ احادیث بخاری کی ہوں یا صحیح مسلم کی یا کسی اور حدیث کی کتاب کی ہوں۔

اگر تھوڑی دیر کے لیے ان شیعوں کا فلسفہ مان لیا جائے تو غور کیجئے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نبی جو تمام انبیاء کا سردار ہے، نبی آخرالزمان ہے، خاتم النبیین ہے اورقیامت تک آنے والوں کے لیے ہادی ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعاء کی اور حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے جن کی بشارت دی وہ نبی جب اس دنیا سے گیا ہے تو اس قدر ناکام گیا ہے کہ اس کے تربیت یافتہ لوگ( العیاذباللہ) سب کے سب مرتد ہوگئے صرف چارپانچ اشخاص ہی مسلمان رہے نہ قرآن ان کے یہاں محفوظ رہا نہ دین اسلام۔

٭…٭…٭