کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 525)
جب تک مسلمان اپنی زندگی میں قرآن و سنت پر عمل کرتے رہے اور سیرت ِ طیبہ پر عمل کرنے میں ہی اپنے لیے فخر محسوس کرتے رہے ‘ تب تک وہ دنیاوی اعتبار سے بھی ترقی کی راہوں پر گامزن رہے ۔ اہل اسلام نے اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکومت کی اور یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کی دیگر قومیں‘ مسلمانوں کی نقالی کرنے میں اپنے لیے فخر محسوس کرتی تھیں اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں یہ صورت حال تھی کہ مسلمان مؤثر تھے اور باقی اقوام متاثر تھیں ۔
مسلمان ‘ اسلام کے ساتھ قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں گئے ‘ انہوں نے دنیا کی متمدن کہلانی والی اقوام کی تہذیب و ثقافت بھی دیکھی اور انہوں نے وہ تاریخی شہر بھی فتح کیے جنہیں اپنی سینکڑوں سالہ پرانی شناخت پر بڑا ناز تھا لیکن جو آنکھیں سیرت ِ طیبہ کے سرمۂ بصیرت سے روشن ہو چکی تھیں اور جن دلوں نے جمالِ محمدی کی جھلک جذب کر لی تھی‘ وہ دنیا کے کسی فیشن سے متاثر ہوئے‘ نہ کفار کی ظاہری شان و شوکت انہیں مرعوب کر سکی ۔
پھر جب مسلمان اپنی اصل اور بنیاد سے دور ہٹتے گئے اور اپنی عادات و اخلاق میں غیروں کے پیرو کار اور نقال بن کر رہ گئے تو دنیا کی امامت اور حکومت کے عہدہ اور منصب سے بھی معزول کر دئیے گئے ۔ پھر ذہنی غلامی اور پسماندگی کا وہ وقت بھی آیا کہ کفار کی نقالی میں فخر محسوس کیا جانے لگا اور سنت ِ پاک کے مبارک طریقوں میں شرم اور عار محسوس ہونے لگی ۔ زوال اور پستی کے اس دور میں مسلمانوں میں ایسے مفکرین اور دانشور بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ترقی کیلئے کفار کی نقال کو لازمی بتایا اور پوری مسلم قوم کو ذہنی غلامی میں مبتلا کر دیا ۔
جی ہاں! آج ہم ایسے ہی دور میں کھڑے ہیں جہاں سنت پاک کے ہر عمل پر تو ہر طرف سے سوال اٹھتا ہے کہ اس میں کیا حکمت اور کیا فائدہ ہے ؟ جہاں ہر شرعی حکم کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا لازمی سمجھا جاتا ہے اور جب اپنی ناقص عقل میں بات نہ سمائے تو گزشتہ چودہ سو سال کے اسلافِ امت کو غلط قرار دینا اور اُن کی باتوں میں کیڑے نکالنا فیشن بن چکا ہے ۔ لیکن دوسری طرف مغربی دنیا سے آئی ہوئی ہر بات کو کلمۂ طیبہ سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے اور اُن کے لایعنی ‘ بے کار اور بیہودہ طور طریقوں کو بھی اپنانے میں ذرا شرم و عار محسوس نہیں کی جاتی ۔ گزشتہ چند سالوں سے تو کفار کی خالص مذہبی تقریبات میں شرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور یہ جنون ہر سال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کچھ لوگ مسلمانوں کو کفار کے رنگ میں ایسا رنگنا چاہتے ہیں کہ پھر شکل و لباس‘ تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت میں کہیں کوئی فرق باقی نہ رہ جائے ۔ میڈیا پر قابض گروہ تو اس مذموم سلسلے میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اب ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے ٹی وی چینلز پر باقاعدہ ہندوئوں کی طرح شادی کی رسومات انجام دینا سکھایا جاتا ہے ۔
اگر یہی صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو خدانخواستہ چند سالوں بعد نوبت یہاں تک آ پہنچے گی کہ ہماری نئی نسل کو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ملاقات کے وقت ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘کہنا چاہیے یا ’’ نمستے‘‘۔اور مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں یا بھگوان کی پوجاکرتے ہیںاورمسلمان اپنی میت کو اعزازو اکرام سے دفناتے ہیںیا اُس کی چتا کو نذرِ آتش کرتے ہیں۔یہ صرف اندیشہ ہائے دور دراز نہیںبلکہ کئی ایسے گھرانوں کے معصوم بچوں میں جہاں صبح و شام ٹی وی چلتا ہے ، ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
انہی خطرات کے پیشِ نظرعلماء امت نے قرآن و سنت کی روشنی میںمسلمانوں کو کفار کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے روکا ہے اور تشبّہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی صورت وسیرت، اپنی ہیئت ووضع، مذہبی اور قومی امتیازات کو چھوڑ کر دوسری قوم کی صورت وسیرت ، اس کی ہیئت ووضع اور اس کی مذہبی وتعلیمی امتیازات کو ایسا اختیار کرلے کہ دوسری قوم کے وجود میں مل جائے اور اپنے آپ کو اس میں فناء کردے۔
اسلام نے مسلمانوں کو دوسری قوموں کے تشخصات اور امتیازات کو اختیار کرنے سے منع کیا ہے ، یہ ممانعت معاذ اللہ کسی تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ غیرت وحمیت کی بناء پر ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کو غیروں کے ساتھ التباس واشتباہ کی تباہی سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ جو قوم اپنی خصوصیات اور امتیازات کی حفاظت نہ کرے، وہ زندہ، آزاد اور مستقل قوم کہلانے کی مستحق نہیں ، اس لئے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلم قوم دوسری قوموں سے ظاہری طور پر ممتاز اور جدا ہوکر رہے، لباس میں بھی وضع میں بھی ، ایک تو جسم میں ختنہ اور داڑھی کو مسلمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے، دوسرے لباس کی علامت یعنی مسلمان اپنے اسلامی لباس کے ذریعے دوسری قوموں سے شناخت کئے جاسکیں۔
یاد رکھئے!غیروں کی مشابہت مسلمانوں کے لئے خطرناک ہے، بعض مشابہت ایسی ہیں جن کی وجہ سے آدمی اسلام ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور کفر کا اندیشہ ہوجاتا ہے اور کبھی حرام کے اندر مبتلا ہوجاتا ہے ، چنانچہ فقہائے کرام نے لکھا ہے’’اعتقادات اور عبادات میںاغیار کی مشابہت کفر ہے اور مذہبی رسومات میں مشابہت اختیار کرنا، مثلاً ہندوئوں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا یا سینے پر صلیب لٹکانا اور کھلم کھلا کفر کے شعائر کو اختیار کرنا دلی طور پر اس سے راضی ہونے کی علامت ہے ،
اس لئے یہ بلاشبہ حرام ہے اور اس میں کفر کا اندیشہ ہے ۔ معاشرہ اور عادات اور قومی شعائر میں مشابہت اختیار کرنا ، مثلاًکسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص ان ہی کی طرف منسوب ہو اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا فرد سمجھاجانے لگے جیسے سر پر عیسائی ٹوپی(ہیٹ) رکھنا، ہندوانہ دھوتی، جوگیانہ جوتی وغیرہ یہ سب مکروہ تحریمی اور ناجائز وممنوع ہیں اور فخر کی نیت سے استعمال کی جائیں تو اور بھی زیادہ گناہ ہے۔
اسی طرح انگریزی زبان، ان کے لب ولہجے اور طرز کلام کو اس لئے اختیار کیا جائے کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں اور ان کے زمرے میں داخل ہوجائیں یا سنسکرت اس لئے سیکھی جائے کہ پنڈتوں کی مشابہت ہو اور وہ بھی ہمیں اپنے زمرے میں شمار کریں تویہ مشابہت بھی ممنوع ہے ، البتہ اگر ان لوگوں کی مشابہت مقصود نہ ہو ، محض ضرورت کی بناء پر ان کی زبانیں سیکھی جائیں تاکہ ان کی اغراض سے واقفیت اور آگاہی حاصل ہو اور ان کے خطوط پڑھ سکیں اور ان سے تجارتی اور دنیاوی امور میں خط وکتابت کرسکیں تو اس صورت میں غیروں کی زبان سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
غرض کسی بھی چیز کا استعمال غیروں کی مشابہت کی نیت سے اور دشمنان دین کی مشابہت کے ارادے سے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں ان کی طرف رغبت اور میلا ن ہے ، اللہ تعالیٰ کویہ گوارہ نہیں کہ اس کے دوست اور نام لیوا(یعنی مسلمان) اس کے دشمنوں(یعنی کافروں)کی مشابہت اختیار کرنے کی نیت وارادے سے کوئی کام کریں۔
شیخ الاسلام علامہ ابن ِ تیمیہؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’ اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
غیروں کی مشابہت اختیار کرنے میں بہت سے نقصانات ہیں ، ہم نہایت اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کرتے ہیں:
(۱)…کفر اور اسلام میں ظاہری طور پر کوئی امتیاز باقی نہ رہے گا اور حق مذہب یعنی اسلام دیگر مذاہب باطلہ کے ساتھ بالکل مل جائے گا ۔
(۲)…غیروں کا معاشرہ اور تمدن اور لباس اختیار کرنا درحقیقت ان کی سیادت اور برتری تسلیم کرنے کے مترادف ہے ، نیز اپنی کم تری اورکہتری اور تابع ہونے کا اقرار واعلان کا اظہار ہے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام پر برتری عطا فرمائی ہے اور پوری دنیا کا حکمران اور معلم بنایا ہے ، حاکم اپنے محکوم کی تقلید کیوں کردے سکتا ہے ۔
(۳)…غیروں سے مشابہت اختیار کرنے سے ان کے ساتھ محبت پیداہوتی ہے ، جب کہ اسلام میں غیروں سے دلی محبت صراحۃً ممنوع قرار دی گئی ہے۔
(۴)…آہستہ آہستہ ایسا شخص اسلامی تمدن کا استہزاء اور تمسخر کرنے لگتا ہے ، ظاہر ہے کہ اسلامی تمدن کو اگر اہمیت دیتا اور اسے حقیر نہ سمجھتا تو غیروں کی تمدن کو اختیار ہی نہ کرتا ۔
(۵)…جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر اغیار کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی عزت باقی نہ رہے گی ، ویسے بھی نقل اتارنے والا خوشامدی کہلاتا ہے ۔
(۶)…دعویٰ اسلام کا ، مگر لباس، کھاناپینا، معاشرت ،تمدن ، زبان اور طرز زندگی یہ سب کام اسلام کے دشمنوں جیسا اختیار کرنے کا معاذاللہ یہ مطلب نکلتا ہے کہ لاؤ ہم بھی غیر مسلم بنیں اگر چہ صورت ہی میں سہی۔
(۷)…دوسری قوموں کا طرز زندگی اختیار کرنا اسلام اور اپنی مسلم قوم سے بے تعلقی کی دلیل ہے۔
(۸)…غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت اور حمیت کے خلاف ہے۔
(۹)…غیروں کا مشابہت اختیار کرنے والوں کے لئے اسلامی احکام جاری کرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں ، مسلمان اس کی شکل وصورت دیکھ کرگمان کرتے ہیں کہ یہ کوئی یہودی یا عیسائی یا ہندو ہے۔سلام جیسی پیاری دعا سے محروم رہتا ہے، دنیا میں اس کی گواہی بھی تسلیم نہیں کی جاتی ، اگر کوئی لاش، کافر نما مسلمان کی مل جاتی ہے تو تردد ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے اور اس کو کس قبرستان میں دفن کیا جائے۔
(۱۰)…جو لوگ غیروں کے معاشرے کو اپنا محبوب معاشرہ بناتے ہیں وہ ہمیشہ ذلیل وخوار رہتے ہیں، کیوں کہ عشق ومحبت کی بنیاد تذلیل پر ہے یعنی عاشق کو ہمیشہ اپنے معشوق کے سامنے ذلیل وخوار بن کر رہنا پڑتا ہے۔
اس قدر مفاسد کے ہوتے ہوئے اپنے دشمنوں کے معاشرے کو پسند کرنا اور اسے عزت وشوکت کی چیز سمجھنا ، انبیاء کرام اور صلحاء کی مشابہت سے انحراف کرکے اغیار کی مشابہت اختیار کرنا اور ان کے معاشرے میں رنگ جانا ، یقینا ہماری ذلت ورسوائی ، بے غیرتی اور انحطاط اور تنزلی کا سبب ہے ، اس میں عزت ووقعت ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی اس سے دشمنان اسلام مسلمانوں سے خوش ہوں گے ، تاوقتیکہ ان ہی کے مذہب کے پیروکار نہ بن جائیں ، قرآن مجید نے صاف کہہ دیا ہے:
’’اور یہود ونصاریٰ تم سے کبھی خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی اتباع نہ کرنے لگو‘‘۔(البقرۃ آیت۱۲۰)
اسلام ایک نور اور کامل ومکمل اور حق مذہب ہے اور تمام مذاہب کا ناسخ بن کر آیا ہے ، وہ اپنے ماننے والوں کو کفر وشرک کی ظلمت اور تاریکی سے نکال کر نور کی طرف اور باطل سے ہٹاکر حق کی طرف اور ذلت سے ہٹا کر عزت کی طرف دعوت دیتا ہے ، وہ اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ ایسے مذاہب جو ناقص اور منسوخ ہوچکے ہیں ان کے پیروؤں کی مشابہت اختیار کی جائے ، غیروں کی مشابہت اختیار کرنا اسلامی غیرت وحمیت کے خلاف ہے۔
اسلام جس طرح اپنے اعتقادات وعبادات میں مستقل ہے کسی کا تابع دار اور مقلد نہیں ، اسی طرح وہ اپنے معاشرے اور عادات میں بھی مستقل ہے ، کسی دوسرے کا تابع وم
قلد نہیں ۔ اسلام کی نام لیوا حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت ہیں ، ان کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اغیار کی ہیئت اختیار کریں جس سے دوسرے دیکھنے والوں کو اشتباہ پیدا ہو۔
غالباًکسی حکومت میں ایسا نہیں ہے کہ اس سلطنت کی فوج دشمنوں کی فوج کی وردی استعمال کرے ، جو سپاہی ایسا کرے گا وہ باغی قرار دیاجائے گا اور دشمن کی جماعت اپنا کوئی امتیازی لباس یا نشان اختیار کرے تو حکومت اپنے وفا داروں کو ہر گز ہرگز اس باغی جماعت کا نشان اختیار کرنے کی اجازت نہ دے گی ، کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک حکومت اپنی فوج کو دشمن کی شناخت اختیار کرنے کو جرم قرار دے کیوں کہ وہ اس حکومت کی دشمن ہے ، مگر اللہ کے رسول ﷺکو یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ دشمنان خدا کی وضع قطع کو جرم قراردیں ، کیوں نہیں ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘جو خدا کے دشمنوں کی مشابہت اختیار کرے گا اور ان ہی کی وردی اور ان ہی کا طور طریقہ اور معاشرت اختیار کرے گا تو وہ بلاشبہ دشمنان خدا کی فوج میں سمجھا جائے گا ۔
قرانِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’کیا مسلمانوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ حق کے سامنے ان کے دل جھک جائیں اور ان لوگوں کے مشابہ نہ بنیں جن کو پہلے کتاب دی گئی(یعنی یہود ونصاریٰ) جن پر زمانہ دراز گزرا، پس ان کے دل سخت ہوگئے اور بہت سے ان میں بدکار ہیں‘‘۔(حدیدآیت۱۶)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دشمنوں کی نقالی اور پیروی سے ہماری حفاظت فرمائے (آمین)
٭…٭…٭