حکیم محمد سعید شہید پاکستان کی تاریخ کی ایک ہر دلعزیز، مقبول اور محبوب شخصیت تھے۔ ہمدرد وقف کے نام سے ان کا ادارہ دکھی انسانیت کی خدمت میں مشغول ہے۔ ان کے کارنامے بے شمار اور مداح بھی۔ انہوں نے اپنے ایک سفر نامے میں پاکستانی سیاست دانوں کی بے سودمحاذ آرائی کی ایک مثال دیتے ہوئے خود اپنے اوپر بیتا ہوا ایک واقعہ لکھا۔ حکیم صاحب جب بھی بیرونِ ملک دوروں پر جاتے تھے تو وہاں کتب خانے ضرور دیکھتے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دنیا میں مسلم علماء اور دانشوروں کے لکھے ہوئے 30 لاکھ قلمی نسخے موجود ہیں جنہیں آج تک طبع نہیں کیا گیا اور ان کی بڑی تعداد اب بھی یورپ کی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔
حکیم صاحب نے اس دوران کسی مسلم حکیم کی ایک کتاب کی نقل حاصل کی اور حکومت پاکستان کو تجویز دی کہ ان مسلم حکماء کی کتب کے تراجم کیے جائیں۔ ان کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے تاکہ دنیا تک ہماری علمی میراث پہنچے۔ چنانچہ اسلام آباد میں ایک ادارہ قائم کردیا گیا۔
حکیم صاحب نے خود بڑی محنت سے اس عربی کتاب کا انگلش میں ترجمہ کیا۔ کتاب کا مسودہ تیار تھا۔ طباعت کا مرحلہ شروع ہونے والا تھاکہ حکومت گرگئی۔ الیکشن ہوئے اور نئی حکومت آگئی جس نے وہ ادارہ سیل کرادیا۔ حکیم صاحب نے بڑی مشکل سے اجازت حاصل کی کہ انہیں کتاب کا مسودہ حاصل کرنے دیا جائے، وہ خود اسے طبع کرالیں گے۔ اجازت تودے دی گئی، مگر اس سے پہلے وہ مسودہ اور سارا علمی ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ سوائے فرنیچر کے وہاں کچھ باقی نہ تھا۔ یہ سب صرف اس لیے تھا کہ گزشتہ حکومت کی نیک نامی نہ ہو۔
یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں کسی کو کچھ کرنے نہیں دیا جاتا۔ سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے ہی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اس وقت ملک ایک بار پھر بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ کیا اُٹھا، ہمارے ملک سے امن و سکون اٹھ گیا۔ میاں نوازشریف عوامی مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔ اپوزیشن خصوصاً تحریکِ انصاف نے انتخابی نتائج کو شروع میں قبول کرلیا تھا، مگر کچھ عرصے بعد اس نے حکومت کے خلاف دھرنا مہم شروع کردی۔ نہ صرف اسلام آباد کے شہریوں کی جان عذاب میں آگئی، بلکہ پورا ملک سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا۔ اپوزیشن اپنے الزامات ثابت نہ کرسکی اور دھرنے سے قوم کونجات ملی۔ ایک مدت بعد ملک سیاسی بحران سے نکلا تھا۔ ہر وقت کے اضطراب سے کچھ جان چھوٹی تھی، مگر اب پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کا سرا پکڑ کر احتساب کے نام سے ایک اور طوفان برپا ہے۔
ہم کہتے ہیں احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ حکومتی منصب داروں سے لے کر اپوزیشن تک سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ ہم اس معاملے میں کسی کی صفائی دینا نہیں چاہتے۔ اس بات سے حکومت کو بھی انکار نہیں کہ ملک میں کرپشن ہے، مگر یہ بھی کسی سے مخفی نہیں کہ احتساب کا شور سیاسی مقاصد کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ جب ایک کام اخلاص اور بے لوثی سے خالی ہو تو اس کا نتیجہ الٹ ہی نکلتا ہے۔ اس وقت پاکستان مدتوں بعد کسی حد تک تعمیر و ترقی کی جانب گامزن ہوا ہے۔ اقتصادی راہ داری ملک کی خوشحال کی ضمانت ہے جس کے لیے چین کو پاکستان میں امن اور سیاسی استحکام چاہیے، مگر اس کی جگہ سیاسی بحران کھڑا کیا جارہا ہے۔
یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ پانامہ لیکس کے ذریعے بدنام کی جانے والی حکومتوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ ان سب سے کسی نہ کسی لحاظ سے امریکا کو پرخاش ہے۔ حکومت پاکستان سے امریکا کو یہ تشویش لاحق ہے کہ وہ اپنا جھکاؤ چین کی طرف کررہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں پاکستان امریکا کی دست نگر ی سے آزاد ہوجائے گا۔ امریکا پہلے ہی چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ سے پریشان ہے۔ پاکستان کے چین کے ساتھ یکجا ہوجانے سے امریکا کی گرفت ایشیا پر بہت کمزور ہوجائے گی۔ اس عالمی کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو شاید بے غرضی کے ساتھ حکمرانوں کا احتسا ب چاہتے ہوں گے،
مگر وقت کی رفتار کو بھی دیکھناچاہیے اور اپنی حرکتوں کے عالمی اثرات کو بھی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام و حکام، اپوزیشن اور حکومت باہمی اختلاف بھلاکر تعمیرِ وطن کی مہم میں لگ جائیں۔ میاں صاحب کی حکومت کے بمشکل دو سال باقی رہ گئے ہیں۔ اس وقت کو کسی نہ کسی طرح سکون سے گزرنے دیں۔ میاں صاحب کواپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنے دیں۔ اقتصادی راہداری نکلنے دیں۔ میاں صاحب سے کسی کو لاکھ اختلاف سہی، مگراس میں شک نہیں کہ وہ جمہوری نظام کے تحت 5 سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ آج اپوزیشن انہیںتنگ کرکے ان کی حکومت کاتختہ الٹنا چاہتی ہے توکل کسی اور کو بھی اقتدار ملنے کے بعد یہ اطمینان نہیں ہوسکے گا کہ کوئی اس کے خلاف اسی طرح کا بحران کھڑا نہیں کرے گا۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں۔ وہ سیاست دانوں کو کسی عملی خدمت میں لگا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جو بھی ان کے دُکھ درد کا ازالہ کرے گا اور ملک کو تعمیر و ترقی کی طر ف لے جانے میں پیش پیش ہوگا، اگلی حکومت خود بخود اسی کی ہوگی۔