بالآخر دھونس جیت گئی اور عدل و انصاف ہار گیا۔ قوت کے مراکز نے طاقت کے زور پر سابق آئین شکن فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے ملک سے فرار کرادیا۔ ایک بار پھر پوری قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ قانون صرف کمزوروں کے لیے ہے، طاقتور کا محاسبہ کرنے اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ہمارا نظامِ عدل مکمل طور پر بے بس اور لاچار ثابت ہوا۔ بقول شخصے ٹریفک سگنل توڑنے پر تو قانون حرکت میں آتا ہے، مگر آئین توڑنے پر نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ سماجی تفریق اس ملک مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ جو معاشرے کسی کی بھی حیثیت، طبقہ اور پس منظر کو خاطر میں لائے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوجائیں وہ اپنے زندہ رہنے کا استحقاق کھو بیٹھتے ہیں۔
سابق فراری آمر کی زندگی کئی اعتبار سے عبرتناک ہے۔ اپنے دورِ عروج میں زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کی ہوس نے تمام اہم عہدے اپنی ذات میں مرکوز کرنے کی راہ دکھلائی۔ پھر طاقت کے نشہ میں چُور ہوکر رعونت و تکبر کے لہجے میں اپنی قوم سے خطاب کی عادت اپنائی۔
موصوف کو مضحکہ خیز حد تک یہ پختہ یقین تھا کہ میں تاحیات اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہوں گا۔ اس دوران ’’یونیٹی آف کمانڈ‘‘ کے بظاہر خوشنما عنوان تلے تن تنہا ایک اکیلے اس قوم کے تمام فیصلے اپنی مرضی سے کرتے رہے۔ اپنی آمریت کو جمہوریت کی ظاہری خلعت پہنانے کا شوق ہوا تو ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک سرکاری پارٹی کی صورت گری کی گئی۔ دلوں کے سودے اور ضمیر کی بولیاں لگائیں گئیں۔ جن کا گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلا وہاں انگلیاں ٹیڑھی کی گئیں۔ جو برضا و رغبت ضمیر فروشی پر آمادہ نہ ہوئے ان کا ناطقہ بند اور گھیرا تنگ کیا گیا۔ اپنے ملک میں یہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی اس کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا رہا تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اپنے ناجائز اقتدار کو سند جواز دینے کے لیے اس کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی بہرصورت درکار ہے۔
اسے پتہ تھا کہ بین الاقوامی برادری کی نگاہوں کا تارہ اور ان کی امیدوں کا مرکز بننے کے لیے اپنے ہم وطنوں کا خون بہا کر ہی اپنی وفاداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے خون آشام لشکر لال مسجد اور بلوچستان پر چڑھ دوڑے۔ جو معاملات خون کا ایک قطرہ گرائے بغیر حل کیے جا سکتے تھے، وہاں بے دریغ خون کی ندیاں بہا کر ملک کو ایک طویل جنگ میں دھکیل دیا، مگر یہ سارے حربے اس کے اقتدار کو بقائے دوام نہ دے سکے۔ ہر گزرتا دن اس کی رعونت پر خاک ڈالتا رہا۔ انتہائی بادل ناخواستہ اس کو سپاہ وطن کی کمان چھوڑنی پڑی۔ جب تمام حربے ناکام اور سب تدبیریں الٹی ہوگئیں تو اس کو انتہائی مجبوری کے عالم میں بصد ذلت و رسواء قصر صدارت سے اپنا بوریا بسترا گول کرنا پڑا۔ جاتے جاتے مڈل مین سے یہ ضمانت دلوا دی کہ اس کے ملک چھوڑنے کے فیصلے میں کوئی مزاحم نہ ہوگا۔ اس نے اس ملک میں مزید نہ رہنے کا فیصلہ کیا اور دنیا بھر میں گھومتا رہا، مگر اقتدار کی ہوس تھی کہ کسی پل چین نہ لینے دے رہی تھی۔ دوبارہ برسراقتدار آنے کا شوق اس کو کسی شکار کی طرح گھیر گھار کر ملک واپس لے آیا۔ اس کے آتے ہی اس کے جرائم اور قانون شکنیوں کے مقدمات ازسرنو تازہ ہوگئے۔ ایوان عدل کی زنجیریں بج اٹھیں اور منصفوں کو انصاف کی دہائیاں دی جانے لگیں۔ منصف اعلیٰ نے انصاف کی عدالت سجانے کی ابھی نیت ہی کی تھی کہ طاقت کے مراکز میں گویا بھونچال آگیا۔ یہ اس ملک کی کبھی روایت ہی نہیں رہی تھی کہ پاسبانوں اور نگہبانوں کی برادری کے کسی فرد کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے محاسبہ کیا گیا ہو اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔ چنانچہ عدل گاہوں کے ساتھ کھلواڑ ہوا اور منصفوں کی دستاریں بیچ بازار اُچھالی گئیں۔ ظلم کے خلاف دادرسی کے مراکز خود مظلوم ہوئے اور ہتک عزت کے مقدمات سننے والے خود ذلیل کیے گئے۔ دستور و قانون پر سے اعتماد اٹھ کر دھونس اور طاقت پر مضبوط ہوا۔ بالآخر گزشتہ شب اس ساری شرمناک داستان کی آخری قسط رقم ہوئی۔ یقینا اب تاریخ کے یہ اوراق جب بھی پڑھے جائیں گے تو قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ہم وطنوں کی اپنے اس ’’تابناک قومی کردار‘‘ پر جبینیں عرق آلود اور نگاہیں شرمسار ہوں گی۔