خواتین کے اعتکاف کے متعلق بعض سوالات کا ایک وضاحتی جواب

خواتین کے اعتکاف کے متعلق بعض سوالات کا ایک وضاحتی جواب
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
خواتین کے اعتکاف کے متعلق بعض سوالات کا ایک وضاحتی جواب:
عورتوں کے اعتکاف کے متعلق وارد چند سوالات کا ایک وضاحتی جواب پیش خدمت ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور اسی طرح علماء احناف کی رائے ہے کہ خواتین مسجد میں اعتکاف کرتو سکتی ہیں اگر ان کے لئے معقول انتظامات موجود ہوں لیکن اُن کے لئے گھر کے اُس حصہ میں اعتکاف کرنا بہتر ہے جو نماز کے لئے مخصوص ہے کیونکہ وہی ان کے لئے مسجد کے حکم میں ہے اور نبی اکرم ﷺ نے متعدد مرتبہ خواتین کو گھر میں ہی نماز ادا کرنے کی تعلیم دی، نیز حضور اکرم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ عورت کی گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل وبہتر ہے۔ یعنی عورت کے لئے اس کے گھر کی وہ جگہ جو نماز کے لئے مخصوص ہے، مسجد کے حکم میں ہے، تبھی تو اس کے لئے مسجد سے بہتر گھر میں نماز ادا کرنا ہے۔۔۔ سب سے قبل اس مسئلہ کے زمینی حقائق ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری معلومات کے مطابق مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ پوری دنیا میں ایسی کوئی مسجد نہیں ہے جہاں خواتین کے اعتکاف کرنے کا انتظام کیا جاتا ہو۔ دیگر ممالک کو چھوڑیں، سعودی عرب جیسے پرامن ملک میں کوئی بھی ایک مسجد ایسی نہیں ہے جہاں خواتین کے اعتکاف کا انتظام کیا جاتا ہو۔ ہندوستان اور پاکستان کا تو حال ہی مت پوچھیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو حضرات خواتین کو گھر میں اعتکاف کرنے سے منع کرتے ہیں، ان کی نسلوں کی خواتین نے بھی کبھی مسجد میں اعتکاف نہیں کیا۔ لہٰذا اب صرف دو ہی راستے ہیں کہ خواتین اپنے گھر میں بیٹھ کر اعتکاف کریں جیسا کہ علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے۔ اگر بالفرض تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ سنت اعتکاف نہیں ہے، لیکن کتنا بڑا فائدہ ہوا کہ عورت نے تنہائی میں دس دن اللہ تعالیٰ کی خوب عبادت کرکے شب قدر کی عبادت حاصل کرلی۔ دوسری طرف عورت کے اعتکاف کے لئے مسجد کی شرط رکھنے والے اپنی خاتون کو اعتکاف کے لئے نہ مسجد میں بیٹھاتے ہیں اور نہ گھر پر، جس سے صرف اور صرف دینی نقصان ہی ہے۔
۸۰ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر علماء کرام نے فرمایا کہ عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد کے بجائے گھر کی وہ خاص جگہ جو عموماً نماز وغیرہ کے لئے مخصوص کرلی جاتی ہے زیادہ بہتر ہے۔ اس کے متعدد دلائل ہیں مگر اختصار کے مدنظر صرف صحیح بخاری کی ایک حدیث پیش خدمت ہے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ میں آپ کے لئے (مسجد میں) ایک خیمہ لگادیتی اور صبح کی نماز پڑھ کر آپ ﷺاس میں چلے جاتے۔ پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ نصب کرنے کی (اپنے اعتکاف کے لئے) اجازت چاہی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ نصب کرلیا۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (اپنے لئے) ایک اور خیمہ نصب کرلیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کئی خیمے دیکھے ۔ دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ چنانچہ آپﷺکو (حقیقت حال کی ) اطلاع دی گئی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اسے وہ اپنے لئے نیک عمل سمجھ بیٹھی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اس مہینہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا۔ (صحیح بخاری ۔ باب اعتکاف النساء ، حدیث نمبر ۱۸۹۶) صحیح بخاری۔ باب الاخبیہ فی المسجد حدیث نمبر ۱۸۹۷ میں بھی تقریباً یہی بات مذکور ہے۔ غرضیکہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امہات المومنین کے مسجد میں اعتکاف کرنے پر حضور اکرم ﷺ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اسے وہ اپنے لئے نیک عمل سمجھ بیٹھی ہیں۔۔۔ اس حدیث کا بعض حضرات یہ کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات میں ریا، شہرت اور دکھاوے کا پہلو آگیا تھا، اس لئے آپﷺنے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح بعض حضرات یہ کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کا عنصر پیدا ہوگیا تھا اس لئے آپ ﷺنے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں کسی شخص کے دماغ کا اختراع تو ہو سکتی ہیں لیکن قرآن وحدیث سے ان کی کوئی تایید نہیں ملتی۔ اگر بات ایسی ہی ہوتی تو آپ ﷺان کی اصلاح فرمادیتے، لیکن بات دراصل یہ تھی کہ آپ ﷺنہیں چاہتے تھے کہ خواتین اس طرح مسجد میں اعتکاف کریں، اسی لئے آپ ﷺنے اپنا خیمہ اکھاڑ دیا، جس کے بعد تمام ازواج مطہرات نے اپنے اپنے خیمہ اکھاڑدئے۔ اگر پہلی دو باتوں کی وجہ سے ایسا ہواہوتا تو ان غلطیوں کی اصلاح ازواج مطہرات کے مسجد میں اعتکاف میں رہتے ہوئے ہوسکتی تھی لیکن حضور اکرم ﷺنے اپنا خیمہ اکھاڑ دیا اور اس کے بعد ازواج مطہرات نے بھی مسجد نبوی سے اپنے اپنے خیمہ اکھاڑ دئے۔ اصل میں مطلوب یہی تھا کہ ازواج مطہرات مسجد میں اعتکاف نہ کریں کیونکہ ازواج مطہرات کا مسجد میں اعتکاف کرنا حضور اکرم ﷺ کو پسند نہیں آیا۔
اب آئیے اعتکاف کے سلسلہ میں جو قرآن کریم کی آیت پیش کی جاتی ہے، اس کا ترجمہ پڑھیں تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں، اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے۔ پھر اس نے تم پر عنایت کی اور تمہاری غلطی معاف کردی۔ چنانچہ اب تم ان سے صحبت کرلیا کرو، اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو۔ اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکر تم پر واضح (نہ) ہوجائے۔ اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو۔ اور ان (اپنی بیویوں) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے ہو۔یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حددو ہیں، لہٰذا ان (کی خلاف ورزی) کے قریب بھی مت جاؤ۔ سورۃ البقرہ ۱۸۷
ابتداء اسلام میں حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص روزہ افطار کرنے کے بعد ذرا سا بھی سوجائے تو اس کے بعد اس کے لئے رات میں کھانا اور صحبت کرنا ناجائز ہوجاتا۔ بعض حضرات سے اس کی خلاف ورزی سرزد ہوئی اور انہوں نے رات کے وقت اپنی بیوی سے صحبت کرلی۔ یہ آیت اسی خلاف ورزی کی طرف اشارہ کررہی ہے اور ساتھ ہی جن حضرات سے یہ غلطی ہوئی تھی ان کی معافی کا اعلان کرکے آئندہ کے لئے یہ پابندی اٹھائی جارہی ہے کہ اب رات میں جب چاہو اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرسکتے ہو، البتہ اگر تم نے مسجد میں اعتکاف کرلیا ہے تو پھر رات میں بھی صحبت کرنا ناجائز ہوگا۔۔۔ اس آیت میں صرف یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رمضان کی رات میں صحبت کرنا جائز ہے لیکن اعتکاف کرنے والوں کے لئے رات میں بھی صحبت کرنا ناجائز ہے۔ اس آیت میں اس نوعیت کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ خواتین مسجد کے علاوہ اپنے گھر میں اعتکاف نہیں کرسکتی ہیں۔ نیز احادیث میں یہ تو مذکور ہے کہ ازواج مطہرات آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اعتکاف کیا کرتی تھیں لیکن ایسی کوئی وضاحت احادیث صحیحہ میں نہیں ہے کہ وہ ازواج مطہرات مسجد نبوی میں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ نیز حضور اکرم ﷺ کے متعدد اقوال کے پیش نظر پوری امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ عورتوں کی گھر کی نماز مسجد حتی کہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی نماز سے افضل وبہتر ہے۔ جب نماز کے لئے ان کا گھر ان کی مسجد ہے تو اعتکاف کے لئے ان کا گھر ان کی مسجد کیوں نہیں؟ جو حضرات گھروں میں عورتوں کے اعتکاف کرنے کو منع کرتے ہیں ، اُن سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ گھروں میں اعتکاف کرنے والی عورتوں کو اعتکاف کرنے سے نہ روکو، بلکہ اپنی ماؤں اور بہنوں کو عام مسجدوں میں اعتکاف کراؤ اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے سچائی کے ساتھ امت کے سامنے بیان کردو۔ پوری دنیا کا مشاہدہ ہے کہ جو حضرات عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد کو لازم قرار دیتے ہیں اُن کی مساجد میں عورتیں تو درکنار مرد حضرات بھی عموماً اعتکاف نہیں کرتے، گویا صلاحیتیں غلط جگہ پر لگنے کی وجہ سے مقصود ومطلوب ہی فوت ہوگیا۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی