پنجاب اسمبلی نے تحفظِ خواتین بل پاس کیا ہے۔ گورنر کے دستخطوں کے بعد اب یہ صوبے میں قانون بن گیا ہے۔ اس بل کے 31 آرٹیکل ہیں۔ شروع میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین مرد و عورت کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ اس کے باوجود عورت کو برابری حاصل نہیں ہوپاتی۔ یہ بل اُسے مطلوبہ برابری عطا کرے گا۔ آرٹیکل میں بل کا نام، اس کا دائرہ کار اور اس کی ابتداء کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ آرٹیکل 2 میں 19 شقیں ہیں جن میں اس بل میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ مثلاً: مدعی ہمیشہ عورت ہوگی۔ عدالت سے مراد فیملی کورٹ ہوگی۔ پروٹیکشن سینٹر وہ جگہیں ہوں گی جہاں عورتوں کو رکھا جائے گا وغیرہ۔ آرٹیکل 3 میں بتایا گیا ہے کہ اس قانون کو پنجاب کے طول و عرض میں کارآمد بنایا جائے گا۔ عورتوں کے لیے بنائے گئے سینٹروں میں انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ پولیس کو اس معاملے میں حساس بنایا جائے گا کہ وہ کس طرح عورتوں کی مدد کرسکتے ہیں؟ آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ کورٹ کے پاس عورت کی درخواست آنے کے سات دن کے اندر مدعا علیہ کو نوٹس ایشو کیا جائے گا۔ وہ اپنے دفاع میں مقررہ وقت کے اندر اندر جواب داخل کرے گا۔ اُس کے جواب نہ دینے کی صورت میں ایکس پارٹی (یک طرفہ) فیصلہ عمل میں لایا جائے گا۔ کورٹ درخواست آنے کے 90 دنوں کے اندر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ عورت کو دورانِ مقدمہ گھر میں رہنے کا قانونی حق حاصل ہوگا۔
٭ مندرجہ بالا قانون کی چند شقیں تنقید سے تقریباً بالاتر ہیں، اس کے باوجود اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑ میں اکھاڑ دے گا۔ ٭ سخت افسوس ہے کہ ہماری حکومت نے گھریلو جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ٭
اُسے کسی بھی صورت بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل 6 میں عبوری آرڈر کی بات کی گئی ہے۔ دورانِ مقدمہ مدعیہ کسی بھی قسم کی ناپسندیدہ صورت حال کا بتاکر ایک عبوری آرڈر کورٹ سے لے سکتی ہے۔ آخری فیصلے میں وہ عبوری آرڈر شامل ہوسکتا ہے۔ اگر شامل نہ ہو تو فیصلہ کرنے کے بعد اس کی قانونی وقعت ختم ہوجائے گی۔ آرٹیکل 7 کے مطابق کورٹ ایک تحفظاتی آرڈر جاری کرسکتا ہے جس کے مطابق مدعا علیہ، مدعیہ سے کوئی بات چیت نہ کرے، اُس سے دور رہے، مدعا علیہ ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے اپنے ٹخنے یا بازو پر ایک جی پی ایس ٹریکر باندھے رکھے گا جس سے اُس کی ہر کارروائی مانیٹر ہوگی۔ کورٹ اُسے عارضی طور پر گھر سے باہر نکال سکتی ہے۔ وہ اپنا قانون اسلحہ قانون کے حوالے کردے گا اور دوران مقدمہ کوئی قانونی یا غیرقانونی اسلحہ نہیں خریدے گا۔
وہ عورت کی ملازمت کی جگہ پر نہیں جائے گا اور نہ ہی ایسی جگہو ںپر جائے گا جہاں عورت عموماً جایا کرتی ہے۔ نہ ہی مدعا علیہ مدعیہ کے سہولت کاروں کو کوئی نقصان پہنچائے گا۔ کورٹ کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مدعیہ کی مانگی گئی مدد کے علاوہ بھی اُسے ایسی مدد فراہم کردے جو وہ بہتر سمجھتی ہے۔ آرٹیکل 8 کے مطابق کورٹ مدعیہ کو رہائش کا حق دے گی، اُسے بے دخل نہ کیا جاسکے گا۔ مدعا علیہ مدعیہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو اپنا مکان نہ بیچ سکے گا، نہ ٹرانسفر کرسکے گا۔ مدعا علیہ کو کوئی عزیز رشتہ دار مدعیہ سے رابطہ نہ رکھے گا، نہ ہی شیلٹر ہوم میں جائے گا۔ آرٹیکل9 مدعیہ کے مالی امور کے بارے میں وضاحت کرتا ہے۔ کورٹ مدعا علیہ کو مدعیہ کے حوالے جتنی مناسب چاہے رقم ادا کرنے کا آرڈر دے سکتا ہے۔ اُس کے علاوج معالجے کی رقم، اُس کی منقولہ یا منقولہ جائیداد کا نقصان پورا کرنا ہوگا۔ اگر مدعا علیہ مقررہ میعاد میں رقم مدعیہ کو نہیں دے گا تو کورٹ مدعا علیہ کو ملازم رکھنے والے ادارے یا شخص کو آرڈر دے گا کہ رقم ڈائریکٹ مدعیہ کے حوالے کی جائے۔ آرٹیکل 10 میں کورٹ آرڈرز کے دورانیے اور تبدیلی کا ذکر ہے۔ مدعا علیہ کو حق حاصل ہوگا کہ وہ جب چاہے نئی درخواست دے کر نیا کیس شروع کروالے۔ یہ کیس پچھلے کیس میں ہونے والی کسی بھی فیصلے کی راہ می ںحارج نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 11 کے مطابق ایک ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکسن کمیٹی بنائی جائے گی جس کا سربراہ ڈی سی او ہوگا۔ دیگر نمایندوں میں محکمہ صحت، پولیس، کمیونٹی ڈیویلپمنٹ، ڈی او ایس ویلفیئر اور دسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر شامل ہوگئے۔ گورنمنٹ چار مزید آفیسر تعینات کرسکے گی۔ آرٹیکل 12 میں اس کمیٹی کے دائرئہ کار کے بارے میں وضاحت دی گئی ہے۔ یہ کسی بھی عورت کے ٹیلی فون کال پر ہائی کوالٹی رسپانس دے گی۔
جب تک یہ سینٹر پوری طرح قائم نہیں ہوجاتے پولیس اسٹیشن معاملات کی جان پڑتال کا کام کریں گے۔ آرٹیکل 13 میں پروٹیکشن سینٹروں اور شیلٹر ہومز کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان میں پولیس رپورٹنگ فوجداری مقدمے، طبعی معاینے، خارینزک معلومات، عورت اور مرد کے بیانات کی آڈیو و ویڈیو فلمیں بنانا، شیلٹر ہومز میں عورتوں اور بچوں کو پناہ دی جائے گی۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے عورت یہاں صرف اپنی بچیوں کو رکھ سکے گی، کوئی بچہ یہاں پناہ گزین نہ ہوپائے گا۔ آرٹیکل 14 میں ویمن پروٹیکشن آفیسر کے اختیارات اور فرائض کی تفصیلات درج ہیں۔ یہ آفیسر ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر کے ماتحت کام کریں گی، ان کے ذمہ پروٹیکشن ہومز اور شیلٹر ہومز کا انتظام و انصرام ہوگا۔ آرٹیکل 15 کے مطابق عملے کی یہ خواتین آفیسرز دن رات کسی بھی وقت کسی بھی گھر میں داخل ہوسکتی ہیں جہاں مظلوم عورت رہتی ہو۔ یہ خواتین آفیسر ضلعی انتظامیہ کے اہل کاروں کے ہمراہ کسی بھی گھر م
یں داخل ہونے کے لیے دروازہ اور کھڑکیاں توڑسکیں گی تاکہ مظلوم عورت کو رہا کروایا جاسکے۔ آرٹیکل16 کے مطابق مظلوم عورتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے خواتین آفیسرز سے رابطہ کرسکتی ہیں۔ آرٹیکل 17 میں ان خواتین اہلکاروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ سے معلومات، ریکارڈ اور مواد حاصل کرسکتی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور لوکل گورنمنٹ میں یہ مدد ہر صورت دے گی۔
آرٹیکل 18 کے مطابق جو فرد خواتین اہلکاروں کے فرائض کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گا، اُسے 6 ماہ تک قید اور 5 لاکھ تک جرمانے کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ آرٹیکل 19 میں درج ہے کہ جو فرد ان اہلکاروں کو بھٹکانے کے لیے غلط اطلاعات دے گا، اُسے بھی جرمانے اور قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ آرٹیکل 20 کہتا ہے کہ مدعا علیہ اگر عبوری آرڈر، پروٹیکشن آرڈر، رہائشی آردر، مالی آرڈر یا ٹریکر کی راہ میں حارج ہوگا تو اُسے ایک سال تک قید اور 2 لاکھ تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ جو کوئی دوسری بار حارج ہوگا اُسے 2 سال قید لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی عدالت ایسے کیسوں کو نہیں لے گی جس میں ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر کی طرف سے مدعیہ کی مدد نہ کی گئی ہو۔ آرٹیکل 22 میں درج ہے کہ اس فیصلے میں اپیل کا حق 30 دنوں کے اندر اندر ہوگا، یہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں کی جائے گی جو 60 دنوں میں فیصلہ دینے کی پابند ہوگی۔ آرٹیکل 23 میں درج ہے کہ حکومت پنجاب کسی بھی مظلوم عورت کی فریاد پر 7 دنوں کے اندر اندر اُس کی درخواست اور ایکشن کو اپنی ویب سائٹ پر مشتہر کردے گی۔
اس سلسلے میں چند استثنات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آرٹیکلز24، 25، 26، 27 اور 28 میں پبلک سرونٹس، آڈٹ، اس بل کے دوسرے قوانین کے متوازی ہونے، عملے کی ٹریننگ اور ہر مالی سال کے خاتمے پر اس سارے عمل کی ایک سالانہ رپورٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کرنے کے بارے میں وضاحتیں دی گئی ہیں۔ آرٹیکل 29 میں بتایا گیا ہے کہ اس بل کے پاس ہونے کے 120 دنوں کے اندر پنجاب حکومت سارا سیٹ اپ بنادے گی جس کے ذریعے اس قانون پر عمل درآمد ہوگا۔ آرٹیکل 30 کے مطابق پنجاب گورنمنٹ، اس کے مرد و خاتون آفیسر یا کوئی بھی اہلکار اس قانون کی بجاآوری میں ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہوگا۔ کسی بھی عدالت میں اُس پر کسی بھی ایسے فعل کے لیے مقدمہ درج نہیں ہوگا جو اُس نے Good Faith میں کیا ہوگا۔ آرٹیکل 31 کہتا ہے کہ 2 سال کے اندر اندر پنجاب حکومت اس قانون کی تشریح و توضیع کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بے شمار عورتیں مظالم کا شکار ہیں، اُن کی ضرور دادرَسی ہونی چاہیے۔ انہیں مذہب نے جو حقوق دے رکھے ہیں وہ اُن کو ہر حال میں دیے جانے چاہییں۔ مندرجہ بالا قانون کی چند شقیں تنقید سے تقریباً بالاتر ہیں، اس کے باوجود اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑ میں اکھاڑ دے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ بے شمار گھریلو مسائل خاندان کے بڑوں کی موجودگی میں حل ہوجاتے ہیں۔ ہمسائیوں کو بھی اُن کے بارے میں علم نہیں ہوپاتا۔ اب ہم ویب سائٹ پر انہیں مشتہر کریں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری کرپٹ پولیس اور بیوروکریسی لوگوں کی عزت کو کس کس طرح اُچھالیں گے۔ مردوں کو گھوں سے باہر رکھنے کا آئیڈیا نہایت تکلیف دہ ہے۔ ان ’’عقل مندوں‘‘ سے کوئی پوچھے کہ اگر عورت اس طرح مرد کو کارنر کردے گی تو وہ کیونکر صلح صفائی کرے گا یعنی ہمارے معاشرے میں طلاقوں کی شرح حیرت انگیز طور پر بڑھ جائے گی۔ مرد کا ٹریکر باندھ کر پھرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین مثال ہے۔ مغربی معاشروں میں یہ قانون ہے کہ حکومت کی ایجنسیاں بھی کسی شخص کی پرائیویٹ کال نہیں سن سکتیں۔ عورت کو ہر قسم کی بندشوں سے آزاد کیا جارہا ہے۔ وہ جہاں مرضی جائے، جو مرضی کرے، مرد کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرپائے گا۔ مرد کے لیے نہ گھر رہا نہ عورت رہی، اُس کی تنخواہ بھی کورٹ آرڈر کے ذریعے اُس سے لی جاسکے گی، اُس نے اپنے تحفظ کے لیے جو اسلحہ قانونی طور پر رکھا ہوا ہے، وہ بھی اُس سے لے لیا جائے گا۔ دن رات کسی بھی وقت اُس کے گھر کی کھڑکیاں دروازے توڑے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جو اعلیٰ روایات قائم کی ہیں، اُن کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس قانون کے ذریعے قانونی نقب زن کتنے گھروں کی چھتوں میں شگاف ڈال سکتے ہیں۔ کتنا مال بناسکتے ہیں، ہم نے ان کان کنوں کے لیے ایک نئی کان متعارف کروادی ہے۔
سخت افسوس ہے کہ ہماری حکومت نے گھریلو جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ہمارے معاشرے میں تنگ دستی گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ باہر سے ستایا ہوا مرد جب گھر آتا ہے تو وہاں ضرورتوں کی زیادتی اور وسائل کی کمی کے ہاتھوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہم پاکستان پینل کوڈ میں ان گنت اعلیٰ قوانین بناچکے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ معاشرہ خوش حال ہوگا، لوگوں کے مالی مسائل حل ہوں گے تو محبت و اُلفت بڑھے گی۔ بے شمار معاشرتی قباحتوں کے پیچھے عسرت و غربت کا بھیانک چہرہ ہے۔ شیخ سعدیؒ کی حکایت ہے کہ ایک آدمی کسی حکیم صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ اُس نے جلی ہوئی روٹی کھائی جس سے اُس کے پیٹ میں شدید درد پیدا ہوگیا ہے۔ حکیم صاحب نے اُس کی آنکھوں میں دوا ڈالنی شروع کردی۔ وہ شخص چیخ اُٹھا کہ درد تو میرے پیٹ میں ہے۔ حکیم صاحب نے کہا علاج تمہاری آنکھو ںکا ہونا چاہیے جنہوں نے جلی ہوئی روٹی نہ دیکھی۔ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ وہ اُس جڑ تک پہنچیں جس کی وجہ سے 90 فیصد گھریلو تشدد پیدا ہوتا ہے۔