’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کھرب پتی امریکی بزنس مین ہے۔ اس کے خاندان کے کئی بڑی امریکی ریاستوں میں ہوٹلز ہیں۔ ٹرمپ نے سیاست میں آنے کے بعد مشہور امریکی اخبارات، رسائل اور چینل خریدلیے۔ 16 مئی کے انتخابات کے لیے اُسے بھرپور تشہیر ملی۔ اُس نے پیسے کے دریا بہائے اور سرمائے کے ریلے سے ہر رکاوٹ کو توڑتا چلا گیا۔ اگر آپ امریکی اخبارات فاکس نیوز اور سی این ین ملاحظہ کریں تو آپ کو ٹرمپ کی دولت کی پرچھائیاں ہر جگہ نظر آئیں گی۔ پچھلے منگل کو اُس نے 5 میں سے 5 ریاستوں میں ہونے والی پرائمرئیاں جیت لیں۔ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ تیزی سے دوسرے امیدواران کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ ہیلری کلنٹن چونکہ اوبامہ حکومت کے پہلے چار سالوں میں سیکریٹری آف اسٹیٹ رہی ہے، اُس سے اوبامہ حکومت کی ناکامیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہیں۔ اُس کے کیریئر کے نازک ترین لمحات وہ تھے جب اُس نے لیبیا میں یورش کے دوران غلط فیصلہ کیا جس کے ردّعمل کے طور پر امریکی سفارت خانہ اور سفارت کار آگ کے شعلوں میں بھسم ہوگئے تھے۔ ہیلری نے اس واقعے کے عواقب سے بچنے کی بہت کوشش کی، مگر اُس کی ایک نہایت متنازعہ ای میل منظر عام پر آگئی۔ مخالفین اُسے کرائسس میں ہاتھ پائوں چھوڑ بیٹھنے کی بناء پر امریکی صدارت کے لیے سخت نااہل قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔
لیبیا میں غلط اقدام پر پچھلے دنوں اوبامہ نے ہیلری کے دفاع میں ایک انٹرویو دیا۔ لفظ اُس کے منہ میں اَٹک گئے اور اس دفاع نے ہیلری کی پوزیشن اور نازک کردی۔ اوبامہ حکومت سے تنگ امریکی ہیلری کی حمایت سے ہاتھ اُٹھارہے ہیں۔ ہیلری کی ساری اُمید اُن خواتین ووٹرز سے ہے جو تاریخ میں پہلی امریکی خاتون صدر کے اعزاز کے لیے دل و جان سے اُس کی حمایت کررہی ہیں۔ شاید ہی ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن جیسی دو متضاد شخصیات صدارت کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئی ہوں۔ ٹرمپ کی سگ خوئی ساری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ وہ نہایت بداخلاق اور زبان دراز انسان ہے۔ وہ مخالفوں کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتا۔ مسلمانوں کے خلاف اُس کے بیانات اُس کی اخلاقی گراوٹ کا ثبوت ہیں۔
پچھلے دنوں حیرت انگیز طور پر وہ اپنی خارجہ پالیسی بیان کرتا رہا۔ ایک امیدوار کا یوں بیرونی دنیا کے بارے میں ایسی واضح پالیسیاں حیرت انگیز ہیں۔ یہ انٹرویو ثابت کرتا ہے کہ امریکا میں طاقت کا مرکز قوتیں اُس کی طرف ہوگئی ہیں۔ وہ سرعام روس اور اُس کے صدر پیوٹن کی تعریف کرتا ہے۔ اُس نے رُوس کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ صدر بننے کے بعد رُوس کے ساتھ مثالی تعلقات کا باب شروع کرے گا۔ اس انٹرویو کے بعد کریملن نے ٹرمپ کے لیے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ اوبامہ انتظامیہ پیوٹن کی یوکرائن میں جارحیت کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ ٹرمپ یورپی ملکوں کے لیے یکسر نئی پالیسیاں لے کر آرہا ہے۔ رُوس کی حماقت کے بعد وہ شام اور ایران سے قربت کا اظہار بھی کررہا ہے۔ یہ دونوں ملک پہلے ہی رُوس کے بہت قریب ہیں۔ یوں اگر ٹرمپ صدر بنتا ہے تو وہ ایک ایسا بلاک بنائے گا جس میں امریکا اور روس قریب قریب ہوں گے۔ شام اور ایران ان کے حلیف ہوں گے۔ یمن اور عراق کے جنگجوئوں کو سہارا مل جائے گا۔ امریکا اور روس اپنے اسلحے کے لیے نئی منڈیاں تلاش کریں گے۔ مشرق وسطیٰ میں ملک کی بنیاد پر ہونے والی خلیج مزید وسیع ہوگی۔ لاطینی امریکا کا ایک بڑا ملک اور امریکا کا پڑوسی میکسیکو اپنے باشندوں کو ٹرمپ کی مکمل حمایت پر قائل کررہا ہے۔ امریکا میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد میکسیکو سے وہاں آباد ہوئی ہے۔ یوں امریکی ٹرمپ کو ٹرمپ کی طرح کھیل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ٹرمپ تاش کا ایک نہایت کارگر پتا ہوتا ہے جو گیم کو کھیلنے والے کے حق میں کردیتا ہے۔
سعودی عرب ان سب تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں سخت سردمہری آگئی ہے۔ امریکی میڈیا دکھاتا ہے کہ کسی طرح کانگریس میں سعودی مخالف پروپیگنڈا زور پکڑرہا ہے۔(باقی صفحہ5پر) امریکی نائن الیون کے لیے سعودی حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر اپنے شہریوں کو ڈائریکٹ سعودی حکومت پر ہاتھ ڈالنے کی پالیسی بنانے پر غور کررہے ہیں۔ بعض دور اندیش سینیٹر کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکا کے لیے دو دھاری تلوار ہوگی۔ اگر امریکی ایسے کیس دائر کریں گے تو دنیا بھر میں جاری امریکی مظالم پر مظلوم امریکی حکومت پر بھی کیس کرنے کا حق حاصل کرلیں گے۔ اوبامہ اپنی حکومت کے آخری سال میں شتر بے مہار کی طرح دنیا بھر کے دورے کررہا ہے اور عجیب اوٹ پٹانگ بیانات دے رہا ہے۔ برطانیہ میں اُس نے سفارت کاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انگریزوں کو یورپی یونین میں رہنے کا حکم صادر کیا۔ اُس کے خلاف برطانیہ میں احتجاج ہوا۔ جرمنی میں بھی وہ جرمنی حکومت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا۔ مشرق وسطیٰ میں اُس نے اپنی حمایت کے لیے دورے کیے ہیں۔ اگر سعودی عرب امریکا سے اپنے ساڑھے 7 ارب ڈالرز نکال لیتا ہے تو یہ امریکی اکانومی کے لیے موت ہوگی۔ ٹرمپ پہلے ہی چین کو آنکھیں دکھاچکا ہے اور چینیوں کو Behare کرنے کا ناشائستہ حکم دے چکا ہے۔ سعودی عرب اپنے دوست ممالک کا ایک بڑا اتحاد کھڑا کررہا ہے۔ یہ ملک مل کر یورپی یونین طرز پر ایک اکٹھ بنائیں گے۔ ان ملکوں کے اکھٹے ہونے کی صورت میں امریکا کو اپنے من چاہے مطالبات عرب دنیا پر لادنے کی جرأت نہ رہے گی۔ سعودی اثاثے ضبط کرنے کی صورت میں امریکا کو قرض دینے والے ملک بھاگ جائیں گے۔ امریکا
کو عالمی عدالت دی پیک میں مجرم کی حیثیت سے حاضر ہونا ہوگا۔ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا کہ امریکی کہنے والے ان سالوں میں آگے بڑھتا ہے یا پیچھے پھسل جاتا ہے۔ امریکا کی ایران کے لیے قربت نے 34 ملکوں کو ایک صفحے پر اکھٹا کردیا ہے۔ یہ اتحاد تیل کی دولت سے مالا مال ملکوں کا اتحاد ہے جو تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور اس دولت کے ذریعے نئے حلیف بنانے کے لیے سرگرم ہے۔
سعودی عرب بین الاقوامی تعلقات میں نہایت درجہ دانشمندی دکھارہا ہے۔ ایسا بھی سننے میں آرہا ہے کہ سعودیہ امریکا میں اپنے ساڑھے سات ارب ڈالرز کے اثاثے کسی بڑی عالمی طاقت کو بیچ دے گا۔ یہ امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ وہ سعودیہ سے تعلقات بھی خراب کرے گا اور کسی بڑی طاقت کا باج گزار بھی بن جائے گا۔ سعودیہ نے اوبامہ کے دورے میں اپنا طاقت وقار قائم رکھا اور امریکیوں کو ایک سخت پیغام دے دیا۔ امریکی انتظامیہ پوری کوشش کررہی ہے کہ کانگریس میں سعودی مخالف بل پاس نہ ہو۔ ساڑھے سات ارب ڈالرز کا حصول اُسے وقتی فائدہ دے گا، انجام کار اُس کی بین الاقوامی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ امریکا سوچ رہا ہے کہ صرف ایران سے دوستی اور ساری عرب دنیا سے دُشمنی اُس کے لانگ ٹرم مفادات کو مجروح کردے گی۔ امریکا نے نائن الیون کمیشن کے 28 صفحات اس لیے دبا رکھے ہیں کہ سعودی عرب کو انڈر پریشر رکھا جائے۔ سعودیہ نے بساط اُسی پر اُلٹ دی اور کئی دہائیوں بعد ایسا ہوا ہے کہ عربی امریکا کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے 900 صفحات میں سعودی حکومت کو ہر طرح کی دہشت گردی میں معاونت سے بری دکھایا گیا ہے۔ عرب دنیا نے خطرات کو پوری طرح بھانپ لیا ہے۔ ایران و شام کا اتحاد اور روسی امریکی پشت پناہی نے ثابت کیا ہے کہ امریکی عرب دنیا کو لہولہان کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے؟
پچھلے پچیس تیس سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو ریپبلکن ڈیموکریٹس کی نسبت کئی درجہ خون آشام ثابت ہوئے۔ بش سینئر 1998ء میں امریکی صدر بنا۔ اُس نے صدام حسین کو شہ دی اور 1991ء کے آغاز میں مشرق وسطیٰ میں جاگھسا۔ 1991ء کے بعد امریکی افواج کسی نہ کسی صورت وہاں مقیم رہی ہیں۔ اہم بندرگاہوں پہ ان کا قبضہ رہا۔ انہوں نے تیل شہر مادر کی طرح ڈکارنا شروع کردیا۔ عراق پر پابندیاں 1991ء کی دہائی میں جاری رہیں جنہوں نے اس خوشحال ملک کو اجاڑ دیا۔ 1992ء سے 2000ء تک کے 8 برسوں میں کلنٹن نے نئے محاذ نہیں کھولے۔ 2000ء سے 2008ء تک بش جونیئر صدر رہا۔ اُس جیسا سفاک انسان حالیہ تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہ ملے گا۔ کچھ جعلی کاغذات کی آڑ میں اُس نے عراق اور افغانستان پر بھوکے صلیبیوں کے ہمراہ یلغار کردی۔ نائن الیون جیسا ڈرامہ رچایا گیا اور مسلمانوں پر بارود برسایا جانے لگا۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکیوں نے مستقل پنجے گاڑ لیے اور ساری مسلم دنیا کو وہاں سے کنٹرول کرنا شروع کردیا۔ عراق میں بدترین قتل عام ہوا اور ملکی خلفشار جو دہائیوں سے سویا ہوا تھا، بیدار ہوا اور ہر طرف منافرت پھیلانے لگا۔ یہی زہر شام میں پھیلتا چلاگیا۔ اسی نے یمن میں بھی اپنی وحشت ناکی دکھائی۔ بش جونیئر جب 2008ء میں رخصت ہوا تو اپنے پیچھے اجاڑ بیاباں بستیاں، زندہ درگور انسان اور ویرانوں میں سر پٹختی چیخیں چھوڑ گیا۔ افغانستان اور عراق صدیوں پیچھے چلے گئے۔ وہ بغداد جو الف لیلیٰ کی کہانیوں میں آرام و آسائش کا ایک سمبل تھا، جو مسلم کلچر کی ایک نادر مثال ہوا کرتا تھا، اب قدیم یونانی اور رومن کھنڈرات کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اوبامہ کے دور میں کئی عرب ملکوں میں عرب بہار نے جلوہ دکھایا۔ امریکا نے لیبیا کے علاوہ کسی مسلم ملک پر لشکر کشی نہ کی۔ مسلسل جنگوں کی وجہ سے اوبامہ کا دور امریکی اکانومی کے لیے تباہ کن رہا۔ امریکی دنیا بھر سے قرض اکٹھا کرتے رہے۔ امریکا نے جنگ و جدل میں شدید جانی و مالی نقصان اُٹھایا۔ اوبامہ نے کئی بار اپنی افواج کو واپس بلوانے کا عندیہ دیا اور پھر اپنی بات سے پھرگیا۔ اُس کی مثال فسادات پر لکھے جانے والے اردو افسانے کے لٹیرے کی سی ہے جو لوگوں کا مال و اسباب لوٹ لیتا ہے، اُنہیں مار دیتا ہے۔ واپس جاتے ہوئے پلٹ آتا ہے کہ شاید ابھی کچھ مال و دولت باقی ہو۔ اگر اوبامہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ آتا ہے تو ریپبلکن دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ بش سینئر اور جونیئر کے بعد اس آدمی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ یہ خوں آشام بلا پتا نہیں کس کس کا گھر اُجاڑے؟
اسلامی دنیا کا کھرب ہا ڈارلز سرمایہ امریکا کے پاس ہے یا یورپی بینکوں میں یورپ کو بے انتہا فائدہ دے رہا ہے۔ ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ ہم اس سرمائے سے کتنا فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ اس خطیر رقم سے اسلامی بلاک بنایا جاسکتا ہے۔ رعد الشمال کی طرز پر ایک مسلم فوج بنائی جاسکتی ہے۔ مسلمان ملکوں سے بھوک و قحط کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مسلم اُمہ کے کئی کہنہ امراض کا علاج ہوسکتا ہے۔ ہم یہود و نصاریٰ کے سب و شتم سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا کی طاقت فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کو حل کرواسکتی ہے۔ یہ بے مثال قوت اُن ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، کی پشت بان بن سکتی ہے۔ اگر سعودی عرب کے ساڑھے سات ارب ڈالرز اسلامی دنیا میں سرمایہ کاری پر صرف ہوں، اگر خلیجی ملکوں کی دولت امت کی فلاح کے لیے خرچ ہو تو آج ہم اس درجہ کمزور نہ ہوں۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم عربی شاعر ابوالعلا المعریٰ پر ایک نظم لکھی تھی۔ جس میں کہا تھا کہ ایک پرندے کی ناتوانی اُسے دسترخوان پر لوگوں کے کھانے کا سامان بنادیتی ہے اور قوموں کا جرمِ ضعیفی اُن کے ل
یے مرگ مفاجات بن جاتا ہے۔ کاش! صاحبِ ثروت مسلم دنیا کچھ غور و فکر کرے، اے کاش!