مسجد اقصی؛ مختصر تاریخ و تعارف

 

 

مسجد اقصی؛ مختصر تاریخ و تعارف
ایس اے ساگر

اسلام میں مسجد کو بڑی اہمیت و مرکزیت حاصل ہے. دراصل مسجد کا نام سَجَد سے نکلا ہے جس کے لفظی معنیٰ ہیں خشوع خضوع کے ساتھ سرجھکانا اصطلاح میں مسجد اس مقام کو کہتے ہیں جہاں مسلمان بغیر روک ٹوک کے اللہ کی عبادت کرسکیں۔ مسجد کے معنی لغت میں سجدہ گاہ کے ہیں، اور اسلام کی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کی نماز کے لئے وقف کردی جائے، مُلَّا علی قاری رحمہ اللہ ”شرحِ مشکوٰة“ میں لکھتے ہیں:
”والمسجد لغة محل السجود وشرعًا المحل الموقوف للصلٰوة فیہ۔“ (مرقاہ المفاتیح ج:۱ ص:۴۴۱، مطبوعہ بمبئی)
ترجمہ:…”مسجد لغت میں سجدہ گاہ کا نام ہے، اور شریعتِ اسلام کی اصطلاح میں وہ مخصوص جگہ جو نماز کے لئے وقف کردی جائے۔“
کعبہ شریف تو ”بیت اللہ“ کہلاتا ہی ہے، عام مسجدوں کو بھی ”اللہ کا گھر“ کہنا صحیح ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
”ان بیوت الله تعالٰی فی الأرض المساجد وان حقًا علی الله ان یکرم من زارہ فیھا۔“ (طب، عن ابن مسعود)
ترجمہ:…”بے شک زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر مسجدیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ حق ہے کہ جو شخص ان میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کو جائے اس کا اکرام فرمائیں۔“
ایک اور حدیث میں ہے:
”ان عمار بیوت الله ھم أھل الله۔“ (عبد بن حمید)
ترجمہ:…”بے شک اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنے والے اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہیں۔“
یہ دونوں حدیثیں جامع صغیر جلد:۱ صفحہ:۹۰، ۹۱ میں ہیں، اور ان میں مساجد کو ”اللہ کے گھر“ فرمایا گیا ہے۔ غیرمسلم اپنی عبادت گاہ تعمیر کرکے اس کا نام مسجد نہیں رکھ سکتا.
مسجد کا لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے ساتھ مخصوص ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں مشہور مذاہب کی عبادت گاہوں کا ذکر کرتے ہوئے ”مسجد“ کو مسلمانوں کی عبادت گاہ قرار دیا ہے:
”ولو لا دفع الله الناس بعضھم ببعض لھدّمت صوٰمع وبِیَع وصلوٰت ومسٰجد یذکر فیھا اسم الله کثیرا۔“ (الحج:۴۰)
ترجمہ:…”اور اگر اللہ تعالیٰ ایک دُوسرے کے ذریعہ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو راہبوں کے خلوت خانے، عیسائیوں کے گرجے، یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، گرادی جاتیں۔“
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ”صوٰمع“ سے راہبوں کے خلوت خانے، ”بِیَع“ سے نصاری کے گرجے، ”صلوٰت“ سے یہودیوں کے عبادت خانے، اور ”مسٰجد“ سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں۔
امام ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی رحمہ اللہ (المتوفی ۶۷۱ھ) اپنی مشہور تفسیر ”اَحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں:
”وذھب خصیف الی ان القصد بھذہ الأسماء تقسیم متعبدات الأمم، فالصوامع للرھبان، والبیع للنصاریٰ، والصلوات للیھودی، والمساجد للمسلمین۔“ (ج:۱۲ ص:۷۲، مطبوعہ دار الکاتب العربی، القاھرة)
ترجمہ:…”امام خصیف فرماتے ہیں کہ ان ناموں کے ذکر کرنے سے مقصود قوموں کی عبادت گاہوں کی تقسیم ہے، چنانچہ ”صوامع“ راہبوں کی، ”بیع“ عیسائیوں کی، ”صلوات“ یہودیوں کی، اور ”مساجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے۔“
اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۲۲۵ھ) ”تفسیر مظہری“ میں ان چاروں ناموں کی مندرجہ بالا تشریح ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”ومعنی الاٰیة: لو لا دفع الله الناس لھدمت فی کل شریعة نبی مکان عبادتھم فھدمت فی زمن موسٰی الکنائس، وفی زمن عیسٰی البیع والصوامع، وفی زمن محمد صلی الله علیہ وسلم المساجد۔“
(مظہری ج:۶ ص:۳۳۰، مطبوعہ ندوة المصنّفین، دہلی)
ترجمہ:… ”آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو ہر نبی کی شریعت میں جو ان کی عبادت گاہ تھی اسے گرادیا جاتا، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں کنیسے، عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں گرجے اور خلوت خانے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدیں گرادی جاتیں۔“
یہی مضمون تفسیر ابنِ جریر ج:۹ ص:۱۱۴، تفسیر نیشاپوری بر حاشیہ ابنِ جریر ج:۹ ص:۶۳، تفسیر خازن ج:۳ ص:۲۹۱، تفسیر بغوی ج:۵ ص:۵۹۴ بر حاشیہ ابنِ کثیر، اور تفسیر رُوح المعانی ج:۱۷ ص:۱۶۴ وغیرہ میں موجود ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت اور حضراتِ مفسرین کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ ”مسجد“ مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے، اور یہ نام دیگر اقوام و مذاہب کی عبادت گاہوں سے ممتاز رکھنے کے لئے تجویز کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک یہ مقدس نام مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ کسی غیرمسلم فرقے کی عبادت گاہ کے لئے استعمال نہیں کیا گیا، لہٰذا مسلمانوں کا یہ قانونی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ کسی ”غیرمسلم فرقے“ کو اپنی عبادت گاہ کا یہ نام نہ رکھنے دیں۔
مسجد اسلام کا شعار ہے:
جو چیز کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو وہ اس کا شعار اور اس کے تشخص کی خاص علامت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ مسجد بھی اسلام کا خصوصی شعار ہے، یعنی کسی قریہ، شہر یا محلہ میں مسجد کا ہونا وہاں کے باشندوں کے مسلمان ہونے کی علامت ہے، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ (المتوفی ۱۱۷۴ھ) لکھتے ہیں:
”فضل بناء المسجد وملازمتہ وانتظار الصلٰوة فیہ ترجع الی انہ من شعائر الاسلام وھو قولہ صلی الله علیہ وسلم اذا رأیتم مسجدًا او سمعتم موٴذّنًا فلا تقتلوا احدًا، وانہ محل الصلوة ومعتکف العابدین ومطرح الرحمة ویشبہ الکعبة من وجہ۔“
(حجة اللہ البالغہ مترجم ج:۱ ص:۴۷۸، مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ:…”مسجد بنانے، اس میں حاضر ہونے اور وہاں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ مسجد اسلام کا شعار ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جب کسی آبادی میں مسجد دیکھو یا وہاں موٴذّن کی اذان سنو تو کسی کو قتل نہ کرو۔“ (یعنی کسی بستی میں مسجد اور اذان کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہاں کے باشندے مسلمان ہیں)، اور مسجد نماز کی جگہ اور عبادت گزاروں کے اعتکاف کا مقام ہے، وہاں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور وہ ایک طرح سے کعبہ کے مشابہ ہے۔“
اگر فوج کا شعار غیرفوجی کو اپنانا جرم ہے، اور جج کا شعار کسی دُوسرے شخص کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، تو یقینا اسلام کا شعار بھی کسی غیرمسلم کو اپنانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار مثلاً تعمیرِ مسجد اور اذان کی اجازت دی جائے تو اسلام کا شعار مٹ جاتا ہے اور مسلم و کافر کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے۔ اسلام اور کفر کے نشانات کو ممتاز کرنے کے لئے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان کفر کے کسی شعار کو نہ اپنائیں، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار کے اپنانے کی اجازت نہ دی جائے۔

تعمیرِ مسجد عبادت ہے، کافر اس کا اہل نہیں:

نیز مسجد کی تعمیر ایک اعلیٰ ترین اسلامی عبادت ہے، اور کافر اس کا اہل نہیں، چونکہ کافر میں تعمیرِ مسجد کی اہلیت ہی نہیں، اس لئے اس کی تعمیر کردہ عمارت مسجد نہیں ہوسکتی، قرآنِ کریم میں صاف صاف ارشاد ہے:
”ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد الله شٰھدین علی انفسھم بالکفر، اولئک حبطت اعمالھم وفی النار ھم خٰلدون۔“ (التوبہ:۱۷)
ترجمہ:…”مشرکین کو حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو تعمیر کریں درآنحالیکہ وہ اپنی ذات پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں، ان لوگوں کے عمل اکارت ہوچکے اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔“
اس آیت میں چند چیزیں توجہ طلب ہیں، اوّل یہ کہ یہاں مشرکین کو تعمیرِ مسجد کے حق سے محروم قرار دیا گیا ہے، کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ کافر ہیں، ”شٰھدین علی انفسھم بالکفر“ اور کوئی کافر تعمیرِ مسجد کا اہل نہیں، گویا قرآن یہ بتاتا ہے کہ تعمیرِ مسجد کی اہلیت اور کفر کے درمیان منافات ہے، یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں، پس جب وہ اپنے عقائدِ کفر کا اقرار کرتے ہیں تو گویا وہ خود اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تعمیرِ مسجد کے اہل نہیں، نہ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔
امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی الحنفی (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
”عمارة المسجد تکون بمعنیین، احدھما زیارتہ والکون فیہ، والاٰخر ببنائہ وتجدید ما استرم منہ، فاقتضت الاٰیة منع الکفار من دخول المسجد ومن بنائھا وتولی مصالحھا والقیام بھا لانتظام اللفظ لأمرین۔“ (اَحکام القرآن ج:۳ ص:۸۷، سہیل اکیڈمی لاہور)
ترجمہ:…”یعنی مسجد کی آبادی کی دو صورتیں ہیں، ایک مسجد کی زیارت کرنا، اس میں رہنا اور بیٹھنا، دُوسرے اس کو تعمیر کرنا اور شکست و ریخت کی اصلاح کرنا، پس یہ آیت اس امر کی متقاضی ہے کہ مسجد میں نہ کوئی کافر داخل ہوسکتا ہے، نہ اس کا بانی و متولّی اور خادم بن سکتا ہے، کیونکہ آیت کے الفاظ تعمیرِ ظاہری و باطنی دونوں کو شامل ہیں۔“
دوم:… اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا کافر ہونا تسلیم کرتے ہیں اور خود اپنے آپ کو ”کافر“ کہتے ہیں، کیونکہ دُنیا میں کوئی کافر بھی اپنے آپ کو ”کافر“ کہنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے عقائد کا برملا اعتراف کرتے ہیں جنہیں اسلام، عقائدِ کفر قرار دیتا ہے، یعنی ان کا کفریہ عقائد کا اظہار اپنے آپ کو کافر تسلیم کرنے کے قائم مقام ہے۔
سوم:… قرآنِ کریم کے اس دعویٰ پر کہ کسی کافر کو اپنے عقائدِ کفریہ پر رہتے ہوئے تعمیرِ مسجد کا حق حاصل نہیں، یہ سوال ہوسکتا تھا کہ کافر تعمیرِ مسجد کی اہلیت سے کیوں محروم ہے؟ اگلے جملے میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے: ”اولئک حبطت اعمالھم“ کہ ”ان کے عمل اکارت ہیں“ چونکہ کفر سے انسان کے تمام نیک اعمال اکارت اور ضائع ہوجاتے ہیں اس لئے کافر نہ صرف تعمیرِ مسجد بلکہ کسی بھی عبادت کا اہل نہیں۔ یہ کفر کی دُنیوی خاصیت تھی، اور آگے اس کی اُخروی خاصیت بیان کی گئی ہے: ”وفی النار ھم خٰلدون“ کہ: ”کافر اپنے کفر کی بنا پر دائمی جہنم کے مستحق ہیں“ اس لئے ان کی اطاعت و عبادت کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ پس یہ آیت اس مسئلے میں نصِ قطعی ہے کہ غیرمسلم کافر تعمیرِ مسجد کے اہل نہیں، اس لئے انہیں تعمیرِ مساجد کا حق حاصل نہیں، اس سلسلے میں حضراتِ مفسرین کی چند تصریحات حسبِ ذیل ہیں:

امام ابوجعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی ۳۱۰ھ) لکھتے ہیں:

”یقول ان المساجد انما تعمر لعبادة الله فیھا، لا للکفر بہ، فمن کان بالله کافرًا فلیس من شأنہ أن یعمر مساجد الله۔“
(تفسیر ابن جریر ج:۱۰ ص:۹۳، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
ترجمہ:…”حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مسجدیں تو اس لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ ان میں اللہ کی عبادت کی جائے، کفر کے لئے تو تعمیر نہیں کی جاتی، پس جو شخص کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کی تعمیر کرے۔“
امامِ عربیت جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری (متوفی ۵۲۸ھ) لکھتے ہیں:
”والمعنی ما استقام لھم ان یجمعوا بین أمرین متنافیین عمارة متعبدات الله مع الکفر بالله وبعبادتہ ومعنی شھادتھم علیٰ انفسھم بالکفر ظھور کفرھم۔“
(تفسیر کشاف ج:۲ ص:۲۵۳)
ترجمہ:…”مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کسی طرح دُرست نہیں کہ وہ دو متنافی باتوں کو جمع کریں کہ ایک طرف خدا کی مسجدیں بھی تعمیر کریں اور دُوسری طرف اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کے ساتھ کفر بھی کریں، اور ان کے اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے سے مراد ہے ان کے کفر کا ظاہر ہونا۔“
امام فخرالدین رازی (متوفی ۶۰۶ھ) لکھتے ہیں:
”قال الواحدی: دلت علی ان الکفار ممنوعون من عمارة مسجد من مساجد المسلمین، ولو اوصی بھا لم تقبل وصیتہ۔“
(تفسیر کبیر ج:۱۶ ص:۷، مطبوعہ مصر)
ترجمہ:…”واحدی فرماتے ہیں: یہ آیت اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ کفار کو مسلمانوں کی مسجدوں میں سے کسی مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں، اور اگر کافر اس کی وصیت کرے تو اس کی وصیت قبول نہیں کی جائے گی۔“
امام ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی (متوفی ۶۷۱ھ) لکھتے ہیں:
”فیجب اذًا علی المسلمین تولی احکام المساجد ومنع المشرکین من دخولھا۔“
(تفسیر قرطبی ج:۸ ص:۸۹، دار الکاتب العربی، القاہرة)
ترجمہ:…”مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انتظام مساجد کے متولّی خود ہوں اور کفار و مشرکین کو ان میں داخل ہونے سے روک دیں۔“
امام محی السنة ابو محمد حسین بن مسعود الفراء البغوی (متوفی۵۱۶ھ) لکھتے ہیں:
”اوجب الله علی المسلمین منعھم من ذالک، لأن المساجد انما تعمر لعبادة الله وحدہ فمن کان کافرًا بالله فلیس من شأنہ ان یعمرھا۔ فذھب جماعة الیٰ ان المراد منہ العمارة من بناء المسجد ومرمتہ عن الخراب فیمنع الکافر منہ حتیٰ لو اوصی بہ لا یمتثل، وحمل بعضھم العمارة ھٰھنا علیٰ دخول المسجد والقعود فیہ۔“ (تفسیر معالم التنزیل للبغوی ج:۳ ص:۵۵، برحاشیہ خازن، مطبوعہ علمیہ، مصر)
ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں، کیونکہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی خاطر بنائی جاتی ہیں، پس جو شخص کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ مسجدیں تعمیر کرے، ایک جماعت کا قول ہے کہ تعمیر سے مراد یہاں تعمیرِ معروف ہے، یعنی مسجد بنانا، اور اس کی شکست و ریخت کی اصلاح و مرمت کرنا، پس کافر کو اس عمل سے باز رکھا جائے گا، چنانچہ اگر وہ اس کی وصیت کرکے مرے تو پوری نہیں کی جائے گی، اور بعض نے عمارة کو یہاں مسجد میں داخل ہونے اور اس میں بیٹھنے پر محمول کیا ہے۔“
شیخ علاء الدین علی بن محمد البغدادی الخازن (متوفی ۷۲۵ھ) نے تفسیرِ خازن میں اس مسئلے کو مزید تفصیل سے تحریر فرمایا ہے۔
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفی ۱۲۲۵ھ) لکھتے ہیں:
”فانہ یجب علی المسلمین منعھم من ذالک، لان مساجد الله انما تعمر لعبادة الله وحدہ فمن کان کافرًا بالله فلیس من شأنہ ان یعمرھا۔“
(تفسیر مظہری ج:۴ ص:۱۴۶، ندوة المصنّفین، دہلی)
ترجمہ:…”چنانچہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں، کیونکہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں، پس جو شخص کہ کافر ہو وہ ان کو تعمیر کرنے کا اہل نہیں۔“
اور شاہ عبدالقادر دہلوی (متوفی ۱۲۳۰ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
”اور علماء نے لکھا ہے کہ کافر چاہے مسجد بناوے اس کو منع کرئیے۔“ (موضح القرآن)
ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ مسجد کی تعمیر کریں اور یہ کہ اگر وہ ایسی جرأت کریں تو ان کو روک دینا مسلمانوں پر فرض ہے۔
تعمیرِ مسجد صرف مسلمانوں کا حق ہے:
قرآنِ کریم نے جہاں یہ بتایا ہے کہ کافر تعمیرِ مسجد کا اہل نہیں، وہاں یہ تصریح بھی فرمائی ہے کہ تعمیرِ مسجد کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
”انما یعمر مساجد الله من اٰمن بالله والیوم الاٰخر، واقام الصلٰوة واٰتی الزکٰوة ولم یخش الا الله، فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین۔“ (التوبہ:۱۸)
ترجمہ:…”اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو بس اس شخص کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، نماز ادا کرتا ہو، زکوٰة دیتا ہو اور اس کے سوا کسی سے نہ ڈرے، پس ایسے لوگ اُمید ہے کہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔“
اس آیت میں جن صفات کا ذکر فرمایا، وہ مسلمانوں کی نمایاں صفات ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص پورے دینِ محمدی پر ایمان رکھتا ہو اور کسی حصہٴ دین کا منکر نہ ہو، اسی کو تعمیرِ مسجد کا حق حاصل ہے، غیرمسلم فرقے جب تک دینِ اسلام کی تمام باتوں کو تسلیم نہیں کریں گے، تعمیرِ مسجد کے حق سے محروم رہیں گے۔
غیرمسلموں کی تعمیر کردہ مسجد ”مسجدِ ضرار“ ہے:
اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں کبھی کسی غیرمسلم نے یہ جرأت نہیں کی کہ اپنا عبادت خانہ ”مسجد“ کے نام سے تعمیر کرے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض غیرمسلموں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور مسجد کے نام سے ایک عمارت بنائی جو ”مسجدِ ضرار“ کے نام سے مشہور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحیٴ الٰہی سے ان کے کفر و نفاق کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فی الفور منہدم کرنے کا حکم فرمایا، قرآنِ کریم کی آیاتِ ذیل اسی واقعے سے متعلق ہیں:
”والذین اتخذوا مسجدًا ضرارًا وکفرًا وتفریقًا بین الموٴمنین وارصادًا لمن حارب الله ورسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الا الحسنٰی والله یشھد انھم لکٰذبون۔ لا تقم فیہ ابدًا ․․․الی قولہ․․․ لا یزال بنیانھم الذی بنوا ریبة فی قلوبھم الا ان تقطع قلوبھم والله علیم حکیم۔“ (التوبة:۱۰۷-۱۱۰)
ترجمہ:…”اور جن لوگوں نے مسجد بنائی کہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں اور کفر کریں اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ ڈالیں اور اللہ و رسول کے دُشمن کے لئے ایک کمین گاہ بنائیں، اور یہ لوگ زور کی قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہیں کیا، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس میں کبھی قیام نہ کیجئے ․․․․․․ ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی، ہمیشہ ان کے دِل کا کانٹا بنی رہے گی، مگر یہ کہ ان کے دِل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔“
ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ:
الف:… کسی غیر مسلم گروہ کی اسلام کے نام پر تعمیر کردہ ”مسجد“، ”مسجدِ ضرار“ کہلائے گی۔
ب:… غیرمسلم منافقوں کی ایسی تعمیر کے مقاصد ہمیشہ حسبِ ذیل ہوں گے:
۱:…اسلام اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانا۔
۲:… عقائدِ کفر کی اشاعت کرنا۔
۳:… مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پھیلانا اور تفرقہ پیدا کرنا۔
۴:… خدا اور رسول کے دُشمنوں کے لئے ایک اڈّہ بنانا۔
ج:… چونکہ منافقوں کے یہ خفیہ منصوبے ناقابلِ برداشت ہیں، اس لئے حکم دیا گیا کہ ایسی نام نہاد ”مسجد“ کو منہدم کردیا جائے۔ تمام مفسرین اور اہلِ سیَر نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ”مسجدِ ضرار“ منہدم کردی گئی اور اسے نذرِ آتش کردیا گیا۔ مرزائی منافقوں کی تعمیر کردہ نام نہاد ”مسجدیں“ بھی ”مسجدِ ضرار“ ہیں، اور وہ بھی اسی سلوک کی مستحق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مسجدِ ضرار“ سے روا رکھا تھا۔
کافر ناپاک اور مسجدوں میں ان کا داخلہ ممنوع:
یہ اَمر بھی خاص اہمیت رکھا ہے کہ قرآنِ کریم نے کفار و مشرکین کو ان کے ناپاک اور گندے عقائد کی بنا پر نجس قرار دیا ہے، اور اس معنوی نجاست کے ساتھ ان کی آلودگی کا تقاضا یہ ہے کہ مساجد کو ان کے وجود سے پاک رکھا جائے، ارشادِ خداوندی ہے:
”یٰٓایھا الذین اٰمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھٰذا۔“ (التوبہ:۲۸)
ترجمہ:…”اے ایمان والو! مشرک تو نرے ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر اور مشرک کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔
امام ابوبکر جصاص رازی (متوفی ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
”اطلاق اسم النجس علی المشرک من جھة ان الشرک الذی یعتقدہ یجب اجتنابہ کما یجب اجتناب النجاسات والاقذار فلذالک سماھم نجسا، والنجاسة فی الشرع تنصرف علیٰ وجھین احدھما نجاسة الاعیان والاٰخر نجاسة الذنوب، وقد افاد قولہ: انما المشرکون نجس، منعھم عن دخول المسجد الا لعذر، اذ کان علینا تطھیر المساجد من الانجاس۔“
(اَحکام القرآن ج:۳ ص:۱۰۸، مطبوعہ سہیل اکیڈمی، لاہور)
ترجمہ:…”مشرک پر ”نجس“ کا اطلاق اس بنا پر کیا گیا کہ جس شرک کا وہ اعتقاد رکھتا ہے، اس سے پرہیز کرنا اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ نجاستوں اور گندگیوں سے، اسی لئے ان کو نجس کہا، اور شرع میں نجاست کی دو قسمیں ہیں، ایک نجاستِ جسم، دوم نجاستِ گناہ، اور ارشادِ خداوندی: ”انما المشرکون نجس“ بتاتا ہے کہ کفار کو دُخولِ مسجد سے باز رکھا جائے گا، اِلَّا یہ کہ کوئی عذر ہو، کیونکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسجدوں کو نجاستوں سے پاک رکھیں۔“
امام محی السنة بغوی (متوفی ۵۱۶ھ) معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
”وجملة بلاد الاسلام فی حق الکفار علی ثلاثة اقسام، احدھا الحرم فلا یجوز للکافر ان یدخلہ بحال ذمیًا کان او مستأمنًا بظاھر ھٰذہ الاٰیة۔ وجوز اھل الکوفة للمعاھد دخول الحرم، والقسم الثانی من بلاد الاسلام الحجاز فیجوز للکافر دخولھا بالاذن، ولٰکن لا یقیم فیھا اکثر من مقام السفر، وھو ثلاثة ایام، والقسم الثالث سائر بلاد الاسلام یجوز للکافر ان یقیم فیھا بذمة او امان، ولٰکن لا یدخلون المساجد الا باذن مسلم۔“ (تفسیر بغوی ج:۳ ص:۶۳، مطبوعہ علمیہ، مصر)
ترجمہ:…”اور کفار کے حق میں تمام اسلامی علاقے تین قسم پر ہیں، ایک حرمِ مکہ، پس کافر کو اس میں داخل ہونا کسی حال میں بھی جائز نہیں، خواہ کسی اسلامی مملکت کا شہری ہو یا امن لے کر آیا ہو، کیونکہ ظاہر آیت کا یہی تقاضا ہے۔ اور اہلِ کوفہ نے ذمی کے لئے حرم میں داخل ہونے کو جائز رکھا ہے۔ اور دُوسری قسم حجازِ مقدس ہے، پس کافر کے لئے اجازت لے کر حجاز میں داخل ہونا جائز ہے، لیکن تین دن سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور تیسری قسم دیگر اسلامی ممالک ہیں، ان میں کافر کا مقیم ہونا جائز ہے، بشرطیکہ ذمی ہو یا امن لے کر آئے، لیکن وہ مسلمانوں کی مسجدوں میں مسلمان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے۔“
اس سلسلے میں دو چیزیں خاص طور سے قابلِ غور ہیں، اوّل یہ کہ آیت میں صرف مشرکین کا حکم ذکر کیا گیا ہے، مگر مفسرین نے اس آیت کے تحت عام کفار کا حکم بیان فرمایا ہے، کیونکہ کفر کی نجاست سب کافروں کو شامل ہے۔ دوم یہ کہ کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں تو اختلاف ہے، امام مالک کے نزدیک کسی مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز نہیں، امام شافعی کے نزدیک مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں کافر کو مسلمان کی اجازت سے داخل ہونا جائز ہے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک بوقتِ ضرورت ہر مسجد میں داخل ہوسکتا ہے، (رُوح المعانی ج:۱۱ ص:۶۹) لیکن کسی کافر کا مسجد کا بانی، متولّی یا خادم ہونا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد ۹ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد کے ایک جانب ٹھہرایا اور مسجدِ نبوی ہی میں انہوں نے اپنی نماز بھی ادا کی۔
حافظ ابنِ قیم (متوفی ۷۵۱ھ) اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فصل فی فقہ ھذہ القصة ففیھا جواز دخول اھل الکتاب مساجد المسلمین، وفیھا تمکین اھل الکتاب من صلٰوتھم بحضرة المسلمین وفی مساجدھم ایضًا۔ اذا کان ذالک عارضًا ولا یمکنوا من اعتیاد ذالک۔“
(زاد المعاد ج:۳ ص:۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ المنار الاسلامیہ، کویت)
ترجمہ:…”فصل اس قصے کے فقہ کے بیان میں، پس اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کا مسلمانوں کی مسجدوں میں داخل ہونا جائز ہے، اور یہ کہ ان کو مسلمانوں کی موجودگی میں اپنی عبادت کا موقع دیا جائے گا اور مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی، جبکہ یہ ایک عارضی صورت ہو لیکن ان کو اس بات کا موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ اس کو اپنی مستقل عادت ہی بنالیں۔“
اور قاضی ابوبکر بن العربی (متوفی ۵۷۳ھ) لکھتے ہیں:
”دخول ثمامة فی المسجد فی الحدیث الصحیح، ودخول ابی سفیان فیہ علی الحدیث الاٰخر کان قبل ان ینزل: یٰٓأیھا الذین اٰمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھٰذا۔ فمنع الله المشرکین من دخول المسجد الحرام نصًّا، ومنع دخول سائر المساجد تعلیلًا بالنجاسة ولوجوب صیانة المسجد عن کل نجس وھٰذا کلہ ظاہر لا خفاء بہ۔“ (اَحکام القرآن ج:۲ ص:۹۰۲ مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)
ترجمہ:…”ثمامہ کا مسجد میں داخل ہونا اور دُوسری حدیث کے مطابق ابوسفیان کا اس میں داخل ہونا، اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ: ”اے ایمان والو! مشرک ناپاک ہیں، پس اس سال کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو مسجدِ حرام میں داخل ہونے سے صاف صاف منع کردیا اور دیگر مساجد سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ ناپاک ہیں، اور چونکہ مسجد کو نجاست سے پاک رکھنا ضروری ہے اس لئے کافروں کے ناپاک وجود سے بھی اسکو پاک رکھا جائے گا، اور یہ سب کچھ ظاہر ہے جس میں ذرا بھی خفا نہیں۔“
منافقوں کو مسجدوں سے نکال دیا جائے:
جو شخص مرزائیوں کی طرح عقیدہ رکھنے کے باوجود اسلام کا دعویٰ کرتا ہو، وہ اسلام کی اصطلاح میں منافق ہے، اور منافقین کے بارے میں یہ حکم ہے کہ انہیں مسجدوں سے نکال دیا جائے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”اے فلاں! اُٹھ، یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو منافق ہے۔ او فلاں! تو بھی اُٹھ، نکل جا، تو منافق ہے“ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک کا نام لے کر ۳۶ آدمیوں کو مسجد سے نکال دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنے میں ذرا دیر ہوگئی تھی، چنانچہ وہ اس وقت آئے جب یہ منافق مسجد سے نکل رہے تھے، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید جمعہ کی نماز ہوچکی ہے اور لوگ نماز سے فارغ ہوکر واپس جارہے ہیں، لیکن جب اندر گئے تو معلوم ہوا کہ ابھی نماز نہیں ہوئی، مسلمان ابھی بیٹھے ہیں، ایک شخص نے بڑی مسرّت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آج منافقوں کو ذلیل و رُسوا کردیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر بیک بینی و دوگوش انہیں مسجد سے نکال دیا۔“
(تفسیر رُوح المعانی ج:۱۱ ص:۱۰)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو غیرمسلم فرقہ منافقانہ طور پر اسلام کا دعویٰ کرتا ہو، اس کو مسجدوں سے نکال دینا سنتِ نبوی ہے۔
منافقوں کی مسجد، مسجد نہیں:
فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ ایسے لوگوں کا حکم مرتد کا ہے، اس لئے نہ تو انہیں مسجد بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ان کی تعمیر کردہ مسجد کو مسجد کا حکم دیا جاسکتا ہے۔
شیخ الاسلام مولانا محمد انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
”ولو بنوا مسجدًا لم یصر مسجدًا، ففی ”تنویر الأبصار“ من وصایا الذمی وغیرہ وصحاب الھویٰ اذا کان لا یکفر فھو بمنزلة المسلم فی الوصیة وان کان فھو بمنزلة المرتد۔“
(اکفار الملحدین طبع جدید ص:۱۲۸)
ترجمہ:…”ایسے لوگ اگر مسجد بنائیں تو وہ مسجد نہیں ہوگی، چنانچہ ”تنویر الابصار“ کے وصایا ذمی وغیرہ میں ہے کہ: گمراہ فرقوں کی گمراہی اگر حدِ کفر کو پہنچی ہوئی نہ ہو تب تو وصیت میں ان کا حکم مسلمان جیسا ہے، اور اگر حدِ کفر کو پہنچی ہوئی ہو تو بمنزلہ مرتد کے ہیں۔“
منافقوں کے مسلمان ہونے کی شرط:
یہاں یہ تصریح بھی ضروری ہے کہ کسی گمراہ فرقے کا دعویٴ اسلام کرنا یا اسلامی کلمہ پڑھنا، اس اَمر کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ان تمام عقائد سے توبہ کا اعلان کرے جو مسلمانوں کے خلاف ہیں۔
چنانچہ حافظ بدر الدین عینی ”عمدة القاری شرح بخاری“ میں لکھتے ہیں:
”یجب علیھم ایضًا عند الدخول فی الاسلام ان یقروا ببطلان ما یخالفون بہ المسلمین فی الاعتقاد بعد اقرارھم بالشھادتین۔“
(الجزء الرابع ص:۱۲۵، مطبوعہ دار الفکر)
ترجمہ:…”ان کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد ان تمام عقائد و نظریات کے باطل ہونے کا اقرار کریں جو وہ مسلمانوں کے خلاف رکھتے ہیں۔“

اور حافظ شہاب الدین ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں قصہ اہلِ نجران کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”وفی قصة اھل نجران من الفوائد ان اقرار الکافر بالنبوة لا یدخلہ فی الاسلام حتی یتلزم احکام الاسلام۔“ (ج:۸ ص:۷۴، دار النشر الکتب الاسلامیہ، لاہور)
ترجمہ:…”قصہ اہلِ نجران سے دیگر مسائل کے علاوہ ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ کسی کافر کی جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا اقرار اسے اسلام میں داخل نہیں کرتا، جب تک کہ اَحکامِ اسلام کو قبول نہ کرے۔“
علامہ ابنِ عابدین شامی لکھتے ہیں:
”لا بد مع الشھادتین فی العیسوی من ان یتبرأ من دینہ۔“ (رد المحتار ج:۱ ص:۳۵۳، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)
ترجمہ:…”عیسوی فرقے کے مسلمان ہونے کے لئے اقرارِ شہادتین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب سے براء ت کا اعلان کرے۔“
ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی فرقہ اس وقت تک مسلمان تصوّر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ اہلِ اسلام کے عقائد کے صحیح اور اپنے عقائد کے باطل ہونے کا اعلان نہ کرے، ورنہ اگر وہ اپنے عقائدِ کفر کو صحیح سمجھتا ہے اور مسلمانوں کے عقائد کو غلط تصوّر کرتا ہے تو اس کی حیثیت مرتد کی ہے اور اسے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی حیثیت سے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کسی غیرمسلم کا مسجد کے مشابہ عبادت گاہ بنانا:
اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے کہ کیا کوئی غیرمسلم اپنی عبادت گاہ (مسجد کے نام سے نہ سہی لیکن) وضع و شکل میں مسجد کے مشابہ بناسکتا ہے؟ کیا اسے یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ میں قبلہ رُخ محراب بنائے، مینار بنائے، اس پر منبر رکھے، اور وہاں اسلام کے معروف طریقہ پر اذان دے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ:
”وہ تمام اُمور جو عرفاً و شرعاً مسلمانوں کی مسجد کے لئے مخصوص ہیں، کسی غیرمسلم کو ان کے اپنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لئے کہ اگر کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد کی وضع و شکل پر تعمیر کی گئی ہو، مثلاً اس میں قبلہ رُخ محراب بھی ہو، مینار اور منبر بھی ہو، وہاں اسلامی اذان اور خطبہ بھی ہوتا ہو، تو اس سے مسلمانوں کو دھوکا اور التباس ہوگا، ہر دیکھنے والا اس کو ”مسجد“ ہی تصوّر کرے گا، جبکہ اسلام کی نظر میں غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد نہیں بلکہ مجمع شیاطین ہے۔“ (شامی ج:۱ ص:۳۸۰، مطلب تکرہ الصلٰوة فی الکنیسة، مطبوعہ ایچ ایم سعید، کراچی، البحر الرائق ج:۷ ص:۲۱۴، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)
حافظ ابنِ تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) سے سوال کیا گیا کہ آیا کفار کی عبادت گاہ کو بیت اللہ کہنا صحیح ہے؟ جواب میں فرمایا:
”لیست بیوت الله وانما بیوت الله المساجد، بل ھی بیوت یکفر فیھا بالله وان کان قد یذکر فیھا، فالبیوت بمنزلة اھلھا واھلھا کفار، فھی بیوت عبادة الکفار۔“ (فتاویٰ ابنِ تیمیہ ج:۱ ص:۱۱۵، دار القلم بیروت)
ترجمہ:…”یہ بیت اللہ نہیں، بیت اللہ مسجدیں ہیں، یہ تو وہ مقامات ہیں جہاں کفر ہوتا ہے، اگرچہ ان میں بھی ذکر ہوتا ہے، پس مکانات کا وہی حکم ہے جو ان کے بانیوں کا ہے، ان کے بانی کافر ہیں، پس یہ کافروں کی عبادت گاہیں ہیں۔“
امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی ۳۱۰ھ) ”مسجدِ ضرار“ کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
”عمد ناس من اھل النفاق فابتنوا مسجدًا بقبا لیضاھوا بہ مسجد رسول صلی الله علیہ وسلم۔“
(تفسیر ابنِ جریر ج:۷ ص:۲۵، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
ترجمہ:…”اہلِ نفاق میں سے چند لوگوں نے یہ حرکت کی کہ قبا میں ایک مسجد بناڈالی، جس سے مقصود یہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے مشابہت کریں۔“
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے منافقانہ طور پر ”مسجدِ ضرار“ بنائی تھی، ان کا مقصد یہی تھا کہ اپنی نام نہاد ”مسجد“ کو اسلامی مساجد کے مشابہ بناکر مسلمانوں کو دھوکا دیں، لہٰذا غیرمسلموں کی جو عبادت گاہ مسجد کی وضع و شکل پر ہوگی وہ ”مسجدِ ضرار“ ہے، اور اس کا منہدم کردینا لازم ہے۔ علاوہ ازیں فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اسلامی مملکت کے غیرمسلم شہریوں کا لباس اور ان کی وضع قطع مسلمانوں سے ممتاز ہونی چاہئے، (یہ مسئلہ فقہِ اسلامی کی ہر کتاب میں باب اَحکام اہل الذمہ کے عنوان کے تحت موجود ہے)۔
چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ملکِ شام کے عیسائیوں سے جو عہدنامہ لکھوایا تھا، اس کا پورا متن امام بیہقی کی سننِ کبریٰ (ج:۹ ص:۲۰۲) اور کنز العمال جلد چہارم (طبع جدید) صفحہ:۵۰۴ میں حدیث نمبر:۱۱۴۹۳ کے تحت درج ہے، اس کا ایک فقرہ یہاں نقل کرتا ہوں:
”ولا نتشبہ بھم فی شیٴ من لباسھم من قلنسوة ولا عمامة ولا نعلین ولا فرق شعر، ولا نتکلم بکلامھم ولا نکتنی بنکاھم۔“
ترجمہ:…”اور ہم مسلمانوں کے لباس اور ان کی وضع قطع میں ان کی مشابہت نہیں کریں گے، نہ ٹوپی میں، نہ دستار میں، نہ جوتے میں، نہ سر کی مانگ نکالنے میں، اور ہم مسلمانوں کے کلام اور اصطلاحات میں بات نہیں کریں گے، اور نہ ان کی کنیت اپنائیں گے۔“
اندازہ فرمائیے! جب لباس، وضع قطع، ٹوپی، دستار، پاوٴں کے جوتے اور سر کی مانگ تک میں کافروں کی مسلمانوں سے مشابہت گوارا نہیں کی گئی تو اسلام یہ کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ غیرمسلم کافر، اپنی عبادت گاہیں مسلمانوں کی مسجد کی شکل و وضع پربنانے لگیں؟
مسجد کا قبلہ رُخ ہونا اسلام کا شعار ہے:
اُوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ مسجد اسلام کا بلند ترین شعار ہے، ”مسجد“ کے اوصاف و خصوصیت پر الگ الگ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں ایک ایک چیز مستقل طور پر بھی شعارِ اسلام ہے، مثلاً: استقبالِ قبلہ کو لیجئے! مذاہبِ عالم میں یہ خصوصیت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس کی اہم ترین عبادت ”نماز“ میں بیت اللہ شریف کی طرف منہ کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استقبالِ قبلہ کو اسلام کا خصوصی شعار قرار دے کر اس شخص کے جو ہمارے قبلہ کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھتا ہو، مسلمان ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔
”من صلّٰی صلٰوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی لہ ذمة الله وذمة رسولہ، فلا تخفروا الله ذمتہ۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۵۶)
ترجمہ:…”جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھتا ہو، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہو، ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو، پس یہ شخص مسلمان ہے، جس کے لئے اللہ کا اور اس کے رسول کا عہد ہے، پس اللہ کے عہد کو مت توڑو۔“
ظاہر ہے کہ اس حدیث کا یہ منشا نہیں کہ ایک شخص خواہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہو، قرآنِ کریم کے قطعی ارشادات کو جھٹلاتا اور مسلمانوں سے الگ عقائد رکھتا ہو، تب بھی وہ ان تین کاموں کی وجہ سے مسلمان ہی شمار ہوگا؟ نہیں! بلکہ حدیث کا منشا یہ ہے کہ نماز، استقبالِ قبلہ اور ذبیحہ کا معروف طریقہ صرف مسلمانوں کا شعار ہے، جو اس وقت کے مذاہبِ عالم سے ممتاز رکھا گیا تھا، پس کسی غیرمسلم کو یہ حق نہیں کہ عقائدِ کفر رکھنے کے باوجود ہمارے اس شعار کو اپنائے۔
چنانچہ حافظ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”واستقبال قبلتنا مخصوص بنا۔“
(عمدة القاری ج:۲ ص:۲۹۶)
ترجمہ:…”اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرنا، ہمارے ساتھ مخصوص ہے۔“
اور حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
”وحکمة الاقتصار علی ما ذکر من الافعال ان من یقر بالتوحید من اھل الکتاب وان صلوا واستقبلوا وذبحوا لٰکنھم لا یصلون مثل صلٰوتنا ولا یستقبلون قبلتنا ومنھم من یذبح لغیر الله ومنھم من لا یأکل ذبیحتنا والاطلاع علی حال المرء فی صلٰوتہ واکلہ یمکن بسرعة فی اوّل یوم بخلاف غیر ذالک من امور الدین۔“
(فتح الباری ج:۱ ص:۴۱۷، مطبوعہ دار النشر الکتب الاسلامیہ، لاہور)
ترجمہ:…”اور مذکورہ بالا افعال پر اکتفا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ توحید کے قائل ہوں وہ اگرچہ نماز بھی پڑھتے ہوں، قبلہ کا استقبال بھی کرتے ہوں اور ذبح بھی کرتے ہوں، لیکن وہ نہ تو ہمارے جیسی نماز پڑھتے ہیں، نہ ہمارے قبلہ کا استقبال کرتے ہیں، اور ان میں سے بعض غیراللہ کے لئے ذبح کرتے ہیں، بعض ہمارا ذبیحہ نہیں کھاتے، اور آدمی کی حالت نماز پڑھنے اور کھانا کھانے سے فوراً پہلے دن پہچانی جاتی ہے، دین کے دُوسرے کاموں میں اتنی جلدی اطلاع نہیں ہوتی، اس لئے مسلمان کی تین نمایاں علامتیں ذکر فرمائیں۔“
اور شیخ مُلَّا علی قاری لکھتے ہیں:
”انما ذکرہ مع اندراجہ فی الصلٰوة لان القبلة اعف، اذ کل احد یعرف قبلتہ وان لم یعرف صلٰوتہ ولان فی صلٰوتنا ما یوجد فی صلاة غیرنا واستقبال قبلتنا مخصوص بنا۔“ (مرقاة المفاتیح ج:۱ ص:۷۲، طبع بمبئی)
ترجمہ:…”نماز میں استقبالِ قبلہ خود آجاتا ہے، مگر اس کو الگ ذکر فرمایا، کیونکہ قبلہ اسلام کی سب سے معروف علامت ہے، کیونکہ ہر شخص اپنے قبلہ کو جانتا ہے، خواہ نماز کو نہ جانتا ہو، اور اس لئے بھی کہ ہماری نماز کی بعض چیزیں دُوسرے مذاہب کی نماز میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ہمارے قبلہ کی جانب منہ کرنا یہ صرف ہماری خصوصیت ہے۔“

ان تشریحات سے واضح ہوا کہ ”استقبالِ قبلہ“ اسلام کا اہم ترین شعار اور مسلمانوں کی معروف ترین علامت ہے، اسی بنا پر اہلِ اسلام کا لقب ”اہلِ قبلہ“ قرار دیا گیا ہے، پس جو شخص اسلام کے قطعی، متواتر اور مُسلَّمہ عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھتا ہو، وہ ”اہلِ قبلہ“ میں داخل نہیں، نہ اسے استقبالِ قبلہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
محراب اسلام کا شعار ہے:
مسجد کے مسجد ہونے کے لئے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن مسلمانوں کے عرف میں چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لئے تجویز کی گئی ہے۔
حافظ بدرالدین عینی ”عمدة القاری“ میں لکھتے ہیں:
”ذکر ابوالبقاء ان جبریل علیہ الصلٰوة والسلام وضع محراب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسامة الکعبة، وقیل کان ذالک بالمعاینة بان کشف الحال وازیلت الحوائل فرأی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الکعبة فوضع قبلة مسجدہ علیھا۔“
(عمدة القاری شرح بخاری الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)
ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادئیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“
اس سے دو اَمر واضح ہوتے ہیں، اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لئے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔ دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشاندہی کی ہو، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ کشف خود ہی تجویز فرمائی ہو۔

البتہ یہ جوف دار محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے، (وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد) یہ صحابہ وتابعین کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
”وجھة الکعبة تعرف بالدلیل، والدلیل فی الامصار والقری المحاریب التی نصبتھا الصحابة والتابعون رضی الله عنھم اجمعین، فعلینا اتباعھم فی استقبال المحارب المنصوبة۔“
(البحر الرائق ج:۱ ص:۲۸۵، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“
یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ و تابعین کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لئے ہیں اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، اس لئے کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ میں محراب کا ہونا ایک تو اسلامی شعار کی توہین ہے۔ اس کے علاوہ ان محراب والی عبادت گاہوں کو دیکھ کر ہر شخص انہیں ”مسجد“ تصوّر کرے گا، اور یہ اہلِ اسلام کے ساتھ فریب اور دغا ہے، لہٰذا جب تک کوئی غیرمسلم گروہ مسلمانوں کے تمام اُصول و عقائد کو تسلیم کرکے مسلمانوں کی جماعت میں شامل نہیں ہوتا، تب تک اس کی ”مسجد نما“ عبادت گاہ عیاری اور مکاری کا بدترین اڈّہ ہے، جس کا اُکھاڑنا مسلمانوں پر لازم ہے، فقہائے اُمت نے لکھا ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم بے وقت اذان دیتا ہے تو یہ اذان سے مذاق ہے:
”ان الکافر لو اذّن فی غیر الوقت لا یصیر بہ مسلمًا لأنہ یکون مستھزئًا۔“
(شامی ج:۱ ص:۳۵۳، آغاز کتاب الصلوٰة، طبع ایچ ایم سعید، کراچی)
ترجمہ:…”کافر اگر بے وقت اذان کہے تو وہ اس سے مسلمان نہیں ہوگا، کیونکہ وہ دراصل مذاق اُڑاتا ہے۔“
ٹھیک اسی طرح سے کسی غیرمسلم گروہ کا اپنے عقائدِ کفر کے باوجود اسلامی شعائر کی نقالی کرنا اور اپنی عبادت گاہ مسجد کی شکل میں بنانا، دراصل مسلمانوں کے اسلامی شعائر سے مذاق ہے، اور یہ مذاق مسلمان برداشت نہیں کرسکتے!
اذان:
مسجد میں اذان نماز کی دعوت کے لئے دی جاتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مشورہ ہوا کہ نماز کی اطلاع کے لئے کوئی صورت تجویز ہونی چاہئے، بعض حضرات نے گھنٹی بجانے کی تجویز پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر رَدّ فرمادیا کہ یہ نصاریٰ کا شعار ہے۔ دُوسری تجویز پیش کی گئی کہ بوق (باجا) بجادیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی قبول نہیں فرمایا کہ یہ یہود کا وطیرہ ہے۔ تیسری تجویز آگ جلانے کی پیش کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ یہ مجلس اس فیصلے پر برخاست ہوئی کہ ایک شخص نماز کے وقت کا اعلان کردیا کرے کہ نماز تیار ہے۔ بعد ازاں بعض حضراتِ صحابہ کو خواب میں اذان کا طریقہ سکھایا گیا، جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اور اس وقت سے مسلمانوں میں یہ اذان رائج ہوئی۔
(فتح الباری ج:۲ ص:۲۲۰، مطبوعہ لاہور)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اس واقعے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وھذہ القصة دلیل واضح علی ان الاحکام انما شرعت لأجل المصالح وان للاجتھاد فیھا مدخلا، وان التیسیر اصل اصیل، وان مخالفة اقوام تمادوا فی ضلالتھم فیما یکون یطلع بالمنام والنفث فی الروع علیٰ مراد الحق لٰکن لا یکلف الناس بہ ولا تنقطع الشبھة حتی یقررہ النبی صلی الله علیہ وسلم واقتضت الحکمة الالٰھیة ان لا یکون الأذان صرف اعلام وتنبیہ بل یضم مع ذالک ان یکون من شعائر الدین بحیث یکون النداء بہ علی روٴس الخامل والتنبیہ تنویھا بالدین ویکون قبولہ من القوم اٰیة انقیادھم لدین الله۔“
(حجة اللہ البالغہ ج:۱ ص:۴۷۴ مترجم)
ترجمہ:…”اس واقعے میں چند مسائل کی واضح دلیل ہے، اوّل یہ کہ اَحکامِ شرعیہ خاص مصلحتوں کی بنا پر مقرّر ہوئے ہیں۔ دوم یہ کہ اجتہاد کا بھی اَحکام میں دخل ہے۔ سوم یہ کہ اَحکامِ شرعیہ میں آسانی کو ملحوظ رکھنا بہت بڑا اصل ہے۔ چہارم یہ کہ شعائرِ دین میں ان لوگوں کی مخالفت جو اپنی گمراہی میں بہت آگے نکل گئے ہوں، شارع کو مطلوب ہے۔ پنجم یہ کہ غیرنبی کو بھی بذریعہ خواب یا القاء فی القلب کے مراد الٰہی کی اطلاع مل سکتی ہے، مگر وہ لوگوں کو اس کا مکلف نہیں بناسکتا، اور نہ اس سے شبہ دُور ہوسکتا ہے، جب تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہ فرمائیں، اور حکمتِ الٰہی کا تقاضا ہوا کہ اذان صرف اطلاع اور تنبیہ ہی نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ شعائرِ دین میں سے بھی ہو کہ تمام لوگوں کے سامنے اذان کہنا تعظیمِ دین کا ذریعہ ہو اور لوگوں کا اس کو قبول کرلینا ان کے دینِ خداوندی کے تابع ہونے کی علامت ٹھہرے۔“
حضرت شاہ صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اذان اسلام کا بلند ترین شعار ہے، اور یہ کہ اسلام نے اپنے اس شعار میں گمراہ فرقوں کی مخالفت کو ملحوظ رکھا ہے۔ فتح القدیر جلد:۱ صفحہ:۱۶۷، فتاویٰ قاضی خان اور البحر الرائق صفحہ:۲۵ وغیرہ میں تصریح کی گئی ہے کہ اذان دینِ اسلام کا شعار ہے۔ فقہائے کرام نے جہاں موٴذّن کے شرائط شمار کئے ہیں، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ موٴذّن مسلمان ہونا چاہئے:
”واما الاسلام فینبغی ان یکون شرط صحة فلا یصح اذان کافر علی أی ملة کان۔“
(البحر الرائق ج:۱ ص:۲۶۴، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)
ترجمہ:…”موٴذّن کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ضروری ہے، پس کافر کی اذان صحیح نہیں، خواہ کسی مذہب کا ہو۔“
فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ موٴذّن اگر اذان کے دوران مرتد ہوجائے تو دُوسرا شخص اذان کہے:
”ولو ارتد الموٴذّن بعد الأذان لا یعادو وان اعید فھو افضل۔ کذا فی السراج الوھاج، واذا ارتد فی الأذان فلأولیٰ ان یبتدیٴ غیرہ وان لم یبتدی غیر واتمہ جاز۔ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔“
(فتاویٰ عالمگیری ج:۱ ص:۵۴، مطبوعہ مصر ؟؟ ۱۳ھ)
ترجمہ:…”اگر موٴذّن اذان کے بعد مرتد ہوجائے تو اذان دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں، اگر لوٹائی جائے تو افضل ہے، اور اگر اذان کے دوران مرتد ہوگیا تو بہتر یہ ہے کہ دُوسرا شخص نئے سرے سے اذان شروع کرے، تاہم اگر دُوسرے شخص نے باقی ماندہ اذان کو پورا کردیا تب بھی جائز ہے۔“
مسجد کے مینار:
مسجد کی ایک خاص علامت، جو سب سے نمایاں ہے، اس کے مینار ہیں۔ میناروں کی ابتدا بھی صحابہ و تابعین کے زمانے سے ہوئی، مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے، خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مینار بنوائے۔ (وفاء الوفاء ص:۵۲۵) حضرت مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مصر کے گورنر تھے، انہوں نے مصر کی مساجد میں مینار بنانے کا حکم فرمایا۔ (الاصابہ ج:۳ ص:۴۱۸) اس وقت سے آج تک کسی نہ کسی شکل میں مسجد کے لئے مینار ضروری سمجھے جاتے ہیں، مسجد کے مینار دو فائدوں کے لئے بنائے گئے، اوّل یہ کہ بلند جگہ نماز کی اذان دی جائے، چنانچہ امام ابوداوٴد نے اس پر ایک مستقل باب باندھا ہے: الأذان فوق المنارة۔
حافظ جمال الدین الزیلعی نے نصب الرایہ میں حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:
”من السنّة الأذان فی المنارة والاقامة فی المسجد۔“ (ج:۱ ص:۲۹۳، مطبوعہ مجلس علمی بالہند)
ترجمہ:…”سنت یہ ہے کہ اذان مینارہ میں ہو اور اقامت مسجد میں۔“
مینار مسجد کا دُوسرا فائدہ یہ تھا کہ مینار دیکھ کر ناواقف آدمی کو مسجد کے مسجد ہونے کا علم ہوسکے۔ گویا مسجد کی معروف ترین علامت یہ ہے کہ اس میں قبلہ رُخ محراب ہو، منبر ہو، مینار ہو، وہاں اذان ہوتی ہو، اس لئے کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ میں ان چیزوں کا پایا جانا اسلامی شعار کی توہین ہے، اور جب قادیانیوں کو آئینی طور پر غیرمسلم تسلیم کیا جاچکا ہے، اور ان کے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، تو انہیں مسجد یا مسجد نما عبادت گاہ بنانے اور وہاں اذان و اقامت کہنے کی اجازت دینا قطعاً جائز نہیں۔ ہمارے اربابِ اقتدار اور عدلیہ کا فرض ہے کہ غیرمسلم قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ پوری قوّت اور شدّت سے اس مطالبے کو منوائیں۔ حق تعالیٰ شانہ اس ملک کو منافقوں کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔
بلااجازت غیرمسلم کی جگہ پر مسجد کی تعمیر ناجائز ہے
اسلام کے تصور عبادت میں مسجد کا بلاشبہ ایک اہم مقام حاصل ہے لیکن بالعموم تقابلی مطالعوں میں مسجد کو وہی مقام دے دیا جاتا ہے جو دیگر مذاہب کے مقام عبادات کو حاصل ہے چنانچہ مسجد‘ گرجا‘ کلیسااور مندر کی اصطلاحات ان مقدس مقامات کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ جہاں داخل ہوتے وقت یہ تصور ذہن میں آتا ہے کہ وہاں کی زمین دیگر مقامات کے مقابلے مین زیادہ مقدس ہیں لیکن ا سلام نے اس فرق کو ختم کردیا جو دیگر مذاہب میں مقدس اور غیر مقدس زمین کے فرق کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور ربوبیت کو دنیا کے چپے چپے ہی نافذ و جاری کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اسلام کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھنے والے اصحاب رسولؐ اور ان کے بعد آنے والوں نے اسلام کو مسجد میں قید نہ ہونے دیا اور اپنے ہر عمل سے ثابت کیا کہ عبادت مسجد تک محدود اور مقید نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کی صلوٰۃ اور اس کے مراسم عبودیت و قربانی اس کی حیات و ممات ہر ہر عمل عباردت ہی کی ایک شکل ہے وہ پور اکاپور ا اسلام میں داخل ہوکر ہی مسلمان بنتا ہے اس کی زندگی دین و دنیا کے خانوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ مسجد دین کی ہمہ گیریت او رجامعیت کو مستحکم کرنی والے ادارے کی حیثیت سے نہ صرف مدنی دور میں بلکہ مکی دو رمیں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جہاں اسلام پہنچا وہاں مساجد بھی اپنے جامع تصور کے ساتھ وجود میں آتی چلی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کو بدونہیں کیا اسے نہ تو اتوار کے اتوار سرگرم ہونے والا گرجا بننے دیا اور نہ محض یوم بست کو گریہ وزاری کرنے والا معبد بننے دیا بلکہ دن رات کے کسی بھی لمحہ میں نہ صرف فرض نمازوں‘ سنتوں‘ نوافل ‘ اعتکاف اور قیام و سجود کے لیے پسند فرمایا بلکہ مسجد ہی میں وہ تمام اہم امور باہمی مشورہ سے طے فرمائے جن کے لیے آج عظیم الشان پارلیمنٹ اور بلند ایوان ہائے قانون تعمیر کیے جاتے ہیں۔ مسجد دراصل مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ایسا مرکز و محور ہے جہاں سے ان کے تمام مذہبی، اخلاقی، اصلاحی، تعلیمی و تمدنی، ثقافتی و تہذیبی سیاسی اور اجتماعی امور کی رہنمائی ہوتی ہے۔ مسجد کا یہ کردار قرن اولیٰ میں جاری و ساری رہا۔ اس دور میں مسلمانوں کے تمام معاملات مسجد ہی میں سرانجام دیئے جاتے تھے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں مسجد کی حیثیت دارالخلافہ سے لے کر غربا و مساکین کی قیام گاہ تک کی تھی۔ تعلیم و تعلم سے لے کر جہاد کی تیاری‘ مجاہدین کی جہاد پر روانگی کا مرکز‘ رفاہی کاموں اور خدمت خلق کا بڑا ادارہ تھا آپ سے ملاقات کرنے اور اسلام اور اسلامی ریاست کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے اور معاہدات کرنے کی جگہ تھی۔ اجتماعی کاموں کے لیے منصوبہ بندی کرنے ان کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے غرباء و مساکین کے لیے چندہ جمع کرنے‘ حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے‘ بیت المال میں مال جمع کرنے مال غنیمت اور صدقات جمع کرنے پھر انہیں مستحقین میں تقسیم کرنے کا مقام مسجد ہی تھی۔
مسجد کی یہ حیثیت حضور اکرمؐ کے زمانے سے لے کر صدیوں بعد تک قائم رہی۔ اسلام کے مثالی دور میں مسجد ہی عدل و انصاف کا مرکز تھی۔ خود حضور اکرمؐ اور خلفائے راشدین اور اس کے تمام حکام مسجد ہی میں بیٹھ کر عدل گستری کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ تعلیم و تعلم کا سلسلہ مسجدنبویؐ مںہ صفہ سے شروع ہوا جو صدیوں تک ہر مسجد کے ساتھ قائم رہا چنانچہ مسلمانوں کے قدیم ترین تعلیمی ادارے جامعہ ازھر‘ جامعہ زیتونہ اور جامعہ قرویین مسجدوں میں قائم ہوئے اور مسجدوں ہی میں انہوں نے ترقی و ارتقا کےجملہ مراحل طے کئے۔ مسلمانوں نے اپنے مثالی ادوار میں جیسے شہر اور بستیاں اباد کیں تو ساتھ ساتھ مساجد کی بنیادیں بھی ڈالیں چنانچہ کوفہ‘ بصرہ اور زروان وغیرہ کے بنیادوں کے نقشے میں مساجد کی تعمیر کو مرکزی مقام دیا گیا. مسجد نبویؐ مسلمانوں کے لیے کثیر المقاصد مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور عام معاشرتی زندگی کے کام سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے باعث امت مسلمہ کا سیاسی و مذہبی مرکز بھی تھی۔ لہٰذا حضور نبی اکرمؐ نے اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز مسجد کو بنایا۔ حضورؐ کی نستھ مسجد میں ہوتی تھی۔ وفود مسجد میں ٹھہرتے‘ ذکر و اذکار ‘ تعلیم و علم کے حلقے مسجد میں قائم ہوتے ۔ وعظ و نصیحت مسجد میں ہوتی۔ اصحابہ صفہ کا ٹھکانا مسجد کے ایک کونے میں تھا۔
اموال غنیمت او رصدقات واجبہ و نافلہ مسجد میں جمع کی جاتی اور یہیں سے تقسیم کی جاتی تھی۔ جنگ احد کے بعد آنے والی رات سرداروں نے مسجد میں گزاری جہاد کی تیاری کے لیے اجتماع مسجد میں ہوتا تھا۔ فقراء و مساکین کے لیے چندہ مسجد میں جمع کیا جاتا۔ غرض مسجد نبوؐی دارالندوہ‘ دارالامارہ اور دارالتعلیم سب ہی کچھ تھی۔ آپؐ کے بعد صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ کے فرمودات‘ نبی اکرمؐ کے ارشادات اور آپؐ کی عملی سیرت سے مسجد کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔ مسجد کی ضروریات اور اس کے پیغام و مقام سے خوب واقف ہوچکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے مسجد کے بارے میں وہی طریقہ اختیا رکیا جو آپؐ کا تھا۔ تمام صحابہ کی مسجد سے گہری وابستگی تھی‘ مسجد تعمیر کرنا‘ آباد کرنا‘ مسجد میں جاکر نماز اد اکرنا‘ ہر طرح سے مسجد کا حق ادا کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اس طرح وہ صحابہ جو حکومتی ذمہ داریوں اور کلیدی عہدوں پرتھے انہوں نے خاص طور پر دارالحکومت کے ساتھ مساجد تعمیر کرائیں چنانچہ نبی اکرمؐ کے دور میں ہی درجنوں مساجد مدینہ منورہ میں تعمیر ہوچکی تھی۔ محدثین اورسیرت نگاروں نی ان کی تعداد 19 سے 32 تک لکھی ہے یہ تعداد آپؐ کی وفات کے بعد کئی گنا بڑھ گئی صحابہ کرام کی زندگیوں میں عام طور پر تعلیم و تعلم کا عمل مسجد میں سرانجام پاتا۔ اگر کوئی صاحب علم پڑھ رہا ہے تو مسجد میں اس کا بندوبست ہے اگر کسی کو تعلیم دے رہا ہے تو اس کابندوبست بھی مسجد میں ہے۔
صحابہ کرام کی اصلاحی‘ تبلیغی اور ذکر و فکر کی مجالس مسجد میں منعقد ہوتی تھی۔ آپؐ کے زمانے سے ہی علمی مجالس شروع ہوگئیں تھی جو صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین او رکسی حد تک مابعد کے ادوار میں جاری رہی۔ صحابہ کرام کی جہاد پر روانگی‘ اسلام لشکر کی تیاری اور سپہ سالار کا تعین مسجد میں ہی ہوتا تھا۔ عدل و انصاف پر مبنی عظیم الشان عدالتیں مسجد میں سجتی تھی سفر او رجہاد سے واپس آٹے تو نبیؐ کی سنت کے مطابق سب سے پہلے اپنے شہر یا محلے کی مسجد میں آتے اور دو رکعت نماز اد اکرتے گویا اپنے گھر سے بھی زیادہ مسجد کو اہمیت اور اولیت دیتے۔
صحابہ کرام کے دور میں جتنے اہم اعلان‘ فیصلے اور مشاورتیں ہوئی تھیں ان کا علان مسجد میں ہی ہوتا تھا۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ صحابہ کرام کو مسجد سے کتنا انس تھا او ران کے دلوں میں اس کی کتنی اہمیت تھی۔ جب تک مسجد کا یہ مقام باقی رہا امت مسلمہ امت واحدہ کی حیثیت سے اپنا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتی رہی لیکن جب یہ رشتہ کمزور ہو ااور اجتماعی زندگی کی مرکزیت مسجد سے منتقل ہوکر دوسری سمتوں اور مرکزوں میں چلی گئی تو امت دین سے دو رہوکراور ملی وحدت سے کٹ کر اختراق و انتشار کاشکار ہوگئی۔ آج امت مسلمہ کا ہر فرد دل میں یہ تڑپ اور جذبہ رکھتا ہے کہ انہی قرون اولٰی کا بابرکت اور خیر سے بھرپور امن و امان والا ماحول میسر آئے۔ یہ خواہش و تمنا تب پوری ہوگی جب ہم اس کے لیے عملی اقدمات شروع کریں گے۔ اس عمل کی ابتداء اس طرح ہوگی جس طرح حضور ؐ نے کی تھی یہ ابتداء مسجد کو وہ مقام و مرکزیت دینے سے ہوگی جونیش اکرمؐ نے رو زاول سے دی۔ وہ فتنے جس نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا اور تہس نہس کردیا ہے مسجدکومرکز بنانے سے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔ اس سے علاقائیت‘ لسانیت‘ گروہیت‘ نسلیت ‘ طبقہ واریت او رصوبائیت کا خاتمہ بھی ہوگا اور لوگوں کے دلوں سے حسد، کینہ، بغض و نفرت کا خاتمہ بھی۔ اس سے رزائل اخلاق‘ لالچ‘ تنگ دلی، قطع تعلق، آپس کی ناچاقی کا قلع قمع بھی ہوگا اور امیر وغریب، افسر و ماتحت، مخدوم و خادم ‘ اعلیٰ و ادنی اور چھوٹے اور بڑے کے درمیان مصنوعی امتیازات کا خاتمہ بھی اور پھر وہی ابتدائی خیر و برکت والا دور لوٹ آئے گا جس مںع اخوت و محبت مساوات و ہمدردی غم خوار و یکجہتی کا دور دورہ تھا۔
اگر مساجد کے اس انقلابی تصو رکو اس کی صحیح روح کے ساتھ اختیار کیا جائے توکوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت ‘ مقام اور قیادت کو دوبارہ حاصل نہ کرسکیں اس درسگاہ کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو ایک غیر محسوس انقلاب کے ذریعے امت مسلمہ کے جسم میں نئی زندگی کی لہر دوڑ سکتی ہے.
قبلہ اول؛ مسجد اقصی:
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اورمسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالٰی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے (سورہ الاسراء آیت نمبر 1)“
احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ
”میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ)
تو میں نے کہا کہ
اس کے بعد کونسی ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے:
مسجد اقصیٰ،
میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3366، صحیح مسلم حدیث نمبر 520)
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
جب عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انھوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔
اس دور میں بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔
مسجداقصٰی کا بانی حضرت یعقوب علیہ السلام کو مانا جاتا ہے اور اسکی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔
بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کروائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کروائی۔
پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انھوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انھوں نے مسجد میں رہنے کے لئے کئی کمرے بنالئے اور اس کا نام ‘معبد سلیمان’ رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انھوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنالیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 2 اکتوبر 1187ء کو فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔
مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین ‘قبۃ الصخرۃ’ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے۔ تاہم آجکل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرۃ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی ‘مسجد اقصیٰ’ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔
زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا اور اس کی تائيد امام ابن تیمیہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ:
”مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا، اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔“
بیت المقدس یکم اگست 1967 کو اسرائیلی قبضے میں چلاگیا جو آج تک جاری ہے۔
21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔
صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کردی۔
یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔
آئے تھے ایک دن میرے گھر آئے تھے
دشمنوں کو بھی تنہا نظر ائے تھے
اونٹ پر اپنا خادم بٹھائے ہوئے
میری اس سر زمیں پر عمر آئے تھے
زخمی زخمی میں اک وہ شاہیں ہوں
میں فلســـــطین ہوں، میں فلســــطین ہوں
چاک دامن رفو کر کے لکھتا ہوں میں
زخم سے گفتگو کر کے لکھتا ہوں میں
درد گانے کو بھی حوصلہ چاہیے
آنسوں سے وضو کر کے لکھتا ہوں میں
اپنی سانسوں میں آباد رکھنا مجھے
میں رہوں نہ رہوں یاد رکھنا مجھے
میں فلسطین ہوں، میں فلسطین ہوں
یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں
میں فلســـــطین ہوں، میں فلســــطین ہوں
میرے دامن میں ایماں پلتا رہا،
ریت پر رب کا فرما پلتا رہا
میرے بچے لڑے آخری سانس تک
اور سینوں میں قران پلتا رہا
ذرہ ذرہ میں اللہ اکبر لئے،
خوش نصیبی ہے میں صاحب دیں ہوں
میں فلســـــطین ہوں، میں فلســــطین ہوں
نہ ہی روئیں گے اور نہ ہی مسکائیں گے
صرف نغمے شہادت کے ہی گائیں گے
اپنا بیت مقدس بچانے کو
تو ابابیل بن جائیں گے
جو ستم ڈھا رہے ابرہا کی طرح
ان کی خاطر میں سامانِ توہیں ہوں
میں فلســـــطین ہوں، میں فلســــطین ہوں۔۔