نظرلگنے کی حقیقت
س… بڑے بوڑھوں سے اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص کو نظر لگ گئی اور اس طرح اس کی آمدنی کم ہوگئی یا کاروبار میں نقصان ہوگیا، یا ملازمت ختم ہوگئی وغیرہ۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ نظر لگنے کی حقیقت کیا ہے؟
ج… صحیح بخاری شریف (کتاب الطب، باب العین حق) کی حدیث میں ہے کہ: “العین حق” یعنی نظر لگنا برحق ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (ج:۱۰ ص:۲۰۴) میں اس کے ذیل میں مسند بزار سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “قضا و قدر کے بعد اکثر لوگ نظر لگنے سے مرتے ہیں۔” اس سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے سے بعض دفعہ آدمی بیمار بھی ہوجاتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ بیماری موت کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے۔ دوسرے نقصانات کو اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی چیز کو دیکھے اور وہ اسے بہت ہی اچھی لگے تو اگر وہ “ما شاء الله لا قوة الا بالله” کہہ دے تو اس کو نظر نہیں لگے گی۔
اسلامی ممالک میں غیرمذہب کی تبلیغ پر پابندی تنگ نظری نہیں
س… پہلے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ ہمارا اسلام تنگ نظر مذہب ہے؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے جو یقینا نہیں میں ہوگا تو پھر اس “نہیں” کی روشنی میں میرے ذہن میں موجود اصل مسئلے کا جواب دیں کہ جب اسلام اپنی تبلیغ کا حکم دیتا ہے تو پھر دوسرے مذاہب پر کیوں پابندی لگادیتا ہے؟ کیا اسلام کے پیروکاروں کو استقلال اور ثابت قدمی پر شک ہے جو ان کے اولین اصولوں میں ایک ہے۔ پھر یہ کہ جب اسلامی مملکتوں میں دوسرے مذاہب ک تبلیغ قانوناً ممنوع ہے تو کیا یہ خطرہ تو نہیں کہ غیرمسلم مملکتیں اسلام کی تبلیغ کے بارے میں ایسے ہی قوانین بناڈالیں۔ اگر کہیں ایسا ہوگیا تو اسلام کی تبلیغ کہاں اور کیونکر ہوگی؟ اور کیا موجودہ طریقہ کار سے دوسرے مذاہب کی سرگرمیوں کو خفیہ فروغ تو حاصل نہیں ہو رہا؟ امید ہے میرے ان سوالات کا تفصیلی جواب دے کر آپ میرے اور میرے حوالے سے کئی نوجوانوں کے ذہن میں موجود اس الجھن اور تشویش کو دور کریں گے؟
ج… اپنے حریم میں کسی کو گھسنے نہ دینا تنگ نظری نہیں کہلاتی، حمیت و غیرت کہلاتی ہے! اسلام اگر تنگ نظر نہیں ہے تو بے غیرت بھی نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کو اپنی طرف علانیہ دعوت دینے لگے تو کیا شوہر اس کو برداشت کرے گا؟ اور کیا کوئی عقل مند اس کو تنگ نظری کا طعنہ دے گا؟ اور کیا یہ کہا جائے گا کہ اس کو اپنی بیوی پر اعتماد نہیں اس لئے برا مناتا ہے؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے زیادہ باغیرت ہے اور اس کا دین انسانی ناموس سے زیادہ مقدس ہے۔
رہا آپ کا یہ اشکال ہے کہ اگر اسلامی مملکت میں غیرمذاہب کو اپنی تبلیغ کرنے پر پابندی ہوگی تو غیرمسلم مملکتیں اپنے یہاں بھی مسلمانوں پر پابندی عائد کردیں گی کہ وہ تبلیغ نہ کریں۔ تو جناب! حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی عیسائی مملکتیں جنہیں عام طور پر فراخ دل “لبرل” تصور کیا جاتا ہے مسلمانوں کی تبلیغ کے معاملہ میں انتہائی متعصب ہوتی ہیں۔ ان کے ملکوں میں عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دینا تو درکنار ذرا آپ مسلمانوں کو ہی اسلام کی تعلیم دینے کے لئے کوئی مسجد یا مدرسہ تعمیر کرلیں تو دیکھیں۔ یہ جو آپ سنتے ہیں کہ انگلینڈ میں اتنی سو مساجد ہیں، یہ زیادہ تر خفیہ طور پر گھروں میں ہوتی ہیں، جن کے اندر دروازے بند کرکے اذان دی جاتی ہے، وہ بھی بغیر مائک کے اور ہلکی آواز سے۔ اور جو آپ لندن یا دوسرے شہروں میں کوئی اعلانیہ مسجد دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے کئی سالوں پر محیط صبرآزما جدوجہد کارفرما ہوتی ہے۔ آپ کو دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ لندن دنیا کا بڑا مرکز ہے، مسلمانوں کی بڑی آبادی کے علاوہ وہاں چالیس پچاس مسلم ممالک کے سفیر اور ان کے متعلقین رہتے ہیں، سالوں کی جدوجہد اور عرب سربراہان کے زور ڈالنے پر ریجنٹ پارک میں مسجد بنانے کی اجازت ملی، اس کا مینار کہیں لندن کے سینٹ پال چرچ کے مینار سے زیادہ بلند ہو رہا تھا فوراً شرط عائد ہوئی کہ مسجد کا مینار اس چرچ سے اونچا نہ ہو، جبکہ وہ چرچ ریجنٹ پارک سے دور واقع ہے اور اذانوں کی آواز پر بھی ایک نوع کی پابندی ہے۔ اب سنئے مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ کے قیام کے لئے مانچسٹر بولٹن کے نزدیک پانچ سال کی تھکادینے والی جدوجہد کے بعد اجازت ملی کہ آپ مسلمان بچوں کے لئے اسلامی دینی مدرسہ بناسکتے ہیں۔ یہ کراچی یا پاکستان کی فراخ دل، لبرل، مشنری مشنوں کے رموز سے بے نیاز حکومت تھوڑی ہی ہے کہ کہیں تو عیسائیوں کی “سیلولیشن آرمی” (نجات کی فوج) ہے اور کہیں بہترین علاقوں جیسے کہ صدر میں بلند سے بلند ترین گرجا گھر ہیں، جو سونے جیسی زمین میں وسیع و عریض رقبوں پر محیط ہیں۔ یہ سب اس کے علاوہ ہے کہ مشنری اسکول کالج روز افزوں ہیں، جو اگر مرتد نہیں بناسکتے تو راسخ العقیدہ مسلمان بھی نہیں رہنے دیتے۔ امریکہ کی “وسعتِ نظری” کی مثال ایک پاکستانی دردمند مسلمان نے بیان کی۔ وہ شکاگو میں رہتے ہیں، جب انہوں نے یہاں عیسائیوں کی یہ ہمہ گیری مشنری اسکول، مشنری اسپتال، گرجا گھروں اور عیسائی نمائندوں کی دیکھی جو قومی و صوبائی اسمبلی میں براجمان ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں تو ایک مسلمان “سنڈے اسکول” کھولنے کے لئے بھی برسوں لگ جاتے ہیں، پہلے تو جس محلہ میں “سنڈے اسکول” کھولنا ہوتا ہے وہاں کی آبادی کی “پبلک ہیرنگ” کرائی جاتی ہے، باقاعدہ ووٹنگ ہوتی ہے کہ کتنے باشندے اسکول یا مسجد کی تعمیر کے حق میں ہیں، تو ظاہر ہے کہ عیسائی آبادی اپنی اکثریت کی بنا پر اس کو ردّ کردیتی ہے، پھر ضلعی کورٹ، ہائی کورٹ میں مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ ہر جگہ سے ہار ہار کر انجام کار سپریم کورٹ سے مسلمان اسکول کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے، اس میں دس سال گزر جاتے ہیں۔ امریکی کورٹ کے زبردست اخراجات میں مسلمانوں کا فنڈ کنگال ہوجاتا ہے اور مسلمان “سنڈے اسکول” کا خواب اس “لبرل” ملک میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا، رہا یہ کہ کوئی مسلمان محض اقلیت کی بنا پر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا ممبر بن جائے، یہ ناممکنات میں سے ہے، اُن “لبرل، فراخ دل، وسیع النظر” حکومتوں نے اقلیتوں کے نمائندوں کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں پہنچانے کا ٹنٹا نہیں پالا۔
کافر کو کافر کہنا حق ہے
س… کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں “کسی کافر کو بھی کافر نہیں کہنا چاہئے”، چنانچہ قادیانیوں کو کافر کہنا درست نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی صرف زبان سے کلمہ پڑھ لے اور اپنے کو مسلمان ہونے کا اقرار کرے جبکہ حقیقت میں اس کا تعلق قادیانیت یا کسی اور عقیدے سے ہو تو کیا وہ شخص صرف زبانی کلمہ پڑھ لینے سے مسلمان کہلائے گا؟ ازراہ کرم مسئلہ ختم نبوت کی وضاحت تفصیل سے بتائیے۔
ج… یہ تو کوئی حدیث نہیں کہ کافر کو کافر نہ کہا جائے، قرآن کریم میں بار بار “ان الذین کفروا”، “الکافرون”، “لقد کفر الذین قالوا” کے الفاظ موجود ہیں۔ جو اس نظریہ کی تردید کے لئے کافی و شافی ہیں۔ اور یہ اصول بھی غلط ہے کہ جو شخص کلمہ پڑھ لے (خواہ مرزا غلام احمد قادیانی کو “محمد رسول اللہ” ہی مانتا ہو) اس کو بھی مسلمان ہی سمجھو، اس طرح یہ اصول بھی غلط ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو خواہ خدا اور رسول کو گالیاں ہی بکتا ہو، اس کو بھی مسلمان ہی سمجھو۔
صحیح اصول یہ ہے کہ جو شخص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے دین کو مانتا ہو اور “ضروریاتِ دین” میں سے کسی بات کا انکار نہ کرتا ہو، نہ توڑ مروڑ کر ان کو غلط معانی پہناتا ہو وہ مسلمان ہے، کیونکہ “ضروریاتِ دین” میں سے کسی ایک کا انکار کرنا یا اس کے معنی و مفہوم کو بگاڑنا کفر ہے۔ قادیانیوں کے کفر و ارتداد اور زندقہ و الحاد کی تفصیلات اہل علم بہت سی کتابوں میں بیان کرچکے ہیں۔ جس شخص کو مزید اطمینان حاصل کرنا ہو وہ میرے رسالہ “قادیانی جنازہ”، “قادیانیوں کی طرف سے کلمہ طیبہ کی توہین” اور “قادیانیوں اور دوسرے غیرمسلموں میں کیا فرق ہے؟” ملاحظہ کرلیں۔ “دفتر ختم نبوت، مسجد باب الرحمت، پرانی نمائش محمد علی جناح روڈ، کراچی” سے یہ رسائل مل جائیں گے۔
خناس کا قصہ من گھڑت ہے
س… آج کل میلاد شریف میں پڑھنے والی عورتیں کچھ اس قسم کی باتیں سناتی ہیں کہ: حضرت حوا علیہا السلام کے پاس شیطان آیا کہ میرے بچہ کو ذرا رکھ لو، انہوں نے بٹھالیا تو حضرت آدم تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ خناس بیٹھا ہوا ہے، انہوں نے اس کو کاٹا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دئیے۔ شیطان آیا اور پوچھا بچہ کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا، وہ آواز دیتا ہے: خناس! خناس! تمام ٹکڑے جمع ہوکر بچہ بن کر تیار ہوجاتا ہے۔ وہ پھر موقع دیکھ کر حضرت حوا کے حوالے کرجاتا ہے۔ پھر حضرت آدم تشریف لاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ خناس بیٹھا ہے، وہ اس کو کاٹ کر جلاتے ہیں اور راکھ کرکے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ شیطان حسب سابق آکر آواز دے کر بچہ زندہ کرکے لے جاتا ہے اور پھر موقع پاکر حضرت حوا کے حوالے کر جاتا ہے۔ اس مرتبہ حضرت آدم اور حوا اس کو کاٹ کر بھون کر دونوں کھالیتے ہیں۔ پھر میلاد شریف پڑھنے والی فرماتی ہیں کہ انسان کے اندر یہ وہی خناس ہے جو رگ و ریشہ میں پیوست ہوگیا۔ اور اس کو حدیث کہہ کر بیان فرماتی ہیں۔ میں نے یہ حدیث اپنے محترم بھائی مولانا مفتی محمود صاحب سے کبھی نہیں سنی، ذرا وضاحت فرمادیجئے کہ آیا یہ صحیح ہے یا من گھڑت قصہ ہے؟
ج… یہ قصہ بالکل من گھڑت ہے، افسوس ہے کہ اکثر واعظین خصوصاً میلاد پڑھنے والے اسی قسم کے واہی تباہی بیان کرتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں ایسے بے سروپا قصے بیان کرنا بہت ہی سنگین گناہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: “جو شخص میری طرف کوئی غلط بات جان بوجھ کر منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنائے۔” اس لئے واعظین کو چاہئے کہ ایسے لغو اور بیہودہ قصے نہ بیان کیا کریں۔
بے علمی اور بے عملی کے وبال کا موازنہ
س… ایک مسلمان ایسے فعل کو جانتا ہے کہ جس کے کرنے کا حکم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور ایک کام ایسا ہے جس کے کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، لیکن مسلمان جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہیں کرتا۔ سوال کا منشا یہ ہے کہ کیا ایک ایسا شخص زیادہ گناہ گار ہوگا جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کام گناہ ہے کسی وجہ سے پھر بھی اس کا مرتکب ہو یا وہ شخص بہتر ہے جو گناہ والے کام کو انجانے میں مگر بڑے شوق و ذوق کے ساتھ انجام دیتا ہے؟
ج… اللہ تعالیٰ نے ہمیں کن باتوں کے کرنے کا اور کن باتوں سے باز رہنے کا حکم دیا، ان کا جاننا مستقل فرض ہے، اور ان پر عمل کرنا مستقل فرض ہے۔ جس نے جانا ہی نہیں اور نہ جاننے کی کوشش ہی کی وہ دوہرا مجرم ہے، اور جس نے شریعت کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کی اس نے ایک فرض ادا کرلیا، ایک اس کے ذمہ رہا۔ الغرض بے علمی مستقل جرم ہے اور بے عمل مستقل۔ اس لئے اس شخص کی حالت بدتر ہے جو شرعی حکم جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ دوم یہ کہ جو شخص اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو جانتا ہوگا وہ اگر حکم کی خلاف ورزی کرے گا تو کم از کم اپنے آپ کو مجرم اور گناہ گار تو سمجھے گا، گناہ کو گناہ اور حرام کو حرام جانے گا، اور جو شخص جانتا ہی نہیں کہ میں حکمِ الٰہی کو توڑ رہا ہوں اور اپنے جہل اور نادانی کی وجہ سے گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھے گا، نہ وہ اپنے آپ کو گناہ گار اور قصور وار تصور کرے گا۔ ظاہر ہے کہ جو مجرم اپنے جرم کو جرم ہی نہ سمجھے اس کی حالت اس شخص سے بدتر ہے جو اپنے آپ کو قصور وار سمجھے اور اپنے جرم کا معترف ہو۔ سوم یہ کہ جو شخص گناہ کو گناہ سمجھے کم از کم اس کو توبہ و استغفار کی توفیق ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ کسی وقت اس کو اپنی حالت پر ندامت ہو اور وہ گناہ سے تائب ہوجائے۔ لیکن جس جاہل کو یہی معلوم نہیں کہ وہ گناہ کر رہا ہے، وہ کبھی توبہ و استغفار نہیں کرے گا اور نہ اس کے بارے میں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ وہ اس گناہ سے باز آجائے گا، ظاہر ہے کہ یہ حالت پہلی حالت سے زیادہ خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔
متبرک قطعات
س… کچھ مسلمان بھائیوں نے اپنے گھروں کے کمروں میں چاروں طرف اسلامی کیلنڈر کے قطعات لگا رکھے ہیں، ان کا لگانا کیسا ہے؟
ج… متبرک قطعات اگر برکت کے لئے لگائے جائیں تو جائز ہے، زینت کے لئے ہوں تو جائز نہیں، کیونکہ اسمائے مقدسہ اور آیات شریفہ کو محض گھر کی زینت کے لئے استعمال کرنا خلافِ ادب ہے۔
کیا زمین پر جبرائیل علیہ السلام کی آمد بند ہوگئی ہے؟
س… بیان القرآن میں سورہٴ قدر کے ترجمہ میں ناچیز نے پڑھا ہے کہ لیلة القدر میں سید الملائکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام بمع لشکر کے زمین پر اترتے ہیں اور ساتھ حاشیہ میں بیہقی کی حضرت انس کی روایت بھی درج ہے کہ روح الامین آتے ہیں۔ جبکہ موت کا منظر میں حضور پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریفہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سرکار نے جب فانی دنیا سے پردہ فرمایا اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اجازت لے کر حجرہٴ مبارک میں داخل ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام بھی آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! دیگر گفتگو کے علاوہ کہ اب میرا زمین پر یہ آنا آخری بار آنا ہے اور میں قیامت تک زمین پر نہیں آوٴں گا۔ تو عرض ہے کہ اس مسئلہ میں یہ تضاد کیسا؟
ج… ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں، جبرائیل علیہ السلام کا وحی لے کر آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے بند ہوگیا، دوسری مہمات کے لئے ان کا آنا بند نہیں ہوا۔
کیا دنیا و ما فیہا ملعون ہے؟
س… کراچی سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ میں ایک مضمون بعنوان “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات” میں حدیث تحریر کی گئی جس کے الفاظ درج ذیل تھے:
“دنیا ملعون ہے اور دنیا میں موجود تمام چیزیں بھی ملعون ہیں۔”
حدیث کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سی حدیث سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں، میری ناقص رائے کے مطابق دنیا میں بہت سی واجب الاحترام چیزیں ہیں، مثلاً: قرآن پاک، خانہ کعبہ، بیت المقدس، مدینة النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قابل احترام ہستیاں بھی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مبارک الفاظ ارشاد فرمائے ان کا مفہوم کیا ہے؟ کیا یہ الفاظ حقیقتاً اسی طرح ہیں؟
ج… یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے۔ حدیث پوری نقل نہیں کی گئی اس لئے آپ کو اشکال ہوا۔ پوری حدیث یہ ہے: “دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے اور جو چیزیں ذکرِ الٰہی سے تعلق رکھتی ہیں یا عالم یا طالب علم کے۔” اس سے معلوم ہوا کہ یہ تمام چیزیں جو ذکرِ الٰہی کا ذریعہ ہیں وہ دنیائے مذموم کے تحت داخل نہیں۔
کیا “خدا تعالیٰ فرماتے ہیں” کہنا جائز ہے؟
س… ایک پیر صاحب کے سامنے ذکر ہوا کہ “خدا تعالیٰ فرماتے ہیں” تو وہ بہت غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ یوں کہنا چاہئے: “خدا تعالیٰ فرماتا ہے” کیونکہ وہ وحدہ لا شریک ذات ہے۔ اور “فرماتے ہیں” ہم نے تعظیماً کہا تھا اور ہم کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ وحدہ لا شریک ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیں۔
ج… تعظیم کے لئے “اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” کہنا جائز ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے جمع کے صیغے استعمال فرمائے ہیں۔
اللہ کی جگہ لفظ “خدا” کا استعمال کرنا
س… صورت حال یہ ہے کہ میرے ایک چچا انڈیا میں رہتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک خط میں لفظ “خدا” کا استعمال کیا تھا۔ (میرا خیال ہے کہ خدا حافظ لکھا تھا) جس پر انہوں نے مجھے لکھا کہ لفظ خدا کا استعمال غلط ہے، اللہ کے لئے لفظ خدا استعمال نہیں ہوسکتا۔ جس کے جواب میں میں نے لکھا تھا کہ میرے خیال میں خدا لکھنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ بس ہمارے ذہن میں اللہ کا تصور پختہ ہونا چاہئے اور اگر لفظ خدا غلط ہے تو تاج کمپنی، جس کے قرآن پاک تمام دنیا میں پڑھے جاتے ہیں، کے ترجموں میں لفظ خدا استعمال نہ ہوتا۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کیا لفظ خدا کا استعمال غلط ہے؟
ج… اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے اور صدیوں سے اکابرین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے، انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں “عجمی سازش” نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہم نواوٴں نے پیدا کیا اور بہت سے پڑھے لکھے، شعوری و غیرشعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے کی ہے۔ عربی لفظ میں رب مالک اور صاحب کے معنی میں ہے، اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے، چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیراللہ پر نہیں کیا جاتا، اسی طرح لفظ خدا بھی جب مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔
غیاث اللغات میں ہے: “خدا بالضم بمعنی مالک، صاحب چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذات باری تعالیٰ اطلاق نکنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کد خدا، ودہ خدا۔” ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ رب کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ “اللہ” تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے، جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتا ہے، دوسرے اسمائے الٰہیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیرعربی میں کردیا جائے اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ “خدا” صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اور لفظ “رب” کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا؟ کیا انگریزی میں لفظ “رب” کا کوئی اور ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمے کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گی؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خودرائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں، یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
س…ہر مسلمان حضرت محمد کا نام بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ لیتا ہے، یعنی نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضافہ کردیتے ہیں، لیکن اس کی نسبت اللہ کا نام اتنے ادب و تعظیم کے ساتھ نہیں لیتے، فقط خدا یا اللہ کیوں کہتے ہیں؟
ج… اللہ تعالیٰ کا نام بھی عظمت سے لینا چاہئے، مثلاً: خدا تعالیٰ، اللہ جل شانہ۔
س… ہمارا ایک دوست جمال، خداوند کریم کا ذکر ہو تو اللہ میاں کہتا ہے، ہمارا ایک اور دوست کہتا ہے کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے (جس کا نام اسے یاد نہیں ہے) کہ اللہ میاں نہیں کہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ یا اور جو خداوند تعالیٰ کے نام ہیں لینے چاہئیں، کیونکہ میاں کے معنی کچھ اور ہیں۔ یہ آپ بتائیں کہ کیا ٹھیک ہے کہ اللہ میاں کہیں نہ کہیں؟ ذرا وضاحت فرماکر مشکور فرماویں کیونکہ ہم نے پرائمری اسکولوں میں اللہ میاں پڑھا ہے۔
ج… “میاں” کا لفظ تعظیم کا ہے، اس کے معنی آقا، سردار، مالک اور حاکم کے بھی آتے ہیں۔ اس لئے اللہ میاں کہنا جائز ہے۔
یہ کہنا کہ: “تمام بنی نوع انسان اللہ کے بچے ہیں” غلط ہے
س… کتاب ․․․․․․․․ جس کے موٴلف ․․․․․․․․ ایم اے ہیں، اس کے صفحہ:۱۸۳ پر لکھا ہے: “تمام بنی نوع انسان اللہ تعالیٰ کے بچے ہیں” کیا یہ صحیح تحریر کیا گیا ہے؟
ج… جی نہیں! یہ تعبیر بالکل غلط ہے۔ حدیث میں مخلوق کو عیال اللہ فرمایا گیا ہے، “عیال” بچوں کو نہیں کہتے بلکہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کی کفالت کسی کے ذمہ ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور بیٹیوں کی تقسیم کیوں کی ہے؟
س… سورہٴ نجم آیت:۲۲ میں ہے کہ: “تم اللہ کے لئے بیٹیوں کو اور اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو، کیسی بری تقسیم ہے جو تم لوگ کر رہے ہو۔” لیکن اللہ تعالیٰ خود ایسی تقسیم کرتا ہے، کیا یہ تقسیم بری ہے؟ واضح جواب دیں۔
ج… مشرکین مکہ، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، قرآن کریم میں مختلف دلائل سے ان کی تردید کی گئی ہے۔ سورة النجم کی اس آیت میں ان کی تردید یوں کی گئی ہے کہ: “جس صنف کو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے، اس کو خدا کے لئے تجویز کرتے ہو، یہ کیسی بری تقسیم ہے؟” حق تعالیٰ شانہ کا بعض کو بیٹے، بعض کو بیٹیاں اور بعض کو دونوں اور بعض کو بانجھ کردینا اس کی کمالِ قدرت کی دلیل ہے، اور اس میں گہری حکمت کارفرما ہے کہ جس کے حال کے جو مناسب تھا وہ معاملہ اس سے کیا۔
زلزلہ کے کیا اسباب ہیں؟ اور مسلمان کو کیا کرنا چاہئے؟
س… کراچی میں زلزلہ آیا، زلزلہ اسلامی عقائد کے مطابق سنا ہے کہ اللہ کا عذاب ہے، براہ کرم اطلاع دیں کہ زلزلہ کیا ہے؟ واقعی عذاب ہے یا زمین کی گیس خارج ہوتی ہے یا ایک اتفاقی حادثہ ہے؟ اگریہ اللہ کا عذاب ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ج… زلزلہ کے کچھ طبعی اسباب بھی ہیں جن کو طبقاتِ ارض کے ماہرین بیان کرتے ہیں، مگر ان اسباب کو مہیا کرنے والا ارادہٴ خداوندی ہے اور بعض دفعہ طبعی اسباب کے بغیر بھی زلزلہ آتا ہے۔ بہرحال ان زلزلوں سے ایک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہئے اور دعا و استغفار، صدقہ و خیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہئے۔
اجتماعی اور انفرادی اصلاح کی اہمیت
س… پچھلے چند سالوں میں ہمارے پڑوسی ملک میں ایک بیرونی طاقت نے قبضہ جمایا ہوا ہے، اور وقتاً فوقتاً ہمارے ملک پاکستان پر بھی جارحیت کرتا رہتا ہے، اس کے عزائم بتاتے ہیں کہ یہ طاقت اور آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی اور ہم خدانخواستہ اپنی آزادی سے محروم ہوجائیں گے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اپنے پڑوسی کی تبدیلیوں سے کچھ سبق سیکھتے اور متوقع خطرے کی بو سونگھتے ہی اپنے اعمال کی طرف توجہ دیتے اور خدا کے حکموں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر ان کو ڈھال دیتے، اس میں ہی ہمارے لئے دنیا و آخرت کی خیر تھی لیکن عام طور پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل الٹ ہے۔
میں یہاں سعودی عرب میں مقیم ہوں، ہمارے ساتھ ہندوستان کے ہندو بھی کام کرتے ہیں، کبھی ان کے ساتھ ان کے ملک میں رشوت، چوربازاری، ڈکیتی، اسمگلنگ، ملاوٹ اور غنڈہ گردی کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ اپنے ملک کے حالات بتاکر پاکستان کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ یقین جانئے سچ بات کہتے ہوئے میرے دل کا جو حال ہوتا ہے وہ خدا ہی جانتا ہے، یہ سب برائیاں ہمارے یہاں بہت ہی عام ہیں، حالانکہ مسلمان مملکت اور کافروں کے ملک کے حالات میں واضح فرق ہونا چاہئے تھا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان اپنے مقصد سے ہٹے ہیں، تباہی ان کا مقدر بنی ہے اور آج بھی ہمارے اعمال پکار پکار کر دشمن کو اپنی طرف بلا رہے ہیں۔
مولانا محترم! میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک عام مسلمان کے کیا فرائض ہیں اور اگر ایک عام مسلمان اپنے اطراف کی برائیوں کی طرف سے آنکھ بند کرتے ہوئے صرف عاقبت کی فکر میں لگا رہے تو کیا یہ اس کی نجات کے لئے کافی ہے؟
ج… آپ کا سوال بہت نفیس ہے اور اہم بھی۔ افسوس ہے کہ اس کالم میں اس پر مفصل گفتگو کی گنجائش نہیں، مختصراً چند نکات پیش کرتا ہوں۔ اگر غور و توجہ سے ملاحظہ فرمائیں گے تو انشاء اللہ اطمینان ہوجائے گا۔
اوّل:…فرد اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں، نہ فرد معاشرے کے بغیر جی سکتا ہے اور نہ معاشرہ افراد کے بغیر تشکیل پاتا ہے۔
دوم:…فرد پر کچھ انفرادی فرائض اور ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور کچھ اجتماعی و معاشرتی۔
سوم:…تمام فرائض اور ذمہ داریوں کے لئے، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، قدرت و استطاعت شرط ہے۔ جو چیز آدمی کی قدرت و استطاعت سے خارج ہو اس کا وہ مکلف نہیں ہے۔
چہارم:…سب سے پہلے آدمی کو اپنے انفرادی فرائض بجالانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے (جس کو آپ نے اپنی عاقبت کی فکر کرنے سے تعبیر فرمایا ہے)، ان فرائض میں عقائد کی درستگی، اعمال کی بجاآوری، اخلاق کی اصلاح، معاشرتی حقوق کی ادائیگی سبھی کچھ آجاتا ہے۔ اگر اسلامی معاشرے کے افراد اپنی اپنی جگہ انفرادی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں تو مجھے یقین ہے کہ نوے فیصد معاشرتی برائیاں ازخود ختم ہوجائیں گی۔
پنجم:…اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی استطاعت کے بقدر معاشرہ کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے، جسے شریعت کی اصطلاح میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں، اور اس کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ طاقت اور قوت کے ذریعہ برائی کو روکنا ہے۔ یہ حکومت کے فرائض میں شامل ہے، مگر آج کل حکومتیں افراد کے ووٹ سے بنتی ہیں، اس لئے ایسے افراد کو منتخب کرنا جو خود برائیوں سے بچتے ہوں اور حکومتی سطح پر برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں عوام کا فریضہ ہے، اگر وہ اس فریضہ میں کوتاہی کریں گے تو دنیا و آخرت میں اس کی سزا بھگتیں گے۔
دوسرا درجہ زبان سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے۔ اس کی شرائط و تفصیلات بہت ہیں ،مگر ان کا خلاصہ یہ ہے کہ زبان سے کہنے کی قدرت ہو اور کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو وہاں زبان سے دعوت و تذکیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض ہے، مگر دنگا فساد نہ کیا جائے نہ کسی کی تحقیر و تذلیل کی جائے۔ ہمارے دور میں “تبلیغی جماعت” کا طریقہ کار اس کی بہترین مثال ہے اور انفرادی و اجتماعی اصلاح کا نسخہ کیمیا ہے۔
تیسرا درجہ برائی کو دل سے برا سمجھنا ہے۔ جبکہ آدمی نہ تو ہاتھ سے اصلاح کرسکتا ہو، نہ زبان سے اصلاح کرنے پر قادر ہو، تو آخری درجہ میں اس پر یہ فرض ہے کہ برائی کو دیکھ کر دل سے کڑھے، اس سے بیزاری اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی اصلاح کی دعا کرے۔ اگر کوئی شخص اپنی طاقت و وسعت کے دائرے میں رہ کر مندرجہ بالا دستور العمل پر عمل پیرا ہے، انشاء اللہ وہ آخرت میں مطالبہ سے بری ہوگا اور جو شخص اس دستور العمل میں کوتاہی کرتا ہے اس پر اس کی کوتاہی کے بقدر مطالبہ کا اندیشہ ہے۔ اب دیکھ لیجئے کہ ہم اس دستور العمل پر کہاں تک عمل پیرا ہیں؟
سکھوں کا ایک سکھاشاہی استدلال
س… پردیس میں سکھ لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سوال کا جواب اپنے علماء سے لے کر دو۔ سوال یہ ہے کہ ہر شخص پیدائشی طور پر سکھ ہوتا ہے، ہندو یا مسلم بعد میں بنایا جاتا ہے، دلیل یہ دیتے ہیں کہ اوپر والے نے جس حالت میں تمہیں بھیجا ہے تمہیں وہ اچھی کیوں نہیں لگتی؟ مختلف تبدیلیاں کیوں کرتے ہو؟ یعنی بال کٹوانا یا سنت کروانا وغیرہ وغیرہ، کیا اس نے غلط بناکر بھیجا ہے؟
ج… ان لوگوں کو یہ جواب دیجئے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے اس کے دانت بھی نہیں ہوتے، ان کو بھی نکال دیا کرو، اور اگر کسی کے پیدائشی طور پر ایسا نقص ہو جس کے لئے آپریشن کی ضرورت ہو تو کیا وہ بھی نہیں کرایا جائے گا؟
حقوق اللہ اور حقوق العباد
س… خدا کا بندہ حق اللہ تو ادا کرتا ہے لیکن حقوق العباد سے کوتاہی برت رہا ہے۔ اس کی مغفرت ہوگی کہ نہیں؟ حق العباد اگر پورا کر رہا ہے کسی قسم کی اپنی دانست میں کوتاہی نہیں کر رہا مگر حق اللہ سے کوتاہی کر رہا ہے، کیا اس کی مغفرت ممکن ہے؟
ج… سچی توبہ سے تو سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (اور سچی توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں کا حق تلف کیا ہو ان کو ادا کرے یا ان سے معافی مانگ لے) اور جو شخص بغیر توبہ کے مرا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہ خواہ اپنی رحمت سے بغیر سزا کے بخش دے یا گناہوں کی سزا دے۔ حق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ سنگین ہے کہ ان کو ادا کئے بغیر آخرت میں معافی نہیں ملے گی، ہاں! اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ خصوصی رحمت کا معاملہ فرمائیں اور اہل حقوق کو اپنے پاس سے معاوضہ دے کر راضی کرادیں یا اہل حقوق خود معاف کردیں تو دوسری بات ہے۔
مایوسی کفر ہے
س… مذہب اسلام میں مایوسی کفر ہے۔ ہم نے ایسا سنا ہے اور ساتھ یہ بھی ہے کہ خداوند نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ بیماریاں لاعلاج ہیں، ایک ایسا مرض جس کو ڈاکٹر لوگ لاعلاج قرار دیں تو ظاہر ہے وہ پھر مایوس ہوجائے گا۔ جب وہ مایوس ہوجائے گا تو اسلام میں وہ کافر ہوجائے گا؟
ج… خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، صحت سے مایوسی کفر نہیں اور اللہ تعالیٰ نے واقعی ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے مگر موت کا کوئی علاج نہیں، اب ظاہر ہے کہ مرض الموت تو لاعلاج ہی ہوگا۔
صبر اور بے صبری کا معیار
س… “بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبة” سے کیا مراد ہے؟ آج کل علماء کرام یا مشائخ کی وفات پر رسائل میں جو مرثیے آتے ہیں، “کیا نخل تمنا کو میرے آگ لگی ہے” یا “کیا دکھاتا ہے کرشمے چرخ گردوں ہائے ہائے” وغیرہ الفاظ صحیح ہیں؟خیرالقرون میں اس کی مثال ہے؟
ج… قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں صبر کا مأمور بہ ہونا اور جزع فزع کا ممنوع ہونا تو بالکل بدیہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مصائب پر رنج و غم کا ہونا ایک طبعی امر ہے، اور اس رنج کے اظہار کے طور پر بعض الفاظ آدمی کے منہ سے نکل جاتے ہیں، اب تنقیح طلب امر یہ ہے کہ صبر اور بے صبری کا معیار کیا ہے؟ اس سلسلہ میں کتاب و سنت اور اکابر کے ارشادات سے جو کچھ مفہوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی حادثہ کے موقع پر ایسے الفاظ کہے جائیں جس میں حق تعالیٰ کی شکایت پائی جائے (نعوذ باللہ) یا اس حادثہ کی وجہ سے مأموراتِ شرعیہ چھوٹ جائیں، مثلاً: نماز قضا کردے، یا کسی ممنوع شرعی کا ارتکاب ہوجائے، مثلاً: بال نوچنا، چہرہ پیٹنا تو یہ بے صبری ہے اور اگر ایسی بات نہ ہو تو خلافِ صبر نہیں، خیرالقرون میں بھی مرثیے کہے جاتے تھے مگر اسی معیار پر، اس اصول کو آج کل کے مرثیوں پر خود منطبق کرلیجئے۔
مردہ جنم شدہ بچہ آخرت میں اٹھایا جائے گا
س… ایک ماں سے جنم شدہ مردہ بچہ کیا جنت یا آخرت میں اٹھے گا؟ کیونکہ زندہ بچے تو ضرور آخرت میں اٹھیں گے، ذرا وضاحت فرمائیے۔
ج… جو بچہ مردہ پیدا ہوا، وہ بھی اٹھایا جائے گا اور اپنے والدین کی شفاعت کرے گا۔
والدین پر ہاتھ اٹھانے والے کی سزا
س… اگر کسی کے لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی اپنے ماں باپ پر ہاتھ اٹھائے تو شرعاً دنیا میں اور آخرت میں کیا سزا ہوگی؟
ج… اولاد کا اپنے ماں باپ پر ہاتھ اٹھانا کبیرہ گناہ اور انتہائی کمینہ پن ہے۔ دنیا میں اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا، رزق کی تنگی، ذہنی پریشانی اور جان کنی کی سختی میں مبتلا رہے گا، اور آخرت میں اس کی سزا یہ ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اپنے کئے کی سزا نہ بھگت لے یا والدین اسے معاف نہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ والدین کی گستاخی اور اس کے انجامِ بد سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھیں۔
والدہ کی بے جا ناراضی پر موٴاخذہ نہیں ہوگا
س… میری شادی ۱۴ سال کی عمر میں ہوئی تھی، آج ۲۷ سال ہوگئے ہیں، والد شادی سے پہلے فوت ہوگئے تھے، صرف والدہ اور ایک بھائی ہیں۔ شروع میں کم عمری کے سبب اپنی والدہ کے کہنے میں آکر شوہر کی نافرمانی کی، شادی کے ۱۰ سال بعد میں نے اپنے کو یک دم بدل دیا اور شوہر کے تابع ہوگئی، میرے چھ بچے ہیں، ایک لڑکا اور دو بچیاں جوان، باقی تین چھوٹے ہیں، میں نے اپنی اولاد کو مذہبی ماحول میں پالا ہے، وی سی آر جیسی لعنت نہ میں نے اور نہ میری بچیوں نے دیکھی ہے، میرے شوہر آج کل ایک سرکاری عہدے پر سعودیہ میں ہیں، میں نماز کی پابند ہوں، مجھے خدا سے بہت ڈر لگتا ہے، نماز کے لئے کھڑی ہوتی ہوں تو خوفِ خدا سے کانپنے لگتی ہوں، بس ڈر یہ لگتا ہے کہ کہیں مجھے سزا نہ دی جائے، کیونکہ جب سے میں اپنے شوہر کے ہر فرمان پر چلنے لگی تو والدہ ناراض رہتی ہیں، میں اور میرے شوہر ہر وقت ان کی ہر قسم کی مدد کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ معمولی بات پر یعنی اپنے بیٹے یا بہو یا کسی رشتہ دار کی باتوں پر ناراض ہوکر کوسنے پیٹنے لگ جاتی ہیں، مجھے تو ان کو جواب دیتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، بچے بھی کبھی بول پڑتے ہیں تو وہ مجھے بے بھاوٴ سناتی ہیں۔
ج… ماں کی تو خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچی اپنے گھر میں خوش و خرم رہے، تعجب ہے کہ آپ کی والدہ کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہرحال آپ کی والدہ کی ناراضی بے جا ہے، آپ اپنی والدہ کی جتنی خدمت بدنی، مالی ممکن ہو کرتی رہیں اور اس کی گستاخی و بے ادبی ہرگز نہ کریں۔ اس کے باوجود اگر وہ ناراض رہتی ہیں تو آپ کا قصور نہیں، آپ سے انشاء اللہ اس پر کوئی موٴاخذہ نہ ہوگا۔
والدین کے مرنے کے بعد نافرمان اولاد ان کے لئے کیا کرے؟
س… ماں باپ کے انتقال کے بعد وہ کون سے طریقے ہیں جس سے ان کو زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچایا جاسکے؟
ج… عباداتِ بدنی و مالی سے ایصالِ ثواب کرنا، مثلاً: نفلی نماز، روزہ، صدقہ، حج، تلاوت، درود شریف، تسبیحات، دعا و استغفار۔
س…ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بہت سے احکامات ہیں، لیکن اگر ماں باپ کی حیات کے دوران اولاد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک نہ کرتی ہو اور ماں باپ کا انتقال ہوجائے اور پھر اولاد کو اس بات کا احساس ہو اور ان کا ضمیر ان کو ملامت کرے کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوچکی ہے، تو پھر وہ کون سے طریقے ہیں کہ اولاد کا یہ کفارہ ادا ہوجائے اور ضمیر بھی مطمئن ہوجائے اور ماں باپ اور خدا تعالیٰ دونوں اولاد سے خوش ہوجائیں اور معاف کردیں۔
ج… حدیث میں ہے کہ ایک شخص والدین کی زندگی میں والدین کا نافرمان ہوتا ہے، مگر والدین کے مرنے کے بعد اسے اپنی حماقت پر ندامت ہوتی ہے اور وہ والدین کے حقوق کا بدلہ ادا کرنے کے لئے ان کے حق میں برابر دعا و استغفار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے “والدین کا فرمانبردار” لکھ دیتے ہیں۔
س… جنابِ والا! آپ نے جنگ میں ایک سوال کا جواب دیا ہے کہ: “ایک شخص والدین کی زندگی میں والدین کا نافرمان ہوتا ہے لیکن والدین کے مرنے کے بعد اسے اپنی حماقت پر ندامت ہوتی ہے اور وہ والدین کے حقوق کا بدلہ ادا کرنے کے لئے ان کے حق میں دعا و استغفار کرتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے والدین کا فرمانبردار لکھ دیتا ہے۔” آپ نے ایک آسان سوال کا جواب آسان دے دیا اور ساتھ یہ بھی کہ یہ حدیث کے مطابق ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ ایک دولت مند ایک غریب آدمی کو جان سے مار دے اور مقتول کے وارثوں کو قصاص ادا کردے اور جان چھڑالے، لیکن قصاص ادا کرنے کا بھی کوئی شرعی قانون ہے۔ زندگی میں سکھ چین نہ لینے دیا اور مرگیا تو لگے قبر پر دیا جلانے، ایسے سجدوں سے اللہ نہیں ملتا، والدین کو ان کی حیات میں تنگ رکھا اور ان کی نافرمانی کی، ان کو ٹھوکریں ماریں، ان کے حقوق پورے نہ کئے، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر والدین بے گور و کفن مرگئے اور اولاد لگی پکانے دیگیں پلاوٴ تو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بخشش کردی۔ مولانا صاحب! یہ کون سی حدیث میں ہے؟ آپ ذرا مکمل تشریح فرمادیں تاکہ ہم بھی اس پر عمل کرسکیں۔ حضرت امام حسین کو شہید کرکے یزید نادم ہوا، کیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا؟ اگر والدین کے حقوق بس یہاں تک ہیں تو پھر والدین کو یہ دعا نہیں مانگنی چاہئے کہ اللہ ہماری اولاد کو نیک اور فرمانبردار بنادے۔
ج… وہ حدیث جو میں نے اپنے جواب میں درج کی تھی، مشکوٰة شریف میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
“عن انس رضی الله عنہ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان العبد لیموت والداہ او احدھما وانہ لھما لعاق فلا یزال یدعو لھما ویستغفر لھما حتیٰ یکتبہ الله بارا۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔” (مشکوٰة باب البر والصلہ ص:۴۲۱)
ترجمہ:…”حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ایک بندے کے والدین دونوں یا ان میں سے ایک ایسی حالت میں انتقال کرجاتے ہیں کہ وہ ان کا نافرمان تھا، پس وہ ہمیشہ ان کے لئے دعا و استغفار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے والدین کا فرمانبردار لکھ دیتے ہیں۔”
حدیث کا حوالہ دینے کے بعد میری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، اور آنجناب نے اپنی عقل خداداد سے جن شبہات کا اظہار کیا ہے اس کی جوابدہی میرے ذمہ نہیں، مگر جناب کی خیرخواہی کے لئے چند اُمور عرض کردینا مناسب ہے۔
اول:…فرض کیجئے ایک لڑکا اپنے والدین کا نافرمان ہے، انہیں بے حد ستاتا ہے، ان کی گستاخی و بے حرمتی کرتا ہے، اور والدین اس کے حق میں موت کی دعائیں کرتے ہیں۔ دس بیس سال بعد کسی نیک بندے کی صحبت سے یا کسی اور وجہ سے اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، وہ اپنی اس روش سے باز آجاتا ہے، اور بصد توبہ و ندامت والدین سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے، اور پھر ان کی ایسی خدمت و اطاعت کرتا ہے کہ گزشتہ زندگی کی بھی تلافی کردیتا ہے، والدین اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس کی بقیہ زندگی اسی نیک حالت پر گزرتی ہے۔ فرمائیے! کیا یہ شخص اپنی سابقہ حالت کی وجہ سے “والدین کا نافرمان” کہلائے گا؟ یا اس کو والدین کا فرمانبردار کہا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی عاقل اس کو “والدین کا نافرمان” نہیں کہے گا، بلکہ اس کی گزشتہ غلطیوں کو لائق معافی سمجھا جائے گا۔
دوم:…عام انسانوں کی نظر تو دنیوی زندگی تک ہی محدود ہے، لیکن انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر میں دنیوی زندگی ہی زندگی نہیں بلکہ زندگی کے تسلسل کا ایک مرحلہ ہے، موت زندگی کی آخری حد نہیں بلکہ زندگی کے ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوجانے کا نام ہے۔
سوم:…والدین زندگی کے پہلے مرحلے میں اگر اولاد کی خدمت کے محتاج ہیں تو موت کے بعد بھی اپنی مغفرت یا ترقیٴ درجات کے لئے انہیں اولاد کی احتیاج ہے اور یہ احتیاج دنیاوی احتیاج سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دنیوی زندگی میں تو آدمی اپنی ضرورتیں کسی نہ کسی طرح خود بھی پوری کرسکتا ہے، کسی سے مدد بھی لے سکتا ہے اور کسی کو اپنا دکھڑا سناکر کم از کم دل کا بوجھ ہلکا کرسکتا ہے۔ لیکن قبر میں خدانخواستہ کوئی تکلیف ہو اسے نہ خود دفع کرسکتا ہے، نہ کسی کو اپنی مدد کے لئے پکار سکتا ہے، اگر کوئی اس کی مدد ہوسکتی ہے تو اس کے لئے دعا و استغفار اور ایصالِ ثواب ہے جس کا راستہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے کھلا رکھا ہے۔
ان تین مقدموں کے بعد میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جو لڑکا دس بیس برس تک والدین کو ستاکر توبہ کرلے اور والدین کی خدمت و اطاعت میں لگ جائے اس کا فرمانبردار ہونا تو آپ کی عقل میں آتا ہے، لیکن جو شخص والدین کی وفات کے بعد اپنے گناہ گار والدین کے لئے دعا و استغفار، صدقہ و خیرات اور ایصالِ ثواب کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کی دعا و استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ گار والدین کی بخشش فرمادیتے ہیں، والدین اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ والدین کے راضی ہوجانے کی وجہ سے اس کو والدین کا فرمانبردار لکھ دیتے ہیں، اس کا فرمانبردار ہونا آپ کی خداداد ذہانت میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ آپ کی نظر صرف اسی زندگی تک محدود ہے اور موت کی سرحد کے پار جھانکنے سے معذور ہے۔ چلئے! اس کا بھی مضائقہ نہ تھا، مگر تعجب بالائے تعجب تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ اطلاعِ الٰہی عالمِ غیب کی ایک خبر دیتے ہیں (جو عقل و معرفت کی کسوٹی پر سوفیصد پوری اترتی ہے) مگر آپ کو اپنی عقل محدود پر اتنا ناز ہے کہ بلاتکلف ارشادِ نبوی پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کردیتے ہیں، کیا ایک اُمتی کو اپنے نبیٴ معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہی سلوک کرنا چاہئے․․․؟
چہارم:…آنجناب نے اپنی ذہانت سے اس حدیث سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ گویا اس حدیث میں اولاد کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ خوب پیٹ بھر کر والدین کو ستایا کریں اور ان کے مرنے کے بعد دعا و استغفار کرلیا کریں۔ حالانکہ اس کے بالکل برعکس حدیث میں والدین کی اطاعت و خدمت کی تعلیم دی گئی ہے، یہاں تک کہ جو لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے والدین کی زندگی میں یہ سعادت حاصل نہیں کر پائے ان کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ابھی تک ان کے لئے والدین کی خدمت اور وفاشعاری کا راستہ کھلا ہے، وہ یہ کہ والدین کی جو نافرمانیاں انہوں نے کی ہیں اس سے توبہ کریں، خود نیک بنیں اور دعا و استغفار کے ذریعہ والدین کی بخشش کی سفارشیں بارگاہِ الٰہی میں پیش کریں۔ ان کی اس توبہ، نیکی و پارسائی اور والدین کے لئے دعا و استغفار کی برکت سے خود ان کی بھی بخشش ہوجائے گی اور ان کے والدین کی بھی۔ گویا دونوں حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کا مورد بن کر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ الغرض حدیث میں اولاد کو والدین کی فرمانبرداری کی ایک ایسی تدبیر بتلائی گئی ہے جو ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی رضامندی کا ذریعہ بن سکتی ہے تاکہ اس قسم کے لوگ بھی مایوس نہ ہوں، بلکہ زندگی کے جس مرحلہ میں بھی ان کو ہوش آجائے والدین کو راضی کرنے اور ان کی خدمت بجالانے میں کوتاہی نہ کریں۔
پنجم:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشادِ مقدس سمجھ میں نہ آئے اس کے بارے میں طالب علم کی حیثیت سے ملتجیانہ سوال کرنے کا مضائقہ نہیں، مگر سوال کا لب و لہجہ موٴدبانہ ہونا چاہئے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر جارحانہ انداز میں سوال کرنا، جیسا کہ آپ کے خط سے ظاہر ہو رہا ہے، بڑی گستاخی ہے، اور یہ ناکارہ ایسے سوالات کا جواب نہیں دیا کرتا، مگر آپ کی رعایت سے جواب لکھ دیا ہے۔ میری مخلصانہ و مشفقانہ نصیحت ہے کہ آئندہ ایسے اندازِ سوال سے گریز کیجئے۔
زمین و آسمان کی تخلیق میں تدریج کی حکمت
س… لائق صد احترام جناب یوسف لدھیانوی صاحب، السلام علیکم!
“اللہ نے دو دن میں زمین بنائی، دو دن میں اس کے اندر قوتیں اور برکت رکھی اور دو دن میں آسمان بنائے۔” (حٰمٓ سجدہ آیت:۹ تا ۱۲) (حوالہ: تفسیر عثمانی)۔
“اللہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس سے کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا! پس وہ چیز ہوجاتی ہے۔” (آل عمران آیت نمبر:۴۷) (حوالہ: تفسیر مولانا اشرف علی تھانوی)۔
ان آیات کے بارے میں ایک “شیطانی خیال” مجھے ایک عرصہ سے پریشان کر رہا ہے، زمین و آسمان کے وجود میں آنے میں ۶ دن کیوں لگے؟ جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے لئے اللہ کا ایک اشارہ کافی ہوتا، اور وہ آناً فاناً وجود میں آجاتے۔ مہربانی فرماکر اس اشکال کو دور کرنے میں میری مدد کیجئے تاکہ میں اس شیطانی خیال سے چھٹکارا پاسکوں۔
ج… کسی چیز کا تدریجاً (آہستہ آہستہ) وجود میں آنا اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ فاعل اس کو دفعتہ وجود میں لانے پر قادر نہ ہو، اس لئے وہ مجبور ہے کہ وہ اس چیز کو آہستہ آہستہ وجود میں لائے۔ اور دوسری صورت یہ کہ فاعل تو اس چیز کو دفعتہ وجود میں لانے پر قادر ہے مگر کسی حکمت کی بنا پر وہ اس کو آناً فاناً وجود میں نہیں لاتا، بلکہ آہستہ آہستہ ایک خاص معین مدت کے اندر اسے وجود میں لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو آسمان و زمین کو دو دن میں پیدا فرمایا اس کی وجہ پہلی نہیں تھی بلکہ دوسری تھی۔ اس لئے آپ کا اشکال تو ختم ہوجاتا ہے، البتہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وہ کیا حکمت تھی جس کی بنا پر آسمان زمین کی تخلیق تدریجاً ہوئی؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ افعالِ الٰہیہ کی حکمتوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے؟ اس میں جو حکمتیں بھی ملحوظ ہوں وہ سراپا خیر ہوں گی۔ مثلاً: ایک حکمت بندوں کو آہستگی اور تدریج کی تعلیم دینا ہوسکتی ہے کہ جب ہم نے قادر مطلق ہونے کے باوجود اپنی تخلیق میں تدریج ملحوظ فرمائی ہے تو تمہیں تو کوئی کام کرتے ہوئے بدرجہٴ اولیٰ تدریج سے کام لینا چاہئے، یا مثلاً: یہ حکمت ہوسکتی ہے کہ اس دنیا کا نظام اسباب و مسبّبات کے تدریجی سلسلہ کے تحت چلے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ انسان کو ایک لمحہ میں پیدا فرماکر جیتا جاگتا کھڑا کردیں، مگر نہیں! اس کی حکمت ایک خاص نظام کے تحت تدریجاً اس کی نشوونما کرتی ہے۔ یہی حال نباتات وغیرہ کا بھی ہے، اور اگر غور کیا جائے تو اس عالم کی تمام ترقیات تدریج ہی کے تحت چل رہی ہیں، کیا عجب ہے کہ آسمان و زمین کی تدریجی تخلیق میں یہ حکمت بھی ملحوظ ہو۔
رحمت للعالمین اور بددعا
س… روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحہ پر ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ: “بئر معونہ میں دھوکے سے شہید کئے جانے والے ۷۰ معلّم تمام کے تمام اصحابِ صفہ تھے، ان کی جدائی کا حضور کو اس درجہ صدمہ ہوا کہ آپ متواتر ایک مہینے تک نمازِ فجر میں ان کے قاتلوں کے حق میں بددعا فرماتے رہے۔”
یہ تو وہ الفاظ ہیں جنہیں میں نے لفظ بہ لفظ آپ کے اخبار سے اتار دیا ہے۔ آپ کے اور ہم سب کے علم میں یہ بات تو ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین اور رحمت للعالمین جیسے القاب سے قرآن کریم میں مخاطب کیا ہے وہ کبھی کسی کے حق میں بددعا کے لئے ہاتھ اٹھاسکتے ہیں؟ کیا یہ بات کوئی ذی شعور باور کرسکتا ہے؟
میں سعودیہ گرلز کالج کی بی اے کی طالبہ ہوں، میری نظروں سے بھی مختلف اسلامی کتابیں گزری ہیں، میرا ذہن اس بات کو قبول نہیں کرسکتا اور جو بات غلط ہو اسے کسی کا ذہن قبول کر ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت کبھی کسی کے حق میں بددعا فرمائیں؟ آپ کے ساتھ لوگوں نے کیا کیا سلوک نہ کیا، آپ جس راستے سے گزرتے لوگ آپ پر غلاظت پھینکتے اور آپ کو طائف کی گلیوں میں گھسیٹتے، ایک دفعہ تو لوگوں نے یہاں تک کیا کہ آپ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ لہولہان ہوگئے اور آپ کے پائے مبارک جوتوں میں خون کے بھرجانے سے چپک گئے۔ جب بھی آپ نے بدبختوں کے حق میں بددعا نہ کی بلکہ جب بھی لوگ آپ کو تکلیف پہنچاتے آپ فرماتے: “اے اللہ انہیں نیک راہ دکھا اور بتا کہ میں کون ہوں۔”
ایک طرف تو شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ۷۰ معلّموں کو دھوکے سے شہید کیا گیا اور آگے کہتے ہیں کہ حضور نے ان قاتلوں کے حق میں بددعا فرمائی۔ کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ شہید ہوتے ہیں وہ کبھی مرتے نہیں بلکہ زندہ جاوید ہوجاتے ہیں تو جن کو شہادت کا درجہ ملا ہو ان کے قاتل تو خودبخود دوزخ کی آگ میں پھینکے جائیں گے، ان کے لئے بددعا کیا ضروری؟ اور وہ بھی رحمت للعالمین نے فجر کی نماز میں ایک مہینہ تک کی۔ کیا شاہ صاحب نے (نعوذ باللہ) حضور کو نماز فجر کے بعد مسلسل ایک مہینہ تک بددعا کرتے دیکھا یا کسی کتاب سے پڑھا، کون سی حدیث ان کی نظروں سے گزری ذرا حوالہ تو دیں کہ میں خود بھی پڑھوں، میرا بھی مضمون اسلامیات ہے، میں نے کبھی ایسا نہیں پڑھا۔
ج… بئر معونہ میں ستر قرأ کی شہادت کا واقعہ حدیث و تاریخ اور سیرت کی تمام کتابوں میں موجود ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھنا اور ان کافروں پر جنہوں نے ان حضرات کو دھوکے سے شہید کیا تھا، بددعا کرنا صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداوٴد، نسائی اور حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ اس لئے آپ کا انکار کرنا غلط ہے۔ رہا آپ کا یہ شبہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت للعالمین تھے آپ کیسے بددعا کرسکتے تھے؟ آپ کا یہ خیال بھی سطحی قیاس کی پیداوار ہے، کیا موذیوں کو قتل کرنا، ان کو سزا دینا اور ان کو سرزنش کرنا رحمت نہیں؟ کیا رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے رحیم و شفیق قلب مبارک کو ان مظلوم شہداء کی مظلومانہ شہادت پر صدمہ نہیں پہنچا ہوگا؟ آپ ما شاء اللہ بی اے کی طالبہ ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ چوروں، ڈاکووٴں، غنڈوں اور بدمعاشوں پر سختی کرنا عین رحمت ہے، اور ان پر ترس کھانا خلافِ رحمت ہے، شیخ سعدی کے بقول:
نیکوئی بابداں کردن چناں است
کہ بد کردن بجائے نیک مرداں
اور آپ کا یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ شہداء کے قاتل خود ہی دوزخ میں جائیں گے ان کے لئے بددعا کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ قاتل کے خلاف کسی عدالت میں استغاثہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ بقول آپ کے خود ہی کیفر کردار کو پہنچے گا اور اگر آپ کے نزدیک کسی قاتل کے خلاف عدالت میں استغاثہ جائز اور یہ خلافِ رحمت نہیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر بارگاہِ الٰہی میں ان قاتلوں کے خلاف استغاثہ فرماتے ہیں تو یہ آپ کو کیوں غلط نظر آتا ہے؟ شہید بلاشبہ جنت میں زندہ ہیں اور مراتبِ عالیہ پر فائز ہیں، مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ کسی شہید کی مظلومانہ شہادت پر ہمیں رنج و صدمہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اس واقعہ کا تو آپ اپنی ناواقفی کی وجہ سے انکار کر رہی ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے گا کہ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر بعض انبیاء کرام علیہم السلام کی بددعائیں نقل کی گئی ہیں۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سراپا رحمت ہوتے ہیں، اس کے باوجود کافروں، بے ایمانوں اور موذیوں کے خلاف بارگاہِ الٰہی میں استغاثہ کرتے ہیں۔ آپ نے طائف کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے گئے مگر آپ نے بددعا نہ فرمائی، آپ نے شاید حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پڑھی ہوگی کہ: “آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا ذاتی انتقام نہیں لیا، لیکن جب حدود اللہ کو توڑا جاتا تو آپ کے غصہ کی کوئی تاب نہ لاسکتا۔” طائف کا واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق تھا، وہاں صبر کی مجسم تصویر بنے رہے اور بئر معونہ کا واقعہ حدود اللہ کو توڑنے، عہدشکنی کرنے اور مسلمانوں کو ظلماً شہید کرنے کا واقعہ تھا، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی و بے قراری اور حق تعالیٰ شانہ سے والہانہ استغاثہ و فریاد طلبی اپنی ذات کے لئے نہیں تھی کہ آپ اس کے لئے طائف کی مثال پیش کریں۔ یہاں جو کچھ تھا وہ دینی غیرت اور ان مظلوموں پر شفقت کا اظہار تھا۔
الغرض بئر معونہ کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح ہے اور ایسے موذیوں کے لئے بددعا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت للعالمین کے خلاف نہیں بلکہ اپنے رنگ میں یہ بھی رحمت و شفقت کا مظہر ہے۔
مباہلہ اور خدائی فیصلہ
س… مباہلے کی کیا حقیقت ہے؟ اس بارے میں قرآن مجید کی کون کون سی آیات کا نزول ہوا ہے؟
ج… مباہلہ کا ذکر سورہٴ آل عمران (آیت:۶۱) میں آیا ہے، جس میں نجران کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
“پھر جو کوئی جھگڑا کرے تجھ سے اس قصہ میں بعد اس کے کہ آچکی تیرے پاس خبر سچی تو تو کہہ دے آوٴ! بلاویں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے، اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں، اور اپنی جان اور تمہاری جان، پھر التجا کریں ہم سب، اور لعنت کریں اللہ کی ان پر جو جھوٹے ہیں۔” (ترجمہ شیخ الہند)
اس آیت کریمہ سے مباہلہ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جب کوئی فریق حق واضح ہوجانے کے باوجود اس کو جھٹلاتا ہو اس کو دعوت دی جائے کہ آوٴ! ہم دونوں فریق اپنی عورتوں اور بچوں سمیت ایک میدان میں جمع ہوں اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر اپنی لعنت بھیجے۔ رہا یہ کہ اس مباہلہ کا نتیجہ کیا ہوگا؟ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوجاتا ہے:
۱:…مستدرک حاکم (ج:۲ ص:۵۹۴) میں ہے کہ نصاریٰ کے سید نے کہا کہ: “ان صاحب سے (یعنی آنحضرت سے) مباہلہ نہ کرو، اللہ کی قسم! اگر تم نے مباہلہ کیا تو دونوں میں سے ایک فریق زمین میں دفنا دیا جائے گا۔”
۲:…حافظ ابو نعیم کی دلائل النبوة میں ہے کہ سید نے عاقب سے کہا: “اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ یہ صاحب نبی برحق ہیں، اور اگر تم نے اس سے مباہلہ کیا تو تمہاری جڑ کٹ جائے گی، کبھی کسی قوم نے کسی نبی سے مباہلہ نہیں کیا کہ پھر ان کا کوئی بڑا باقی رہا ہو یا ان کے بچے بڑے ہوئے ہوں۔”
۳:…ابن جریر، عبد بن حمید اور ابونعیم نے دلائل النبوة میں حضرت قتادہ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: “اہل نجران پر عذاب نازل ہوا چاہتا تھا اور اگر وہ مباہلہ کرلیتے تو زمین سے ان کا صفایا کردیا جاتا۔”
۴:…ابن ابی شیبہ، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر اور حافظ ابونعیم نے دلائل النبوة میں امام شعبی کی سند سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: “میرے پاس فرشتہ اہل نجران کی ہلاکت کی خوشخبری لے کر آیا تھا اگر وہ مباہلہ کرلیتے تو ان کے درختوں پر پرندے تک باقی نہ رہتے۔”
۵:…صحیح بخاری، ترمذی، نسائی اور مصنف عبدالرزاق وغیرہ میں حضرت ابن عباس کا ارشاد نقل کیا ہے کہ: “اگر اہل نجران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرلیتے تو اس حالت میں واپس جاتے کہ اپنے اہل و عیال اور مال میں سے کسی کو نہ پاتے۔” (یہ تمام روایات درمنثور ج:۲ ص:۳۹ میں ہیں)۔
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سچے نبی کے ساتھ مباہلہ کرنے والے عذابِ الٰہی میں اس طرح مبتلا ہوجاتے کہ ان کے گھر بار کا بھی صفایا ہوجاتا اور ان کا ایک فرد بھی زندہ نہیں رہتا۔
یہ تو تھا سچے نبی کے ساتھ مباہلہ کرنے کا نتیجہ! اب اس کے مقابلہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے مباہلہ کا نتیجہ بھی سن لیجئے!
۱۰/ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷/مئی ۱۸۹۳ء کو مولانا عبدالحق غزنوی مرحوم سے ایک دفعہ مرزا صاحب کا عیدگاہ امرتسر کے میدان میں مباہلہ ہوا (مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد قادیانی ج:۱ ص:۴۲۷، ۴۲۸) مباہلہ کے نتیجے میں مرزا صاحب کا مولانا مرحوم کی زندگی میں انتقال ہوگیا (مرزا صاحب نے ۲۶/مئی ۱۹۰۸ء کو انتقال کیا اور مولانا عبدالحق مرحوم مرزا صاحب کے نو سال بعد تک زندہ رہے، ان کا انتقال ۱۶/مئی ۱۹۱۷ء کو ہوا)۔ (رئیس قادیان ج:۲ ص:۱۹۲)
“مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجاتا ہے۔”
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی ج:۹ ص:۴۴۰)
مرزا صاحب نے مولانا مرحوم سے پہلے مر کر اپنے مندرجہ بالا قول کی تصدیق کردی اور دو اور دو چار کی طرح واضح ہوگیا کہ کون سچا تھا اور کون جھوٹا تھا؟
“اپریل فول” کا شرعی حکم
س… آپ سے ایک اہم مسئلہ کی بابت دریافت کرنا ہے، مسلمانوں کے لئے نصاریٰ کی پیروی اپریل فول منانا یعنی لوگوں کو جھوٹ بول کر فریب دینا یا ہنسنا ہنسانا جائز ہے کہ نہیں؟ جبکہ سرورِ کائنات کا ارشاد ہے کہ: “ویل للذی یحدث فیکذب یضحک بہ القوم ویل لہ! ویل لہ!” (ابوداوٴد ج:۲ ص:۳۳۳)۔
“یعنی ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اس مقصد کے لئے جھوٹی بات کرے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے، اس کے لئے ہلاکت ہے! اس کے لئے ہلاکت ہے!”
نیز ارشاد ہے:
“لا یوٴمن العبد الایمان کل حتی یترک الکذب فی المزاحہ ویترک المراء وان کان صادقاً۔” (کنز العمال حدیث نمبر:۸۲۲۹)۔
یعنی “بندہ اس وقت تک پورا ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک مزاح میں بھی غلط بیانی نہ چھوڑ دے اور سچا ہونے کے باوجود جھگڑا نہ چھوڑ دے۔”
گزشتہ سال “اپریل فول” کے طور پر فائربرگیڈ کو ٹیلی فون کئے گئے کہ فلاں فلاں جگہ آگ لگ گئی ہے، جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو کچھ بھی نہیں تھا، معلوم ہوا کہ یہ محض مذاق تھا اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یکم اپریل کو واقعتا کوئی حادثہ ہوجائے اور خبر سننے والا اس کو مذاق سمجھ کر اس کی طرف توجہ نہ دے۔
ج… جناب نے ایک اہم ترین مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے، جس میں آج کل بہت لوگ مبتلا ہیں۔ “اپریل فول” کی رسم مغرب سے ہمارے یہاں آئی ہے اور یہ بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔
اول:…اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کو بولا جائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشہٴ کفر ہے۔ جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے “لعنت الله علی الکاذبین” فرمایا ہے، گویا جو لوگ “اپریل فول” مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھہرائے گئے ہیں، اور ان پر خدا تعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی اور ساری مخلوق کی لعنت ہے۔
دوم:…اس میں خیانت کا بھی گناہ ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“کبرت خیانة ان تحدث اخاک حدیثاً ھو لک مصدق وانت بہ کاذب۔ رواہ ابوداود۔”
(مشکوٰة ص:۴۱۳)
ترجمہ:…”بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھے، حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔”
اور خیانت کا کبیرہ گناہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔
سوم:…اس میں دوسرے کو دھوکا دینا ہے یہ بھی گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں ہے:
“من غش فلیس منا۔” (مشکوٰة ص:۳۰۵)
ترجمہ:…”جو شخص ہمیں (یعنی مسلمانوں کو) دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔”
چہارم:…اس میں مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ہے، یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے، قرآن کریم میں ہے:
“بے شک جو لوگ ناحق ایذا پہنچاتے ہیں موٴمن مردوں اور عورتوں کو، انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھایا۔”
پنجم:…اپریل فول منانا گمراہ اور بے دین قوموں کی مشابہت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “من تشبہ بقوم فھو منھم۔” “جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہوگا۔” پس جو لوگ فیشن کے طور پر اپریل فول مناتے ہیں ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ قیامت کے دن یہود و نصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں۔ جب یہ اتنے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے تو جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے معمولی عقل بھی دی ہو وہ انگریزوں کی اندھی تقلید میں اس کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں کو نہ صرف اس سے توبہ کرنی چاہئے بلکہ مسلمانوں کے مقتدا لوگوں کا فرض ہے کہ “اپریل فول” پر قانونی پابندی کا مطالبہ کریں اور ہمارے مسلمان حکام کا فرض ہے کہ اس باطل رسم کو سختی سے روکیں۔
انسان کا چاند پر پہنچنا
س… ہمارے دوستوں کے درمیان آج کل ایک بحث ہو رہی ہے، اور وہ یہ کہ انسان چاند پر گیا ہے یا نہیں؟ اور زمین گردش کرتی ہے یا نہیں؟ جبکہ میرا خیال ہے کہ انسان چاند پر گیا ہے اور زمین بھی گردش کرتی ہے۔ موجود دور جدید ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے اور اس دور میں کوئی بات ناممکن نہیں رہی، جب خلاء میں مصنوعی سیارے چھوڑے جاسکتے ہیں تو پھر چاند پر جانا کیونکر ممکن نہیں؟ اس سلسلے میں جب ہم نے اپنی مسجد کے موٴذن صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے اور زمین گردش کرتی ہے۔ آپ برائے کرم قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری معلومات میں اضافہ کریں کہ یہ بات کہاں تک تسلیم کی جائے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے اور یہ کہ زمین گردش کرتی ہے؟
ج… انسان چاند پر تو پہنچ چکا ہے، اور تحقیق جدید کے مطابق زمین بھی گردش کر رہی ہے، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کے دوست اس نکتہ پر مجلس مذاکرہ کیوں منعقد فرما رہے ہیں؟ اور اس بحث کا حاصل کیا ہے؟ آپ کے موٴذن صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان کا چاند پر پہنچنا ناممکن ہے، بالکل غلط ہے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو چاند نہیں بلکہ عرش تک پہنچ کر آئے تھے، چاند پر پہنچنا کیوں ناممکن ہوا؟