ممنونیت!:………..تحریر زاویہ/ مفتی فیصل احمد

 

 

میرے تو وہم میں بھی ایسا دلکش اور متاثر کن مدرسہ نہ تھا جو کسی بھی طرح بڑی یونیورسٹی سے کم نہیں ہے۔ سچ بات بتائوں آپ مجھے خلافت عثمانیہ کے زمانے میں لے گئے ہیں۔‘‘ یہ خیالات تھے ہمارے ایک ترکی بھائی کے جو غیرملکی طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے والی ترکی کی ایک مقامی این جی او کے سربراہ ہیں۔ جامعۃ الرشید کی جاذب نظر تعمیرات اور ذیلی اداروں کے حوالے سے ڈاکومینٹری دیکھنے کے بعد انہوں نے چشم تر کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا۔ پھر وضاحت کرتے ہوئے گویا ہوئے: ’’بچپن میں ہم نے چھپ چھپاکر قرآن پڑھا تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا چھوٹے مدارس ہی دیکھنے کو ملے۔ اس لیے میرا تصور تھا کہ پاکستان میں جن مدارس کا ہم شہرہ سنتے ہیں، وہ بھی چھوتے سے رقبے پر ناقص تعمیرات کے ساتھ گزارہ کرتے ہوں گے۔ ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے سائے تلے جو دینی خدمات ہوسکتی ہیں، وہ عام وسائل سے بہت مشکل ہیں۔ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت تک حاکم وقت کی دلچسپی کا معاشرے کے تعلیمی و تہذیبی معیار پر بڑا واضح اثر ہوتا تھا۔ اس زمانے میں مدارس میں نہ چندے کی حاجت ہوتی تھی اور نہ ادارے تنخواہیں دیتے تھے۔ یہ سارے خرچے بیت المال سے پورے ہوتے تھے۔ جب سے قومی طرز کی سلطنتوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے اسلامی ممالک اسلامی اقدار سے دور ہوئے تو مذہبی تعلیم کے ادارے لاوارث سے ہوگئے۔

یہ اور بات ہے کہ 150 سال پر محیط اس عرصے میں بھی برصغیر کے مدارس نے اپنا فرض منصبی ترک نہ کیا۔ یہ تو برصغیر خصوصی طور پر پاکستانی مدارس کا امتیاز ہے کہ انہوں نے اربابِ اقتدار کے توجہ نہ دینے کے باوجود اپنے معیار کو متاثر نہیں ہونے دیا، لیکن اگر وہی نظام بحال ہوجائے اور ان خدمات کو اخلاص و للہیت کے جذبے کے ساتھ حکومتی اعتماد حاصل ہوسکے تو یقینا یہ خدمات سیکڑوں گنا زیادہ پرتاثیر ہوسکتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ جس کا ذکر ترکی بھائی نے کیا اور سلطنت مغلیہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کیسے دین اسلام کی تدریس و تبلیغ کے لیے کتابیں لکھی گئیں۔ فتاویٰ عالمگیری جیسی کتاب 500 علماء نے مل کر لکھی۔ مجلۃ الاحکام مدون کیا گیا جو معاملات اور قضاء سے متعلق احکام کا منشور ہے۔ تفاسیر، شروح حدیث وغیرہ کی تو تعداد ہی گننے میں نہ آئے۔ افسوس انگریزوں کے غالب ہونے سے سرکاری سطح سے نہ صرف سرپرستی کا سلسلہ ختم کردیا گیا، بلکہ علماء و طلبہ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ انہیں معاشرے کا ناکارہ حصہ باور کروایا گیا۔ اس پر تھنک ٹینک بیٹھے اور انہوں نے سازش کرکے وہ طریقے نکالے کہ ان کی وجہ سے علماء اور لبرل دو الگ الگ طبقے وجود میں آگئے۔ انگریز عہدے اور جائیدادیں ایسے لوگوں کو دے گئے جو دین فروشی کے لیے تیار اور بیمار ذہن کے تھے۔ نتیجہ یہ کہ کلمہ کے نام پر آزاد ہونے والا پاکستان بھی اب تک صحیح معنی میں اسلامی تشخص حاصل نہ کرسکا۔ قائد اعظم اس حوالے سے بہت سنجیدہ تھے۔ لیاقت علی خان ولولہ انگیز مذہبی جذبات رکھتے تھے۔ سردار عبدالرب نشتر اپنی حد میں کوششیں کرتے رہے، لیکن لبرل طبقہ کسی کی چلنے نہ دیتا تھا۔ مغرب کی ترقی نے معاشرے کو اور سحر زدہ کیے رکھا۔ مواصلاتی ذرائع اور میڈیا کی ترقی نے ان کے عجائبات ہم پر کھول دیے۔

جس کی وجہ سے فضاء میں مزید مرعوبیت آتی گئی۔ آج 69 سال گزرنے پر بھی اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان نہ بنایا جاسکا۔ ترکی بھائی کو اردو نہیں آتی تھی۔ انگریزی بھی نہیں آتی تھی، لیکن ترجمان کے ذریعے وہ اپنی ساری باتیں بلکہ جذبات تک درست انداز میں پہنچادیتے تھے۔ چین اور فرانس کا صدر انگریزی میں بات کرنے کو اپنی قوم کے لیے ذلت سمجھتے ہیں۔ جنوبی امریکا کے تمام ممالک اپنی زبان کو ہر جگہ نمایاں رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت کے نمایندے بھی ہندی بولنے لگے ہیں، لیکن ہم نہ جانے کیوں انگریز اور انگریزی زبان میں ہی اُلجھے رہے۔ آج صدر ممنون حسین صاحب نے OIC کے اجلاس میں اردو میں تقریر کرکے یقینا قائدانہ کردار ادا کیا ہے، بلکہ صحیح معنی میں حکومت کا قبلہ درست کردیا ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے بعض مقدمات میں تفصیلی فیصلے اردو میں لکھ کر اور باقاعدہ حکومت کو ’’اردو‘‘ کو سرکاری طور پر رائج کرنے کا حکم دے کر دور اندیشانہ قدم اُٹھایا تھا۔ اس حکم نامے کو اب تک جزوی قبولیت ہی مل سکی تھی۔ بیوروکریسی اور سرکاری اداروں میں جو خاندان عرصے سے قابض ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اردو سمجھنے والے دانشور اپنی قابلیت و صلاحیت کی بنا پر ان جگہوں تک پہنچ سکیں جو ان کی نظر میں انگریزی کے مرہون منت ’’خاندانی وراثت‘‘ کا اسٹیٹس حاصل کرچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بارہا سرزنش نہ ہو تو یہ ٹس سے مس بھی نہیں ہوتے، لیکن اب صدر مملکت جیسے باوقار عہدے کی جانب سے ایک عالمی فورم پر اس پر عملی قدم یقینا ان قابض دماغوں کو ہوا کا رُخ سمجھا سکے گا اور اگلی حکومتوں کے لیے مشعل راہ ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ’’اردو‘‘ زبان کی ترویج ہمیں بہت کم عرصے میں ترقی کے بام عروج تک پہنچاسکتی ہے۔ ہمارے ذہین دماغ اپنی مادری زبان میں بلاتکلف علم حاصل کرسکتے ہیں۔ انگریزی بطور زبان کے ضرور سیکھی جائے، لیکن علم و فنون میں مہارت کو اس پر موقوف نہ کیا جائے۔ اردو کو رائج کرنے سے ہماری اگلی نسلیں اردو میں موجود ہمارے مذہبی، ادبی اور ثقافتی سے مربوط رہیں گی۔ ورنہ ہمارے قومی ہیروز کا فیصلہ تاریخ دانوں کے بجائے انگریزی دانوں کے ہاتھ میں چلا
جائے گا۔ ہم صدر کے ’’ممنون‘‘ ہیں کہ انہوں نے درست راہنمائی فرمائی۔ یاد رکھیے! اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب کی ’’ممنونیت‘‘ نہ رکھنے والی قوم کبھی بھی اپنے ملک کو ترقی نہیں دے سکتی۔