ٹرین میں فرض نماز بیٹھ کر پڑھنا
سوال:- سفر کے دوران عصر کی نماز کے لئے خانیوال اسٹیشن تجویز کیا کہ وہاں گاڑی تقریباً ۲۰منٹ رُکتی ہے، چونکہ گاڑی تأخیر سے چل رہی تھی، اس لئے اس شش و پنج میں رہا کہ کہیں وہاں پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت تنگ نہ ہوجائے یا اس وقت تک وضو نہ ٹوٹ جائے، اس لئے گاڑی ہی میں نماز پڑھ لی، لیکن جب گاڑی خانیوال پہنچی تو عصر کا وقت اچھا خاصا تھا، میں نے گاڑی میں نماز بیٹھ کر پڑھی تھی اور خانیوال پہنچ کر اس نماز کو نہیں دُہرایا، کیا میری عصر کی نماز دُرست ہوگئی یا قضا لازم ہوگی؟
جواب:- فرض نماز شدید معذوری کے بغیر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں،(۱) لہٰذا ریل گاڑی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بناء پر اب اس نماز کا لوٹانا لازم ہے۔(۲)
واللہ سبحانہ اعلم
۸؍۱۰؍۱۳۹۶ھ
(فتویٰ نمبر ۲۳۴۰/۲۷ ہ)
نیاز فاتحہ کا حکم
سوال:۔ اگر کسی نے کچھ پکاکر نیاز فاتحہ دیا تو کیا جب تک نیاز فاتحہ نہ دیا جائے، تقسیم کرنا ممکن نہیں؟
جواب:- نیاز فاتحہ کا مروّجہ طریقہ ہی شریعت کی رُو سے دُرست نہیں ہے۔ ہاں! اگر کسی بزرگ کی رُوح کو ایصالِ ثواب کرنا ہے تو کھانا پکاکر کسی کو صدقہ کردیا جائے، اور یہ دُعا کرلی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کا ثواب فلاں کو پہنچادے، یہ جائز ہے، اور اس نیت سے کرنے کے لئے نیاز فاتحہ کی ضرورت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
۲؍۵؍۱۳۸۸ھ
برہنہ ہوکر غسل کرنا
سوال:- غسل (فرض، سنت، مستحب) اگر مکان میں پردے کا پورا انتظام ہے تو برہنہ ہوکر کرسکتا ہے؟ اور جو وضو غسل کے لئے کیا ہے، بعد میں نماز کے لئے یہی وضو برقرار ہوگا یا نیا وضو کرنا ہوگا؟
جواب:- بہتر تو یہی ہے کہ کوئی کپڑا وغیرہ باندھ کر غسل کیا جائے، لیکن برہنہ ہوکر غسل کرنا جبکہ پردے کا پورا انتظام ہے، بھی بلاکراہت جائز ہے۔[۱] غسل میں جو وضو کیا جاتا ہے وہ بعد میں نماز پڑھنے کے لئے کافی ہے، نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[۲] واللہ اعلم
الجواب صحیح
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
محمد عاشق الٰہی عفی عنہ
۹؍۲؍۱۳۸۸ھ
(فتویٰ نمبر ۲۱۴/۱۹ الف)
مسبوق کی نماز کا طریقہ
سوال:۔ ایک آدمی نے چار رکعت والی نماز میں دُوسری یا تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شرکت کی، باقی نماز کس طرح ادا کرے؟ ایک صاحب نے بتایا ہے کہ باقی رکعتوں میں صرف فاتحہ پر اکتفاء کرنا چاہئے۔ مغرب میں اگر ایک رکعت ہو تو باقیوں میں سورۃ ملائی جائے یا صرف فاتحہ پر اکتفا کیا جائے؟ اس نماز کے بارے میں بھی ان صاحب نے بتایا ہے کہ ایک میں تو سورۃ ملادے، باقی دُوسری رکعت میں فاتحہ پر اکتفاء کیا جائے۔
جواب:۔ جس شخص کی ایک یا دو رکعت چھوٹ گئی ہو اُسے مسبوق کہتے ہیں، قراء ت کے بارے میں اس کا حکم یہ ہے کہ جب امام کے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنی نماز پوری کرے گا تو قراء ت کے لحاظ سے یہ اس کی پہلی رکعت سمجھی جائے گی، لہٰذا اس رکعت میں وہ سورۂ فاتحہ کے ساتھ قرآنِ کریم کی دُوسری آیات بھی پڑھے گا۔ اگر اس کی دو رکعتیں چھوٹی ہیں تو دُوسری رکعت میں بھی سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت پڑھنا اس کے لئے ضروری ہے، اور اگر تین یا چار رکعتیں چھوٹی ہیں تو پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھے گا مگر اس کے بعد والی رکعتوں میں نہیں پڑھے گا۔(۱)
واللہ اعلم
الجواب صحیح
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
محمد عاشق الٰہی عفی عنہ
۹؍۲؍۱۳۸۸ھ
(فتویٰ نمبر ۲۱۴/۱۹ الف)
اذان سے پہلے دُرود و سلام پڑھنے کا حکم
سوال:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اذان سے پہلے بلند آواز سے دُرود و سلام پڑھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ براہِ کرم تفصیل سے بتلائیے۔
جواب:۔ اذان سے پہلے بلند آواز کے ساتھ دُرود و سلام پڑھنا کسی حدیث یا صحابہ کرامؓ کے کسی عمل سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس کو زیادہ ثواب کا موجب سمجھ کر کرنا یا اس کی پابندی کرنا بدعت ہے،(۱) بلکہ اذان کے کلمات میں اپنی طرف سے کچھ کلمات کا اضافہ کرنا ہے جو باتفاقِ اُمت ناجائز ہے۔
واللہ اعلم
الجواب صحیح
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
۲۶؍۲؍۱۳۸۸ھ
(فتویٰ نمبر ۳۰۴/۱۹ الف)
غسل خانے میں بات کرنے کا حکم
سوال:- غسل خانہ اور پائے خانہ میں بات کرنے کو عوام ناجائز سمجھتے ہیں، سو شرعاً اس کی کوئی اصل ہے؟
جواب:- قال ابن عابدینؒ عبارۃ الغزنویۃ ولا یتکلم فیہ أی فی الخلائ، وفی الضیاء عن بستان أبی اللیث یکرہ الکلام فی الخلائ، وظاھرہ أنہ لا یختص بحال قضاء الحاجۃ وذکر بعض الشافعیۃ أنہ المعتمد عندھم، وزاد فی الامداد: ولا یتنحنح أی الا بعذر کما اذا خاف دخول أحد علیہ۔ (رد المحتار ج:۱ ص:۳۱۸)۔[۲]
عبارتِ مرقومہ سے معلوم ہوا کہ بیت الخلاء میں نہ صرف یہ کہ بوقتِ قضائِ حاجت بات کرنا مکروہ ہے، بلکہ دُوسرے حالات میں بھی بولنا دُرست نہیں، مثلاً کوئی شخص اگر بیت الخلاء میں وضو کر رہا ہو تو تسمیہ اور دُوسری دُعائیں پڑھنا بھی دُرست نہیں، کما قال الشامیؒ، اسی طرح بے ضرورت کھانسنا بھی مکروہ ہے۔ واللہ اعلم
الجواب صحیح احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ ۲۴؍۱۱؍۱۳۷۹ھ(۱)[۲]
[۱]فتاویٰ شامیۃ ’’تنبیہ‘‘ ج:۱ ص:۳۴۴ (طبع ایچ ایم سعید)
[۲]یہ فتویٰ حضرتِ والا دامت برکاتہم کی تمرینِ افتاء (درجۂ تخصّص) کی کاپی سے لیا گیا ہے۔
داڑھی منڈانے والے کو امام بنانا
سوال:۔ جو شخص داڑھی منڈاتا یا کتراتا ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور تراویح میں ایسے شخص کو امام بنایا جاسکتا ہے؟
جواب:۔ ایسے شخص کو باختیارِ خود امام بنانا جائز نہیں،(۱) اور صالح و متدین امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش ضروری ہے، تاہم اس کی اقتداء نہ کرنے کی صورت میں جماعت بالکل فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا انفراداً نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
(۲) اور تراویح میں بھی ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اگر اور کوئی مہیا نہ ہو تو ’’اَلَمْ تَرَ کَیْفَ‘‘ سے پڑھ لینا بہتر ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم
۵؍۶؍۱۴۰۹ھ
(فتویٰ نمبر ۹۷۵/۴۰ ج)
(فتویٰ نمبر ۷۷/۱۹ الف)
دانت میں چاندی بھری ہوئی ہو تو وضو اور غسل کا حکم
سوال:- دانتوں میں کیڑا لگ جانے کی وجہ سے اور کوئی علاج مستقل مفید نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے علاجاً چاندی بھردی ہے، اس صورت میں وضو میں کوئی نقص تو نہیں رہے گا؟
جواب:- صورتِ مسئولہ میں وضو میں تو کوئی اِشکال ہی نہیں، غسل میں اِشکال ہوسکتا تھا لیکن فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ مواضعِ ضرورت میں نیچے تک پانی پہنچانا ضروری نہیں۔
چنانچہ در مختار میں ہے:-
ولا یمنع ما علی ظفر صباغ ولا طعام بین أسنانہ أو فی سنہ المجوف بہٖ یفتی۔ وقیل: ان صلبًا منع وھو الأصح، وقال الشامی: قولہ وھو الأصح صرح بہ فی شرح المنیۃ وقال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج۔ (شامی ج:۱ ص:۱۵۴ مبحث الغسل، طبع ایچ ایم سعید)۔
وقد تقرر فی موضعہ أنہ مفاھیم الکتب حجۃ، فدل علٰی أنہ لا یمنع عدم نفوذ الماء فی مواقع الضرورۃ، وقد صرح بہ امداد الفتاویٰ ج:۱ ص:۱۸۔
اور عالمگیریہ میں ہے: قال محمدؒ فی الجامع الصغیر: ولا یشد الأسنان بالذھب ویشدھا بالفضۃ یرید بہ اذا تحرکت الأسنان وخیف سقوطھا فأراد صاحبھا أن یشدھا یشدھا بالفضۃ ولا یشدھا بالذھب، وھذا قول أبی حنیفۃؒ، وقال محمدؒ: یشدھا بالذھب أیضًا۔ (عالمگیریۃ ج:۵ ص:۳۳۶)۔[۱] واللہ اعلم
۱۱؍۱۰؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر ۱۰۳۹/۲۸ ج)
[۱]کتاب الکراھیۃ باب ۱۰ وکذا فی امداد الفتاویٰ ج:۱ ص:۱۹۔
نیاز فاتحہ کا حکم
سوال:۔ اگر کسی نے کچھ پکاکر نیاز فاتحہ دیا تو کیا جب تک نیاز فاتحہ نہ دیا جائے، تقسیم کرنا ممکن نہیں؟
جواب:- نیاز فاتحہ کا مروّجہ طریقہ ہی شریعت کی رُو سے دُرست نہیں ہے۔ ہاں! اگر کسی بزرگ کی رُوح کو ایصالِ ثواب کرنا ہے تو کھانا پکاکر کسی کو صدقہ کردیا جائے، اور یہ دُعا کرلی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کا ثواب فلاں کو پہنچادے، یہ جائز ہے، اور اس نیت سے کرنے کے لئے نیاز فاتحہ کی ضرورت نہیں ہے۔ واللہ اعلم
۲؍۵؍۱۳۸۸ھ
ختمِ قرآن کے موقع پر مسجد میں چراغاں کرنا اور مٹھائی تقسیم کرنا
سوال:۔
ماہِ رمضان میں ختمِ قرآن پر مسجد کو سجانا، روشنی کرنا اور قراء ت کا مقابلہ وغیرہ کرنے کے بعد مٹھائی تقسیم کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب:- مسجد میں چراغاں کرنا اِسراف ہے، اور کسی حال جائز نہیں،(۱) قراء ت کا مقابلہ اگر بچوں میں قرآنِ کریم کی ترغیب کی غرض سے ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن آج کل اس طرح نام و نمود اور تفاخر کی غرض سے جو مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں، ان سے احتراز لازم ہے۔ جہاں تک مٹھائی تقسیم کرنے کا تعلق ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی رقم سے مٹھائی تقسیم کرنا جائز نہیں، ہاں! اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مٹھائی تقسیم کرے اور اسے مسنون اور لازم بھی نہ سمجھے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ سبحانہ اعلم
۲۵؍۱۱؍۱۴۰۱ھ
(فتویٰ نمبر ۱۶۰۰/۳۲ ج)
نمازِ فجر میں اِسفار افضل ہے
سوال:- یہاں دیہی علاقے میں لوگ نمازِ فجر کافی دیر کرکے پڑھتے ہیں، مثلاً ۳؍ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ کو جامع مسجد جیمس آباد میں نمازِ فجر ۱۵:۶ (سوا چھ بجے پڑھی گئی) جبکہ کراچی کی نسبت طلوع و غروب میں ۵ منٹ کا فرق ہے، براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب:- نمازِ فجر حنفیہ کے نزدیک اِسفار یعنی اُجالے میں پڑھنا افضل ہے، البتہ نماز طلوعِ آفتاب سے اتنے پہلے ختم ہوجانی چاہئے کہ اگر کسی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا پڑے تو طوالِ مفصل کی قراء ت کے ساتھ اعادہ ہوسکے اور پھر بھی کچھ وقت بچ رہے۔(۱)
واللہ سبحانہ اعلم
۱۲؍۸؍۱۳۹۶ھ
(فتویٰ نمبر ۲۷۸۰/۲۷ و)
عشاء میں جلدی کا حکم
سوال:- عشاء کی اذان اور نماز میں اکثر مسجدوں میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ مغرب کی اذان سے عشاء کی جماعت تک ڈیڑھ گھنٹہ بھی ٹھیک سے نہیں ہوتا، تو کیا ایسی صورت میں اذان اور نماز ہوجاتی ہے؟
جواب:- ہر موسم میں مغرب اور عشاء کے درمیان فاصلہ الگ ہوتا ہے، اس کام کے لئے نقشے چھپے ہوئے ہیں، حافظ فریدالدین صاحب وکٹوریہ روڈ والے اوقاتِ نماز کا جو نقشہ چھاپتے ہیں اس کے مطابق عمل کریں۔
واللہ اعلم
۲۰؍۹؍۱۳۹۷ھ
ختمِ قرآن کے موقع پر مسجد میں چراغاں کرنا اور مٹھائی تقسیم کرنا
سوال:۔
ماہِ رمضان میں ختمِ قرآن پر مسجد کو سجانا، روشنی کرنا اور قراء ت کا مقابلہ وغیرہ کرنے کے بعد مٹھائی تقسیم کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب:- مسجد میں چراغاں کرنا اِسراف ہے، اور کسی حال جائز نہیں،(۱) قراء ت کا مقابلہ اگر بچوں میں قرآنِ کریم کی ترغیب کی غرض سے ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن آج کل اس طرح نام و نمود اور تفاخر کی غرض سے جو مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں، ان سے احتراز لازم ہے۔ جہاں تک مٹھائی تقسیم کرنے کا تعلق ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی رقم سے مٹھائی تقسیم کرنا جائز نہیں، ہاں! اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے مٹھائی تقسیم کرے اور اسے مسنون اور لازم بھی نہ سمجھے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ سبحانہ اعلم
۲۵؍۱۱؍۱۴۰۱ھ
(فتویٰ نمبر ۱۶۰۰/۳۲ ج)