خبردار
- تحریر یاسر محمد خان
’’را‘‘ (RAW) بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ہے۔ یہ Research & Analysis Wing کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کا قیام 21 ستمبر 1968ء کو عمل میں آیا۔ پہلے یہ انوسٹی گیشن بیورو کہلاتی تھی۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ میں بھارتی چین کے بارے میں نہایت غلط اندازے لگاتے رہے۔ آئی بی کی رپورٹوں کے مطابق چینی 3 دنوں تک بھارتی گولہ باری کا سامنا کرنے کے قابل نہ تھے۔ جواہر لال نہرو اُس وقت بھارتی وزیر اعظم تھا۔ اُس نے اس جنگ میں بھارتی شکست کو شدت سے محسوس کیا۔ ’’را‘‘ کے نام سے ایک بڑی خفیہ ایجنسی بنانے کی منظوری دی۔ 1964ء میں نہرو کی موت کے بعد لال بہادر شاستر ہندوستانی وزیراعظم بنا۔ 1965ء میں بھارت کے تمام اندازے دوبارہ غلط ثابت ہوئے اور اُسے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شاستری تاشقند معاہدے کے دنوں میں چل بسا۔ اندرا گاندھی نے آکر ’’را‘‘ کے لیے 20 ملین ڈالرز فنڈز کی منظوری دی۔ ایوی ایشن ریسرچ سینٹر کو ’’را‘‘ کا حصہ بنایا جس نے چین اور پاکستان کی خفیہ فلائی نگرانی شروع کردی۔ 1971ء میں ’’را‘‘ کا بجٹ بڑھاکر 300 ملین ڈالرز کردیا گیا۔ یوں بظاہر دنیا کی نظر میں یہ تحقیق کا یہ ادارہ ہے جو حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں نتائج اخذ کرتا ہے۔ درحقیقت یہ پڑوسی ملکوں کے لیے ایک دلدل ہے۔ ایک ایسا ہولناک گردبار ہے جس کے جھکڑوں نے جنوبی ایشیا کو لرزہ براندام کر رکھا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا بجٹ بڑھایا جاتا رہا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے تمام فنڈز کو آڈٹ سے مبرا قرار دے دیا گیا۔ یوں ارب یہ اربوں ڈالرز صرف کرنے والی ایجنسی بن گئی ہے۔ اس کے ڈیپارٹمنٹس کتنے ہیں؟ اور اس کے عملے کی تعداد کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ نئی دہلی میں اس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں اس کے خفیہ دفاتر واقع ہیں۔ ضلع گوڑ گائوں میں جاسوسوں کو بیرونی زبانیں سکھانے کا ایک جدید ترین سینٹر بنایا گیا ہے۔ یہ جاسوس فر فر بولنا سیکھتے ہیں تو انہیں متعلقہ ملکوں میں جاسوسی کے لیے بھجوادیا جاتا ہے۔
یہ ایجنسی ڈائریکٹ بھارتی وزیراعظم کو رپورٹ دیتی ہے۔ اس کا کمانڈر اینڈ کنٹرول سسٹم وزیراعظم کے دفتر سے آپریٹ کرتا ہے۔ ’’را‘‘ نے وقت کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے جال کو تمام ہمسایہ ملکوں میں پھیلادیا۔ بھارتی مفادات کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔ خوبصورت عورتوں کو یہ ایجنسی نہایت پرکشش مراعات پر ہائر کرتی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ ملکوں سے راز چوری کرنے، خفیہ مقامات کی حساس تصویریں اور تفصیلات اکٹھی کرنے، اعلیٰ پوسٹوں پر تعین افراد کو شراب و شباب کی طرف راغب کرنے، کمپیوٹروں سے نازک ڈیٹا اُڑا لینے، علیحدگی پسندوں کو جدید ترین اسلحہ مہیا کرنے، اُن کو اعلیٰ جنگی ٹریننگ دینے، نقشوں کی مدد سے انہیں عین ہدف پر حملہ کرنے کی مہارت دینے راہ میں حائل اعلیٰ شخصیات کو قتل کرانے، فراقہ وارانہ اور لسانی فسادات کروانے جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ افغانستان سری لنکا، برما، مالدیپ، بھوٹان اور نیپال جیسے ہمسایہ ملکوں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ افغانستان میں یہ مدتوں پاکستان دشمن عناصر کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے رہیں۔ اس کے ایجنٹ 1979ء سے پہلے کی ہر افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف مضبوط بناتے رہے۔ روسی حملے کے وقت را روس کی پشت بان گئی۔ 1988ء کے بعد یہ لک میں قتل و غارت گری کرنے والے ہر لشکر کی ڈھال بن گئی۔ یوں طالبان کے خلاف یہ شمالی اتحادی کی سب سے بڑی سپورٹ بن گئی۔ نائن الیون کے بعد یہ افغانستان میں طالبان کے لہو کو سونگھتی پھری اور پھر کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ شیر و شکر ہوگئی۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز خیفہ طور پر ’’را‘‘ سے مدد لیتے رہے اور جافنا کے گردونواح پر قابض ہوگئے۔ 2015ء میں سابق صدر راہندھارا جاپسکا کو راستے سے ہٹانے کے لیے را نے ہر طرح کا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ سابق صدر سری لنکا اور چین کو نہایت قریب لے آیا تھا، یوں اسے راستے سے ہٹادیا گیا۔ نیپال میں شاہی خاندان تمام کا تمام را کے زیرنگیں رہا۔ جب ایک شاہ نے حکم عدولی کی تو وہ خاندان سمیت قتل کردیا گیا۔ برما، مالدیپ اور بھوٹان را کے مدار میں گھومنے والے سیارے بن کر رہ گئے ہیں۔ را یہاں ہندوستانی مفادات کی فصلیں بوتی اور سازشوں کی درانتی سے انہیں مسلسل کاٹتی رہتی ہے۔
را کی خفیہ کارروائیوں پر سب سے دلچسپ کتاب میجر جنرل وی کے سنگھ نے لکھی۔ یہ ’’IRO raw experience‘‘ (ناپختہ تجربہ) کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب نے بھارت میں سنسنی پھیلادی۔ وی کے سنگھ بتاتا ہے کہ چین کی قوت سے خوفزدہ را امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر چین کی مسلسل جاسوسی کرتی رہتی ہے۔
جب پاکستان کے ایٹم بم بنانے کی تیاریوں کی بھنک را کو پڑی تو اُس نے کہوٹہ کے بارے میں ہر طرح کی جانکاری کی کوششیں شروع کردی۔ یورینیم افزودگی کی ایک بڑی نشانی قریبی آبادی کے بالوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ را کے ایجنٹوں نے کہوٹہ کے گردونواح میں حجاموں کی دکانوں سے کٹے بالوں کو جمع کیا اور ریسرچ سے اندازہ لگالیا کہ پاکستان یورینیم افزودہ کرچکا ہے۔ 1989ء میں کشمیری مجاہدین کے خلاف را نے ’’آپریشن چانکیہ‘‘ کا آغاز کیا۔ کشمیری فریڈم فائٹرز کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اُن کے گھروں کی نگر
انی، انہیں اغوا کرکے موت کے گھاٹ اُتارنے، مشتبہ افراد پر انسانیت سوز تشدد، عورتوں کی عصمت دری،بچوں کا بہیمانہ قتل سب را کی پالیسیوں کا شاخسانہ تھا۔ مئی 2000ء میں را کے ایجنٹ آزاد کشمیری میں کوٹلی ضلع کے لنجوٹ نامی گائوں میں گھس آئے اور 16 افراد کی گردنیں کاٹ گئے۔
را نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی کارروائی 1969ء سے 1971ء کے درمیان مشرقی پاکستان میں کی۔ نہایت منظم انداز میں ہر پاکستان مخالف کو دوست بنایا گیا۔ کلکتہ کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بنگالی مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا، اُن کو اعلیٰ درجے کے کھانے کھلائے جاتے اور ان کی خوب برین واشنگ کی جاتی۔ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے استاذوں کو را نے اپنے شیشے میں اُتارا۔ یہ جوں ہی را کے حلقہ دام میں پھنسے، انہوں سارے بنگالی بچوں کی کایا کلپ کردی۔ یہ زہر بنگال میں تیزی سے پھیلتا چلاگیا۔ بنگالی ریڈیو اور ٹی وی کا سارا عملہ کلکتہ سے پروپیگنڈے کے نت نئے دائو سیکھ کر آنے لگا۔ بنگالی کسانوں کو قائل کرلیا گیا کہ اُن کے پٹ سن کے کم دام مغربی پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ آزادی کے بعد ہر بنگالی کسان مالدار اور آسودہ حال ہوجائے گا۔ بنگالی اخبارات میں را کے ایجنٹ گھس گئے اور ہر پڑھے لکھے بنگالی کو آزادی کے لیے تیار کرنا شروع ہوگئے۔ عوامی لیگ کی ساری لیڈر شپ شیخ مجیب الرحمن کی سرکردگی میں را کے زیر اثر آگئی۔ یہ لوگ آئے روز بھارت کے دورے کرنے لگے۔ بنگالی لیڈر شپ کو بوریوں میں بھر کے روپے دیے گئے جو انہوں نے گلی محلے کی سطح پر اپنے کارکنوں میں بانٹے۔ علیحدگی کی فصل پک کر تیار ہوگئی تھی۔ را اپنی کاوشوں کو یوں پھلتے دیکھ کر نہال ہوئے جارہی تھی۔ بنگال کے ہر کوچے میں بنگلہ دیش کا نعرہ بلند ہورہا تھا۔ عوامی لیگ نے مکتی باہنی نامی ایک عسکری ونگ بنالیا تھا۔ یہ لوگ ہندوستان میں فوجی ٹریننگ حاصل کرچکے تھے، وہاں انہیں مفت خوراک، رہائش اور الائونس ملے تھے۔
اس پس منظر میں 1970ء کے انتخابات ہوئے۔ را کو دھڑکا لگ گیا کہ اگر مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کی حکومت تسلیم کرلی تو اُس کی سازش کے پرکٹ جائیں گے۔ یہاں را نے یحییٰ خان اور بھٹو کے اتحادیوں میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ یوں باہمی آویزش کی ہوائیں ملک کے دونوں حصوں میں چلنا شروع ہوگئیں۔ کامیاب ہوتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا گیا۔ مغربی پاکستان میں را کے ایجنٹوں نے امن کی کوئی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ اُس کے پتے اور جڑیں نوچ کر پھینک دی گئیں۔ 1971ء کی جنگ شروع ہوئی۔ را کے ایجنٹوں نے بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ سارے بنگال میں یہ باور کروادیا گیا کہ پاک فوج بنگالیوں کا لہو بہارہی ہے۔ اس منظرنامے میں را نے مکتی باہنی کو استعمال کیا۔ ہندوستانی فوج بارڈر پار کرکے ڈھاکہ تک آن پہنچی۔ 16 دسمبر کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ ڈھاکہ ڈوب گیا۔ اندرا گاندھی نے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا اور کہا: ’’ہم نے آج نظریہ پاکستان دفن کردیا ہے۔‘‘
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ وہاں اُسے مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے اپنے ملک کا عظیم محسن قرار دیا۔ مودی نے اقرار کیا کہ بھارت نے مکتی باہنی کا بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان کو توڑا۔ اُس نے را کے کردار کو سراہا جس نے بنگلہ دیش کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ مودی نے 1971ء میں پاکستان مخالف تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُس نے پاکستان پر زہریلے نشتر پھینکے اور اسے دہشت گردی کو پروان چڑھانے والا ملک قرار دیا۔ بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ’’بنگلہ دیش لبریش وار آنر‘‘ کا تمغہ بھی دیا گیا۔ یوں اس دورے میں بھارت کا وہ روپ کھل کر سامنے آگیا جسے اب تک ڈپلومیسی کے پردے میں چھپایا گیا تھا۔ را کا مکروہ، بھیانک اور لرزہ خیز چہرہ تمام دنیا نے دیکھ لیا ہے۔
را بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو اسلحہ بارود فوجی ٹریننگ دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں ناقابل تردید ثبوت مہیا ہیں۔ ہماری فوج، ایف سی اور ایجنسیاں را کے اس گھن چکر کو توڑ رہی ہیں۔ کئی علیحدگی پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ان حالات میں ہماری سیاسی قیادت کو بلوغت دکھانی چاہیے۔ ایسے نازک موقع پر فوج کے خلاف سندھ میں اٹھنے والی بیان بازی سے را کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ہم اندرونی طور پر جتنے کمزور ہوں گے، دشمن اتنا ہی طاقت ور ہوگا۔ 1965ء میں ہم ایک تھے تو ہندوستان ہمارا کچھ نہ بگاڑ پایا۔ 1971ء میں ہم کمزور ہوئے تو اُس نے ہماری فصیلوں میں شگاف ڈال دیے۔ ہمارے قلعے کو مسمار کردیا۔ اُس نے مشرقی پاکستان کی دراڑ کو گہرا شگاف بنادیا۔ ہمیں اس نازک وقت میں فوج کو مکمل سپورٹ کرنا ہوگا۔ ہماری باہمی لڑائیاں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ ہمیں صوبائی، قبائلی اور لسانی حدبندیوں سے بالا ہونا ہوگا۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانا ہوگا تاکہ وہ را کی گوشمالی کرسکیں۔ را کے ایک سابق سربراہ وجے پرکاش نے اقرار کیا تھا کہ را اور سی آئی اے دونوں مل کر چین میں غداروں کو نہیں ڈھونڈ پائے۔ یوں یہ دونوں ایجنسیاں وہاں ناکام ہوگئیں۔ خدا کرے کہ ہم پاکستانی بھی اتنے متحد ہوں کہ را پاکستان سے اپنے سر پر نامرادی کا تاج سجائے واپس لوٹ جائے۔