نسیم ہدایت کے جھونکے

نسیم ہدایت کے جھونکے 

احمد اوّاہ ندوی

جلد چہارم

ماہنامہ ارمغان، پھلت سے ماخوذ

فہرست

محمد اکبر {مہیش چندر شرما} سے  ایک ملاقات… 4

ایک نومسلم بھائی عبدالرشید دوستم {سنیت کمار سوریہ ونشی} سے  مفید ملاقات… 10

محمد اکرم {وکرم سنگھ} سے  ایک دلچسپ ملاقات… 15

جناب شیخ محمد عثمان {ستیش چندر گوئل} سے  ایک ملاقات… 21

بھائی علاء الدین {راجیشور} سے  ایک ملاقات… 28

جناب محمد اکبر {جتیندر کمار} سے  ایک ملاقات… 34

جناب سیٹھ محمد عمر {رام جی لال گپتا} سے  ایک ملاقات… 41

جناب عبداللہ صاحب {گنگا رام چوپڑا جی} سے  ایک ملاقات… 47

جناب محمد لیاقت صاحب {چوبل سنگ} سے  ایک ملاقات… 56

ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب {کمل سکسینہ} سے  ملاقات… 63

جناب محمد انس صاحب {ورن کمار چکرورتی} سے  ایک ملاقات… 70

جناب ڈاکٹر قاسم صاحب {پرمودکیسوانی} سے  ایک ملاقات… 77

جناب محسن صاحب {رمیش سین} سے  ایک ملاقات… 85

ایک خوش قسمت نو مسلم داعی و عالم دین مولانا محمد عثمان صاحب قاسمی {سنیل کمار} سے  ایک ملاقات… 92

جناب بلال صاحب {ہیرا لعل }سے  ایک ملاقات… 97

چودھری آر  کے  عادل صاحب{ رام کرشن لاکڑا} سے  ایک ملاقات… 102

جناب ماسٹر محمد اسلم صاحب {پرمود کمار} سے  ایک ملاقات… 111

جناب عبدالرحمن صاحب {رگھوبیر سنگھ} سے  ایک ملاقات… 117

جناب محمد صادق ایڈوکیٹ{ستیندر ملک} سے  ایک ملاقات… 124

جناب قاضی محمد شریح صاحب {سمیر} سے  ایک ملاقات… 133

جناب محمد عمر صاحب { آدیش} سے  ایک ملاقات… 138

ڈاکٹر محمد اسعدصاحب {راجکمار} سے  ایک ملاقات… 143

جناب محمد حسن صاحب {رویندر ملک} سے  ایک ملاقات… 150

جناب اقبال احمد سے  ایک ملاقات… 157

ایک نو مسلم بھائی عبید اللہ {ونود کمار گوئل} سے ایک ملاقات… 162

محمد اقبال ایڈوکیٹ {راجندر ملک }سے  ایک ملاقات… 170

بھائی محمد رئیس {رمیش کمار} سے  ایک ملاقات… 177

سلمان صدیقی  {ارون کمار} سے  ایک ملاقات… 184

محمد اکبر {مہیش چندر شرما} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکبر     :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : آپ سے  ارمغان کے  قارئین اور عام مسلمانوں کے  فائدے  کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب   : ضرور کیجئے۔

  سوال  :  آپ اپنا تعارف کرایئے ؟

 جواب  : میرا نام اب الحمد للہ محمد اکبر ہے  میں ضلع کرنال کے  ایک قصبہ کا رہنے  والا ہوں (تھوڑے  توقف کے  بعد ) اب سے  نو سال تین ماہ آٹھ روز ۳ گھنٹہ قبل اللہ تعالی نے  مجھے  اسلام کی دولت سے  نوازا۔ میرا پہلا نام مہیش چندر شرما تھا میں ایک برہمن خاندان سے  تعلق رکھتا ہوں میرے  والد پنڈت سندر لال شرما جی علاقے  کے  مشہور پنڈت تھے، پتریاں بنانا، ہون کرنا اور دوسری دھارمک رسمیں کرنا ان کا کام تھا۔ میرے  اسلام لانے  سے  ایک سال پہلے  ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میری ایک والدہ اور ایک بہن ہیں جو اب الحمدللہ میرے  ساتھ مسلمان ہیں بہن کا نام فاطمہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے  ہم سبھی لوگ اللہ کا شکر ہے  خوش و خرم دہلی میں رہ رہے  ہیں۔

  سوال  :  آپ کی عمر اب کتنی ہے ؟

 جواب  : میری حقیقی عمر نو سال آٹھ دن تین گھنٹے  اور اس وقت ۱۵ منٹ ہے  مگر میں اس دنیا میں اپنے  والدین کے  یہاں تقریباً چھبیس سال پہلے  ۷ جولائی ۱۹۷۷ء کو آ گیا تھا۔

  سوال  :  آپ اپنے  اسلام لانے  کا حال بتایئے۔

 جواب   : میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو مجھے  اپنے  پتاجی (والد صاحب ) کا سب پیشہ ڈھونگ لگتا تھا انہوں نے  گھر کے  باہر ایک چھوٹا سا مندر بنایا ہوا تھا، میں اکثر جب بھی کوئی بات کھٹکتی تو ان سے  کہتا، وہ مجھے  سمجھاتے، بیٹا پیٹ تو پالنا ہی ہے  ورنہ ان اندھ وشواسیوں میں کیا رکھا ہے  ان کے  کہنے  سے  مجھے  اور بھی دھرم پر اعتماد کم ہوتا گیا، میں صبح سویرے  اٹھنے  کا عادی تھا گھر کے  رواج کے  مطابق صبح سویرے  نہا کر پوجا کے  لئے  اپنے  مندر جاتا تھا، میں دسویں کلاس میں پڑھتا تھا، میرے  امتحان شروع ہوئے، امتحان کے  دن میں اور بھی جلدی اٹھا اشنان کیا اس خیال سے  کہ بت مہاراج سے  امتحان میں فرسٹ ڈویزن آنے  کی پرارتھنا کروں گا، صبح سویرے  مندر پہنچا، میں نے  دیکھا کہ ایک کتا وہاں موجود ہے، جو چڑھے  پرساد کو کھا کر بچی کچی مٹھائی چاٹ رہا ہے  وہ بت کے  منھ پر مٹھائی کے  اثر کو چاٹ رہا تھا۔

            میں رک گیا کہ دیکھوں یہ کتا کیا کرتا ہے، اب تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے  اللہ نے  حقیقت دکھانے  کے  لئے  میرے  دل میں ڈالا کہ میں تماشا دیکھوں، میں یہ سوچنے  لگا کہ یہ بت اپنے  منہ سے  کتے  کو بھی نہیں ہٹا سکتا، مگر میری خاندانی آستھا نے  مجھے  سمجھایا، بے  وقوف یہ دیکھ کتا بھی آستھا اور عقیدت سے  کرپا ( رحم ) کی امید میں بت کے  بوسے  لے  رہا ہے  اور ان کا مکھ دھو رہا ہے  مگر تھوڑی دیر بعد میری ساری آستھا کی عمارت زمین پر آ گری، کتے  نے  ساری مٹھائی چاٹ کر ٹانگ اٹھا کر پیشاب کی دھار جو بت پر لگائی تو وہ ڈاڑھی سے  اٹھ کر منہ تک پہونچی میں پوجا کے  بغیر ہی واپس آیا اور میں نے  آنکھیں بند کر کے  اکیلے  سچے  مالک کو یاد کیا میرے  مالک یہ بت جب کتے  کو اپنے  اوپر پیشاب کرنے  سے  نہیں روک سکتے  ہیں تو مجھے  امتحان میں کیسے  پاس کراسکتے  ہیں بس آپ مجھ پر کرم کیجئے  اس کے  بعد مندر جانا میں نے  بند کر دیا اور روزانہ صبح آنکھ بند کر کے  اپنے  مالک سے  دعا کرتا، میرے  پیپر اچھے  ہوتے  رہے، امتحان ختم ہوئے، ایک ایک دن رزلٹ کا انتظار رہا رزلٹ آیا میں نے  دس روپئے  اخبار والے  کو دے کر رزلٹ دیکھا تو میری فرسٹ ڈویزن تھی، میں نے  مالک کا بہت شکر ادا کیا، میں گیارہویں کلاس میں تھا کہ میرے  والد بیمار ہوئے  ان کے  پیٹ میں درد ہوا میری ماں نے  مجھے  بہت مجبور کیا میں مندر جاؤں، جا کر والد صاحب کی صحت کے  لئے  پرارتھنا کروں میں نے  منع کیا تو انھوں نے  مجھے  ڈرایا کہ بت ناراض ہو جائیں گے، میں چلا گیا میں نے  جا کر پرارتھنا کی، ما تھا شیوجی کے  چرنوں میں رکھ کر گھنٹوں میں وہاں پر گڑگڑایا، مجھے  اپنے  پتاجی سے  بہت پریم ہے، آپ ان کو اچھا کر دیجئے  ایک گھنٹہ میں وہاں گڑ گڑا تا رہا، واپس آیا تو مجھے  خیال تھا کہ وہ اچھے  ہو گئے  ہوں گے، گھر آ کر دیکھا ان کی موت ہو چکی تھی میں بہت پچھتایا کہ کاش میں اپنے  مالک سے  فریاد کرتا میری عقل کو کیا ہو گیا تھا، بت اپنے  منہ سے  کتے  کو نہ ہٹا سکیں وہ میرے  والد صاحب کو کیا صحت دے  سکتے  تھے۔

            اس کے  بعد اپنے  دھرم سے  میرا اعتماد اٹھ گیا اور میں کسی راستے  کی تلاش کرنے  لگا، میں چرچ میں گیا مگر وہاں بھی میں نے  یسوع کی مورتیاں دیکھیں مجھے  میرے  ایک ایمانی ساتھی نے  بتایا کہ یہاں مدرسہ مسجد میں ان کے  ایک دھرم گرو حضرت مولانا کلیم صاحب آتے  رہتے  ہیں اور وہ کل صبح کو دس بجے  آنے  والے  ہیں میں صبح آٹھ بجے  پہنچ گیا دس بج گئے  وہ نہیں آئے  وہ گیارہ بجے  پہنچے  مسجد میں آس پاس کے  سب مسلمان جمع تھے، مولانا صاحب سیدھے  مسجد میں پہنچے  اور راستہ میں گاڑی کے  خراب ہونے  کی وجہ سے  دیر سے  آنے  کی سب سے  معافی مانگی، میں ان کی اس بات سے  بہت متاثر ہوا، اس کے  بعد انہوں نے  تقریر کی انھوں نے  اس موضوع پر تقریر کی کہ انسان پر کوئی ایک احسان کر دیتا تو ساری زندگی اس کے  گن گا تا ہے  اور اسے  ناراض کرنا نہیں چاہتا ہمارے  خدا کے  ہم پر بے  شمار احسانات ہیں، انسان کو اس کے  راضی رکھنے  کی فکر کرنی چاہئے، تقریر کے  بعد چائے  کے  لئے  اوپر مدرسہ میں گئے، میں نے  مولانا سے  ملاقات کی میرے  والد صاحب کے  انتقال کی وجہ سے  مولانا نے  مجھے  گلے  لگا لیا، پاس میں بٹھا یا چائے  پلائی چائے  کے  بعد انھوں نے  مجھے  بتایا کہ آپ کے  سچے  مالک کو آپ پر خاص پیار آیا اور وہ آپ کو سچا راستہ دکھانا چاہتے  ہیں شاید اسی لئے  یہ حالات آپ پر آ رہے  ہیں پھر اسلام کے  بارے  میں مجھ کو بتایا اور اپنی ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی اور یہ بھی کہا کہ بہت جلد آپ کو فیصلہ کرنا چاہئے، اس لئے  کہ جس طرح آپ کے  والد کا انتقال ہوا اسی طرح ہمارا آپ کا بھی ہونا ہے  اور موت کے  بعد کوئی موقع نہیں۔

          جو سانس اندر گیا باہر آنے  کا اطمینان نہیں اور جو باہر گیا اس کے  اندر آنے  کا بھروسہ نہیں، انھوں نے  کہا میری تو درخواست ہے  کہ آپ فوراً کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہو جائیں میں نے  کہا یہ کتاب پڑھ لوں، انھوں نے  اجازت دے دی، میں باہر آ کر کتاب پڑھنے  لگا ۳۲ صفحوں کی کتاب تھوڑی دیر میں پڑھ لی، میرے  سارے  پردے  ہٹ چکے  تھے۔

            ۹ مئی۱۹۹۴ء ساڑھے  بارہ بجے  میں نے  کلمہ پڑھا اور مولانا صاحب نے  میرا نام محمد اکبر رکھ دیا اور مجھے  تاکید کی کہ ابھی وہ اپنے  مسلمان ہونے  کو راز میں رکھیں، آپ یہاں کے  امام صاحب کے  پاس آ کر نماز سیکھیں اور چپکے  چپکے  نماز پڑھنا شروع کر دیں، انھوں نے  کہا کہ آپ سے  ایمان چھنے  گا نہیں اور حق کبھی چھنتا بھی نہیں، مگر ابھی ماحول بھی اچھا نہیں، آپ کے  لوگ دشمن ہو جائیں گے۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا حالات آئے  اور آپ کی بہن اور ماں کس طرح مسلمان ہوئیں۔

 جواب  : میں اپنے  اسلام کو چھپا کر لٹریچر پڑھتا رہا نماز یاد کر لی مجھے  اپنے  والد کے  ایمان کے  بغیر مرنے  کا بہت افسوس تھا میرے  خیال میں وہ بہت پیارے  آدمی تھے، مجھے  یہ احساس ہوتا رہتا کہ اگر یہ مسلمان مجھے  پہلے  اسلام کے  بارے  میں بتاتے  اور میں والد صاحب کی زندگی میں مسلمان ہو گیا ہوتا تو میں ان کے  پاؤں پڑ کر کسی طرح ضرور ان کو اسلام کے  لئے  تیار کر لیتا مجھے  یہ خیال ہوا کہ کہیں میری بہن اور میری ماں بھی کسی روز اسی طرح بے  ایمان کے  اس  دنیا سے  نہ چلی جائیں، میں نے  ایک دوکان پر نوکری کر لی جس روز تنخواہ ملی میں اپنی ماں اور بہن کے  لئے  کپڑا لایا مٹھائی لایا وہ بہت خوش ہوئیں  میں نے  موقع سے  فائدہ اٹھا کر اپنے  مسلمان ہونے  کی خبر ان کو دی ان سے  مسلمان ہونے  کو کہا میں رو رو کر ان سے  درخواست کرتا رہا میری ماں اور میری بہن بہت ناراض ہوئیں کپڑا میرے  منہ پر پھینک مارا مٹھائی کا ڈبہ بھی باہر پھینک دیا اور بہت روئیں کہ تو ادھرم ہو گیا، تو نے  برہمن ہونے  کی لاج بھی نہ رکھی اب وہ مجھے  پھر دوبارہ ہندو بننے  کی ضد کرنے  لگیں جب میں راضی نہ ہوا تو انھوں نے  مجھ سے  بولنا چھوڑ دیا تقریباً وہ مجھ سے  چھ مہینے  بولی نہیں، میری کمائی سے  کھانا چھوڑ دیا اور مجھ سے  گھر سے  نکلنے  کو کہا میں نے  ایک کوٹھری کرایہ پرلی اور وہاں پر رہنے  لگا اللہ تعالی سے  اپنی ماں اور بہن کی ہدایت کی دعا کرتا رہا اور دوسرے  لوگوں سے  اسلام کو چھپائے  رکھا، میں جس کوٹھری میں رہتا تھا، اس کے  پاس ایک مندر تھا میں دیکھتا روزانہ لوگ صبح و شام وہاں اپنا سر جھکاتے، مجھے  دکھ بھی ہوتا اور غصہ بھی آتا ایک روز مجھ سے  رہا نہ گیا میں نے  ایک ہتھوڑا لے  کر صبح سویرے  بت کا سر پھوڑ دیا اور گردن تک اڑا دیا اور خیال کیا کہ جب میں حق پر ہوں تو کب تک گھٹتا رہوں گا، یہ لوگ شرک کو کھلے  عام کریں اور اپنے  مالک کی دنیا میں رہ کر ہم اپنے  حق کو چھپائیں ایسی زندگی سے  مرنا اچھا ہے  اور اسی جذبہ میں میں نے  لال رنگ سے  کٹے  ہوئے  بت کے  سینے  پر اپنا نام ’’ محمد اکبر سپوتر پنڈت سندر لال شرما ( مہیش چندر شرما)  لکھ دیا دن نکلنے  تک شہر میں ہا ہا کار مچ گئی کہ یہ محمد اکبر کون ہے ؟ لوگ میری ماں کے  گھر چڑھ آئے  میری ماں نے  کہہ دیا کہ ہم نے  بہت دنوں سے  اسے  گھر سے  نکال دیا ہے  لوگ مجھے  تلاش کر رہے  تھے  تھانہ کے  سامنے  مجھے  کچھ لوگوں نے  پکڑ لیا، تھانہ میں لے  گئے  پولیس نے  مجھے  بہت مارا، مگر میں حق پر مرنے  کے  لئے  تیار تھا میرے  اللہ نے  اب مار سے  میرا ایمان اور پکا کر دیا اور جوش بڑھ گیا میری ماں کو کسی نے  بتایا کہ تیرے  بیٹے  کو تھانے  میں مار لگ رہی ہے  ان کا ممتا بھرا دل پگھل گیا وہ اور میری بہن تھانے  آئیں پولیس والے  مجھے  ڈنڈوں سے  مار رہے  تھے  میری ماں ان پر لپٹ گئی کہ مسلمان ہونے  پر مارتے  ہو ہم بھی مسلمان ہوتے  ہیں میری خوشی کی انتہا نہ رہی میں نے  پٹتے  پٹتے  ماں سے  کلمہ پڑھنے  کو کہا انھوں نے  اور بہن نے  کلمہ پڑھا یہ منظر دیکھ کر پولیس والے  رکے  !

             میرے  اللہ نے  ایک اور کرشمہ دکھایا علاقہ کے  بی جے  پی ایم ایل اے  مہتا کو شہر کا حال پتہ لگا کہ ایک ادھرم نے  بت کے  ساتھ یہ سلوک کیا اور اب پکڑا گیا، تھانے  میں مار کھا رہا ہے، وہ تھانے  میں آئے  انھوں نے  کوتوال کو دھکا دیا کہ اچھا نہ ہو گا اگر اب اسکو مارا اسکا وشواس اور استھا ہے، بھارت میں ہر کوئی آزاد ہے  جو دھرم چاہے  مانے  اور مجھ سے  کہا کہ بیٹا تمہیں جو دھرم ماننا ہو مانو مگر دوسرے  دھرم والوں کو ٹھیس نہ پہنچاؤ، کہا تمہارا اسلام یہ نہیں بتاتا اور مجھے  چھڑا کر لے  آئے  مجھے  ماں اور بہن کے  مسلمان ہونے  کی اتنی خوشی تھی کہ ایسی سو مار کھانے  کے  بعد بھی مسلمان ہوتی تو مجھے  منظور تھا، میں ماں سے  گلے  مل مل کر خوشی سے  رو رہا تھا میں نے  ماں کا نام حافظ صاحب سے  معلوم کر کے  آمنہ اور بہن کا نام فاطمہ رکھا۔

  سوال  :  اس کے  بعد آپ دہلی کیوں چلے  گئے ؟

 جواب   :شہر کا ماحول میری وجہ سے  گرم ہو گیا شہر میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور ہے   ۱۹۴۷ء کے  بعد تو پورا ہریانہ اجڑ گیا یہاں بھی مسلمان لوگ ہندوؤں کی طرح رہتے  تھے، نام بھی ہندوؤں جیسے  ہماری مسجد کی کمیٹی کے  ایک ذمہ دار شخص ہیں جن کا نام دھرما ہے  ایک انوپ سنگھ ہیں۔

            سبھی نے  مجھے  مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہئے  سونی پت گیا، حضرت مولانا کلیم صاحب نے  بھی مشورہ دیا کہ آپ کو یہاں نہیں رہنا چاہئے، مگر میں کسی کے  رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہتا تھا، سوال میں کبھی اپنے  پتاجی سے  بھی نہیں کرتا تھا ان سے  اپنے  دل کی بات کہی انھوں نے  ایک اسکول میں ہندی پڑھانے  کے  لئے  مجھے  فرید آباد بھیج دیا میں نے  اپنے  دل میں عہد کر لیا تھا کہ میں سارے  بت اور خداؤں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لایا ہوں میں سوال بھی اس کے  علاوہ کسی سے  نہیں کروں گا میرے  اللہ نے  میرا امتحان بھی بار بار لیا اور پھر مجھے  سمجھ داری دی، استقامت سے  نوازا اور مجھے  پار اتارا، میں اپنی ماں اور بہن کو دہلی لے  آیا اپنا مکان بیچ کر دہلی میں چھوٹا سا مکان خرید لیا اور وہاں پیسے  بھی اللہ نے  تھوڑے  تھوڑے  سے  ادا کر دئے، ہر موڑ پر میرے  اللہ نے  میری مدد کی۔

  سوال  :  کوئی خاص واقعہ بتایئے، ؟

 جواب   : ایک بار میں نے  ایک دوکان پر نوکری کی، پہلے  مہینے  کی تنخواہ ملی تو مکان کے  ۲۵۰۰ روپئے  کی ایک قسط باقی تھی، اس نے  تقاضہ کیا شرم کی وجہ سے  میں پوری تنخواہ اس کو دے دی، گھر میں ماں سامان کا انتظار کر رہی تھی، کئی روز تک ان کو کل پر ٹالتا رہا، ایک روز گھر میں کھانا نہیں بنا، میں نے  مغرب کی نماز پڑھ کر دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھی، میرے  اللہ آپ کے  علاوہ میں کسی سے  سوال نہیں کر سکتا میں مسجد سے  نکلا جوتوں کے  سامنے  ایک نوٹ پانچ سو روپئے  کا پڑا ملا، میں بہت خوش ہوا، جلدی سے  نوٹ اٹھایا اور خیال کیا کہ میری دعا قبول ہوئی، نوٹ جیب میں رکھا، دوکان کی طرف گیا تاکہ کچھ آٹا وغیرہ خریدوں، پھر مجھے  خیال ہوا کہ یہ نوٹ تو کسی کا گرا ہو گا نہ جانے  یہ میرے  لئے  حلال بھی ہے  یا نہیں میں دوکان کے  بجائے  مولانا صاحب کے  پاس گیا، مولانا صاحب کو اپنا حال بتائے  بغیر نوٹ ملنے  کا واقعہ بتایا، امام صاحب نے  مسئلہ بتایا کہ اس نوٹ کا اعلان مسجد میں کرنا چاہئے  آپ کے  لئے  یہ نوٹ لینا جائز نہیں ہے !

            میں نے  نوٹ امام صاحب کے  حوالہ کیا اور گھر واپس آیا، دل میں خوشی بھی تھی کہ اللہ کے  حکم کو ماننے  کی توفیق ہوئی اور دل بھی دکھا کہ ماں انتظار میں ہے۔

            رات کے  گیارہ بجے  کسی نے  دروازہ کھٹکھٹا یا میں نے  دروازہ کھولا محلہ کے  ایک صاحب ایک حاجی صاحب کو لے کر آئے  تھے  انھوں نے  کہا یہ مغربی دہلی سے  آئے  ہوئے  تھے  مغرب کے  وقت سے  مختلف محلوں میں آپ کو تلاش کر رہے  ہیں، میں نے  ملاقات کی انھوں نے  بتایا کہ میرا کڑھائی کا کارخانہ ہے  میرا بیٹا اس کو چلاتا تھا اس نے  شارجہ میں کمپیوٹرائزڈ مشین لگا لی ہے، اب اس کارخانے  کو دیکھنے  والا کوئی نہیں، علاقہ کے  ایک صاحب نے  بتایا کہ آپ نے  کارخانہ میں منیجر کی حیثیت سے  کام کیا ہے  میں آپ کو منیجر رکھنا چاہتا ہوں، چھ مہینے  ۵۰۰۰ روپیے  ماہانہ دوں گا اس کے  بعد تنخواہ بڑھا دی جائے  گی، ہمارے  علاقے  کے  لوگ آپ کی بہت تعریف کرتے  ہیں، اور جیب سے  پانچ ہزار کی ایک گڈی نکال کر دی یہ ایڈ وانس تنخواہ اور ہر ماہ پہلی تاریخ کو ایڈوانس مل جایا کرے  گی میں نے  اس کو اللہ کی طرف سے  تحفہ سمجھا معاملہ طئے  ہو گیا رات کو ہوٹل سے  کھانا لایا، ماں اور بہن کے  ساتھ خوشی خوشی کھایا، دو رکعت شکرانہ نماز پڑھی میرے  اللہ نے  پانچ سو روپئے  ناجائز سے  بچایا اور اتنی ہمت دی اور ۵۰۰ روپئے  کی بجائے  ۵۰۰۰ ہزار عطا کئے، بارہا میرے  سامنے  اس طرح کے  واقعات پیش آئے۔

  سوال  :  آپ دعوت کا کام کرتے  ہیں، ؟

 جواب  :  الحمدللہ حضرت مولانا کلیم صاحب کی رہنمائی میں میں زندگی کا مقصد دعوت کو سمجھتا ہوں میرے  اللہ نے  دہلی اور ہریانہ میں پچاسوں لوگوں کی ہدایت کا اس گندے  کو ذریعہ بنایا اس کے  علاوہ مقامی کام کی تبلیغی ترتیب سے  جڑا ہوں اور سالانہ چلہ پابندی سے  لگاتا ہوں۔

  سوال  :  آپ ارمغان کے  واسطہ سے  مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہتے  ہیں، ؟

 جواب  :  میں کیا میری حیثیت کیا، دل چاہتا ہے  کہ ہمارے  مسلمان بھائی مجھ جیسے  شکستہ دلوں پر ترس کھائیں، کتنے  لوگ صرف راہ نہ معلوم ہونے  کی وجہ سے  دوزخ کی آگ کی طرف جا رہے  ہیں، ان کی فکر کریں، دوسری ایک ضروری بات نو مسلموں کے  بارے  میں عرض ہے  کہ ان کی زیست کی فکر کریں اور ان کو اپنا محتاج بنانے  کے  بجائے  ان کو اپنے  پاؤں پر کھڑا کرنے  کی فکر کریں اور ان میں خود داری اور استغنا پیدا کرنے  کی فکر کریں سارے  خداؤں سے  بچ کر جو ایک مالک پر ایمان لایا ہے، اس کو سوال کسی سے  کرنا کیسے  روا ہو سکتا ہے ؟ عموماً لوگ اس کی مدد کر کے  صدقہ دے  کر ان کی عادت بگاڑ تے  ہیں اس سے  ضمیر مر جاتا ہے  خود تو ان کے  ساتھ تعاون کرنا اپنا فرض سمجھیں مگر اس کو ہر گز یہ خیال نہ کرنا چاہئے  کہ میرا کھانا شادی اور گزارہ ان سب کا نظم مسلمانوں کے  ذمہ ہے، میرے  لحاظ سے  یہ ان کے  لئے  زہر قاتل ہے۔

  سوال  :  بہت بہت شکریہ، جزاکم اللہ آپ نے  بڑے  کام کی اور مفید باتیں بتائیں۔

       السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 جواب   :   میں نے  تو حقیقت حال بیان کی، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

                                                مستفاد از ماہنامہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۳ء

٭٭٭

   ایک نومسلم بھائی عبدالرشید دوستم {سنیت کمار سوریہ ونشی} سے  مفید ملاقات

احمد اواہ    :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبدالرشید  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : آپ کی تعریف؟

 جواب  : میرا نام عبدالرشید دوستم ہے  اور میں الحمدللہ ایک مسلمان ہوں، میں اب سے  چھ سال قبل مسلمان ہوا تھا، میرا پرانا نام سنیت کمار سوریہ ونشی تھا، میں ہری دوار کے  قریب ایک گاؤں کے  ہندو مذہبی گھرانہ میں پیدا ہوا، میں نے  سائنس بایو سائڈ سے  گریجویشن کیا ہے۔

  سوال  :آپ کا نام عبدالرشید دوستم کس نے  رکھا؟

 جواب   : اصل میں میرا نام مولانا محمد اسلم کاظمی نے  عبدالرشید رکھا تھا، مگر میں کچہری میں سرٹیفکٹ بنوانے  گیا تو اس زمانہ میں افغانستان کے  عبدالرشید دوستم کا پوری دنیا میں تذکرہ تھا، وکیل نے  مجھ سے  نام پوچھا، میں نے  عبدالرشید بتایا، اس نے  کہا عبدالرشید دوستم تو میں نے  بھی عبدالرشید دوستم ہی کہہ دیا کہ دوستی تو اچھی ہی چیز ہے۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کا واقعہ بتایئے ؟

 جوا ب  : میں گروکل میں تعلیم حاصل کرتا تھا، گروکل بہت مذہبی ہندوؤں کے  ادارے  ہوتے  ہیں میں کھیلنے  اور پڑھنے  میں ہوشیار تھا، اسکول کے  ہر فنکشن میں حصہ لیتا تھا اور پوزیشن لاتا تھا، میں بہت اچھا بریک ڈانس کرتا تھا، بریک ڈانس کے  لئے  جوڑوں کی ایک خاص ساخت کی ضرورت ہوتی ہیں، وہ اللہ نے  مجھے  دی تھی، ممبئی کی کئی پارٹیاں مجھے  لینے  آئیں کہ آپ بریک ڈانس میں دنیا میں نام پیدا کر سکتے  ہیں، آپ کے  جوڑوں میں گھومنے  کی بہت صلاحیت ہے، ہمارے  گاؤں میں مندر اور مسجد بہت قریب قریب ہیں، مجھے  بچپن سے  یہی خیال ہوتا تھا کہ یہ دونوں مالک کی پوجا کے  استھان ہیں، دونوں میں کیا فرق ہے ؟ ان دنوں ہمارے  گاؤں کے  ایک بہت سلیم الفطرت اور نیک انسان محمد عمر بھائی سے  میرا تعلق ہو گیا،  وہ مجھے  ناچنے  کے  لئے  منع کرتے  تھے، وہ کہتے  تھے  جس اللہ نے  اتنے  اچھے  جوڑ بنائے  ہیں وہ اللہ ناچنے  سے  منع کرتا ہے  وہ ان جوڑوں کا حساب لے  گا، وہ میرے  لئے  ہدایت کی دعا کرتے  اور مجھے  مسجد میں لے  جانے  کی کوشش بھی کرتے، میں مسجد میں باہر کھڑا ہو کر پانچوں وقت لوگوں کو پابندی سے  نماز پڑھتے  دیکھتا، سردی، گرمی اور برسات میں ایسے  نظم اور پابندی کے  ساتھ نماز پڑھنے  والوں کو دیکھ کر مجھے  اچھا لگتا، مندر میں جا کر یہ بات نہیں لگتی تھی، دل کو لگتا کہ مندر میں تو بس ایک رسم ہے، مجھے  حسرت ہوتی کہ کاش میں بھی مسلمان ہوتا تو میں بھی مسجد میں جا کر اپنے  مالک کی نماز پڑھتا، محمد عمر بھائی مجھے  ایک بار دیوبند دکھانے  کے  لئے  لے  گئے  وہاں ہم مولانا محمد اسلم کاظمی کے  پاس عطر لینے  گئے، میں نے  ان سے  اسلام کے  بارے  میں کچھ سوال کئے، وہ ایک اچھے  داعی ہیں، انہوں نے  مجھے  بہت اچھی طرح سمجھایا اور توحید رسالت آخرت کے  بارے  میں سمجھایا اور زور دیا کہ میں مسلمان ہو جاؤں، مسلمان ہو کر نماز پڑھنا ہی انسان کی سب سے  بڑی کامیابی ہے، میں نے  اسلام قبول کر لیا اور دوسرے  روز انہوں نے  مجھے  پھلت حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی کے  پاس بھیج دیا، جن کو ہم ابوجی کہتے  ہیں۔

  سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

 جواب  : میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں، اس خیال سے  میرے  رونگٹے  کھڑے  ہو جاتے  ہیں کہ اگر میں اسلام قبول نہ کرتا تو کیا ہوتا؟ یہ میرے  اللہ کا کرم ہے، اس نے  مجھے  اس گندگی سے  نکالا اور شرک سے  بچایا، ورنہ کھیل، کود، تعلیم، ڈانس، میری دلچسپی کے  سب سامان مجھے  ملے  تھے، میں نے  ریڈیو پر گروپ سانگ بھی گائے  نجیب آباد  ریڈیو سے  آج بھی ریلے  ہوتے  ہیں، ایک گانا جواب سے  بہت پہلے  گایا تھا وہ مجھے  اب تک یاد ہے ’’آؤ مل کر اتہاس رچائیں ‘‘

             میرے  اللہ کا احسان ہے  کہ اس نے  مجھے  عمر بھائی اور پھر مولانا اسلم صاحب اور سب سے  بڑھ کر ابوجی کے  پاس بھیجا، اصل بات یہ ہے  کہ جس طرح پھول کی فطرت کھِلنا ہے، مگر پھول کو پانی نہ ملے  بارش نہ ہو تو وہ مرجھا جاتا ہے، اسی طرح ایک انسان کی فطرت مسلمان ہونا ہے  اسلام فطری مذہب ہے  مگر اس کو ماحول اور دعوت کی بارش کی ضرورت ہوتی ہے  اگر اس کو خاندانی طور پر اسلامی ماحول، یا دعوت کی بارش نہ ملے  تو وہ کھلنے  سے  پہلے  مرجھا کر کافر رہ جاتا ہے، میں اپنے  کریم اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے  مجھے  مرجھانے  سے  بچایا۔

  سوال  : اسلام لانے  کے  بعد آپ کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا؟

 جواب  : اصل میں اگر انسان صرف اللہ سے  اپنا تعلق رکھے  تو ہر وقت اس کا کرم شامل حال رہتا ہے، مگر انسان کمزور ہے  اس سے  غفلت ہو جاتی ہے  میں خاص طور پر بہت کمزور وحساس ہوں اور مجھ میں قوت برداشت بہت کم ہے، آدمی سوچے  کہ اللہ تعالی کے  کتنے  احسانات ہیں، ایمان و اسلام صرف اللہ کے  لئے  ہو، صبح کو سورج نکلا، اگر آدمی یہ خیال کرے  کہ یہ سورج نکلا ہے  میرے  اللہ نے  میرے  لئے  نکالا ہے، یہ دن صرف میرے  لئے  نکالا گیا ہے  یہ رات میرے  آرام کے  لئے  ہے  یہ ہوا میری راحت کے  لئے  چل رہی ہے  تو آدمی کو اللہ سے  کتنی محبت ہو جائے، مگر انسان کمزور ہے  کسی ایک ماحول سے  دوسرے  ماحول میں اس کو مشکل ہوتی ہے  نئے  معاشرے  میں اس کوسیٹ ہوتے  دیر تو لگتی ہے، خصوصاً آج کے  دور میں جب حالات ایسے  ہیں کہ شک کرنا پڑتا ہے، مجھے  سب سے  زیادہ تکلیف اپنے  مسلمان بھائیوں کے  ان سوالات سے  ہوتی رہی جن سے  ایک شک سا ٹپکتا تھا، مگر اللہ کا شکر ہے  کہ مجھے  بے  انتہا محبت کرنے  والے  ملے، خصوصاً ہمارے  ابّوجی جنہوں نے  ہر موڑ پر میری رہنمائی کی۔

  سوال  :آپ کے  والدین حیات ہیں ؟ کیا آپ کا ان کے  ساتھ کچھ ربط ہے، کبھی آپ نے  ان کو بھی اسلام میں لانے  کی کوشش کی؟ کچھ ان کا حال بھی سنایئے۔

 جواب   : میرے  والدین الحمدللہ حیات ہیں، چند سال قبل ابّوجی نے  مجھے  ان سے  ملنے  کے  لئے  کہا تھا اور ان کی ہدایت کے  لئے  دعا کرنے  پر زور دیا، میں نے  فون پر والدہ سے  بات کی، انہوں نے  مجھے  بہن کی شادی میں آنے  کو کہا اور یہ بھی کہا کہ بہن کی شادی میں تین بھائی شریک ہوں اور ایک نہ ہو تو وہ ڈولی کیا ارتھی (میّت) ہو گی، ہم نے  بہن کی سسرال والوں سے  بات کر لی ہے  انہوں نے  اجازت دے  دی ہے  کہ اس نے  دھرم بھرشٹ کر لیا اور وہ ادھرم (لامذہب) ہو گیا تھا، تو ہمیں کیا؟ میں بہن کے  لئے  کچھ تحفے لے  کر گیا، میں شادی میں شریک ہوا کسی نے  کچھ نہیں کہا اور سب خوش ہوئے، مگر شادی کے  بعد میرے  بھائی اور رشتہ دار ٹہلانے  کے  بہانے  سے  لے  گئے  اور زبر دستی نائی کی دکان میں گھسا دیا اور کہا اس کی داڑھی مونڈ دو، میں روتا رہا خوشامد کرتا رہا مگر وہ نہ مانے  میں نے  ہاتھ سے  استرا پکڑ ا اور ان سے  کہا کہ تم میر اگلا کاٹ دو، مگر میرے  نبی کی سنت نہ کٹاؤ، نائی نے  بھی ان کو منع کیا مگر وہ مجھے  دبوچ کر داڑھی منڈا کر باز آئے، میں کسی طرح جان بچا کر وہاں سے  بھاگ آیا، روتا پھرتا تھا، مجھے  آئینہ دیکھنے  کا شوق تھا، مگر مجھے  رونا آتا تھا کہ میں اپنا منھ نبی کی سنت کے  بغیر کس طرح دیکھوں، شرم کی وجہ سے  پھلت نہ آیا، ابّوجی نے  تلاش کرایا اور کہلوایا کہ اس میں شرم کی بات نہیں، تمہارے  لئے  اس میں کوئی حرج نہیں تم دعوت کی راہ میں گئے  تھے  تمہیں ایک ایک بال کے  بدلے  میں نیکیاں ملیں گی، اس کے  بعد میں کھل کر گھر نہیں گیا، البتہ بار بار رات کو والدہ سے  ملنے  ابوجی نے  مجھے  بھیجا، اب والدہ اسلام کے  بہت قریب ہیں اور ہم سب دعا کر رہے  ہیں، مجھے  امید ہے  کہ اب کی بار وہ ضرور کلمہ پڑھ لیں گی وہ گھر میں سب سے  زیادہ مجھ سے  محبت کرتی ہیں، اب اور بھی کرنے  لگی ہیں، اس کے  بعد والد صاحب پر کام کروں گا۔

  سوال  :سنا ہے  آج کل آپ دعوت کے  لئے  بہت سرگرم ہیں، اپنی دعوتی کارگزاری کے  بارے  میں بھی کچھ بتایئے۔

 جواب   :  اسلام قبول کرنے  کے  بعد الحمدللہ میں نے  دینی تعلیم حاصل کی پھر ابوجی نے  مجھے  کمپیوٹر کورس کرایا اور آج کل موانہ میں کمپیوٹر لگا کر ڈی، ٹی، پی ورک کر رہا ہوں، مگر ظاہر ہے  زندگی کا مقصد تو دعوت ہے، ابوجی ہمیں سفر میں ساتھ لے جاتے  ہیں، پوری انسانیت تک دعوت پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، یہ بتاتے  ہیں ہمارے  لئے  تندولکر، اگرکر اور سلمان خان آئیڈیل نہیں ہیں، ہمارے  لئے  ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی نمونہ ہے، ہمارے  نبی ایک ایک کے  پاس ستر مرتبہ جاتے  تھے، اپنے  دشمن یہودیوں کا پاخانہ اپنے  پاکیزہ ہاتھوں سے  صاف کرتے  تھے، طائف میں پتھر کھائے  اور پاؤں لہو لہان ہوئے  تھے، پھر زخمی حالت میں انگور کے  باغ میں جا کر اپنے  اللہ کے  سامنے  گڑگڑائے، یا ارحم         الراحمین یا ارحم الراحمین آواز لگاتے  اور ستانے  والوں اور پتھر برسانے  والوں کے  لئے  دعا کرتے  ہیں، مجھے  بھی حسرت ہے  کہ میں بھی ایک ایک کے  پاس ستر مرتبہ نہیں تو سات مرتبہ تو جاؤں، میں بھی دعوت کی راہ میں زخمی ہوں اور انگور کا باغ نہ ملے  تو آم کے  باغ میں اپنے  مالک کو  یا ارحم الراحمین کہہ کر یاد کروں اور اپنے  خونی رشتے  کے  بھائیوں کی ہدایت کے  لئے  دعا کروں، گزشتہ چند ماہ میں اللہ نے  مجھے  ہمت دی، ابوجی کارگزاری سنتے  ہیں بہت خوش ہوتے  ہیں حوصلہ بڑھاتے  ہیں، دعائیں دیتے  ہیں، اللہ کے  ایک نیک بندے  اور داعی کو خوش کرنے  کا شوق ہمارے  لئے  اس راہ میں بڑا حوصلہ دیتا ہے، الحمدللہ چند ماہ میں ۲۳ لوگوں نے  اس حقیر کے  ہاتھ پر اسلام قبول کیا، جن میں بڑے  کام کے  اور اہم لوگ شامل ہیں میں اپنے  اللہ کا بہت بہت شکر ادا کرتا ہوں مجھے  امید ہے  اب ہمیں لائن مل گئی ہے، اللہ تعالی ہم سے  خوب کام لیں گے، پہلے  بھی کچھ لوگ مسلمان ہو جاتے  مگر میں ان کو کلمہ نہیں پڑھواتا تھا، ابوجی نے  بتایا کہ کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  کسی کے  پاس لے  جانے  کا انتظار نہیں کرنا چاہئے  اگر موت آ جائے  تو کیا ہو گا، جب سے  میں ہی کلمہ پڑھوانے  لگا۔

  سوال  :  اپنے  مسلمان بھائیوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

 جواب   : میری کیا حیثیت ہے  کہ میں کوئی پیغام دوں مگر مجھے  احساس ہوتا ہے  کہ ہمیں اپنے  کفر و شرک میں پڑے  ہوئے  بھائیوں کی فکر کرنی چاہئے، خصوصاً پسماندہ طبقہ کے  غیر مسلموں کی جن کو شودر یا کالے  سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے، آپ دیکھتے  ہیں ہمارے  علاقہ میں کاوڑکاکس قدر زور بڑھتا جا رہا ہے  پہلے  صرف تین روز کے  لئے  راستہ بند ہوتا تھا اب آدھے  ماہ راستہ بند رہتا ہے  سب کام بند ہو جاتے  ہیں کس قدر تکلیف ہوتی ہے  تعداد بھی کتنی بڑھ رہی ہے، یہ سینکڑوں میل گرمی میں کاوڑ کاسفر پیدل ہماری دشمنی میں نہیں ہو سکتا، یہ اس لئے  ہے  کہ لوگوں میں اپنے  مذہب سے  تعلق بڑھ رہا ہے  یعنی اپنے  مالک کو خوش کرنے  کا شعور اور جذبہ بڑھ رہا ہے  اگر ہم دعوت کو مقصد بنا کر ان کو یہ سمجھائیں کہ یہ راستہ مالک کو خوش کرنے  کا نہیں بلکہ مالک کو ناراض کرنے  کاہے  اور شرک کے  ساتھ یہ قدم دھرم (مذہب) کے  لئے  نہیں بلکہ ادھرم (گناہ)کے  لئے  بڑھ رہے  ہیں تو یہ لوگ اسی جوش اور جذبہ کے  ساتھ حج کے  لئے  جانے  والے  بن سکتے  ہیں، اصل یہ ہے  کہ ہم غیر شعوری اور رسمی طور پر مسلمان ہیں میں ابوجی سے  کہہ رہا تھا کہ مجھے  سات سال ہونے  والے  ہیں، میں نے  ۲۲۳/نکاحوں میں شرکت کی جن میں سے  سات سال میں پانچ دولہا داڑھی والے  دیکھے  ان میں بھی صرف دو پوری داڑھی والے  تھے، جب اسلام اور نبی کے  طریقہ سے  تعلق کا ہمارا یہ حال ہے  تو ہم دوسروں کو کس طرح دعوت دیں، جب ہم خود ہی اسلامی طریقہ کو پسند نہیں کرتے  ہماری نمازوں کا بھی یہی حال ہے  دس فیصد لوگ بھی نمازی نہیں اور جو نمازی ہیں وہ بھی سارے  کاموں کو مقدم کر کے  دوسرے  درجہ پر نماز پڑھتے  ہیں۔

  سوال  :آپ ماشاء اللہ نماز کی بڑی فکر رکھتے  ہیں، آپ کا نماز کے  بارے  میں کیا خیال ہے ؟

 جواب   : اللہ کا شکر ہے  میں نے  نماز کی کشش میں اسلام قبول کیا تھا میرے  اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ گذشتہ پانچ سال میں میری ایک بھی نماز قضاء نہیں ہوئی، کل ملا کر میری ۶۷ /بار جماعت نکلی، ۷/بار  ۲۰۰۲ء میں ۱۳/بار  ۲۰۰۰ء میں ۱۶/بار  ۱۹۹۹ء میں ۲۱/بار اور ۱۹۹۸ء میں سفر کم ہوئے  اس سال دس بار میری جماعت نکلی مگر اللہ کا شکر ہے  کہ یہ جماعتیں شرعی عذر سے  نکلی ہیں۔

  سوال  :آپ نے  حساب بالکل یاد کر رکھا ہے ؟

 جواب   :  ایک آدمی اپنے  نفع نقصان کا حساب رکھتا ہے  اپنی پراپرٹی، اپنی جیب اور بینک بیلنس کا حساب رکھتا ہے  کہ اتنے  روپئے  ہیں اتنی دکانیں ہیں، اتنے  مکان ہیں، دکان میں اتنا اتنا سامان ہیں وغیرہ، مسلمان کا اصل مال اور دولت تو یہ ہی ہے  کیا نمازوں کی  دکان اور مال وسامان سے  بھی کم اہمیت ہے، خصوصاً نقصان تو آدمی کو اور بھی یاد رہتا ہے، نماز قضا ہو جانا یا جماعت نکل جانا کیا کم نقصان ہے  کہ آدمی اس کا حساب بھی نہ رکھے، اصل میں ہم نے  نماز کی وقعت اور قیمت ہی نہ جانی ورنہ اگر آدمی کو نماز ادا کرنا بلکہ ابوجی کی بقول نماز قائم کرنا آ جائے  تو پوری زندگی بلکہ پوری دنیا صحیح ہو جائے۔

  سوال  :بہت شکریہ !  جزاک اللہ آپ نے  بہت مفید باتیں بتائیں۔

 جواب   : آپ میرے  لئے  دعا کریں یہ باتیں میرے  لئے  حال بن جائے  اور اللہ تعالی مجھے  چلتا پھرتا قرآنی اور مجسم دعوت بنا دیں اور اللہ تعالی میری جان اس راہ محبت میں قبول کر لے  کہ شہادت کی موت ہی ایمان والے  کی اصل معراج ہے۔

                                    مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ ۲۰۰۳ء

٭٭٭

محمد اکرم {وکرم سنگھ} سے  ایک دلچسپ ملاقات

احمد اواہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکرم   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :  اکرم بھائی !  قارئین ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب   :  ضرور احمد بھیا آپ ضرور کیجئے۔

  سوال  :  آپ اپنا مختصر تعارف کرایئے ؟

 جواب   :  اب محمد اکرم ہے  اسلام سے  پہلے  میرا نام وکرم سنگھ تھامیں میرٹھ ضلع کے  ایک گاؤں کا جو اب شہر میں آ گیا ہے، رہنے  والا ہوں میرے  والد صاحب کا نام شری تلک رام ہے، وہ درمیانی درجہ کے  ایک کسان ہیں میرے  چار بھائی اور تین بہنیں ہیں میں نے  نانک چند کالج سے  تاریخ میں ایم اے  کیا تھا اس کے  بعد ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا دوسرے  سال میری زندگی میں کچھ حالات آئے  جس کی وجہ سے  مجھے  درمیان میں تعلیم موقوف کرنی پڑی میں نے  ۲/اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اسلام قبول کیا۔

  سوال  :اسلام کی طرف آپ کی کشش کی وجہ کیا ہو ئی ا پنے  قبول اسلام کے  سلسلہ میں تفصیل سے  بتایئے ؟

 جواب   : میرا بچپن بڑا عجیب گزرا، میرا گھرانہ بڑا مذہبی ہندو گھرانہ تھامیں جب ذرا بڑا ہوا تو میرے  دل و دماغ پر اپنے  مالک اور اپنے  خدا کی تلاش کا جذبہ طاری ہوا میں اکیلا بیٹھا تو میرے  دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سارے  سنسار کا بنانے  والا کون ہے  اور کونسی ذات ہے  جو اتنے  سارے  انسانوں کو پیدا کرنے  والی ہے  اور سارے  انسان بالکل الگ الگ یہاں تک کے  ایک ماں ایک باپ کی اولاد بھی بالکل الگ الگ ہیں ؟ کوئی کمپنی کار بناتی ہے  تو ایک سی بناتی ہے  اور ہمیں نمبر پلیٹ سے  پہچاننا پڑتا ہے  مگر اس دنیا میں کروڑوں لوگ ایک مالک کے  بنائے  ہوئے  بغیر نمبر پلیٹ کے  پہچانے  جاتے  ہیں ایسا بنا نے  والا وہ کون ہے  ؟سورج نکلتا ہے  تو آگ برستی ہے  چاند چمکتا ہے  تو ٹھنڈی ہوتی ہے  اتنا بڑا آسمان بغیر ستونوں کے، بغیر دیوار کے  کس طرح ٹکا ہوا ہے، اس کو کون سنبھالے  ہوئے  ہے ؟ انسان کا جسم اس کی آنکھیں، کان، چلنے  پھرنے  کے  لئے  پاؤں کیسا پیارا نظام ہے  اس کو بنانے  والا کیسا عظیم ہے ؟ کسی انسان کی آنکھ پھوٹ جائے  تو یہ ڈاکٹر پتھر کی آنکھ تو لگا سکتے  ہیں مگر اس جیسی آنکھ سارید نیا کے  ڈاکٹر مل کر نہیں بنا سکتے  یہ سوالات مجھے  اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز سے  اس کے  بنانے  والے  کو تلاش کرنے  پر مجبور کرتے، میں نے  اپنے  دل کی تسکین کے  لئے  مذہب کو سہارا سمجھا۔

            پہلے  میں مندروں میں جاتا تھا مگر میں دیکھتا تھا کہ اپنے  ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کو لوگ پوجتے  ہیں مجھے  عجب لگتا، مجھے  مورتی کی پوجا کرنے  والوں کی عقل پر افسوس آتا، میرے  گھر والے  مورتیوں کو کھانا کھلاتے  ان کو سردی گرمی میں کپڑا اور ہوا کا انتظام کرتے، میں گھر والوں سے  کہتا کہ تم ان کو کھلاتے  ہو پلاتے  ہو مگر ان کو جنگل میں پاخانے  کے  لئے  نہیں لے  جاتے  وہ مجھے  ڈانٹتے  اور کہتے  یہ تو پاگل ہو گیا ہے  اس کی عقل کو بھگوان نے  سلب کر لیا ہے۔

            ایک بار میں اپنے  چھوٹے  بھائی کے  ساتھ ہری دوار کی نیل کنٹھ پہاڑی پر گھومنے  گیا، میں نے  وہاں دیکھا کہ مندر پر پولیس کی کافی بھیڑ ہے  میں نے  لوگوں سے  پوچھا یہاں اتنی پولیس کیوں ہے ؟ انہوں نے  جواب دیا مندر میں بھگوان شیوجی کا سونے  کا سانپ رکھا ہے  جو بڑا بھاری اور قیمتی ہے  اس کی حفاظت کے  لئے  پولیس ہے  کوئی بھگوان کا سانپ چوری کر کے  نہ لے  جائے  اس لئے  یہاں ہر وقت پولیس کا پہرہ لگا رہتا ہے، یہ سن کر مجھے  بڑا جھٹکا لگا کہ جو شیوجی اپنے  سانپ کی حفاظت نہ کر سکتا ہو وہ ان لوگوں کی کیا حفاظت کرے  گا؟ جو خود اپنی حفاظت کے  لئے  پولیس کا محتاج ہے  وہ کیسے  پوجا کے  لائق ہو سکتا ہے ؟ میرے  دل میں خیال آیا کہ اگر ان مورتیوں کو حس ہوتی اور ان میں جان ڈال دی جائے  تو یہ خود ہماری پوجا کریں کہ ہم ان کے  بنانے  والے  ہیں اور بنانے  والے  کی پوجا کی جاتی ہے۔

            کئی بار اخباروں میں خبریں پڑھتا کہ آج اس مندر میں بھگوان کی چاندی کی مورتی چوری ہو گئی اور آج  فلاں مندر سے  بھگوان کا تر شول چوری ہو گیا، اس طرح کی باتوں سے  میرا دل مندروں سے  سخت متنفر ہو گیا اور اس کے  بعد میں نے  اپنی مذہبی تسکین کے  لئے  ست سنگ میں جانا شروع کیا۔

            میں ست سنگوں میں جانے  لگا میں نے  وہاں دیکھا جب گرو مہاراج پروچن کرتے  ہیں تو لوگوں کو کہتے  ہیں کہ (موہ مایا )  یعنی دنیا کے  لالچ سے  دور رہو مگر جب کوئی ان کو پانچ سو کا نوٹ دیتا تو بہت خوش ہو جاتے  اور جلدی سے  جیب میں رکھ لیتے  جو لوگ ان کو نوٹ دیتے  ان کو پاس بٹھاتے  اور جو نوٹ نہ دیتے  تو ان کی طرف توجہ بھی نہ دیتے، میرے  دل میں بات آئی کہ یہ کیسا دھرم ہے  کہ خود تو مال سے  پیار کرو اور لوگوں کو دور رکھو، میں نے  کچھ گروؤں کے  کالے  کرتوتوں اور جوان لڑکیوں کے  ساتھ ان کے  مذاق کو بھی دیکھا، میں نے  دیکھا کہ گرو لوگوں کو وصیت کر رہے  ہیں کہ ان کی سمادھی بنائی جائے  ان کو جلایا نہ جائے  اور لوگوں کو جلانے  سے  منع نہیں کرتے  مجھے  ایسا لگتا تھا کہ یہ اپنے  دل میں اسلام قبول کر لیتے  ہیں مگر دوسروں کو دور رکھتے  ہیں، ان باتوں کی وجہ سے  میرا دل ست سنگ سے  پھر گیا۔

             میں نے  ہندو مذہب چھوڑ کر عیسائیوں کی طرف رخ کیا میں نے  وہاں بھی حضرت عیسیؑ اور مریم کی تصویریں دیکھیں جن کی پوجا ہوتی ہے، خدا کے  بیٹا کیسے  ہو سکتا ہے ؟ میں نے  عیسائیوں کو دیکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی مورتی کی پوجا کرتے  ہیں ان سے  پرارتھنا کرتے  ہیں حالانکہ ان کا ماننا ہے  کہ ان کو خود سولی پر چڑھا دیا گیا تھا جس خدا کے  لئے  خود خدا کو سولی پر چڑھا دیا گیا ہو اس کی پوجا کونسی عقل کی بات ہے  ؟ بیٹے  سے  پرارتھنا کرنے  کی پرارتھنا کریں خود خدا سے  پرارتھنا کیوں نہیں کرتے  ؟میرا دل عیسائیت کی طرف سے  بھی مایوس ہو گیا ایک روز گرجا گھر سے  دکھے  دل کے  ساتھ واپس آیا تو راستہ میں مجھے  جینیوں کے  منیوں کا ایک قافلہ ملا۔

            چار پانچ ننگے  لوگ بے  شرمی سے  جا رہے  تھے  راستہ میں ایک جگہ ان کا سوا گت ہونا تھا جو ان لڑکیاں ان کے  ننگے  جسم کو دھوکر پانی پی رہی تھیں میں بہت مایوس ہوا اور میری آتما شرم کے  مارے  ڈوب مرنے  کو چاہی کہ انسان کی بدھی (عقل ) اندھے  رواجوں کے  سامنے  کہاں تک چلی جاتی ہے۔

            اسلام کے  دروازے  پر: سارے  دروں سے  مایوس ہو کر میں نے  اسلام کی کھوج شروع کی، میرے  گاؤں میں بہت سے  مسلمان رہتے  تھے  میں نے  جیسے  جیسے  اسلام کو جاننا شروع کیا میرے  دل نے  کہا کہ یہ پراکرتک دھرم (فطری مذہب) ہے۔

             مجھے  آخرت کے  عقیدہ کے  علم نے  سب سے  زیادہ متاثر کیا دنیا کی ہر چیز فنا ہو جانے  والی ہے  اور اللہ تعالی کے  سامنے  ہر چیز کا حساب دینا ہے  یہ بات انسان کو انسان باقی رکھنے  کے  لئے  مجھے  بہت اچھی لگی، اس دنیا کو چھوڑ کر سب کو جانا ہے  اور اپنے  مالک کے  سامنے  اس دنیا میں کئے  گئے  کرموں (اعمال ) کا حساب دینا ہے  اس مالک کے  سامنے  جانا ہے  جو سارے  جہاں کو بنانے  والا ہے  ساری دینا کے  لوگ اس کے  بندے  ہیں، یہاں تک کہ اسلام کے  رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ کے  بندے  اور ایک انسان ہیں میں نے  اسلام کو جاننے  کے  لئے  کچھ مسلمان لڑکوں سے  دوستی کر لی میرے  ایک دوست فاروق کی نانی کا انتقال ہو گیا، میں ان کے د فن میں شریک ہوا، میں نے  قبر میں دفنانے  کے  طریقے  کو دیکھا، مجھے  بہت اچھا لگا اور مجھے  ہندو مذہب کے  مطابق ظالمانہ طریقہ پر جلانے  کے  مقابلہ میں یہ دفن بالکل سورگ کی طرح لگا، میں گھر جا کر سویا تو میں نے  خواب دیکھا دو قبریں ہیں، کچھ اچھے  لوگ مجھے  دونوں قبریں کھول کر دکھانے  لگے، ایک آدمی خوبصورت کپڑوں میں آرام سے  سورہا تھا اور دوسرے  کی قبر میں خون تھا، لوگوں نے  بتایا کہ سونے  والا نیک مسلمان تھا اور خون پیپ والا برا آدمی تھا اس کے  بعد اپنے  دوست کی نانی کو دیکھا وہ بہت خوبصورت جو ان شہزادی سی لگ رہی تھی حالانکہ وہ بہت بوڑھی اور کالے  رنگ کی تھی، لوگوں نے  بتایا کہ یہ نانی بہت نیک تھی اس کی وجہ سے  ان کو خوبصورت بنا دیا گیا، میری آنکھ کھل گئی، اس خواب کے  بعد مجھے  مرنے  کے  بعد حالات کا آنکھوں دیکھی باتوں سے  زیادہ یقین ہو گیا اور مجھے  روز اچھے  اچھے  خواب دکھائی دینے  لگے،

             میرے  مسلمانوں کے  ساتھ رہنے  کی وجہ سے  میرے  گھر والوں کو مجھ پر شک ہونے  لگا انہوں نے  مجھے  ڈانٹنا شروع کیا میں نے  گھر والوں سے  کہہ دیا کہ مجھے  مسلمان ہونے  سے  اب کوئی نہیں روک سکتا،

             اس کے  بعد مجھ گناہ گار پر میرے  اللہ نے  احسان کیا میرے  گاؤں میں ۱۲/اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اللہ کے  نیک بندے  اور انسانیت کے  سچے  دوست مولانا کلیم صاحب کو بھیج دیا، لوگ مجھے  ان کے  پاس لے  گئے  انہوں نے  موت کے  خوف سے  دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے  کلمہ پڑھایا میرا نام پوچھا اور کہا اسلام میں نام بدلنا کچھ ضروری نہیں مگر میں نے  ہندوانہ نام بدلنے  پر اصرار کیا تو انہوں نے  میرا نام محمد اکرم رکھ دیا،

  سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟ 

 جواب   : ایمان قبول کرنے  کے  بعد مجھ پر پانچ وقت کی نماز فرض ہو گئی، میں نماز سیکھنے  لگا اور نماز پڑھنے  مسجدوں میں جانے  لگا یہ بات آس پاس کے  گاؤں میں پھیل گئی بعض مسلمان بھی ڈرنے  لگے  میں ان مسلمانوں سے  کہتا آپ کیوں ڈرتے  ہیں ؟ پولیس اگر مجھے  مجرم سمجھتی ہے  تومیں خود جواب دوں گا جب چور خود نہیں ڈرتا تو آپ کو کیا ڈر ہے، میں بالغ ہوں، پوسٹ گریجویٹ ہوں جاہل نہیں، میں نے  سوچ سمجھ کر سارے  دھرموں کو دیکھ کر فیصلہ کیا ہے، میرے  گھر والے  مجھے  ستانے  لگے، مجھ پر سختیاں کی گئیں، میرے  والد نے  مجھے  پانچ پانچ دن کمرہ میں بند رکھا، کمرہ میں بند رہ کر بھی میں نے  نماز نہیں چھوڑی میرے  دل میں خیال آیا کہ دنیا والے  غلط کام کر کے، چوری کر کے  جیلوں میں بند ہو جاتے  ہیں اور پولیس کی سختیاں سہتے  ہیں، میں اپنے  مالک کی بہت ہی سچی بات کے  لئے  اپنے  گھر میں بند ہوں میرے  گھر والے  ہی مجھے  مار رہے  ہیں یہ سوچ کر مجھے  اس پٹائی اور تکلیف میں عجیب مزہ آتا تھا۔

            میں ایک روز موقع پا کر گھر سے  نکل گیا اور مرکز نظام الدین جا کر چلہ کی جماعت میں چلا گیا، واپس آ کر میں گاؤں میں مسلمانوں کے  گھر رہنے  لگا، پورے  علاقہ خاص طور پر گاؤں میں بہت ہنگامہ ہو گیا میرے  خاندان والے  مجھے  جان سے  مارنے  کی سوچنے  لگے، میں نے  عدالت میں اور پولیس میں جان کا خطرہ کے  لئے  درخواست دے دی، پولیس مجھے  پرتاپور تھانے  میں لے  گئی پولیس افسران نے  مجھے  ملازمت کا لالچ دیا کہ تمہیں داروغہ بنا دیں گے، میں نے  کہا دودن کا داروغہ بن کر پھر ہمیشہ کی دوزخ کی جیل اور سزا سے  مجھے  کون بچائے  گا، مجھے  شادی کا لالچ دیا، میرے  سامنے  اللہ کے  سامنے  کھڑے  ہونے  اور آخرت کے  گھر کی کامیابی تھی میرے  اللہ نے  مجھے  ثابت قدم رکھا۔

             ایس پی سٹی نے  مجھ سے  پوچھا تم گاؤں کے  علاوہ کہیں دوسری جگہ بھی رہ سکتے  ہو؟ میں نے  کہا نظام الدین دہلی جا سکتا ہوں وہ مجھے  نظام الدین لے  گئے  مگر وہاں ان لوگوں نے  معذرت کر دی، پولیس والے  بہت غصہ ہوئے  مجھ سے  کہا اب ہم تمہارا کیا کریں، میں نے  کہا ایک گاؤں پھلت ہے  شاید وہ لوگ مجھے  وہاں رکھ لیں، دوپولیس والے  مجھے  پھلت لے  چلے، وہ لوگ بھی تھک گئے  تھے، بھوکے  بھی تھے، کھتولی نہر پر پہنچ کر وہ آپس میں کہنے  لگے  اس کو مار کر نہر میں ڈال دو اس نے  ہم کو ستا کر رکھ دیا میں نے  کہا اگر میرے  اللہ نے  میری زندگی لکھ دی ہے  تو ساری دنیا بھی مل کر مجھے  مار نہیں سکتی، کہنے  لگے  چالیس دن میں مسلمانوں نے  اس کو مولبی (مولوی) بنا دیا، دیر رات کو پھلت پہنچے، مدرسہ میں مولانا کلیم صاحب موجود نہیں تھے  پولیس والوں نے  مدرسہ والوں سے  کہا کہ اگر آپ لکھ کر دیں کہ آپ اس کی حفاظت کریں گے  تو ہم اس کو چھوڑ دیں ورنہ ہم اس کو مار کر نہر میں ڈال جائیں گے، اللہ تعالی جزائے  خیر دے  بھائی ا لیاس صاحب کو اور بھائی سخاوت کو انہوں نے  لکھ کر دے  دیا، اللہ کا شکر ہے  اب میں خوش خوش پھلت میں رہ رہا ہوں، ہمارے  ابو مولانا کلیم صاحب میرے  ماں باپ ہیں، وہ ماں باپ سے  بھی زیادہ مجھ سے  پیار کرتے  ہیں مجھے  گھر کی یاد بھی نہیں آتی۔

  سوال  :اس کے  بعد آپ کا گھر والوں سے  کچھ رابطہ ہے ؟

 جواب   : میرے  والد اور بہت سے  رشتہ دار آتے  رہتے  ہیں اور مجھے  اپنے  دھرم میں واپس جانے  کو کہتے  ہیں، پہلے  میں ان کو بہت سخت جوا ب دیتا تھا مگر حضرت مولانا کلیم صاحب نے  مجھے  بہت سمجھا یا کہ گھر والے  تمہارے  ماں باپ، رشتہ دار سب بڑے  ہیں انہوں نے  تمہاری پرورش کی ہے  ان کا بڑا حق ہے  ان کا بڑا ادب کرنا چاہیے  اور بہت خدمت اور پیار سے  ان کو دوزخ سے  بچانے  کی فکر کرنی چاہئے، میری سمجھ میں یہ بات آ گئی اب جب آتے  ہیں تو میں بہت ادب کرتا ہوں وہ ناشتہ بھی کرتے  ہیں، کھانا بھی کھاتے  ہیں میں ان کے  لئے  اپنے  اللہ سے  دعا بھی کرتا ہوں۔

  سوال  :اس کے  علاوہ اور لوگوں میں بھی آپ کچھ دعوت کی فکر رکھتے  ہیں ؟

 جواب   : اپنے  سبھی دوستوں اور رشتہ داروں میں، میں نے  دعوت کا کام شروع کیا ہے، اللہ کا شکر ہے، ان میں کئی لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے  ہیں اور مجھے  امید ہے  کہ اور بھی لوگوں کو میرے  اللہ ہدایت دیں گے۔

  سوال  :ارمغان کے  قارئین مسلمان بھائیوں سے  آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟

 جواب   : میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ ساری دینا کے  انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی بہن ہیں اور اگر نا سمجھی میں نفرت اور ظلم کر رہے  ہیں تو ہم تو نبی کے  ماننے  والے  قرآن کے  ماننے  والے  ہیں ہم کو ان تک درد کے  ساتھ دعوت پہنچانی چاہئے، خصوصاً ہمارے  ملک میں ۳۳ کروڑ سے  زیادہ دلت کہلانے  والے  وہ لوگ آباد ہیں جن کو مذہب کے  ٹھیکے  داروں نے  اچھوت کہہ کر ذلیل کیا ہے  ان میں کام بہت آسان ہے  وہ لوگ  اندر سے  سے  ٹوٹے  ہوئے  ہیں اگر ہم اسلامی مساوات سے  ان کے  دلوں کو جیت سکیں تو یہ ان پر اور اپنے  ملک پر احسان ہو گا۔

  سوال  :بہت بہت شکریہ، جزاکم اللہ

 جواب   :  آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے  مجھے  عزت بخشی۔

                                                مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 جناب شیخ محمد عثمان {ستیش چندر گوئل} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ ا للہ و برکاتہٗ

محمد عثمان   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :  سیٹھ عثمان صاحب آپ دہلی کب تشریف لائے ؟

 جواب   : مولانا احمد صاحب ! آج ہی صبح آیا تھا اور رات میں واپس جانا ہے، مولانا صاحب سے  ملنے  کو دل کر رہا تھا میں نے  فون کیا معلوم ہوا کہ دہلی میں ہیں، مولانا نے  بتایا کہ مجھے  بھی آپ سے  ضروری کام ہے، مجھے  پرانی دہلی سے  کچھ مال خریدنا ہے، صدر اور چاندنی چوک میں کچھ کام ہو گیا ہے، کچھ شام کو ہونا ہے، میں نے  خیال کیا کہ دوپہر میں حضرت سے  مل آؤں، حضرت نے  بتایا کہ احمد آپ سے  ارمغان کے  لئے  ایک انٹر ویو لیں گے۔

  سوال  :آپ کی ابی سے  ملاقات ہو گئی ؟

 جواب   :   جی الحمدللہ ہو گئی، اصل میں میں پیر اور شیخ کی حیثیت چارجر کی سی ہوتی ہے، حضرت سے  مل کر ایمان کی بیٹری، یعنی اندر دل کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے، حدیث میں بھی نیک صحبت کی اتنی فضلیت آئی ہے، یہ ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ہی تو تھی کہ صحابہ، صحابہ بنے۔

  سوال  :آپ نے  بالکل سچ فرمایا، آپ نے  خود ہی بتایا کہ ابی نے  آپ سے  فرمایا ہے  کہ احمد کو ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے، اسی کے  لئے  آپ کو تکلیف دے  رہا ہوں ؟

 جواب   :کیسی بات کر رہے  ہیں، تکلیف کیسی یہ تو میری خوش قسمتی ہے  کہ کسی دینی دعوتی کام میں مجھ گندے  کا نام آ جائے (روتے  ہوئے ) ورنہ کہاں میں بت پرست اور کہاں ایمان کی مبارک دولت۔

  سوال  :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے۔

 جواب  :  مغربی یوپی کے  مشہور ضلع بلند شہر میں، جو راجا برن کی راجدھانی تھی وہاں میری پیدائش ایک تاجر لالہ خاندان میں ہوئی، میرے  والد کی ایک کرانہ کی بڑی دکان تھی، میرا نام انہوں نے  ستیش چندر گوئل رکھا، میرا ایک چھوٹا بھائی ہے، میرے  والد کے  انتقال کے  بعد میں نے  کاروبار سنبھالا، بھائی کو ایک تھوک تجارت کا کاروبار کرایا، اللہ نے  خوب کاروبار میں ترقی دی اور والد صاحب کے  کاروبار کو ہم نے  الحمدللہ بہت بڑھایا، انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی پھر والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور آگے  تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور کاروبار سنبھالنا پڑا، میری شادی مظفر نگر کے  ایک بڑے  تاجر گھرانے  میں ہوئی بیوی بہت شریف خاتون ہیں، وہ پوسٹ گریجویٹ ہیں، ہمارے  دو بیٹے  اور ایک بیٹی تین بچے  اللہ نے  دیئے  ہیں، والدہ میرے  ساتھ رہتی ہیں۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

 جواب  : ہمارا خاندان ایک مذہبی ہندو گھرانہ تھا، مذہبی کاموں میں ہم نے  اپنے  والد کو بہت خرچ کرتے  ہوئے  دیکھا ہے  خصوصاً دان اور بھنڈارے  میں تو بہت ہی خوشی سے  خرچ کرتے  تھے  اور ہم نے  اس خرچ سے  کاروبار بڑھتے  دیکھا تو مجھے  بھی مذہبی کاموں میں خرچ کا بہت شو ق ہوا، اس لئے  ہندو مذہب کے  علاوہ دوسرے  مذہبی کاموں میں بھی خرچ کرتا، کہیں مسجد بنتی یہ سوچتا کہ ہے  تو یہ بھی مالک کا گھر، میں ضرور مسلمانوں کے  نہ چاہتے  ہوئے  پیسے  دیتا، ہمارے  یہاں تبلیغی اجتماع ہوتا میں ذمہ داروں کو تلاش کر کے  خوشامد کر کے  پیسے  دے  کر آتا، شاید اللہ کو میرا یہ کام پسند آ گیا اور میرے  لئے  ہدایت کا فیصلہ ہو گیا۔

  سوال  : ظاہر ہے  کہ ہدایت کا فیصلہ تو اللہ کے  یہاں ہوتا ہے، مگر ذریعہ کیا ہوا اور کس طرح آپ مسلمان ہوئے، ذرا بتایئے ؟

 جواب   : ہمارے  والد نے  ایک مارکیٹ بنائی تھی اور وہ مارکیٹ مسلمانوں کے  محلے  کے  قریب تھی، دس دکانوں میں سے  چھ دکانیں مسلمانوں نے  کرایہ پر لی تھیں، میرا کاروبار بڑھا، مجھے  ایک گودام کی ضرورت تھی، خیال ہوا کہ اس مارکیٹ کو خالی کرایا جائے  اور نئے  سرے  سے  نقشہ بنوا کر گودام تعمیر کرایا جائے، ایک بینک نے  ہم سے  وہ جگہ کرایہ پر لے  کر خود تعمیر کرانے  کی خواہش ظاہر کی، زبانی معاملہ طئے  ہو گیا، کرایہ داروں سے  پگڑی لے  کر دکان خالی کرنے  کے  لئے  کہا گیا، آدھے  کرایہ دار راضی ہو گئے  جو راضی نہ ہوئے  ان کو خالی کرانے  کا نوٹس جاری کر دیا گیا، تعمیر چونکہ نئی تھی اس لئے  عدالت سے  امید تھی  ہمارے  ایک کرایہ دار سعید احمد چائے  کی دکان کرتے  تھے  اور ایک کرایہ دار نے  جنرل اسٹور کر رکھا تھا ان کا نام محمد عرفان تھا، قدرت کا فیصلہ کہ ان کا اسٹور پہلے  بہت اچھا چلتا تھا مگر اب کاروبار بالکل ٹھنڈا تھا، مقدمہ کی شروعات ہوئی، سعید احمد محلہ کی مسجد کے  امام صاحب مولانا معین الدین کے  پاس دعا کے  لئے  گئے، مولانا صاحب حضرت مولانا کلیم صاحب کے  مرید ہیں، سعید نے  اپنی پریشانی بتا کر دعا کے  لئے  کہا، مولانا نے  ان سے  معلوم کیا کہ کرایہ داری میں وقت کتنا طئے  ہوا تھا، انہوں نے  کہا کہ معاملہ گیارہ مہینے  کا ہوا تھا پھر ہر سال تازہ ہوتا رہتا ہے  اب تین سال سے  کرایہ  نامہ پر تجدید بھی نہیں ہے، مولانا صاحب نے  معلوم کیا کہ زبانی بھی کوئی معاملہ طئے  نہیں ہوا ؟انہوں نے  کہا کہ نہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ لالہ جی دکان کے  مالک ہیں اور آپ ان کی دکان دبانا چاہتے  ہیں، میں تو لالہ جی کے  حق میں دعا کروں گا، تم تو غاصب ہو تمہارے  حق میں دعا کیسے  کر سکتا ہوں ؟ سعید صاحب بے  چارے  مایوس ہو کر واپس آ گئے۔

            محمد عرفان انہیں کے  مقتدی ہیں انہوں نے  مولانا سے  مشورہ کیا کہ لالہ جی نے  پہلے  زبانی دکان خالی کرنے  کے  لئے  کہا اور اب نوٹس بھیجا ہے، دکان یوں بھی بالکل ٹھپ ہے، کیا کیا جائے  ؟ مولانا نے  ان سے  بھی معاملہ اور معاہدے  کی تفصیلات معلوم کیں، مولانا نے  ان سے  بہت سختی سے  کہا کہ وہ دکان فوراً خالی کر دیجئے، اگر یہاں کی عدالت میں آپ کے  حق میں فیصلہ ہو بھی گیا تو آخرت کی عدالت میں آپ بہت برے  پھنسیں گے، نہ جانے  ہم کیسے  مسلمان ہوتے  ہیں کہ نماز میں تو مسلمان ہوتے  ہیں اور کاروبار میں ہم مسلمان نہیں رہتے، واقعی ہمارے  حضرت سچ کہتے  ہیں، ایک جملہ میں تقریر کر رہے  تھے  : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہٗ‘ یہ فرمان ہمارے  پیارے  نبی ﷺ جمعہ کے  ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے  تھے  اور جب معاہدہ گیارہ مہینہ کا ہوا ہے  تو پھر ایک دن بھی بغیر لالہ کی اجازت کے  دکان پر رہنا غاصبانہ قبضہ، جرم سراسر بے  ایمانی ہے، میری رائے  ہے  کہ آپ فوراً دکان خالی کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کے  کاروبار کو اور اچھا چلائیں گے۔

             محمد عرفان یوں بھی اسٹور چھوڑنے  کو تھے، مولانا صاحب کی بات سے  ان پر بہت اثر ہوا اور اگلے  روز دکان سے  سامان اٹھانے  لگے، میں ڈر گیا ہمارے  یہاں ایک مشہور بدمعاش تھا، لوگ زمینوں اور مکانوں کے  معاملہ میں اس سے  فائدہ اٹھاتے  تھے، خالی کرنے  کے  بجائے  اس کو قبضہ دے  دیتے  تھے، اس سے  کسی کو کہنے  کی ہمت نہ ہوتی، مجھے  ڈر لگا کہ شاید عرفان نے  اس کو قبضہ دینے  کی بات کر لی ہے، مگر ایساکچھ نہ ہوا دوسرے  روز شام کو محمد عرفان میرے  گھر آئے  اور بڑے  اخلاق سے  ملے  اور بولے  لالہ جی بہت بہت شکریہ کہ آپ نے  اتنے  دنوں تک ہمیں کرایہ پر دکان دی، اب میں نے  آپ کے  حکم سے  دکان خالی کر دی، خالی کرنے  میں جو تاخیر ہوئی اس کے  لئے  مجھے  آپ معاف کر دیں۔

             میں نے  کہا کہ ایک لاکھ روپئے  پگڑی کے  آپ کو لادوں، عرفان بولا نہیں لالہ جی کیسی بات کرتے  ہو، پگڑی کیسی دکان آپ کی تھی آپ کے  حوالہ، میں ادھر ادھر دیکھنے  لگا کہ کوئی بدمعاش تو نہیں آ رہا ہے، تھوڑی دیر تک تو مجھے  چابی لینے  کی ہمت نہیں ہوئی، میں نے  معلوم کیا کہ خیریت تو ہے  عرفان بولا جی لالہ جی بالکل خیریت ہیں میں نے  کہا اتنی جلدی کو ئی دکان خالی کہاں کرتا ہے، مجھے  تو یقین نہیں آ رہا ہے، عرفان بولا کہ غلطی ہماری ہے  کہ ہم نے  اسلام کو اپنے  معاملہ اور اپنے  لین دین سے  نکال دیا، اس لئے  آپ کو اسلامی معاملہ ہوتے  دیکھ کر یقین نہیں آ رہا ہے، میں نے  پھر کہا کہ پہلے  تو آپ نے  دکان خالی کرنے  کے  لئے  منع کر دیا تھا، عرفان نے  بتایا کہ میری غلطی تھی، میں مسجد کے  امام صاحب کے  پاس گیا انھوں نے  مجھے  بہت دھمکایا اور اسلامی ضابطہ بتایا اور سمجھایا کہ مرنے  کے  بعد اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں بہت برے  پھنسو گے  اور مولانا صاحب نے  جو انہیں کہا وہ سب مجھے  بتایا، میں نے  کہا کہ آپ مولانا صاحب سے  مجھے  ملا دیں گے ؟ انھوں نے  کہا کہ ابھی چلئے  کہ میں نے  اسکوٹر اسٹارٹ کیا، عرفان کے  ساتھ مسجد میں پہنچا، مولانا کتاب پڑھ رہے  تھے، مسجد کے  کمرے  میں ان سے  ملاقات ہوئی، میں نے  امام صاحب سے  کہا کہ مولانا آپ نے  عرفان کو دکان خالی کر نے   کے  لئے  کیسے  کہا، مولانا نے  کہا کہ ہمارے  دین اور ہمارے  قرآن نے  ہمیں یہ قانون بتایا ہے، میں نے  حیرت سے  یہ سوال کیا کہ مولانا آپ کے  دھرم میں کرایہ دار ی کا قانون بھی ہے، امام صاحب نے  کہا ہمارے  نبی ﷺ نے  ہمیں کھاناکس طرح کھانا ہے، کھانا کھا کر انگلیاں چاٹنی ہے  تو اس میں کیا ترتیب ہو گی، نا خن کاٹنے  ہیں تو کس طرح یعنی کون سا ناخن سب سے  پہلے  کون سا اس کے  بعد یہ تک بتایا ہے، میں نے  کہا پھر یہ قانون تو صرف مسلمانوں کے  لئے  ہے  یا ہم بھی اسے  جان سکتے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا یہی تو ہمارا سب سے  بڑا جرم ہے  کہ ہم نے  آپ تک نہیں پہنچایا، اسلام کا قانون اور قرآن صرف مسلمانوں کے  لئے  نہیں بلکہ اس کا ماننا ہرا نسان کے  لئے  ضروری ہے  اور ہمارے  ذمہ ہمارے  اللہ  نے  اسے  سب تک پہنچا نا رکھا تھا، ہم نے  غفلت کی اور اس جرم میں ساری دنیا کے  مسلمان ذلیل ہو رہے  ہیں، میں نے  کہا کہ تو پھر آپ نے  ہمیں کیوں نہیں پہنچایا، مولانا نے  کہا کہ یہی تو غلطی ہے  اب آپ تشریف رکھئے  کہ میں آپ کو بتانا چاہوں، میں بیٹھ گیا سردیوں کی رات تھی مولانا نے  چائے  منگوائی اور بات شروع کی چلتے  وقت کتابیں بھی دیں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ میں روزانہ آپ کے  پاس دس پندرہ منٹ کے  لئے  آ سکتا ہوں، مولانا نے  کہا کہ شوق سے۔

             میں پابندی سے  مولانا صاحب کے  یہاں جاتا رہا وہاں سے  اٹھنے  کو دل نہ کرتا، بس ان کے  آرام کے  خیال سے  اٹھ کر آ جاتا، پانچویں روز میں نے  مولانا صاحب سے  مسلمان ہونے  کی درخواست ظاہر کی، ۱۱/ جنوری ۱۹۹۲  ء کو عشاء کے  بعد مولانا نے  مجھ کو کلمہ پڑھایا، وہ روزانہ اپنے  حضرت مولانا کلیم صاحب کا ذکر کرتے، ہم نے  اسی روز حضرت سے  ملنے  کا پروگرام بنایا اتوار کے  روز پھلت پہنچے، مولانا صاحب ہم سے  مل کر بہت خوش ہوئے، میرا نام اسی روز محمد عثمان رکھا اور مولانا نے  بتایا کہ حضرت عثمان ہمارے  نبیﷺ کے  بہت پیارے  ساتھی تھے  بڑے  تاجر تھے  اور دان بہت کرتے  تھے  اس لئے  میں آپ کا نام محمد عثمان رکھتا ہوں، مولانا نے  مجھے  ماں اور بچوں پر کام کرنے  کو کہا اور بہت تاکید کی کہ گھر والوں کے  ساتھ آپ کا رویہ تبدیل ہونا چاہیے  اب آپ ان کا بہت خیال کیجئے  ان پر خوب خرچ کیجئے  گھر والوں پر خرچ کرنے  میں، میں ذرا محتاط تھا، مولانا نے  کہا، وقت بھی زیادہ دیجئے  اور محبت کا اظہار چاہے  تکلف سے  زبردستی کرنا پڑے، آپ کیجئے  اور محبت کے  ساتھ ان سے  مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنے  کی فکر کے  لئے  کہئے، ایک دفعہ گھر والوں کو بٹھا کر ذرا درد کے  ساتھ آپ کی امانت ان کو پڑھ کر سنائیے  بلکہ ایسا کیجئے  کہ ایک روز گھر میں گھر والوں کی پسند کی کچھ چیزیں کھانے  کی لایئے، مزے  سے  ساتھ کھایئے  اور پھر آپ کی امانت سنایئے، پہلے  ان کو آمادہ کر لیجئے  جب وہ خود کہیں کہ سنائیے  تو پڑھئے، پھر مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟ تھوڑی تھوڑی پڑھئے۔

  سوال  :    تو آپ نے  پھر کام کس طرح کیا؟

 جواب   : میں گھر آیا، سب گھر والوں کے  گرم کپڑے  نئے  تین تین، چار چار خریدے، ماں اور بیوی کی کئی کئی شالیں لیں، جوتے  اور موزے  اچھے  خریدے، روزانہ گھر میں کچھ لے  کر آنے  لگا، گھر والے  حیرت کرتے  ایک روز بیوی کے  بہت معلوم کرنے  پر میں نے   بتایا کہ میں نے  اسلام قبول کر لیا ہے  اور اسلام کے  پیغمبر ﷺ نے  فرمایا کہ تم میں سب سے  بہتر وہ ہے  جو اپنے  گھر والوں کے  ساتھ بہتر ہو اور جو مال حلال کمائی سے  اپنے  بال بچوں پر خرچ ہو، وہ اللہ کو سب سے  زیادہ پسند ہے، بیوی کو اسلام سے  دلچسپی بڑھی، ایک روز میں نے  گھر والوں سے  کہا کہ آج کھانا گھر  نہیں پکے  گا میں لے کر آؤںگا، میں ایک اچھے  ریسٹورینٹ سے  بہت سارے  کھانے  لے  کر آیا، مزے  لے  کر گھر والوں نے  کھایا پھر میں نے  ان سے  کہا کہ انسانیت کے  بہت سچے  پریمی ( محبت کرنے  والے ) کی ایک بھینٹ میں لے  کر آیا ہوں، دیکھو نام بھی کتنا پیارا ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘ ‘آج ہم یہ سنیں گے، اسے  کون پڑھے  گا ؟ میری بیوی نے  کہا میں پڑھوں گی، میں نے  کہا کہ آپ پڑھئے، پڑھتے  پڑھتے  وہ رونے  لگی، وہ پڑھ نہ سکی تو میں نے  کتاب لی اور پڑھنا شروع کیا، پوری کتاب میں نے  پڑھی، میری ماں بھی کئی بار روئی، میں نے  ماں سے  کہا :ماں !کیا ارادہ ہے ؟اب نرک میں جلنے  کا، یا بچنے  کا؟ ماں نے  کہا کہ ایک تنکا تو ہاتھ پر رکھ نہیں سکتے، نرک میں کیسے  جلیں گے ؟ کتاب میں بالکل سچ لکھا ہے، میں نے  کلمہ پڑھنے  کی درخواست کی، اللہ کا کرنا وہ تیار ہو گئیں، پھر کیا تھا میری بیوی اور میرے  تین بچے  جو چھوٹے  تھے، سب نے  مل کر  میرے  کلمہ پڑھنے  کے  گیارہویں روز کلمہ پڑھ لیا، میں ان کو لے  کر اگلے  پیر کو پھلت پہنچا، مولانا صاحب نے  میری والدہ کا نام آمنہ اور میری اہلیہ کا زینب، دونوں بیٹوں کا محمد حسن اور حسین اور بیٹی کا نام فاطمہ رکھا، مولانا بہت خوش ہوئے  ہمارے  امام صاحب کو اور مجھے  بار بار دعا دیتے  رہے۔

  سوال  :  آپ نے  اپنے  خاندان والوں میں فوراً اعلان کر دیا ؟

 جواب   :  مولانا نے  سختی سے  اعلان کرنے  سے  منع کر دیا تھا، کیونکہ ہمارے  گھر میں سب ساتھ تھے، اس لئے  ابتدا میں کچھ مشکل نہ ہوئی، سن  ۱۹۹۲ء کے  حالات تو آپ جانتے  ہیں، آخری درجہ میں آگ لگی ہوئی تھی، بابری مسجد کی شہادت کو ابھی ایک مہینہ ہوا تھا، ایک سال کے  بعد رفتہ رفتہ لوگوں میں بات کھل گئی، خاندان والوں نے  بہت مخالفت کی، ہندو تنظیموں نے  بہت دھمکیاں دیں، بہت مرتبہ زیادتیاں کیں، سسرالی لوگ میری بیوی اور بچوں کو اٹھا کر لے  گئے  ان پر بھی بہت سختیاں کیں، میں نے  جماعت میں جا کر اور پھر گھر میں حیاۃ الصحابہ ؓ اور حکایت الصحابہؓ پڑھنی شروع کر رکھی تھی، میری بیوی، بچوں کو سناتی تھیں اللہ کا شکر ہے  کہ ان سختیوں سے  ہم سبھی کو فائدہ ہوا۔

  سوال  : کچھ خاص واقعات کی تفصیل سنائیے، ابی بتا رہے  تھے  کہ آپ پر بڑ ے  حالات آئے ؟

 جواب   : اصل میں احمد بھائی! میرا تجربہ ہے  کہ جب میں ان حالات کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے  ایسا لگتا ہے  آپ اپنی پونجی کم کر رہا ہوں، دل کو ان کا ذکر اچھا نہیں لگتا، آدمی کے  زندگی بھر کیڑے  پڑیں، اس کی کھال اتاری جائے  اور اس کے  جسم کی بوٹی بوٹی کر کے  بھی، اس زمانے  میں جب ایمان جانے  کا زمانہ ہے  اللہ تعالیٰ کسی خوش قسمت کو ایمان عطا فرما دیں تو بھی کتنا انعام ہے  اور سودا کتنا سستا ہے، پھر میرے  ساتھ تو بہت کم ہوا، میرے  اللہ نے  مجھے  اتنے  سستے  داموں بلکہ مفت میں ایمان دے  دیا، پھر میں چند سالوں کی مشکلوں کا ذکر کروں تو ایسا لگتا ہے  کہ یہ کریم آقا کی غیروں کے  سامنے  شکایت کرنا ہے، جبکہ یہ بات بھی ہے  کہ خاندان والوں اور ناسمجھوں کی طرف سے  ہر مشکل اور تکلیف سے  میں نے  اور گھر والوں نے  اپنے  ایمان کو بڑھتا دیکھا، مجھے  ہر تکلیف اور مشکل کے  وقت صاف محسوس ہوتا کہ میرے  پیارے  اللہ میاں، بڑی محبت سے  مجھے  قربانی دیتے  دیکھ رہے  ہیں اور اس احساس میں احمد بھائی مجھے  تکلیف کے  بجائے  ہمیشہ مزہ آتا تھا۔

  سوال  :  بعد میں آپ نے  ہجرت بھی کر لی تھی ؟

 جواب   :  حضرت کے  مشورہ کی وجہ سے  میں نے  غازی آباد میں سکونت اختیار کر لی تھی مگر بعد میں حالات اچھے  ہو گئے  اور کچھ دعوتی مصلحتوں کی وجہ سے  واپس آ گیا ہوں۔

  سوال  :  کیا محمد عرفان کو آپ نے  وہ دکان، دوبارہ واپس کرایہ پر دے  دی تھی ؟

 جواب   :  مجھے  یہ خیال ہوا کہ یہ کرایہ دار اور یہ مارکیٹ میرے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بن گئی ہے، اس لئے  میں نے  نئی تعمیر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور محمد عرفان کو دکان کی چا بی واپس کی اور کہا کہ میری زندگی بھر کے  لئے  دکان آپ کے  پاس رہے  گی اور ایک لاکھ روپے  قرض حسنہ کے  طور پر کاروبار کے  لئے  دیئے، الحمد للہ ان کا کاروبار چل گیا اور اللہ کا کرنا سعید صاحب کے  خلاف عدالت نے  دکان خالی کرنے  کا حکم جاری کر دیا، وہ مولانا معین  الدین صاحب کے  بہت معتقد ہو گئے  ہیں کہ مولانا لالہ جی کے  حق میں دعا کے  لئے  کہا تھا، اللہ نے  لالہ جی کے  حق میں فیصلہ کروا دیا، بار بار مولانا صاحب سے  معذرت کرتے  اور مجھ سے  بھی معافی مانگتے  ہیں کہ ہم نے  اللہ کے  قانون کو نہیں مانا اب آپ کو مقدمہ میں خرچ کرنا پڑا وہ آپ ہم سے  لے  لیجئے، میں نے  ان کو بھی دکان واپس دے  دی ہے۔الحمد للہ

  سوال  :  میں نے  سنا ہے  کہ آپ نے  بعد میں اور لوگوں پر بھی دعوت کا کام کیا ہے  ؟

 جواب   : بس اللہ نے  مجھے  اپنے  ہدایت یاب ہونے  والے  بندوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا لیا، ورنہ میں کہاں اور دعوت کا عظیم کام کہاں، اصل میں، میں نے  ایک بھٹہ لگایا تھا، بھٹہ میں آگ چھوڑنے  کے  لئے  یعنی افتتاح کے  لئے  میں نے  حضرت سے  درخواست کی، مولانا صاحب نے  علی گڑھ کے  ایک سفر میں وعدہ فرما لیا، پھر مجھے  ان مزدوروں پر کام کے  لئے  کہا اور کہا کہ بھٹہ میں دہکتی آگ سے  آپ دوزخ کو اچھی طرح سمجھا سکتے  ہیں، الحمد للہ آٹھ سالوں میں ایک سو سے  زیادہ مزدور مسلمان ہو گئے  ہیں اور الحمد للہ میں نے  ۸۶ لوگوں کے  چلے  بھی لگوا دئے  ہیں اس کے  علاوہ بھی ادھر ادھر اللہ نے  مجھ گندے  کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

  سوال   : خیر کے  کاموں میں خرچ کا بھی آپ کو بہت شوق ہے  ؟

 جواب  : اصل میں سچ بات تو یہ ہے  کہ ہم چوکیدار ہیں مال ہمارے  پاس امانت ہے  جس کے  پاس زیادہ مال ہو وہ زیادہ خطرے  میں ہے، اللہ کے  یہاں حساب دینا ہے  جو مال ہم خرچ کر دیں وہ ہمارے  پاس امانت کے  بجائے  ملکیت ہو جاتا ہے  تو پھر کیسی بے  وقوفی ہے  کہ امانت کو ہم اپنے  آخرت کے  اکاونٹ میں جمع نہ کرائیں جب کہ یہ تجربہ ہے  کہ خرچ سے  مال اور کاروبار بڑھتا ہے  الحمد للہ میں حضرت سے  بیعت ہوں تو ہم نے  اپنے  کو سازو سامان کے  ساتھ حضرت کو سونپا ہے  دو سال پہلے  حضرت نے  ایک مدرسہ بھی میرے  ذمہ کر دیا ہے  الحمد للہ بہت کام بڑھ گیا ہے  اللہ پورا کرا رہے  ہیں۔

  سوال   :  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے  ؟

 جواب  :  ہمیں اسلام کی امانت کو پہنچا نے  کے  لئے  نکالا گیا ہے  اسلام کی ہر بات میں انسانوں کے  لئے  کشش ہے  ہم کچھ نہ کچھ تو اسلامی معاشرت، اسلامی اخلاق بلکہ اسلامی عبادات کو لوگوں کے  سامنے  دعوت کی نسبت سے  ظاہر کریں اب آپ دیکھئے  کہ غلط روش اور ہندوستانی طرز سے  ہٹ کر محمد عرفان نے  ذرا اسلامی حکم کو مانا تو یہ کام نہ صرف یہ کہ میں اور میرے  ساتھ کتنے  لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا بلکہ خود ان کو دنیاوی لحاظ سے  نقصان کے  بجائے  کتنا نفع ہوا۔

  سوال   : بہت بہت شکریہ سیٹھ محمد عثمان صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

 جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ کہ مجھے  ارمغان کے  قافلہ میں شامل کر لیا۔

       وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

                                    مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

بھائی علاء الدین {راجیشور} سے  ایک ملاقات

  احمد اوّاہ         :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  بھائی علاء الدین  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

  سوال  :بھائی علاء الدین صاحب آج آپ کہاں سے  آئے  ہیں ؟

 جواب  :نندی گرام سے  آیا ہوں، حضرت سے  ملنے  کو بیتاب ہو رہا تھا، کتنے  دنوں سے  تو ہم بھی بڑے  ہنگامہ میں پھنسے  ہوئے  تھے، اللہ تعالی نے  رحم کیا، ہمارے  حضرت کی دعا کی برکت سے  امن ہوا۔

  سوال  : آپ دو سال پہلے  پھلت آئے  تھے  تو ابی نے  کہا تھا کہ ارمغان کیلئے  آپ سے  انٹرویو لوں، مگر کھتولی کسی ضروری کام سے  چلا گیا تھا جب میں واپس آیا تو آپ جا چکے  تھے ؟

 جواب  :ہاں بھائی احمد مولانا صاحب، حضرت نے  مجھ سے  فرمایا تھا اور میں انتظار کر رہا تھا، مگر پھر مولانا صاحب کا فون آ گیا، حضرت نے  فرمایا پھر کبھی آؤ گے  تو اس وقت انٹر ویو دینا۔

  سوال  :    ہر کام کے  لئے  اللہ نے  وقت طئے  کر رکھا ہے، بس آج ہی کا وقت اللہ نے  لکھا تھا، دیر آید درست آید۔اب آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

 جواب  :اللہ آپ کا بھلا کرے، مولانا احمد صاحب، میں ہریانہ میں پانی پت ضلع کے  ایک گاؤں کے  دھینور کا بیٹا ہوں، میرا نام میرے  پتاجی(والد صاحب)نے  راجیشور رکھا تھا، دو تین کلاس پڑھ کر میں پتاجی کے  ساتھ کھیت پر جانے  لگا، ہمارے  ایک کلّہ زمین تھی اسی میں سبزی بو کر ہمارے  والد صاحب گزارا کیا کرتے  تھے، میں اپنے  والد کا اکیلا بیٹا تھا، میری دو بہنیں تھیں، جو مجھ سے  بڑی تھیں۔

  سوال  :آپ کو مسلمان ہونے  کا کیسے  خیال آیا اور آپ کس طرح مسلمان ہوئے، ذرا اس کے  بارے  میں بتائیے ؟

 جواب  :احمد بھائی مجھے  اسلام قبول کرنے  کا کیا خیال آیا بس میرے  مالک کو رحم آ گیا اور اس نے  بغیر طلب کے  مجھے  بھی خاندانی مسلمانوں کی طرح اسلام عطا فرما دیا، اصل میں میری دو بڑی بہنیں تھیں، والد صاحب نے  ان کی شادی کی اور ان کی شادی کے  بعد میری شادی ہو گئی، ہریانہ میں شراب بہت عام ہے، دوستوں کے  ساتھ مجھے  شراب کی کچھ زیادہ ہی لت لگ گئی، جمنا کے  کنارے  کچی شراب ذرا سستی مل جاتی ہے، شادی کے  تین سال بعد میرے  والد صاحب کا انتقال ہو گیا، اگلے  سال ماں کا بھی انتقال ہو گیا، ماں باپ کے  انتقال کے  غم کو بھلانے  کے  لئے  میں نے  شراب اور زیادہ کر دی، شراب کے  نشہ میں دھت میں بالکل ناکارہ ہوتا گیا، میری بیوی بہت ہی بھلی اور محنتی عورت ہے، وہ بیچاری مجھے  کہاں کہاں سے  اٹھا کر لائی، بے  چاری فاقے  کرتی، ایک کے  ایک بچے  ہوتے  رہے، اللہ نے  آٹھ بچے، پانچ بیٹے  اور تین بیٹیاں مجھے  دیں، اس بیچاری کے  لئے  زچگی میں ایک پاؤ گھی یا کوئی چیز میں نہ لاسکا، زمین بھی رفتہ رفتہ میں نے  شراب میں بیچ دی، میری بیوی بیچاری بچوں کا پیٹ پالنے  کے  لئے  مزدوری کرتی، بعد میں اس نے  کچھ پیسے  جمع کر کے  گاؤں میں سبزی کی دوکان کھول لی، تقریباً تیس سال اس طرح گزر گئے، میری بیوی بیچاری میرے  بچوں کو بھی پالتی اور مجھے  بھی کبھی وہاں سے  اٹھا کر لاتی کبھی یہاں سے، میری شراب نے  اس کی زندگی کو دوزخ بنا رکھا تھا، میں شراب پی کر اس کو مارتا بھی تھا، ہمارے  گاؤں میں ایک حافظ صاحب مدرسہ چلاتے  تھے، ایک رات میری گھر والی مجھے  تالاب کے  کنارے  سے  شراب میں دھت اٹھا کر لائی، صبح کو وہ بے  چاری حافظ صاحب کے  پاس جا کر بہت روئی اور ان سے  کوئی تعویذ شراب چھڑانے  کا دینے  کو کہا، حافظ صاحب نے  کہا ہمارے  حضرت ہیں ہم تمھیں ان سے  ملوائیں گے  اور دعا کروائیں گے، وہ تعویذ تو دیتے  نہیں، دعا کرتے  ہیں، مالک کے  پیارے  بندے  ہیں وہ ان کی دعا سنتا ہے، ہمیں امید ہے  یہ شراب چھوڑ دے  گا، مگر پھر تم سب لوگوں کو مسلمان ہو نا پڑے گا، اس بیچاری نے  کہا اس کی شراب چھڑا دو تم ہمیں مسلمان چھوڑ اپنا بھنگی بنا لینا، حافظ صاحب نے  حضرت صاحب (مولانا محمد کلیم صدیقی )کو فون کیا اور پھلت اس عورت کو لے  کر آنے  کی اجازت چاہی، مولانا نے  اسے  لے  کر آنے  کی اجازت تو نہیں دی، لیکن فون پر حافظ صاحب کوپھلت بلایا، حافظ صاحب نے  میری گھر والی کی ساری پریشانی بتائی، مولانا صاحب نے  کہا، ایک انسان کی حیثیت سے  سب لوگوں کے  دکھ درد بانٹنا ہماری ذمہ داری ہے، مگر آپ کو یہ نہیں کہنا چاہئے  تھا کہ تمھیں مسلمان ہو نا پڑے  گا، اس کی پریشانی ختم ہو جائے  تو اسے  آخرت کی پریشانی سے  بچانے  کیلئے  دعوت دینا چاہئے، مولانا صاحب نے  کہا ہم دعا کریں گے، اللہ تعالی اس غریب کے  حال پر رحم فرمائے  اور مشورہ دیا ہمارے  ایک جاننے  والے  ڈاکٹر وی سی اگروال شنکر کلینک کے  نام سے  مظفر نگر میں کلینک چلاتے  ہیں، وہ شراب چھڑانے  کی دوا دیتے  ہیں، وہ میرے  پاس آئے  تھے  انھوں نے  مجھ سے  کہا، اگر کوئی دین کا نفع ہو تو میں دوا کے  پیسے  نہیں لوں گا، آپ ان سے  ملتے  چلے  جائیں، ان سے  میرا سلام کہیں اور میرا نام لے  کر دوا لے  آئیں، وہ کم پیسے  لیں گے، حافظ صاحب مظفر نگر گئے  ڈاکٹر صاحب مولانا کا نام سن کر بہت خوش ہوئے  اور پندرہ دن کی دوا دی اور بہت کوشش کے  باوجود دوا کے  پیسے  نہیں لئے  اور بولے  مولانا صاحب دین کا بڑا کام کر رہے  ہیں، کیا ہم ان کے  اتنے  کام بھی نہیں آ سکتے، حافظ صاحب نے  دوا لا کر میری بیوی کو دی اور بتایا کہ حضرت نے  دعا کرنے  کو کہا ہے  اور یہ دوا کھلانے  کو بھی کہا ہے، میری بیوی نے  چائے  دودھ میں وہ دوا دی، ۱۰/ روز میں میری شراب چھٹ گئی، یکم جنوری ۱۹۹۶ء کو حافظ صاحب مجھے  اور میری بیوی کو مولانا صاحب سے  ملوانے  سونی پت لے  کر گئے، وہاں ہر مہینے  کی پہلی تاریخ کو مولانا صاحب آتے  ہیں، بہت بھیڑ تھی بڑی مشکل سے  حضرت سے  الگ وقت لے  کر ہمیں ملوایا میری گھر والی حضرت کے  پاؤں پر گر گئی اور بولی حضرت جی آپ تو ہمارے  بھگوان ہیں، مولانا صاحب بہت پریشان ہوئے  اس کو اٹھوایا اور سمجھایاکہ بس بھگوان اور خدا تو وہ ہی ہے  جس نے  ہم سب کو پیدا کیا، اسی کا کرم ہے  کہ اس نے  آپ کو پریشانی سے  نکالا، مولانا صاحب نے  ہم سے  کہا، جس طرح شرابی کو نشہ میں اپنی خرابی اور برائی کا پتہ نہیں ہوتا، اسی طرح باپ دادوں سے  ملے  غلط راستوں میں بھی انسان کو اپنی برائی کا احساس نہیں ہوتا، شراب کی برائی سے  کروڑوں گنا برائی ہے  کہ اس اکیلے  مالک کے  علاوہ کسی کو بھگوان یا خدا سمجھنا یا کسی اور کی پوجا کرنا اور کسی کے  سامنے  اپنا ما تھا رکھنا، حافظ صاحب نے  کہا کہ یہ لوگ کلمہ پڑھنے  کے  لئے  آئے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ شراب اب تو چھٹ گئی، اب آپ کو ان کو شرابیوں کی سنگتی(صحبت) سے  بچانا ہے، اب اس کیلئے  کلمہ پڑھنے  کی ضرورت نہیں، حافظ صاحب نے  نا سمجھی میں کہہ دیا ہو گا کہ مسلمان ہونا پڑے  گا، البتہ اپنے  مالک کو راضی کرنے  اور مرنے  کے  بعد ہمیشہ کی نرک سے  بچنے  کے  لئے  اسلام لا کر مسلمان ہونا ضروری ہے  اور یہ فیصلہ انسان کو اندرسے  اپنی مرضی سے  کرنا چاہئے، وہ بولی، نہیں جی ہماری آتما کہتی ہے  کہ آپ کی بات سچی ہے، اب یہ اگر شراب نہ بھی چھوڑے، آپ ہمیں مسلمان بنا لو، حضرت صاحب نے  ہمیں کلمہ پڑھوایا، میرا نام علاء الدین رکھا، میری بیوی کا نام فاطمہ اور بیٹوں کا محمد علیم، محمد سلیم، محمد کلیم، محمد نعیم، محمد نسیم اور بیٹیوں کاشمیمہ، سارہ، ذکیہ، نام رکھ دئیے، میری بیوی کو مشورہ دیا کہ ان کو جماعت میں بھیج دو تو ان کو اللہ کا دھیان اور ڈر پیدا ہو جائے  گا پھر ان کو دوا دوبارہ پلانی نہیں پڑے  گی، اس نے  معلوم کیا کہ کتنا خرچہ ہو گا؟ مولانا صاحب نے  بتایا کہ خرچہ زیادہ نہیں ہو گا، ایک ہزار روپئے  کافی ہوں گے، میری بیوی نے  آٹھ سو روپئے  مولانا صاحب کو دئیے، اس کو آج ہی بھیج دو اور دو سو روپئے  کا اور انتظام کر دوں گی۔

  سوال  :جماعت میں کہاں آپ کا وقت لگا؟

 جواب  :پہلے  میں مولانا صاحب کے  ساتھ پھلت گیا، پھر میرٹھ جا کر کچہری میں سرٹیفکٹ بنوایا اور پھر مرکز نظام الدین سے  بہرائچ جماعت میں وقت لگایا، بہار کے  ایک مولانا صاحب امیر تھے، انھوں نے  مجھ پر بہت محنت کی اور ایک چلہ میں مجھے  پوری نماز یاد کرا دی، کھانے  سونے  کے  آداب اور جو چھ نمبر ہیں ان کو خوب اچھی طرح میں سنانے  لگا۔

  سوال  :اس کے  بعد آپ نے  گاؤں میں جا کر کیا کیا، آپ کے  خاندان کے  لوگوں نے  مخالفت نہیں کی؟

 جواب  :شروع شروع میں لوگ خوش تھے، روز یہاں پڑا ہے  وہاں پڑا ہے، اس سے  بچ گیا، مگر کچھ دنوں کے  بعد پریوار کنبہ والے  پریشان کرنے  لگے، حافظ صاحب کو ستانے  لگے، حضرت صاحب کے  مشورہ سے  ہم نے  گاؤں چھوڑ دیا ایک مدرسہ میں چو کی داری کی اور ایک پرچون کی دوکان کر لی، بچوں کو مدرسہ میں داخل کر دیا، میری بیوی نے  کچھ تو حافظ صاحب کی بیوی کے  پاس جا کر گاؤں میں نماز سیکھ لی تھی، اب یہاں اسے  پوری نماز یاد ہو گئی۔

  سوال  :آپ کے  بچوں کی تعلیم کا کیا ہوا؟

 جواب  :بچے  الحمد للہ حافظ ہو گئے  ہیں، ایک بچہ مولویت میں پڑھ رہا ہے، تین ابھی اسکول ہی میں ہیں اور لڑکیاں تینوں مولویت کے  مدرسہ میں حضرت صاحب کے  مشورہ سے  داخل کرا دی ہیں، میرا دوسرا بیٹا سلیم درمیان میں پڑھائی سے  بھاگ گیا، شیطان نے  اسے  بہکا دیا، میری بیوی کو سب سے  زیادہ اس سے  محبت ہے، وہ محبت میں پاگل سی ہو رہی تھی، میں نے  کئی لوگوں سے  تعویذ بھی منگایا کاندھلہ سے  کسوری بھی لکھوا کرلایا مگر نہ آیا، کسی نے  میری بیوی کو بتا دیا کہ اس کوتو تمھارے  خاندان والوں نے  مار دیا بس اسکا حال اور بھی زیادہ خراب ہو گیا، پریشان ہو کر میں حضرت صاحب کے  یہاں پھلت گیا، حضرت صاحب نے  کہا یہ تعویذ تو پرانے  کمزور اور بیمار مسلمانوں کیلئے  ہوتے  ہیں، میرے  بھائی آپ نئے  اور تازہ ایمان والے  ہیں یہ سوچ کر میرے  اللہ ہر چیز پر قادر ہیں اور وہ میری دعا ضرور سنیں گے، دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر دعا کیجئے، کہا کہ آپ کو جماعت میں نہیں بتایا گیا تھا کہ صحابہ دو رکعت پڑھ کر اپنے  اللہ سے  ہر کام کرا لیتے  تھے  میں نے  پھلت جامع مسجد میں جا کر عشاء کے  بعد دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور خوب دعا مانگی یا اللہ صحابہ کے  رب آپ ہی تھے  اور ہم گندوں کے  بھی آپ ہی رب ہیں اور دینے  والے  کرنے  والے  آپ ہی ہیں، لینے  والا ہی تو بدلا ہے، دینے   والے  تو آپ اپنی شان کی طرح ہمیشہ سے  ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمارے  بچے  کو خیریت سے  بھیج دیجئے  خوب رو رو کر دعا مانگی، میں تو اللہ میاں آپ سے  اپنے  بچے  کو بلوا کر رہوں گا، کبھی سجدے  میں پڑتا کبھی بیٹھ کر دعا کرتا، میرے  اللہ کو مجھ پر ترس آ گیا وہ توسننے  والا ہے  کوئی مانگنے  والا تو ہو، صبح آٹھ بجے  مولانا صاحب نے  بتایا کہ علاء الدین مبارک ہو تمھارے  گھر سے  فون آیا ہے، تمھارا بچہ سلیم تمھارے  گھر آ گیا ہے، میں نے  خوشی میں اپنی جیب کے  سارے  پیسے، ایک نابینا پھلت میں آیا ہوا تھا اس کو صدقہ کر دئیے  اور کرایہ ادھار لے کر گھر پہنچا، الحمد للہ بچہ موجود تھا، اس کے  بعد اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا اور اس نے  اس سال محراب سنائی، پورے  قرآن مجید میں سات غلطیاں آئیں، احمد بھائی مولانا صاحب، بس یہ میرے  اللہ کا کرم ہے، کہاں میں کافر اور میرے  بچے  حافظ ہو گئے، اب دوسری بچی سارہ کو بھی اس سال حفظ شروع کرا دیا ہے۔

  سوال  :اب آج کل آپ کہاں رہ رہے  ہیں ؟نندی گرام کا آپ ذکر کر رہے  تھے، وہاں کیوں رہ رہے  ہیں ؟

 جواب  :حضرت صاحب نے  مجھے  کلکتہ کے  ایک ٹھیکیدار کے  ساتھ کام پر لگا دیا تھا پہلے  تومیں مزدوری کرتا تھا، بعد میں اس نے  مجھے  اسٹور کیپر بنا دیا، نو مسلم ہونے  کی وجہ سے  وہ میرا بہت خیال رکھتے  ہیں، نندی گرام میں ایک فیکٹر ی کا انھوں نے  ٹھیکہ لیا مجھے  بھی وہاں لے  گئے   اللہ کا کرنا وہاں پر فساد ہو گیا، پچھلے  دنوں اخبار، ریڈیو، ٹی وی پر روز وہاں کے  جھگڑے  کی خبر تھی،  کتنے  لوگ پولس کی گولی سے  مارے  گئے، میں بہت پریشان ہوا، ایک سال سے  میری بد قسمتی کہ میں حضرت صاحب کو کوئی فون بھی نہ کر سکا حالانکہ میں سچے  دل سے  ان کا مرید ہوں، جب وہاں حالات زیادہ خراب ہوئے  اور ہم بہت پریشان ہوئے  تو میری بیوی نے  حضرت صاحب سے  دعا کرنے  کو کہا، میں نے  بہت کوشش کی ایک ہفتہ کے  بعد فون ملا مولانا صاحب سفر پر تھے  مولانا صاحب نے  کہا دو رکعت پڑھ کر صحابہ کی طرح دعا کو کیوں بھول گئے ؟ میں نے  کہا اجی میری دعا میں کیا رکھا ہے، آپ دعا کیجئے، حضرت صاحب نے  فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا، دینے  والا وہ اکیلا ہے  کیا تمھاری دعا اس نے  سنی نہیں، میں نے  کہا اچھا آج ہی دعا کروں گا میں نے  عشا کے  بعد پھر مسجد میں خوب دعا کی میرے  اللہ نے  سن لی، ایک دم ایسا امن ہو گیا کہ جیسے  کسی نے  پانی ڈال دیا ہو، میں نے  اپنے  ساتھیوں سے  کہہ دیا تھا کہ آج رات کو دعا کروں گا اور انشاء اللہ کل سے  حالات ٹھیک ہو جائیں گے  میں صحابہ کی طرح اپنے  اللہ سے  منواؤں گا، مانگنے  والا تو بدلا ہے  دینے  والا تو وہی ہے  جو صحابہ کی سنتا تھا، اس دن سے  سارے  ساتھی میری بہت عزت کرنے  لگے، میں نے  کہا بھی کہ میں نے  حضرت صاحب کا حکم سمجھ کر دعا کی ہے  ورنہ اصل میں تو حضرت صاحب نے  دعا کی ہے، میرا تو دعا پر یقین بنانے  کے  لئے  مولانا صاحب نے  مجھے  حکم کیا ہے، مولانا صاحب سے  میں نے  فون پر بتایا کہ اللہ نے  امن کر دیا اور ساتھی میرے  بہت معتقد ہو رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا اگر کچھ غیر مسلم بھی ہوں تو فائدہ اٹھاؤ وہ تمھاری بات محبت سے  سنیں گے، ان کو دوزخ سے  بچا کر ایمان میں لانے  کی فکر کرو میں نے  بات کرنی شروع کی اللہ کا شکر ہے  کہ چار مزدور، ایک راج (معمار ) اور ایک پلمبر مسلمان ہو گے  ہیں۔

  سوال   :نندی گرام میں تم نے  مستقل رہائش کر لی ہے ؟

 جواب  :میں نے  الحمد للہ ایک پلاٹ خرید لیا ہے، کچھ پیسے  جمع بھی کر لئے  ہیں، اللہ کو منظور ہو گا اور میری قسمت میں وہاں کا دانہ پانی ہو گا تو اللہ گھر بھی بنوا دیں گے۔

  سوال   :جماعت کا کام بھی وہاں کرتے  ہو یا نہیں ؟

 جواب   :الحمد للہ تین دن تو مہینے  کے  میں ضرور لگاتا ہوں، چلہ تو ہر سال نہیں لگ پاتا روزانہ کی تعلیم اور مسجد کا گشت یہاں میں نے  شروع کر دیا ہے  اور لوگ جڑ رہے  ہیں۔

  سوال  :ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ خاص بات، کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

 جواب  :احمد بھائی مولانا صاحب، پوری دنیا ہدایت کی پیاسی ہے، مجھ گندے  کو دیکھیں، شراب جیسی نجس چیز ہی میری ہدایت کا ذریعہ بن گئی، ہمیں اپنے  نبی کا امتی ہونے  کا حق ادا کرنا چاہئے، ساری دنیا کے  انسان ہمارے  نبی  ﷺ کے  امتی ہیں، ان کو غیر سمجھ کر ہم نے  ان تک دین نہیں پہنچایا، یہ بہت بڑا ظلم ہے، مسلمان کو ظالم نہیں ہو نا چاہئے، ان تک ان کی امانت نہ پہنچانا بہت بڑا ظلم ہے  ہمیں اپنی سی کوشش لوگوں کو دوزخ سے  بچانے  کی ضرور کرنی چاہئے۔

  سوال  :بہت بہت شکریہ علاء الدین بھائی، السلام علیکم

 جواب  :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ، احمد بھائی مولانا صاحب۔

  اللہ حافظ۔

                                    مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جنوری  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

   جناب محمد اکبر {جتیندر کمار} سے  ایک ملاقات

         احمد اوّاہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اکبر   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   : بھائی محمد اکبر میرا نام احمد ہے، میں حضرت کا بیٹا ہوں ہمارے  یہاں سے  ایک ماہنامہ نکلتا ہے، یہ ارمغان کے  نام سے  ایک اردو میگزین ہے، اس میں اسلام قبول کرنے  والے  نئے  بھائیوں کے  قبول اسلام کی کہانیاں چھاپی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں میں اپنے  ان بھائیوں کی فکر پیدا ہو جو مسلمان نہیں ہوئے  اور جو چتاؤں کی آگ کے  راستے  سے  نرک کی طرف جا رہے  ہیں اور دوسرے  غیر ایمان والے  بھائیوں کے  لئے  بھی اسلام کی طرف آنے  کا ذریعہ بنے، مجھے  ابی نے  آپ کے  پاس بھیجا ہے  کہ میں آپ سے  انٹرویو لوں، کیا آپ اس وقت کچھ باتیں بتائیں گے ؟

 جواب   :بھائی احمد صاحب ! آپ شاید مولانا صاحب ہیں، مجھے  معاف رکھئے، ایک تو میں اس لائق کہاں ابھی مجھے  مسلمان ہوئے  چند دن ہوئے  ہیں، مجھے  تو ابھی اس میں بھی شک ہے  کہ میں مسلمان ہو بھی گیا ہوں یا نہیں، دوسری بات یہ ہے  کہ اب میں نے  اپنے  آپ کو حضرت کو سونپ دیا ہے، دس دن پھلت رہنے  کے  بعد کل اللہ نے  کرم کیا کہ ملاقات ہوئی، ایک روز سرسری ملاقات ہوئی تھی، حضرت نے  مجھ سے  کہا تھا، آپ کو سب سے  پہلے  جماعت میں جانا ہے، اس کے  علاوہ کچھ سوچنا بھی نہیں، اب میں حضرت کا حکم مانوں گا، پہلے  جماعت میں جاؤں گا پھر کچھ اسلام بھی میرے  اندر آ جائے  گا، شاید کچھ ایمان بھی بن جائے، تب آنے  کے  بعد آپ مجھ سے  معلومات کر لیجئے۔

  سوال   : نہیں نہیں !کبر بھائی! میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں، ابی نے  ہی مجھے  بھیجا ہے، میں آپ سے  جھوٹ نہیں بول رہا ہوں ؟

  جواب   : نہیں مولانا احمد بھائی مجھے  معاف کریں، میرے  حضرت مجھے  کہیں، تو میں آپ سے  کچھ کہہ سکتا ہوں۔

   سوال   : اچھا میں فون پر بات کروا دوں ؟

 جواب   : جی اچھا، حضرت سے  اجازت دلوا دو (فون کرتے  ہیں تو فون بند ملتا ہے ) اچھا مولانا وصی صاحب سے  بات کروا دوں ؟ آپ ان پر تو یقین کریں گے، ہاں وہ ہی تو حضرت سے  ملوانے  گئے  تھے، ٹھیک ہے  ان سے  بات کروا دیں، مولانا وصی صاحب کا فون مل جاتا ہے، مولانا صاحب آپ نے  مجھے  اکبر کا انٹرویو لینے  کے  لے  بھیجا تھا مگر یہ منع کر رہے  ہیں، آپ ذرا ان سے  بات کر لیجئے۔

  جواب  :  جی مولانا صاحب، حضرت نے  ہمیں کہا تھا پہلے  جماعت میں جانا، اس سے  پہلے  کچھ سوچنا بھی نہیں، اب ہم حضرت کے  حکم کے  بغیر کیسے  کچھ کریں ؟

  سوال   : حضرت سے  بات ہو گئی تھی، ان کو حضرت نے  ہی بھیجا ہے، آپ ان کو انٹرویو دے دیں، میں ذمہ دار ہوں۔

  جواب   : جی اچھا۔

  سوال   :  :مولانا دیکھئے  برا مت مانئے  گا، جب آدمی نے  اپنے  آپ کو کسی کے  سپرد کر دیا تو مکمل سپرد کرنا چاہئے، اس سے  اللہ اور اس کے  رسول کے  حکم کے  سامنے  ارپن کرنا(سپردکرنا) آئے  گا، اب آپ بتائیے  کیا معلوم کرنا چاہتے  ہیں ؟

  سوال   : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

 جواب   : میرا نام جتندر کمار تھا، میں لکھنو کے  قریب یوپی کے  ہردوئی ضلع کے  ایک گاؤں میں ۲۲/ سال پہلے  پیدا ہوا، میرے  والد کسان تھے، ابتدائی تعلیم اسکول میں ہوئی، ہائی اسکول کیا، انٹر مکمل کرنے  سے  پہلے  تعلیم چھوڑ دی، میرے  بھائی بہن اور بڑا خاندان ہے۔

  سوال   : اپنے  قبول اسلام کا واقعہ ذرا تفصیل سے  سنائیے ؟

 جواب  : ہمارے  قصبہ اور علاقہ میں مسلمان ہیں مگر نام کے  اور بدعتی اکثر ہیں، لیکن کچھ مسجدوں میں تبلیغ کا کام ہوتا ہے، وہاں مسجد میں جب نماز ہوتی تو صبح اور رات کو امام صاحب زور زور سے  قرآن مجید پڑھتے  تھے، میں ایک روز مسجد کے  پاس سے  گزر رہا تھا تو مجھے  قرآن کی آواز آئی، آواز اتنی اچھی تھی کہ میں دروازے  کے  باہر  کھڑا ہو گیا، دیر تک سنتا رہا، صبح کو گھر سے  جب اپنے  گھر کی طرف جاتا تھا تو صبح کو امام صاحب لمبی نماز پڑھاتے، قرآن کی آواز میرے  دل کو بہت چھو تی تھی، کئی بار میری آنکھوں سے  آنسو بہتے  تھے، میرے  دل میں اندر سے  کوئی کہتا تھا کہ یہ کس قدر سچا کلام ہے، جو دل پر اتنا اثر کرتا ہے، بغیر سمجھے  اس کا جب اتنا اثر ہے  تو یہ مسلمان جب سمجھتے  ہوں گے  تو ان پرکیا حال ہوتا ہو گا، ہماری مسجد میں جماعت والے  گشت کرتے  تھے، میں نے  ایک حافظ صاحب کو گشت میں روکا اور کہا کہ حافظ صاحب جماعت کا کام تو بہت پرانا ہے، یہ تو حضرت محمد صاحب (ﷺ )کے  زمانے  سے  ہے، کیا حضرت محمد صاحب منھ دیکھ کر بلاتے  تھے  اور اسلام کی بات بتاتے  تھے  کہ مسلمان کو دیتے  ہوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کو یا وہاں یہودی ہوتے  ان کو نہ دیتے  ہوں، ہمارے  مسلمان ساتھی تو یہ کہتے  ہیں کہ اس وقت شروع میں تو کوئی مسلمان تھا ہی نہیں، تو حضرت محمد صاحب تو عیسائیوں اور یہودیوں کو ہی دعوت دیتے  ہوں گے۔آپ ہندوؤں کو کیوں مسجد کی طرف نہیں بلاتے  اور انھیں اسلام کے  بارے  میں کیوں نہیں بتاتے، میں روزانہ قرآن سنتا ہوں تو محبت میں پاگل سا ہو جاتا ہوں، بغیر جانے  اور سمجھے  جب اس میں اتنا اثر ہے  اور آنند (مزہ)آتا ہے  تو سمجھ کر مجھے  کتنا مزہ آئے  گا، وہ بولے  ابھی اصل میں مسلمان ہی بگڑے  ہوئے  ہیں، ہم پہلے  ان کو تو سنوار لیں، ہمارے  بڑوں کی طرف سے  اجازت نہیں ہے، ہاں ہندوستان کے  باہر جماعت والے   مسلمانوں کے  علاوہ سب کو بھی دعوت دیتے  ہیں، میں نے  ان سے  کہا کہ کام تو ہمارے  دیش نظام الدین سے  چل رہا ہے، مگر ہمارے  دیش کے  ہندو تو محروم اور باہر دیش کے  لوگ فائدہ اٹھائیں، اللہ کے  سامنے  جب  جاؤ  گے  تو کیا وہاں یہ سوال ہو گا کہ ہندوستان کے  بڑوں کا کہنا کیوں نہیں مانا، یا یہ سوال ہو گا کہ حضرت محمد ﷺ کی طرح سب کو دعوت کیوں نہیں دی۔

  سوال   : آپ کو یہ بات کیسے  معلوم تھی کہ یہ کام حضرت محمد ﷺ نے  کیا اور ان کے  زمانے  میں کوئی مسلمان نہیں تھا اور یہ کام نظام الدین سے  شروع ہوا؟

 جواب   : اصل میں ہمارے  گھر کے  پاس مسجد میں جماعت کا کام ہوتا ہے، ہمارے  پڑوس میں کئی لوگ جماعت سے  جڑے  ہوئے  ہیں، سب سے  زیادہ میرا اسکول کا ایک ساتھی ہے  صدام، وہ جماعت میں لگ گیا ہے  اس نے  داڑھی بھی رکھ لی ہے، اس سے  میری بہت پکی دوستی ہے، اس سے  میں ہر وقت اسلام اور جماعت کے  بارے  میں پوچھتا رہتا ہوں، جب اسے  کوئی بات نہ آتی  تو حافظ جی سے  ملواتا تھا۔

  سوال  : کیا وہ آپ کے  سب سوالوں کا جواب دے دیتے  تھے ؟

 جواب  : وہ سب سوالوں کا جواب نہیں دے  پاتے  تھے  بلکہ ان کے  جواب سے  میرے  دل میں اور سوال کھڑے  ہوتے  تھے، میں نے  ایک بار صدام کو گشت کرتے  ہوئے  پکڑ لیا، لکھنو سے  جماعت آئی ہو ئی تھی، امیر صاحب بھی گشت میں تھے، میں نے  ان سے  کہا آپ لوگ صورت دیکھ کر صرف مسلمانوں کو کیوں دعوت دیتے  ہو؟ یہ بات ہزاروں ہندو بھائیوں کو کیوں نہیں بتاتے  ہو، امیر صاحب نے  جواب میں کہا کہ ابھی مسلمان ہی بہت بگڑے  ہوئے  ہیں، پہلے  ہم ان کو سنوار دیں، میں نے  کہا کہ جب اللہ کے  سامنے  مرنے  کے  بعد کھڑا ہونا پڑے  گاتو ہم اللہ سے  کہہ دیں گے  :مالک !  یا تو آپ ہمیں اپنے  محبوب نبی کے  زمانے  میں پیدا کرتے، نہیں تو پھر آپ ہمارے  ساتھیوں کو پکڑیں، یہ صدام اور جماعت والے  ہمارے  ساتھ رہتے  ہیں، ہمارے  محلہ میں تبلیغ کا کام کرتے  ہیں مگر ہمیں نہیں بتاتے، ہماری کیا خطا؟جب آپ نے  ہمارے  لئے  بتانے  والوں کا انتظام نہیں کیا۔ ہمیں یقین ہے  یا تو آپ ہمیں اسلام کے  بارے  میں بتائیے، ورنہ اللہ ہمارے  بدلے  آپ کو پکڑیں گے، امیر صاحب مولانا صاحب تھے، انھوں نے  کہا، اس کے  لئے  ہمارے  دوسری جماعت والے  کام کر رہے  ہیں، آپ ایسا کریں موقع لگا کر پھلت چلے  جائیں، وہاں پر مولانا وصی صاحب اسی ضلع کے  رہنے  والے  ہیں، مدرسے  جا کر ان سے  مل لیں، وہ آپ کو مولانا کلیم صاحب سے  ملوا دیں گے، میں نے  ان سے  پتہ معلوم کیا اور اگلے  روز ماتا پتا سے  کہہ کر کہ ہم جماعت میں جا رہے  ہیں  چلا آیا۔

  سوال   : کیا ان کو معلوم تھا کہ آپ مسلمان ہو نے  کے  لئے  جا رہے  ہیں ؟

 جواب  :  نہیں ان کو معلوم نہیں ہے  کہ جماعت کیا ہو تی ہے، البتہ وہ سمجھتے  ہیں یہ کوئی بھلا کام ہے، یہ لوگ نماز کی طرف مسلمانوں کو بلاتے  ہیں۔

  سوال   :  اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب : میں پھلت آیا، مولانا وصی صاحب سے  ملا، مولانا نے  مجھے ’’ آپ کی امانت‘‘ کتاب دی، وہ میں نے  چار دفعہ پڑھی اتفاق سے  حضرت مولانا کلیم صاحب، شام کو دیر میں باہر سے  آ گئے، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور قاری صاحب کو بلا کر سپرد کیا کہ ان کو نماز اور قاعدہ وغیرہ پڑھاؤ، میں نے  پڑھنا شروع کیا، الحمد للہ ۱۵/ دن میں قاعدہ پڑھ لیا، نماز یا د کر لی۔

حضرت کے  لگاتار سفر کی وجہ سے  میں شدت سے  ان سے  ملنے  کے  لئے  بے  چین تھا، میں نے  محسوس کیا کہ حضرت سے  ملنے  کے  لئے  وہاں رہنے  والے  سبھی لوگ ایسا انتظار کرتے  ہیں جیسے  جانور اپنے  چارہ ڈالنے  والے  مالک کا، خانقاہ میں رہنے  والے  سبھی مسلمانوں کا حال یہی دیکھا، کتنی مشکل سے  کوئی پہنچا، کسی نے  بے  عزت کر دیا، کسی نے  مارکھائی، مگر حضرت سے  مل کرجیسے  دھوپ سے  چھاؤں میں آ گیا ہو، چاہے  مہینوں میں ملاقات ہو مگر ایک ملاقات کے  بعد جیسے  سارے  زخموں پر مرہم نہیں، سارے  زخم ٹھیک ہو گئے  ہوں، ہر آدمی حضرت کے  بارے  میں یہ سوچتا ہے  کہ مجھ سے  زیادہ کسی کو نہیں چاہتے، دو ہفتوں کے  بعد حضرت پھلت آئے، اندر ایک ایک کو بلایا مجھ سے  حال پو چھا، گلے  لگایا دوبار گلے  لگایا اور جماعت میں جانے  کا پروگرام بنایا، صبح کو میں نے  قانونی کاغذات بنوائے، وکیل نے  مجھ سے  پو چھا تمھا را اسلامی نام کیا ہے ؟ حضرت نے  تو بتایا تھا کہ نام بدلناکچھ ضروری نہیں، ہمارے  نبی ﷺ سب کے  نام نہیں بدلتے  تھے، تم بدلنا چاہو تو جو نام تمھیں اچھا لگے  رکھ لینا، میں نے  وکیل صاحب سے  کہا مجھے  اذان میں اللہ اکبر بہت اچھا لگتا ہے، کیا محمد اکبر میرا نام ہو سکتا ہے، انھوں نے  کہا مسلمانوں کا نام محمد اکبر ہو تا ہے، اکبر بادشاہ کا نام تو آپ نے  سنا ہو گا، میں نے  کہا تو بس اذان سے  نام ہو جائے  گا، موذن سب کو نماز کے  لئے  بلاتا ہے، اسی دعوت میں میرا نام آیا کرے  گا، آپ میرا نام محمد اکبر رکھ دو۔

  سوال   : آپ نے  آنے  کے  بعد گھر فون نہیں کیا ؟

 جواب  : اصل میں حضرت نے  بھی فون پر ماں سے  بات کرنے  اور تسلی دینے  کے  لئے  کہا تھا، مگر مجھے  ڈر لگا کہ ابھی میرا ایمان کمزور ہے  اور مجھے  اپنی ماں سے  بے  حد محبت ہے، کہیں میں اپنی ماں سے  بات کروں وہ رونے  لگیں میرا دل پگھل جائے  اور میرا من جانے  کو چاہنے  لگے  اور پھر وہاں جا کر ایمان خطرے  میں پڑجائے، اس لئے  بہت یاد آنے  کے  باوجود میں نے  اپنی ماں کو فون نہیں کیا، اب جماعت میں سے  آ جاؤں گا، تو پھر گھر جا کر مجھے  سب گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینی ہے۔

   سوال  : آپ کیا سمجھتے  ہیں کہ وہ آپ کی مخالفت نہیں کریں گے  اور آپ پر مشکل نہیں آ جائے  گی؟

  جو اب : زیادہ امید تو نہیں ہے، میرے  گھر والے  بہت اچھے  لوگ ہیں، اسلام سے  محبت بھی رکھتے  ہیں، پھر میں شروع میں ان کو حضرت کی کتاب’’ آپ کی امانت‘‘ پڑھوا دوں گا، میں جا کر ایک ہزار چھپوا لوں گا، یہ کتاب ایسی محبت بھری، دل اور دماغ کو چھونے  والی ہے  کہ سچے  من سے  آدمی اس کو پڑھ لے  تو مسلمان ہونے  کے  لئے  انکار کرنے  کو اسے  سوبار سوچنا پڑے  گا، مجھے  امید ہے  گھر والے  اسلام میں ضرور آ جائیں گے  اور اگر مخالفت ہو گی تو ہوا کرے، ہمارے  قاری صاحب نے  ہمیں صحابہ کے  قصے  سنائے، میں نے  فضائل اعمال ہندی میں پڑھی ہیں، جب ہمارے  صحابہ نے  قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی دیں گے  اس راہ میں اگر جان بھی چلی گئی تو پھر جان کی قیمت بن جائے  گی مرنا تو ہے  ہی، ایک تو مفت میں جان دینا ہے  اور ایک ہے  جان کی قیمت بنا لینا وہ بھی جنت میں جانے  کے  لئے  اور پیارے  نبی سے  ملنے  کے  لئے، میں جب اپنے  اندر سے  ٹٹولتا اور تولتا ہوں میرا دل یہ کہتا ہے  کہ اکبر !اللہ کی محبت میں، دعوت کی راہ میں، اللہ کے  بندوں کو دوزخ سے  بچانے  کے  غم میں جان دینا، یوں ہی مرنے   سے  کتنا اچھا لگے  گا اور کتنا مزا آئے  گا۔

  سوال   : ماشاء اللہ، اللہ تعالی ہمیں بھی یہ جذبہ عطا فرمائیں ؟

 جواب  :مولانا احمد صاحب اصل بات یہ ہے  کہ ہم ہی ڈرتے  ہیں ورنہ پوری دنیا پیاسی ہے، ہمارے  علاقہ میں بس حضرت مولانا کے  جاننے  والے  دو تین لوگ ہیں جو لوگوں کو کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں، ۲۵/ لوگ ہمارے  علاقے  میں پچھلے  سال سے  اب تک کلمہ پڑھ چکے  ہیں، مگر سینکڑوں تیار ہیں، یہ لوگ بھی ذرا ڈر ڈر کر کلمہ پڑھواتے  ہیں، اکثر تو پھلت جانے  کے  لئے  ہی کہتے  ہیں، ہمارے  علاقہ میں اکثر لوگ بدعتی اور قبر پرست ہیں نماز تک نہیں پڑھتے۔

  سوال   : آپ کو یہ کیسے  معلوم ہوا کہ یہ بدعت غلط چیز ہے ؟

 جواب  :یہ چیز آدمی کو اپنی عقل سے  بھی غلط لگتی ہے، اللہ کے  علاوہ کسی کو نہ پوجنا تو اسلام ہے، اب قبر کو پوجنا کیسے  صحیح ہو جائے  گا، میں تو بدعتی مسلمانوں سے  کہتا تھا، تم میں ہم میں کیا فرق ہے، ہم تم سے  پھر بھی صحیح ہیں کہ ہمارے  سامنے  وہ دِکھ رہا ہے، تم جس قبر والے  کو پوج رہے  ہو، تو کیا خبر وہ آدمی کی قبر ہے  یا گھوڑے  کی، لکھنو میں ایک گھوڑے  شاہ پیر تھے، بہت دنوں تک اس کا عرس ہوتا رہا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی نواب کا گھوڑا تھا، یہ تو میں ان سے  کہتا ہوں تم سے  ہم صحیح ہیں، مگر ظاہر ہے  مورتی پوجا کس طرح صحیح ہو سکتی ہے، جس کو ہم نے  ہاتھوں سے  بنایا تو ہم بنانے  والے  ہوئے، وہ خود ہماری پوجا کرے، بنانے  والے  کی پوجا کی جاتی ہے، میں اسلام لانے  سے  پہلے  بھی اپنے  ہندو بھائیوں سے  کہتا تھا کہ وہ بھگوان کیسا بھگوان ہے  جو شرم گاہ کی پوجا کروانے  کو کہے، عقل پر پردے  پڑ جاتے  ہیں، ورنہ ذرا آدمی عقل پر زور ڈالے  تو اس اکیلے  کے  علاوہ کون پوجا کے  لائق ہو سکتا ہے۔

  سوال   : اسلام میں آ کر آپ کیسا محسوس کر رہے  ہیں، آپ کو اسلام کی کیا بات اچھی لگی؟

 جواب  :اسلام کی کون سی ایسی بات ہے  جو اچھی نہ لگے، ہمارے  نبی ﷺ کی تو چھوٹی سے  چھوٹی سنت بھی ایسی نہیں کہ آدمی اس پر غور کر لے  اور صرف اسی کو دیکھ کر مسلمان نہ ہو جائے، سب سے  بڑی بات یہ ہے  کہ اسلام پوری زندگی گزارنے  کا مکمل طریقہ ہے، یہ نہیں کہ دھرم کو مندر تک رکھا جائے  اور اپنے  کاروبار، پریوار میں من مانی کرے، بلکہ اسلام نے  پوری زندگی گزارنے  کا طریقہ بتایا ہے  اور طریقہ بھی ایساپیاراکہ بس آدمی دیوانہ ہو جائے۔

  سوال   : ماشاء اللہ، اللہ نے  آپ کے  لئے  خاص ہدایت کے  دروازے  کھول دئیے  ہیں، جماعت سے  آنے  کے  بعد آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

 جواب   : جماعت سے  واپس آنے  کے  بعد میرا ارادہ اپنے  گھر جا کر کام کرنے  کاہے، میرا ارادہ مسلمانوں میں بھی کام کر نے  کاہے، خصوصاً بدعتی مسلمانوں میں کام کرنے  کاہے  اور پھر اپنے  ہندو بھائیوں میں کام کرنے  کا، ہمارے  علاقہ میں بہت بھولے  اور سچے  لوگ ہیں، دو چار جیالے  بس اپنے  کو کچھ دنوں کے  لئے  کھپا دیں، تو بس پورا علاقہ دوزخ سے  بچ جائے  گا، ابھی کچھ روز پہلے  ہمارے  علاقے  میں ایک لالہ جی اسلام میں آئے  تھے، انھوں نے  رام مندر بنانے  اور بابری مسجد شہید کرنے  میں ۲۵/ لاکھ روپئے  اپنی جیب سے  خرچ کئے، اللہ کو ان پر ترس آ گیا، شاید وہ رام مندر کو اللہ کی رضا کا ذریعہ سمجھ کر بنوانے  کی کوشش کر رہے  تھے، اللہ کو ان پر پیار آ گیا، ان کا اکیلا جوان بیٹا اکسیڈنٹ میں مرگیا، دوکان میں آگ لگ گئی خود بھی بیمار رہنے  لگے۔

  سوال   : آپ اس کو اللہ کا پیار کہہ رہے  ہیں ؟

 جواب  :جی مولانا احمد صاحب، ان حادثوں سے  دل میں خیال آیا کچھ غلطی ہوئی ہے، تو دل میں آیا کہ مالک کا گھر ڈھایا ہے  اسلام پڑھنا شروع کیا، مسلمان ہونا چاہتے  تھے  لوگ ڈر کی وجہ سے  ان سے  ملتے  نہیں تھے، کلمہ پڑھوانے  کو تیار نہیں تھے، حضرت مولانا کلیم صدیقی نے  ایک ساتھی کو بھیجا، کلمہ پڑھوایا، ایک مسجد بنوا رہے  ہیں، اس کے  ساتھ مدرسہ بھی، مولانا احمد صاحب ایک بیٹا اور کچھ مال اور صحت گنوا کر ایمان آ گیا تو اس کو آپ اللہ کا پیار کہیں گے  یا اللہ کا غضب۔

  سوال   : واقعی آپ صحیح کہتے  ہیں۔

 جواب  :مجھ سے  کئی مسلمان بھائیوں نے  کہا کہ تو گھر بار چھوڑ کر کیوں جا رہا ہے ؟ میں نے  جواب دیا دھوکے  کا گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے  جنت کے  محل خریدنے  جا رہا ہوں اور شاید میں گھر بار نہ چھوڑتا تو مجھے  ایمان نہ ملتا، میرا گھربار چھڑانا اللہ کی رحمت ہے  پیار ہے  یا غصہ؟

  سوال  :  بلاشبہ۔ جزاکم اللہ، مسلمانوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے۔

 جواب  :ہم کیا پیغام دے  سکتے  ہیں، ہم تو چھٹ بھیّے  ہیں، ہمیں تو اپنے  ایمان میں بھی شک ہے، ہاں اتنا ضرور کہتے  ہیں کہ مرنے  سے  پہلے  اپنے  علاقہ کے  غیر مسلم بھائیوں کی فکر کریں ورنہ وہ حشر کے  میدان میں پکڑیں گے  ضرور، وہاں آپ پھنسیں گے، یہ سمجھنا کہ اسلام کون لائے  گا، کل شام پنجاب کے  ایک صاحب کا فون آیا تھا حضرت کے  پاس، ایک صاحب جو سکھ تھے  مسلمان ہوئے، وہ ان کو حضرت سے  دوبارہ کلمہ پڑھوا رہے  تھے، حضرت نے  بتایا کہ کہہ ر ہے  ہیں اس ہفتہ میں یہ سردار جی چالیسویں آدمی ہیں جنھوں نے  میرے  ہاتھ پر کلمہ پڑھا ہے، ایک ہفتہ میں ایک  ایک آدمی چالیس کو کلمہ پڑھوا دے  تو چند مہینوں میں دنیا کا حال کیا ہو جائے  گا اور میرے  لئے  اور میرے  خاندان کے  لئے  دعا کریں، خاص طور پر بس ایمان باقی رہے  اور میں ڈھل مل نہ ہو جاؤں، اس کی خاص دعا کی آپ سے  درخواست ہے۔

  سوال   : بہت بہت شکریہ اکبر بھائی  السلام علیکم

        جواب  :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

                                                مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

جناب سیٹھ محمد عمر {رام جی لال گپتا} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد عمر     :  مولوی صاحب وعلیکم السلام

  سوال  :سیٹھ صاحب، دو تین مہینے  سے  ابی آپ کا بہت ذکر کر رہے  ہیں، اپنی تقریروں میں آپ کا ذکر کرتے  ہیں اور مسلمانوں کو ڈراتے  ہیں کہ اللہ تعالی اپنے  بندوں کی ہدایت کے  لئے  ہر چیز سے  کام لینے  پر قادر ہیں۔

 جواب   : مولوی صاحب، حضرت صاحب بالکل سچ کہتے  ہیں، میری زندگی خود اللہ کی دیا و کرم کی کھلی نشانی ہے، کہاں مجھ جیسا خدا اور خدا کے  گھر کا دشمن اور کہاں میرے  مالک کا مجھ پر کرم، کاش کچھ پہلے  میری حضرت صاحب یا حضرت صاحب کے  کسی آدمی سے  ملاقات ہو جاتی تو میرا لاڈلا بیٹا ایمان کے  بغیر نہ مرتا، (رونے  لگتے  ہیں اور بہت دیر تک روتے  رہتے  ہیں، روتے  ہوئے ) مجھے  کتنا سمجھا تا تھا اور مسلمانوں سے  کیسا تعلق رکھتا تھا وہ اور ایمان کے  بغیر مجھے  بڑھاپے  میں اپنی موت کا غم دے  کر چلا گیا۔

  سوال  :سیٹھ صاحب، پہلے  آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیے ؟

 جواب   : میں لکھنو کے  قریب ایک قصبے  کے  تاجر خاندان میں پہلی بار اب سے  ۶۹/ سال پہلے  ۶/ دسمبر ۱۹۳۹ ء میں پیدا ہوا، گپتا ہماری گوت ہے، میرے  پتاجی کرانہ کی تھوک کی دکان کرتے  تھے، ہماری چھٹی پیڑھی سے  ہر ایک کے  یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے، میں اپنے  پتاجی کا اکیلا بیٹا تھا، نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا، میرا نام رام جی لال گپتا میرے  پتاجی نے  رکھا۔

  سوال  :پہلی مرتبہ ۶/ دسمبر کو پیدا ہوئے  توکیا مطلب ہے ؟

 جواب   : اب دوبارہ اصل میں اسی سال ۲۲/ جنوری کو چند مہینے  پہلے  میں نے  دوبارہ جنم لیا اور سچی بات یہ ہے  کہ پیدا تو میں ابھی ہوا، پہلے  جیون کو اگر گنیں ہی نہیں تو اچھا ہے، وہ تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

  سوال  :جی !  تو آ پ خاندانی تعارف کرا رہے  تھے ؟

 جواب   : گھر کا ماحول بہت دھارمک(مذہبی) تھا، ہمارے  پتاجی ضلع کے  بی جے  پی، جو پہلے  جن سنگھ تھی، کے  ذمہ دار تھے، اس کی وجہ سے  اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے  گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے  گھٹی میں پڑی تھی، ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے  سے  لے  کر بابری مسجد کی شہادت کے  گھناؤنے  جرم تک میں اس پوری تحریک میں آخری درجہ کے  جنون کے  ساتھ شریک رہا، میری شادی ایک بہت بھلے  اور سیکولر خاندان میں ہوئی، میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے  ان کے  گھر والوں کے  بالکل گھریلو تعلقات تھے، میری بارات گئی، تو سارے  کھانے  اور شادی کا انتظام ہمارے  سسر کے  ایک دوست خاں صاحب نے  کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے  وہاں انتظام میں تھے  جو ہم لوگوں کو بہت برا لگاتھا اور میں نے  ایک بار تو کھانا کھانے  سے  انکار کر دیا تھا کہ کھانے  میں ان مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے  ہم نہیں کھائیں گے  مگر بعد میں میرے  پتاجی کے  ایک دوست تھے  پنڈت جی، انھوں نے  سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے  کہ مسلمانوں کے  ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہئے، بڑی کراہیت کے  ساتھ بات نہ بڑھانے  کے  لئے  میں نے  کھانا کھا لیا،  ۱۹۵۲ء میں میری شادی ہوئی تھی، نو سال تک ہمارے  کوئی اولاد نہیں ہوئی، نو سال کے  بعد مالک نے   ۱۹۶۱ء  میں ایک بیٹا دیا، اس کا نام میں نے  یوگیش رکھا، اس کو میں نے  پڑھایا اور اچھے  سے  اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے  کہ پارٹی اور قوم کے  نام اس کو ارپِت(وقف)کروں گا، اس کو سماج شاستر میں پی ایچ ڈی کرایا، شروع سے  آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے  اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے  مقابلے  مسلمانوں کی طرف مائل رہتا، فرقہ وارانہ مزاج سے  اس کو الرجی تھی، مجھ سے  بہت ادب کرنے  کے  باوجود اس سلسلہ میں بحث کر لیتا تھا، دو بار وہ ایک ایک ہفتہ کے  لئے  میرے  رام مندر تحریک میں جڑنے  اور اس پر خر چ کرنے  سے  ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا، اس کی ماں نے  فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں ذرا تفصیل سے  بتائیے ؟

 جواب   : مسلمانوں کو میں اس ملک پر آ کرمن (قبضہ)کرنے  والا مانتا تھا، یا پھر مجھے  رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنانے  کی وجہ سے  بہت چڑھ تھی اور میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے  لئے  میں نے  تن، من، دھن سب کچھ لگایا، ۸۷ئسے  لے  کر۲۰۰۵ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے  والے   کارسیوکوں پروشو ہندو پریشد کو چندہ میں کل ملا کر ۲۵/ لاکھ روپئے  اپنی ذاتی کمائی سے  خرچ کئے، میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے  تھے، یوگیش کہتا تھا اس دیش پر تین طرح کے  لوگ آ کر باہر سے  راج کرتے  آئے، ایک تو آرین آئے  انھوں نے  اس دیش میں آ کر ظلم کیا، یہاں کے  شودروں کو داس بنایا اور اپنی ساکھ بنائی، دیش کے  لئے  کوئی کام نہیں کیا، آخری درجہ میں اتیاچار (ظلم)کئے، کتنے  لوگوں کو موت کے  گھاٹ اتارا، تیسرے  انگریز آئے  انھوں نے  بھی یہاں کے  لوگوں کو غلام بنایا، یہاں کا سونا، چاندی، ہیرے  انگلینڈ لے  گئے، حد درجہ اتیاچار کئے، کتنے  لوگوں کو مارا قتل کیا، کتنے  لوگوں کو پھانسی لگائی۔

دوسرے  نمبرپرمسلمان آئے، انھوں نے  اس دیش کو اپنا دیش سمجھ کر یہاں لال قلعے  بنائے، تاج محل جیسا دیش کے  گورو کا پاتر(قابل فخر عمارت)بنائی، یہاں کے  لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا، بولناسکھایا، یہاں پر سڑکیں بنوائیں، سرائیں بنوائیں، خسرہ کھتونی   ڈاک کا نظام اور آپ پاشی کا نظام بنایا، نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے  ایک بڑا بھارت بنایا، ایک ہزار سال الپ سنکھیا (اقلیت)میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی، وہ مجھے  تاریخ کے  حوالوں سے  مسلمان بادشاہوں کے  انصاف کے  قصے  دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی وہ نہ بدلی۔

۳۰/دسمبر ۱۹۹۰ء میں بھی میں نے  بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء میں تو میں خود ایودھیا گیا، میرے  ذمہ ایک پوری ٹیم کی کمان تھی، بابری مسجد شہید ہوئی تو میں نے  گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی، میرا بیٹا یوگیش گھر سے  ناراض ہو کر چلا گیا، میں نے  خوب دھوم دھام سے  جیت کی تقریب منائی، رام مندر کے  بنانے  کے  لئے  دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے  ایک عجیب سا ڈر میرے  دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے  والی ہے، ۶/ دسمبر ۱۹۹۳ء آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے  پر تھے  بجلی کا تار شارٹ ہونے  سے  دونوں میں آگ لگ گئی اور تقریباً دس لاکھ روپئے  سے  زیادہ کا مال جل گیا اس کے  بعد سے  تو اور بھی زیادہ دل سہم گیا، ہر ۶/ دسمبر کو ہمارا پورا پریوار سہماسا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا، ۶/ دسمبر ۲۰۰۵ء کو یوگیش ایک کام کے  لئے  لکھنو جا رہا تھا اس کی گاڑی ایک ٹرک سے  ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے  اس کا نوسال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے، یہ حادثہ میرے  لئے  ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا، کاروبار چھوڑ کر دربدر مارا پھرا، میری بیوی مجھے  بہت سے  مولانا لوگوں کو دکھانے  لے  گئی، ہردوئی میں بڑے  حضرت صاحب کے  مدرسے  میں لے  گئی، وہاں پر بہار کے  ایک قاری صاحب ہیں، تو کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر میرے  دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستہ پر ہوں، مجھے  اسلام کو پڑھنا چاہئے  اسلام پڑھنا شروع کیا۔

  سوال  :اسلام  کے  لئے  آپ نے  کیا پڑھا؟

 جواب  : میں نے  سب سے  پہلے  حضرت محمد ﷺ کی ایک چھوٹی سیرت پڑھی، اس کے  بعد’’ اسلام کیا ہے ؟‘‘ پڑھی’’اسلام ایک پریچے ‘‘ مولانا علی میاں جی کی پڑھی، ۵/ دسمبر ۲۰۰۶ء کو مجھے  حضرت صاحب کی چھوٹی سی کتاب’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ ایک لڑکے  نے  لا کر دی، ۶/ دسمبر اگلے  روز تھی، میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا، اس کتاب نے  میرے  دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرہ سے  جان بچ سکتی ہے  اور میں ۵/ دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے  پاس گیا مجھے  مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے  رہے، کوئی آدمی مجھے  مسلمان کرنے  کو تیار نہ ہوا۔

  سوال  :آپ ۶/ دسمبر  ۲۰۰۶ء کو مسلمان ہو گئے  تھے، آپ تو ابھی فرما رہے  تھے  کہ چند مہینے  پہلے  ۲۲/جنوری ۲۰۰۹ء کو آپ مسلمان ہوئے۔

 جواب   : میں نے  ۵/ دسمبر ۲۰۰۶ء کو مسلمان ہونے  کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر ۲۲/ جنوری کو اس سال تک مجھے  کوئی مسلمان کرنے  کو تیار نہیں تھا، حضرت صاحب کو ایک لڑکے  نے  جو ہمارے  یہاں سے  جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو بابری مسجد کی شہادت میں بہت خرچ کرتے  تھے  مسلمان ہو نا چاہتے  ہیں، تو حضرت نے  ایک ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجدکی شہادت میں سب سے  پہلے  کدال چلانے  والے  تھے ) بھیجا، وہ پتہ ٹھیک نہ معلوم ہو نے  کی وجہ سے  تین دن تک دھکے  کھاتے  رہے، تین دن کے  بعد ۲۲/ جنوری کو وہ مجھے  ملے  اور انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور حضرت صاحب کا سلام بھی پہنچایا، صبح سے  شام تک وہ حضرت صاحب سے  فون پر بات کرانے  کی کوشش کرتے  رہے  مگر حضرت مہاراشٹر کے  سفر پر تھے، شام کو کسی ساتھی کے  فون پر بڑی مشکل سے  بات ہوئی ماسٹر صاحب نے  بتایا کہ سیٹھ جی سے  ملاقات ہو گئی ہے  اور الحمد للہ انھوں نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، آپ سے  بات کرنا چاہتے  ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں، حضرت صاحب نے  مجھے  دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔

میں نے  جب حضرت صاحب سے  عرض کیا کہ حضرت صاحب، مجھ ظالم نے  اپنے  پیارے  مالک کے  گھر کو ڈھانے  اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے  میں اپنی کمائی سے  ۲۵لاکھ روپئے  خرچ کئے  ہیں، اب میں نے  اس گناہ کی معافی کے  لئے  ارادہ کیا ہے  کہ ۲۵لاکھ روپئے  سے  ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا آپ اللہ سے  دعا کیجئے  کہ جب اس کریم مالک نے  اپنے  گھر کو گرانے  اور شہید کرنے  کو میرے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے  تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے  والوں کی فہرست سے  نکال کر اپنا گھر بنانے  والوں میں لکھ لیں اور میرا کوئی اسلامی نام بھی آپ رکھ دیجئے، حضرت صاحب نے  فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی اور میرا نام محمد عمر رکھا، میرے  مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا، مولوی صاحب اگر میرا رواں رواں، میری جان میرا مال سب کچھ مالک کے  نام پر قربان ہو جائے  تو بھی اس مالک کا شکر کیسے  ادا ہو سکتا ہے  کہ میرے  مالک نے  میرے  اتنے  بڑے  ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ  بنا دیا۔

  سوال  :آگے  اسلام کو پڑھنے  وغیرہ کے  لئے  آپ نے  کیا کیا؟

 جواب   : میں نے  الحمد للہ گھر پر ٹیوشن لگایا ہے، ایک بڑے  نیک مولانا صاحب مجھے  مل گئے  ہیں وہ مجھے  قرآن بھی پڑھا رہے  ہیں سمجھا بھی رہے  ہیں۔

  سوال  :آپ کی بیوی اور پوتے  پوتی کا کیا ہوا؟

 جواب   :  میرے  مالک کا کرم ہے  کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے  مسلمان ہو گئے  ہیں اور ہم سبھی ساتھ میں پڑھتے  ہیں۔

  سوال   :آپ یہاں دہلی کسی کام سے  آئے  تھے ؟

 جواب   : نہیں صرف مولانا نے  بلایا تھا، ایک صاحب مجھے  لینے  کے  لئے  گئے  تھے، حضرت صاحب سے  ملنے  کا بہت شوق تھا بار بار فون کرتا تھا مگر معلوم ہوتا تھا کہ سفر پر ہیں اللہ نے  ملاقات کرا دی  بہت ہی تسلی ہوئی۔

  سوال  :ابی سے  اور کیا باتیں ہوئیں ؟

 جواب   : حضرت صاحب نے  مجھے  توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے  ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی بابری مسجد کی شہادت میں غلط فہمی میں شریک رہے، آپ کو چاہئے  کہ ان پر کام کریں، ان تک سچائی کو پہنچانے  کا ارادہ تو کریں، میں نے  اپنے  ذہن سے  ایک فہرست بنائی ہے، اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں مگر جتنا دم ہے  وہ تو اللہ کا اور اس کے  رسول  ﷺ کا کلمہ اس کے  بندوں تک پہنچانے  میں لگنا چاہئے۔

  سوال  :مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام آپ دیں گے ؟

 جواب   : میرے  یوگیش کا غم مجھے  ہر لمحہ ستاتا ہے، مرنا تو ہر ایک کو ہے، مولوی صاحب ! موت تو وقت پر آتی ہے  اور بہانہ بھی پہلے  سے  طئے  ہے، مگر ایمان کے  بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے  ظالم اور اسلام دشمن بلکہ خدا دشمن کے  گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو وہ اسلام کے  بغیر مر گیا، اس میں مسلمانوں کے  حق ادا نہ کرنے  کا احساس میرے  دل کا ایسا زخم ہے  جو مجھے  کھائے  جا رہا ہے، ایسے  نہ جانے  کتنے  جوان، بوڑھے  موت کی طرف جا رہے  ہیں ان کی خبر لیں۔

  سوال  : بہت بہت شکریہ سیٹھ عمر صاحب ! اللہ تعالی آپ کو بہت بہت مبارک فرمائے، یو گیش کے  سلسلہ میں تو ابی ایسے  لوگوں کے  بارے  میں کہتے  ہیں کہ فطرت اسلامی پر رہنے  والے  لوگوں کو مرتے  وقت فرشتے  کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں، ایسے  واقعات ظاہر بھی ہوئے  ہیں، آپ اللہ کی رحمت سے  یہی امید رکھیں یوگیش مسلمان ہو کر ہی مرے  ہیں۔

 جواب   : اللہ تعالی آپ کی زبان مبارک کرے، مولوی احمد صاحب اللہ کرے  ایسا ہی ہو، میرا پھول سا بچہ مجھے  جنت میں مل جائے۔

  سوال  :آمین  ثم آمین انشاء اللہ ضرور ملے  گا، السلام علیکم

        جواب   : وعلیکم السلام                                           مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جون  ۲۰۰۹ء

 ٭٭٭

جناب عبداللہ صاحب {گنگا رام چوپڑا جی} سے  ایک ملاقات

 احمد اواہ    :  اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 عبداللہ    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : عبداللہ صاحب بہت زمانہ پہلے  ابی اپنے  ایک مضمون میں جو ہمارے  یہاں کی اردو میگزین ارمغان میں چھپا تھا آپ کے  قبول اسلام کے  واقعہ کا ذکر کیا تھا، اسی وقت سے  آپ سے  ملاقات کا اشتیاق تھا اور دلی خواہش تھی کہ ارمغان میں جو اسلام قبول کرنے  والے  خوش قسمت لوگوں کے  انٹرویو شائع کرنے  کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، آپ سے  بھی ایک ملاقات ہو جائے، تو خود آپ کی زبان سے  باتیں معلوم ہوں، اللہ نے  بڑا کرم کیا کہ آپ آ گئے  میں آپ کا کچھ وقت لینا چاہتا ہوں اور آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب  : بڑی اچھی بات ہے، آپ سے  مل کر بہت خوشی ہوئی، حضرت نے  تعارف کرایا کہ یہ احمد میرے  بیٹے  ہیں، بہت اچھا لگا آپ کی صورت دیکھی دل کو لگا کہ اللہ نے  حضرت کو اولاد بھی بہت پیاری دی ہے، اصل میں میں اسکوٹ ہارٹ ہاسپٹل میں زیر علاج ہوں، میرا آج چیک اپ کا دن تھا، مجھے  معلوم ہوا تھا کہ مولانا صاحب دہلی میں مل سکتے  ہیں، میرا دل واقعی بہت چاہ رہا تھا کہ کسی طرح مولانا کے  درشن ہو جائیں کئی سال ہو گئے  کوشش کے  باوجود مل بھی نہیں سکا، میرے  رب کا احسان ہے  کہ آج اچھی طرح ملاقات ہو گئی اور کئی سال کی ساری کہانی سنا کر دل بہت خوش ہو ا، مولانا صاحب بھی بہت ہی خوش ہوئے، آپ میرے  لائق جو خدمت ہو ضرور بتائیے۔

  سوال  :آپ پہلے  اپنا تعارف کرائیے ؟ اور اپنے  خاندان کے  بارے  میں بتائیے ؟

 جواب  : میرا پہلا نام گنگا رام چوپڑا تھا، میں روہتک کے  ایک گاؤں میں ایک پڑھے  لکھے  زمیندار گھرانے  میں ایک جنوری ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوا گاؤں کے  اسکول سے  پرائمری تعلیم حاصل کی پھر روہتک داخلہ لیا، ۱۹۶۷ ء میں بی کام کرنے  کے  بعد ایک اسکول میں پڑھانے  لگا پھر ایک تعلق سے  میری سیل ٹیکس میں نوکری لگ گئی، میں روہتک ضلع کا سیل ٹیکس افسر تھا، چار سال پہلے  میں نے  اپنی بیماری کی وجہ سے  رٹائرمنٹ لے  لیا، میری شادی ایک بڑے  گھرانے  میں ہوئی، میری بیوی مجھ سے  زیادہ پڑھی لکھی تھی اور شادی کے  وقت و ہ ضلع شکشا  ادھیکاری ((B.S.A  پر ملازم تھی، میری خواہش تھی کہ میری بیوی گھریلو عورت بن کر سکون سے  رہے، میرے  لئے  عورتوں کی نوکری گائے  کو ہل میں جوتنے  کی طرح غلط تھا، میں نے  شادی کے  تین سال بعد زور دے  کر ان سے  نوکری چھڑوا دی، مگر ان کی مرضی کے  خلاف یہ فیصلہ ہوا تھا اس لئے  ہماری گھر یلو زندگی نا خوش گوار ہو گئی، بات بڑھتی گئی، وہ اپنے  گھر چلی گئی اور ان کے  گھر والے  میری جان کے  دشمن ہو گئے  اور بات عدالت تک پہنچی مقدمہ بازی چلتی رہی اور گھریلو زندگی کی یہ ناخوشگوار ی میرے  سسرال والوں کی مجھ سے  دشمنی اور مقدمہ بازی میرے  لئے  مسیحا بن گئی اور میرے  کفر سے  نکلنے  کا ذریعہ بنی۔

  سوال  : ماشاء اللہ عجیب بات ہے، آپ ذرا اس ہدایت ملنے  اور قبول اسلام کے  واقعہ کو ضرور بتائیے ؟

 جواب  : مقدمہ بازی زوروں پر تھی، عدالت کا رخ میری بیوی کی طرف لگ رہا تھا اور خیال تھا کہ مجھے  سزا اور جرمانہ دونوں کا سامنا کرنا پڑے  گا  میرے  وکیل نے  مجھے  مشورہ دیا کہ اگر آپ کہیں سے  مسلمان ہونے  کا سرٹیفکٹ حاصل کر لیں تو اسے  عدالت میں پیش کر کے  آپ کی بہت آسانی سے  جان بچ سکتی ہے، مجھے  کسی مسلمان نے  بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک مفتی صاحب ہیں، ان کا سرٹیفکٹ سرکار مانتی ہے، میں وہاں گیا مفتی صاحب تو نہیں ملے  مگر لوگوں نے  مجھے  بتایا کہ یہ تو ۱۵۔ ۲۰ ہزار روپیئے  لیتے  ہیں، میرے  لئے  کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر مفتی صاحب حیدرآباد کے  سفر سے  چار روز بعد لوٹنے  والے  تھے، اتنا انتظار کرنا میرے  لئے  مشکل تھا، میں واپس آ رہا تھا، راستہ میں ایک مسجد دکھائی دی، میں نے  اپنے  ڈرائیور سے  گاڑی روکنے  کو کہا اور خیال ہوا کہ یہاں کے  میاں جی سے  معلوم کروں، کیا اور کہیں بھی یہ کام ہو سکتا ہے ؟ امام صاحب سہارن پور کے  رہنے  والے  تھے، انھوں نے  بتایا کہ یو پی کے  ضلع مظفر نگر میں ایک جگہ پھلت ہے، وہاں پر مولانا کلیم صاحب رہتے  ہیں، آپ وہاں چلے  جائیے  اور کسی سے  کچھ معلوم نہ کریں اور وہاں آپ کا ایک پیسہ بھی نہ لگے  گا اور سارا کام قانونی طور پر وہ خود پکا کروا دیں گے  اور انھوں نے  مجھے  پورا راستہ لکھ کر دیا۔

            کچھ دفتری مصروفیت کی وجہ سے  میں وہاں فوراً نہ جاسکا تقریباً ۲۵ دن کے  بعد میں نے  موقع نکالا، ۲۹ جنوری  ۱۹۹۴ء کو میں پھلت پہنچا، رمضان کا مہینہ چل رہا تھا، دن چھپنے  کے  ذرا بعد میں اپنے  گارڈ اور ڈرائیور کے  ساتھ پھلت پہنچا، مولانا صاحب مسجد میں اعتکاف میں تھے، ایک صاحب مجھے  مسجد میں مولانا صاحب کے  پاس لے  گئے، مسجد کے  چھوٹے  کمرے  میں مولانا صاحب سے  میری ملاقات ہو گئی اور میں نے  صاف صاف اپنے  آنے  کا مقصد بیان کیا اور مولانا صاحب سے  کہا کہ مجھے  اسلام قبول کرنے  کا سرٹیفکٹ چاہئے، اپنی بیوی کے  مقدمہ سے  بچنے  کے  لئے  عدالت میں جمع کرنا ہے، مجھے  مسلمان ہونا نہیں ہے، نہ دھرم بدلنا ہے  اور نہ میں دھرم بدل سکتا ہوں، صرف سرٹیفکٹ چاہئے  مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا :کیا آپ عدالت میں بھی یہی کہہ کر سرٹیفکٹ داخل کریں گے، کہ مسلمان نہیں ہوا ہوں بلکہ صرف جعلی سرٹیفکٹ بنوایا ہے، میں نے  کہا :بھلا یہ کیسے  ہو سکتا ہے  :عدالت میں تو میں یہی کہوں گا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اس لئے  میری بیوی سے  اب میرا کوئی تعلق نہیں، مولانا صاحب نے  کہا : جہاں آپ بیٹھے  ہیں یہ مسجد ہے، مالک کا گھر ہے، اس کی بڑی عدالت میں آپ کو ہم کو، سب کو، پیش ہونا ہے، وہاں سب سے  پہلے  اس ایمان اور اسلام کے  سرٹیفکٹ کے  بارے  میں سوال ہو گا اور وہاں جعلی سرٹیفکٹ پر گذر نہیں ہو گا، اس پر وہاں ہمیشہ کی نرک (دوزخ) کی جیل میں سزا ہو گی، خیر یہ تو آپ کا آپ کے  مالک کا معاملہ ہے ؟ مگر میرا کہنا یہ ہے  کہ آپ ہم سے  کیوں کہتے  ہیں، کہ مجھے  مسلمان نہیں ہونا ہے، آپ ہم سے  یہ کہئے  کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، مجھے  مسلمان کر لیجئے  اور ایک سر  ٹیفکیٹ بھی چاہئے، ہم آپ کو کلمہ پڑھواتے  ہیں، دلوں کا بھید تو ہم نہیں جانتے، ہم تو یہ سمجھ کر آپ کو مسلمان کر لیں گے، کہ آپ سچے  دل سے  مسلمان ہو رہے  ہیں، اس میں ہمارا یہ فائدہ ہو گا کہ ہمارے  مالک نے  ایک آدمی کے  ایمان کا ذریعہ بننے  پر ہمارے  لئے  جنت کا وعدہ کیا ہے،  ہمارا کام ہو جائے  گا، جہاں تک دل کا معاملہ ہے  وہ دلوں کے  بھید جاننے  والا مالک دلوں کو پھیرنے  والا بھی ہے، کیا خبر آپ اس کے  گھر میں اتنی دور سے  سفر کر کے  آئے  ہیں آپ کو سچا ایمان والا بنا دیں پھر آپ کو ہم سرٹیفکٹ بھی بنوا دیں گے  اور وہ ہمارے  نزدیک سچا سرٹیفکٹ ہو گا، ہم جعلی کوئی کام نہیں کرتے، میں نے  کہا :جی ٹھیک ہے  میں سچے  دل سے  مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور مجھے  سرٹیفکٹ بھی چاہئے، مولانا صاحب نے  مجھے  اسلام کے  بارے  میں کچھ بتایا اور یہ بھی کہا کہ موت کے  بعداس بڑے  حاکم اور بڑی عدالت میں ہم سب کو پیش ہونا ہے، نہ جھوٹی گواہی چلے  گی نہ سرٹیفکٹ، اگر آپ اس مالک کے  لئے  سچے  دل سے  یہ کلمہ جو میں آپ کو پڑھوا رہا ہوں، پڑھ لو گے  تو موت کے  بعد کی ہمیشہ کی زند گی میں آپ کے  لئے  سورگ(جنت) ہو گی، چاہے  آپ باہر سے  کسی سے  مسلمان ہونے  کو بھی نہ کہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور اس کا ہندی ارتھ (ترجمہ ) بھی کہلوایا اور مجھ سے  ہمیشہ اکیلے  اللہ کی پوجا کرنے  اور اس کے  سچے  رسول کی تابعداری کا عہد بھی کرایا اور میرا اسلامی نام عبداللہ بتایا۔

            مولانا نے  بتایا کہ ہمارے  مدرسے  کا دفتر اب بند ہے  آپ رات کو رکیں، صبح نو بجے  انشا ء اللہ میں آپ کو سرٹیفکٹ بنوا دوں گا، آپ چاہیں تو مسجد میں ہمارے  اور ہمارے  ساتھیوں کے  ساتھ قیام کر لیں، یہاں آپ کو اچھے  لوگوں کی سنگتی (صحبت ) ملے  گی اور چاہیں تو ہمارے  گھر بیٹھک میں آرام کریں، میں نے  مسجد میں قیام کے  لئے  کہا سیکڑوں لوگ مولانا کے  ساتھ مسجد میں رہ رہے  تھے، جن میں ہریانہ کے  کافی لوگ تھے  ان میں سونی پت کے  سب سے  زیادہ تھے، میں سونی پت میں کئی سال رہ چکا تھا، آدھی رات کے  بعد سب لوگ اٹھ گئے  اپنے  مالک کے  سامنے  رونے  اور اس کا بڑی لئے  میں ذکر کرنے  والے  یہ لوگ مجھے  بہت اچھے  لگے، میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور میں بھی ان کے  ساتھ لا الہ الا اللہ کا ذکر کرتا رہا، دشمنی مقدمہ بازی اور گھریلو زندگی کی اس بے  چینی میں میری یہ رات ایسی گذری جیسے  تھکا بچہ اپنی ماں کی گود میں آ گیا ہو، مولانا نے  مجھے  سر ٹیفکیٹ صبح کو بنوا کر دے  دیا، میں نے  فیس معلوم کی تو مولانا نے  سختی سے  منع کر دیا، شانتی اور سکون کے  اس ماحول میں میرا دل چاہا کہ کچھ اور وقت گذاروں، میں نے  مولانا صاحب سے  اجازت چاہی کے  ایک رات میں اور رکنا چاہتا ہوں، مولانا نے  کہا: بڑی خوشی کی بات ہے، ایک رات نہیں جب تک آپ کا دل چاہے  آپ ہمارے  مہمان ہیں، یہاں گاؤں میں آپ کو جو تکلیف ہو اس کو معاف کر دیجئے، شام تک مولانا الگ الگ وقتوں میں اللہ والوں کے  قصے، قرآن کی باتیں اور دین کی جو باتیں اپنے  مریدوں کو بتاتے  رہے، میں بھی سنتا رہا اور میرا گارڈ بھی ساتھ رہا، وہ بڑا دھارمک آدمی ہے، شام کو سونی پت کے  ایک ساتھی کو میں لے  کر کھتولی گیا اور وہاں سے  ۲۵ کلو لڈو لایا، میرا دل چاہا کہ اللہ کے  ان سچے  بھکتوں کو اپنے  ایمان کی خوشی میں مٹھائی کھلاؤں، رات کے  کھانے  کے  بعد میں نے  دوساتھیوں سے  وہ لڈو تقسیم کرائے، دل تو اگلے  روز بھی ایسے  ماحول سے  جانے  کو نہ چاہتا تھا، مگر دفتر کی مجبوری اور تیسرے  روز میرے  مقدمہ کی تاریخ ہونے  کی وجہ سے  میں واپس آ گیا، دو رات کی وہ شانتی بھرا ماحول میرے  بے  چین جیون کو سکھی اور شانت کر گیا، واپسی میں میرا گارڈ جس کا نام مہندر تھا مجھ سے  کہنے  لگا: سر!جینا تو یہاں آ کر سیکھنا چاہئے، آپ نے  مولانا صاحب کے  بھاشن (تقریر ) ست سنگ سنی ؟ مجھے  ۱۵سال ہو گئے، رادھا سوامی ست سنگ میں جاتے  ہوئے، جو سچائی، پریم اور شانتی یہاں ملی، اس کی ہوا بھی وہاں نہیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے  ہر بات گات ( دل) میں گھس رہی ہو، سر چھوڑئیے  سب سنسار !مولانا صاحب کے  چرنوں میں آ کر رہیں، چین اور سکھ تو بس یہاں ہی ملے  گا، سارے  ساتھی بھی کیسے  سیدھے  سادے، ایسا لگ رہا تھا کہ سچوں کا سنسار ہے، میں نے  اس سے  کہا تو بھی کلمہ پڑھ لیتا، اس نے  کہا کہ سر، جب آپ کو کلمہ پڑھوا رہے  تھے  تو میں بھی آہستہ آہستہ کلمہ پڑھ رہا تھا اور دل دل میں اپنے  مالک سے  کہہ رہا تھا، کہ مالک !جب آپ دلوں کے  بھید جانتے  ہیں، تو اگر یہ دھرم سچاہے  تو ہمارے  سر کے  دل کو پھیر دے  اور مجھے  بھی ان ساتھ کر دے۔

            مولانا صاحب نے  مجھے  اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پانچ عدد دی تھی، کہ آپ اس کو پڑھیں اور اپنے  ساتھیوں کو بھی پڑھوائیں، میں نے  گھر جا کر ایک کتاب اپنے  گارڈ مہندر کو دی اور خود بھی پڑھی، اب مجھے  اسلام کے  بارے  میں سوفیصد اطمینان ہو گیا تھا، اس لئے  کہ میں دو روز میں ایمان والوں کو دیکھ چکا تھا، میرے  وکیل نے  مجھے  فون کیا، مجھے  سرٹیفیکٹ دکھا دیں، میں نے  اگلے  روز ملنے  کو کہا، مگر صبح ہوئی تو میرے  دل میں آیا کہ مجھے  اس سرٹیفیکٹ کو اپنے  مالک کی عدالت میں پیش کرنا ہے، اس لئے  مجھے  اس عدالت میں دھوکہ کے  لئے  نہیں پیش کرنا چاہئے، میں نے  آپ کی امانت اٹھائی اور مالک کو حاضر ناظر جان کر ایک بار کلمہ کو اس میں دیکھ کر سچے  دل سے  دوہرایا، ، مقدمہ کی تاریخیں لگیں، فیصلہ میری بیوی کے  حق میں ہوا، مجھ پر ایک لاکھ روپیہ جرمانہ اور ماہانہ خرچہ ہوا، عید کے  بعد میں سونی پت مدرسہ گیا، وہاں کے  پرنسپل صاحب سے  ملا اور اپنے  دین لینے  کی خوشی میں بچوں اور اسٹاف کی دعوت کی اور مٹھائی بھی تقسیم کی، مجھے  موت سے  بہت ڈر لگتا تھا،  ایک روز دفتر میں تھا کہ میرے  سینہ میں درد شروع ہوا اور درد بڑھتے  بڑھتے  میں بے  ہوش ہو گیا، مجھے  ہسپتال لے  جایا گیا، ڈاکٹروں نے  ہارٹ اٹیک بتایا، میں ۲۴ روز ایمرجنسی اور I.C.Uمیں رہا، کچھ طبیعت سنبھلی، چار پانچ مہینے  آرام کے  بعد دفتر جانے  لگا، ان چار پانچ مہینوں میں، میں گھر پر رہا، مجھے  موقع ملا کہ میں اسلام کو پڑھوں میں نے  تلاش کیا تو مولانا صاحب کے  بھیجے  ہوئے  ہمارے  قریب میں دوجانہ میں ایک حافظ صاحب امام تھے  ان کے  پاس جانے  لگا اور میں نے  نماز سیکھی اور نماز پڑھنے  لگا، دہلی سے  اسلام کیا ہے  ؟ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟ وغیرہ کتابیں منگا کر پڑھیں مولانا صاحب سے  ملنے  کو میرا دل بہت چاہتا تھا، ایک روز دو جانہ کے  ایک صاحب نے  بتایا کہ مولانا کا پروگرام آج باغپت میں ہے  اور مجھے  ملنے  جانا ہے، میں نے  کہا میرے  ساتھ چلیں، میرا دل بھی ملنے  کو بہت چاہ رہا ہے، ہم لوگ باغپت پہنچے، مسجد میں پروگرام شروع ہو چکا تھا تقریر کے  بعد میں مولانا صاحب سے  ملا، مولانا بہت خوش بھی ہوئے  کہ اتنے  دنوں میں ملاقات ہوئی، مجھے  اتنا کمزور دیکھ کر پریشان بھی ہوئے، میں نے  بتایا کہ مجھے  سخت ترین دل کا دورہ ہوا اور ۲۵روز میں ایمرجنسی میں رہا، پروگرام کے  بعد ایک صاحب کے  یہاں دعوت تھی، میزبان ہمیں بھی زور دے کر ساتھ لے  گئے، مولانا نے  معلوم کیا کہ چوپڑا جی آپ کاتو پرہیز چل رہا ہو گا؟ میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ حضرت آپ تو اب چوپڑا نہ کہیں، آپ نے  خود میرا نام عبداللہ رکھا تھا، مولانا صاحب نے  کہا کہ اچھا عبداللہ صاحب آپ کے  لئے  پرہیز کا انتظام کریں ؟ میں نے  کہا : مولانا صاحب آپ کے  ساتھ کھاؤں گا وہ مجھے  بیمار کرنے  کے  بجائے  اچھا ہی کرے  گا، مولانا صاحب سے  میں نے  بتایا کہ میں نے  آپ کی امانت پڑھی، اصل میں تو آپ کے  ساتھ رہ کر ہی میں کافی حد تک مسلمان ہو گیا تھا، مگر آپ کی امانت پڑھنے  کے  بعد تو مجھے  اندر سے  اطمینان ہو گیا اور میں نے  تنہائی میں مالک کو حاضر ناظر جان کر دوبارہ کلمہ پڑھا اور پھر عدالت میں سرٹیفیکٹ بھی جمع نہیں کیا اور اللہ کے  شکر سے  یہ حافظ صاحب جانتے  ہیں، پانچوں وقت نماز پڑھتا ہوں اور آپ میری نماز سن لیجئے، جب میں نے  نماز اور جنازے  کی دعا سنائی تو مولانا مجھے  کھڑا کر کے  چمٹ گئے  اور میرے  ہاتھ کو خوشی اور پیار سے  چوما، بار بار مبارکباد دی اور بتایا کہ ہم اور ہمارے  ساتھیوں نے  بہت دل سے  دعا کی تھی کہ میرے  مالک زبان سے  کہلوانے  والے  ہم ہیں آپ دل میں ڈالنے  والے  ہیں، ان کو سچا مسلمان بنا دیجئے  اللہ کا شکر ہے  میرے  مالک نے  ان گندے  ہاتھوں کی لاج رکھ لی۔

  سوال  :آپ کے  گارڈ جن کا آپ ذکر کر رہے  تھے، مہندر، آپ نے  پھر ان کے  ایمان کی فکر نہیں کی؟

 جواب  : احمد صاحب میں اس کی فکر کہاں کرنے  والا تھا، وہ تو بہت اونچا اڑا۔

  سوال  : وہ آج کل کہاں ہیں ؟

 جواب  : وہ تو جنت میں ہے، جنت میں۔۔

  سوال  : وہ کس طرح ؟ ذرا سنائیے ؟

 جواب  : میں بتایا نا کہ وہ بہت دھارمک (مذہبی ) آدمی تھا، وہ جاٹ فیملی سے  تعلق رکھتا تھا، پھلت سے  آ کر تو بس اس کے  آگ سی لگ گئی، اس نے  آپ کی امانت پڑھی، تو پڑھ کر میرے  پاس آیا اور کہنے  لگا سر! آپ نے  وہ کتاب پڑھی ؟ میں نے  کہا کہ ابھی نہیں پڑھی، اس نے  کہا کہ سر آپ نے  بڑی نا قدری کی، دو روز سورگ میں رہ کر بھی آپ کو وہاں کا مزا نہ لگا، سر آپ وہ کتاب ضرور پڑھیں، میں اب سچا مسلمان ہوں، میں نے  اپنا نام محمد کلیم رکھا ہے، سرآپ تو اب مجھے  محمد کلیم ہی کہا کریں، اس کے  بعد اس کو دین سیکھنے  کا شوق لگ گیا، روہتک میں چورا ہے  پر ایک مسجد ہے  اس کو لال مسجد کہتے  ہیں، کہتے  ہیں، یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے، یہاں پر بہت بڑے  پیر اور مولانا صاحب رہتے  تھے، جنھوں نے  پورے  ہندستان میں دین پھیلایا، ان کا نام ہی ولی اللہ تھا، وہ اس مسجد کے  امام کے  پاس روز جاتا تھا اور پھر چار مہینے  کی چھٹی لے کر جماعت میں چلا گیا، ڈاڑھی رکھ کر آیا، ایک دن میں کسی کام سے  دہلی گیا تھا، وہ مجھ سے  جمعہ کی نماز پڑھنے  کی اجازت لے  کر گیا، دفتر سے  وضو کر کے  گیا، سڑک پار کر رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل والے  نے  ٹکّر ماردی، سر کے  بل گر ا اور سر میں چوٹ آئی، بے  ہوش ہو گیا، ڈرائیور نے  مجھے  بتایا، ہم اسے  اسپتال لے  کر گئے، آٹھ روز تک پنتھ میں رہا، مگر ہوش نہیں آیا، گھر والے  علاج کرتے  رہے، ۱۵ روز کے  بعد میں اس کو اسپتال میں دیکھنے  گیا، وہ بے  ہوش تھا اچانک اس کے  پاؤں ہلے، میں نے  آواز دی، اس نے  آنکھ کھول دی، مجھے  اشارہ سے  قریب کیا اور آہستہ سے  بولا، سر میرا سرٹیفیکٹ قبول ہو گیا، زور سے  ایک با ر  کلمہ پڑھا اور چپ ہو گیا، (روتے  ہوئے ) وہ مجھ سے  بہت آگے  نکل گیا، واقعی بہت سچا آدمی تھا۔

  سوال  : اب وہ کہاں ہے  ؟

 جواب  : احمد بھائی میں یہی تو کہہ رہا ہوں، پھر وہ ہمیشہ کے  لئے  چپ ہو گیا، وہاں اس کی یہ زبان چپ ہو گئی، مگر وہ ہمیشہ میرے  کان میں کہتا ہے، سر میرا سرٹیفیکٹ قبول ہو گیا، لا الہ الا اللہ  محمد رسول اللہ اس دن سے  میں روز اپنے  اللہ سے  دعا کرتا ہوں کہا اے  اللہ ! آپ نے  ایک سچے  کا سرٹیفیکٹ تو قبول کر لیا، ا س سچے  کے  صدقہ میں  بلکہ اپنے  سچے  رسول کے  صدقہ میں مجھ فراڈ کا جعلی سرٹیفیکٹ بھی قبول کر لیجئے  ( روتے  ہوئے )

  سوال  : آپ کی بیوی کہاں ہیں ؟ آپ کے  کوئی بچہ بھی ہے ؟اس بارے  میں آپ نے  نہیں بتایا۔

 جواب  : میں خود ہی آپ کو ان کے  بارے  میں بتانے  والا تھا، ہوا یہ کہ پانچ وقت کی نماز کے  ساتھ میں نے  ایک زمانہ سے  تہجد پڑھنی شروع کی تھی، پھلت میں اس آدھی رات کی عبادت میں، میں نے  بڑا مزا دیکھا، ایک رات میں نے  اپنی بیوی کو خواب میں دیکھا، ایک کٹہرے  میں بند ہیں اور مجھ سے  فریاد کر رہی ہیں، میں جیسی بھی ہوئی ہوں، آپ مجھے  اس کٹہرے  سے  نکال دیں، میرے  گھر والوں نے  مجھے  کتنا کہا، کہ میں دوسرے  سے  شادی کر لوں مگر میں نے  کبھی گوارہ نہیں کیا، جب میں آپ کی ہوں تو آپ کے  علاوہ مجھے  کون اس کٹہرے  سے  نکالے  گا اور بہت رو رہی ہے  مجھے  ترس آ گیا، میں نے  دیکھا، بڑا تالہ لگا ہوا ہے، چابی میرے  پاس نہیں ہے، میں بہت پریشان ہوا کہ اس تالہ کو کیسے  کھولا جائے، اچانک میرا گارڈ کلیم (مہندر) آ گیا اور جیب سے  چابی نکال کر بولا، سر! یہ  لا الہ الا اللہ، کی چابی ہے  آپ اپنی میڈم کو کیوں نہیں نکالتے  ؟میری آنکھ کھل گئی، صبح کے  تین بجے  تھے، میں نے  وضو کیا نماز پڑھی، مجھے  خیال آیا کہ اس عورت نے  ساری جوانی میرے  لئے  گنوا دی، حتیٰ کے  خرچ بھی مجھ سے  لیا، میکے  والوں کے  یہاں رہنا بھی گوارہ نہ کیا مجھے  بہت یاد آئی، اکیلے  رہنے  رہتے  میں بھی تنگ آ گیا تھا، ٹوٹے  ہوئے  دل سے  میں نے  اپنے  بے  کس ہاتھ اللہ کے  آگے  پھیلا دیے، میرے  مولا! میرے  کریم ! میرے  رب میں نے  اب سارے  جھوٹے  خداؤں کو چھوڑ کر آپ کی بندگی کا عہد کیا ہے  اور کون سا در ہے، جو میرا سوال پورا کرے  گا؟ میرے  اللہ جب اس نے  میری رہ کر ساری جوانی گنوا دی، تو پھر آپ اس کو میرے  پاس بھیج دیجئے، آپ کے  لئے  کچھ مشکل نہیں جب آپ ایک گنگا رام اور مہندر کا دل پھیر کر عبداللہ اور کلیم بناسکتے  ہیں، تو آپ ایک سریتا دیوی کو فاطمہ یا آمنہ بنا کر میری مسلمان بیوی کیوں نہیں بناسکتے، میں نے  بہت دعا کی اور میرا رواں رواں میرے  ساتھ دعا میں شریک تھا، میرے  خواب کی وجہ سے  مجھ پر توحید کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔

  سوال   :  پھر کیا ہوا؟

 جواب  : ایک گندے  بھکاری بندہ نے  کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا، یہ کیسے  ممکن تھا کہ دروازہ نہ کھلتا، دو روز گذرے  تھے، تیسرے  روز میں اپنے  گھر میں، دو پہر کو بیٹھا تھا، گھنٹی بجی، میں نے  نو کر سے  دروازہ کھولنے  اور دیکھنے  کے  لئے  کہا، میری آنکھ حیرت سے  پھٹی کی پھٹی رہ گئی، جب میں نے  دیکھا کہ بجائے  اس کے  کہ نو کر آ کر مجھے  بتاتا کہ فلاں صاحب آئے  ہیں، دونوں بچوں کیساتھ سریتا میرے  سامنے  تھی، وہ آ کر مجھ سے  چمٹ گئی  دس سال بعد میں نے  اس کو دیکھا تھا وہ جوانی کھو چکی تھی، بلک بلک کر دیر تک روتی رہی، بیٹا بیٹی جو اب بڑے  ہو گئے  تھے، وہ بھی رونے  لگے، کہنے  لگی جب آپ نے  میرے  ساتھ پھیرے  پھرے  ہیں، تو، میری عزت میرا دل آپ کے  علاوہ کون رکھے  گا، میں نے  اس کو تسلی دی اور میرے  دل میں چونکہ یہ بات تھی، کہ میرے  اللہ نے  میرے  گندے  ہاتھوں کو یہ بھیک دی ہے، اس لئے  یہ آئی ہے  مگر میں نے  پھر بھی اس سے  کہا کہ اب بات ہاتھوں سے  نکل گئی ہے  اس نے  پوچھا، کیوں ؟ میں نے  کہا میں اب مسلمان ہو گیا ہوں اس نے  کہا میں نرک میں بھی آپ کے  ساتھ رہوں گی، میں آپ کی بیوی ہوں آپ کے  ساتھ رہوں گی، میں آپ کی ہوں آپ کی رہوں گی، میں نے  اس سے  کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا وہ فوراً تیار ہو گئی، میں نے  کلمہ پڑھوایا اور اس کا نام آمنہ رکھا، بچوں کا نام حسن اور فاطمہ رکھا، اصل میں ہوا یہ کہ وہ اپنے  میکہ میں الگ کمرہ میں رہتی تھی، بچوں کی لڑائی میں اس کی بھابھی کے  ساتھ اس کی لڑائی ہو گئی، اس نے  اس کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر تو کسی لائق ہوتی تو پتی کے  در کو کیوں چھوڑتی، اگر اصل کی ہوتی تو پتی کے  ساتھ ستی ہو جاتی، جسے  پتی نے  دھتکار دیا وہ عورت کیا ڈائن ہے، بس اس کے  دل کو لگ گئی یہ تو بہانہ ہو گیا ورنہ میرے  رب کو تو مجھے  بھیک دینی تھی الحمدللہ ڈیڑھ سال سے  وہ میرے  ساتھ ہے، ہم خوشی خوشی اسلامی زندگی جی رہے  ہیں۔

  سوال   :عبداللہ صاحب، واقعی یہ قبولیت دعا کا عجیب واقعہ ہے، آپ کو کیسا لگا؟

 جواب  : احمد بھائی اس واقعہ کے  بعد میرا میرے  اللہ کے  ساتھ ایک دوسرا ہی تعلق پیدا ہو گیا، میرا اب یہ حال ہے  کہ مجھے  ایسا یقین ہے  کہ اگر میں اپنے  اللہ سے  آج ضد کروں کہ آج سورج پچھم سے  نکالئے  تو میرے  اللہ ضرور پورا کریں گے۔

  سوال  :آپ بڑے  خوش قسمت ہیں، قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

 جواب  : میری آپ سے  اور سبھی سے  درخواست ہے  کہ میرے  لئے  اس کی دعا کریں کہ اللہ میرا ایمان اور سجدہ کی حالت میں خاتمہ فرمائیں، میں نے  اپنی بیوی کو وہ سرٹیفیکٹ دیا ہے، کہ میں مر جاؤں، وہ میری قبر میں میرے  کفن کے  ساتھ سرٹیفکٹ رکھ دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا یہ جعلی سرٹیفیکٹ قبول کر لے   بلکہ میرے  لئے  کیا ساری دنیا کے  لئے  بھی میری یہی دعا ہے  اور سب سے  دعا کی درخواست ہے  کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کے  ساتھ موت عطا کرے۔

  سوال   : آمین !بہت بہت شکریہ، عبداللہ صاحب آپ کو جلدی بھی ہے، ابی بتا رہے  تھے  کہ ڈاکٹر صاحب سے  وقت لیا ہوا ہے، معاف کیجئے  آپ کی باتیں ایسی دلچسپ تھیں، دل چاہتا تھا کہ کچھ اور باتیں کروں، باقی، انشاء اللہ کسی دوسری ملاقات میں۔

 جواب   : بہت بہت شکریہ، فی امان اللہ                                                   

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان اپریل۲۰۰۵ء       

٭٭٭

دعائے  مغفرت کی درخواست

      آپ کو یہ خبر سن کر یقیناً حیرت، رشک و افسوس ہو گا کہ جناب عبداللہ صاحب (گنگا رام چوپڑا جی) جمعہ کے  روز ۱۸/مارچ ۲۰۰۵ء کو عشاء کی نماز میں سجدہ کی حالت میں اپنے  ہادی و خالق اللہ کے  حضور میں حاضر ہو گئے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،   حیرت اس بات پر کہ عبداللہ صاحب کا اللہ کے  ساتھ کیسا قوی تعلق تھا، جو مانگا اللہ پاک نے  عطا فرمایا، رشک اس پر کہ اے  کاش کہ ایسی پیاری موت اللہ ہمیں بھی عطا فرمائے، افسوس اس پر کہ اللہ کا ایک نیک بندہ اس دنیا سے  چلا گیا، قارئینِ ’’نسیم ہدایت کے  جھونکے  ‘‘سے  ان کے  لئے  دعائے  مغفرت کی درخواست ہے۔ 

٭٭٭

جناب محمد لیاقت صاحب {چوبل سنگ} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ   : السلام و علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمد لیاقت    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   : لیاقت صاحب اچھا ہوا کہ آپ آ گئے  مجھے  آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔

  جواب  :  پھلت میں تو آتا ہی رہتا ہوں مگر آپ کے  ابا کا ملنا تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے  جب آؤ معلوم ہوتا ہے  سفر میں ہیں میں نے  ایک روز افتخار بھیا سے  فون پر معلوم کیا کہ مولانا صاحب کہاں ملیں گے  وہ کہاں رہتے  ہیں انھوں نے  کہا (ا۶۳۰)میں رہتے  ہیں یعنی کار میں رہتے  ہیں خیر بھیا احمد آپ سناؤ آپ کو کیا باتیں کرنی ہیں۔

  سوال   : برائے  کرم اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

 جواب  : بھیا میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں مجھ سے  دیسی بھاشا میں بات کرو۔

  سوال  : میرا مطلب یہ ہے  کہ آپ اپنے  بارے  میں بتائیں، اپنے  خاندان اور گھر والوں کے  بارے  میں سنائیں۔

 جواب  : میرا نام اب اللہ کا شکر ہے  محمد لیاقت ہے  کچھ سال پہلے  میرا نام چوبل سنگھ تھا، ہم مظفر نگر ضلع کی تحصیل جانسٹھ کے  ایک گاؤں کے  رہنے  والے  ہیں ہم لوگ گوجر برادری سے  تعلق رکھتے  ہیں اچھے  کسان ہیں ہم پانچ بھائی ہیں اللہ کا شکر ہے  کہ چار بھائی پورے  خاندان کے  ساتھ اسلام قبول کر چکے  ہیں میرے  بڑے  بھائی گاؤں کے  بڑے  چودھری کانگریس کے  علاقے  کے  اچھے  لیڈر ہیں وہ ابھی ہندو ہیں میرا نمبر دوسرا ہے  مجھ سے  چھوٹے  بھائی جن کا پہلا نام رام سنگھ تھا ان کا نام محمد ریاست ہے  ان سے  چھوٹے  جن کا پہلا نام پرکاش چند تھا اب ان کا نام محمد فراست ہے  میرے  چھوٹے  بھائی جن کا پہلا نام راجیندر سنگھ تھا محمد بشارت ہے  میرے  دو لڑکے  اور دو لڑکیاں ہیں اور ریاست کے  دو لڑکے  اور ایک لڑکی ہے، فراست کے  تین لڑکے  ہیں اور بشارت کے  دو لڑکے  اور چار لڑکیاں ہیں اس طرح ابھی تک اللہ کے  کرم سے  ہمارے  خاندان کے  ۲۴ لوگ مسلمان ہو چکے  ہیں اللہ کا شکر ہے  سب بچے  پڑھ رہے  ہیں چاروں بھائیوں کے  پانچ بچے  اور تین بچیاں حفظ کر رہی ہیں۔

  سوال   : اپنے  اسلام قبول کرنے  کا واقعہ سنایئے، آپ کے  مسلمان ہونے  کا کیا سبب ہوا؟

 جواب  : بھیا مالک کی مہربانی ہوئی مجھے  شیوجی کی مورتی نے  مسلمان ہونے  کو کہا۔

  سوال  : شیوجی کی مورتی نے  وہ کیسے ؟

 جواب  : اب سے  شاید نو سال پہلے  کی بات ہے  کہ ہمارے  یہاں گنیّ کا بھاؤ اچھا رہا اور فصل بھی بہت اچھی ہوئی ہم نے  اپنا پرانا مکان گرا کر نیا مکان بنایا، نئے  مکان میں ایک چھوٹا کمرہ پوجا کے  لئے  بنایا، خوب ٹایل وغیرہ لگائے، گھر میں ایک چھوٹا سامندر بنا لیا، اس میں لگانے  کے  لئے  شیوجی کی مورتی خریدنے  کے  لئے  مظفر نگر گیا، ایک قیمتی مورتی پانچ ہزار روپے  کی خریدی، دوکاندار نے  اس کو ایک اخبار میں پیک کر کے  دے  دیا، میں مظفر نگر میں شیو چوک سے  پہلے  ایک مسجد کے  سامنے  سے  گذر رہا تھا اچانک میرے  دل میں خیال آیا بلکہ میرے  اللہ کی طرف سے  ہدایت کی ہوا چلی، میں نے  سوچا اگر یہ مورتی میرے  ہاتھ سے  چھوٹ جائے  تو یہ گرے  گی اور گر کر ٹوٹ جائے  گی، جو گر کر خود ٹوٹ جائے  وہ بھگوان میرے  کس کام آ سکتا ہے  ؟ یہ خیال آ ہی رہا تھا کہ مورتی میرے  ہاتھ سے  چھوٹ کر گری اور اسطرح گری جیسے  کسی نے  میرے  ہاتھ سے  چھین کر دے  ماری ہو، گر کر دو چار ٹکڑے  ہو کر چور چور ہو گئی جیسے  کسی نے  ارادتاً اسے  چور چور کیا ہو، میرے  دل و دماغ میں انقلاب آ گیا اور میں نے  اپنے  آپ سے  کہا کہ مسلمانوں کا دھرم ہی اچھا ہے  ان کا خدا نہ ٹوٹے  نہ پھوٹے  ہر جگہ موجود، بس ایک کی پوجا کرو اور آرام سے  رہو اس خیال میں جذباتی ہو کر میں سامنے  مسجد کی طرف چڑھ گیا اور اونچی مسجد میں زینہ چڑھ کر داخل ہونا پڑتا ہے  وہاں ایک صاحب رہتے  ہیں وہ حضرت جی کا ندھلہ والوں کے  مرید بھی ہیں کالے  کپڑے  پہنتے  ہیں ان سے  میں نے  کہا میاں جی مجھے  مسلمان کر لو، وہ ہچکچائے  میں نے  ان سے  زور دے کر کہا شک نہ کرو گھبراؤ نہیں میں خوب سمجھ کر آیا ہوں مسلمانوں کا دھرم ہی سچاہے، ان کا خدا نہ ٹوٹے  نہ پھوٹے  ہر جگہ موجود ہر ایک کو دیکھتا ہے، مجھے  مسلمان کر لو وہ بھی میرے  جذبہ سے  متاثر ہو گئے  انہوں نے  کلمہ پڑھایا اور میر ا نام محمد لیاقت رکھ دیا، کلمہ پڑھنے  اور اسلام میں آ جانے  کے  بعد میں نے  اپنے  من میں ایک عجیب سکون و شانتی محسوس کی، میں خوشی خوشی گھر گیا گھر والے  معلوم کرنے  لگے  کہ مورتی کیوں نہیں لائے  میں نے  کہا کہ بتا دوں گا، رات میں سب سے  پہلے  میں نے  اپنی بیوی کو بتا یا بیوی پورا قصہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کہنے  لگی میں تو خود بہت دنوں سے  مسلمان ہونے  کو سوچتی تھی مسلمان گھروں میں جب جاتی تھی تو مجھے  مسلمان عورتیں نماز پڑھتی بہت اچھی لگتی تھیں ایک لڑکی ہے  شائستہ، وہ مجھے  تبلیغ کی کتاب بھی سناتی تھی میں نے  اس سال تین جمعوں کے  روزے  بھی رکھے  ہیں، میں جمعہ کو اس کو اپنے  گاؤں کے  امام صاحب کے  پاس لے  گیا اور مع بچوں کے  کلمہ پڑھوایا میری بیوی کا نام امام صاحب نے  فاطمہ رکھ دیا بچیوں کا نام عائشہ اور زینب اور لڑکوں کا محمد حامد اور محمود احمد رکھا۔

  سوال  : اسکے  بعد باقی بھائیوں نے  کس طرح اسلام قبول کیا؟

 جواب  : میرے  تینوں بھائیوں اور ان کے  پریوار نے  آپ کے  والد صاحب کے  یہاں اسلام قبول کیا، میری بیوی اور بچوں کے  کلمہ پڑھنے  کے  بعد میں نے  سب سے  چھوٹے  بھائی راجندر کے  سامنے  بہت محبت اور دردسے  بات رکھی اس نے  اپنی گھر والی سے  مشورہ کیا وہ راضی ہو گئی مگر ہمارے  یہاں جو امام تھے  وہ گاؤں سے  چلے  گئے  دوسرے  امام صاحب جو آئے  انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  منع کر دیا، وہ ڈر گئے  میں نے  گاؤں کے  کچھ مسلمانوں سے  ذکر کیا انہوں نے  مجھے  پھلت جانے  کا مشورہ دیا دو پہر کو پھلت پہنچے  مولانا کلیم صاحب سفر پر جانے  کے  لئے  گاڑی میں بیٹھ چکے  تھے  میں نے  گاڑی میں ان سے  ملاقات کی اور اپنے  بھائی اور بھابھی کو ملوایا، وہ گاڑی سے  اترے  ہمیں کلمہ پڑھوایا اور قانونی کاروائی کا طریقہ بتایا، ا پنے  سامنے  کھانا کھلایا چائے  پلائی اور ڈیڑھ گھنٹے  بعد سفر پر گئے، ہمیں ہندی کی کتابیں بھی دیں اور باقی بھائیوں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے  بچانے  کی فکر کے  لئے  ان کو اسلام کی دعوت دینے  کا وعدہ مجھ سے  لیا، گھر جانے  کے  بعد میں نے  وہ کتابیں پڑھیں اور پھر گھر کے  لوگوں کو سنائیں، خاص طور پر آپ کی امانت مولانا صاحب نے  بڑے  درد کے  ساتھ لکھی ہے، وہ دل کے  اندر گھسنے  والی کتاب ہے  اس کو پڑھنے  کے  بعد اسلام کی قدر ہم نے  اور پہچانی، دوسال میں کوشش کرتا رہا اور اللہ کا کرم ہے  کہ میرے  اور دو بھائی اور انکے  بچے  مسلمان ہونے  کو تیار ہو گئے  اور میں نے  انہیں پھلت لا کر کلمہ پڑھوایا۔

  سوال   : گھر کے  لوگوں نے  بات مان لی ؟خصوصاً عورتوں کا ماننا تو بہت مشکل ہے۔

 جواب  : اصل میں اللہ کی طرف سے  ہدایت کی ہوا چل رہی تھی جب بھی تو شیو کی مورتی نے  مجھ سے  کہا میں پوجا کے  لائق نہیں ہوں اور اسلام ہی سچا مذہب ہے، مورتی ٹوٹ گئی تو میں عیسائی بن جاتا، بودھ مذہب کو پڑھتا یا جاننے  کی کوشش کرتا، مگر مسجد کے  سامنے  میرے  دل میں کوئی خیال ہی نہیں آیا، یہ صرف اللہ کی طرف سے  ہدایت کا فیصلہ اور اس کی رحمت تھی، پرکاش کی بیوی مایا نے  تو شروع میں بہت مخالفت کی اور پورے  علاقہ میں شور مچانے  کی دھمکی دی، مگر ہم  لوگ اس کے  پیر پکڑ لیتے  اور راتوں کو اللہ سے  دعا کرتے، اللہ نے  اس کا دل پھیر دیا۔

  سوال   : اسلام قبول کرنے  کی خبر سے  ہندوؤں نے  مخالفت نہیں کی اور خاندان کے  لوگوں کی طرف سے  آپ لوگوں پر دباؤ نہیں پڑا؟

 جواب  : میں اب یہ بتانے  جا رہا تھا کہ میرے  چھوٹے  بھائی راجندر نے  اسلام قبول کیا تو ہمارے  بڑے  بھائی نیتا جی کو اس کا پتہ لگ گیا وہ آپے  سے  باہر ہو گئے، لاٹھی لے کر ہم دونوں کو بہت مارا، ہم دونوں مار کھاتے  رہے  اور انکی خوشامد کرتے  رہے  کہ آپ اسلام کے  بارے  میں جان تو لیں مگر وہ سننے  کو تیار نہ تھے، انہوں نے  دباؤ دینے  کے  لیے  علاقے  کے  تھانے  دار کو دو ہزار روپئے  دیئے، میں تو بھاگ کر پھلت چلا گیا، چھوٹے  بھائی کو پولس لے  گئی اور تھانے  میں بہت پٹائی کی چھوٹا بھائی بشارت کسی طرح تیار نہ ہوا تو انہوں نے  اس کو طرح طرح سے  اذیت دی اور شکنجہ لگایا جس سے  اس کی ایک پاؤں کی ہڈی بھی دو جگہ سے  ٹوٹ گئی، مجھے  دو روز بعد کسی طرح پتہ لگا، رات کو اندھیرے  میں اسے  تانگے  میں ڈال کر گھر سے  اٹھا کرلایا اور مظفر نگر ڈاکٹر خان کے  یہاں پلاسٹر کرایا مولانا کلیم صاحب کے  پر چہ کی وجہ سے  ڈاکٹر خان صاحب نے  کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ ہمارے  کھانے  کا انتظام بھی اپنے  آپ کیا، اسکے  بعد ہم نے  قانونی کاروائی پوری کی اور مشورہ سے  ایس پی اور کلکٹر کے  یہاں درخواستیں لگائیں، مظفر نگر میں ایک اے  ایس پی جین صاحب تھے  وہ بڑے  اچھے  آدمی تھے  انہوں نے  مظفر نگر سے  ایک داروغہ کو ہمارے  تھانے  بھیجا اور ہمارے  بڑے  بھائی اور گاؤں والوں کو بھی خبر دار کیا، اس طرح ہمارے  اللہ نے  ہمارے  لئے  مصیبت سے  بچنے  کا انتظام کر دیا۔

  سوال   : اب آپ کے  بڑے  بھائی نیتا جی کا کیا حال ہے ؟

 جواب  : اصل میں انکے  کوئی اولاد نہیں ہے، انہوں نے  ریاست عرف رام سنگھ کے  چھوٹے  بچے  کو گود لے  رکھا تھا، اس مسئلہ کے  بعد ہم لوگوں نے  مشورہ کیا کہ اپنے  لڑکے  کو واپس لے  لیں اور اسکو ان کے  گھر جانے  سے  روک دیا اس کو پیار سے  گڈو کہتے  تھے  اس کا پہلا نام رام پال تھا اب محمد بلال ہے، اسکو مدرسہ میں پڑھنے  بھیج دیا ایک دن بڑے  بھائی نیتا جی کے  پیٹ میں درد ہوا کئی انجکشن لگے  درد ٹھیک نہیں ہوا، میں مظفر نگر جماعت میں گیا ہو ا تھا گڈو کو معلوم ہوا تو وہ انکے  پاس گیا وہ دردسے  رو رہے  تھے  گڈو کو چمٹا کر خوب روئے  اس نے  ان سے  کہا کہ ڈیڈی لیاقت تاؤ سے  دعا کرالو، وہ ان کو ڈیڈی کہتا تھا وہ اس پر ناراض ہوئے  ایک ہفتہ تک مظفر نگر اور مختلف ڈاکٹروں کے  علاج کے  باوجود بھی درد ٹھیک نہیں ہوا، تھوڑی بہت دیر دوا کے  اثر سے  آرام ہو جاتا تھا اور پھر وہ تڑپنے  لگتے  تھے، گڈو نے  بار بار ان سے  مجھ سے  دعا کرانے  کے  لئے  کہا ایک دن ریاست سے  معافی مانگنے  کے  لئے  بھی کہا، میں دس دن جماعت میں لگا کر کر آیا تو معلوم ہوا کہ بھائی صاحب دو بار میرے  گھر آئے، میں سوچ رہا تھا کہ مجھے  ان کی طبیعت پوچھنے  جانا چاہئے  یہ میرا اسلامی فریضہ ہے، کہ وہ خود کراہتے  کولتے  آ گئے، مجھ سے  چمٹ گئے، خوب روئے، ریاست بھی آ گیا اس سے  بھی لپٹ گئے  اور معافی مانگنے  لگے  ہم سبھی رونے  لگے  میں نے  موقع غنیمت جانا اور کہا بھیا آپ ذراسا درد نہیں سہ سکے  ہمیشہ کی نرک کی آگ کو کیسے  برداشت کرو گے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  کہا، انہیں یہ بات اچھی تو نہ لگی مگر درد کی وجہ سے  وہ پریشان تھے، کہنے  لگے  میں ٹھیک ہو جاؤں گا تو سوچوں گا تم اپنے  اللہ سے  پرارتھنا (دعا) کرو، وہ چلے  گئے  میں نے  دو رکعت نماز پڑھی اور خوب دل سے  دعا کی اللہ کا کرم ہے  میرے  اللہ نے  میری باتوں کی لاج رکھ لی اور شام تک ان کو آرام ہو گیا اور ابھی تک ٹھیک ہیں۔

  سوال  : پھر آپ نے  ان کو دعوت نہیں دی؟

 جواب  : میں نے  ان کو دعوت دی اور وعدہ یاد دلایا اور ڈرایا کہ جس اللہ نے  آپ کو اچھا کیا وہ پھر بیمار کر سکتا ہے، مگر ابھی ان کے  لئے  ہدایت نہیں آئی اصل بات ہدایت کے  اوپر سے  آنے  کی مگر وہ اب ہمارے  ساتھ اچھی طرح ملتے  ہیں اور شاید ہمیں ناراض کرنے  سے  ڈرتے  بھی ہیں، دوسری ایک بڑی بات یہ ہوئی کہ ہماری زمینیں ایک ساتھ ان ہی کے  قبضہ میں تھیں ہم چاروں بھائیوں کی زمین بھی پچھلے  سال انہوں نے  ہمیں دے  دی ہے۔

  سوال  : آپ نے  اپنے  خاندان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام کیا؟

 جواب  : اللہ کا کرم ہے  ہمارے  چاروں بھائیوں کے  گھر والوں میں دین پڑھنے  کا شوق ہے  ہمارے  پانچ بچے  اور تین بچیاں حفظ کر رہی ہیں، ہمارا ارادہ ہے  کہ ان سب کو عالم اور داعی بنائیں گے، بلال تو بہت ہونہار ہے   بے  دھڑک اپنے  رشتہ داروں کومسلمان ہونے  کے  لئے  کہتا ہے  گھر کی تعلیم پابندی سے  ہوتی ہے  اور ایک ایک کر کے  ہم میں سے  کوئی ایک مستقل جماعت میں رہتا ہے۔

  سوال   : آپ اسلام قبول کر کے  کیسا محسوس کرتے  ہیں، پچھلی زندگی کے  بارے  میں آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

 جواب  : ہمارا اسلام ہمارے  مالک کا ہم پر خاص اور بہت خاص کرم ہے، میرے  اللہ کی رحمت ہے  کہ اس نے  خود شیوجی کی مورتی سے  ہمیں دعوت دلائی، مجھے  جب بھی اسلام اور پھر اپنے  خاندان کے  لوگوں کی اتنی آسانی سے  ہدایت کا خیال آ جاتا ہے  تو میرا دل میرے  اللہ کے  شکر سے  جھک جاتا ہے  کبھی کبھی تو بے  اختیار میں چلتے  چلتے  سجدہ میں پڑ جاتا ہوں، اگر خدا نہ کر ے  خدا نہ کرے  میرے  اللہ مجھ پر مہربانی نہ کرتے  اور ہم کفر پر رہتے  اور ہندو مر جاتے  تو ہم کیا کر سکتے  تھے  ہماری اللہ کی ذات پر زبردستی تو تھی نہیں، میرے  اللہ مالک کے  صدقہ جاؤں (روتے  ہوئے ) کہاں ہم گندے  اور کہاں ایمان کی دولت، الحمدللہ الحمدللہ

  سوال  : اپنے  حالات کے  بارے  میں اور کچھ بتائیں ؟

 جواب  : ہماری زندگی کا ہر پل اللہ کی رحمت کا نمونہ ہے، ہر دن رحمت کا کوئی کرشمہ سامنے  آتا ہے، سچی بات یہ ہے  کہ ہماری زندگی کیا دنیا کے  ہر انسان کی کی زندگی کے  ہر پل میں اسے  اللہ کی خاص رحمت دکھائی دے  گی اگر انسان کے   پاس دیکھنے  والی آنکھیں ہوں، بس انسان اس ایک سے  لو لگا لے  اور اسی کا بن جائے  اور زندگی کی ہر ضرورت اور  اپنی ہر پریشانی اللہ سے  کہے  اور اپنی ہمت بھر اس کے  دین پر چلنے  کی کوشش کرے  پھر دیکھئے  کہ وہاں سے  ہر سوال پورا ہوتا ہے  کہ نہیں،

  سوال  : آپ دعا مانگتے  ہیں ؟ آپ کی دعائیں اکثر قبول ہوتی ہیں کوئی خاص واقعہ بتائیے ؟

 جواب  : ہر انسان کو اپنے  اللہ سے  خوب مانگنا چاہیے  وہ سبھی کی دعائیں قبول کرتا ہے  میری تو آج تک کوئی دعا بھی لوٹائی نہیں گئی، میرے  لئے  تو زندگی کا ہر دن اللہ کی نئی رحمت کے  ساتھ آتا ہے، میں تو صبح کے  بعد انتظار کرتا ہوں کہ کیا خاص رحمت کا معاملہ سامنے  آتا ہے، میں دو روز پہلے  جماعت سے  چلہ لگا کر آیا ہوں، جماعت میں جانے  سے  پہلے  میری بیوی بیمار تھی ان کا آپریشن کرانا پڑا میرے  پچیس تیس ہزار روپیئے  خرچ ہوئے  کچھ اور بھی مسائل تھے  ہمارے  علاقہ میں جوڑ تھا ساتھیوں نے  مجھ سے  کہا کہ آپ کا جماعت میں جانے  کا نمبر ہے، میں نے  ابھی موقع نہ ہونے  کا عذر کیا، جانسٹھ کے  ایک ساتھی نے  زور دے  کر نام لکھوا دیا اور کہا کہ خرچ کی فکر نہ کرو خرچ میرے  ذمہ ہے، شاید نو مسلم سمجھ کر انھوں نے  ایساکیا، نو مسلم سمجھ کر جب میرے  ساتھ کوئی تعاون کا معاملہ کرتا ہے  تو نہ جانے  کیوں مجھے  بہت تکلیف ہوتی ہے، ہم نے  اسلام قبول کیا ہے  غیروں کے  آگے  بھکاری بننا تو اسلام نہیں ؟ میں نے  آج تک اس طرح کا تعاون نہ خود قبول کیا ہے  نہ الحمدللہ بھائیوں وغیرہ کو قبول کرنے  دیا ہے، سختی برداشت کی، ابتداء میں تو بہت مالی پریشانی رہی مگر اللہ نے  مجھے  جمائے  رکھا اور میرے  بھائیوں کو بھی ہمت دی میرا ارادہ تھا کہ اگر وقت پر خرچ کا انتظام نہ کر سکا تو منع کر دوں گا، دوسروں سے  قرض لے  کر نہیں جاؤں گا، جماعت کا وقت آ گیا خرچ کا انتظام نہ ہو سکا دوسو روپیئے  صرف میرے  پاس تھے، ساتھیوں نے  اصرار کیا، اس قدر دباؤ دیا کہ میں منع کرنے  کے  حال میں نہیں رہا اور دل میں خیال کیا کہ میں سوال تو نہیں کیا خود پیشکش کر رہے  ہیں، تو کیا حرج ہے  میں جماعت میں چلا گیا ۱۵۰۰ روپیئے  خرچ کی جماعت تھی، جماعت مرکز سے  گجرات پالن پور حلقہ میں گئی، ساتھیوں نے  پیسے  جمع کرنے  شروع کئے  تھے  ہمارے  ساتھی نے  ہمارے  پیسے  جمع کرنے  چاہے، مگر عین وقت پر میرے  دل نے  مجھے  اجازت نہیں دی میں نے  ان کو منع کر دیا اور دوسوروپیئے  ابتدائی خرچ وغیرہ کے  امیر صاحب کو دئیے  اور کہا انشاء اللہ بقیہ میں جمع کر دوں گا، جماعت پالن پور پہنچ گئی روز خرچ جمع کرنا تھا، میں نے  دو رکعت صلوۃالحاجۃ پڑھی اپنے  اللہ کے  سامنے  فریاد کی، رات کو سویا تو ہمارے  حضورﷺ کی زیارت ہوئی مجھے  تسلی دے  رہے  ہیں کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں شرمندہ نہیں کریں گے  اگلے  روز ظہر کے  بعد میں یہ دیکھ کر حیرت میں رہ گیا کہ ہمارے  بڑے  غیر مسلم بھائی نیتا جی پالن پور مرکز کے  ایک ساتھی کو لے  کر میری تلاش میں میرے  پاس آئے، میں تعجب میں تھا، تو انہوں نے  بتایا کہ دو روز پہلے  میں نے  تم کو دیکھا تم بہت رو رہے  ہو، مجھے  خیال ہوا کہ تمہارے  پاس پیسے  نہیں ہیں میں تمہارے  گھر گیا تو پتہ چلا کہ تم جماعت میں گئے  ہو، میں منشی ریاض کو لے کر دہلی مرکز نظام الدین آیا وہاں سے  تمہارا پتہ چلا کہ پالن پور گئے  ہو، احمد آباد میل سے  پالن پور آیا، یہ بتا کر دو ہزار روپیئے  دیئے  کہ وہ جو دس ہزار روپیئے  تمہارے  مجھ پر ہیں ان میں سے  دو یہ ہیں، آٹھ ہزار گاؤں میں آ کر لے  لینا ایک روز وہ میرے  ساتھ رہے  اگلے  روز واپس آئے  میں بار بار شکرانے  کی نماز پڑھتا رہا، یہ دس ہزار روپیئے  اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  کے  تھے  اور انہوں نے  دینے  کے  لئے  بالکل منع کر دیا تھا اس طرح نہ جانے  کتنے  واقعات زندگی میں روز روز ہوتے  رہتے  ہیں۔

  سوال   : لیاقت بھائی واقعی آپ پر اللہ کا بڑا کرم ہے  اور آپ کا اللہ سے  خاص تعلق ہے  آپ ہمارے  لئے  بھی دعاء کیجئے۔

 جواب  : مولوی احمد بھائی، اللہ کا کرم تو سب پر ہی ہوتا ہے، ہم پر یہ کرم خاص ہے  کہ وہ اپنے  کرم اور رحمت کا احساس بھی کرا دیتا ہے، آپ کے  لئے  میں کیوں دعاء نہ کروں گا آپ کی تو نسلوں کے  لئے  بھی میں دعاء کرتا ہوں، مولانا کلیم صاحب تو ہمارے  رہبر ہیں، ہمارے  بڑے  محسن ہیں، اپنے  محسن کا حق ہم نہیں پہچانیں گے  تو کون پہچانے  گا، اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں میں چمکائے  

  سوال   : آپ مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہیں گے ؟

 جواب  : بس میرا کہنا تو یہ ہے  کہ میرے، میرے  گھر والوں کے  اسلام و ایمان پر موت کے  لئے  اور جو عزیز رہ گئے  ہیں بلکہ سارے  انسانوں کے  لئے  ہدایت کی دعاء کریں کہ اصل ہدایت کا فیصلہ اللہ کے  یہاں سے  ہو کر آتا ہے  پھر تو خود راستے  ملتے  جاتے  ہیں۔

منزلیں کسی کے  گھر حاضری نہیں دیتیں

راستوں پہ چلنے  سے  راستے  نکلتے  ہیں

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان مارچ ۲۰۰۴ء

٭٭٭

ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب {کمل سکسینہ} سے  ملاقات

احمد اواہ         : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبدالرحمٰن   : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   : آپ خیریت سے  ہیں آج کل آپ کہاں رہ رہے  ہیں ؟

 جواب  : الحمد للہ خیریت سے  ہوں، آج کل میں پونہ مہاراشٹر میں رہ رہا ہوں الہ آباد جا رہا ہوں وہاں یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ میں ایک پوسٹ نکلی ہے  اسکے  انٹرویو کے  لئے  وہاں جانا ہے، راستے  میں مولانا صاحب(مولانا محمد کلیم صاحب) سے  ملنے  کے  لئے  دہلی آیا ہوں۔

  سوال  : بہت اچھا ہوا آپ تشریف لائے  ہمارے  یہاں پھلت کے  میگزین ارمغان میں کچھ داعیوں اور اسلام میں نئے  آنے  والے  خوش قسمت بھائیوں کے  انٹرویو کا سلسلہ چل رہا ہے  اس سلسلہ میں آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

  جواب  : ضرور ضرور یہ بڑا اچھا سلسلہ ہے  اس سے  پڑھنے  والوں کو بہت فائدہ ہو گا، انشاء اللہ

  سوال   : اپنا مختصر تعارف کرائیے ؟

جواب  : میرا نام اب الحمدللہ عبدالرحمٰن ہے  جو ۹/جون ۱۹۹۵ء سے  قبل کمل سار سکسینہ(کے  سی سکسینہ) تھا ہندو کا یستھ فیملی سے  میرا تعلق ہے  پرتاپ گڑھ کا قصبہ رانی گنج ہمارا آبائی وطن ہے  میرے  والد آئی پی ایس آفیسر ہیں اور آج کل مغل سرائے  میں ڈی آئی جی ہیں کایستھ ہونے  کی وجہ سے  ہمارے  یہاں اردو ہماری گھر یلو تہذیب کا لازمی جز ہوتی ہے، ہمارے  والد بہت اچھے  شاعر ہیں اور ساحرؔ تخلص ہے  میں نے  سائیکالوجی میں ایم اے  کیا اور علم نفسیات میں الہ آباد سے  ۱۹۹۴ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میری تاریخ پیدائش ۹/جون ۱۹۶۵ء کی ہے  اسطرح میری عمر اب تقریباًانتالیس سال ہے، مگر حقیقی عمر میری نو سال ہے  آپ سمجھ گئے  ہوں گے، میں اپنے  بہن بھائیوں میں سب سے  بڑا ہوں، میری ایک چھوٹی بہن اور ان سے  چھوٹا ایک بھائی ہے  جو انجینئر ہیں انہوں نے  روڑ کی آئی ٹی آئی سے  الیکٹرونکس میں انجینئرنگ کی ہے  پچھلے  سال بی ایچ ایل میں ملازم ہو گئے  ہیں میں آج کل پونہ میں ایک ڈگری کالج میں نفسیات پڑھا رہا ہوں۔

  سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائے ؟

 جواب  : اصل میں آج دنیا میں مغرب کی حکمرانی ہے، تہذیب، کلچر، ثقافت سبھی میں لوگ ان کی ڈَگر پر چلتے  ہیں، آج کل مغربی ممالک میں ایک علم بڑا عروج پر ہے  اس کا نام انہوں نے  پیراسائیکالوجی رکھا ہے  اس میں ماور ائے  عقل باتوں اور چیزوں پر ریسرچ ہوتی ہے  اس میں ایک جز علم الہیات کا بھی انہوں نے  رکھا ہے  آپ آج کل یورپ کے  ناولوں کو دیکھیں تو اس میں ڈائن چڑیل وغیرہ کی بڑی اہمیت دکھائی دے  گی بلکہ بعض بڑے  پڑھے  لکھے  اور چاند تاروں پر کمند ڈالنے  والے  سائنس دانوں کی ذاتی زندگی میں جناّت اور آسیب وغیرہ کی داستانیں دکھائی دیں گی دراصل ہمارے  مولانا محمد کلیم صاحب صحیح کہتے  ہیں کہ انسان کی فطرت میں اور اس کی روح کی سرشت میں اللہ نے  یہ جذبہ رکھا ہے  کہ وہ کسی ایسی ذات کے  آگے  جھکے  اور اس کے  سامنے  اپنے  دل اور اپنے  دماغ اور عقل کو جھکائے  جو عقل و تصور سے  ماور ا ہو اس لئے  آدمی جب کہیں کچھ ماور ائے  عقل شعبدہ دیکھتا ہے  فوراً متاثر، مرعوب بلکہ معتقد ہو جاتا ہے، اصل میں یہ عالم ازل میں میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے  سبق کا کرشمہ ہے  اسی جذبے  کی تسکین کے  لئے  مغرب کی مادی دنیا نے  پیراسائیکالوجی کا سہارا لیا ہے۔

            نوجوانوں میں اس علم میں ریسرچ کا بہت شوق بڑھ رہا ہے  میں اور میرے  تین ساتھی سائیکالوجی پر ریسرچ کر رہے  تھے  ہم لوگوں کو شوق ہوا کہ ہم جرمنی جا کر پیراسائیکالوجی میں ریسرچ کریں، میں نے  اپنے  لئے  جنوں پر ریسرچ کرنا طے  کیا، مجھے  خیال ہوا کہ اس کی بنیادی معلومات کے  لئے  ہندوستان سب سے  بہتر جگہ ہے  نوجوانی کی عمر میں مجھے  اپنے  مشن کی دھن تھی اس سلسلے  میں بہت سے  لوگوں سے  ملا، بہت سے  سیانے  اور تانترک لوگوں سے  ملنا ہوا، بہت سے  عالموں سے  ملاقاتیں کیں، بنگال کے  سفر کئے، دیوبند گیا، میں نے  بہت سے  عمل کئے  چلّے  کئے  جلالی اور جمالی پرہیز کے  ساتھ بہت سے  وظیفے  پڑھے  بہت سے  تعویذ مجھے  آ گئے  اور آسیب وغیرہ کا علاج کرنے  لگا، الہ آباد کے  بڑے  عالموں سے  ملا ندوہ بار بار آتا رہا، میری خواہش تھی کہ کوئی جن میرے  تابع ہو جائے  یا کسی جن سے  میری ملاقات ہو جائے  مگر کوئی عامل کوئی تانترک میری خواہش پوری نہ کر سکے، کئی بار عملیات کے  دوران مجھے  کچھ ڈراؤنی آوازیں بھی آئیں مگر کوئی جن مجھے  نظر نہ آیا کچھ مریضوں کے  منہ سے  جن بولا میں نے  علاج بھی کیا۔

            ایک روز میں ندوہ گیا وہاں مولانا عبداللہ حسنی نے  مجھے  بتایا کہ ہمارے  ایک دوست ایک دو روز میں پھلت سے  آنے  والے  ہیں، وہ آپ کا مسئلہ حل کر سکتے  ہیں انہوں نے  مجھ سے  کہا کہ میں تو اتوار کے  روز تکیہ رائے  بریلی آ جاؤں، جون کا مہینہ تھا میں تین بجے  کے  قریب تکیہ پہنچا سب لوگ کھانے  کے  بعد آرام کر رہے  تھے  میں باہر تخت پر بیٹھا ہوا تھا ایک مولانا ضرورت کے  لئے  استنجاء خانہ گئے  واپس آئے  مجھے  بیٹھا دیکھ کر کہنے  لگے  : آپ ڈاکٹر کے  سی سکسینہ ہیں ؟میں حیرت میں آ گیا اور تعجب سے  جواب دیا : جی ہاں، مگر آپ کو میرا نام کیسے  معلوم ہوا؟وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے  ہوئے  اندر لے  گئے  اور ٹھنڈا پانی پلایا پھر بولے  میں ایک انسان ہوں مالک کا بندہ ہوں، مجھے  غیب کا علم نہیں ہے  اور اللہ کے  علاوہ کسی کو غیب کا علم نہیں ہوتا، اصل میں مولانا عبداللہ حسنی نے  مجھ سے  کہا تھا کہ ڈاکٹر کے  سی سکسینہ نام کے  ایک نوجوان آپ سے  ملنا چاہتے  ہیں وہ اتوار کے  روز تکیہ آئیں گے  میں صبح سے  انتظار میں تھا میں نے  آپ کو دیکھا تو حلیہ دیکھ کر مجھے  خیال ہوا کو آپ ہی ڈاکٹر سکسینہ ہیں اس لئے  میں نے  سوال کر لیا۔

            میں اس صاف گوئی سے  بہت متاثر ہوا میں نے  جن عاملوں اور تانترکوں سے  ملاقات کی تھی ان میں سے  ہر آدمی اپنے  کمال کا معتقد بنانا چاہتا تھا، مولانا کلیم صاحب کی اس بات نے  مجھ کو بہت متاثر کیا، مجھے  خیال ہوا کہ ضرور مجھے  یہاں مدد ملے  گی یا کم از کم حقیقت معلوم ہو جائے  گی، مولانا نے  مجھ سے  کہا آپ خدمت بتائیے، میرے  لائق کیا خدمت ہے  جو اتنی شدید گرمی میں آپ نے  زحمت کی میں نے  جو اب میں اپنا پورا مدعا بتا دیا کہ میں پیرا سائیکالوجی میں ریسرچ کرنا چاہتا ہوں مجھے  اس کے  لئے  جرمنی جانا ہے، میں وہاں جانے  سے  قبل کسی جن کو تابع یا کم از کم چند روز کے  لئے  اس سے  ملاقات کرنا چاہتا ہوں مولانا عبداللہ نے  بتایا تھا کہ آپ میری اس سلسلے  میں ضرور مدد کریں گے  میں نے  اپنی پوری کار گزاری بھی سنائی، جو چلّے  اور عملیات کئے  اور نقش و تعویذ سیکھے  وہ بتائے  جس پر مولانا نے  بڑی حیرت کا اظہار کیا مولانا نے  ہنستے  ہوئے  جواب دیا آپ بہت بہادر آدمی ہیں میں تو بہت بزدل ہوں مجھے  تو جن کے  نام سے  ڈر لگتا ہے  ہمارے  گاؤں میں چند ویران مکانات اور کھنڈر پڑے  تھے  مشہور تھا کہ وہاں جن رہتے  ہیں، ہم لوگ بچپن میں پاس سے  دوڑ کر نکلتے  تھے، ڈرتے  ڈرتے  پیچھے  دیکھتے  رہتے  تھے  کہ کوئی جن آ کر دبوچ نہ لے  ایسا بزدل آدمی آپ کے  کس کام آ سکتا ہے  میں نے  کہا آپ کو میری مدد کرنی ہو گی کئی سال مجھے  مارے  مارے  پھرتے  ہو گئے  ہیں مجھے  یقین ہے  کہ آپ ضرور میری خواہش پوری کر سکتے  ہیں، میرے  بہت اصرار پر مولانا نے  کہا اول تو جس مخلوق کو اللہ نے  آزاد بنایا ہے  اس کو تابع کرنا جائز نہیں یہ ظلم ہے، جس طرح شیر کی سواری ہمارے  مذہب میں جائز نہیں، دوسری بات یہ ہے  کہ جن عملیات کے  ذریعہ لوگ جنوں کو تابع کرتے  ہیں ان میں اثر کے  لئے  ایمان لانا ضروری ہے  ایمان کے  بغیر ان میں تاثیر نہیں ہو سکتی اس لئے  اس کے  لئے  مسلمان ہونا ضروری ہے  مجھے  جن تابع کر نے  کی دھن سوار تھی اس لئے  میں مذہب کو بھی قربان کر سکتا تھا میں نے  فوراً مولانا سے  کہا میں اس کے  لئے  مسلمان ہونے  کے  لئے  تیار ہوں۔

            مولانا نے  جواب دیا جلدی مت کیجئے  بات یہ ہے  کہ میری غیرت اس کو گوارہ نہیں کرتی کہ محض جن تابع کرنے  لئے  میں آپ کو کلمہ پڑھاؤں اور مسلمان کروں پھر آپ جو اسلام، جن تابع کرنے  کے  لئے  قبول کریں گے  وہ اسلام اللہ کے  یہاں کہاں قبول ہو گا، میری بات سنئے  اور اطمینان سے  فیصلہ کر لیجئے، میں اس وقت کچھ دیر آپ کو اسلام کے  بارے  میں کچھ بتاتا ہوں اس کا مختصر تعارف کراتا ہوں مجھے  امید ہے  کہ اگر آپ نے  غورسے  سن لیا اور اسلام کی حقیقت کو جان لیا تو آپ کو جن تابع کرنے  یا اس سے  ملاقات کرنے  سے  زیادہ، اسلام کی دھن لگ جائے  گی کچھ کتابیں آپ کو بتاتا ہوں آپ اسلام کو اچھی طرح پڑھ لیں اگر آپ مطمئن ہو گئے  اور آپ نے  جان لیا کہ اسلام کے  بغیر نجات نہیں ہو گی تو آپ کلمہ پڑھ کر سچے  دل سے  مسلمان ہو جائیں، مسلمان ہونے  کے  بعد میرا وعدہ ہے  کہ آپ پھلت آ جائیں میں ایک یا چند جنوں سے  ملاقات کرا دوں گا جو آپ کے  ساتھ اس وقت تک رہیں گے  جب تک آپ پوری معلومات حاصل نہ کر لیں اس کے  لئے  نہ کسی عمل کی ضرورت ہو گی نہ وظیفے  کی۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : جی میں بتا رہا ہوں، میں نے  ان کی بات سے  اتفاق کیا وہ تقریباً ایک گھنٹے  تک اسلام کے  بارے  میں بتلاتے  رہے  حضوراقدس ﷺ کی سیرت پاک کی مختصر طور پر رہنمائی کی اور مجھے  اس بات پر زور دیتے  رہے  کہ پیراسائیکالوجی میں ریسرچ اور جن سے  ملاقات سے  پہلے  ضروری یہ ہے  کہ اول وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤں اس لئے  کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کتابوں کی ایک فہرست تیار کر دی مجھے  پھلت کا پتہ بتایا مجھ سے  فون اور ایڈریس مانگا میں نے  جواب دیا کہ میرے  والد کا پر موشن ہو رہا ہے  نیا پتہ اور فون نمبر میں ڈاک سے  بھیج دوں گا اور جولائی کے  شروع میں اپنے  تینوں ساتھیوں کے  ساتھ پھلت آؤں گا، پونے  پانچ بجے  حضرت مولانا صاحب اٹھ گئے  مولانا کلیم صاحب مجھے  بڑے  حضرت مولانا علی میاں صاحب سے  ملوانے  لے  گئے  اور ان سے  میرے  مقصد میں کامیابی اور ہدایت کے  لئے  دعا کو کہا، مجھے  لکھنؤ جانا تھا اتنی دیر کی ملاقات کے  بعد میرا دل اسلام کے  لئے  کافی مطمئن ہو گیا تھا میں نے  لکھنؤ آ کر ’’ اسلام کیا ہے ‘‘ اور ’’ خطبات مدارس‘‘ دو کتابیں خریدیں جن کو سب سے  پہلے  پڑھنے  کا مشورہ دیا تھا ان کتابوں کو پڑھنے  کے  بعد مجھے  کسی طرح کوئی شبہ نہیں رہا کہ اسلام ہی اللہ کے  یہاں مقبول مذہب ہے  اور میں ایک ہفتہ کے  بعد حضرت مولانا کے  پاس تکیہ جا کر مشرف با اسلام ہوا یہ ۹/جون ۱۹۹۵ء گیارہ بجے  دن کی بات ہے  حضرت نے  میرا نام عبدالرحمٰن رکھا۔

  سوال  : اس کے  بعد آپ جولائی میں پھلت آئے  تھے  ؟

 جواب  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد مجھے  اسلام کے  مطالعہ کی دھن لگ گئی اور اسلام کی حقانیت اور اس کی لذت، میرے  وجود پر چھا گئی مجھے  خیال ہوا کہ مجھے  جنوں کی نہیں جنوں کے  مالک کی تلاش تھی، جو قرآن حکیم کی زبان میں شہ رگ سے  بھی زیادہ قریب تھا اسلام کا مطالعہ کرنے  اور تھوڑی تھوڑی نماز و ذکر وغیرہ سے  مجھے  یہ لگا کہ مجھ کو جنوں کے  تابع کرنے  اور ان سے  ملاقات کے  لئے  نہیں بلکہ جنوں کے  مالک کا تابع و فرماں بردار بننے  کے  لئے  اور اس کی لقا کا شوق پیدا کرنے  کے  لئے  پیدا کیا گیا ہے۔

  سوال  : پیراسائیکالوجی کی ریسرچ کا کیا ہوا؟

 جواب  : اسلام قبول کرنے  اور اس کا گہرائی سے  مطالعہ کرنے  کے  بعد میرے  دل و دماغ کے  پردے  اٹھ گئے  مجھے  احساس ہوا کہ مالک کائنات کی دی ہوئی یہ چھوٹی سی زندگی مجھے  اللہ کے  بندوں کو اللہ سے  ملانے  کے  لئے  دی گئی ہے  میں نے  رحمت اللعالمین کا مطالعہ کیا اس کتاب کے  مطالعہ سے  مجھ میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں رحمت اللعالمین نبی کا امتی اور ان کا پیرو سارے  عالم کے  لئے  نہیں تو کم از کم پوری انسانیت کے  لئے  خیر خواہ اور داعی بنے  بغیر ہرگز نہیں کہلاسکتا، میں نے  ارادہ کیا کہ مجھے  زندگی اسلام کی دعوت کے  لئے  وقف کرنی ہے  اور الحمد للہ میرے  اللہ نے  مجھ سے  کام لیا، میں نے  ریسرچ کا ارادہ ترک کر دیا۔

  سوال  : اس کے  بعد مولانا کلیم صاحب سے  ملاقات ہوئی ؟

 جواب  : کئی ماہ کے  بعد ایک بار میں تکیہ حضرت مولانا کی خدمت میں چند روز رہنے  کے  لئے  گیا مغرب کی نماز کے  بعد مولانا صاحب سے  میری ملاقات ہو گئی میں نے  ہلکی سی داڑھی رکھ لی تھی کرتا پاجامہ پہنے  ہوا تھا مجھے  اچانک ان کو دیکھ کر خوشی ہوئی، میں ان سے  چمٹ گیا وہ مجھے  نہیں پہچان سکے  جب میں نے  بتایا کہ میں ڈاکٹر سکسینہ اب عبدالرحمٰن ہوں وہ بہت خوش ہوئے  مجھے  بار بار مبارک باد دی کئی روز ہم ساتھ رہے  وہ سوچ رہے  تھے  کہ میں اب ان سے  اپنی ریسرچ کے  لئے  جن سے  ملاقات کے  لئے  کہوں گا جب کئی روز تک میں نے  اپنا مطالبہ نہیں رکھا تو انہوں نے  ایفائے  وعدہ کے  خیال سے  مجھ سے  کہا کہ اب اگر آپ کسی جن سے  ملاقات کرنا چاہتے  ہیں تو دہلی یا پھلت چند روز کے  لئے  آ جانا میں ایک یا چند جنوں سے  آپ کی ملاقات کرا دوں گا آپ ان سے  اطمینان کی حد تک معلومات حاصل کر لیں میں نے  جواب دیا کہ مجھے  اب کسی جن سے  نہیں ملنا ہے  میرے  اللہ نے  میرے  لئے  میری راہ مجھ پر کھول دی ہے۔

  سوال  : اس کے  بعد آپ نے  اپنے  گھر والوں سے  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتا دیا؟

 جواب  : ہمارا گھرانہ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ ہے  میں نے  چند روز کے  بعد گھر کے  لوگوں سے  بتا دیا شروع شروع میں انہوں نے  مجھے  سمجھایا اور خاندانی اور مذہبی روایات کی لاج رکھنے  کو کہا بعد میں انہوں نے  کہنا چھوڑ دیا بعض دوسرے  رشتہ داروں اور جونپور کے  بعض مذہبی لوگوں نے  مجھ پر بہت دباؤ دیا چند مرتبہ مجھے  دھمکیاں بھی دی گئیں، مگر وہ سب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے  الحمد للہ زیادہ مخالفتوں کی وجہ سے  میرے  والد نے  مجھے  دور چلے  جانے  کا حکم دیا میں اپنے  ایک دوست کے  ساتھ ممبئی چلا گیا اس کے  بعد کچھ روز تمل ناڈو میں پھر چدمبرم کے  علاقہ میں رہا وہاں پر عیسائیوں اور دلتوں میں اللہ نے  خوب دعوت کا کام لیا ہماری ایک فعال جماعت بن گئی ایک بہت بڑے  پادری فادر پیٹر جیمس نے  اسلام قبول کیا ایک بڑے  بدھ رہنما اس حقیر کے  واسطے  سے  مشرف باسلام ہوئے، پانچ سال کے  بعد میں پونے  آ گیا اور آج کل وہیں رہ رہا ہوں۔

  سوال  : آپ کی شادی ہو گئی؟

 جواب  : میرا ارادہ پہلے  شادی کا نہیں تھا مجھے  خیال تھا کہ خاندان کے  ساتھ مشغولی میرے  لئے  دعوتی مشن میں رکاوٹ ہو گی کم از کم وقت اور صلاحیت تقسیم ہو گی مگر ہمارے  مولانا کلیم صاحب نے  مجھے  زور دیا اور کہا کہ ہمارے  نبی ﷺ کی زندگی ہمارے  لئے  نمونہ ہے  اگر شادی دعوت میں رکاوٹ ہوتی تو آپ ﷺ ہر گز شادی نہ کرتے  شادی کے  بغیر آدمی کی زندگی ادھوری ہے  اور ایمان بھی مکمل نہیں، ہر وقت یوں بھی آدمی کے  ساتھ نفس کا خطرہ لگا رہتا ہے  میں نے  شادی کے  بارے  میں سوچنا شروع کیا حیدر آباد کے  ایک چرچ میں ہم لوگوں کی ایک دعوتی سفر کے  دوران ایک بہت مخلص عیسائی راہبہ سے  ملاقات ہوئی جس نے  یسوع کی رضا کے  لئے  اپنے  جان گھلا رکھی تھی پہلے  ان کی شادی ہوئی تھی ان کے  شوہر ان کو دھوکہ دے  کر بھاگ لئے  ان کا دل ٹوٹا اور انہوں نے  مذہبی زندگی اختیار کر لی ۴۲/سال ان کی عمر تھی مجھے  ان کے  خلوص نے  بہت متاثر کیا میں نے  ان پر کام کرنا شروع کیا اور میں اپنے  ساتھیوں سے  اجازت لے  کر پندرہ روز حیدر آباد رہا الحمدللہ اللہ نے  ان کو ہدایت دے  دی مولانا عاقل حسامی نے  ان کو کلمہ پڑھایا بعد میں، میں نے  ان سے  شادی کی پیشکش کی، انہوں نے  معذرت کی، اپنے  پہلے  تجربے  کی تلخی اور اپنی عمر کا عذر کیا میں نے  ان کو شرعی تقاضے  بتائے  وہ راضی ہو گئی اور پونہ آ کر ہم نے  نکاح کر لیا، الحمد للہ وہ بڑی وفا دار رفیقہ حیات ہیں ان کے  والد کی ساری جائیداد ان کو ملی تھی وہ وجے  واڑہ کی رہنے  والی تھی ان سے  شادی کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  روز گار کے  سلسلے  میں مجھے  فارغ کر دیا ہمارے  یہاں گزشتہ سال ایک بچی پیدا ہوئی ہے  میں نے  ان کا نام زینب رکھا ہے  میری اہلیہ کا پہلا نام لوئیس رانی تھا مولانا عاقل حسامی اس کا اسلامی نام سمیّہ رکھا تھا میں نے  شادی کے  بعد بدل کر اس کا نام خدیجہ رکھ دیا۔

  سوال  : اب آپ کا مشغلہ کیا ہے ؟

 جواب  : اپنی زندگی کو مولانا صاحب کے  مشورہ سے  گزارنا چاہتا ہوں انہوں نے  مجھے  حکم دیا ہے  کہ دعوتی مقاصد کے  لئے  کوئی مشغلہ ہونا چاہئے  میں نے  پونہ کے  ایک ڈگری کالج میں عارضی طور پر پڑھانا شروع کر دیا ہے  الہ آباد یونیورسٹی میں ایک ریڈر کی جگہ نکلی ہے  اس کے  لئے  جا رہا ہوں کہ اپنے  اہل تعلق اور پریاگ پیٹھ میں دعوت کا کام کرنے  کا موقع ملے  گا۔

  سوال  : سنا ہے  آپ ایک عرصے  سے  دعوتی مشن میں لگے  ہیں اب تک آپ کے  واسطے  سے  کتنے  لوگوں نے  اسلام قبول کیا ہو گا؟

 جواب  : ہمارے  مولانا صاحب کہتے  ہیں جو چل لئے  اس کو کیا دیکھنا جو راستہ طے  کرنا ہے  اس کو دیکھنا چاہئے، پانچ ارب لوگ اسلام سے  محروم دوزخ کی راہ پر چل رہے  ہیں ان کے  مقابلے  میں جو لوگ ہدایت یاب ہوئے  ہو بالکل نا کے  برابر ہیں، کبھی کبھی حوصلے  کے  لئے  مڑ کر دیکھ لینا بھی برا نہیں ہے، الحمدللہ ثم الحمدللہ اس حقیر کے  واسطے  سے  کم از کم دو سو لوگ تو ایسے  مشرف باسلام ہوئے  ہوں گے  جو کم از کم گریجویٹ ہیں اس کے  علاوہ بعض مقامات  پر اجتماعی طور پر بھی چند گھرانوں نے  اسلام قبول کیا ہے۔ الحمدللہ ثم ا لحمد للہ

  سوال  : آپ نے  اپنے  گھر والوں پر کام نہیں کیا ؟

 جواب  : واقعی میں نے  ان کا حق ادا نہیں کیا۔ ان پر سرسری طور پر کام کرتا رہا حالانکہ سب سے  زیادہ ان کا حق تھا چند ماہ سے  اپنے  والد سے  رابطہ شروع کیا ہے  پہلی چند ملاقاتوں میں تو ہنستے  تھے  اور کہا کرتے  تھے ’’ خودتو ڈوبے  ہیں صنم تم کو بھی لے  ڈوبیں گے ‘‘

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جون ۲۰۰۴ء   

٭٭٭

جناب محمد انس صاحب {ورن کمار چکرورتی} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ    : السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمدانس : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :  انس بھائی آپ خیریت سے  ہیں ؟ کافی روز کے  بعد آپ سے  ملاقات ہوئی۔

 جواب  : الحمد للہ خیریت سے  ہوں، واقعی بہت روز کے  بعد آ سکا، پھلت دو تین بار حاضر ہو ا مگر وہاں پر حضرت مولانا محمد کلیم صاحب سے  ملاقات نہیں ہوئی، وہ سفر پر گئے  ہوئے  تھے، اب دہلی کا پتہ معلوم کر کے  فون کر کے  یہاں آیا ہوں۔

  سوال  : اللہ کا شکر ہے  آج آپ آ گئے  اصل میں پھلت سے  جوار دو ماہ نامہ ارمغان نکلتا ہے  اس میں مشرف باسلام ہونے  والے  خوش قسمت بھائی بہنوں کے  انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، تاکہ دعوت کا کام کرنے  والوں کی رہنمائی ہو، میں لکھنو سے  آیا ہوا تھا اور فکر میں تھا کہ اس ماہ کس کا انٹر ویو شائع کیا جائے، اللہ کا شکر ہے  اس نے  آپ کو بھیج دیا، میں آپ سے  ماہنامہ ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب  : احمد بھیا میں اس لائق کہاں ! آپ اگر کچھ معلوم کرنا چاہیں کر لیں، میرے  لئے  خوش قسمتی ہو گی کہ دعوتی میگزین میں میرا نام آئے۔

  سوال  : آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

 جواب  : میرا نام الحمد للہ محمد انس ہے، ۲۴مئی ۲۰۰۰ء کو اللہ نے  مجھے  پھلت میں آپ کے  والد صاحب کے  ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت عطا فرمائی میرا اصلی وطن کلکتہ ہے  میرا پہلا نام  ’ورن کمار چکرورتی  تھا ہم لوگ چکرورتی بر ہمن خاندان سے  تعلق رکھتے  ہیں میرے  والد شری ارون کمار جی بڑے  تاجر تھے  ہم لوگوں کا کلکتہ کے  ایک بڑے  بازار میں چمڑے  کی جیکٹ، پرس وغیرہ کا کاروبار تھا میں سب سے  بڑا بھائی ہوں مجھ سے  چھوٹے  دو بھائی اور بہن ہیں ایک بہن اور ایک بھائی زیر تعلیم ہیں، میں نے  انگریزی میں ایم اے  کیا ہے  میرا ارادہ انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے  کا تھا مگر میرے  والد کی بیماری اور ان کے  انتقال کی وجہ سے  مجھے  اپنی تعلیم چھوڑ نی پڑی اور دوکان پر بیٹھنا پڑا بعد میں مجھ سے  چھوٹے  بھائی بھی دوکان میں بیٹھنے  لگے، میری ایک بڑی بہن جو مجھ سے  دوسال بڑی تھی شادی کے  دوسال بعد انتقال کر گئیں، وہ مجھے  بہت پیار کرتی تھیں۔

  سوال  : آپ اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں ذرا بتائیں ؟

 جواب  : ۱۹۹۷ء میں میرے  والد کے  پیٹ میں درد ہوا کئی روز تک شدید تکلیف ہوئی بعد میں جانچوں کے  بعد ڈاکٹروں نے  بتایا کہ ان کی آنت میں کینسر ہے  آپریشن ہوا کچھ وقت کے  لئے  فوری آرام ہو گیا مگر پھر تکلیف بڑھی اور ڈیڑھ سال سخت تکلیف کے  بعد ۱۶ مارچ ۱۹۹۹ء میں ان کا دیہانت(انتقال ) ہو گیا، ان کے  کریا کرم میں بڑا بیٹا ہونے  کی وجہ سے  مجھے  ہی آگ لگانی تھی آگ لگانے  اور جلانے  کا درشیہ (منظر) میرے  لئے  بڑا تکلیف دہ تھا اس کریا کرم اور اس میں پنڈتوں کے  ڈھونگ سے  اور ایسے  غم کے  موقع پر طرح طرح کے  مطالبات سے  مجھے  ہندو دھرم سے  نفرت سی ہو گئی، مگر یہ نفرت ایسی نہیں تھی کہ میں کوئی بڑا قدم اٹھاتا، پانچ مہینے  بعد میری بہن کو دماغی بخار ہوا اور وہ ایک مہینے  بیمار پڑ کر انتقال کر گئی وہ مجھ سے  بے  پناہ محبت کرتی تھی مجھے  بھی اس سے  حد درجہ محبت تھی وہ چھ سات مہینے  کی حاملہ تھی ان کی انتیسٹھی ( یعنی مرنے  کے  بعد کی آخری رسومات ) کے  لئے  ہم شمشان لے  کر گئے  وہاں کے  پجاری پنڈت جی نے  لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس عورت کے  پیٹ میں بچہ ہے، اس کو تو جلایا نہیں جاسکتا اس کو تو گاڑنا (دفن) کرنا ہو گا اس بچہ کو اس کے  پیٹ سے  نکالو، میں نے   پنڈت جی سے  کہا کہ اب مری ہوئی اس بہن کا پیٹ پھاڑا جائے  گا؟ ہم سے  یہ نہیں ہو گا، انہوں نے  کہا تو پھر ہمارے  شمشان میں یہ نہیں ہو سکتا، ہم نے  کہا کہ ہم خود جلا لیں گے، انہوں نے  کہا کہ شمشان سے  باہر کہیں اور اس کا کریا کرم کر لو، میں نے  رشتہ داروں سے  اصرار کیا کہ کہیں دوسری جگہ لے  چلتے  ہیں مگر وہ نہ مانے  کہ یہ دھارمک بندھن (مذہبی پابندیاں ) ہیں ان کو ماننا چاہئے  اتنے  سارے  لوگوں کے  سامنے  میری نہ چلی اور میرے  سامنے  میری بہن کو ننگا کر کے  اس کا پیٹ چیرا گیا اور اس کا بچہ نکالا گیا، میرا دل بہت ٹوٹ گیا ا ور میں ہندو دھرم کو تھوک کر کلکتہ سے  آ گیا اور گھر بار چھوڑ آیا کچھ دن پٹنہ رہا وہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے  یہاں چھوٹے  سے  نرسنگ ہوم پر اسپتال میں ملازمت کر لی ڈاکٹر صاحب مسلمان تھے  چند روز بعد جب بے  تکلفی ہوئی تو میں نے  ان سے  اپنی دکھی داستان سنائی، وہ بہت متاثر ہوئے  اور مجھے  اسلام قبول کرنے  کا اور مجھے  دہلی جانے  کا مشورہ دیا میں جامع مسجد گیا شاہی امام عبداللہ بخاری سے  ملا، انہوں نے  کچھ مؤقر لوگوں کی تصدیق مانگی جو میرے  پاس نہیں تھی، اسکے  بعد میں ابوالفضل جماعت اسلامی کے  دفتر گیا وہاں مولانا لوگوں نے  مجھ سے  بہت سوالات کیے  پریشاں حالی اور ذہنی انتشار کی وجہ سے  شاید میں ان کو مطمئن نہیں کر سکا اور ان کو شک ہوا اسلئے  وہ مجھے  کلمہ پڑھوانے  میں دیر کرتے  رہے، دو  روز میں وہاں رہا، مجھے  بھی چوروں اور مجرموں کی طرح تفتیش سے  تکلیف ہوئی اور میں وہاں سے  چلا آیا تین ماہ تک میں کسی روزگار کی تلاش کے  لئے  اور قبول اسلام کے  لئے  بہت سے  مولانا اور اماموں کے  پاس گیا، مگر نہ جانے  کیوں ہر آدمی ڈرتا رہا، میں نے  پٹنہ واپسی کی سوچی اس لئے  کہ نہ مجھے  کوئی روزگار مل سکا اور نہ ہی چھتیس لوگوں کے  پاس جانے  کے  باوجود مجھے  کسی نے  کلمہ پڑھوایا میں نے  چار روز مزدوری کی اور کرائے  کے  پیسوں کا انتظام کر کے  پٹنہ واپسی کے  ارادہ سے  نئی دہلی اسٹیشن  ٹرین آنے  میں دیر تھی پلیٹ فارم پر میری ملاقات جوالا پور ہردوار کے  ایک مولانا اسلم صاحب سے  ہوئی بات بات میں تعارف ہوا مولانا سمجھ کر میں نے  ایک بار ان سے  بھی اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  ارادہ کو ظاہر کیا اور اتنے  لوگوں کے  پاس جانے  کے  باوجود نا کامی پر اپنے  دکھ کا اظہار کیا انھوں نے  تعجب کیا کہ آپ سے  کسی نے  پھلت کا پتہ نہیں بتایا میں نے  کہا پھلت میں کیا ہے  ؟ انہوں نے  بتایا کہ آپ پھلت جائیں آپ کو کسی فکر کی ضرورت نہیں اور انہوں نے  ساتھ چلنے  کے  لئے  کہا اور کہا میں آپ کو پھلت مولانا کلیم صاحب سے  ملا کر پھر جوالاپور چلا جاؤں گا بیچارے  میرا ٹکٹ لے کر خودواپس کر کے  آئے  اور میرا ٹکٹ خود خرید ا اور کھتولی پہنچے  دوسری سواری سے  دن چھپنے  کے  بعد پھلت پہنچے  مولانا کلیم صاحب باہر اپنی بیٹھک میں بیٹھے  ہوئے  تھے  وہ ہمارے  ساتھ جانے  والے  مولانا صاحب کو جانتے  تھے  جاتے  ہی مولانا سے  میرا تعارف کرایا مولانا کلیم صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نے  سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ؟ میں نے  کہا کہ بہت سوچ سمجھ کر، جب میں اتنے  روز سے  دھکے  کھا رہا ہوں اتنے  لوگوں کے  پاس جا چکا ہوں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہو گا، مولانا کھڑے  ہو گئے  مجھے  گلے  لگایا اور کہنے  لگے  آپ کھڑے  کھڑے  کلمہ پڑھنا چاہتے  ہیں تو کھڑے  کھڑے  پڑھ لیجئے  ورنہ بیٹھ جائیے، میں بیٹھ گیا فوراً پڑھوایا بعد میں اس کا ترجمہ کہلوایا اور میرا نام معلوم کر  کے  میرا اسلامی نام محمد انس رکھ دیا۔ الحمدللہ

  سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسامحسوس کیا ؟

 جواب  : آپ کے  والد صاحب کے  پیار سے  گلے  لگانے  اور بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے  پہلے  مرحلہ میں مجھے  کلمہ پڑھوانے  سے  میری ساری تھکن دور ہو گئی، اتنی جگہ در در مارے  مارے  پھرنے  کا غم بالکل دھل گیا اور مجھے  ایسا لگا جیسے  میں تو مسلمان ہونے  کے  لئے  پیدا کیا گیا تھا بلکہ جیسے  جیسے  میں اسلام کو سمجھتا اور مانتا گیا مجھے  یہ محسوس ہوتا گیا کہ میں فطرتاً مسلمان ہی پیدا ہوا تھا، جو غلط ماحول میں رہنے  کی وجہ سے  میں کچھ روز ہندو رہا، ۲۴ مئی ۲۰۰۰ء کو جس روز میں نے  اسلام قبول کیا مولانا صاحب کے  پاس بہت سے  لوگ بیٹھے  ہوئے  تھے  بعد میں مولانا صاحب نے  لوگوں سے  میرا تعارف کرایا، مجھے  حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ صبح سے  آج وہاں ۹ لوگ اسلام قبول کرنے  آ چکے  ہیں اور اس سے  زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مجھ سے  پہلے  آٹھ اور میں خود نواں تھا، ہم ۹ میں سے  ایک آدمی کو بھی کسی مسلمان نے  اسلام کی دعوت نہیں دی تھی، کسی کو اسلام کی کسی چیز میں کشش محسوس ہوئی، کسی کو خود اسلام کو پڑھنے  کا شوق ہوا اور اکثر کو اپنے  مذہب کے  اندھ وشواسوں اور اندھی رسموں سے  ری ایکشن (انفعال) نے  اسلام کی طر ف آنے  کو کہا، مولانا صاحب نے  بتایا کہ ان ۹ کے  علاوہ صبح تڑکے  فیروزپور کی ایک بہن کو مولانا صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھایا ان کا نام آشا تھا، مولانا صاحب نے  ان کا نام عائشہ رکھا۔

  سوال  : اس کے  بعد آپکی تعلیم و تربیت کا کیا ہوا؟

 جواب  : جوالاپور والے  مولانا صاحب رات کو چلے  گئے، مولانا کلیم صاحب نے  مجھ سے  کہا کہ یہاں آپ کا گھر ہے  اطمینان سے  رہئے، انشاء اللہ کل آگے  کے  لئے  مشورہ کر لیں گے،  ۲۵مئی کو مولانا صاحب سے  کچھ مہمان ملنے  آئے، مولانا صاحب نے  کل صبح فون پر جن بہن کو کلمہ پڑھوایا تھا انکا قصہ بتایا کہ وہ پھلت آ کر کلمہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میرے  دل میں آیا کہ موت زندگی کا کچھ پتہ نہیں، اسلئے  فون پر ہی کلمہ پڑھنے  کے  لئے  اصرار کیا وہ پھلت آ کر کلمہ پڑھنے  پر اصرار کرتی رہی مگر میں نے  بہت اصرار کیا وہ مان گئی اور آج مالیر کوٹلہ سے  ایک بہن کا فون آیا کہ وہ عائشہ بہن جن کو کلمہ پڑھوایا گیا تھا ان کا رات میں انتقال ہو گیا، خود مولانا صاحب پر اس کا بڑا اثر تھا مجھ پر بھی بڑا اثر ہوا میں نے  مولانا صاحب کی کتاب آپ کی امانت آپ کی سیوا میں پڑھ لی تھی مجھ پر بجلی سی کوند گئی اگر اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  مرگیا ہوتا ہو میرا کیا ہوتا؟اور ان سبھی لوگوں پر غصہ بھی آیا کہ ایک منٹ کے  کلمہ پڑھوانے  کے  کام میں اتنا ڈرتے  رہے، میں نے  مولانا صاحب سے  اس کا اظہار بھی کیا ا ور کہا کہ اگر اس دوران میری موت آ جاتی تو میرا کیا ہوتا؟ مولانا صاحب نے  مجھے  تسلی دی کہ آپ تو ارادہ اور پکے  نیت سے  چل رہے  تھے  تو آپ نے  جب ارادہ کر لیا تھا اس وقت سے  مسلمان ہو گئے  تھے  آپ کی موت اگر آتی تو ایمان پر آتی اور مجھے  سمجھایا کہ زمانہ خراب ہے  بہت سازشیں چل رہی ہیں لوگ دھوکہ دیتے  ہیں اس لئے  لوگ احتیاط کرتے  ہیں اگر آپ ان کی جگہ ہوتے  تو آپ ان سے  زیادہ احتیاط کرتے  میں نے  ان سے  کہا کہ آپ نے  فوراً کلمہ کیوں پڑھوا دیا تو کہنے  لگے  ہم تو دیہاتی گنوار لوگ ہیں، گاؤں کے  لوگوں کو اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ بہت دور کی سوچیں ہم تو سوچتے  ہیں کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا آج تو ہم اپنا دل خوش کر لیں کہ ہمارا خونی رشتہ کا ایک بھائی ہمارے  سامنے  کفر و شرک اور اس کے  نتیجہ میں دوزخ کی آگ سے  بچ کر اسلام اور جنت کے  سائے  میں آ گیا ہے  کل کو اللہ مالک ہے  سازش ہو گی یا جو ہو گا دیکھا جائے  گا۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا۔

 جواب  : مولانا صاحب نے  مجھے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا، میں نے  کہا آپ جو کہیں میں تیار ہوں تیسرے  روز مجھے  مولانا صاحب دہلی لے  گئے  میرے  ساتھ دو نو مسلم ساتھی اور بھی تھے  مولانا صاحب کے  بہنوئی ہم تینوں کو مرکز نظام الدین لے  گئے  اور ایک جماعت میں ہمارا نام لکھوایا جو اگلے  روز صبح کو ۱۰ بجے  فیروزآباد جانی تھی صبح کو امیر صاحب نے  ساتھیوں کو اکٹھا کیا ہمارے  ساتھ سہارنپور کے  گاؤں کے  ایک ساتھی عبداللہ بھی تھے  انہوں نے  ایک ساتھی سے  بتلا دیا کہ ہم  تینوں نو مسلم ہیں، انہوں نے  امیر صاحب سے  بتا دیا امیر صاحب ہمیں میوات کے  ایک میاں جی جو جماعتوں کے  بھیجنے  کے  ذمہ دار ہیں انکے  پاس لے  گئے  انہوں نے  ہم سے  معلوم کیا کہ آپ نے  قانونی کاروائی کرالی؟ ہم نے  بتایا کہ ہم آ کر کرائیں گے، انہوں نے  ہمیں جماعت میں جانے  سے  روک دیا کہ آپ واپس جائیں ہم تینوں ساتھیوں کو بہت تکلیف ہوئی ہم لوگوں نے  مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے  ہمارے  تیسرے  ساتھی ذرا غصہ والے  تھے  بلال بھائی جو آگرہ کے  پاس فتح پور کے  رہنے  والے  تھے  وہ کہنے  لگے  کہ اپنے  گھر چلو، یوں کب تک دھکے  کھاتے  رہیں گے  ؟ میں نے  ان سے  کہا کہ نہیں یہ شیطان ہمیں اسلام سے  محروم کرنا چاہتا ہے، ہمیں پھلت جانا چاہئے  ہم لوگ پھلت پہنچے  مولانا صاحب تین روز کے  بعد سفر سے  لوٹے  ہمیں پھلت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئے  پوچھا آپ لوگ جماعت سے  کیوں آ گئے  ؟ میں نے  سارا واقعہ سنایا اور مجھے  بہت رونا آیا، مولانا صاحب نے  پھر مجھے  گلے  سے  لگا لیا اور ہم سے  کہا کہ آپ نے  یہ کیوں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں آپ نو مسلم کہاں ہے  ؟ پیارے  نبی ﷺ کی بات کو سچا جاننا ہی تو اسلام و ایمان ہے  ہمارے  نبی ﷺ نے  فرمایا کہ ہر پیدا ہونے  والا اسلامی فطرت پر یعنی مسلمان پیدا ہوتا ہے، اس کے  والدین اسکو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے  ہیں، تو آپ تو پیدائشی مسلمان ہیں اور بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے  تو آپ نو مسلم کہاں ہیں ؟ پیدائشی مسلمان نو مسلم کہاں ہوتا ہے  ؟ آپ کچھ روز کے  لئے  مرتد ہو گئے  تھے، ہندو بن گئے  تھے، آپ نے  ہی غلطی کی کہ اپنے  کو نو مسلم کہا، آپ دیکھیں گے  کہ ہر بچہ کسی بھی مذہب کا ہو اسکو دفنایا جاتا ہے  جلایا نہیں جاتا اللہ نے  انتظام کیا ہے  کہ اس کے  مسلمان ہونے  کو وجہ سے  اسکو دفنایا جاتا ہے  آپ کی بہن کے  پیٹ سے  بھی بچہ کو نکلوا کر جلنے  سے  بچایا گیا کہ نہیں ؟

            مولانا نے  اس کے  بعد مرکز کے  لوگوں کی مجبوری سنائی اور کچھ واقعات سنائے  کہ کچھ لوگوں نے  سازش کر کے  جھوٹا اسلام ظاہر کیا اور پھر بعد میں پولیس کچہری ہوتی رہی، اسلئے  وہ احتیاط کرنے  لگے، ان کو ایسا ہی کرنا چاہئے، ہم لوگ مطمئن ہوئے  اور غیر آدمی کی طرف سے  اس طرح صفائی اور ہر ایک کو بے  قصوروار ٹھہرانے  کی بات نے  میرے  دل میں بہت جگہ بنا لی رات کو میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ کے  ساتھ دو چار روز رہ کر میں نے  یہ محسوس کیا کہ اگر آپ سے  کوئی شیطان کی بھی شکایت کرے  گا تو آپ اسکو بھی بے  قصور اور اس کی مجبوری ثابت کر دیں گے، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں نے  زندگی میں تجربہ کیا کہ کسی بھی برے  سے  برے  آدمی کی جگہ جب میں اپنے  کو کھڑا کرتا ہوں کہ میں ایسے  گھرانے  میں پیدا ہوتا اور ایسے  ماحول میں تربیت پاتا اور میری سوچ اور فکر اس طرح کی نہیں ہوتی تو دشمن سے  دشمن آدمی کو بھی معذور پاتا ہوں بلکہ مجھے  تو اکثر خیال ہوتا ہے  کہ میں اس سے  زیادہ برا ہوتا، مولانا صاحب نے  کہا کہ یہ بات آپ کی تسلی یا اپنی انکساری کی وجہ سے  نہیں کر رہا ہوں بلکہ بہت تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔

  سوال  : اس کے  بعد پھر کیا ہوا؟ آپ جماعت میں نہیں گئے ؟

 جواب  : اگلے  روز بھائی عبدالرشید دوستم کے  ساتھ ہم لوگ میرٹھ کچہری گئے  تین لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر منشی سراج صاحب بھی پریشان ہو گئے  کہنے  لگے  حضرت سے  کہنا کہ ایک ساتھ اتنے  لوگوں کو نہ بھیجا کریں کل دو تین لوگ آئے  تھے  دو روز پہلے  دو آئے  تھے  بہرحال انہوں نے  قانونی کاروائی پوری کی دو روز کے  بعد پھر ہم مرکز پہنچ گئے  جماعت میں نام لکھوا لیا الگ الگ جماعتوں میں نام لکھ دیئے  گئے  ہم نے  کسی کو نہیں بتایا کہ ہم نو مسلم ہیں ساراوقت بخیر و عافیت لگا، جماعت سے  واپس آئے  تو معلوم ہوا کہ بلال کو میاں جی نے  پہچان لیا تم تو نو مسلم ہو دوچار روز پہلے  آئے  تھے  اس نے  کہا نہیں ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں، بہت دیر تک بحث ہوئی پھر انہوں نے  کاغذات دکھائے  اور وہ بھی جماعت میں گئے  ہماری جماعت کے  امیر صاحب زیادہ پڑھے  لکھے  نہیں تھے  اردو بھی بہت اٹک اٹک کر پڑھتے  تھے  انہوں نے  ہمیں نماز یا د کرا دی ایک نوجوان سے  کچھ اردو بھی پڑھ لی مگر یہ میرے  اپنے  شوق کی وجہ سے  ہوا، ہمارا جماعت میں وقت زیادہ اچھا نہیں گزرا، مجھے  جماعت میں اس کا احساس ہوا اور روز بروز تقاضا بڑھتا چلا گیا کہ ہم مسلمانوں کو دستر خوان اسلام پہ آنے  والے  مہمانوں کے  لئے  ایک تعلیم و تربیت کا نظام قائم کرنا چاہئے  اگر ان نئے  مسلموں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی مسائل کے  حل کا نظام بنا لیا جائے  تو خود بخود وہ اپنے  خاندانوں کے  لئے  اسلام کی دعوت کا بہترین ذریعہ ہوں گے  پھر ہمیں دعوت کے  لئے  زیادہ کوشش کرنے  کی ضرورت نہیں ہو گی اسلام ایک روشنی ہے  وہ خود اپنے  اندر بڑی کشش رکھتی ہے  اس سلسلے  میں کوئی تربیت کا نظام ہو اس کی بڑی ضرورت ہے  جماعت میں بھجوانا اس کا مکمل حل نہیں البتہ کچھ فائدہ تو ہوہی جاتا ہے۔

  سوال  :  اب آپ کیا کر رہے  ہیں ؟آپ کی شادی ہو گئی ہے  کہ نہیں ؟

 جواب  : میں آج کل پونہ میں رہ رہا ہوں بجنور ضلع کے  ایک مولانا صاحب ایک بیکری کا کاروبار کرتے  ہیں وہ مجھے  مولانا کے  حکم سے  اپنے  ساتھ لے  گئے  تھے  مولانا نسیم ان کا نام ہے  ان کی بیکری میں مینجر کی حیثیت سے  کام کر رہا ہوں الحمدللہ میں نے  قرآن بھی پڑھ لیا اور اردو بھی سیکھ لی ہے  مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ میری کوئی لڑ کی نہیں ہے  ورنہ میں تمہاری شادی ان سے  کر دیتا ہمارے  بیکری کے  قریب ایک لڑکی کلکتہ کی رہنے  والی تھی کپڑے  کے  شوروم میں استقبالیہ ریسیپشن پر کام کرتی ہے  ایک دو بار کپڑا خرید نے  گیا بنگالی ہونے  کی وجہ خیریت معلوم کی اس کے  ماں باپ کا انتقال ہو گیا تھا شادی شدہ بھائیوں میں وہ بالکل داسیوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی میں نے  مولانا نسیم صاحب سے  ا س کو ملوایا اور اس کو دعوت دی وہ تیار ہو گئی مولانا نسیم صاحب نے  اس کو اپنی بیٹی بنا لیا اور میری شادی اس سے  کر دی الحمدللہ وہ بہت اچھی مسلمان ہے  ملازمت چھوڑ دی ہے، مولانا نسیم صاحب کی اہلیہ سے  اسلام کی تعلیم حاصل کر رہی ہے  دو ماہ پہلے  میرے  ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کا نام میں نے  ابوبکر رکھا میرا ارادہ ہے  کہ اس کو عالم حافظ بنائیں گے  میری اہلیہ بھی جن کا نام فاطمہ ہے  اس کے  لئے  تیار ہے  آپ دعا کر دیجئے  وہ اچھا داعی بنے۔

  سوال  : الحمدللہ آپ مطمئن ہیں گھر والوں کیلئے  بھی آپ نے  کچھ سوچا ؟

 جواب  : میرے  چھوٹے  بھائی جو کارو باری ہیں ان کی شادی ہو گئی ہے  وہ آج بھی میرا احترام کرتے  ہیں دو چھوٹے  بھائی بہن میرے  پاس آ گئے  ہیں بھائی نے  انٹر کا امتحان دیا ہے  بہن نے  گیارہویں کا امتحان دیا ہے  الحمدللہ دونوں نے  کلمہ پڑھ لیا ہے  مجھے  امید ہے  میرے  باقی دونوں بھائی بھی اسلام قبول کر لیں گے  وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتے  ہیں میری والدہ نابینا ہو گئی ہیں وہ ذرا مذہب کے  سلسلے  میں سخت ہیں مگر وہ مجھے  بہت محبت کرتی ہیں۔

  سوال  : بہت بہت شکریہ بات لمبی ہو گئی آپ سے  تو بہت باتیں کرنی چاہئیں مگر خیر آئندہ پھر ایک ملاقات کریں گے  دوبارہ آپ ادھر آئے  تو میرے  فون پر مجھے  اطلاع کر دیں، بتائیے  کہ آپ ارمغان کے  واسطے  سے  مسلمانوں سے  یا قارئین ارمغان سے  کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

 جواب  : میں تو اپنی ضرورت ہی پیش کر سکتا ہوں کہ دوسرے  مذاہب سے  ان اسلام کی طرف آنے  والوں کی تربیت اور ان کے  معاشرتی مسائل کا نظام بنانا دعوت کی اولین ضرورت ہے  اس کے  لئے  ہمارے  بڑوں کو سوچنا چاہئے  اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے  بس ایک ٹیم کھڑی ہو جائے  جو مدینے  کی مواخاۃ سے  سبق لے  کربس یہ کام شروع کر دے  اگر ایک مسلمان، ایک آدمی یا ایک گھرانے  کی ذمہ داری لے  لے  کہ ان کی تربیت کرے  گا اور تھوڑی سی رہنمائی اس کے  روز گار کے  سلسلے  میں کرے  اور وقتی طور پر کسی کام میں لگا کر بس ضمانت لے  لے  تو یہ کام آسانی سے  ہو سکتا ہے  بڑا سرما یہ اکٹھا کر کے  اجتماعی نظام تو واقعی ذرا مشکل ہے  مگر یہ دوسرا طریقہ بہت آسان ہے۔

  سوال  : بہت بہت شکریہ۔ہمارے  لئے  دعا کریں۔

 جواب  :  ہمارے  لئے  بھی دعا کریں۔

حفاظت جس  سفینے  کی  انھیں  منظور  ہوتی ہے

کنارے  پر انھیں خود لا کے  طوفاں چھوڑ جاتے  ہیں

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان مئی۲۰۰۴ء

٭٭٭

 جناب ڈاکٹر قاسم صاحب {پرمودکیسوانی} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ                  : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ

ڈاکٹر محمد قاسم : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   : ڈاکٹر صاحب، آپ کا ذکر اکثر ابی سے  سنتے  رہتے  تھے  اور اپنے  دلچسپ دعوتی تجربات کے  ذیل میں آپ کا ذکر خیر کرتے  رہتے  تھے، آپ سے  ملاقات کا اشتیاق تھا، آپ سے  آج خوب ملاقات ہو گئی۔

  جواب  : ہاں مجھے  بھی مولانا صاحب کی فیملی والوں سے  ملاقات کا اشتیاق تھا۔

  سوال  : شاید آپ کے  علم میں تو نہیں ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ارمغان ‘‘ کے  نام سے  نکلتی ہے، تقریباً دو سالوں سے  دعوتی کام کرنے  والوں کے  نفع کیلئے  اسلام میں آنے  والے  نو واردوں کے  انٹر ویو شائع کئے  جا رہے  ہیں، مجھے  خود یہ خیال تھا کہ آپ سے  ضرور اس کے  لئے  انٹر ویو لیا جائے۔

 جواب  : میری باتیں دعوت کا کام کرنے  والوں کے  لئے  کیا سود مند ہو سکتی ہیں، ابھی تو میری اسلام میں ابتدائی زندگی ہے۔

  سوال  : آپ کی زندگی تو واقعی ہم سب کے  لئے  قابل رشک ہے  پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

 جواب  : میرا پرانا نام پرمودکیسوانی تھا، میں گوہاٹی کایستھ گھرانے  میں ۱۷ جنوری ۱۹۷۴ء کو شری ہنس راج کیسوانی کے  گھر میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم انگریزی میڈیم اسکول میں ہوئی، پھر گوہاٹی میں کمپیوٹر سائنس سے  بی ایس سی کیا، اس کے  بعد دہلی سے  کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور نیویارک میں کمپیوٹر سافٹ ویئر میں بی ایس ڈی کیا، میرے  بڑے  بھائی ڈاکٹر ونودکیسوانی بہت اچھے  سر جن ہیں، نیویارک میں رہتے  ہیں، میرے  والد سائنس کے  لیکچرر تھے، میرے  نیویارک کے  قیام کے  دوران ان کا انتقال ہو گیا تھا، اب آج کل میں امریکہ کی ایک سافٹ ویر کمپنی کی گڑگاواں برانچ کا ڈائرکٹر ہوں۔

            مجھے  اللہ تعالیٰ نے  اپنی ہدایت کا کرشمہ دکھا کر اس زمین سے  اوپر ایک الگ عالم میں ۶ فروری ۲۰۰۳ کو ہدایت سے  نوازا، میں نے  ایسی جگہ اسلام قبول کیا کہ شاید پوری دنیا میں بس ہم دو لوگوں کے  علاوہ کسی کو وہاں ہدایت نہ ملی ہو۔

  سوال  : کچھ کچھ تو ہم نے  بھی سنا ہے، مگر آپ خود اپنی زبان سے  واقعہ سنائیے ؟

 جواب  : بچپن سے  ہمارا گھرانہ ہندو مذہبی گھرانہ تھا، پہلے  ہمارے  دادا اصل میں لکھنؤ کے  رہنے  والے  تھے، وہ ملازمت کے  سلسلہ میں گوہاٹی چلے  گئے  تھے  اور وہیں پر مقیم ہو گئے، ہمارے  گھرانہ میں اردو خصوصاً لکھنؤ کی تہذیب کا خاصا اثر ایک عرصہ تک گوہاٹی میں رہنے  کے  باوجود تھا، انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھ کر میرا مذہب سے  تعلق ذرا کمزور پڑا، پھر دہلی میں کچھ ایسا ماحول ملا کہ وہاں مذہب کی بات کرنا تو گویا دیہاتی اور گنوار یا فنڈامنٹلست(بنیاد پرست) ہونا سمجھا جاتا تھا، سونے  پر سہاگا یہ ہوا کہ نیویارک میں ایم ڈی کرنے  چلا گیا، وہاں تو مذہب اور خاص کر ہندو مذہب سے  آستھا بالکل اٹھ گئی، میرے  نیویارک کے  قیام کے  دوران ۱۱/ ستمبر کا واقعہ پیش آیا، اس واقعہ سے  ٹی وی، اخبارات اور  دوسرے  میڈیا نے  مسلمانوں کو دہشت گردی خصوصاً (Islamic terrorism) اسلامی دہشت گردی کا بہت رچا کیا، میرے  ذہن میں اس وقت مسلمانوں کے  سلسلہ میں بس اتنی بات تھی کہ مسلمان پرانے  زمانے  کی داستانوں میں یقین رکھنے  والی ایک بے  حقیقت اور پسماندہ قوم ہے، مگر ۱۱/ ستمبر کے  بعد مسلمان کچھ ہیں، کیا ہیں، اسلام کیا ہے، کیوں اس کو ماننے  والے  ا س قدر اس سے  تعلق رکھتے  ہیں اور اتنی بڑی قربانیاں کیوں دیتے  ہیں، خصوصاً مسلمانوں اور اسلام سے  دنیا کو کیا کیا خطرہ ہے  اور یہ دنیا کے  امن کے  دشمن کس طرح ہیں ؟ اس طرح کے  سوال عام طور پر پوری مغربی دنیا خصوصاً امریکہ میں رہنے  والوں کے  دماغ میں اٹھ رہے  تھے  ایک زمانہ میں میڈیا سے  تعلق رکھنے  والا کوئی امریکہ کا آدمی کم از کم کسی داڑھی والے  مسلمان سے  خوف زدہ ہونے  لگا تھا، میرے  اسلام قبول کرنے  سے  چھ روز پہلے  میں نیویارک میں تھا، اپنی بھتیجیوں کو ایک پارک میں لے  کر گھومنے  گیا تو وہاں ایک داڑھی والے  مسلمان ملے، تو فوراً بچہ میرے  پاس آ گیا اور ڈر سے  بولا، انکل اسامہ ہے، بچہ کے  اس جملہ سے  میری ذہنیت اور مغربی دنیا میں رہنے  والے  ہر آدمی کی کیفیت کو سمجھ سکتے  ہیں میں کمپنی کے  کام سے  ہیڈ آفس گیا تھا، ایر انڈیا سے  میرا ٹکٹ تھا، مجھے  دبئی سے  کچھ آ فس کے  لئے  خریداری کرنی تھی اور ایک کمپنی کی شاخ کو دینا تھا، دوبئی پانچ روز قیام کر کے  ۶ جنوری ۲۰۰۳  ء کو میں ایر انڈیا کے  جہاز پر سوار ہوا، تقریباً آخر تک میرے  برابر والی سیٹ خالی رہی، بالکل اخیر میں ۲۰ منٹ پہلے  آپ کے  ابی میرے  برابر والی سیٹ پر آئے، میں نے  ان سے  ہاتھ ملایا، ان سے  تعارف حاصل کیا تو انھوں نے  کلیم صدیقی اپنا نام بتایا، ان سے  پتہ معلوم کیا تو انھوں نے  بتایا کہ دہلی کے  پاس رہتا ہوں، میں نے  ان کا استقبال کیا اور چھیڑنے  اور چٹکی لینے  کے  لئے  ان سے  کہا : ویر ی گڈ، بہت اچھا، میرا نام اسامہ ہے، شاید ان کو میری بات پر ہنسی نہیں آئی، انھوں نے  تعجب سے  پوچھا کہ آپ کا نام اسامہ ہے، میں نے  کہا کہ اصل میں چار پانچ روز پہلے  نیویارک میں اپنے  بھتیجے  کو لے  کر پارک میں گھومنے  گیا تھا، وہاں ایک ڈاڑھی والے  صاحب آ گئے  تو بچہ ڈر کر بھا گا اور بولا، انکل اسامہ ہے، مولانا صاحب نے  مجھے  بعد میں بتایا کہ آپ کا طنز سن کر ذراسی دیر کو میرا دل دکھا، مگر میں نے  دل میں سوچا کہ تین گھنٹے  ساتھ بیٹھنا ہے  اگر اللہ نے  لاج رکھی تو آج آپ کا نام اسامہ رکھ کر ہی جہاز سے  اتریں گے۔

            جہاز کی پرواز کرنے  سے  پہلے  میں نے  اپنا تعارف کرایا اور مولانا صاحب سے  تعارف معلوم کیا تو انھوں نے  بتایا کہ وہ عجمان (یو اے  ای) میں ایک عربی اور اسلامی سینٹر چلاتے  ہیں میں نے  ان سے  کہا کہ پھر تو آپ مذہب کے  بارے  میں خوب جانتے  ہوں گے  ؟ میں بہت زمانے  سے  کسی مذہب کے  جاننے  والے  سے  باتیں کرنا چاہتا ہوں، اچھا رہے  گا، آپ سے  باتیں ہو جائیں گی، مولانا صاحب نے  کہا : مذہب تو بڑی چیز ہے  اس کے  بارے  میں سب کچھ جاننا تو بڑی بات ہے، البتہ جتنا میں جانتا ہوں آپ سے  باتیں کر کے  خوشی ہو گی۔

            جہاز نے  پرواز شروع کی اور میں نے  باتوں کا سلسلہ جاری رکھا، میں نے  مولانا صاحب سے  سوال کیا کہ یہ بتائیے  کہ مذہب والے  کہتے  ہیں کہ اس سنسار کو بنانے  والا اور چلانے  والا ایک بھگوان (اِیشور) ہے، وہ سنسار کو بنانے  والا ہے  وہی سنسار کے  سارے  کام چلا رہا ہے  اب تو سائنس کا زمانہ ہے  ہر خیال کو ترکوں (دلیلوں ) پر پرکھا جانا ہے، آپ کے  پاس اس کا کیا ثبوت ہے  کہ وہ مالک ہے  اور سنسار کا بنانے  والا ہے  ؟ مولانا صاحب نے  کہا کہ آپ کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹر ہونے  کے  باوجود پرانے  زمانہ کی ایک جاہل بڑھیا جیسی بات بھی نہیں سمجھتے، جس سے  جب کسی آپ جیسے  نے  سوال کیا کہ ماں یہ بتا کہ اس سنسار کو بنانے والا اور چلانے  والا کون ہے  ؟ اس نے  جواب دیا کہ بیٹا اس سارے  سنسار کو چلانے  والا صرف اور صرف ایک مالک ہے، سوال کرنے  والے  نے  پوچھا کہ ماں یہ بات آپ کس طرح کہتی ہیں ؟ اس نے  جواب دیا کہ میرے  چرخہ نے  مجھے  یہ بات بتائی ہے، سوال کرنے  والے  نے  معلوم کیا کہ کس طرح ؟ اس نے  کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے  اور اگر رک جاتی ہوں تو رک جاتا ہے  اور میں اکیلے  چرخہ چلاتی ہوں تو چرخہ بھلی طرح چلتا ہے  اور سوت کاتتا ہے  اور اگر ایک چھوٹے  بچے  نے  سوت کی انٹی کو ہاتھ لگایا تو سوت الگ اور سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اس سے  مجھے  پتہ لگا کہ جب ایک چھوٹا سا چرخہ بغیر کسی کے  چلائے  نہیں چلتا تو یہ کائنات، سورج، چاند، دن رات، گرمی، برسات، سردی کا پورا چرخہ ضرور کوئی چلانے  والا چلا رہا ہے، ضرور اس کا چلانے  والا کوئی ہے  اور وہ اکیلا ہے، اس لئے  کہ ذراسی بچی میرے  چرخے  پر انگلی لگا دے  تو ساراسوت کاتنے  کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، تو اگر ایک کے  علاوہ کئی خدا ہوتے  تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

            مولانا صاحب نے  بتایا کہ قرآن حکیم نے  اس حقیقت کو بیان کیا ہے  کہ ایک خدا کے  علاوہ کئی خدا ہوتے  تو سرشٹی(کائنات ) میں جھگڑا اور فساد ہو جاتا  لَوْ کَانَ فِیْھِمَاآلِھََۃٌ اِلاَّاللّٰہُ لَفَسَدَتَا  (۱۷رکوع۲)  ترجمہ: اگر ان دونوں (زمین وآسمان)میں اللہ کے  علاوہ کوئی معبود ہوتے  تو دونوں جھگڑ پڑتے۔

            اگر کئی بھگوان ہوتے  یا دیوی دیوتاؤں کو کچھ اختیار ہوتا تو روزآسمان زمین میں فساد رہتا، ایک کہتا کہ اب دن بڑا ہو گا دوسرا کہتا کہ نہیں چھوٹا ہو گا، ایک کہتا سردی ہو گی دوسرا کہتا کہ نہیں گرمی ہو گی، ایک کہتا کہ بارش ہو گی دوسرا کہتا کہ نہیں دھوپ نکلے  گی، ایک نے  اپنے  اپاسک (پوجا کرنے  والے ) سے  کسی چیز کا وعدہ کر لیا تو دوسرا اس کے  خلاف کرنے  کو کہتا، مگر ہم دیکھتے  ہیں کہ سنسار کا سارا نظام اتنے  نظم و ضبط کے  ساتھ سلیقہ سے  چل رہا ہے، یہ پورا نظام یہ بتا رہا ہے  کہ اس کا بنانے  اور چلانے  والا صرف اور صرف ایک مالک ہے۔

            مولانا صاحب نے  کہا کہ اس اکیلے  مالک نے  ساری دنیا کے  سردار انسان کی فطرت اور اس کے  نیچر میں یہ خوبی رکھی ہے  کہ کسی بنی ہوئی چیز کو دیکھ کر اس کے  بنانے  والے  کو پہچانتا اور اس کی بڑائی کو سمجھتا ہے، آپ دیکھیں جب آپ کوئی اچھا کھانا کھاتے  ہیں تو کھانے  کے  ذائقہ اور اچھائی سے  زیادہ آپ کا ذہن اس طرف جاتا ہے  کہ یہ کھانا کس نے  بنایا ؟ کوئی اچھا سلا ہوا کپڑا دیکھتے  ہیں تو فوراً آپ کا سوال یہ ہوتا ہے  کہ کس نے  سیا ہے  ؟ کوئی اچھی تعمیر دیکھتے  ہیں تو فوراً یہ خیال آتا ہے  کہ یہ تعمیر کس نے  کی؟ غرض کسی مصنوع سے  انسان اس کے  صانع کو اور مخلوق سے  اس کے  خالق کو پہچاننے  کا فطری جذبہ رکھتا ہے، ایسے  بڑے  سنسار کی ایسی پیاری پیاری چیزیں، یہ ستاروں سے  جگمگ آسمان، یہ چاند اور سورج، یہ دن اور رات، یہ زمین یہ پھل یہ پھول، یہ پہاڑ یہ سمندر، یہ جانور یہ پرندے، یہ پتنگے، یہ سب بتا رہے  ہیں اور آپ کا اور ہمارا دل و دماغ یہ خود کہہ رہا ہے  کہ اس کا بنانے  والا کوئی بڑا حکیم اور علیم خدا ہے۔

            مولانا صاحب کی اس سادہ مثال میں ایسی بڑی بات سمجھانے  سے  میں اندر سے  بہت متاثر ہوا کہ یہ شخص مذہبی ہے  مگر بڑے  ترک (دلیل) کے  ساتھ بات کرنے  والا ہے، میں نے  ان سے  دوسرا سوال کیا کہ چلئے  یہ بات تو میرا دل اندر سے  کہتا ہے  کہ سنسار کا کوئی بنانے  والا اور چلانے  والا ہے، ایشور اور خدا ضرور ہے، مگر یہ بات تو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں لگتی ہے  کہ گیتا کو مانو، قرآن کو مانو، بائبل کو مانو، اس نے  انسان کو بدھی دی ہے، اپنی عقل سے  سوچ لے  اور مان لے، مولانا صاحب نے  کہا کہ واہ جی واہ ڈاکٹر صاحب!آپ بھی خوب آدمی ہیں، واجپئی کو تو مانتے  ہیں کہ بھارت کا کوئی چلانے  والا ہے  مگر بھارت کے  سنودھان (آئین ) کو نہیں مانتے، جب اس کائنات اور دنیا کا کوئی مالک ہے  تو پھر اس کا قانون ہونا بھی ضروری ہے، انسانوں کے  لئے  زندگی گذارنے  کا وہ قانون جو اکیلے  مالک نے  اپنی طرف سے  طے  کیا ہے  اس کو مذہب کہتے  ہیں، اس طرح مذہب کو مانے  بغیر مالک اور خدا کو ماننے  کا کوئی تصور ہی نہیں۔

            مولانا صاحب نے  کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے  لئے  سب سے  ضروری بات سمجھنے  کی یہ ہے  کہ وہ مالک جس نے  آپ کو اور سارے  انسانوں کو پیدا کیا وہ اس دنیا کا اکیلا مالک اور بادشاہ ہے، جب وہ مالک اکیلا ہے  تو وہ سچا قانون اور دین جو اس کی طرف سے  بھیجا گیا ہے  وہ بھی صرف ایک ہی ہو گا، انسان کو اللہ نے  عقل دی ہے  یہ اس کی ذمہ داری ہے  کہ وہ اس اکیلے  سچے  دھرم کو معلوم کر کے  اس کو مانے  اور اس اللہ نے  اپنی آخری کتاب میں یہ بات صاف بتائی ہے  کہ وہ سچا دھرم اور دین صرف اسلام ہے  اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلاَمُ جب سے  آدمی پیدا ہوا ہے  تب سے  آج تک اسلام ہی اکیلا سچا دین ہے، جو انسان اس اکیلے  سچے  مالک کو اور اس کے  بنائے  ہوئے  سچے  دین اسلام کو نہ مانے، وہ اس دنیا میں غدار اور اسے  اس سنسار کی کسی بھی چیز سے  فائدہ اٹھانے  کا اختیار نہیں، اس کو اللہ کی زمین کی نیشنلٹی ہی نہیں ملے  گی اور باغی یا غدار کی سزا پھانسی یا ہمیشہ کی جیل ہے، اس مالک کے  یہاں بھی غیر ایمان والے  کو ہمیشہ نرک کی جیل ہے  اور اس دنیا میں بھی وہ جب چاہے  سزادے  سکتا ہے، ورنہ موت کے  چیک پوسٹ پر جب اس دیش سے  پر لوک کے  دیش میں انسان جائے  گا تو اللہ کا امیگریشن اسٹاف وہاں سب سے  پہلے  ایمان ہی کو چیک کر ے  گا، یہ کہہ کر مولانا صاحب نے  میرے  ہاتھ پکڑ لئے  اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے  ساتھ سفر کر رہے  ہیں، یوں بھی میرا ایمان ہے  کہ ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد اور خونی رشتہ کے  بھائی ہیں اور اب تو آپ میرے  ہم سفر ہیں اور ہم سفر کا بڑا حق ہوتا ہے  اس لئے  آپ سے  محبت کی بات کہتا ہوں کہ موت کا کچھ پتہ نہیں کہ کب آ جائے  اس لئے  اس سے  اچھا کوئی وقت نہیں ہو سکتا کہ آپ مسلمان ہو جائیے  اور کلمہ پڑھ لیجئے۔

            میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ کی باتیں تو مجھے  بہت لوجک لگ رہی ہیں اور میں ضرور سوچوں گا مگر یہ دھرم بدلنا کوئی مذاق تھوڑی ہے  کہ اتنی جلدی فیصلہ کر لیا جائے، مولانا صاحب نے  کہا کہ یہ فیصلہ بہت جلدی کرنے  کاہے، ڈاکٹر صاحب آپ مجھے  ستایئے  نہیں، فوراً کلمہ پڑھ لیجئے۔

            میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ آپ مجھے  وقت دیجئے، مولانا صاحب نے  کہا وقت نکل چکا فوراً کلمہ پڑھئے۔ اس لئے  امریکہ کا ایک طیارہ کولمبیا جاتے  ہوئے  ابھی چار روز پہلے  گر ا ہے، اگر ہمارا جہاز بھی اترتے  ہوئے  خدا نہ کرے  حادثہ کا شکار ہو گیا تو پھر کہاں وقت رہے  گا، دیر تک مولانا صاحب مجھے  سمجھاتے  رہے  اور بار بار بیتاب ہو کر کہتے  کہ دیر نہ کریں جلدی مسلمان ہو جائیں، نہ جانے  آپ کی موت آ جائے  یا میں مر جاؤں۔

            اسلام کے  اکیلے  سچے  مذہب ہونے  پر مولانا صاحب نے  ہمارے  ملک بھارت کے  نظام حکومت کی مثال دی اور اب سے  پہلے  کے  سارے  وزیر اعظموں کو بھی سچا بتا کر باجپئی جی کے  زمانہ کے  قانون کو ماننا ضروری بتا کر، میرے  دل کو مطمئن کر دیا۔

            مرنے  کے  بعد کے  سورگ اور نرک پر جب میں نے  شک جتایا کہ مرنے  کے  بعد کس نے  دیکھا ہے  آدمی مرگیا گل سڑ گیا ؟ تو انھوں نے  پہلے  تو سچے  نبی کی زبان اور سچے  قرآن کی بات کہی، پھر ایک مچھلی کا قصہ مثال کے  طور پر سنایا، جس سے  میرا دل بہت مطمئن ہوا، میرے  دل میں اچانک خیال آیا تو میں نے  مولانا صاحب سے  سوال کیا کہ اچھا یہ بتائیے  کہ مسلمانوں کو اپنے  دھرم اور مذہب کی باتوں پر جو وشواس اور یقین ہوتا ہے  وہ ہم ہندوؤں کو کیوں نہیں ہوتا ؟ مولانا صاحب نے  جواب دیا کہ یقین اور وشواس انسان کا سچ پر جمتا ہے، جھوٹ پر انسان کے  اندر شک رہتا ہے، کیوں کہ قرآن اسلامی اصول، اس کو لانے  والے  آخری رسول اور ان کی زندگی (اتہاس) کے  واسطہ سے  ہمارے  پاس بہت پکی سند کے  ساتھ موجود ہے، اس لئے  ہمیں اسلام کی ہر بات پر اندر سے  یقین ہوتا ہے، اسلام اور قرآن ایسے  سچے  نبی کے  واسطہ سے  ہم تک پہنچا ہے  جس کو دشمن بھی الصادق الا مین ( سچا اور ایماندار ) کہتے  تھے  بلکہ اس کا نام ہی سچا اور ایماندار ان لوگوں نے  رکھ دیا تھا۔

            میرے  دل کو یہ بات بہت لگی، بار بار مولانا صاحب مجھ سے  اسلام قبول کرنے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  کہتے، مگر دھرم بدلنا اتنا آسان کام نہیں تھا، جب وہ بار بار کہتے  رہے  تو میں جان بچا کر اٹھ کر پیشاب کے  بہانے  جہاز کے  ٹائلیٹ میں چلا گیا، ٹائلیٹ سے  واپس آ کر میں سیٹ پر واپس آنے  کے  بجائے  ایک طرف کھڑا ہو کر دیر تک سوچتا رہا، کہ یہ آدمی میرا کوئی رشتہ دار نہیں، اس کو مجھ سے  کچھ لالچ نہیں، ایسا پڑھا لکھا اور ترک سے  بات کرتا ہے، میں ایک ڈاکٹر تعلیم یافتہ آدمی ہوں، جب میرا دل و دماغ سو فیصد اس کی باتوں سے  مطمئن ہے، تو مجھے  فیصلہ کرنے  میں یہ سوچنا کہ سماج کیا کہے  گا جہالت ہے، یہ نیا زمانہ ہے  اور ہر آدمی کم از کم مجھ جیسا سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے  والا تو سو فیصد آزاد ہے  اور میں نے  فیصلہ کر لیا کہ مجھے  اس سچے  اور بھلے  آدمی کی اس درد بھری پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہئے۔

            مولانا صاحب نے  مجھے  بتایا کہ دوبئی کے  سفر میں وہ بہت دکھی تھے، آپ جب اٹھ کر گئے  تو میں نے  اپنے  مالک سے  تڑپ کر دعا کی کہ میرے  اللہ ! جب آپ ہی دلوں کو پھیرنے  والے  ہیں، تو ان کا دل اسلام کے  لئے  کھول دیجئے، آپ کے  دل شکستہ بندے  کا دل بہت دکھا ہوا ہے  میرے  اللہ ذرا ساخوش کر دیجئے۔

  سوال   : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اس کے  بعد کیا ہوتا، فیصلہ اوپر سے  ہو چکا تھا، بہت اعتماد اور عزم کے  ساتھ میں سیٹ پر پہنچا، مجھے  آج بھی اس عزم کا مزہ محسوس ہوتا ہے، جیسے  کوئی سپہ سالار ایک دنیا فتح کر کے  بیٹھا ہو، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا مجھے  مسلمان کر لیجئے، مولانا صاحب نے  میرے  ہاتھ چوم لئے  اور خوشی سے  مجھے  کلمہ پڑھایا، میرا اسلامی نام محمد قاسم رکھا اور مجھے  بتایا کہ یہ اسلام اب آپ کی ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے  اور آپ قاسم ہیں، ہمارے  نبی کا ایک لقب قاسم تھا، اب سب تک پہنچانا ہے، جہاز میں اعلان ہوا کہ اب ہم دہلی پہنچ رہے  ہیں، جہاز اترا، ہم دونوں اپنے  ملک ایک مذہب کے  ساتھ آسمان سے  اترے، میں نے  اپنے  لگیج سے  وہ مٹھائی کا ڈبہ نکال کر اور چاکلیٹ اور   بسکٹ نکال کر مولانا کو خوشی سے  پیش کیا جو میں اپنے  خاندانی دھرم گرو کے  لئے  لے  کر آیا تھا اور خوشی خوشی میں گڑ گاؤں پہنچا۔

            اس کے  بعد ایک لطیفہ سناتا ہوں، مولانا صاحب کو پھلت جا کر یہ خیال آیا کہ مجھے  پرمود کا نام اسامہ رکھنا تھا، انھوں نے  مجھے  فون کیا کہ غلطی سے  میں نے  آپ کا نام محمد قاسم رکھ دیا، آپ نے  تو اپنا نام اسامہ رکھا تھا، آپ اپنا نام اسامہ رکھ لیں، میں نے  کہا نہیں مولانا صاحب، اسامہ نام رکھ کر لوگ مجھے  جینے  نہیں دیں گے، حضرت محمد صاحب کا ایک نام قاسم ہے  وہ اسامہ سے  بہت اچھا ہے، مولانا صاحب نے  ہنس کر فون رکھ د یا۔

  سوال   : آپ نے  قاسم نام رکھنے  کا کیا حق ادا کیا؟

 جواب  : میں تو کچھ حق ادا نہیں کر پایا، البتہ میرے  اکیلے  بھائی امریکہ میں رہتے  ہیں بڑے  ڈاکٹر ہیں ان کے  لئے  ہدایت کی دعا کرنی شروع کی تھی، ستمبر میں ان کا خط آیا کہ وہ اپنے  نرسنگ ہوم کی ایک نرس سے  متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے  ہیں اور انھوں نے  اس سے  شادی بھی کر لی ہے، یہ ان کی دوسری شادی ہے۔

  سوال   : آپ کی بھابھی کی طرف سے، مخالفت نہیں ہوئی؟

 جواب  : فون پر بات ہوتی رہتی ہے  شروع شروع میں تو وہ بہت برہم تھیں، ہندوستان واپس آنا چاہ رہی تھیں، مگر اب یہ معلوم ہو کر حیرت ہوئی کہ اس مسلمان نرس کی خدمت اور اخلاق سے  متاثر ہو کر وہ بھی مسلمان ہو گئی ہیں۔

  سوال   : واقعی آپ کی باتیں بڑے  مزے  کی ہیں، آپ کو اللہ نے  زمین اور آسمان کے  درمیان ہدایت نصیب فرمائی آپ نے  شروع میں بتایا تھا کہ ہم دو آدمیوں کو یہ سعادت ملی، دوسراآدمی کون ہے ؟

  جواب  : مولانا نے  مجھے  بتایا تھا کہ ان کے  پیر مولانا علی میاں صاحب نے  بھی جہاز میں کسی کو کلمہ پڑھوایا تھا۔

   سوال   : آپ نے  اسلام کے  مطالعے  کے  لئے  کیا کیا ؟

 جواب  : میں نے  گڑ گاؤں میں ایک مولانا صاحب سے  رابطہ کیا روز رات کو ایک یا آدھے  گھنٹہ کے  لئے  جاتا ہوں، اللہ کا شکر ہے  کہ میں نے  قرآن شریف پڑھ لیا ہے، جنازے  کی نماز تک پوری نماز یاد ہو گئی ہے  اور روزانہ کسی نہ کسی کتاب کو بھی پڑھتا ہوں۔

  سوال  : آپ کی شادی کا کیا ہوا؟

 جواب  : اللہ کا شکر ہے  میرا رشتہ ایک دیندار مسلم پڑھے  لکھے  گھرانے  میں ممبئی میں ہو گیا ہے۔

  سوال  : واقعی آپ کا بہت بہت شکریہ !ڈاکٹر صاحب، اخیر میں ارمغان کے  واسطہ سے  مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام ؟

 جواب  : میرا پیغام تو بس یہ ہے  کہ اسلام جب ایک سچائی ہے  اور یہ سچائی جب سب کے  لئے  ہے  تو اس کو سب تک پہنچنا چاہئے، انسان تو سچائی کے  سامنے  بے  بس ہوتا ہے، اس کی مجبوری ہے  کہ وہ سچائی کو قبول کرے۔

  سوال  : بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

 جواب  :  واقعی شکریہ تو آپ کاہے  کہ آپ نے  مجھے  عزت بخشی۔ وعلیکم السلام

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 جناب محسن صاحب {رمیش سین} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ          : السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

محمدمحسن  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   :  محسن صاحب آپ بہت موقع پر تشریف لائے  ؟

 جواب  :  جی احمد صاحب! بلاشبہ میں بہت موقع سے  آیا، فون پر حضرت سے  رابطہ ایک ماہ تک کوشش کے  بعد نہیں ہو سکا، تو اللہ کے  بھروسے  چل پڑا کہ جا کر پڑجاؤں گا کبھی تو ملاقات ہو گی، مگر اللہ کا فضل کہ ٹرین سے  اتر کر فوراً خلیل اللہ مسجد پہنچا کہ اگر حضرت ہوں گے  تو مسجدمیں ضرور مل جائیں گے، اللہ کا شکر ہے  کہ ملاقات ہو گئی۔

  سوال   : آپ اپنے  مطلب کی بات کہہ رہے  ہیں اور میں اپنے  مطلب کی، اصل میں آج بائیس تاریخ ہو گئی ہے  اور میں ارمغان کے  لئے  کوئی انٹرویو نہ لے  سکا تھا، دو روز کے  اندر رسالہ کو پریس میں جانا ہے  میں شام سے  سوچ رہا تھا کہ کس کو فون کروں، اچانک ابی نے  بتایا کہ ایک بہت اچھے  دوست بھائی محسن آئے  ہیں ان سے  جا کر ارمغان کے  لئے  انٹرویو لے  لو؟

 جواب  : اچھا اچھا، ہاں !حضرت مجھ سے  بھی فرما کر گئے  ہیں کہ میں کچھ وقت انتظار کروں، احمد  ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں معلوم کریں گے۔

   سوال   : آپ اپنا خاندانی پریچے (تعارف) کرایئے  ؟

 جواب  : میں مدھیہ پردیش کے  گوا لیار ضلع کا رہنے  والا ہوں میری پیدائش ایک تاجر گھرانہ میں ۱۹/اپریل ۱۹۶۲ء میں ہوئی میرے  والد صاحب کھل چوکر  کے  تھوک ویاپاری  تھے، ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، کئی بار ان کا کاروبار بالکل ختم سا ہو گیا، مگر وہ بڑے  بہادر اور ہمت والے  آدمی تھے، میرے  دو چھوٹے  بھائی اور ایک بہن ہیں، انٹر میڈیٹ سائنس سے  کرنے  کے  بعد میں نے  بی فارما کیا اور پھر میڈیکل اسٹور میرے  والد نے  مجھ کرا دیا، جھانسی میں ہماری ایک پڑھے  لکھے  پریوار میں شادی ہو گئی، میری اہلیہ ایم ایس سی کرنے  کے  بعد بی ایڈ کر کے  ایک کالج میں لکچرر ہو گئی تھیں، شادی کے  بعد ان کی ملازمت کی وجہ سے  بہت مشکل رہی اللہ نے  مسئلہ حل کر دیا اور ان کا گوا لیار میں ٹرانسفر ہو گیا، الحمد للہ ہمارے  یہاں دو بیٹے  اور ایک بیٹی ہیں۔

  سوال   : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

 جواب  : میرے  پڑوس میں ایک دوکاندار اسپئر پارٹس کی دوکان کرتے  تھے، ان کا نام سعیداحمد صاحب تھا بڑے  اچھے  انسان اور مذہبی مسلمان ہیں، ہماری مارکیٹ میں بس وہ  اکیلے  مسلمان دوکان دار ہیں، مگر مجھ ساری مارکیٹ میں ان سے  زیادہ کسی سے  مناسبت نہیں تھی، ان کی سسرال بھوپال میں ہے، ان کی سسرال کے  لوگ گوا لیار آتے  تو وہ میرے  لئے  کچھ نہ کچھ لاتے، ان کی سسرال میں ایک شادی میں ان کی بیوی کے  بھائی مجھ کو بہت زور دے  کر دعوت دے  گئے، بازار کی چھٹی بھی تھی میں نے  سعید صاحب کے  ساتھ پروگرام بنا لیا، بھوپال میں آپ کے  والد صاحب حضرت مولانا کلیم صاحب کا پروگرام تھا، سعید صاحب مولانا صاحب سے  واقف تھے، ایک اٹارسی کے  حاجی صاحب جن کے  ہاتھوں پر سیکڑوں لوگ اسلام کے  سایہ میں آئے  ہیں انکے  واسطہ سے  حضرت صاحب سے  سعید صاحب واقف ہوئے  اور ملنے  کے  لئے  بے  تاب تھے، مجھ سے  ان کا ذکر کرتے  تھے، بار بار پھلت چلنے  کے  لئے  کہتے  تھے، شادی چھوڑ کر سعید صاحب نے  مولانا صاحب سے  ملاقات کے  لئے  تلاش شروع کی، سچی طلب تھی الحمدللہ ایک انجینئیر صاحب کے  یہاں صبح کو ملاقات طے  ہو گئی وہاں مولانا صاحب کو ناشتہ کے  لئے  بلایا تھا، بہت سے  مولانا لوگ بھی ساتھ تھے  سعید صاحب اور میں وہاں پہنچے  سعید صاحب نے  بتایا کہ یہ رمیش سین صاحب میرے  بہت اچھے  پڑوسی ہیں بلکہ پڑوسی سے  زیادہ بڑے  بھائی ہیں، ہم لوگ آپ سے  ملنے  پھلت آنا چاہتے  تھے، ہمارا مقدر کہ گوا لیار سے  آج ایک شادی میں بھوپال آنا ہوا، آپ کی خبر معلوم ہوئی تو شادی بھول گئے، کل صبح سے  تلاش کرتے  کرتے  آج اللہ نے  مراد پوری کی، آپ ان سے  کچھ بات کر لیں، مولانا نے  بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ پھلت تو آپ کو آنہ ہی پڑے  گا، یہ رمیش صاحب آپ کے  تو  ہیں ہی ہمارے  بھی بھائی ہیں اور خونی رشتہ کے  حقیقی بھائی، مجھ سے  بولے  رمیش صاحب !ہم سب ایک ماتا پتا( ماں باپ ) کی اولاد ہیں نا ؟ میں نے  کہا جی ہاں اس میں کیا شک ہے، تو بولے  کہ ایک ماں باپ کی اولاد کو ہی تو خونی رشتہ کا حقیقی بھائی کہا جاتا ہے  حضرت صاحب نے  مالک مکان انجینئر صاحب سے  کسی الگ کمرے  میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی سب لوگوں نے  کہا آپ اسی کمرے  میں بات کر لیں ہم لوگ باہر چلے  جاتے  ہیں، سب لوگ چلے  گئے  تو مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا: رمیش سین صاحب !آپ ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں اور محبت میں مجھے  اچھا ایک آدمی سمجھ کر ملنے  کے  لئے  آئے  ہیں، میری ذمہ داری ہے  کہ آپ کے  لئے  جوسب سے  زیادہ ضروری اور بھلائی کی بات ہے  آپ سے  کہوں اور آپ کے  لئے  جو بہت خطرہ کی بات ہے  اس سے  خبردار کروں، دیکھئے  جس دیش میں آدمی رہتا ہو، اس کے  حاکم کو تسلیم نہ کرے  اور نہ مانے  اور وہاں کے  قانون (سنودھان اور کانسٹی ٹیوشن)کو نہ مانے  نہ تسلیم کرے  وہ باغی اور غدار ہے، اس لئے  کسی دیش کے  کسی عہدہ پرپر مقرر کرنے  سے  پہلے  ہر شہری کو دیش کے  منشور اور سن وِدھان کے  پرتی وچن بدھتا اور وفاداری کی شپتھ اور حلف دلایا جاتا ہے، یہ پوری کائنات اور سرشٹی کا اکیلا مالک، بادشاہ وہ اکیلا خدا ہے  اور اس کا فائنل اور آخری دستور اور منشور قرآن مجید ہے، جو اس نے  اپبے  آخری رسول اور انتم سندیشٹا حضرت محمدﷺ پر بھیجا ہے، انسان کی سب سے  بڑی ضرورت یہ ہے  کہ وہ ہوش سنبھالنے  کے  بعد سب سے  پہلے  غداری سے  بچ کر اس اللہ کے  اکیلا مالک ہونے  اور قرآن کے  آخری دستور ہونے  کا حلف لے، اس حلف کے  بغیر آدمی باغی اور غدار ہے  اور اس کو اللہ کی زمین پر چلنے، یہاں کی چیزوں سے  فائدہ اٹھانے، یہاں تک کہ اس کی ہوا میں سانس لینے  کا حق حاصل نہیں اور اللہ کے  باغی کو جو یہ حلف نہ لے  اور کلمہ پڑھ کر ایمان نہ لائے  غداری اور بغاوت کے  جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کی نرک میں جلنا پڑے  گا، اس لئے  رمیش بھائی اس حلف کو کلمہ شہادت کہتے  ہیں میں آپ کو پڑھواتا ہوں آپ یہ سوچ کر کہ اپنے  سچے  مالک کو حاضر و نا ظر جان کر بغاوت سے  توبہ کر کے  اس کے  اور اس کے  قانون قرآن کا پالن کرنے  کے  لئے  یہ حلف لے  رہاہوں سچے  دل سے  دولائنیں پڑھ لیجئے، یہ کہہ کر مجھے  کلمہ شہادت پڑھوایا، میں نے  پڑھا، کلمہ پڑھوا کر مولانا نے  مجھ سے  کہا جو اس کلمہ کو سچے  دل سے  پڑھ لے  اس کو ہی مسلمان کہتے  ہیں، اللہ کا شکر ہے  آپ مسلمان ہو گئے، اب آپ کو پاک ہونے  کے  طریقے  سیکھنے  ہیں، نماز یاد کرنی ہے  اور اسلام کو پڑھنا ہے، آپ جب پڑھیں گے  تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سعید صاحب نے  آپ کے  ساتھ کیسا بھائی ہونے  کا حق ادا کیا اور اصل تو مرنے  کے  بعد اس نعمت کی قدر معلوم ہو گی۔

            ناشتہ کا تقاضا تھا سب لوگوں کو بلوا لیا گیا، ناشتہ کے  دوران مولانا صاحب نے  مجھے  کچھ کتابوں کے  نام لکھوائے  اور اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘  انجینئر صاحب سے  منگوا کر دی، یا ہادی یا رحیم اور کچھ اور کلمات پڑھنے  کے  لئے  لکھ کر دیئے، میں نے  مولانا صاحب سے  عرض کیا کہ جو دولائنیں آپ نے  مجھے  پڑھائی ہیں وہ بھی کہیں مل جائیں گی، پھر میں نے  کہا (اور احمد صاحب یہ بالکل میرے  اندر کا عجیب حال تھا کہ ) کلمہ شہادت پڑھ کر مجھے  بالکل ایسا لگا جیسے  کہ میں ایک جال اور بندھن میں بندھا تھا، یہ کلمہ پڑھ کر ہزاروں من بوجھ کے  تلے  سے، بڑے  بندھن اور جال سے  میں آزاد ہو گیا اور بالکل ہلکا پھلکا میں اپنے  آپ کو محسوس کر رہا ہوں۔

  سوال   : کیا آپ کا نام ابی نے  ہی محمد محسن رکھا ہے  ؟

جواب   :  مولانا صاحب نے  میرے  نام کو بدلنے  کے  لئے  نہیں کہا، البتہ قانونی کاروائی کا طریقہ بتایا، بہت دنوں کے  بعد میں اپنی پسند سے  محسن انسانیت کتاب پڑھ کر محمد محسن نام رکھنے  کی خواہش ظاہر کی تو سعید صاحب نے  میرا نام محمد محسن رکھا۔

  سوال   : کیا یہ حالات آپ نے  اپنے  گھر والوں سے  جا کر فوراً بتایئے ؟

 جواب  : ہم لوگ بھوپال سے  گوا لیار پہنچے، میرا خیال تھا کہ غداری اور بغاوت سے  توبہ کر کے  وفاداری کے  لئے  حلف لینا ہر انسان کی ضرورت ہے، یہ ایک بہت ضروری بلکہ انسان کے  لئے  سب سے  ضروری اور اچھا کام ہے، میں نے  جا کر اپنی بیوی سے  بتایا اور ان کو بھی کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا مجھے  اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس بات سے  اس قدر چڑھ جائیں گی، انھوں نے  پورے  خاندان والوں کو اکھٹا کر لیا اور اس قدر سخت رخ اختیار کیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، میں سارے  پریوار کے  سامنے  معافی مانگی اور ان سے  وعدہ کیا کہ میں اپنے  ہندو دھرم ہی میں رہوں گا، مگر جب میں اکیلا ہوتا تو ضمیر مجھے  کچوکے  دیتا، کہ ایک مالک کی کائنات میں باغی اور غدار تو کفرو شرک پر اتنے  جری اور بہادر اور تو حق پر ہوتے  ہوئے  اتنا بزدل اور گیدڑ کا گو، اس سے  موت اچھی ہے، اندر سے  مجھ سے  کوئی سوال کرتا کیا اللہ اکیلا اس کائنات کا مالک نہیں ؟ کیا قرآن اللہ کا سچا کلام نہیں ؟ کیا حضرت محمدﷺ جیسا کوئی اور ایسا سچا دنیا میں ہوا ہے  ؟ کیا جنت دوزخ حق نہیں ہے  ؟ کیا دیوی دیوتا پوجا کے  لائق ہیں ؟ کیا یہ سب مل کر مکھّی بنا سکتے  ہیں ؟ کیا کفر و شرک پر مر کر ہمیشہ کی دوزخ نہیں ہے  ؟ یہ سوالات میرے  اندر ایک آگ سی لگا دیتے  اور بار بار میرا دل چاہتا تھا کہ سارے  کفر و شرک کے  پرستاروں سے  ٹکرا جاؤں۔

  سوال   : اس دوران آپ نے  کچھ اسلام پڑھ لیا تھا؟

 جواب  : روزانہ ایک کتاب میں اسلام جاننے  کے  لئے  پڑھتا تھا اور میری پیاس بھڑکتی جاتی تھی، اس مطالعہ کی روشنی میں میرے  اندر یہ سوالات اٹھتے  تھے۔

  سوال   : پھر کیا ہوا؟

 جواب  : پھر وہی ہوا جو ہونا چاہئے  تھا، میرے  ایمان نے  مجھے  ابھارا اور سارے  خداؤں کے  پرستاروں سے  میں نے  بغاوت کا اعلان کر دیا اور اکیلے  خدا کی وفاداری میں آخری سانس تک لڑنے  کا میں نے  عزم کر لیا، میں نے  اپنی بیوی اور اپنے  گھر والوں سے  کہہ دیا کہ میں مسلمان ہوں، مسلمان رہوں گا اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا، میں آپ لوگوں کے  دباؤ اور رشتوں کی محبت میں اسلام کے  کسی چھوٹے  سے  چھوٹے  حکم سے  دست بردار نہیں ہو سکتا۔

  سوال  : اس پر لوگ برہم نہیں ہوئے ؟

 جواب  : کیوں نہیں ہوئے، خوب ہوئے، روز خاندان کے  لوگ اکھٹا ہوتے، مجھے  بلاتے، سمجھانے  کی کوشش کرتے، برہم ہوتے، شروع شروع میں تو، میں بلانے  پر چلا جاتا تھا، بعد میں میں نے  پنچایتوں میں جانے  سے  منع کر دیا، گھر والوں نے  میرے  خلاف اسکیمیں شروع کر دیں، میں نے  عدالت میں اپنی حفاظت و قبول اسلام کے  لئے  کاروائی کی، میرے  خلاف بہت جھوٹے  مقدمے  لگائے  گئے، چھ بار مجھے  زہر دینے  کی کوشش کی گئی، کئی لوگوں سے  مجھے  قتل کرانے  کی کوشش کی، مگر میرے  اللہ نے  مجھے  بچایا، فون پر مولانا صاحب سے  مشورہ ہوا، مولانا نے  کہا اچھا ہے  کہ اس طرح کے  حالات میں آپ گوا لیار چھوڑ دیں، دین کے  لئے  ہجرت کے  بڑے  فضائل ہیں، انشاء اللہ آپ کو اجر بھی ملے  گا اور راحت بھی، کچھ روز کے  لئے  میں دہلی آ گیا، دہلی میں وقتی مخالفتوں سے  تو راحت ملی مگر بہت سی مشکلات بھی سامنے  آئیں، میں جو رقم گوا لیار سے  لے  کر آیا تھا ختم ہو گئی اور کوئی کاروبار لگ نہ سکا، ایک کمپنی میں ایم۔آر کی ملازمت مل گئی تو راحت ہوئی، حضرت کے  ایک دوست مجھے  راجستھان لے  گئے، آج کل راجستھان میں رہ رہا ہوں، الحمدللہ راحت میں ہوں۔

  سوال  : جس طرح کی مشکلات کا آپ کو سامنا کرنا پڑا اس میں آپ کا حوصلہ نہیں ٹوٹا؟

 جواب  : بس اللہ کا فضل ہے  کہ اس نے  سنبھالا، اصل میں گھر والوں اور غیر مسلموں کی طرف سے  جو زیادتیاں ہوئیں ان سے  تو بڑا حوصلہ بڑھا اور ہمت نہیں ٹوٹی، مگر زندگی میں چار پانچ بار مجھے  پرانے  خاندانی مسلمانوں سے  ایسی تکلیفیں پہنچیں کہ شیطان نے  مجھے  بالکل ارتداد میں دھکیل دیا تھا، مگر اللہ کا شکر ہے  کہ حضرت مولانا جیسا مومن، اللہ کی رحمت کا فرشتہ بن کر ہمارے  لئے  کفر کی تباہی سے  بچانے  کا ذریعہ بن گیا، سچی بات یہ ہے  کہ میں ایمان اور اسلام کے  اہل ہی نہ تھا، میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ اللہ نے  اپنے  فضل سے  سعید صاحب کو ہدایت کا فرشتہ بنا کر ہمارے  پڑوس میں بھیج دیا اور اللہ نے  اپنی مرضی سے  ہدایت عطا فرمائی، مگر واقعی حالات اتنے  سخت سامنے  آئے  کہ اگر اپنے  بل بوتے  پر ان سے   نمٹنا چاہتا تو چند روز میں اسلام کو چھوڑ دیتا، مگر اللہ کی رحمت تھی کہ سالہا سال جمائے  رکھا۔

  سوال  : کچھ خاص باتیں ان میں سے  بتائیں ؟

 جواب  : مولانا احمد صاحب، ایمان جتنا قیمتی ہے  اللہ نے  جس طرح اپنے  فضل سے  مجھے  دیا ہے، اس کے  مقابلے  میں وہ مشکلات کچھ بھی نہیں، جب مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا تھا تو میں مسلمان ہونے  یا دھرم چھوڑنے  کی نیت سے  تو کلمہ نہیں پڑھ رہا تھا، مگر کلمہ پڑھ کر میں نے  جیسا بندھنوں سے  اپنے  کو آزاد محسوس کیا اس کے  لئے  اسلام کو میں نے  سمجھا، اب اس راہ کی مشکل کو میں بیان کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے  کہ میں اپنے  اللہ کی شکایت کر رہا ہوں، اس لئے  مجھے  ان واقعات کو بیان کرتے  ہوئے  بھی شرم آتی ہے، جب ہر مشکل سے  میرا ایمان اور نکھرا بھی ہو۔

  سوال  : پھر بھی ایک آدھ واقعہ سنایئے ؟

 جواب  : بس اس کے  لئے  مجھے  ابھی معاف کریں، وہ حالات بھی نعمت کے  طور پر تھے، مگر اب الحمدللہ راحت اور عافیت کی نعمت میں اللہ نے  مجھے  رکھا ہے، میری بیوی عائشہ بن کر میرے  ساتھ ہیں، میرے  دونوں بیٹے  محمد حسن محمدحسین اور میری بیٹی فاطمہ، اللہ نے  بس میرے  لئے  خاندان میں سب کو ہدایت دے  دی ہے، کیا اس انعام کے  بعد ایمان کی راہ کی ان آزمائشوں کا ذکر کرنا، جو ایمان کے  مزہ کے  لئے  عطا کی گئی تھیں کم ظرفی اور نا شکری نہ ہو گی۔

  سوال  : سنا ہے  آپ اس سال عمرہ کے  لئے  بھی گئے  تھے ؟

  جواب  : الحمدللہ ہم دونوں اپنے  بچوں کے  ساتھ عمرہ کو گئے  تھے۔

  سوال  : وہاں آپ کو کیسا لگا؟

 جواب  : سچی بات یہ ہے  کہ میرے  گھر والوں کے  لئے  اسلام ان کی چاہت وہیں جا کر بنا، ورنہ یہاں تو بس حالات نے  انھیں میرے  ساتھ آنے  پر مجبور کر دیا تھا، عمرے  کے  بعد الحمدللہ سب کو دین کا شوق ہو گیا ہے۔

  سوال  : گوا لیار میں اپنے  خاندان والوں کو ساتھ کچھ آپ کا رابطہ ہے ؟

 جواب  : عمرہ کے  بعد کچھ رابطہ شروع کیا ہے، مجھے  لگتا ہے  کہ حرمین کی دعائیں قبول ہو رہی ہیں، میرے  چچا زاد بھائی مجھ سے  ملنے  آنا چاہتے  ہیں، میں نے  ان کو جولائی میں بلایا ہے، وہ ایک بڑے  سرکاری عہدہ پر ہیں، اگر وہ اسلام میں آ جاتے  ہیں تو سب گھر والوں کو سوچنا پڑے  گا، انھوں نے  حضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت ‘‘ پڑھی ہے، ’’ اسلام ایک پریچے ‘‘ بھی میں نے  ان کو بھیجی ہے۔

  سوال  : ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کوئی پیغام ؟

 جواب  : اسلام دین فطرت ہے، جس طرح پیاسے  کو ٹھنڈے  پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اسلام کی انسان کو ضرورت ہے، کسی پیاسے  کو جس کی زبان خشک ہو رہی ہو، ہونٹوں پر پیاس کی شدت سے  پپڑیاں جم رہی ہوں، آپ ٹھنڈا پانی ہونٹوں تک لائیں تو وہ دھتکارنے  کے  بجائے  جھپٹ کر لے  گا اسی طرح اسلام کو دل کے  ہونٹوں تک لگانے  کی ضرورت ہے، ساری انسانیت کفر و شرک کے  جال اور بوجھ کے  تلے  دبی ہے، اسلام ان کے  لئے  آزادی ہے، اس لئے  اسلام کے  خلاف جھوٹے  پروپیگنڈہ کی پرواہ نہ کر کے  یہاں انسانیت تک اسلام کو ہمیں پہنچانے  کو کوشش کرنا چاہئے، بس ارمغان کے  پڑھنے  والوں کے  لئے  میری یہی درخواست ہے۔

  سوال  : شکریہ محسن بھائی، میرا خیال تھا کہ آپ ان آزمائشوں کی کہانی سنائیں گے  جو راہ وفا میں آپ کو پیش آئی ہیں، مگر خیر کسی اور موقع پر۔

 جواب  : معاف کیجئے  احمد بھائی، سچی بات یہ ہے  کہ میں آج جس حال میں ہوں مجھے  نہیں لگتا کہ میں نے  آزمائشوں سے  گذر کر یہ راہ پائی ہے، اب اس کا ذکر مجھے  ناشکری سا لگتا ہے، میرے  لئے  دعا کیجئے  کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت اسلام کی قدر کی توفیق عطا فرمائے  اور ہمیں استقامت بھی عطا فرمائے۔

  سوال  : دینی تعلیم کے  لئے  آپ نے  کچھ کیا؟

 جواب  : الحمد للہ پہلے  روز سے  دین پڑھنا میری پہلی چاہت ہے، الحمدللہ میں نے  قرآن مجید پڑھ لیا ہے، اردو خوب پڑھ لیتا ہوں، کچھ لکھ بھی لیتا ہوں، میرے  سب گھر والے  بھی قرآن مجید پڑھ رہے  ہیں، ہم لوگوں نے  عزم کیا ہے  کہ اول مرحلہ میں اتنا قرآن آ جائے  کہ ہم اپنے  نبی ﷺ کی اتباع میں ایک منزل روزانہ پڑھنے  لگیں، میں نے  جماعت میں جب سے  یہ سنا تھا کہ ہمارے  نبی ﷺ کا معمول سات روز میں قرآن مجید ختم کرنے  کا تھا میں نے  گھر والوں سے  یہ عہد لیا کہ قرآن مجیدسات یا پانچ روز میں ضرور ختم کیا کریں گے، میرے  بچوں اور بیوی تینوں نے  عزم کیا ہے، مجھے  امید ہے  اس سال کے  آخر تک یا کم از کم جنوری سے  ہم لوگ اس لائق ہو جائیں گے  کہ ہر ایک، ایک منزل روزانہ تلاوت کرے، الحمدللہ ابھی بھی فجر کے  بعد ہم پانچوں پابندی سے  تلاوت کرتے  ہیں، اس کے  بعد کچھ ترجمہ یاد کراتا ہوں۔۔

  سوال  : ماشاء اللہ بہت خوب اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے، ابی بتا رہے  تھے  کہ اللہ تعالیٰ نے  آپ کو مستجاب الدعوات بنایا ہے، آپ کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں، کوئی واقعہ بتائیے ؟

 جواب  : مولوی احمد صاحب میرے  اللہ نے  ہر مسلمان  بلکہ سچی بات یہ ہے  کہ سارے  انسانوں سے  وعدہ کیا ہے  :اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ مجھ سے  دعا مانگو، میں قبول کروں گا، اللہ کا ہر بندہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے، بس اس کو کارساز سمجھ کر مانگے، یہ بات الگ ہے  کہ کسی کے  بارے  میں مشہور ہو جاتا ہے، ورنہ میرا خیال ہے  کہ دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں، جس کی دعا  اللہ نے  قبول نہ کی ہو، میرا تو یقین ہے  مانگنے  کے  طریقے  سے  مانگے  جس طرح دنیا میں فقیر مانگتے  ہیں، اس طرح سے  بھی مانگے  اور آدمی اپنا رب سمجھ کر اڑ جائے  کہ آج اپنے  اللہ سے  سورج مشرق کے  بجائے  مغرب سے  نکلواؤں گا، تو رحمن و رحیم اللہ، بندے  کے  گندے  اور محتاجی کے  ہاتھوں کی لاج رکھتے  ہیں، یہ بات بھی سچ ہے  کہ عادت اللہ کے  خلاف مانگنا نہیں چاہئے، مگر مجھے  اعتماد اتنا ہی ہے، میری بیوی کا مسلمان ہونا اور خود لے  کر میرے  بچوں کو میرے  پاس آ جانا، اس عورت کا جو مجھے  کئی بار زہر دے  چکی ہو اور ایسی مسلمان بن جانا، سورج کے  مشرق کے  بجائے  مغرب سے  نکلنے  سے  کم نہیں ہے، اس گندے  نے  جب بھی دامن احتیاج پھیلا کر خالی ہاتھ اٹھائے  اور میرے  اللہ نے  جھولی بھر دی۔

  سوال  : واقعی بات تو یہی ہے، بس مانگنے  والے  ہی نہیں، آپ نے  بتایا کہ خاندانی مسلمانوں سے  آپ کو کچھ تکلیفیں پہنچیں وہ کس طرح کی تھیں کہ آپ کو اس درجہ ملال رہا؟

  جواب  : مولوی احمد، بس ان کا ذکر بھی ایسے  کریم آقا کی ناشکری لگتی ہے  انسان کم زور  ہے  زبان سے  بات نکل گئی اللہ معاف فرمائے، میرے  اللہ کا مجھ پر کرم ہی کرم ہے، ایمان مل جانے  کے  بعد کہاں کی تکلیف اور کہاں کی آزمائش، بس میرے  اللہ مجھے  شکر گذار بنا دیں، اس کی دعا آپ ضرور کر دیں اور کفران نعمت سے  بچائیں۔ آمین۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جولائی ۲۰۰۹ء 

٭٭٭

ایک خوش قسمت نو مسلم داعی و عالم دین مولانا محمد عثمان صاحب قاسمی {سنیل کمار} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ         :     السلام علیکم

محمد عثمان  :            وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   :  قارئین ارمغان کے  لئے  آنجناب سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب  :   ضرور فرمائیے، میرے  لئے  سعادت کی بات ہے۔

  سوال  : آپ ہمارے  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  اپنا کچھ مختصر تعارف کرائیں۔

 جواب  :   میرا نام محمد عثمان ہے  پَلوَل ضلع فرید آباد (ہریانہ) کے  قریب ایک گاؤں میں ایک غیر مسلم راجپوت گھرانے  میں پیدا ہوا، میرا پہلا نام سنیل کمار تھا میرے  والد اپنے  گاؤں کے  ایک معمولی کسان ہیں، فروری  ۱۹۹۲ء میں اللہ تعالیٰ نے  مجھے  اسلام کی دولت سے  نوازا میری عمر اب تقریباً ۲۵ سال ہے، میں نے  دینی تعلیم کا آغاز ۱۹۹۲ ء میں مدرسہ ہر سولی میں کیا، ناظرہ قرآن پاک کے  بعد حفظ شروع کیا، بعد میں دارالعلوم دیوبند میں میں نے  حفظ اور عا  لمیت کی تکمیل کی فالحمد للہ علی ذلک۔

  سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  سلسلہ میں کچھ بتائیے ؟

 جواب  :  میری زندگی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم ایک نشانی ہے، میرے  اللہ نے  مجھ گندے  کو ہدایت سے  نوازنے  کے  لئے  عجیب و غریب حالات اور نشانیاں دکھائیں، گھریلو حالات کی وجہ سے  آٹھویں کلاس کے  بعد میں نے  تعلیم بند کر دی اور کچھ روزگار وغیرہ تلاش کرنا شروع کئے، میری کلاس کا ایک میواتی لڑکا عبدالحمید میرا دوست تھا جو قصبہ ہتھین کے  پاس کا رہنے  والا تھا، ہم دونوں میں بے  انتہا محبت اور دوستی تھی، عبدالحمید بھی گھریلو حالات کی وجہ سے  پلول میں کار مکینک کا کام سیکھنے  لگا اور کچھ دن کے  بعد میں بھی اس کے  ساتھ ورکشاپ جانے  لگا، عبدالحمید کے  والد میاں جی تھے  اور وہ ہتھین کے  قریب ایک گاؤں میں جمعیت شاہ ولی اللہ کی طرف سے  امام تھے۔

            اس گاؤں کے  پسماند ہ مسلمان ۱۹۴۷ ء میں اور اس سے  پہلے  مرتد ہو گئے  تھے، یہ وہ علاقہ ہے  جہاں حضرت تھانویؒ نے  اپنے  چند خدام کو دعوت کے  کام کے  لئے  لگایا تھا اور یہاں کام کرنے  والوں کے  لئے  بڑی دعائیں بلکہ بعض بشارتیں بھی سنائی تھیں، اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی، ایک مزار تھا اس مزار کی یہ خصوصیت پورے  علاقہ میں مشہور تھی کہ اس پر کبھی کسی نے  کوئی تنکا بھی پڑا ہوا نہیں دیکھا ہر وقت انتہائی صاف رہتا ہے، اوپر طاقوں میں کبوتر بھی رہتے  ہیں مگر وہ بھی بیٹ نہیں کرتے  اسی مزار کے  ایک حصہ میں وہ میاں جی صاحب رہتے  تھے  بستی کے  لوگ ان کو کھانا بھی نہیں دیتے  تھے، وہ اکیلے  اذان دیتے  اور نماز پڑھتے  کچھ بچے  کبھی کبھی ان کے  پاس آ جاتے  تھے، وہ ان کو کلمہ یاد کراتے  وہاں کے  مرتد ہو چکے  مسلمان بھینسا بوگی سے  بھاڑے  کا کام کرتے  تھے، یہاں ایک مٹی کا بڑا اونچا ٹیلہ تھا یہ سب لوگ وہاں سے  مٹی اٹھاتے  اور لوگوں کے  یہاں ڈالتے، ایک روز دو لوگ یہاں مٹی سے  کاٹ رہے  تھے  ا چانک انھوں نے  دیکھا کہ وہاں ایک خالی کھوہ میں سفید کپڑا دکھائی دیا، انھوں نے  اور آگے  سے  مٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لاش ہے، یہ لوگ ڈرے  اور میاں جی کو بلایا اور کہنے  لگے  کہ یہ کوئی جن یا پریت ہے، میاں جی آئے  انھوں نے  دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش کی میت ہے  اور اس طرح پڑی ہے  جیسے  آج ہی انتقال ہوا ہو، انھوں نے  لوگوں سے  بتایا کہ یہ کسی اللہ والے  مومن کی میت ہے  اللہ کے  نیک بندوں کی یہی شان ہوتی ہے  کہ مرنے  کے  بعد ان کو دلہن کی طرح سلا دیا جاتا ہے  اور مٹی بھی ان کی حفاظت کرتی ہے، اس واقعہ سے  گاؤں والوں پر بڑا اثر ہوا اور ان میں سے  خاصے  لوگ ارتداد سے  توبہ کر کے  مسلمان ہو گئے، اپنے  بچوں کو بھی میاں جی کے  پاس پڑھنے  بھیج دیا اور مسجد کے  لئے  جگہ دی، جو اللہ نے  بنوا بھی دی، ایک روز عبدالحمید صاحب اپنے  والد کے  پاس اس گاؤں میں گئے  میں بھی ان کے  ساتھ چلا گیا میاں جی کے  کھانے  کا انتظام کرایا، اتفاق سے  پلیٹ ایک ہی تھی، کھا نے  سے  پہلے  میاں جی صاحب نے  کہا تم ذرا ٹھہرو، میں گاؤں سے  دوسری پلیٹ لے  آؤں، ہم دونوں نے  کہا کہ الگ پلیٹ لانے  کی ضرورت نہیں ہم دونوں ایک پلیٹ میں ہی کھاتے  ہیں، یہ کہہ کر ہم دونوں کھانا کھانے  لگے، میاں جی نے  عبدالحمید سے  کہا کہ بیٹا جب تم دونوں میں اتنی محبت اور دوستی ہے  تو اپنے  دوست کو مسلمان کیوں نہیں بنالیتا، یہ کیسی محبت ہے، یہ ہندو مرگیا تو کیا ہو گا؟ یہ کیسی دوستی ہے  کہ ایک ہندو ایک مسلمان، کھانے  کے  بعد عبدالحمید اور ان کے  والد نے  مجھ سے  کلمہ پڑھنے  اور مسلمان ہونے  کے  لئے  بہت خوشامد کی اور اصرار کیا، کئی بار رونے  بھی لگ گئے، میں نے  ان سے  کہا کہ آپ اسلام کا کوئی منتر( کلمہ ) مجھے  بتائیے  میں اس منتر کو پڑھوں گا، اگر میں نے  کوئی چمتکار (کرشمہ) دیکھا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا، میاں جی کو جماعت والوں نے  ایک دعا یاد کرائی تھی وہ انھوں نے  مجھے  یاد کرائی، اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیِ مِنَ النَّار ترجمہ: ’اے  اللہ مجھے  دوزخ سے  پناہ دیجئے ‘ اور کہا کہ چلتے  پھرتے  پڑھا کروں۔

            میں نے  ان سے  کہا کہ اس کا مطبل( مطلب) مجھے  بتاؤ، انھوں کہا مطلب تو مجھے  بھی معلوم نہیں کل ہتھین مفتی رشید صاحب کے  پاس جاؤں گا، ان سے  معلوم کر کے  بتاؤں گا، اگلے  روز وہ ہتھین گئے  میں بھی دوسرے  دن شام کو ہتھین گیا میں بھی ان سے  مطلب معلوم کرنے  پہنچا، انھوں نے  بتایا کہ اس دعا کا مطلب یہ ہے  کہ اے  اللہ ! اے  میرے  مالک ! مجھے  دوزخ (نرک) کی آگ سے  بچا، میں نے  سوال کیا کہ نرک کی آگ سے  بچانے  کا کیا مطلب ہے  انھوں نے  بتایا کہ جو آدمی مسلمان ہوئے  بغیر اور ایمان کے  بنا مر جائے، وہ ہمیشہ نرک کی آگ میں جلے  گا اور جو ایمان پر مرے  گا وہ جنت میں جائے  گا، میں نے  کہا کہ کیا واقعی یہ بات سچی ہے، انھوں نے  کہا کہ یہ بالکل سچی ہے، مجھے  بہت دکھ ہوا اور میں نے  عبدالحمید سے  کہا کہ تو میرا کیسا دوست ہے  اگر میں اسی طرح مر جاتا تو ہلاک ہو جاتا، تو نے  کبھی مجھ سے  نہیں کہا، میاں جی نے  کہا واقعی بیٹا تم صحیح کہتے  ہو، عبدالحمید کو تمہارے  ایمان کی بہت فکر کرنی چاہئے  تھی، بیٹا اب جلدی کلمہ پڑھ لو، میں تیار ہو گیا وہ مجھے  لے کر اگلے  روز ہتھین مدرسہ گئے  مفتی صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عثمان رکھ دیا، الحمدللہ علیٰ ذالک

  سوال  :  اس کے  بعد آپ نے  مسلمان ہونے  کا اعلان کر دیا یا گھر والوں سے  چھپائے  رکھا؟

 جواب  : اس کے  بعد کا ہی حال سننے  کاہے، تیسرے  روز مجھے  مفتی صاحب نے  قانونی کاروائی کے  لئے  ایک صاحب کے  ساتھ فرید آباد بھیج دیا، میں نے  فرید آباد ضلع جج کے  سامنے  بیان حلفی دے  دئے، ضلع جج متعصب قسم کے  آدمی تھے  انھوں نے  نابالغ کہہ کر مقامی تھانہ انچارج کے  حوالہ کرنے  اور تحقیقات کا حکم جاری کر دیا، ہتھین تھانہ کے  انچارج جناب اومیش شرما تھے  وہ کسی ضروری تفتیش کے  لئے  جا رہے  تھے  انھوں نے  انسپکٹر بلبیر سنگھ کو میرا کیس سونپا اور چلے  گئے، بلبیر سنگھ بہت ظالم اور متعصب تھے، انھوں نے  مجھے  بہت دھمکایا اور بے  دردی سے  پہلے  ہاتھوں سے  مار لگائی اور جب میں نے  ایمان سے  پھرنے  سے  انکار کیا تو ڈنڈے  سے  بے  تحاشا مارا، جگہ جگہ میرے  خون بہنے  لگا، میں ہر وقت اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیِ مِنَ النَّار پڑھتا تھا مار کھاتے  وقت کبھی کبھی زور سے  یہ دعا نکل گئی، اس نے  کہا یہ کیا پڑھتا ہے  اور گا لیاں دیں، میں نے  دعوت کی نیت سے  اسے  اس دعا کا مطلب بتایا، اس کو اور بھی غصہ آیا، اس نے  دو سپاہیوں کو کہا کہ لوہار کی بھٹی پر جا کر لوہے  کے  سریے  گرم کرو اور لال کر کے  لنگا کر کے  اسکو داغ دو، ہم دیکھیں گے  کہ یہ آگ سے  کیسے  بچے  گا اور جب تک یہ اپنے  دھرم میں واپس آنے  کو نہ کہے  اس وقت تک اسکو نہ چھوڑنا، وہ سپاہی پاس میں لوہار کی بھٹی پر گئے  اور چار لوہے  کے  سریے  گرم کر کے  بالکل آگ کی طرح لال کر کے  مجھے  لے  کر تھانہ میں لائے، میرے  اللہ کا کرم ہے  دعا پڑھتا رہا، انھوں نے  میری شرٹ اتاری اور میری کمر پر سریوں سے  داغ دینا چاہا مگر اللہ کا فضل کہ مجھے  ذرا بھی اثر نہیں ہوا، وہ سپاہی حیرت میں آ گئے  اور انسپکٹر بلبیرسے  کہا اس وقت تک سریوں کی لالی ختم ہو گئی تھی، جب اس نے  دیکھا کہ میری کمر پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو اس نے  غصہ میں سپاہیوں کو گالی دیتے  ہوئے  کہا کہ تم سریے  گرم کر کے  نہیں لائے  ہو یہ کہہ کے  ایک سریہ اٹھایا، اس کا ہاتھ بری طرح جل گیا، وہ تکلیف کے  مارے  بے  تاب ہو گیا ور دو سپاہیوں کو کہا اسکو سامنے  بھگا کر گولی مار دو ورنہ یہ بہت سارے  لوگوں کے  دھرم بھرشٹ کر دے  گا، میں ڈاکٹر کے  پاس جاتا ہوں انسپکٹر چلا گیا، وہ دونوں سپاہی مجھے  زور دیتے  رہے  کہ میں دوڑوں، میں کہا میں چور نہیں ہوں مجھے  گولی مارنی ہو تو سامنے  سے  ماردو، یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تھانہ انچارج جناب اومیش شرما آ گئے  انھوں نے  سارا ماجرا سنا، پولیس والوں کو دھمکایا کہ اس کا وشواس ( یقین ) ایسا پکّا ہے  کہ تم گولی بھی ماردو گے  تواس کو نہیں لگے  گی، اس نے  مجھے  کھانا کھلایا اور پھر ایک چارج شیٹ لگا کر رہتک جیل چالان کر دیا اور مجھ سے  کہا کہ بیٹا تیرے  لئے  اسی میں بھلائی ہے  کہ میں تجھے  جیل بھیج دوں ورنہ تجھے  کوئی مار دے  گا، اللہ کا کرم میری اس مصیبت سے  جان چھوٹی اور اللہ کی رحمت پر میرا یقین اور مضبوط ہو گیا۔

  سوال  :  سنا تھا کسی کوتوال نے  آپ کے  ساتھ اسلام قبول کیا تھا، اس کا کیا واقعہ ہے  ؟

 جواب  : میں آگے  سناتا ہوں، یہ تھانہ انچارج کوتوال اومیش شرما جی بہت ہی اچھے  آدمی تھے، تیسرے  روز رہتک جیل آئے  اور مجھ سے  میرے  اسلام قبول کرنے  اور آگ کا اثر نہ کرنے  کا پورا ماجرا سنا اور اس کی تحقیق کی کہ واقعی تجھ پر ان گرم سریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، میں نے  کہا آپ میرے  خیر خواہ (ساؤ) ہیں آپ سے  سچ نہ بتاؤں گا تو کس سے  بتاؤں گا۔

            جب ان کو یقین ہو گیا کہ اللہ نے  مجھے  آگ سے  بچایا تو وہ اور متاثر ہوئے، میری ضمانت کرائی فائنل رپورٹ لگائی، مجھے  جیل سے  چھڑایا اور مجھ سے  کہا کہ مجھے  بھی ان مولانا صاحب سے  ملاؤ جنھوں نے  تمہیں مسلمان کیا ہے، ہتھین آ کر مفتی رشید احمد صاحب سے  ملے  اور کچھ دیر اسلام کی باتیں معلوم کیں اور وہیں مسلمان ہو گئے  مفتی صاحب نے  ان کو اسلام کو ظاہر نہ کرنے  کا مشورہ دیا، کچھ زمانہ کے  بعد بابری مسجد شہید ہو گئی، پورے  میوات میں فسادات ہوئے  ہتھین کا علاقہ ہمیشہ فسادات کا گڑھ رہتا تھا مگر  کوتوال شرما جی ( جو اب عبداللہ ہیں ) کی وجہ سے  اس علاقہ میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہوا اور انھوں نے  مسلمانوں کی بڑی مدد کی۔

  سوال  : آج کل آپ کا کیا مشغلہ ہے  ؟

 جواب  : میں آج کل اَلور ضلع میں جمعیت شاہ ولی اللہ کے  تحت دعوتی کام کر رہا ہوں، وہاں پر ایک ادارہ کی ذمہ داری میرے  سپرد ہے، حضرت مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی کے  واسطہ ہی سے  ہر سولی مدرسہ میں مرا داخلہ ہو گیا تھا میں نے  ان کی ہی نگرانی میں زندگی گزارنے  کا عزم کیا ہے۔

  سوال  : قارئین ارمغان کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

 جواب  : قارئین ارمغان کے  لئے  میری ایک گذارش ہے  کہ ارمغان ایک تحریک ہے  جس کا مقصد ملت اسلامیہ کے  ہر فرد کو اپنے  دعوتی مقصد کے  لئے  کھڑا کرنا اور عملی میدان میں اتار کر ہم جیسے  کفر اور شرک زدہ لوگوں کی فکر کرنا ہے، صرف تائید یا تصویب کر کے  یا واہ واہ کر کے  گھر بیٹھے  رہنے  کی ہمیشہ اصحابِ ارمغان نے  مذمت کی ہے، قارئین کو ارمغان کے  قاری کی حیثیت سے  اس نسبت کی لاج رکھنی چاہئے  اور زندگی میں لوگوں کو تو کفر سے  نکالنے  کی عملی کوشش ضرور کرنی چاہئے 

            دوسری ضروری درخواست یہ ہے  کہ میرے  گھر والوں اور اہل خاندان کی ہدایت کے  لئے  دعا کریں اور اس کی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے  بھی نبی کے  درد کا کچھ حصہ نصیب فرما دیں۔ آمین

  سوال  : بہت بہت شکریہ۔ فی امان اللہ۔

 جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ، مجھ کو تحدیثِ نعمت کا موقع عطا فرمایا۔

        السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جولائی۲۰۰۳ء

٭٭٭

جناب بلال صاحب {ہیرا لعل }سے  ایک ملاقات

احمد اواہ   : السلام وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

بلال احمد  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

  سوال  : بلال بھائی آپ سے  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب  : احمد بھائی ضرور کیجئے  میرے  لئے  خوشی کی بات ہے۔

  سوال  : آپ اپنا تعارف کرایئے۔

 جواب  : میری پیدائش ضلع اعظم گڑھ کے  بومے  گاؤں میں ہوئی، میرا پرانا نام ہیرا لعل تھا میرے  والد بابو نندن بھار دواج جی ایک بہت مذہبی ہندو ہیں میرے  سات بھائی ہیں میرے  خاندان اور گاؤں کے  بہت سے  لوگ دہلی میں بلڈنگ پینٹنگ کا کام کرتے  ہیں میرے  والد صاحب دہلی میں پان بیڑی سگریٹ کی دکان کرتے  ہیں،

  سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کا واقعہ بتائیے ؟

 جواب  : اب سے  تقریباً سات سال قبل جب میری عمر بارہ سال کی تھی میں اپنے  والد صاحب کے  ساتھ پان کی دکان پر تیمور نگر دہلی میں بیٹھتا تھا ہماری دکان کے  اوپر ایک بلڈنگ میں ابا جی ابو فیاض صاحب کڑھائی وغیرہ کا کارخانہ چلاتے  تھے، ہمارے  والد صاحب نے  رات کو قیام کے  لئے  کارخانہ میں ہی ان سے  کہا انھوں نے  منظور کر لیا میں رات کو کار خانہ کے  کاریگروں کے  ساتھ سویا کرتا تھا رات کو روزانہ ابا جی سارے  کاریگروں کو بٹھا کر فضائل اعمال کی تعلیم کرتے  تھے  میں بھی سنتا تھا مجھے  یہ باتیں بہت اچھی لگتی تھیں، میں جلدی رات کو جا کر تعلیم کا انتظار کرتا تھا اور اگر ابا جی ناغہ کرنا چاہتے  تو میں ان سے  تھوڑی دیر تعلیم کرنے  کے  لئے  کہتا، یہ لوگ نماز پڑھنے  جاتے  تو میں بھی ان کے  ساتھ جا کر کبھی کبھی مسجد کے  باہر کھڑا دیکھا کرتا، مجھے  نماز پڑھتے  ہوئے  لوگ بہت اچھے  لگتے، ایک رات کو میں نے  ابا جی ابو فیاض سے  پوچھا؟ ابا جی کیا میں مسلمان ہو سکتا ہوں ؟انھوں نے  بڑے  پیار سے  کہا بیٹا ضرور اور اگر تم مسلمان نہیں بنو گے  تو پھر دوزخ کی آگ میں ہمیشہ جلو گے، میں نے  کہا تو پھر آپ مجھے  مسلمان کر لو، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا میرا نام میرے  کالے  رنگ کی وجہ سے  بلال احمد رکھا اور بتایا کہ بلال ہمارے  نبی کے  اذان دینے  والے  موذن تھے، انھوں نے  ایمان کے  لئے  بڑی قربانیاں دیں، میں بٹلہ ہاؤس میں مسجد میں نماز پڑھنے  جاتا، ابا جی نے  مجھے  نماز پڑھنے  جانے  سے  منع کیا کہ مجھے  نماز پڑھتا دیکھ میرے  گھر والے  مجھے  ماریں گے  میں نے  ابا جی سے  کہا کہ ایک بار آپ نماز کو جا رہے  تھے  تو میں نے  آپ سے  سوال کیا تھا کہ ابا جی آپ ایک ٹائم کی نماز بھی نہیں چھوڑتے  آپ نے  یہ کہا تھا کہ جو ایک وقت کی نماز چھوڑے  وہ اسلام سے  نکل جاتا ہے، تو کیا میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں اگر میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں تو ایسا مسلمان بننے  سے  کیا فائدہ ؟ آپ مجھے  ایک نمبر کا مسلمان کریں اور اگر ایک نمبر کا مسلمان میں بھی ہوں تو بے  نماز کے  تو مسلمان اسلام سے  نکل جاتا ہے، اباجی نے  جواب دیا کہ بات تو سچی یہی ہے  کہ نماز کے  بغیر کچھ مسلمانی نہیں مگر تم ابھی چھوٹے  ہو اور گھر والوں کا ڈر ہے  اس لئے  میں تم سے  کہتا تھا، میں نے  کہا ابا جی اللہ کا ڈر زیادہ ہونا چاہئے  یا ماں باپ کا؟ میری بات سن کر انھوں نے  کہ اچھا بیٹا تم چھپ کر نماز کیلئے  چلے  جایا کرو، رمضان کا مہینہ آیا، میں مسجد میں نماز پڑھنے  جایا کرتا، شاید میرے  گھر والوں نے  مجھے  کبھی مسجد جاتے  دیکھ بھی لیا، میں روزہ بھی رکھ رہا تھا، گھر والے  دن میں کھانے  کو کہتے  میں بہانہ کر دیتا، اس سے  بھی ان کو شک ہو گیا، ایک روز جمعہ کی نماز پڑھ کر ٹوپی اوڑھے  ذاکر باغ کی مسجد سے  آ رہا تھا میرے  والد نے  دیکھ لیا مجھے  پکڑ لیا مجھ سے  پوچھا تو مسجد میں کیا کرنے  گیا تھا، مجھے  سے  نہ رہا گیا میں نے  کہہ دیا کہ اب میں مسلمان ہو گیا ہوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے  کے  لئے  گیا تھا، وہ مجھے  بہت برا بھلا کہنے  لگے  پکڑ کر کمرے  میں لے  گئے  اور وہاں میرے  بھائی اور خاندان کے  لوگ جمع تھے، وہ دوپہر کا کھانا کھانے  کے  لئے  آئے  تھے، مجھے  الگ الگ سمجھاتے  رہے  مگر میں کہتا رہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اب مجھے  واپس کوئی ہندو نہیں کر سکتا، میرے  بڑے  بھائی نے  میری پٹائی شروع کی چاٹے  گھونسے  بے  تحاشہ مارے  میں نے  صاف کہہ دیا کہ یہ بات دماغ سے  نکال دو کہ اب آپ مجھے  ہندو بنا سکتے  ہو، اگر تمہیں کامیابی چاہئے  اور مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنا چاہتے  ہو تو مسلمان ہو جاؤ اور کلمہ پڑھو وہ مجھے  مارتے  اور میں ان کو کلمہ پڑھنے  کو کہتا اس سے  دوسرے  لوگوں کو بھی غصہ آیا، پٹھّیوں اور ڈنڈوں سے  مارنا شروع کیا میرے  سر سے  اور جسم سے  خون بہنے  لگا، میں نے  جوش میں آ کر کہا کہ میری آخری بات سن لو اس کے  بعد چاہے  جو کرنا، میں نے  اپنے  پاؤں کی انگلی کی طرف اشارہ کرنا شروع کیا تم مجھے  یہاں سے  کاٹنا شروع کر دو اور اوپر تک میرے  ٹکڑے  کرنے  شروع کر دو جب تک میرے  گلے  اور زبان میں جان رہے  گی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتا رہوں گا، اب تمہاری مرضی ہے  جو چاہے  کرو، ا ن لو گوں نے  اس درجہ میرا ارادہ مضبوط دیکھ کر مجھے  چھوڑ دیا، میں رات کو موقع پا کر وہاں سے  بھاگ آیا، دو روز تک وہ مجھے  تلاش کرتے  رہے، تیسرے  روز ابا جی ابو فیاض پر دباؤ دینے  لگے  کہ تم نے  ہمارے  لڑکے  پر جادو کرا دیا وہ لڑکا تمہارے  پاس ہے، اگر لڑکا کل تک ہمارے  پاس نہیں آیا تو پولیس میں تمہاری رپورٹ کر دیں گے، ابا جی نے  ان کو بہت سمجھایا کہ بھلائی کا بدلہ تمہارے  یہاں یہی ہے، تمہارے  بچوں کو بغیر کرایہ اتنے  روز رکھا اس کا بدلہ یہ ہے  ؟ مگر وہ نہ مانے، اباجی کو فکر ہوئی میں دہلی ہی میں تھا مجھے  پتہ لگ گیا کہ گھر والے  ابا جی کو پریشان کر رہے  ہیں میں خود کارخانے  گیا اور ان سے  کہا آپ میرے  ہاتھ پکڑ کر میرے  پتاجی کو سونپ آیئے  اور ان سے  کہہ دیجئے  کہ آپ کا بچہ یہ ہے، اب آئندہ میں ذمہ دار نہیں، ابا جی نے  کہا تمہیں جان سے  مار دیں گے  میں نے  کہا کہ وہ مجھے  کچھ نہیں کہیں گے  وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے  پتاجی کے  پاس لے  گئے  اور ان سے  کہا کہ یہ لڑکا اللہ کا شکر ہے  خود آ گیا مجھے  تو اس کی کچھ خبر نہیں تھی مگر اب اس کو پکڑ و اور اب آئندہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

  سوال  : اس بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اس کے  بعد میرے  گھر والے  مجھے  میرے  گاؤں اعظم گڑھ لے  گئے، بہت سے  سیانوں اور جھاڑ پھونک کرنے  والوں کو دکھایا وہ سمجھ رہے  تھے  کہ مجھ پر جادو کرایا گیا ہے  بہت اتار کروایا، میں گھر میں چھپ کر نماز پڑھتا رہا کچھ روز تو مجھے  بند رکھا مگر میرے  گاؤں کے  ایک مسلمان بھائی نے  مجھے  سمجھایا کہ تمہیں یہاں سے  نکلنے  کے  لئے  اپنا رویہ ڈھیلا رکھنا چاہئے  میں نے  اپنے  رویہ میں ذرا نرمی برتی گھر والوں نے  سوچا کہ جادو اتروانے  سے  اب اثر کم ہو رہا ہے، میری ماں اپنے  مائیکہ جا رہی تھیں، وہ مجھے  اپنے  ساتھ لے  گئیں کہ ماحول بدل جائے  گا وہاں ہمارے  نانیہال کے  پڑوس میں ایک بڑے  سمجھدار مسلمان رہتے  تھے  میری والدہ مجھے  ان کے  پاس لے  گئیں، کہ اس کو سمجھاؤ ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے، انھوں  نے  میرے  ماں کو بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ تم اس کو اپنی اجازت سے  جانے  دو، یہ لڑکا ہر گز آپ کے  یہاں رہنے  والا نہیں اور اس نے  بہت اچھا فیصلہ کیا مالک کی خاص مہر بانی اس پر ہے، اس پر وہ تیار ہو گئیں اور میں نانیہال سے  ہی ابا جی کے  پاس آ گیا انھوں نے  مجھے  مظفر نگر اپنے  گاؤں بھیج دیا، پھر ایک مدرسہ میں داخلہ کرا دیا، میں نے  قرآن شریف نا ظرہ پڑھا، اردو پڑھی کچھ پارے  حفظ کئے، پھر حضرت مولانا کلیم صاحب کے  مشورہ سے  ندوہ کی ایک شاخ میں خصوصی اول میں داخلہ لے  لیا، الحمدللہ میرے  پڑھائی بہت اچھی چل رہی ہے۔

  سوال  : نئے  ماحول میں آ کر آپ کو کیسا لگا؟

 جواب  : میرے  ابا جی میرے  پہلے  پتاجی سے  ہزار گنا زیادہ مجھے  چاہتے  ہیں، لوگ مجھے  ان کا اصلی بیٹا سمجھتے  ہیں، میری امی بھی میرے  دوسرے  بھائی بہنوں سے  زیادہ میری بات مانتی ہیں، ایک روز مجھے  دیکھ کر ایک رشتہ دار نے  میرے  بھائیوں سے  کہا کہ اب تو زمین میں اس کا بھی حصہ ہو گا تو میرے  سارے  بھائی فوراً کہنے  لگے  ہم سب سے  پہلے  یہ زمین میں حصہ دار ہے، اللہ نے  یہ بھائی تو ہمیں بڑے  احسان کے  طور پر دیا ہے، ورنہ کہاں ہم گنوار اور کہاں مدینے  کی یہ بھائی چارگی، اس بھائی پر ہم اپنی جان بھی دے دیں تو ہم اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے۔

  سوال  : اپنے  بھائی اور والد ین سے  آپ کا پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا؟

 جواب  : ایک بار میں دہلی میں بس سے  جا رہا تھا نظام الدین کے  قریب سے  گزرا تو میں نے  دیکھا کہ میرا بھائی سائیکل پر جا رہا ہے، میں نے  اس کو آواز لگائی اس نے  مجھے  دیکھا سائیکل دوڑائی مگر وہ بس کے  ساتھ کہاں تک دوڑتا میں آگے  ایک اسٹاپ پر اتر گیا وہ ہانپتا ہوا آیا مجھ سے  لپٹ گیا اور ہاتھ جوڑنے  لگا اس نے  کہا پتا جی مرنے  والے  ہیں تجھے  بہت یاد کر رہے  ہیں، میں نے  کہا اچھا میں کل آؤں گا، میں نے  ابا جی سے  اجازت چاہی انھوں نے  دعوت کی نیت سے  جانے  کی اجازت دے دی، میں گیا تو وہ بالکل ٹھیک تھے، مجھے  بہت دیر تک سمجھاتے  رہے، کہا ! تو میرا سب سے  اچھا بیٹا ہے  تو ہی دھوکہ دے  جائے  گا تو میں کیا کروں گا؟ انھوں نے  بتایا کہ میں نے  ایک پنڈت جی سے  مشورہ کیا تھا انھوں نے  تجھے  مار دینے  کو کہا تھا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم نے  اس کو نہ مارا تو وہ سارے  خاندان کا دھرم بھرشٹ کر دے  گا، میں نے  ا پنے  دل میں سوچا میں نے  کتنے  لاڈ سے  اس کو پالا، کس دل سے  اسے  ماروں ؟       

            میں نے  ان سے  کہا پتا جی! جب آپ لوگ مجھے  پکڑ کر لائے  تھے  اس وقت بھی میں نے  آپ سے  کہا تھا وہی اب بھی کہتا ہوں اگر آپ میرے  بدن کے  ٹکڑے  ٹکڑے  بھی کر دیں گے  تو جب تک زبان میں دم ہے، لا الہٰ الا اللہ کہتا رہوں گا، میں تو اس لئے  آیا ہوں کہ آپ میرے  پتاجی ہیں آپ نے  مجھے  پالا ہے  ماں نے  دودھ پلایا، اگر آپ ہندو مر گئے  تو ہمیشہ نرک کی آگ میں جلیں گے، آپ سبھی لوگ مسلمان ہو جائیں اور میرے  ساتھ چلیں، وہ کچھ نہیں بولے  اور بڑے  مایوس ہوئے۔

  سوال  : اس کے  بعد بھی آپ نے  ان سے  رابطہ کیا؟

 جواب  : میرے  ایک چچا سعودی عرب میں رہتے  ہیں، وہ بھی اسلام کے  بہت قریب ہیں مجھے  معلوم ہوا کہ وہ آئے  ہیں تو میں نے  موقع سمجھ کر دہلی سفر کیا، پتا جی نے  بتایا کہ تیرے  چچا کہہ رہے  تھے  کہ سچا دھرم اور عقل میں آنے  والا مذہب صرف اسلام ہے، ہم لوگ ہندو اس لئے  ہیں کہ ہندو سماج میں پیدا ہوئے  مگر ہندو دھرم کی کوئی بات عقل میں آنے  والی کہاں ہے  ؟ وہ کہہ رہے  تھے  یا تو تم سب گھر والے  مسلمان ہو جاؤ یا پھر اپنے  لڑکے  کو چھوڑ دو! اس کو پھر ہندو بنانے  کی کوشش کرنا انیائے  ( نا انصافی ) ہے۔

            میں نے  پتا جی سے  کہا: آپ نے  کیا سوچا؟ انھوں نے  جواب دیا کہ سچی بات تو یہی ہے  کہ اسلام ہی سچ ہے، مگر اپنے  سماج کو چھوڑ کر ہم کیسے  مسلمان ہو سکتے  ہیں لوگ کیا کہیں گے  ؟ میں بہت دیر تک ان کو سمجھاتا رہا مگر ان کو برادری اور سماج کے  ڈر کے  سامنے  مرنے  کے  بعد کی آگ کا ڈر کچھ نہ لگا، میرا دل بہت دکھا اور گھر آ کر بہت رویا مجھے  حضرت مولانا کلیم صاحب کی وہ تقریر جو انھوں نے  ایک بار مدرسے  میں کی تھی یاد آ گئی، کہ آپ اسلام کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو لوگ غلط فہمی یا اسلام کو غلط دھرم سمجھنے  کی وجہ سے  اسلام کے  دشمن تھے  ان پر جب دعوت کا حق ادا کیا گیا تو وہ سب لوگ مسلمان ہو گئے، چاہے  وہ حضرت عمرؓ ہوں چاہے  وہ خالد بن ولید ہوں، عکرمہ بن ابی جہل ہوں یا حضرت وحشی، حضرت ہندہ جیسے  ظالم کہلانے  والے  لوگ ہوں مگر وہ لوگ جو اسلام کو مذہب حق سمجھ کر حسد کی وجہ سے  یا برادری اور سماج کے  خوف کی وجہ سے  اسلام سے  دور ہوئے  وہ ہدایت سے  محروم رہے، خواہ وہ حضور ﷺ سے  حد درجہ محبت کرنے  والے  چچا ابو طالب ہی کیوں نہ ہوں ؟ مجھے  یہ خیال آتا ہے  کہ میرے  پتا جی اسلام کو حق بھی کہہ رہے  تھے  اور برادری کے  خوف سے  اسلام قبول نہیں کرتے، خدا نہ کرے  وہ اسلام سے  محروم ہی نہ رہ جائیں، بھیا احمد تم ضرور ضرور ان کے  لئے  دعا کرنا تم لکھنو جا رہے  ہو وہاں بھی دعا کرنا اور حضرت سے  بھی دعا کو کہنا اور رمضان کی دعا میں بھی میرے  گھر والوں کو یاد رکھنا (ہاتھ پکڑ کر روتے  ہوئے  )بھیا احمد وہ اگر اسی طرح کفر پر مر گئے  تو ہمیشہ کی آگ میں جلیں گے، میرے  ماں باپ مجھے  بہت پیار کرتے  ہیں، میرے  اللہ ان کو ہدایت سے  نواز دے۔

  سوال  : نہیں نہیں !بلال بھیا آپ اس قدر افسردہ نہ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کریں گے، وہ انشاء اللہ ضرور ان کو ہدایت سے  نوازیں گے، آپ ان سے  رابطہ رکھئے۔

 جواب  : اللہ تعالیٰ تمہاری زبان مبارک کرے۔

  سوال  : ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

 جواب  :   بس مجھے  دعا کی درخواست کرنی ہے  اللہ تعالیٰ مجھے  علم عطا فرمائے  اور قرآنی مسلمان بنا دے، میرے  گھر والوں کو ہدایت عطا فرمائے  دوسری بات یہ عرض کرنی ہے  کہ ساری دنیا کے  انسان ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، ان کے  ایمان کی فکر کریں اور جو لوگ ہدایت یاب ہو جاتے  ہیں وہ میرے  اباجی کی طرح ان کی بھائی بندی کا حق ادا کریں۔

  سوال  : بلال بھائی بہت بہت شکریہ، آپ بڑے  خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے  آپ کو بلالِ وقت بنایا، آپ نے  تو خیرالقرون کی یاد تازہ کر دی

 جواب  : آپ مجھے  شرمندہ کرتے  ہیں۔

چہ نسبت خاک را  با عالم پاک

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان نومبر، دسمبر۲۰۰۳ء

٭٭٭

چودھری آر  کے  عادل صاحب{ رام کرشن لاکڑا} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ       : السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

آر کے  عادل  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : چودھری صاحب بڑی خوشی ہوئی آپ آ گئے، ابی آپ کا ذکر کر رہے  تھے  کہ میں دہلی جا کر آپ سے  ملاقات کروں اور پھلت سے  نکلنے  والے  میگزین ارمغان کے  لئے  ایک انٹرویو آپ سے  حاصل کروں، اللہ کا شکر ہے  کہ آپ خود آ گئے۔

 جواب  : اصل میں مجھے  مولانا صاحب سے  کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا کئی روز سے  فون کر رہا تھا، آج معلوم ہوا وہ پھلت میں ہیں تو سب کام چھوڑ کر آ گیا، مالک کا شکر ہے  کہ ملاقات بھی ہو گئی اور تسلی بھی۔

  سوال  : آپ اپنا پریچے  (تعارف ) کرائیں ؟

 جواب  : میرا پرا نام رام کرشن لاکڑا ہے، میں دہلی نجف گڑھ کے  علاقے  کی ہندو جاٹ فیملی سے  تعلق رکھتا ہوں، میرے  بابا جی ہمارے  گاؤں کے  پردھان اور زمینداروں میں سے  ہیں، ہمارا گاؤں ایک زمانہ پہلے  روہتک ضلع ہریانہ میں تھا اب دہلی کا ایک محلہ ہے، میرے  پتاجی کا انتقال میرے  بچپن میں ہو گیا تھا، میں آج کل دہلی میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ہوں، یوں تو میں اس سنسار میں ۲۷/ستمبر  ۱۹۵۹ء کو آ گیا تھا، مگر میرا دوسرا جنم ٹھیک ۴۵ سال بعد اس سال ۲۷ /ستمبر کو آ ج سے  ۱۵ دن پہلے  ہوا ہے۔

سوال    : کیا مطلب؟

 جواب  : میں اپنے  پڑوس کی مسجد کے  مولانا صاحب سے  بھی کہہ رہا تھا کہ عجیب بات ہے  کہ پہلے  جنم کے  ٹھیک ۴۵ سال بعد میں نیا جم لیا اور دوبارہ جنم کے  عقیدے  سے  توبہ کی، میں نے  ۲۷/ستمبر پیر کے  دن ساڑھے  سات بجے  دن چھپنے  کے  بعد مولانا صاحب کے  ہاتھ پر پھلت میں ان کے  گھر کے  اوپر والے  کمرہ میں کلمہ پڑھ کر اپنی نئی اسلامی زندگی شروع کی، اس طرح میری سچی عمر آج ۱۵ دن ہوئی ہے۔

  سوال  : ماشاء اللہ بہت خوب، اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں بتایئے، آپ کو اسلام قبول کرنے  کا خیال کس طرح آیا ؟

  جواب  : آپ کو اس کے  لئے  ذرا لمبی بات سننی پڑے  گی، میں نے  ۱۹۷۶ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور آگے  پڑھنے  سے  منع کر دیا، دو سال تک بھٹی کرتا رہا میرے  تاؤ اور ایک موسا(پھوپھا)فوج میں بڑے  کرنل ہیں، وہ گھر آئے  انھوں نے  مجھے  دھمکایا کہ اگر تو پڑھنے  نہیں جاتا تو تجھے  فوج میں بھرتی کر دیں گے  اور تجھے  لام پر جانا پڑے  گا،  ۱۹۷۱ء کی جنگ قریب تھی میں نے  داخلہ لے  لیا اور انٹر کر لیا مگر پھر پڑھنے  کا دل نہ چاہا، میری ماں نے  با با سے  کہہ کر میری شادی کرا دی اور ماں کی خوشی کے  لئے  میں نے  پرائیویٹ بی اے  بھی کر لیا، شادی کے  دوسال بعد میرے  پھوپھا نے  ایک ضروری کام کے  بہانے  دھوکہ سے  بریلی بلایا اور مجھے  فوجی بیرک میں لے  جا کر میرے  بال کٹوائے، وہ فوج میں کرنل تھے، سارے  کاغذات اور میڈیکل کرا کے  مجھے  بھرتی کر لیا اور مجھ سے  کہا کہ تیری بھرتی ہو گئی ہے  اب اگر تو بھا گے  گا تو فوجی تجھے  پکڑ کر لائیں گے  اور بھگوڑا قرار دے کر گولی مار دیں گے  یا فوجی جیل میں ڈال دیں گے، مجھے  ڈر سے  ٹریننگ میں جانا پڑا، میرا دل نہیں لگتا تھا اور گھر یاد آتا تھا اور گھر سے  زیادہ گھر والی، بیچاری بڑی محبت کرنے  والی شریف عورت ہے، میں نے  ٹریننگ میں ساتھیوں سے  مشورہ کیا کہ اس فوج سے  جان چھوٹنے  کی کیا صورت ہو سکتی ہے  ؟ میرے  ایک ساتھی نے  بتایا کہ اگر افسراَن فٹ (Unfit) کر دے  تو کام آسان ہے، میں نے  سوچا یہ بہت آسان ہے، میں نے  پاگل پن کا بہانہ کیا، بہکی بہکی باتیں کرتا، کبھی ہنستا تو ہنستا رہتا کبھی چیختا تو چیختا رہتا، مجھ اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور میڈیکل چیک اپ ہوا، ڈاکٹر نے  کہہ دیا کہ یہ بہانا ہے، مجھے  افسر نے  بہت گا لیاں دیں اور سخت سزا کی دھمکی دی، ناچار پھر ٹریننگ شروع ہو گئی، ایک روز پریڈ میں صبح کے  وقت جیسے  ہی افسر آئے  میں نے  رائفل کھڑی کی اور تمباکو کی پُڑیا ہتھیلی پر ڈال کر اس میں چونا ملانا شروع کیا جیسے  ہی افسر سامنے  آیا، میں دوسرے  ہاتھ سے  سلوٹ ماری اور جے  ہند بولا: میرے  ہاتھ میں تمباکو دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے  میں نے  ہاتھ آگے  کر کے  کہا : سر!یہ تمباکو ہے، لو آپ بھی کھالو وہ دھمکا کر بولے  نالائق تیرا بیلٹ نمبر کیا ہے، میں نمبر بتا دیا دوپہر کے  بعد انھوں نے  مجھے  دفتر میں بلایا اور مجھ سے  کہا جب جنگ میں دشمن سامنے  ہو تو تو تمباکو کھائے  گایا گولی چلائے  گا، بہت غصہ ہوئے  میری فائل نکالی اور اس پر لال قلم سے  ان فٹ (Unfit  )لکھ دیا، میں نے  جے  ہند کہہ کر خوشی سے  سلام کیا اور رات کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر دلی آ گیا، مرے  پھوپھا کو معلوم ہوا تو انھوں نے  گھر فون کر دیا کہ بھگوڑا، غدّار فوج سے  جان بچا کر بھاگ آیا ہے  میری بیوی مجھ سے  بات نہیں کرتی تھی کہ تو تو غدّار بھگوڑا ہے  میں نے  سمجھایا کہ بھاگیہ وان اگر وہ جنگ میں بھیج دیتے  تو تو ودھوا ہو جاتی، اب موج سے  ساتھ رہیں گے، بڑی مشکل سے  اس کی سمجھ میں آیا اور وہ راضی ہو گئی، میں نے  ماں کو بھی بہت سمجھایا کچھ روز یا ردوستوں میں آوارہ پھر کر اپنے  با با کے  ڈر سے  پراپر ٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کر دیا، با با نے  مجھے  لگانے  کے  لئے  ایک کھیت کا پلاٹ کاٹنے  کے  لئے  دیا، رفتہ رفتہ مجھے  چسکا لگ گیا، دوستی کچھ غلط لوگوں سے  ہو گئی، جھگڑے  کی زمین خریدی مار پیٹ کر دھمکا کر قبضہ کیا اور بیچ دی، نہ جانے  کتنے  لوگوں کو ستایا کتنوں کا مال مارا، مار دھاڑ اور پراپر ٹی کے  ۱۹ مقدمے  میرے  ذمہ لگ گئے  میں جیل چلا گیا کسی طرح ضمانت ہوئی میں پہلے  جیل سے  بہت ڈرتا تھا، ڈھائی مہینہ کی جیل سے  اور بھی دہشت بیٹھ گئی۔

            دو باتیں مجھ میں پہلے  سے  ہی مسلمانوں جیسی تھیں، جب سے  ہوش سنبھالا کسی مورتی کسی دیوی کی پوجا نہیں کی اور دوسری یہ کہ نجف گڑھ سے  آگے  ایک جگہ سور کے  گوشت کی دوکانیں تھیں، مگر جوانی کے  دنوں میں مرغا وغیرہ کھانے  کے  باوجود اول تو اس راستے  سے  گزرنا مشکل تھا، اگر جلدی میں گزر جاتا تو سانس روک کر نیچی نگاہ کر کے  گزرتا، سور کے  گوشت کو دیکھ کر مجھ الٹی سے  آتی تھی، جیل سے  ضمانت پرواپس آیا تو مری ماں نے  جو بہت دھارمک ہیں ہر شکروار کو برت رکھتی ہیں مجھ سے  کہا تو ناستک ہے، دیوتاؤں کو مانتا نہیں بلکہ ان کا اَنادر( بے  ادبی )کرتا ہے  اس لئے  تیرے  ذمہ اتنی آفت ہے، مجھ ایک ہنومان کی مورتی اور ہنومان چالیسا دیا کہ اس کا جاپ کر، میں اندر کمرہ میں ماں کی ضد اور کچھ ڈر کی وجہ سے  کئی روز ہنومان چالیسا کا جاپ کرتا رہا، مقدمہ کی تاریخ آئی، ایک عورت کی گواہی تھی، میں نے  صبح تڑکے  اٹھ کر ہنومان چالیسا کا جاپ کیا اور ہنومان کی مورتی کے  سامنے  بہت پرارتھنا کی حالانکہ دل میں وشواس یہی تھا کہ بے  جان کی مورتی کے  بس میں کیا رکھا ہے  ڈھل مل یقین کے  ساتھ بری ہونے  کی لالچ میں دیر تک میں نے  جاپ کیا اور پرارتھنا کی کہ گواہی ٹوٹ جائے، عدالت میں گیا تو اس عورت نے  ایسی ڈٹ کر گواہی دی کہ جج سمجھ گیا کہ بات سچ ہے، مجھے  غصہ آ گیا یہ خیال بھی نہ رہا کہ عدالت ہے، میں غصہ میں اس عورت سے  کہا کہ تجھے  باہر نہیں نکلنا ہے  کیا؟ جج نے  سن لیا اور بہت برہم ہوا اور ضمانت کینسل کر کے  جیل بھیجنے  کا حکم کر دیا، دو مہینہ پھر جیل میں رہا، بابا جی نے  پھر ہائی کورٹ سے  ضمانت کرائی، جیل سے  گھر آیا تو پہلے  کمرہ بند کر کے  ہنومان کی مورتی پر جوتا گیلا کر کے  بجایا، ہنومان چالیسا کو جلایا اور خوب گا لیاں دیں، ماں نے  جوتے  کی آواز سنی تو باہر سے  بہت چیخیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو مار رہا ہوں مگر جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ باہر ہے  تو اس کو جان میں جان آئی، میں بیان نہیں کر سکتا کہ روز روز کے  مقدموں کی تاریخ سے  میں کتنا پریشان تھا، ہمارے  علاقہ میں ایک ملا جی پھولوں کی ٹھیلی لگاتے  تھے، میں نے  ان سے  بات کی کہ کوئی تعویذ والا بتاؤ میں بہت پریشان ہوں، انھوں نے  کہا کہ کسی تعویذ والے  کو میں نہ جانتا ہوں نہ مجھے  اعتقاد ہے، ہاں تمہیں ایک چیز بتاتا ہوں تم روزانہ سو بار صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ لیا کرو، میں نے  کہا بہت اچھا، میں پریشان تھا ہی اس لئے  میں نے  صبح و شام پانچ پانچ سو بار پڑھا اصل میں مالک کو مجھ پر دیا آ رہی تھی، پہلی ہی تاریخ میں میں بری ہو گیا، ایک سال میں گیارہ مقدمے  میرے  حق میں فیصل ہوئے  میں ملا جی کے  پاس آنے  جانے  لگا اور ان سے  کہا کہ اور کچھ بتاؤ تاکہ سارے  مقدموں سے  میری جان بچے، انھوں نے  خود کچھ بتانے  کے  بجائے  مجھے  ہندی زبان میں ایک کتاب ’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘دی میں نے  اس کو غور سے  پڑھا دوزخ کی سزاؤں کو پڑھ کر میرے  دل میں ڈر بیٹھ گیا رات کو ڈراؤ نے  خواب بھی دکھائی دیتے  مجھے  بار بار خیال آتا کہ میں نے  کتنے  لوگوں کی زمینیں دبائیں، کتنے  لوگوں کو مارا، میرا اب کیا ہو گا؟ مجھے  اس کتاب نے  بے  چین کر دیا، مقدموں سے  زیادہ رات دن موت کا اور دوزخ کا خوف سوار رہتا، میں سوچتا اس سنسار کی عدالت کے  انیس مقدموں سے  زندگی خراب ہے  تو اس مالک کے  سامنے  ان گنت مقدموں سے  کیسے  چھٹکارا ملے  گا؟ میں نے  ملا جی سے  مشورہ کیا انھوں نے  مسلمان ہو جانے  کو کہا: میں نے  اسلام کے  بارے  میں کسی کتاب کے  لئے  کہا تو انھوں نے  ’’اسلام کیا ہے ؟‘‘لا کر دی میری سمجھ میں اسلام آ گیا، اب میری سمجھ میں آیا کہ میرا فوج میں دل کیوں نہیں لگا، اگر میں فوج میں رہتا تو یہ ظلم، مار پیٹ نہ کرتا اور مرنے  کا خیال بھی نہ آتا میرے  مالک نے  میری ہدایت کے  لئے  مجھے  فوج سے  بھگایا اور الٹ پلٹ کام کرائے۔

            میں امام بخاری کے  پاس جامع مسجد گیا، پہلے  تو ان تک پہنچنا ہی مشکل ہے  میں کسی طرح ترکیب سے  پہنچ گیا امام صاحب نے  کہا : اپنے  یہاں کے  ذمہ دار لوگوں کو لے  کر آنا جو تمہیں جانتے  ہوں میں دو چار روز کی کوشش سے  دو مسلمانوں کو لے  کر گیا تو وہ کہنے  لگے  شناختی کارڈ لاؤ، میں نے  کہا آپ نے  اسی وقت کیوں نہیں بتایا، بار بار کیوں پریشان کرتے  ہیں، وہ ناراض ہو گئے  اور بولے  بات کرنے  کی تمیز نہیں، میں کہا تمہیں تمیز نہیں مجھے  تو ہے  اور میں چلا آیا۔

  سوال  : پھر اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اس کے  بعد ایک صاحب نے  فتحپوری مسجد جانے  کو کہا میں وہاں پہنچا تو انھوں نے  کہا کہ مسلمان ہونے  کے  بعد تمہارا نکاح ختم ہو جائے  گا، تمہیں اپنی بیوی کو چھوڑنا پڑے  گا میں نے  کہا وہ ۲۵ سال سے  میرے  ساتھ رہ رہی ہے  ایسی بھلی عورت ہے  کہ آج تک مجھے  اس سے  شکایت نہیں ہوئی میں اس کو کیسے  چھوڑ سکتا ہوں ؟ انھوں نے  کہا پھر تمہیں کلمہ نہیں پڑھوایا جاسکتا اور نہ تم مسلمان ہو سکتے  ہو، وہاں سے  مایوس ہو کر میں نے  تلاش جاری رکھی، ایک صاحب نے  مجھے  ایک مزار پر بھیج دیا، وہاں ایک میاں جی لمبے  لمبے  بال ڈھیر ساری مالائیں گلے  میں ڈالے، ہرے  رنگ کا لمبا کرتا اور بہت اونچی ٹوپی پہنے  ہوئے  تھے، میں ایک جاننے  والے  کو وہاں لے  کر گیا تھا، انھوں نے  کہا میں تمہیں کلمہ پڑھواتا ہوں، میرے  قریب بیٹھو گھٹنوں سے  گھٹنے  ملا کر ادب سے  بٹھایا اپنے  داہنے  ہاتھ میں میرا بایاں انگوٹھا اور بائیں ہاتھ میں دایاں انگوٹھا لے  لیا اور بولے  مرید ہونے  کی نیت کرو اور میرے  پیروں پر ادب سے  نگاہ رکھو، مجھے  بچپن کا کھیل نظر آ گیا ہم ایک دوسرے  کواسی طرح گھمایا کرتے  تھے، مجھے  ہنسی آ گئی وہ غرائے  کہ ہنس رہا ہے  میں نے  کہا مجھے  بچپن کا ایک کھیل یاد آ گیا ہے، اگر میں بچوں کی طرح آپ کو سر کے  اوپر گھما کر پھینک دوں تو؟ انھوں نے  پھر دھمکایا، نہ جانے  کیا کیا کہلوایا، قادریہ، غوثیہ، وغیرہ وغیرہ پھر بولے  میرے  پاؤں کے  بیچ سر رکھو، میں نے  منع کیا تو دھمکا کر بولے  مرید ہو کر بات نہیں مانتا، میں نے  سر ٹیکا اور جلدی سے  اٹھا لیا، وہ دوبارہ بولے  ادب سے  قدموں میں سر رکھو اور یہ سوچو کہ مجھ میں خدا کا نور ہے  جس طرح خدا کو سجدہ کرتے  ہیں اس طرح کرو، مجھے  غصہ آ گیا میں نے  اسلام کے  بارے  میں بہت کچھ پڑھ لیا تھا میں نے  اس نالائق سے  کہا کہ اگر میں تجھے  اٹھا کر دے  ماروں تو خدا میں ہوں گا، اس لئے  کہ جو طاقتور ہوتا وہ خدا ہوتا ہے، میں نے  دو چار گا لیاں دیں اور چلا آیا۔

            مجھے  مسلمان ہونے  کی بے  چینی تھی اور موت کا کھٹکا تھا، میں نے  ایک ملا جی سے  ذکر کیا وہ مجھے  ایک قاضی جی کے  یہاں لے  گئے  قاضی جی نے  کہا مسلمان تو ہم تمہیں کر لیں گے  مگر دو ہزار روپئے  فیس ہو گی، میں نے  کہا کہ میں مسلمانوں کا اسلام لینا نہیں چاہتا میں تو حضرت محمدﷺ صاحب والا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں اگر حضرت محمدﷺ صاحب نے  کسی کو مسلمان کرنے  کے  لئے  پیسے  لئے  ہوں تو آپ بھی لے  لیں، جب انھوں نے  کبھی ایک پیسہ نہیں لیا تو آپ کیسے  پیسے  مانگتے  ہیں ؟ دو ہزار کی بات کوئی بڑی نہیں تھی، مگر مجھے  وشواس نہیں ہوا میں وہاں سے  بھی واپس آ گیا۔

            اگلے  روز ایک مسجد کے  سامنے  سے  جا رہا تھا تو ذرا صاف ستھرے  کپڑوں میں ایک مولانا صاحب مسجد کی طرف جاتے  دکھائی دیئے  بعد میں ان کا تعارف ہو ان کا نام مولانا عبدالسمیع قاسمی تھا، میں نے  ان سے  کہا مجھے  اسلام کے  بارے  میں کچھ بات معلوم کرنی ہے  پہلے  وہ ٹھٹکے   بعد میں وہ تیار ہو گئے  میں نے  ان سے  کہا کہ اسلام کے  بارے  میں نے  ۵۰ سے  زیادہ کتابیں پڑھی ہیں، جب آپ ﷺ آخری حج کو گئے  تو ان کے  ساتھ سوالاکھ ساتھی تھے، انھوں نے  سب کو اکٹھا کر کے  ان سے  سوال کیا کہ میں نے  اسلام تم سب تک پہنچا دیا ؟سب نے  کہا کہ بالکل پہنچا چکے، حضرت محمدﷺ نے  کہا کہ اب جو یہاں سے  غائب ہیں یہ اسلام تمہیں ان تک پہنچانا ہے، اس سے  یہ بات معلوم ہوئی کہ جن مسلمانوں تک اسلام پہنچ چکا ہے  وہ دوسرے  مسلمانوں تک پہنچائیں ؟ مولانا قاسمی نے  کہا کہ ہاں ضرور پہنچانا چاہئیے  میں نے  کہا کہ مولانا صاحب آپ مجھے  ایسے  دوچار لوگوں سے  ملوائیں جو دین کو دوسروں تک پہنچانے  کا کام کر رہے  ہیں، مولانا بولے  ایسے  لوگ بھی ہیں، میں نے  کہا کہ یہ کام تو سارے  مسلمانوں کو کرنا چاہئے  مگر مجھے  ایک مسلمان بھی نہیں ملا میں خود اسلام لانا چاہتا ہوں، چار بڑے  مولویوں نے  مجھے  دھکے  دے  دئے، مولانا قاسمی نے  کہا کہ آپ کو ایک آدمی کا پتہ بتا تا ہوں، آپ پھلت چلے  جاؤ، میں نے  ان کا پتہ اور فون نمبر مانگا، انھوں نے  کہا فون نمبر میں ابھی معلوم کرتا ہوں، نانگلوئی کے  کسی مولانا صاحب کو انھوں نے  فون کیا اور مولانا کلیم صاحب کا موبائیل نمبر مل گیا، انھوں نے  فون ملایا مولانا دلی ّ سے  پھلت جا رہے  تھے، مولانا قاسمی نے  کہا کہ ہمارے  ایک چودھری صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے  ہیں، مولانا نے  کہا ان کو آج شام تک پھلت بھیج دیں، میں نے  کہا فون پر مجھ سے  بات کروا دو، انھوں نے  فون مجھے  دے  دیا، میں بات کی مولانا نے  کہا : آپ جب بھی آئیں ہمارے  اتتھی بلکہ آدرنیہ اتتھی (معزز مہمان) ہوں گے، میں سیوا(خدمت)کے  لئے  ہر سمے  حاضر ہوں میں نے  کہا بہت بہت دھن واد(شکریہ)مجھے  بڑا عجیب لگا پہلی بار ایک آدمی سو ڈیڑھ سو کلو میڑ دور میرا ایسا سواگت کر رہا ہے۔

            مجھے  تو ایک ایک منٹ مشکل ہو رہا تھا، میں اسی روز ۲۷ستمبر کو دن چھپنے  تک پھلت پہنچا مولانا صاحب نماز پڑھنے  گئے  تھے  میں بیٹھک میں کرسی پر بیٹھ گیا، مولانا صاحب آئے  تو میں نے  ملاقات کی مولانا بہت خوشی سے  ملے، ان کے  یہاں باہر کے  کچھ مہمان آئے  ہوئے  تھے  جو اندر مکان کے  اوپر والے  کمرہ میں ٹھہرے  ہوئے  تھے، تھوڑی دیر میں مولانا نے  مجھے  بھی وہیں بلوا لیا، مجھ سے  پیارسے  سوال کیا میرے  لئے  سیوا بتائیے  میں نے  کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، مولانا صاحب نے  کہا بہت مبارک ہو، جو سانس اندر چلا گیا اس کے  باہر آنے  کا اطمینان نہیں اور جو باہر نکل گیا اس کے  اندر جانے  کا بھروسہ نہیں، اصل میں تو ایمان دل کے  وشواس (یقین ) کا نام ہے، آپ نے  ارادہ کر لیا، دل سے  طے  کر لیا کہ مجھے  مسلمان بننا ہے  تو یہ کافی ہے  مگر اس سنسار میں ہم لوگ دل کے  حال کو جان نہیں سکتے  اس لئے  زبان سے  بھی کلمہ پڑھنا پڑتا ہے  آپ جلدی سے  دو لائن جس کو کلمہ کہتے  ہیں پڑھ لیجئے، میں نے  کہا مجھے  ایک بات پہلے  بتایئے  کہ مسلمان ہو کر کیا مجھے  بیوی کو چھوڑنا پڑے  گا، مولانا صاحب !آپ کیسے  مسلمان ہوں گے  جو آپ اپنے  جیون ساتھی کو چھوڑیں گے، آپ چھوڑنے  کی بات کرتے  ہیں، اگر آپ سچے  دل سے  مسلمان ہیں تو آپ کو اپنی بیوی کو سورگ (جنت)تک ساتھ لے  جانا پڑے  گا بلکہ اس سارے  سنسار کو نرک سے  بچا کر سورگ لے  جانے  کی کوشش کرنی ہو گی، مجھے  خوشی ہوئی چلو یہ اچھے  آدمی ملے  ہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا، ہندی میں ارتھ بھی کہلوایا اور بتایا کہ تین باتوں کا آپ کو خیال کرنا ہے، ایک یہ کہ ایمان اس مالک کے  لئے  قبول کیا ہے، جو دلوں کا بھید جانتا ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں مسلمان ہوں لوگ مجھے  نہ جانے  کیا کیا کہتے  ہیں، مگر میرا مالک جانتا ہے  کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اسلام وہ ہے  جو دلوں کے  بھید جاننے  والے  کو قبول ہو جائے۔

            دوسری بات یہ ہے  کہ اس دنیا میں بھی ایمان کی ضرورت ہے  اور وہ آدمی جو ایک مالک کو چھوڑ کر دوسرے  کے  آگے  جھکے  کتیّ سے  بھی زیادہ گیا گزرا، کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے  مالک کے  ایک در پر پڑا رہتا ہے، وہ آدمی کتیّ سے  بھی بدتر ہے  جو در در جھکے، مگر اصل ایمان کی ضرورت موت کے  بعد پڑے  گی جہاں ہمیشہ رہنا ہے  تو موت تک اس ایمان کو بچا کر لے  جانا ہے۔

            تیسری سب سے  ضروری بات یہ ہے  کہ یہ ایمان ہماری آپ کی ملکیت نہیں ہے  بلکہ یہ ہمارے  پاس ہر اس انسان کی امانت ہے  جس تک ہم پہنچاسکتے  ہیں اب اگر مالک نے  ہمیں راستہ دکھا دیا ہے  تو ہمیں سارے  خاندان، دوستوں اور جاننے  والوں تک اس سچائی کو پہنچانے  کی ذمہ داری ادا کرنی ہے  میں نے  کہا مولانا صاحب آپ سچ کہتے  ہیں میں اصل میں خوف اور لالچ سے  مسلمان ہو رہا ہوں، مرنے  کے  بعد کیا ہو گا، دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی کتابوں میں میں نے  جو کچھ پڑھا فلم کی طرح میرے  دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے  مجھے  خیال ہوتا ہے  کہ تو نے  اتنے  ظلم کئے  ہیں موت کے  بعد کیا ہو گا؟ اب میں آپ کے  سامنے  عہد کرتا ہوں کہ اسلام میں مالک نے  جن کاموں سے  روکا ہے  پوری جان لگا کر ان کاموں سے  بچنے  کی کوشش کروں گا، شاید میرے  مالک کے  سامنے  جانے  کا میرا منہ ہو جائے  میں نے  مولانا صاحب کو بتایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے  اسلام کو پڑھ کر مسلمان ہونے  کا فیصلہ کیا، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں، آج کے  مسلمانوں کو دیکھ کر کون مسلمان ہو سکتا ہے  ؟ میرے  چاروں طرف بہت سے  مسلمان رہتے  ہیں، ہمارا ایک کرایہ دار غلام حیدر نام ہے، نماز بھی نہیں پڑھتا میں نے  ان سے  ایک بار کہا تم ہر مہینہ میرے  ماں باپ کو کرایہ دیتے  ہو اگر تم ان سے  مسلمان ہونے  کو کہو تو کیا خبر وہ مسلمان ہو جائیں اور اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ہمارا پورا خاندان مسلمان ہو جائے  گا، وہ بولے  تمہارے  با با علاقہ کے  پردھان ہیں اگر میں نے  ان سے  کہہ دیا تو ہمیں جینا مشکل کر دیں گے، میں نے  کہا تم خداسے  نہیں ڈرتے  میرے  با با سے  ڈرتے  ہو، اس لئے  یہ کعبہ کا فوٹو ہٹا کر میرے  با با کا فوٹو لگاؤ اور روزانہ اس کا نام جاپ کر کے  میرے  با با کو ڈنڈوت کرنا، میرے  با با نے  کسی دن دیکھ لیا تو وہ تمہارا کرایہ معاف کر دیں گے، تمہارے  مزے  آ جائیں گے، میں نے  ان سے  کہا کہ تم اپنے  کو سید بتاتے  ہو خدا کے  سامنے  تمہیں بھی جانا ہو گا، میں مالک کے  سامنے  ہی لٹھ ماروں گا کہ انھوں نے  سید ہو کر ایک دن بھی ہمیں ایمان لانے  کو نہیں کہا۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : میں نے  مولانا صاحب سے  اپنی روداد سنائی اور چار بڑے  مولاناؤں کے  پاس سے  واپس آنے  کی بات سنائی، مولانا نے  مجھے  بہت پیار سے  سمجھایا کہ ان کا ایسا کرنا ٹھیک تھا اور مجھے  تسلی دی۔

  سوال  : آپ کے  کتنے  بچے  ہیں ؟

 جواب  : دو لڑکے  اور دو لڑکیاں ہیں، بڑی لڑکی کی شادی میں نے  کر دی ہے، ہمارا سماج اصل میں پٹھانوں سے  بہت ملتا جلتا ہے، بہت شرم و حیا ہے، مردوں کا رہنا باہر اور عورتوں کا اندر، میں اپنی ماں کے  سامنے  اپنی بیوی سے  آج تک بات نہیں کر سکتا ماں بیٹھی ہو گی تو میں اس کو ہی کام بتاؤں گا، وہ کبھی کہتی بھی ہے  کہ یہ تیری پانچ ہاتھ کی بہو ہے  تو اس سے  کیوں نہیں کہتا، میں کہتا ہوں ماں جب تو مر جائے  گی تب اس سے  کہوں گا، ہمارے  یہاں ابھی تک لڑکی کو پڑھانے  کا رواج نہیں ہے، پورے  خاندان میں میں نے  بغاوت کر کے  بڑی لڑکی کو پڑھایا، ہائی اسکول پاس کیا تو اس نے  کہا : پتا جی مجھے  دو ہزار روپئے  چاہئے، میں نے  کہا بیٹی !دو ہزار کا کیا کرو گی ؟ اس نے  کہا ایک ہزار کا موبائل مل رہا ہے، میں نے  کہا موبائل کا کیا کرو گی ؟اس نے  کہا بات کیا کروں گی میں نے  پوچھا اور ایک ہزار کا کیا کرو گی اس نے  کہا جنس لاؤں گی، میں نے  اس سے  کہا کہ دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار دوں گا، مگر ۱۵ دن کے  بعد، میں نے  لڑکے  والوں کو بلوایا جہاں رشتہ طے  کر رکھا تھا اور کہا آ ٹھ دن میں پھیرے  پھروا لو تو لڑکی تمہاری، ورنہ میں کسی دوسری جگہ شادی کر دوں گا، وہ تیار ہو گئے، با با سے  کہہ کر پنڈت بلوایا اور پھیرے  پھروا دئے، میں نے  لڑکی کو ڈھائی ہزار روپئے  دیئے  اور کہا آدھے  تو یہ لو اور آدھے  اس دن دوں گا جس روز گود میں بٹھا کر رخصت کرنے  کے  لئے  تجھے  گاڑی میں ٹیکوں (بٹھاؤں ) گا، آج ہائی اسکول کر کے  موبائل اور جنس مانگ رہی ہے  اگر انٹر کر لیا تو کسی بھنگی کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے  آئے  گی کہ پتا جی یہ تمہارا داماد ہے، میں نے  عہد کر لیا کہ لڑکی کو پانچویں سے  آگے  ہر گز نہیں پڑھانا ہے، یہ بات میں نے  مولانا صاحب سے  بھی کہی تھی، انھوں نے  کہا یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے، اب تم مسلمان ہو گئے  ہو، آپ کو اسلام کی ہر بات ماننا ہو گی، اسلام نے  علم حاصل کرنے  کو فرض کہا ہے  اور لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانا ضروری ہے  مگر شرط یہ ہے  کہ اسلامی ماحول اور تربیت میں، میں نے  وعدہ کر لیا اب میرا پکا ارادہ ہے  کہ اپنے  ان تینوں بچوں کو اسلامی تعلیم کی جو سب سے  بڑی ڈگری ہو گی اس تک پڑھاؤں گا، آگے  مالک کے  ہاتھ میں ہے، اب میں نے  بالکل اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے  کا فیصلہ کیا ہے  میں شراب کا بہت عادی تھا، حالانکہ جب میں ہندو تھا ہمت کر کے  دو مہینے  تین مہینے  تک کئی بار شراب چھوڑی اور دوستوں کو اپنے  ہاتھوں سے  پلائی مگر خود نہیں پی، مگر جب سے  میں نے  کلمہ پڑھا ہے  اب زندگی بھر نہ پینی ہے  اور نہ پلانی ہے  اور نہ پینے  والوں کے  پاس بیٹھنا ہے، ۱۵ دن ہو گئے  مجھے  خیال بھی نہیں آیا اور مالک کا کرم ہے  کہ کسی دوست نے  بھی میرے  سامنے  نہیں پی، حالانکہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے  کہ میں نے  چھوڑ دی ہے، یا اسلام قبول کر لیا ہے۔

  سوال  : آپ نے  یہ باتیں اپنی بیوی سے  بتا دیں ؟

 جواب  : میری بیوی میری ماں کی طرح بہت دھارمک اور بہت کٹر ہے  جب مولانا صاحب مجھ سے  کہہ رہے  تھے  کہ اس کو اپنے  ساتھ جنت میں لے  جانا ہے  تو میں نے  بتایا کہ وہ تو بہت کٹر ہندو ہے، جس روز گوشت کھا کر آتا ہوں گھر میں گھسنا مشکل کر دیتی ہے، نہ جانے  اس کو کیسے  خوشبو آ جاتی ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ کٹر ہندو ہی سچی مسلمان ہوتی ہے، دھرم پر انسان اپنے  مالک کو خوش کرنے  کے  لئے  ہی پابندی کرتا ہے، اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ یہ راستہ غلط ہے  اور سچا راستہ اسلام ہے  تو اسلام پر بھی وہ بہت سختی سے  عمل کرے  گی، میں نے  پھلت میں مولانا صاحب کے  بھانجے  کے  موبائل سے  اس کو بتا دیا تھا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، تو وہ بہت ناراض ہوئی، میں نے  یہ کہہ کر بات بند کر دی کہ میں دوسرے  کے  موبائل سے  فون کر رہا ہوں۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اگلے  روز صبح کو میرے  مقدمے  کی تاریخ تھی، مجھے  صبح وکیل سے  بھی ملنا تھا، اس لئے  رات کو مولانا صاحب نے  اپنی گاڑی سے  کھتولی پہنچا دیا، رات کو بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر گھر پہنچا مہارانی جی غصے  میں بھری تھیں، دھکے  دینے  لگی بار بار گالیاں دیں ۲۵ سال کا سارا ادب بھول گئی، کہنے  لگی کہ تو دھرم بھرشٹ کر کے  آیا ہے، تو میر ا کیا لگتا ہے، بھاگ جا، نہ جانے  کیا کیا کہا صبح تک لڑائی ہوتی رہی، مولانا نے  بیوی کو دعوت دینے  کے  لئے  آخری ہتھیا رکے  طور پر ایک پوائنٹ بتا دیا تھا، صبح ہونے  کو ہوئی میں اس ڈر سے  کہ دن نکل گیا تو یہ سب کو بتا دے  گی اسلئے  میں نے  آخری تیر کے  طور پر اس کا استعمال کیا، میں نے  اس سے  کہا کہ تو اصلی ہندو ہے  یا نقلی، اس نے  کہا اصلی ہوں بالکل اصلی، میں نے  کہا کہ اگر اصلی ہندو ہے  اور میں اسلام کی چتا میں جل گیا ہوں تو تجھے  بھی میرے  ساتھ ستی ہو جانا چاہئے، اب تو مجھے  چھوڑ کر یا دھکے  دے  کر بازاری بنے  گی یا دوسرے  کے  پاس بیٹھے  گی، بھگوان نے  تجھے  میرے  ساتھ باندھا ہے، تو اگر اصلی ہے  تو میرے  ساتھ ستی ہو جانا چاہئے، تیر نشانے  پر لگ گیا وہ چپ ہو گئی دیر تک ہچکیوں سے  روتی رہی میں اس کے  قریب گیا پیار کیا اور دکھ سکھ اور جیون مرن میں ساتھ دینے  کے  وعدوں کی دہائی دے  کر مسلمان ہونے  کے  لئے  کہا وہ تیار ہو گئی، ٹو ٹا پھوٹا کلمہ پڑھوایا اور صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے  ایک ساتھ پڑھی، بیوی کے  مسلمان ہونے  کی اپنے  مسلمان ہونے  سے  زیادہ مجھے  خوشی ہوئی، مجھے  مولانا صاحب کی ہر بات سچی لگنے  لگی، انھوں نے  ہی کہا تھا کہ بیوی کو چھوڑنے  کی بات کیا مطلب ؟ اس کو جنت تک ساتھ لے  جانا ہے۔

  سوال  : اب آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟ اسلام کی تعلیم کے  لئے  آپ نے  کیا سوچا؟

 جواب  : ہمارے  علاقہ میں ایک مولانا صاحب مسجد میں امام ہیں میں روزانہ رات کو ان کے  پاس جا رہا ہوں، مجھے  جماعت میں جانا ہے  مگر مقدموں کی تاریخوں کی وجہ سے  ابھی مجبور ہوں، میں نے  اپنی بڑی لڑکی اور داماد کو بھی ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا‘‘ اور ’’ آپ کی امانت پڑھنے  کے  لئے  دی ہے۔

  سوال  : ارمغان کے  واسطے  سے  آپ مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

 جواب  : مجھے  صرف یہ کہنا ہے  کہ یہ دین جب امانت ہے  جیسا کہ مولانا صاحب نے  ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ میں لکھا ہے  تو پھر اسے  سارے  سنسار تک پہنچانا چاہئے، آج کے  دور میں اسلام پہنچانا بہت آسان ہے، میں لاکڑا جاٹ ہوں، جاٹ قوم کی سائیکالوجی اچھی طرح جانتا ہوں، جاٹ بہت لالچی ہوتا ہے  اور لالچی سے  زیادہ ڈرپوک ہوتا ہے، خصوصاً جیل اور سزا سے  جتنا جاٹ ڈرتا ہے  شاید دوسرا نہیں ڈرتا، احمد بھائی میں آپ سے  سچ کہتا ہوں کہ اگر ’’مرنے  بعد کیا ہو گا‘‘ اور ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ ہند ی انواد(ترجمہ) کر کے  جاٹوں تک پہنچایا جائے  اور قرآن مجید میں جنت و دوزخ کا جو ذکر ہے  ان کو سنایا جائے  تو جاٹ سارے  کے  سارے  ضرور مسلمان ہو جائیں گے، اس سے  زیادہ ضروری بات یہ ہے  کہ جب دین امانت ہے  اور مالک کے  سامنے  حساب دینا ہے  تو اس کا بھی حساب ہو گا کہ اس کو پہنچایا یا نہیں، اس لئے  دین کو دوسروں تک پہنچانا نہ صرف یہ کہ دوسروں کے  لئے  ضروری ہے  مرنے  کے  بعد کے  جواب سے  بچنے  کے  لئے  خود مسلمانوں کے  لئے  بھی ضروری ہے۔

  سوال  : آپ کی باتیں اتنی دلچسپ اور مزے  کی ہیں کہ جی چاہتا ہے  دیر تک کئے  جاؤں، مگر بات لمبی ہو گئی ہے  اس لئے  باقی آئندہ انشاء اللہ، بہت بہت شکریہ، السلام علیکم، فی امان اللہ۔

  جواب  : آپ کا بھی شکریہ، وعلیکم السلام۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان نومبر ۲۰۰۴ء

٭٭٭

جناب ماسٹر محمد اسلم صاحب {پرمود کمار} سے  ایک ملاقات

  سوال   :  السلام علیکم

 جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

  سوال  :  آپ کی تعریف ؟

 جواب  :  میرا نام محمد اسلام ہے، دیوبند کے  قریب ایک گاؤں کا رہنے  والا ہوں، میرا پرانا نام پرمود کمار ہے  ایک بہت مذہبی جاٹ گھرانے  کا فرد ہوں، اب سے  ساڑھے  سات سال قبل میں نے  اسلام قبول کیا، الحمد للہ میں نے  بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔

  سوال  : اپنے  خاندان کے  بارے  میں بتائیں ؟

 جواب  : میرے  تین بھائی ایک بہن ہے، والد ین حیات ہیں جب میری چھ سال کی عمر تھی میرے  والد نے  سنیاس لے  لیا تھا وہ گنگا کے  کنارے  ایک بڑا مشہور آشرم چلاتے  ہیں، ہندو مذہب کے  بڑے  گیا نی اور عالم ہیں، اس کے  علاوہ خاندان میں چچا تائے  اور پھر بھیاّ وغیرہ ہیں، ہمارا خاندان بڑا خاندان ہے۔

  سوال  : آپ نے  کہا کہ آپ کے  والد ہندو مذہب کے  بڑے  گیانی رہے  ہیں کیا اب نہیں ہیں ؟

 جواب  :  الحمد للہ اب تو انھوں نے  بھی اسلام قبول کر لیا ہے۔

  سوال  : اپنے  قبول اسلام کا حال سنائیں ؟

 جواب  : حقیقت یہ ہے  کہ اسلام دین فطرت ہے  جیسا کہ ہمارے  حضرت فرماتے  ہیں کہ جس طرح انسان کے  پیٹ کو بھوک و پیاس لگتی ہے  اور پانی اور کھانے  کے  بغیر آدمی بے  چین رہتا ہے  اسی طرح انسان کی روح اس کی آتما کو دین اسلام خصوصاً توحید خالص کی تلاش اور بے  چینی رہتی ہے، مجھے  بچپن ہی سے  خیال آتا تھا کہ جس طرح مالک نے  اس دنیا کو بنایا ہے  اس تک کس طرح پہنچا جائے  بہت سے  دھرم گروؤں سے  میں بات کرتا تھا مگر اطمینان نہ ہوتا تھا، ایک حافظ صاحب سے  میرا رابطہ ہوا میں نے  ان سے  بھی اس طرح کے  سوالات کئے  انھوں نے  اسلام کے  بارے  میں مجھے  بتایا جو مجھے  اچھا لگا، سب سے  زیادہ اسلام کی پاکی کا نظم مجھے  بے  حد پسند آیا، مجھے  خیال آتا تھا کہ پیشاب، پاخانہ ایسی گندی چیزیں ہیں کہ آدمی جہاں پر یہ ہوں وہاں کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا، جب یہ پیشاب انسان کے  کپڑوں اور جسم کو لگے  گا تو انسان کیسے  (پوِتر)پاک ہو سکتا ہے  اور مالک تو بڑا (پوِتر) پاک ہے  وہ ناپاک انسان کو کیسے  مل سکتا ہے، پاکی کی اس چاہت اور پسند کے  ذریعے  میرے  اللہ نے  میرے  دل کو کفر وشرک سے  پاک کر دیا اور میں نے  اسلام قبول کر لیا، حافظ صاحب مجھے  پھلت حضرت کے  پاس لائے، پھر میں نے  چار مہینے، جماعت میں لگائے  اور خوب محنت سے  دین سیکھا پھر حضرت مولانا نے  مجھے  چانچک ضلع جمنا نگر بھیج دیا، وہاں مدرسے  میں میں نے  قرآن شریف، تجوید اور دینیات پڑھی اور بچوں کو پڑھایا، اس کے  بعد دوسال سے  پھلت میں ہوں۔

  سوال  : قبول اسلام کے  بعد آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

 جواب  : ایک آدمی جب اپنا سب کچھ چھوڑ کے  نئے  ماحول میں آتا ہے  تو اس کو پریشانی تو ہوتی ہی ہے  مجھے  بھی اس سے  واسطہ پڑا، کئی بار کئی کئی روز تک فاقہ کرنا پڑا میرے  لئے  سب سے  تکلیف کی بات مسلمان بھائیوں کے  سوالات اور ہر آدمی کا انٹرویو لینا تھا، مگر ان سب کے  باوجود میں نے  جس قیمتی ایمان کو قبول کیا تھا اس کے  لئے  یہ پریشانیاں کوئی زیادہ نہیں لگیں۔

  سوال  : سنا ہے  آپ ایک بار غصے  میں آ کر کہیں چلے  گئے  تھے  پھر آپ کے  دوبارہ آنے  کا کیا ذریعہ بنا

 جواب  : اپنی نا سمجھی اور کچھ لوگوں کے  مسلسل سوالات سے  تنگ آ کر میں گڑگاؤں ایک عیسائی مشن میں چلا گیا تھا اصل میں میری غلطی یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے  اسلام قبول کیا ہے  تو میرے  مسائل کا حل کرنا مسلمانوں کے  ذمہ ہے  اور قبول اسلام کو میں شیطان کے  بہکاوے  میں مسلمانوں پر احسان سمجھنے  لگا تھا، مگر میرے  اللہ کا کرم تھا کہ میرا عقیدہ ٹھیک رہا گو میں ظاہر میں عیسائی مشن سے  جڑ گیا تھا وہاں کے  حال کو دیکھ کر بھی مجھے  اسلام کی قدر بڑھی اور سب سے  زیادہ میرے  حضرت کی ماں سے  زیادہ ممتا اور شفقت بلکہ ان کی روحانی توجہ مجھے  مقناطیس کی طرح کھینچتی رہی، میں وہاں بے  چین رہتا تھا اور پھر بلا اختیار مجھے  پھلت آنا پڑا کھتولی آ کر میں نے  حضرت کو فون کیا، حضرت نے  پھلت بلایا، میں نے  اپنا حلیہ بدل لیا تھا مجھے  شرم آ رہی تھی مگر حضرت نے  مسجد میں بلایا اور جامع مسجد میں گلے  لگا کر خوب روئے  اور مجھے  سمجھایا، دوزخ کی آگ کا خوف دل میں بٹھایا اور مجھے  کہا کہ تمہاری سب سے  بڑی غلطی یہ ہے  کہ ایمان کو تم مسلمانوں پر احسان سمجھ رہے  ہو حضرت نے  کہا کہ اگر ایک انسان کسی ڈوبتے  آدمی کو یا آگ میں جلتے  آدمی کو اس پر ترس کھا کر ڈوبنے  یا آگ سے  میں جلنے  سے  بچا لے  اور اس کو وہاں سے  نکال لے  اور ڈوبنے  اور جلنے  سے  بچنے  والا آدمی اس سے  یہ کہے  کہ تم نے  میری جان بچائی اسلئے  اب میرے  سارے  مسائل آپ کو حل کرنے  ہیں میری روٹی کپڑے  اور ساری ضروریات کا انتظام آپ کو کرنا ہے، تو اس آدمی کی کیسی غلط بات ہے، الحمدللہ مجھے  اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے  صلوٰۃالتوبہ پڑھی۔

  سوال  : اسلام میں آ کر آپ کیا محسوس کرتے  ہیں ؟

 جواب  : اسلام میں آ کر میں اللہ کابڑا شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے  جب بھی اپنے  ایمان کا خیال آتا ہے  تو مجھے  اپنے  اللہ کے  سامنے  سجدے  میں گرنے  کو جی چاہتا ہے  اور اس خیال سے  کہ کہیں مجھے  میرے  اللہ نے  ہدایت نہ دی ہوتی اور حضرت کے  پیار و محبت کی وجہ سے  میں عیسائی مشن سے  نہ نکلتا اور اس میں میری موت آ جاتی تو کیا ہوتا ؟ اور میرا رواں کھڑا ہو جاتا ہے، جیسا دیکھئے  اس وقت ہو رہا ہے۔

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَاوَمَاکُنَّالِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہ

  سوال  : آپ نے  فرمایا کہ آپ کے  والد نے  بھی اسلام قبول کر لیا ہے  ان کے  قبول اسلام کا کچھ حال بھی سنایئے  ؟

 جواب  : ہمارے  حضرت نے  میرے  خاندان کے  بارے  میں معلوم کیا جب میں نے  ان سنیاس لینے  اور آشرم کا حال بتایا تو انھوں نے  مجھ سے  ان کی ہدایت کے  لئے  دعا کو کہا، ہمارے  حضرت کا یہ بھی خیال ہے  کہ اگر نو مسلموں کو کار دعوت پر نہ لگایا جائے  تو ان کا پریشانیوں سے  گھبرا کر مرتد ہونے  کا خطرہ رہتا ہے  انھوں نے  مجھے  والد صاحب کے  پاس جانے  کے  لئے  کہا اور مولانا عمران مظاہری کو میرے  ساتھ بھیجا ہم آشرم پہنچے، تو میرے  والد نے  پہچان لیا مگر وہاں کے  ماحول کی وجہ سے  اظہار نہیں کیا ہم نے  ان کے  گرو کا حوالہ دیا جس کو بہانہ بنا کر شفقتِ پدری میں انھوں نے  ہماری بہت خاطر کی چلتے  وقت دونوں کو سو سو روپئے  بھی دئے  اور پھر آنے  کو کہا، ہم لوگ پھلت آئے  تو حضرت نے  کا گذاری سنی اور اس پر افسوس کیا کہ آپ نے  دعوت کیوں نہیں دی اور دوبارہ جانے  کو کہا اور پھلت کی دعوت دینے  کو کہا، ہم دوبارہ گئے  اور دعوت تو دینے  کی ہمت نہ ہوئی پھلت کے  لئے  وعدہ لیا اور حضرت کی کتا ب ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دے  کر آ گئے، انھوں نے  ایک ہفتے  بعد آنے  کا وعدہ کر لیا۔

            ایک ہفتے  بعد میں ان کو لینے  گیا، شروع میں ماحول سے  مانوس کرنے  کے  لئے  ان کو چانچک مدرسے  میں رکھا دو روز بعد پھلت پہنچے، وہ آپ کی امانت کتاب سے  بے  حد متاثر تھے  اور حضرت سے  ملنے  کو بے  چین تھے، رات کو ایک بجے  حضرت سفر سے  آئے، صبح آٹھ بجے  حضرت سے  ملاقات کی، میرے  والد کو حضرت نے  دیر تک گلے  لگایا، پھر تنہائی میں باتیں کیں اور تھوڑی دیر کے  بعد خوشخبری ملی کہ میرے  والد نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، ہم لوگوں نے  تفصیلات معلوم کیں، تو حضرت نے  بتایا کہ میں نے  دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے  دعا کی اور پھر ان سے  کہا کہ آپ ماسٹر اسلام کے  والد ہونے  کی وجہ سے  میرے  بھی والد کی طرح ہیں، اگر مجھے  معلوم ہو کہ آپ انجانے  میں ایک ایسے  راستہ پر جا رہے  ہیں جہاں آگ کا الاؤ جل رہا ہے  اور آپ اس میں کسی وقت بھی گر کر جل جائیں گے  تو میرا کیا حال ہو گا، انھوں نے  کہا کہ آپ بڑے  دکھ میں رہیں گے  تو میں نے  عرض کیا کہ جب مجھے  یقین ہے  کہ ایمان کے  بغیر (مکُتی )نجات نہیں اور موت کا کچھ پتا نہیں کون سا سانس آخری ہو تو مجھے  کس قدر تکلیف ہو گی، انھوں نے  کہا بے  شک بہت تکلیف ہو گی، میں عرض کیا کہ بس آپ کے  اختیار میں ہے  یا تو ایمان قبول کر کے  ہمیں چین دلا دیں یا اس طرح تڑپتا چھوڑ دیں، انھوں نے  کہا ایسا نہیں ہو سکتا، میں نے  تو آپ کی امانت پڑھ کر طے  کر لیا تھا کہ مجھے  ایمان لانا ہے، مجھے  بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جب ان کی کتاب پڑھنے  میں ایسا آنند (مزہ ) اور پریم ملا ہے  توان سے  ملنے  میں کیا آنند ( مزہ ) ہو گا۔

            میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی مہان آتما ہے  جو ایشور نے  دھرتی والوں کے  اودّھار کے  لئے  بھیجی ہے، اب اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے  کہ مجھے  مسلمان کر لیں اور میں بھی مسجد میں اللہ اللہ کروں، دوسری صورت یہ ہے  کہ میرے  ساتھ بہت سے  لوگ میرے  شاگرد ہیں جو مجھ سے  اس لئے  جڑے  ہیں کہ ان کو شانتی کا سچا راستہ بتاؤں گا ان کا بھی حق ہے  میں مسلمان ہو جاؤں مگر ابھی ظاہر نہ کروں اور وہاں جا کر اپنے  لوگوں سے  کہوں کہ گنگا کی ترائی میں ہماری صحت اچھی نہیں ہے  اب ہم پہاڑوں کے  پاس اچھی آب و ہوا میں آشرم بنائیں گے، پھر ان کو بھی ساتھ لائیں اور ان کو سچائی بتائیں۔

            آپ جیسا کہیں ویسا ہو گا، میں نے  ان سے  کہا یہ صورت بہت اچھی ہے، پہلے  آپ کلمہ پڑھ لیں انھوں نے  کلمہ پڑھا اور عبداللہ نام تجویز ہوا۔ الحمدللہ۔

  سوال  : پھر اس کے  بعد ان کا کیا ہوا؟

 جواب  : حضرت کے  درد نے  ان کو شکار کر لیا، بار بار وہ حضرت کے  گلے  لگتے  تھے، انھوں نے  حضرت سے  کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ہندی کا قرآن دلوا دیں، میں نے  قرآن پڑھا ہے  مگر اس وقت میں نے  مسلمانوں کا دھرم گرنتھ سمجھ کر پڑھا تھا، اب میں اس لئے  پڑھنا چاہتا ہوں کہ میرے  مالک مجھ سے  کیا کہتے  ہیں، اس کے  بعد وہ آشرم چلے  گئے   اپنے  دو چیلوں کے  ساتھ وہاں پر کچھ دن جمنا نگر کے  مدرسہ میں رہے۔

            ان کے  دونوں چیلوں نے  اسلام قبول کر لیا تھا، ایک چیلے  کی بات آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ ساڈھورہ میں ایک ہندو نائی کے  یہاں اپنی جٹائیں (بال)کٹوانے  کیلئے  پہنچا، تو نائی نے  کہا کہ کیا تمہارے  سر میں جوں ہو گئی ہیں، اس نے  کہا نہیں، نائی نے  معلوم کیا تو پھر بال کیوں کٹوا رہے  ہو اس نے  بغیر جھجک کے  کہا کہ اصل میں میں مسلمان ہو گیا ہوں اور شرک اور کفر کی ہر چیز کو میں ختم کرنا چاہتا ہوں اس لئے  جٹائیں (بال) کٹوا رہا ہوں۔

            افسوس ہے  کہ ابھی میرے  والد کے  لئے  کسی جگہ کا نظم نہیں ہو سکا، مگر الحمد للہ وہ بہت مضبوط ہیں اور بے  چین ہیں، قرآن شریف پڑھتے  ہیں اور ذکر کرتے  ہیں۔

  سوال  : جزاکم اللہ آپ نے  اپنے  خاندان کے  لوگوں پر کام کیا اور اس کے  کیسے  اچھے  اثرات ہوئے  َ

 جواب  : میرے  حضرت نے  مجھے  متوجہ کیا، شروع میں میرے  گھر والے  مجھ سے  نفرت کرتے  تھے، مگر جب میں نے  ان کے  لئے  دل سے  ہدایت کی دعا کی اور ہمدردی میں دعوت کی نیت کی تو حالات بدل گئے، اللہ تعالیٰ نے  مدد فرمائی داعی کے  ساتھ غیبی مدد آتی ہے  اور اللہ راستے  کھولتے  ہیں ہم فضول میں ڈرتے  ہیں اب سب رشتے  داروں کے  یہاں میرا آنا جانا ہے، وہ میرا بہت احترام کرتے  ہیں، غور سے  بات سنتے  ہیں بلکہ ایک طرح کی عقیدت سے  ملتے  ہیں، اپنے  دنیوی مسائل میں دعا کو کہتے  ہیں میں نے  حضرت کی کتاب آپ کی امانت ان کو دی کچھ لوگ بہت قریب ہو گئے  ہیں مجھے  امید ہے  کہ انشاء اللہ ان میں سے  بہت لوگ اسلام قبول کر لیں گے، ان میں بعض لوگ بہت پڑھے  لکھے  اور بڑے  عہدوں پر ہیں۔

  سوال  : آپ پھلت میں دن رات مسجد اور دعوت سے  جڑے  رہتے  ہیں یہ جذبہ آپ میں کس طرح پیدا ہوا؟

 جواب  : میرے  حضرت کا صدقہ ہے، انھوں نے  ہمارے  دل میں یہ بات بٹھائی کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد دعوت اور دین کی خدمت ہے، روز گار اور دوسری چیزیں زندگی کی ضروریات ہیں، میرا دل چاہتا ہے  کہ بزرگوں کی بستی پھلت ایک اسلامی بستی بن جائے، تاکہ لوگ یہاں آ کر ہی اسلام کو جان لیں اور قبول کریں۔

  سوال  : آپ مسلمانوں کے  لئے  کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

 جواب  : میں حقیر آدمی پیغام تو کیا دے  سکتا ہوں، بس میں اپنے  بھائیوں سے  درخواست کر سکتا ہوں، ایک درخواست یہ ہے  کہ پیارے  نبی ﷺ آخری حج کے  موقع پر سب سے  وصیت کر کے  گئے  کہ فَلْیُبَلِّغْ اَلشَّا ھِدُ الْغَائِبْ یہ دین ہر غائب شخص تک پہنچا دیا جائے۔

            ختم نبوت کے  بعد یہ کارِ دعوت اسلام کی سب سے  بڑی شان کے  طور پر ہمیں ملا ہے  اور اس کام میں غفلت اور ایمان کو لوگوں تک نہ پہنچانے  کی وجہ سے  ہمارے  حضرت کے  بقول ہر منٹ میں تین سو تیرہ ہمارے  بھائی کفر اور شرک پر مر کر ہمیشہ کی آگ کا ایندھن بن رہے  ہیں، یہ سب ہمارے  بھائی ہیں اگر نہ جاننے  اور نہ سمجھنے  کی وجہ سے  وہ ہم سے  دشمنی کرتے  ہیں تو اس سے  ان کا حق ختم نہیں ہوتا، ہماری ترقی اور نجات کا واحد راستہ دعوت ہے، ہمارے  نبی ﷺ سے  عشق کا دعویٰ اور آپ کی ایک پیار بھری وصیت اور آخری نصیحت اور خواہش کا ہم نے  خیال نہ رکھا یہ بہت دکھ کی بات ہے۔

            دوسری درخواست یہ ہے  انسان ایک سماجی جاندار ہے  اسے  جینے  کے  لئے  ایک سماج کی ضرورت ہے، ایک نو مسلم کو اسلام قبول کرنے  کے  بعد ہجرت کر کے  اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، اس کو بڑے  سہارے  اور گلے  لگانے  کی ضرورت ہوتی ہے  جنگل بیابان میں وہ لوگوں اور مسلمان بھائیوں کا سہارا تکتا ہے  ہر نئے  آنے  والے  کو اپنے  پیروں پر کھڑا کرنے  کی ضرورت ہے  وقتی طور پر کچھ مدد کر کے  کچھ صدقہ خیرات دے کر اس کو بھکاری بنانا یا اس کی عادت بگاڑنا ٹھیک نہیں، اگر ایک مسلمان بھائی مدینے  کی مواخاۃ کا نمونا بن کر ایک مہاجر بھائی کی فکر کو اوڑھ لے  اس کو قرض دے  کر یا شرکت کر کے  اس کو پیروں پر کھڑا کرانے  کی کوشش کر ے  تو اس کے  خاندان کو دعوت دینا آسان ہو جائے  تو اس کو تسلّی بھی ہو گی اس کے  لئے  کچھ روز ہمارے  حضرت کے  ساتھ آ کر محبت اور مامتا سیکھنی چاہئے

  سوال  : بہت بہت شکریہ جزاکم اللہ۔ السلام علیکم و  رحمۃاللہ

 جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ برکاتہٗ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان فروری ۲۰۰۳ء

٭٭٭

جناب عبدالرحمن صاحب {رگھوبیر سنگھ} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ         : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ؟

ؑعبدا لر حمٰن  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

  سوال  : عبد الرحمن بھائی خیریت سے  ہیں ؟ ارمغان کے  لئے  کچھ بات آپ سے  کرنا چاہتا ہوں۔

 جواب  : الحمد للہ میں خیریت سے  ہوں، احمد بھائی ضرور کیجیے  میری خوش قسمتی ہو گی۔

  سوال  : اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

 جواب  : میرا پرانا نام رگھو بیر سنگھ تھا میں قصبہ کھتولی کے  ایک کمہار مزدور گھرانے  سے  تعلق رکھتا ہوں گھر کے  لوگ سادگی میں مجھے  رگھو کہا کرتے  تھے   ۱۹۷۱ء میں اللہ نے  مجھے  ہدایت عطا فرمائی اس وقت میری عمر اکیس سال رہی ہو گی میرے  والد دیپ چند جی کا انتقال ہو گیا ہے، اب میرے  تین بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں والدہ کا میری شادی کے  سال انتقال ہو گیا تھا، اس وقت میں کھتولی میں جنرل مرچنٹ کی دکان کرتا ہوں درمیان میں میں نے  نائی کی دکان بھی کی تھی شرعی قباحتوں کی وجہ سے  اب میں نے  وہ چھوڑ دی ہے۔

  سوال  : اپنے  قبول اسلام کا واقعہ سنایئے ؟

 جواب  : میرے  قبول اسلام کا واقعہ ایک لطیفہ ہے  ہوا یہ کہ ۱۹ سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی میری بیوی بہت خوبصورت تھیں، ان کا میکہ بھی ہمارے  خاندان سے  ذرا اونچا تھا، ان کے  والد ایک اچھے  کسان تھے  اور کچھ کاروبار بھی کرتے  تھے  ہمارے  گھر غربت کی حالت میں اس کا دل نہ لگا، میں دسویں کلاس فیل تھا وہ مجھ سے  پڑھی ہوئی بھی زیادہ تھی، اس نے  انٹر میڈ یٹ پاس کر رکھا تھا، وہ مجھے  بہت پسند آئی اور مجھے  اس سے  محبت ہو گئی، ایک مرتبہ اس کے  میکہ والے  اس کو لینے  کے  لئے  آئے  وہ گھر چلی گئی، کچھ زمانے  کے  بعد میں اس کو لینے  کے  لئے  گیا اس نے  آنے  سے  انکار کر دیا مجھے  بہت صدمہ ہوا، پھر میرے  والداس کو لینے  کے  لئے  گئے  مگر ان لوگوں نے  اس کو نہیں بھیجا، رشتہ داروں اور ذمہ داروں سے  سفارشیں کرائیں مگر انہوں نے  صاف انکار کر دیا۔

            ساری ظاہری کوششیں بے  کار ہو جانے  کے  بعد سیانوں اور ملاؤں سے  ٹوٹکے، گنڈے  اور تعویذ کرانے  شروع کئے  مگر کام بننے  کی کوئی صورت نہ نکلی، میں اس کو بہت یاد کرتا میرا دل ہر کام سے  اچاٹ ہو گیا اور نیم پاگل سی حالت میں بے  چین رہتا، میرے  والد کو کسی نے  بتایا کہ جمعہ کی رات ہفتہ کی صبح تک اکبر خاں والی مسجد میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوتا ہے  وہاں بہت سے  مولانا لوگ آتے  ہیں آپ وہاں جاؤ، میرے  والد صاحب سنیچر کی صبح کو وہاں پہنچے، لوگوں نے  بتایا کہ مسجد کے  باہر بیٹھ جاؤ جب پروگرام ختم ہو گا کسی مولانا سے  ملوا دیں گے، ایک ملا جی مسجد سے  باہر تہری کی ٹھیلی لگاتے  تھے  میرے  والد صاحب ان کے  پاس گئے  اور اپنا دکھ بتایا، انہوں نے  کہا کہ ہم کھتولی والے  سارے  کاموں میں پھلت والوں کے  پاس جاتے  ہیں وہ نوجوان کھڑے  ہوئے  تقریر کر رہے  ہیں، وہ پھلت کے  رہنے  والے  ہیں وہ اگرچہ دیکھنے  میں مولوی نہیں لگ رہے  ہیں مگر پھلت کے   ہیں اور پھلت کے  لوگ بہت پہنچے  ہوئے  ہیں جب وہ نکلیں تو بس ان سے  چمٹ جانا، وہ منع کریں گے  اگر انہوں نے  تیرا کام کر دیا تو بس تیرا کام بن جائے  گا۔

  سوال  : وہ نوجوان کون صاحب تھے ؟

 جواب  : بتا رہا ہوں، اصل میں وہ آپ کے  والد صاحب تھے، اس وقت مشن اسکول میں گیارہویں کلاس میں پڑھتے  تھے  اسکول کی ڈریس میں اجتماع میں شریک ہوتے  تھے  گو وہ جماعت سے  لگے  ہوئے  تھے  اور بہت اچھی تقریر کرتے  تھے  مگر لوگ اس وقت ان کو مولوی صاحب کہنے  کا تصور بھی نہیں کر سکتے  تھے، ہفتہ واری اجتماع میں جوڑنے  والی یا صبح چھ نمبر والی بات اکثر وہی کرتے  تھے  اشراق سے  فارغ ہو کر وہ باہر نکلے، بستہ ساتھ تھا اسکول کی طرف رخ تھا، میرے  والد ان کے  پیچھے  آواز لگاتے  دوڑے، مولی صاحب ! مولی صاحب ! وہ مولوی صاحب ہوتے  یا اپنے  کو مولوی سمجھتے، تو سنتے، میرے  والد نے  دوڑ کر ان کے  کاندھے  پر ہاتھ رکھا اور بولے  اجی ایسی بھی کیا بات ہے  اتنا آواز دے  رہا ہوں سنتے  بھی نہیں۔

            آپ کے  والد بولے  :  آپ تو مولوی صاحب مولوی صاحب آواز دے  رہے  تھے، میں مولوی صاحب کہاں ہوں؟ میرے  والد بولے  یہ تو مجھے  ملا جی تہری والوں نے  خوب بتا دیا ہے  کہ پھلت والے  اپنے  کو بہت چھپاتے  ہیں، آپ کو میرا کام کرنا پڑے  گا، انہوں نے  معلوم کیا کہ آپ کا کیا کام ہے ؟ میرے  والد صاحب نے  کہا: لڑکے  کی بیوی نہیں آتی لڑکا غم میں مرا جا رہا ہے  کچھ کام بھی نہیں کرتا ؟ ایسا تعویذ دے  دو کہ بہو آ جائے، وہ بولے  بھائی ملا جی نے  آپ سے  مذاق کیا ہے، میرے  تو پر دادا نے  بھی کبھی تعویذ نہیں بنایا، میرے  والد صاحب کو ملا جی نے  بتایا تھا کہ وہ انکار کریں گے  تم ہر گز نہ ماننا آپ کے  والد کے  انکار سے  ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ چھپے  ہوئے  آدمی ہیں، ہر ایک کا کام نہیں کرتے  ہیں اس لئے  انہوں نے  اصرار کیا، بولے : آپ مجھے  تو نہیں بہکا سکتے  ہیں، مجھے  اصلیت سب پتہ ہے، میں آپ کے  ساتھ رہوں گا اور جب تک میرا کام نہیں ہو گا میں ہرگز ٹلوں گا نہیں۔

            مولوی صاحب بتایا کرتے  ہیں کہ بہت سمجھانے  اور معذرت کرنے  کے  باوجود جب وہ نہیں مانے  تو انہوں نے  جان چھڑانے  کے  لئے  اگلے  سنیچر کا وعدہ کر کے  اپنی جان بچائی، ان کا خیال یہ تھا کہ کسی جاننے  والے  سے  تعویذ لا کر دے  دوں گا اس زمانہ میں پھلت میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے  ایک مرید حافظ عبداللطیف صاحب مدرسہ میں پڑھاتے  تھے  وہ یہ کام جانتے  تھے، خیال تھا کہ ان سے  تعویذ بنوا کر لادوں گا میرے  والد نے  اگلے  سنیچر کے  وعدہ پر ان کو چھوڑ دیا اگلے  ہفتہ ان کو یاد نہیں رہا ہفتہ واری پروگرام میں صبح کے  چھ نمبروں پر بات ان کو کرنی تھی۔

            مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ ذرا دن کی روشنی ہوئی، بات کرتے  کرتے  تقریر کے  دوران جوتوں والے  بر آمدہ کی طرف گردن گھمائی تو میرے  والد پر نگاہ پڑی وہ مجھے  لے کر صبح صبح یہاں پہنچ گئے  تھے  کمہاروں کی صبح بھی جلدی ہوتی ہے، پچھلے  ہفتہ کا اصرار یاد آیا تعویذ لانا یاد نہیں رہا تھا، بات کا توازن بگڑ گیا کسی طرح اپنے  کو سنبھال کر بات پوری کی، اشراق کے  لئے  نیت باندھی حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ کا کسی کنجر ی کو اس کی فیس دے  کر مصلیٰ پر نماز کے  لئے  کھڑا کر کے  اس کے  لئے  دعاء کرنے  والا واقعہ یاد آیا، کہ الہی! مصلیٰ تک تو میں نے  پہنچا دیا، دل کو پھیرنا آپ کا کام ہے۔

            اپنی بات میں یہی واقعہ سنایا تھا اسی کی برکت سے  نماز میں جان بچا نے  کی ترکیب سوجھی دو رکعت پڑھ کر انہوں نے  میرے  والد کو بلایا اور کہا اپنے  بیٹے  کو مسجد کے  غسل خانہ میں بھیج کر اشنان ( غسل ) کرنے  کو کہو، انہوں نے  مجھے  نہانے  کو کہا نماز پڑھ کر وہ مجھے  مسجد کے  باہر والے  حجرہ میں لے  گئے  اور تین بار کلمہ طیبہ پڑھوایا اس کے  معنی بتائے  اور مجھے  کہا بس ایک مالک سب کچھ کرنے  والا ہے  اگر تم یہ کلمہ دل میں بٹھا لیا تو وہ مالک تمہاری بہو کو بغیر بلائے  بھیج دے گا اور مجھے  ایک کاغذ پر ہندی میں کلمہ طیبہ لکھ کر دیا کہ ہر وقت سچے  دل سے  اس کا جاپ کرتے  رہو باہر آ کر میرے  والد سے  کہا کہ میں نے  ان کو ایک منتر بتا دیا ہے  یہ اس کا جاپ کریں گے  مالک ضرور آپ لوگوں کی سن لے  گا۔

            مولانا صاحب بتاتے  تھے  کہ اس کے  بعد مسجد میں جا کر انہوں نے  دو رکعت اور نفل پڑھی اور خوب دل سے  دعا کی کہ الٰہی! زبان سے  تو میں نے  کہلوا دیا دل میں آپ اتار سکتے  ہیں، ہم دونوں مطمئن ہو کر گھر لوٹے، چوتھے  دن میرے  سسر میری بیوی کو لے کر میرے  گھر آئے ؟ خوشی خوشی ان کو چھوڑ کر چلے  گئے، مجھے  اس منتر پر بہت اعتقاد ہو گیا اور میں خوب اس کا جاپ کرتا اور کبھی زور زور سے  مزے  لے کر پڑھنے  لگتا تھا، کبھی کبھی مزے  میں مجھے  وجد آ جاتا، اگلے  سنیچر کو میرے  والد دو کلو لڈو لے کر پھر پہنچے  اس سنیچر کو آپ کے  والد صاحب نہیں آئے، وہ مایوس ہو کر لوٹے  اور تیسرے  سنیچر کو پھر گئے، اجتماع سے  فارغ ہو کر آپ کے  والد صاحب مسجد سے  نکلے  تو میرے  والد نے  ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور وہ لڈو پیش کئے  انہوں نے  لڈو واپس کر دئے  کہ اس میں میرا کچھ کام نہیں مالک نے  آپ کی سن لی میرے  والد نے  کہا ایک بات یہ پوچھنی ہے  کہ میرا بیٹا ہر وقت آ پ کے  جس منتر کا جاپ کرتا رہتا ہے  اس سے  کچھ نقصان تو نہیں ہو گا؟ انہوں نے  کہا کہ بہت اچھا ہے  اس کو بہت فائدہ ہو گا۔

            میں ہر وقت کلمہ پڑھتا رہا ایک دن مزہ مزہ میں زور زور سے  میں اس کلمہ کو پڑھتا جا رہا تھا پھلت کے  ایک ملا جی جو بڑھئی کا کام کرتے  تھے  غلام حسین ان کا نام ہے  وہ ہمارے  محلہ میں کواڑ کھڑکیاں بنانے  آتے  تھے  انہوں نے  سن لیا وہ ہمیں اچھی طرح جانتے  تھے، انہوں نے  سنا تو بولے  ارے  رگھو ! یہ تو کیا پڑھ رہا ہے ؟ میں نے  کہا کہ یہ منتر ہے، پھلت والے  مولوی صاحب نے  بتایا تھا، اسی سے  تو میری بیوی آئی ہے، انہوں نے  کہا کہ یہ تو اسلام کا کلمہ ہے  یہ کلمہ پڑھ کر ہی تو آدمی مسلمان ہوتا ہے، میں نے  کہا کیا میں مسلمان ہو گیا انہوں نے  کہا کہ اگر سچے  دل سے  تو نے  پڑھا ہے  تو مسلمان ہو ہی جائے  گا، میں نے  کہا کہ میں تو سچے  دل اور وشواس سے  ہی پڑھتا ہوں ایسا تو آپ بھی نہ پڑھتے  ہوں گے، پھر تو تو مسلمان ہو گیا، میں نے  کہا کہ اب مجھے  کیا کرنا چاہیے ؟ انہوں نے  کہا اب تمہیں اپنا مسلمان نام رکھنا چاہئے  اور نماز یاد کر کے  پانچ وقت کی نماز پڑھنی چاہئے، میں نے  پوچھا کہ کیا نام رکھوں ؟ انہوں نے  کہا کہ عبدالرحمن رکھ لو میں نے  کہا نماز مجھے  کون سکھائے  گا؟ انہوں نے  کہا کہ میں سکھا دوں گا، میں نے  کہا بہت اچھا، وہ روز رات کو مجھے  وقت دیتے، دن چھپنے  کے  بعد وہ مجھے  نماز سکھاتے، پندرہ بیس روز میں مجھے  خاصی نماز آ گئی، انہوں نے  مجھے  ہندی میں ایک دو کتابیں لا کر دیں، جنت کی کنجی اور دوزخ کا کھٹکا تو مجھے  آج تک یاد ہے۔

            میں چھپ چھپ کر نماز پڑھنے  لگا میں نے  وہ کتابیں اپنی بیوی کو پڑھائیں اور ان کو اپنے  مسلمان ہونے  کا حال بتایا اور ان کو قسم دے  کر کہا کہ سچی ہندو بیوی شوہر کے  ساتھ اس کی چتا میں جل جاتی ہے  تجھے  بھی میرے  مذہب میں آ جا نا چاہئے  وہ تیار ہو گئی ملا جی غلام حسین نے  اس کو بھی کلمہ پڑھوا دیا اس کا نام فاطمہ رکھ دیا اب ہم ایک دوسرے  کی پہرہ داری کر کے  کبھی کبھی نمبر وار گھر میں بھی نماز پڑھ لیتے  تھے، ایک روز میرے  والد نے  مجھے  نماز پڑھتے  دیکھ لیا مجھے  ڈانٹنے  لگے  مجھے  بھی غصہ آ گیا اور میں نے  صاف صاف کہہ دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ سے  جو ہو، وہ کر لو، انہوں نے  بھائیوں کے  ساتھ مل کر مجھے  بہت مارا اور میں گھر سے  بھاگ گیا۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اس کے  بعد میں تیس روز گھر سے  باہر رہا میں دہلی چلا گیا اور خیال تھا کہ بس یہاں کوئی روز گار دیکھ لوں گا میرے  والد صاحب پانچ چھ لوگوں کو لے  کر پھلت پہنچے  اور آپ کے  والد صاحب سے  میرا پتہ مانگا انہوں نے  لاعلمی کا اظہار کیا مگر ان کو یقین نہ آیا، وہ کہتے  رہے  آپ نے  اس پر جادو کر کے  اس کو مسلمان کیا اور ہمارا لڑکا آپ کے  پیٹ میں (علم میں ) ہے  اگر پرسوں تک وہ نہ آیا تو ہم تھانے  میں رپورٹ کر دیں گے  آپ کے  والد بہت پریشان ہوئے  ان کو سمجھایا کہ میری تو آج تک ملاقات بھی نہیں ہوئی میں نے  آپ کے  ساتھ بھلائی کی آپ اس کا یہ بدلہ دے  رہے  ہیں ؟مجھے  تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے  مگر انہوں نے  ایک نہ سنی اور بد تمیزی سے  دھمکی دے  کر واپس آ گئے۔

  سوال  : پھر کیا ہوا؟

 جواب  : نہ جانے  کیوں میرا دل دلی میں بہت گھبرایا، میرے  دل میں شدید تقاضہ ہوا کہ پھلت جاؤں اور آپ کے  والد صاحب سے  ملوں رات گذارنا مشکل ہو گیا مجبوراً اسٹیشن پہنچا رات کو ایک گاڑی کھتولی جاتی تھی اس سے  کھتولی پہنچا اور صبح صبح پیدل پھلت پہنچا مولانا صاحب مجھے  دیکھ کر بہت خوش ہوئے  میں نے  سارا ماجرہ سنایا انہوں نے  بتایا کہ میں تو بہت پریشان تھا ہمارے  گھر والے  بھی تھانہ پولیس سے  بہت بچتے  ہیں بہت دعا کر رہا تھا اللہ کا شکر ہے  آپ آ گئے  میں نے  ان سے  کہا آپ مجھے  کھتولی لے  چلیں میرا ہاتھ پکڑ کر میرے  والد کے  ہاتھ میں دے  دیں کہ آپ کا بیٹا یہ ہے، اب آپ چھوڑیں یا بند کر کے  رکھیں میں ذمہ دار نہیں رہوں گا اور اس سے  بھی معلوم کر لو کہ میں اس سے  کبھی ملا تھا ؟ انہوں نے  کہا کہ وہ تمہیں بہت ماریں گے، میں نے  کہا میں خود سنبھال لوں گا، وہ مجھے  لے  کر گئے  اور میرے  پتاجی کے  ہاتھ میں میرا ہاتھ دے  کر کہہ آئے  کہ آئندہ میں ذمہ دار نہیں اور اس سے  پوچھ لو یہ کبھی مجھ سے  ملا تھا ؟ میں نے  کچھ روز معاملہ کو ٹھنڈا کرنے  کے  لئے  گھر میں رہنا شروع کیا۔

            ہمارے  محلہ کے  قریب میں کچھ مسلمان بیکری کا کام کرتے  تھے، جو پونہ میں رہتے  تھے، میں نے  حکمت کے  ساتھ والد صاحب کو اس پر راضی کیا کہ میں بھی ان کے  ساتھ وہاں جاؤنگا اور کچھ کاروبار کروں گا میں پونہ چلا گیا اور پھر اپنی بیوی کو بھی لے  گیا وہاں جا کر مجھے  وطن بہت یاد آیا میں نے  کچھ پیسے  کمائے  اور کھتولی کے  ایک مسلم محلہ میں ایک مکان بنا لیا، جماعت میں وقت لگاتا رہا الحمدللہ دین سے  بہت اچھا تعلق ہو گیا مہاراشٹر کے  ایک جماعت کے  ساتھ میرا مظفر نگر کا رخ بنا مجھے  اصرار کر کے  جماعت کا امیر بنا دیا گیا ہم پھلت پہنچے  میں نے  اذان بھی عربی لہجہ میں سیکھ لی تھی، ظہر کی اذان کہی، مولانا صاحب سے  ملنے  کے  لئے  گھر پہنچا اس وقت تک آپ کے  والد بھی مولانا صاحب بن گئے  تھے، میں ان سے  چمٹ گیا وہ مجھے  نہیں پہچان سکے  جب میں نے  بتایا کہ میں کھتولی والا آپ کا رگھو ہوں تو وہ مجھے  نئے  حلیے  میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے  جب معلوم ہوا کہ ظہر کی اذان میں نے  کہی ہے  تو انہوں نے  مجھے  گلے  لگا یا اور بہت خوش ہوئے، جماعت کا یہ وقت جو میرے  اپنے  علاقے  میں لگا، مجھے  بہت اچھا لگا۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : اس کے  بعد مولانا صاحب کے  مشورہ سے  میں کھتولی آ کر رہنے  لگا اور اپنے  گھر والوں کو کھتولی سے  خرچ بھیجتا تھا، تقریباً دس سال سے  میں کھتولی میں رہ رہا ہوں، مگر میرے  گھر والوں کو یہ علم ہے  کہ میں پونا میں رہتا ہوں، پہلے  میں نے  نائی کی دکان کھول لی تھی مگر مسلمانوں کی ڈاڑھی مونڈنا مجھے  عجیب لگتا تھا، اس لئے  کہ نبی کی سنت پر استرہ چلانا مجھے  ناگوار تھا، پھر میں نے  جنرل مرچنٹ کی دوکان کھول لی الحمد للہ اچھی چل رہی ہے۔

  سوال  : سنا ہے  آپ نے  ایک مکتب بھی تو قائم کیا ہے  ؟

 جواب  : ہماری سسرال میں خاصے  مسلمان رہتے  ہیں میرے  دو سالوں کو اللہ نے  میری کوشش سے  ہدایت دے دی ہے، وہاں پر کوئی تعلیم کا نظم نہیں تھا، میں نے  مولانا صاحب سے  مشورہ کیا انہوں نے  کہا کہ مرنے  کے  بعد کے  لئے  کوئی صدقہ جاریہ ضرور بنانا چاہئے، الحمد للہ وہاں ایک مکتب قائم کیا گیا جو پہلے  مسجد میں چلتا تھا اب گاؤں والوں نے  زمین دے دی ہے، چار کمرے  بھی تعمیر ہو گئے  ہیں پانچ مدرس کام کر رہے  ہیں، اللہ کا شکر ہے، بہت اچھا کام چل رہا ہے۔

  سوال  : آپ کے  کتنے  بچے  ہیں اور کیا کر رہے  ہیں ؟

 جواب  : میرے  پانچ بچے  ہیں، تین لڑکے  محمد عثمان، محمد علی اور محمد حسن، دو بیٹیاں ہیں عائشہ اور زینب، الحمد للہ سب دینی تعلیم حاصل کر رہے  ہیں، بڑا لڑکا بہت اچھا حافظ ہو گیا ہے، گجرات کے  ایک مدرسہ میں پڑھ رہا ہے، محمد علی کے  ۱۶ پارے  ہو گئے  ہیں، الحمد للہ محمد حسن کے  تین پارے  حفظ ہو گئے  ہیں، وہ سب سے  زیادہ ذہین ہے، عائشہ اور زینب دونوں نے  قرآن شریف پڑھ لیا ہے  ان کا بھی حفظ شروع ہو گیا ہے، میں نے  شب قدر اور جماعت میں دعا کی تھی کہ اے  اللہ میرے  سارے  بچوں کو حافظ عالم اور دین کا داعی بنا دیجئے  اور صحابہ کے  انداز کا مسلمان بنا دیجئے، مجھے  امید ہے  کہ میرے  اللہ جو مجھے  اندھیرے  سے  نکال کر ہدایت کی طرف لائے  ہیں وہ میری فریادضرور سنیں گے۔

  سوال  : اسلام سے  پہلے  کی زندگی کے  بارے  میں آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

 جواب  : میں اس تصور سے  بھی کانپ جاتا ہوں، اگر میرے  اللہ مجھے  ہدایت نہ دیتے  تو کفر پر میری موت ہوتی، اچانک پھر مجھے  غم سا ہو جاتا ہے  کہ کہیں میری شامت  اعمال کی وجہ سے  مجھ سے  اسلام کی نعمت چھین نہ لی جائے، اس لئے  کہ اصل ایمان تو خاتمہ کاہے، میں اس تصور سے  کانپ کر اکثر سجدے  میں گر جاتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے  اللہ آپ تو سخیوں کے  سخی ہیں، آپ کے  نبی نے  ہمیں بتایا کہ کسی کو چیز دے  کر یا ہدیہ دے  کر واپس لینے  والا ایسا ہے  جیسا الٹی کر کے  چاٹنے  والا، آپ تو کریموں کے  کریم ہیں، آپ نے  میری خواہش کے  بغیر مجھ کو ہدایت دی ہے، میرا خاتمہ بھی ایمان پر کیجئے، مجھے  امید ہے  کہ میرے  اللہ میرا خاتمہ ایمان پر فرمائیں گے  انشاء اللہ، آپ بھی دعا کیجئے۔

  سوال  : ضرور انشاء اللہ۔  بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم

 جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مستفاد از ماہنامہ ارمغان اگست ۲۰۰۴ء

٭٭٭

جناب محمد صادق ایڈوکیٹ{ستیندر ملک} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ         : اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد صادق  : وعلیکم اسلام و  رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : وکیل صاحب  بہت  اچھا ہوا آپ تشریف لے  آئے، ابی اس بار رمضان میں بار بار آپ کا ذکر خیر کرتے  رہے، کئی بار تقریر میں آپ کا ذکر کیا، مجھے  خیال ہوا کہ ارمغان میں اس بار آپ کا انٹرویو چھپے ؟

 جواب  : آپ ہی حضرت کے  بیٹے  مولوی  احمد صاحب  ابّاہ ہیں

  سوال  : جی ہاں ! میرا نام ہی احمد اواہ ہے، یہ لفظ اواہ ہے، ابّاہ نہیں ہے ؟

  جواب  : اوّاہ کا ارتھ (معنی) کیا ہے ؟

  سوال  : اوّاہ کے  معنی ہیں مخلوق پر حد درجہ شفقت و رحمت رکھنے  والا، قران مجید میں ایک بہت بڑے  رسول حضرت ابراہیمؑ کے  لئے  استعمال ہوا ہے  : اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ  مُنِیْبٌ(سورہ ہود:۷۵) ’’بلا شبہ ابراہیم تو بہت برداشت کرنے  والے، مخلوق اور انسانوں کے  حد درجہ ہمدرد اور اللہ کی طرف جھکنے  والے  تھے ۔‘‘ انہی کے  نام پر ہمارے  ابی کے  پیر صاحب، حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ نے  میرا نام رکھا تھا، وکیل صاحب! اصل میں ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ماہا نہ نکلتی ہے، اس کا نام ہے  ’ارمغان‘ اس میں اسلام لانے  والے  خوش قسمت نو مسلموں کے  انٹرویو چھاپے  جاتے  ہیں، اس کے  لئے  ابی نے  آپ سے  انٹرویو لینے  کے  لئے  آپ کو زحمت دی۔

 جواب  : ارمگھان کا ارتھ (معنی )کیا ہے ؟

  سوال  : یہ لفظ ارمغان ہے، ارمگھان نہیں ہے  (حلق سے )

 جواب  : میں اردو نہیں جانتا، اور گاؤدی زبان ہے  ہماری۔

  سوال : نہیں وکیل صاحب، آپ تو اردو نہیں جانتے  بعض پڑھے  لکھے  بلکہ مولوی صاحبان کو دیکھا ارمغان کے  معنی گفٹgift بھینٹ، تحفہ،  ہدیہ، اصل میں اللہ کا شکر ہے  کہ یہ میگزین انسانیت کے  لئے  ایک تحفہ ہی ثابت ہو رہا ہے، آپ سے  ابی نے  بتا دیا ہو گا۔

 جواب  : ہاں مولانا صاحب کا فون آیا تھا کہ تھوڑی دیر کے  لئے  آ جائیں آپ سے  احمد اواہ ایک انٹر ویو لینا چاہتے  ہیں، میرا دل بھی بہت ملنے  کو چاہ رہا تھا، مجھے  ملے  ہوئے  ایک ہفتہ ہو گیا تھا، ایک دو روز مولانا صاحب سے  ملے  ہوئے  ہو جاتے  ہیں، بے  چینی ہو جاتی ہے  یہاں آ کر معلوم ہوا کہ مولانا صاحب سفر پر گئے  ہوئے  ہیں، کیا آج آ جائیں گے  ؟

  سوال  :  شام تک آ جائیں گے، ہو سکتا ہے  رات کو دیر بھی ہو جائے۔

 جواب  : شام تک رکوں گا، دل بہت ملنے  کو چاہ رہا ہے، اگر شام تک نہ آئے  تو رات میں آ جائیں گے، پھر کل صبح آ کر ملوں گا۔

  سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف(پریچے )کرائیے ؟

  جواب  : میں ۱۵/ اگست ۱۹۵۲ ء کو دورالہ کے  قریب نگلہ گاؤں میں ایک جاٹ فیملی میں پیدا ہوا میرے  پتاجی (والد صاحب)سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر، مشہور سوتنترتا سینانی (مجاہد آزادی) تھے، ماسٹرہزاری لال ان کا نام تھا، بہت اچھی اردو جانتے  تھے، انھوں نے  پرانے  زمانے  میں اردو سے  بی ا ے  کیا تھا، قرآن شریف انھوں نے  ایک مولانا صاحب سے  پڑھا تھا وہ بتایا کرتے  تھے  کہ ان کے  والد نے  ان کو دیوبند بھی  پڑھنے  کے  لئے  بھیجا تھا، ہمارے   پردادا ماسٹر پریم چند تو آدھے  مسلمان تھے، اور وہ ۱۸۵۷ء میں دیوبند والوں کے  ساتھ انگریزوں سے  لڑتے  ہوئے  شہید ہو گئے  تھے، انگریزوں نے  ان کے  گولی ماری تھی، ان کو مولاناقاسم جو دیوبند مدرسہ کی نیو رکھنے  والے  تھے  مولوی پریم چند کہتے  تھے، ان کے  بیٹے  بابو شیام لال بھی انگریزوں سے  جنگ کرتے  رہے  اور وہ بھی جنگ آزادی میں شہید ہوئے، میرے  پتاجی ان کے  اکیلے  بیٹے  تھے، گاندھی جی نے  ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اور انھوں نے  گاندھی جی کے  ساتھ ودیشوں کے  سفر بھی کئے، انگلینڈ اور افریقہ بھی گئے  تھے، ان کے  بہت دنوں تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، بعد میں ایک پہنچے  ہوئے  فقیر نے  دعا دی، میری ماتا جی کے  یہاں ۵۰/ سال کی عمر میں، میں پیدا ہوا، میرے  والد صاحب پر گاندھی جی کا بہت اثر تھا، وہ گاندھی جی کو آدھے  سے  زیادہ مسلمان سمجھتے  تھے، بلکہ کبھی کبھی تو کہتے  تھے  گاندھی جی اندر سے  مسلمان تھے  وہ بتاتے  تھے  کے  صبح اُٹھ کر گاندھی جی غسل کرتے  تھے، سب سے  پہلے  قرآن مجید پڑھتے  تھے  وہ قرآن مجید انھوں نے  میرٹھ کے  ایک حکیم صاحب سے  رائے  پور والے  حضرت جی کے  پاس بھجوایا تھا، اس پر انھوں نے  جگہ جگہ کچھ لکھ رکھا تھا، میرے  پتاجی کہتے  تھے، گاندھی جی کو گاندھی بنانے  والے  دیوبند کے  مولوی محمود تھے، جنھوں نے  ریشمی رومال اندولن کیا تھا، میرے  بچپن میں میرے  والد کا انتقال ہو گیا، میرے  رشتہ کے  چچا نے  میری پرورش کی، اس کی وجہ سے  میں اردو نہ پڑھ سکا، میری ماں بتاتی تھی کہ میرے  والد صاحب نے  نصیحت کی تھی کہ مجھے  دیوبند بڑے  مدرسہ میں پڑھایا جائے، مگر خاندان والے  میرے  والد کے  انتقال کے  بعد اس پر راضی نہ ہوئے، دورالہ سے  ہائی اسکول اور انٹر کرنے  کے  بعد میں نے  میرٹھ کا لج سے  بی ا ے  اور بعد میں ایل ایل بی کیا اور میرٹھ کچہری میں وکالت کرنے  لگا، تقریباً دس سال تک میں نے  پریکٹس کی، مگر مجھے  و کا لت سے  اندر سے  منا سب نہ تھی، جھو ٹی جھو ٹی گو اہی، دھوکہ، غلط دعوے، سچے  مقدمہ کے  لئے  بھی جھوٹ کاسہارالینا پڑتا تھامیں بہت دنوں تک اپنی انتر آتما (ضمیر) سے  لڑتا رہا، اور روزگار کی وجہ سے  وکالت کرتا رہا، مگر دل میں ہمیشہ یہ بات آتی تھی کہ روزی تو آدمی کو پاک رکھنی چاہئے، گندی اور جھوٹ کی روزی سے  جیون بھی کالا ہو گا اور آتما(روح) بھی کالی ہو گی، اس لئے  ۱۹۹۵ء میں میں نے  وکالت چھوڑ دی، بس کھیتی کرتا ہوں، چھو ٹی موٹی ایک دو تجارت بھی شروع کی ہے  مالک کا کرم ہے  کہ دو روٹی آرام سے  مل رہی ہیں۔

  سوال  :  اپنے  اسلام قبول کرنے  کا حال بیان کریں ؟

 جواب  : مولوی احمد صاحب سچّی بات یہ ہے، کہ میں بائی نیچر فطر تاً مسلمان ہی پیدا ہوا تھا۔

  سوال  : یہ تو بالکل سچی بات ہے، آپ ہی نہیں بلکہ ہر پیدا ہونے  والا بچہ فطرتاً مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے، سچے  نبی کا ارشاد ہے  :کُلُّ مَوْلُو دٍیُّوْ لَدُعَلَی الْفِطْرَ ۃِ، فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَ انِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ۔ ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھراس کے  والدین  اسے  یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے  ہیں۔

 جواب  : میرا حال یہ تھا کہ اگر میرے  والد کچھ دن زندہ رہتے  تو شاید میں دیوبند مدرسہ میں استاذ ہوتا، شاید میں آپ کا استاذ بنتا آپ نے  دیوبند سے  ہی مولویت کی ہے۔

  سوال  : نہیں !میں نے  دیو بند والوں کا ایک اور بڑا مدرسہ ہے  لکھنو میں، ندوہ وہاں سے  پڑھا ہے۔

 جواب  : ندوہ، مولانا علی میاں جی کا مدرسہ، جو لکھنو میں ہے  وہاں گیا ہوں، مولانا علی میاں جی بھی جو ندوہ مسجدکے  برابر میں رہتے  تھے، وہ تو ہمارے  دیش کے  بڑے  گورَو(قابل فخر) تھے، عرب دیش کے  سب عالم ان کو اپنا بڑا مانتے  تھے، ہمارے  مولانا کلیم جی ان کے  خاص مرید ہیں۔

  سوال  : جی جی وہی ندوہ ہے۔

 جواب  : آپ نے  سچ کہا کہ ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، تبھی تو ہمارے  یہاں ہندوؤں میں بچپن میں کوئی مر جائے  تو اس کو دبا یا جاتا ہے، مالک کی شان آگ سے  کیسے  بچاتے  ہیں، مگر مولانا احمد میں تو اسلامی نیچر پر بڑا بھی ہوا تھا، مجھے  ہندو دھرم سے  مناسبت نہیں تھی، میرا پر یورا حالانکہ آریہ سماجی ہے  اور آریہ سماج میں مورتی پوجا کی مخالفت تو اسلام سے  بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر مجھے  آریہ سماج بھی بھول بھلیاں میں بھٹکنے  کے  علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا، وکالت کے  زمانہ میں مجھے  دھرم پڑھنے  کا بہت شوق تھا مگر وکالت چھوڑنے  کے  بعد تو مجھے  کچھ کام نہیں تھا بس پڑھنے  کے  علاوہ، آریہ سماج اور دوسرے  دھرموں کو میں نے  بہت پڑھا، میں یہ سمجھا کے  سوامی دیا نند سرسوتی بلکہ ان کے   گروسوامی وویکا نند نے  جو کچھ سدھار کیا ہے  وہ اسلام کے  اثر سے  ہے، مگر وہ اسلام سے  چڑتے  ہیں، حالانکہ و ویکا نندجی تو کچھ دن مسلمان رہ بھی چکے  ہیں، مجھے  بہت ہی بلبلا ہٹ سی ہوتی ہے، اگر مولانا کلیم جی سوامی وویکانندجی سے  مل لیتے  تو ان کو آریہ سماج بنانے  کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ اسلام ان کے  مسئلہ کا حل تھا، میری بدقسمتی یہ ہے  کہ میں آس پاس کے  ماحول میں رہنے  کی وجہ سے  اسلام کو سب سے  کم پڑھ سکا، اس کے  باوجود کہیں مسجد میں نماز ہوتی، میں وہاں سے  گزرتا تو میں کھڑا ہو جاتا، بڑی حسرت سے  دیکھتا رہتا، مالک سے  شکایت کرتا، مالک! آپ سب کو پیدا کرنے  والے  ہیں، آپ نے  مجھے  اندر سے  تو مسلمان بنا یا اور پیدا ایک ہندو جاٹ پر یوار میں کر دیا، ایسا بیسیوں بار ہوا ہو گا، میں دو بار عید کی نماز دیکھنے  جامع مسجد دہلی تک گیا، ایک با رتو رات کو پہنچا اور صبح تک جامع مسجد پر انتظار کر تا رہا، مسجد میں پڑے  ہوئے  انسانوں کے  سمندر کو دیکھ کر مجھ سے  رہا نہ گیا اور ساتھ میں، میں بھی سجدہ میں پڑ گیا، مجھے  بہت رونا بھی آیا، اس دن مالک سے  میں نے  بہت شکایت کی۔

  سوال  : ماشاء اﷲ، اﷲ نے  آپ کی شکایت سن لی اور آپ کی مراد الحمد ﷲ پوری ہوئی، پھر مسلمان آپ کیسے  ہوئے، بتایئے ؟

 جواب  : جی بتا رہا ہوں، فروری میں اسی سال موبائیل پر ایک فون آیا، میں نے  رسیو کیا، تو آپ کے  ابی کا فون تھا، انھوں نے  کہا : السلام علیکم، میں نے  کہا وعلیکم، انھوں نے  کہا: مولانا راشد صاحب میں نے  کہا: یہ فون نمبر غلط ہے، یہ راشد کا فون نا ہے، انھوں نے  کہا : معاف کیجئے، فون بند ہو گیا، اصل میں مولانا صاحب کے  ایک ساتھی مولانا راشد ہیں جو رٹھوڑ امیں ایک مدرسہ چلاتے  ہیں، ان کا فون نمبر مولانا صاحب نے  ایک غلط نمبر کے  ساتھ فون میں فیڈ کر لیا تھا، اس کے  بعد ان کا صحیح نمبر بھی فیڈ کر لیا، مگر میرا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا اور پہلے  نمبر پر میرا فیڈ رہا، ڈیڑھ مہینے  کے  بعد پھر اچانک فون آیا: السلام علیکم میں نے  جواب دینے  کے  بجائے  کہا: بھائی تو نمبر ٹھیک کر لے  نا، بار بار کیوں پریشان کر ے  ہے، مولانا صاحب نے  پھر معافی مانگی، اگست میں پھر فون آیا، پھر السلام علیکم، میں نے  اس بار ذرا سخت لہجہ میں کہا : تو نمبر ٹھیک کیوں نہیں کر لیتا بار بار تھاکاڑ (پریشان) کر ے  ہے، مولانا صاحب نے  بھر معذرت کی اور فون بند کر دیا، میری قسمت اور اﷲ کا کرم تھا کہ مولانا صاحب نے  اس بار فون نمبر ڈیلیٹ کیا، مگر میرے  مالک کو مجھ پر پیار آ رہا، مولانا راشد کا اصل نمبر ڈیلیٹ ہو گیا، اور میرا نمبر اب بھی رہ گیا، اس سال رمضان میں ۱۴/ ستمبر کو مولانا صاحب کا پھر فون آیا: السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و بر کا تہ، میں نے  سخت لہجہ میں کہا : بھیا یہ نمبر غلط ہے، تجھے  کب تک بتاؤں، کیا تو میری جان ہی لے  گا، مولانا صاحب نے  ہنس کر کہا، بھائی صاحب، آپ کیسے  کہہ رہے  ہیں کہ یہ نمبر غلط ہے، میرے  بھائی کاہے، میں نے  کہا یہ نمبر بھائی میرا ہے، تیرے  بھائی کا نہیں ہے، مولانا صاحب نے  کہا یہ آپ کا نمبر ہے  نا ؟ میں نے  کہا : ہاں میرا نمبر ہے، مولانا صاحب نے  کہا: آپ کا نام کیا ہے ؟ میں نے  کہا: ستیندر ملک، مولانا صاحب کے  کہا : ہاں بھائی ستیندر ملک آپ سے  ہی تو بات کرنی ہے، آپ ہی تو میرے  بھائی ہیں، آپ مجھے  نہیں جانتے  ؟ میں نے  کہا نہیں میں تو آپ کو نہیں جانتا، مولانا صاحب نے  کہا کہ آپ اور ہم سب ایک ماتا پتا کی سنتان ایک ماں باپ کی اولاد نہیں ہیں کیا، میں نے  کہا:ہاں، مولانا صاحب نے  کہا : تو ایک ماں باپ کی سنتان کو ہی تو بھائی کہتے  ہیں، آپ اپنے  خونی رشتے  کے  بھائی کو نہیں پہچانتے ؟ آپ کی عمر کیا ہے ؟ میں نے  کہا ۵۶/سال ہے، مولانا صاحب نے  کہا : آپ تو میرے  بڑے  بھائی ہیں اور خونی رشتے  کے  سگے  بھائی؟ چھوٹے  بھائی کی خیر خبر تو آپ لیتے  نہیں، چھوٹا بھائی سلام بھی کر تا ہے  تو آپ ہر دفعہ ڈانٹ دیتے  ہیں، ورنہ بڑے  بھائی پر میرا حق تھا کہ آپ ہر روز خیر خبر لیتے، گھر آ کر حال چال پوچھتے، چال چلن پر نظر رکھتے، پر یورا گھر بار دیکھتے، مولانا صاحب نے  معلوم کیا کہ آپ کہاں رہتے  ہیں، میں نے  کہا دو رالہ کے  پاس نگلہ میں، مولانا صاحب بو لے : اتنے  پاس آپ رہتے  ہیں سچے  بھائی تو دور دیشوں سے  آتے  ہیں، بہت سے  بھائی پاکستان میں رہتے  ہیں، پاکستان میں ویزہ وغیرہ ملنا کتنا مشکل ہے، مگر لو گ دور کے  رشتہ داروں کی خیریت لینے  آتے  ہیں، آپ میرے  اتنے  قریب کی پڑوسی اور خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، آج تک ایک بار بھی خیر خبر لینے  نہیں آئے  اور اگر میں سلام کر تا ہوں تو ہر بار الٹا ڈانٹ دیتے  ہیں، مولانا صاحب نے  کچھ ایسے  پیار سے  بات کی مجھے  واقعی بہت شرمندگی ہوئی، میں نے  کہا: بھائی آپ کہاں رہتے  ہوں ؟ مولانا نے  بتایا، پھلت کھتولی کے  پاس، میں نے  کہا: وہاں تو ہم ایک بار بھینس خرید نے  گئے  تھے، میں نے  کہا بھائی صاحب میں آپ سے  آج ہی ملنے  آ جاؤں ؟ واقعی میری غلطی ہے، مجھے  اپنے  بھائی کے  پاس آنا چاہئے، مولانا نے  کہا : آج تو میں سفر پر جا رہا ہوں، میں نے  کہا : تو کل آ جاؤں ؟ مولانا صاحب نے  کہا کل بھی رات تک واپسی ہو گی، آپ پر سوں آ جائیں، ۱۶/ ستمبر کو دس بجے  بات طے  ہو گئی، میں نے  مولانا کا نام معلوم کیا، بولے  کہ گاؤں میں داخل ہو تے  ہی مدرسہ ہے، وہاں کلیم نام پوچھ لیجئے، ۱۶ / ستمبر کو میں کھتولی بس سے  آیا، کھتولی سے  جگاڑ میں پھلت کے  لئے  بیٹھ گیا، جگاڑ والے  سے  معلوم کیا کہ بھائی یہاں مدرسہ ہے  کلیم صاحب سے  ملنا ہے، جگاڑ والے  نے  کہا اچھا آپ کو حضرت سے  ملنا ہے، میں نے  کہا: کلیم نام بتایا ہے، اس نے  کہا: وہی حضرت ہیں، اس نے  معلوم کیا کہ آپ مسلمان ہونے  آئے  ہیں کیا؟ میں نے  ہنس کر کہا کہ اگر وہ کریں گے  تو ہو بھی جائیں گے، جگاڑ سے  اتر کر پھلت مولانا صاحب کے  گھر پہنچے، مولانا صاحب یہاں سامنے  کرسی پر کچھ لوگوں کے  ساتھ بیٹھے  تھے، کھڑے  ہو کر ملے، جب میں نے  اپنا نام بتایا ستیندرملک ایڈوکیٹ، تو پھر گلے  لگایا، بہت ہی محبت سے  سواگت(استقبال)کیا، بار بار بولے  میرے  بڑے  بھائی صاحب، بہت بہت شکریہ، بھائی صاحب آپ چھوٹے  بھائی کی خیر خبر لینے  آہی گئے، رمضان کے  باوجود چائے  ناشتہ کا انتظام کر وایا، چائے  پر بیٹھ کر بات شروع ہوئی اور چائے  کے  ساتھ ساتھ اسلام بھی بتلاتے  رہے  اور چائے  ختم نہیں ہوئی کہ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان تھا، میرا نام محمد صادق رکھا، کھتولی تک اپنی گاڑی سے  رخصت کر ایا ’’ آپ کی امانت  اور ‘‘ اور ’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟‘‘ کتاب بھی دی، میں نے  کئی بار ان کتابوں کو پڑھا، اپنی بیوی سے  اپنے  مسلمان ہونے  کی بات بتائی، پہلے  تو وہ بہت روئی، میں نے  اس سے  کہا میرے  پاس دو کتابیں ہیں پہلے  ان کتابوں کو تم تین بار پڑھ لو، اگر تم کہو گی تو میں واپس ہندو ہو جاؤں تو میں تیار ہوں، میری بیوی نے  آپ کی ا مانت ایک بار پڑھی اور پھر مرنے  کے  بعد کیا ہو گا پڑھ رہی تھی، میرے  پاس آئی اور کہنے  لگی مجھے  بھی مسلمان بنوا دو، میں نے  اﷲ کا شکر ادا کیا، ہمارے  دونوں بچے  مسلمان ہو گئے  ہیں تینوں کو میں نے  پھلت آ کر کلمہ پڑھوایا، میری بیوی کا نام فاطمہ بیٹی کا نام آمنہ اور بیٹے  کا محمد احمد رکھا گیا، الحمد  ﷲ ہمارا پورا پریوار مسلمان ہے۔

  سوال  : خاندان والوں کو بھی آپ کے  اسلام کا علم ہو گیا؟

 جواب  : خاندان والے  ہمارے  سخت دشمن ہو گئے  وہ پہلے  سے  بھی بڑے  سخت رہے  ہیں، انھوں نے  گاؤں والوں کی پنچایت کی، مگر میں وکیل بھی ہوں، اس لئے  میں نے  آئی جی، ایس ایس پی کے  یہاں در خواست دے دی، شروع میں تو بہت شور ہوا، مگر اب بات دب گئی ہے، میں نے  ایک گھر دہلی میں بنا بھی لیا تھا، دونوں بچے  دہلی میں پڑھ رہے، میں نے  مولانا صاحب کے  مشورہ سے  ہی گھر خاندان والوں سے  ذرا دور رہنے  کا اپنا پلان بنایا ہے۔

  سوال  : اسلام میں آ کر آپ کوکیسا لگ رہا ہے ؟

 جواب  : اسلام میں آ کر مجھے  ایسا لگ رہا ہے  جیسے  کوئی گھر سے  بھٹکا اپنے  گھر واپس آ جائے، میں نے  جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھ رہا ہوں مجھے  ماتا پِتا(ماں باپ) دادا، پر دادا کی یاد تڑپاتی ہے  میرے  اندر ایک عجیب سی جنونی کیفیت ہو جاتی ہے، نہ جانے  اتنے  مسلمانوں کے  بیچ بلکہ مولویوں کے  بیچ وہ رہے، حتی کہ مولویوں کے  ساتھ شاملی میں شہید بھی ہوئے، وہ ان کو انگریزوں سے  تو لڑاتے  رہے، دیش کو آزاد کرانے  کے  لئے  ابھارتے  رہے  مگر خود ان کو شرک سے  آزاد کرانے  کے  لئے  فکر نہیں ہوئی، بڑوں کو مرنے  کے  بعد برا کہنا اچھا نہیں، مگر احمد بھائی، آپ میرے  حال کو سمجھ نہیں سکتے، مجھے  تو وہ سب ظالم لگتے  ہیں جنھوں نے  اپنے  ایسے  وفاداروں کو ایمان کے  لئے  نہیں کہا، وہ مجھ سے  سوگنا زیادہ اسلام کے  قریب تھے، ان کو معلوم ہی نہیں تھا اسلام قبول کرے  بغیر (دھڑ دھڑی لیتے  ہوئے، انتہائی کرب میں )نہ جانے  وہ انسان بھی تھے  کہ نہیں، مسلمان تو بہت دور کی بات ہوتی ہے۔

  سوال  : آپ یہ ہی کیوں سمجھتے  ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے، کیا خبر کسی نے  ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہو، یا  پھر موت کے  وقت فر شتوں نے  انھیں کلمہ پڑھوا دیا ہو؟

 جواب  : مولوی احمد صاحب، میں بچہ نہیں ہوں، میں نے  اپنے  بچپن میں اپنے  پتا جی کو چتا میں جلایا ہے  اور بے  دردی سے  جلتے  دیکھا ہے، جو باپ اپنے  بیٹے  کو دیو بند مدرسے  میں پڑھانے  کی وصیت کرے، اس کا اس طرح خود ہندو رہ کر چتا میں جلنا مولانا لوگوں کا اور مسلمانوں کا ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟

  سوال  : آپ جس طرح کا حال ان کا کہہ رہے  ہیں، مجھے  امید ہے  کہ اﷲ نے  ان کو ضرور ایمان دیا ہو گا، یہاں کی آگ سے  وہاں کی آگ کا کوئی رشتہ نہیں۔

 جواب  : عید کی رات مجھے  اس خیال میں نیند نہیں آئی اور میں بہت تڑپتا رہا اور دل میں آتا تھا کہ سارے  مسلمانوں کو کوسوں، رات کو پھر وضو کیا، نماز کے  لئے  ٹوٹی پھوٹی نیت باندھی اور دیر تک روتا رہا صبح کو آنکھ لگی میں نے  اپنے  دادا اور پتاجی کو دیکھا وہ کہہ رہے  تھے  بیٹا صادق اﷲ سارے  انسانوں کے  رب ہیں، مسلمانوں کے  نہیں، اﷲ ہم سے  خوش ہیں اور ہم بھی مسلمان ہیں، کچھ تسلی ہوئی، مگر خواب تو خواب ہے۔

  سوال  : ماشاء اﷲ آپ پھلت آتے  رہتے  ہیں، کچھد ین کو سیکھنے  کا پروگرام نہیں بنایا ؟

 جواب  : نومبر میں جماعت میں جا رہا ہوں، دو تین روز مجھے  فون پر بات نہ ہو تو میں بے  چین ہو جاتا ہوں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا اﷲ کریم ہے  کہ اس نے  آپ کے  ڈیلیٹ کر نے  کے  باوجود اپنی فہرست سے  میر ا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا، میرا دل چاہتا ہے  کہ اپنے  سارے  جاننے  والوں کے  نمبر آپ کے  فون میں فیڈکر دوں تاکہ سب کو ہدایت ہو جائے، مولانا صاحب نے  کہا : آپ نے  اچھا کیا توجہ دلائی، میرے  فون میں بہت سے  ڈاکٹروں اور غیر مسلم بھائیوں کے  فون نمبر فیڈ ہیں، مجھے  فکر ہوئی کہ یہ سب میدان محشر میں میں میرا گلا پکڑیں گے  کہ ہمارے  فون نمبر بھی ان کے  فون میں تھے، پھر بھی ہماری فکر نہیں کی، جن لوگوں کے  فون نمبر ہم اپنے  موبائیل میں فیڈ کرتے  ہیں ان سے  ہمارے  معاملات یادوستی کا تعلق ہونا تو طے  ہے  اور اﷲ کے  نبی کا فرمان ہے  کہ اﷲ کی جنت ان لوگوں پر حرام کر دی گئی، جو لوگوں سے  معاملات اور لین دین تو کر تے  ہیں اور ان کو دین نہیں  پہنچاتے، ظاہر ہے  یہ ہمارا موبائیل فون اﷲ کے  یہاں ہمارے  ان لوگوں سے  تعلق کی گواہی دیں گے، مجھے  بہت فکر ہوئی کہ کم از کم فون والوں تک بات تو پہنچا دی جائے، مولانا صاحب نے  بتایا کہ اس کے  بعد سے  میں نے  سب سے  بات شروع کر دی، الحمد ﷲ دو لوگوں نے، ایک ڈاکٹر اور دہلی کے  وکیل صاحب نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، ان دونوں اور باقی لوگوں کو اگر اﷲ نے  ہدایت دی تو ان کی ہدایت کا ثواب آپ کو ملے  گا۔

  سوال  : ارمغان کے  قارئین کیلئے  آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

 جواب  : میرے  جیسے  نہ جانے  کتنے  لوگ ایسے  ہوں گے  جو اندر سے  مسلمان ہیں، اور جب سچے  نبی نے  بتایا کہ ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے  تو ایک مسلمان کو اس پر یقین کر نا چاہیئے  جس طرح کسی مذہب پر کوئی آدمی ہے  وہ اپنے  گھر، سے  بھولا بسرا یا بھٹک گیا ہے  اس کو اپنے  گھر لانا اس کے  ساتھ کیسی بھلائی ہے، جو مسلمان ہو گیا تو گویا آپ نے  اس کے  گھر پہنچا دیا، مولانا صاحب کہتے  ہیں کہ مجھے  دعوت کی الف با بھی نہیں آتی اس روز آپ آئے  تو کوئی جاننے  والا تھا نہیں، مجھے  بہت فکر ہوئی کہ مجھے  کچھ آتا نہیں مگر آپ آ گئے  تھے  تو بات کرنی ہی تھی آپ معمولی سی دعوت پر مسلمان ہو گئے  اصل میں آپ مسلمان ہوئے  نہیں بلکہ مسلمان تو تھے  ہی بس آپ نے  باہر سے  اظہار کر دیا، مسلمان صرف اندر کے  مسلمانوں کو تلاش کر کے  جن کی دوسرے  مذہب میں رہنے  کے  باوجود فطرت اسلام ہی ہے، ان سے  ظاہری طور پر اسلام کا ا قرار کرا لیں تو ہندوستان میں بہت جلد مسلمانوں کی کثرت ہو جائے  گی، میں بہت ذمہ داری سے  یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہندوؤں میں اندر سے  خود فطری مسلمانوں کی تعداد خاندانی مسلمانوں سے  زیادہ ہے، بس مسلمان ان کو پہچان کر ان کو ظاہر کر لیں تو ملک کا نقشہ دوسراہو گا۔

  سوال  : بہت خوب، واقعی آپ نے  بڑے  پتہ کی بات کی ہے۔بہت بہت شکریہ!

 جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ! آپ نے  موقع دیا، اچھا السلام علیکم

  سوال  : وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲوبر کاتہٗ

 جواب  : مولوی احمد !میرا دل چاہتا ہے  کہ مسلمان اگر سیاسی الوسید ھا کر نے  والے  اور ان کے  جھانسے  میں آ کر جذباتی ناسمجھ غیر مسلموں سے  متاثر ہو کر ایکشن(انفعال) کا راستہ چھوڑ کر اگر صرف غیر مسلموں میں اندر کے  مسلمانوں کو تلاش کر کے  ان کو ابھاریں تو شیطان اور باطل کے  سارے  حربے  مکڑی کا جالا بن جائیں، کتنے  اندر کے  مسلمان اپنے  ایمان کو اندر لے  کر مر جاتے  ہیں، میرا دل جانتا ہے  کہ گاندھی جی اندر سے  مسلمان تھے، جواہر لال نہرو اندر سے  مسلمان تھے، سبھاش چند ربوس اندر سے  مسلمان تھے  کھتولی کے  پنڈت سندر لال اندر سے  مسلمان تھے، بس مسلمانوں نے  ان کا حق ادا نہیں کیا، آج بھی بعض لوگوں کی تقریریں سنیں، بل کلنٹن اندر سے  مسلمان ہیں، نیلسن منڈیلا اندر سے  مسلمان ہیں، ، پرنس چارلس اندر سے  مسلمان ہیں، خود ہمارے  ملک میں کتنے  ہندو بھائی ہیں جو ظاہر داری کو نبھا رہے  ہیں، کاش بس ایک طرف ہو کر اس کوشش میں سارے  مسلمان جٹ جائیں کہ غیر مسلموں میں اندر سے  مسلمان، باہر سے  ا قرار کر لیں تو نہ صرف ہمارے  ملک بلکہ ساری دنیا کا نقشہ دوسرا ہو گا۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، نومبر ۲۰۰۸ ء

٭٭٭

جناب قاضی محمد شریح صاحب {سمیر} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ                      : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

قاضی محمد شریح  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ مولانا احمد صاحب

  سوال  :  قاضی محمد شریح صاحب ! ماشاء اللہ ابی نے  ابھی بتایا کہ ابی نے  آپ کا نام قاضی محمد شریح رکھا ہے ؟

 جواب  : ہاں مولانا احمد صاحب! ابھی میں نے  بہت اچھی طرح اعلان تو نہیں کیا مگر حضرت جی نے  میرا نام قاضی محمد شریح رکھا ہے، نام ذرا مشکل ہے  مگر جب حضرت نے  تاریخ بتائی تو مجھے  اچھا لگا اور دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نام کی برکت سے  اگر قاضی شریح کا کروڑواں حصہ بھی مجھے  ان کی خوبی دیدے  تو میرا بیڑہ پار ہو جائے  گا۔

  سوال  :  اصل میں ابی کا کہنا ہے  کہ مسلمانوں بلکہ اس پوری دنیا کے  انسانوں کی خیر و ترقی اس میں ہے  کہ یہ پیچھے  ہٹ کر چودہ سو سال پہلے  کے  زمانے  سے  وابستہ ہو جائیں، اس زمانہ اور اس کے  مزاج سے  دنیا کے  دور ہو جانے  کی وجہ سے  ساری تباہی آ رہی ہے، اس لئے  ابی لوگوں کے  مدرسوں کے  نام، دفتروں کے  نام خیرالقرون سے  ملا کر رکھنے  پر زور دیتے  ہیں، مدرسہ صفۃ الاسلام، دار ارقم، دار ابی ایوب وغیرہ قاضی شریح ہمارے  نبی ﷺ کے  چوتھے  خلیفہ کے  زمانے  میں بڑے  مشہور قاضی تھے۔

 جواب  : ہاں انھوں نے  وہ قصہ سنایا تھا کہ حضرت علیؓ کے  مقابلہ میں ایک یہودی کے  حق میں انھوں نے  زرہ کے  مقدمہ میں شرعی گواہ نہ ہونے  کی وجہ سے  فیصلہ سنایا تھا اور اس انصاف پروہ یہودی مسلمان ہو گیا تھا۔

  سوال  :  جی بالکل وہی واقعہ ان کا مشہور ہے  اور بھی ان کے  انصاف اور عدل کے  بہت سے  واقعات ہیں، قاضی صاحب آپ کو ابی نے  بتایا ہو گا کہ مجھے  آپ سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے ؟

 جواب  : جی ابھی بتایا ہے، میں نے  عرض بھی کیا کہ بار بار اجازت کے  باوجود آپ نے  مجھے  اپنے  قبول اسلام کا اعلان کرنے  سے  منع کیا ہے  اور ایسے  میں میرا انٹرویو چھپنا کیا مناسب ہو گا، حضرت جی نے  فرمایا کہ مقصد تو نصیحت اور دعوتی جذبہ پیدا کرنا ہے، آپ اپنا اجمالی تعارف کرا دیں، اصل میں رمضان کا مہینہ ہے  اور آپ آ گئے  ہیں، اس برکت والے  مہینہ میں آپ کا ہی حال چھپ جائے  تو یہ بہتر ہے۔

  سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

 جواب  : میں ہریانہ کے  ایک جاٹ خاندان میں ۲۳/مئی  ۱۹۶۲ء کو پیدا ہوا، روہتک سے  میں نے  بارہویں کلاس اور پھر بی ایس سی کیا اور بعد میں میرے  والد نے  جو چندی گڑھ میں جج تھے  میری لائن بدلنے  کا فیصلہ کیا اور ایل ایل بی کرنے  کو کہا، میں نے  ایل ایل بی کیا اور چندی گڑھ سے  وکالت شروع کر دی اور پھر اللہ نے  یہ کیا PCS پہلی بار میں کوالی فائی کیا، آج کل ایک ضلعی عدالت میں CIA ڈی جے  ہوں، انشاء اللہ بہت جلد ڈسٹرکٹ جج بننے  کی امید ہے، میری ایک بہن DSP ہیں، ان کے  شوہر ADMہیں، ہمارا خاندان اللہ کا شکر ہے  کہ پڑھا لکھا خاندان ہے، ہمارے  خاندان میں اردو کا رواج رہا ہے، میرے  دادا اُردو کے  بہت اچھے  شاعر تھے، مخدوم اپنا تخلص لکھتے  ہیں وہ مخدوم پانی پتی کے  عقیدت مندوں میں تھے۔

  سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

 جواب  : میں ہریانہ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ میں جج کے  عہدہ پر فائز تھا ہمارے  خاندان میں انسانی قدروں کی بڑی اہمیت تھی، گھر میں بوڑھی عورتیں اور بڑے، مہاپرشوں، صوفیوں اور اچھے  لوگوں کے  قصے  سناتے  تھے، میرے  والد خود بہت ایمان دار افسر تھے، میں نے  پریم چند کی کہانیاں پڑھی تھیں، میں نے  پنچ پرمیشور کہانی بھی پڑھی تھی، اس کہانی سے  میرے  ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فیصلہ کی گدی پر آدمی خدا کا نائب بن کر بیٹھتا ہے  اس کو سارے  انسانوں کو ایک آنکھ سے  دیکھنا چاہئے  اور انصاف کرنا چاہئے، اللہ کا شکر ہے  کہ میں اس کا خیال کرتا ہوں اور عدالت میں اپنی طرف سے  انصاف کرنے  کی کوشش کرتا ہوں، جب آدمی نیکی کرتا ہے  تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی لوگوں کے  دلوں میں عزت اور محبت پیدا کر دیتے  ہیں، میں جہاں بھی رہا لوگ میری ایمان داری کی وجہ سے  میری بہت قدر کرتے  تھے  بلکہ میں نے  دیکھا ہے  کہ بے  ایمان اور رشوت لینے  والے  بھی میری عزت کرتے  بلکہ میں نے  تو دیکھا کہ میرے  افسر بھی میری ہمیشہ کی ایمان داری کی وجہ سے  بہت عزت کرتے  ہیں، پانچ سال پہلے  کی بات ہے  ایک روز صبح مارننگ واک (چہل قدمی) کر رہا تھا، مولانا صاحب کا ایک شاگرد جو بہت شریف اور محبت بھرا نوجوان ہے  میرے  پاس آیا اور مجھ سے  کہا کہ آپ ہمارے  شہر میں آئے  ہیں یہ بڑی خوشی کی بات ہے، سب لوگ آپ کی تعریف کرتے  ہیں اور آپ سے  محبت کرتے  ہیں، میں آپ سے  کافی روز سے  بات کرنا چاہ رہا ہوں آپ مجھے  دس منٹ کا وقت دے دیجئے، میں نے  کہا ابھی میرے  ساتھ چلئے  ایک کپ چائے  پی لیجئے، اس نے  کہا کہ ہمارے  حضرت یہ کہتے  ہیں قرآن نے  کہا ہے  کہ جب کسی سے  ملنے  جانا ہو تو اپارٹمنٹ لے  کر جاؤ ، میں نے  کہا میں ٹائم دے  رہا ہوں، میرے  پاس ابھی وقت ہے، وہ خوش ہوا میرے  ساتھ میرے  گھر آیا اور بولا : مجھے  یہ فکر ہے  جج صاحب آپ اتنے  ایمان دار اور بھلے  افسر ہیں آپ کو ایک دن مرنے  کے  بعد بڑی عدالت میں مجرموں کے  کٹہرے  میں کھڑا ہونا پڑے  گا اور آپ پر غداری کا مقدمہ چلے  گا، میں نے  حیرت سے  پوچھا مجھ پر غداری کا مقدمہ چلے  گا؟ بولے  جی، جس دیش میں آدمی رہتا ہو وہاں کے  حاکم اور مالک کو نہ مانے  اور وہاں کے  سن و دھان (Constitution) کو نہ مانے  وہ باغی اور غدار ہے، اس پوری سرشٹی (کائنات) کا حاکم و مالک ایک اللہ ہے  اور اس کا فائنل دستور سنو دھان قرآن مجید ہے، جو اللہ کو اور قرآن کو نہ مانے  وہ تو باغی اور غدار ہے، میں نے  کہا آپ کے  پاس کیا ثبوت ہے  کہ مجھ پر یہ مقدمہ چلے  گا؟ اس نے  بڑے  درد اور حیرت سے  کہا کہ میں اتنا پڑھا لکھا تو ہوں نہیں کہ آپ کو ترک (دلائل)سے  سمجھا دوں مگر جب آنکھ کھلے  گی جس کو آپ مرنا اور آنکھ بند ہونا کہتے  ہیں ہم اسے  آنکھ کھلنا کہتے  ہیں تو بات ہماری ہی سچی ہو گی، مگر جج صاحب اس وقت آپ کو فیصلہ کا اختیار نہیں رہے  گا تو مجبوراً آپ کو ہمیشہ کی نرک کی جیل میں جلنا پڑے  گا، یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے  محبت اور ترس سے  دو آنسوں نکلے، جن میں سے  ایک تو زمین میں ٹپک گیا اور دوسرا پلکوں میں اٹک گیا، مولانا احمد صاحب بے  لوث محبت اور ہمدردی میں اس کے  وہ دو آنسو میرے  گلے  کا پھندہ بن گئے، میرے  دل میں آیا کہ سمیر ایسے  ہمدرد کی بات میں ضرور سچائی ہے  اور اس کی ماننے  میں میرے  لئے  بھلائی ہے، میں نے  کہا مجھے  کیا کرنا چاہئے، اس نے  کہا آج پہلی تاریخ ہے  ہمارے  حضرت سونی پت آتے  ہیں، آپ کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنا دیں گے، میں نے  کہا کس وقت چلنا ہے ؟ اس نے  کہا دس بجے  یہاں سے  چلیں گے  گیارہ بجے  تک پہنچ جائیں گے، حضرت گیارہ ساڑھے  گیارہ بجے  تک آ جائیں گے، دس بجے  ہم دونوں چلے، گیارہ بجے  سونی پت پہنچے، اتفاق سے  مولانا کو اس روز کوئی کام تھا جس کی وجہ سے  ڈیڑھ بجے  سونی پت پہنچے، گاڑی کی آواز آئی، میں کمرے  سے  نکلا، مولانا صاحب سے  ملاقات ہوئی، میں نے  کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، حضرت صاحب نے  کہا: ایمان اندر کے  یقین کا نام ہے، آپ نے  ارادہ کر لیا بس ہو گیا، ہم بھی اس ثواب میں شریک ہو جائیں اس کے  لئے  کلمہ پڑھ لیجئے، یہ کلمہ آخری اور مکمل دستور قرآن کو، نبی کے  طریقہ پر عمل کرنے  اور اس کو ماننے  کا حلف ہے، جو ہر آدمی کو عہدہ سنبھالتے  وقت لینا ہوتا ہے، حضرت نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور اردو میں ترجمہ بھی کہلوایا پھر مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نے  اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے، آپ نے  اسلام کو پڑھا اور سمجھا بھی ہے ؟ میں نے  کہا میں نے  ایل ایل بھی میں مسلم پرسنل لا جو کچھ پڑھا ہے  بس اس کے  علاوہ ایک لفظ نہیں پڑھا، مسلمانوں سے  زیادہ رابطہ بھی نہیں رہا بلکہ نام کیلئے  بھی مسلمانوں سے  رابطہ نہیں رہا، ہریانہ میں مسلمان ہیں بھی ناکے  برابر، حضرت  نے  پوچھا پھر اتنا بڑا فیصلہ آپ نے  کس بات پر لیا؟ میں نے  کہا آپ کا یہ مرید میرے  پاس آیا اور محبت سے  مجھ سے  کہا: آپ اتنے  ایمان دار افسر ہیں، مگر آپ پر ایک بڑی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلے  گا اور جب میں نے  اس سے  ثبوت مانگا تو جواب میں محبت سے  اس کی آنکھوں سے  دو آنسو نکل گئے، ایک زمین میں گر گیا اور ایک پلکوں میں اٹک گیا، حضرت صاحب مجھے  آج معلوم ہوا کہ ہتھکڑی پڑ کر مجرم کیسے  بے  بس ہو جاتا ہے، یہ محبت بھرے  دو آنسو میرے  گلے  کا پھندہ بن گئے، میرے  دل نے  کہا ایسے  محبت بھرے  آدمی کی بات ماننے  میں بھلائی ہے، ایسا خیر خواہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، حضرت نے  میرا نام قاضی محمد شریح رکھا اور پورا قصہ قاضی شریح کا سنایا، مجھے  بار بار مبارک باد دی اور اسلام پڑھنے  کے  لئے  کہا، کتابوں کی ایک فہرست بنائی اور ایک مولانا کے  ذمہ لگایا کہ وہ دہلی سے  یہ کتابیں مجھے  منگا کر دیں۔

  سوال  :  اس کے  بعد آپ نے  وہ کتابیں پڑھیں ؟

 جواب  : سب سے  پہلے  میں نے  ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پڑھی، اس کتاب نے  مجھے  اپنے  فیصلہ پر بڑا اعتماد پیدا کیا کہ بے  سوچے  سمجھے  میں نے  کتنا سوچا سمجھا فیصلہ لیا بلکہ سچی بات یہ ہے  کہ میرے  اللہ نے  مجھے  کتنا سوچ سمجھ کر لینے  والا فیصلہ، بے  سوچے  سمجھے  لینے  پر مجبور کیا، اس کے  بعد میں نے  ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘ پڑھی اس کتاب نے  یوم آخرت خصوصاً حشر کی عدالت کو دل و دماغ پر ایسا طاری کیا کہ اب عدالت میں جج کی کرسی پر ہوتا ہوں اور  میرا ذہن اللہ کی عدالت میں حساب دیتے  وقت مجرموں کے  کٹہرے  میں اپنے  کو کھڑا پاتا ہے، بعض مرتبہ اس خوف میں بہت زیادہ بدحال ہو جاتا ہوں اس کے  بعد الحمدللہ ایک کے  بعد ایک کئی سوکتابیں پڑھ چکا ہوں۔

  سوال  :  آپ نے  گھر والوں کو ابھی تک نہیں بتایا؟

 جواب  : پانچ سال ہونے  والے  ہیں میں خود بہت پریشان ہوں مگر جب بھی حضرت سے  بات ہوتی ہے  تو حضرت کہتے  ہیں کہ ابھی کچھ روز بعد اعلان کیجئے، الحمدللہ میری اہلیہ تو مسلمان ہو گئی ہیں اور میرے  دونوں بچے  بھی، ہم چاروں تو نماز روزہ گھر میں پابندی سے  ادا کرتے  ہیں، آج حضرت نے  فرمایا کہ اب انشاء اللہ رمضان کے  بعد اعلان کروائیں گے، میرے  دل میں بار بار غیرت کی وجہ سے  بہت جذبہ ہوتا ہے  کہ حضرت ابوذرؓ نے  بھی تو حضور  ﷺ کے  منع کرنے  کے  باوجود اعلان کر دیا تھا، مگر پھر اندر سے  کوئی سمجھاتا ہے  کہ ایک آدمی کو اپنا رہبر بنا لیا ہے  تو پھر اپنی چلانے  کے  بجائے  اس کی ماننے  میں عافیت ہے، بعض دوسرے  معاملات میں میں نے  تجربہ بھی کیا کہ حضرت کی مرضی ماننے  میں بڑی بھلائی ملی۔

  سوال  :  نماز وغیرہ آپ کہاں پڑھتے  ہیں اور جمعہ کی نماز کا کیا کرتے  ہیں ؟

 جواب  : عام اعلان میں نے  نہیں کیا ہے  ورنہ بہت سے  مسلمانوں کو الحمدللہ ہمارے  اسلام کا علم ہے، میں جمعہ کی نماز جہاں رہتا ہوں اس سے  دور کسی شہر گاؤں یا قصبہ میں جہاں جمعہ ہوتا ہو تلاش کر لیتا ہوں الحمدللہ جمعہ پابندی سے  پڑھتا ہوں، یوں بھی جماعت میں میں نے  تین روز الحمدللہ اب تک سات مرتبہ لگائے  ہیں مگر دور جا کر۔

  سوال  :  آپ کو اسلام میں آ کر کیسا لگا؟

 جواب  : ہریانہ میں ۱۹۴۷ء کے  بعد اسلام اور مسلمان تو ایسے  ہی ہیں، اس لئے  رسم و رواج کے  لحاظ سے  اسلام سے  ہمیں مناسبت کم ہی تھی، اگر چہ اردو تہذیب اور گھر میں نان ویج کا رواج تھا، مگر چونکہ عقیدہ اور پورے  ضابطہ کے  لحاظ سے  اسلام بالکل نیچرل مذہب ہے  مجھے  بالکل بھی اجنبی نہیں لگا، بلکہ ایسا لگا کہ میری چیز تھی حضرت صاحب کتنی سچی بات کہتے  ہیں، سونی پت میں ان کی تقریر میں نے  سنی، اسلام دین فطرت ہے، پیاسے  انسان کو جس طرح بھی آپ اس کے  ہونٹوں کے  پاس پانی لائیں گے  تو جس طرح وہ اس کو قبول کرے  گا اسی طرح انسانی فطرت، دین فطرت کی پیاسی ہے، اس کو دین فطرت اجنبی نہیں لگتا، شرط یہ ہے  کہ اس کے  ہونٹوں تک لگا دیا جائے۔

  سوال  :  ابی نے  آپ کو دعوت پر نہیں لگایا، گھر والوں اور خاندان والوں پر کام کے  لئے  نہیں کہا؟

 جواب  : ہاں الحمدللہ کہا ہے، میں کام بھی کر رہا ہوں، الحمدللہ میری ایک بوا (پھوپی) اور ان کے  شوہر مسلمان ہو گئے  ہیں، میرے  چچا کے  ایک بیٹے  مسلمان ہو گئے  ہیں، میرے  چھ نوکر مسلمان ہو کر اعلان کر چکے  ہیں، دو نے  تو مسلمان لڑکیوں سے  شادی بھی کر لی ہے۔

  سوال   :   ماشاء اللہ ! اچھا ارمغان کے  لئے  آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

 جواب  : حضرت فرماتے  ہیں اور کتنی سچی بات فرماتے  ہیں کہ یہ ملک اہل محبت کا ملک ہے، محبت یہاں کے  لوگوں کی کم زوری ہے  سچی ہمدردی اور محبت کے  سامنے  یہ قوم پاؤں نہیں جما پاتی، فوراً مائل ہو جاتی ہے، اس قوم کی اس خوبی کا فائدہ اٹھا کر ہم لوگ کچھ ناسمجھ لوگوں کی گندی سیاسی فرقہ پرستی سے  متاثر ہونے  کے  بجائے  ان کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی سمجھ کر اگر محبت سے  دعوت دیں تو ایسا ہونہیں سکتا کہ یہ قوم ٹھکرائے، یہاں دعوت کا کام کرنے  کے  لئے  زیادہ بحث و مباحثہ اور عقلی دلائل اور اس کی صلاحیت کی ضرورت نہیں بلکہ صرف محبت اور جرات کی ضرورت ہے  اور جرات سے  زیادہ محبت کی، شرط یہ ہے  کہ محبت وہ جو اندر سے  ابلے  اور دل تک پہنچ جائے، جب ایک کم پڑھے  لکھے، سیدھے  دیہاتی نوجوان کے  دو بلکہ ڈیڑھ آنسو مجھے  ہمیشہ کے  کفر شرک سے  نجات کا ذریعہ بن سکتے  ہیں اگر رحمۃ للعالمین نبی  ﷺ کی طرح راتوں کو اللہ کے  حضور رونا اور سینہ کا ہانڈی کی طرح کھولنا ہمیں نصیب ہو جائے  تو یہ ملک صد فیصد اسلام کا زبردست مرکز بن سکتا ہے۔

  سوال  :  بہت بہت شکریہ قاضی صاحب

 جواب  : بہت بہت شکریہ تو آپ کا کہ آپ نے  مجھے  اس مبارک کام میں شریک کر لیا، انشاء اللہ رمضان میں پھلت میں ملاقات ہو گی۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، ستمبر  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

جناب محمد عمر صاحب { آدیش} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ      : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد عمر  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال   : عمر بھائی گزشتہ سال میں نے  آپ سے  جو انٹرویو لیا تھا وہ آپ کے  منع کرنے  کی وجہ سے  شائع نہیں کیا جاسکا اور اب وہ انٹر ویو میرے  پاس صحیح حالت میں نہیں ہے، میری خواہش ہے  کہ آپ کا انٹرویو ضرور شائع کیا جائے  اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو دوبارہ آپ سے  کچھ باتیں کر لی جائیں۔

 جواب  : ہاں احمد بھائی کیوں نہیں، میں تو انٹرویو شائع ہونے  کا انتظار کر رہا تھا، اس وقت انٹرویو شائع کرنا مناسب نہیں تھا، الحمدللہ اب حالات سازگار ہیں اس لئے  اسے  شائع کرنے  میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

  سوال   : پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

 جواب  : میرا پہلا نام آدیش تھا، میں ضلع سہارنپور کے  ایک گاؤں سہجی کا رہنے  والا ہوں، میں نے  سہجی ہی میں جنتا انٹر کالج سے  ہائی اسکول کیا ہے  اور اب مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ میں عا  لمیت کر رہا ہوں۔

  سوال  : آپ کو اسلام کی طرف کیسے  رغبت ہوئی اور کیا چیز آپ کے  اسلام قبول کرنے  کا ذریعہ بنی؟

 جواب  : بچپن سے  ہی مجھے  اسلام کی بہت سی چیزیں اچھی لگتی تھیں، خاص طور پر پردہ کا نظام مجھے  بہت پسند آیا، یہ چیز مجھے  دوسرے  مذاہب میں نظر نہیں آئی اور دوسری چیز جس کی وجہ سے  میں نے  اسلام قبول کیا، میرا ایک خواب تھا میں بچپن سے  ہی اپنا نام آدیش لکھتا تھا، یہ مجھے  بہت پسند تھا شاید اس لئے  ہی آپ  ﷺ مجھے  خواب میں نظر آئے، آپ نے  مجھ سے  فرما رہے  ہیں کہ کلمہ پڑھ لو اور یہاں سے  چلو، پھر مجھے  ایک بہت اچھا کنواں دکھائی دیا جو میرے  گاؤں میں ہی تھا، یہ آواز اس کنویں میں سے  بھی سنائی دی، میں نے  یہ بات اپنے  مسلمان دوست کو بتائی تو وہ کہنے  لگا کہ تو چاہے  جو بھی کر لے  مسلمان ضرور ہو کر رہے  گا، اس کے  کچھ ہی دن بعد اللہ تعالیٰ نے  مجھے  اسلام سے  سرفراز فرمایا۔

  سوال  : آپ اپنے  قبول اسلام کا پورا واقعہ سنائیں ؟

 جواب  : احمد بھائی مجھے  بچپن سے  ہی مورتی پوجا سے  نفرت تھی میں اپنی والدہ کو بھی اس سے  روکتا تھا، گھر میں کوئی بھی میرے  سامنے  پوجا نہیں کر سکتا تھا، سب لوگ مجھ سے  چھپ کر ہی پوجا کرتے  تھے، ایک مرتبہ میں نے  گھر کے  تمام بھگوانوں کے  پوسٹر پھاڑ کر جیب میں رکھ لئے  اور ان کے  فریم کو اپنے  بھائی سے  کنویں میں پھینکنے  کو کہا، اس وقت میری والدہ سوئی ہوئی تھیں، میں نے  ان تصویروں کو آگ لگا دی، آگ لگنے  کے  بعد جب ان کی طرف سے  کوئی رد عمل نہیں ہوا تو مجھے  پورا یقین ہو گیا کہ یہ سب بیکار ہیں اس کے  بعد جب میری ماں کو یہ سب بات معلوم ہوئی کہ میں نے  تمام بھگوانوں کو جلا دیا ہے  تو اس نے  مجھ سے  بلا کر پوچھ تاچھ کی کہ میں نے  ایسا کیوں کیا ہے ؟ میں نے  اپنی ماں کو سمجھایا کہ جب یہ اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتے  تو میری اور آپ کی کیسے  کر سکتے  ہیں، اس پر میری ماں نے  مجھے  بہت مارا اور کہنے  لگیں کہ تو مسلمان ہو گیا ہے، میں نے  کہا کہ میں کوئی مسلمان نہیں ہوا ہوں، مجھے  معلوم نہیں کہ کون صحیح ہے، ہندو کہتے  ہیں کہ مسلمان غلط ہیں اور مسلمان کہتے  ہیں کہ ہندو غلط ہیں، میں جب تک اچھی طرح تحقیق نہیں کر لیتا کہ کون صحیح ہے  تب تک نہ میں مسلمان اور نہ ہندو، پھر کچھ دن بعد مجھے  یہ خواب نظر آیا جس پر میرے  دوست نے  کہا تھا کہ تو چاہے  جو بھی کر لے  مسلمان ضرور ہو کر رہے  گا، میرا رجحان اسلام کی طرف پہلے  سے  ہی تھا، مزید اس خواب نے  میری دلچسپی اسلام کی طرف اور بڑھا دی اس کے  بعد ہی میں نے  پڑھائی چھوڑ دی اور سہارنپور کام سیکھنے  کے  لئے  گیا، وہاں ایک سید صاحب کی دکان میں کام سیکھا کرتا تھا اور ان سے  اسلام کے  بارے  میں کچھ باتیں بھی ہوا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے  ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں اسلام کو پسند کرتا ہوں اور قبول بھی کرنا چاہتا ہوں، ایک دن سید صاحب کے  سالے  دکان پر تشریف لائے، ان کو معلوم تھا کہ میں ہندو ہوں لیکن سید صاحب نے  ان کو بتایا کہ میرا رجحان اسلام کی طرف ہے، پھر انھوں نے  مجھ سے  بات کی، میں نے  صاف صاف بتا دیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، اگلے  ہی دن وہ صاحب مجھے  لے  کر دیوبند مولانا اسلم صاحب کے  پاس آئے، مولانا نے  مجھے  کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عمر رکھا۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

 جواب  : کلمہ پڑھنے  کے  بعد مجھے  مولانا اسلم صاحب نے  نماز وغیرہ سیکھنے  کے  لئے  پھلت بھیج دیا، یہاں میں نے  بہت جلد نماز اور بہت سی دعائیں سیکھ لیں، اس کے  تقریباً سوا مہینے  کے  بعد میرا گھر جانا ہوا، گھر والوں نے  معلوم کیا کہ کہاں کام کر رہے  ہو، میں نے  بتایا کہ میں دہلی میں کام سیکھ رہا ہوں، دو چار دن گھر رہنے  کے  بعد میں واپس آنے  لگا تو گھر والوں نے  دہلی کا کوئی فون نمبر اور ایڈریس مانگا میں نے  کہا کہ میرا بیگ دہلی میں ہی رہ گیا ہے، اسی میں فون نمبر اور ایڈریس وغیرہ ہے، میں وہاں پہنچ کر فون سے  نمبر اور ایڈریس دے  دوں گا، گھر سے  نکلتے  وقت مجھے  خرچ کے  لئے  گھر والوں نے   -/۵۰۰ روپے  بھی دیئے، کئی روز تک میری خیر خبر نہ ملنے  پر گھر والوں نے  میری تلاش جاری کر دی، جب میرا ان کو کوئی سراغ نہیں ملا تو انھوں نے  اسلام کی طرف میرا رجحان ہونے  کی وجہ سے  ہمارے  گاؤں کے  رہنے  والے  ظہور صاحب جن کے  پاس میرا آنا جانا تھا پر میرے  اغوا(اپہرن) کا الزام لگا دیا اور ان پر تمام گاؤں والوں نے  دباؤ ڈالا، بیچاروں نے  مجبور ہو کر یہ کہہ دیا کہ آٹھ دن میں تمہارا لڑکا مل جائے  گا، یہ بات سننی تھی کہ ان کو یقین ہو گیا کہ میں ان ہی کے  پاس ہوں، وہ پریشان ہو کر میرے  پاس آئے  اور مجھے  لے  کر قاضی رشید مسعود ایم پی کے  یہاں لے  گئے، ایم پی صاحب نے  ہمیں تسلی دی کہ گھبرانے  کی کوئی بات نہیں ہے  سب ٹھیک ہو جائے  گا، میں قاضی جی کے  یہاں تین چار دن تک رہا، ظہور صاحب کو میرے  اپہرن کے  الزام میں جیل بھی جانا پڑا، ان کی ضمانت تو ہو گئی تھی لیکن مقدمہ شروع ہو گیا تھا مجھے  ان کو بچانے  کے  لئے  بیان دینا تھا، بیان دینے  کے  لئے  ایم پی صاحب نے  مجھے  پولیس والوں کے  ساتھ بھیجا اور ان کو یہ نصیحت کی میرے  ساتھ کوئی زیادتی نہ کی جائے، جو میں چاہتا ہوں وہی ہونا چاہئے  اور کسی قسم کی کوئی سختی میرے  ساتھ نہ کی جائے، پولیس والے  مجھے  لے  کر دیوبند جا رہے  تھے  کہ نانوتہ میں میرے  گھر والے  مل گئے، انھوں نے  مجھے  روک کر بہت سمجھایا میں ان کو بے  دھڑک اور سخت لہجے  میں جواب دے  رہا تھا، ایس او (S.O) نے  یہ دیکھ کر کہ میں جواب دے  رہا ہوں اور ان کی بات ماننے  کو تیار نہیں ہوں، سمجھایا کہ بھائی یہ تیرے  ماں باپ ہیں، تجھے  کرنی تو اپنے  من کی ہے، ان کا دل رکھنے  کو ان کی بات بھی مان لے، میں نے  ایس او کے  کہنے  سے  کپڑے  یعنی پینٹ شرٹ جو وہ اس وقت خرید کر لائے  تھے، لے  لئے  اور کولڈ ڈرنک بھی پی لی، لیکن کھانا نہیں کھایا، گھر والے  مجھ سے  کہنے  لگے  کپڑے  بھی بدل لے، میں نے  کہا کہ اس وقت نہیں، صبح میں بدل لوں گا، میرا یہ کہنا تھا کہ گھر والوں نے  گاؤں میں یہ بات اڑا دی کہ میں نعوذ باللہ مرتد ہو گیا ہوں اور میں نے  داڑھی وغیرہ کٹوا دی ہے، اس بات سے  مسلمانوں کے  حوصلے  پست ہو گئے  اور وہ گھبرا گئے  کہ کہیں میں ظہور صاحب کے  خلاف بیان نہ دے  دوں۔

            احمد بھائی جب ہم دیوبند پہنچے  تو وہاں مجھے  پانچ گھنٹے  تک آفیسر نے  پریشان کیا، کبھی ایک تو کبھی دوسرا، مجھ سے  پوچھ تاچھ کرتا، یہ سلسلہ پانچ گھنٹے  تک چلتا رہا، اخیر میں مجھ سے  تمام آفیسر نے  جو چار پانچ تھے  کہا کہ تو کیا چاہتا ہے ؟ میں نے  ان کو جواب دیا کہ میں اپنی مرضی سے  مسلمان ہو گیا ہوں کسی کا مجھ پر کوئی دباؤ یا لالچ نہیں ہے  اور اب میں اسلام کے  بارے  میں پڑھنا چاہتا ہوں، مجھے  آپ کسی مدرسہ میں بھجوا دیجئے، انھوں نے  میری یہ بات مان لی اور مجھے  مدرسہ چھوڑنے  کے  لئے  جا رہے  تھے  کہ راستہ میں پولیس والوں نے  گاڑی روک دی، سامنے  سے  ایک بجرنگ دل کا آدمی آیا اس کے  ہاتھ میں ترشول تھا، دیکھتے  ہی دیکھتے  وہاں تقریباً تین سو آدمی جمع ہو گئے  وہ مجھے  گاڑی سے  اتارنے  لگے  میں نے  گاڑی کے  پائپ کو مضبوطی سے  پکڑ لیا وہ مجھے  گاڑی سے  کھینچ ہی رہے  تھے  کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  مدد آ گئی، ایک دوسری پولیس والوں کی گاڑی آ کر رکی، گاڑی کے  رکتے  ہی وہ سب بھاگ گئے، پھر یہ پولیس والے  مجھے  مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ لے  کر آئے، اگلے  دن بجرنگ دل والوں نے  قریب کے  تمام گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے  ظہور صاحب اور گاؤں کے  تمام مسلمانوں پر چڑھائی کر دی اور ظہور صاحب کے  کھیتوں کو نقصان پہنچایا، تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پورے  سہجی گاؤں کو فورس نے  گھیر لیا اور فوج نے  بہت سختی کی اور لاٹھی چارج بھی کر دیا، پبلک منتشر ہو گئی اس کے  بعد سہجی میں کئی دن تک کرفیو لگا رہا، احمد بھائی اس وقت جب آپ نے  میرا انٹرویو لیا تھا اس وقت حالات ٹھیک نہیں تھے، بڑی مشکل سے  کچھ معاملہ ٹھنڈا ہوا تھا میں نے  مصلحتاً کہ نئی نئی بات ہے  کبھی ماحول دوبارہ گرم ہو جائے، انٹرویو شائع کرنے  کو منع کر دیا تھا، الحمدللہ آج کل حالات ٹھیک چل رہے  ہیں۔

  سوال  : اسلام لانے  کے  بعد اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

 جواب  : احمد بھائی گھر میں جو سہولتیں ہوتی ہیں وہ گھر سے  دور جانے  کے  بعد ختم ہو جاتی ہیں، بس اس طرح کی کچھ چھوٹی موٹی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

  سوال  : ہاں واقعی عمر بھائی یہ بات تو ہے  کہ گھر سے  دور رہ کر کچھ سہولتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن آپ نے  ان سہولتوں کے  بدلے  اتنی بڑی نعمت پائی ہے  کہ دنیا کی تمام سہولتیں دے  کر بھی مل جائے  تو بھی سستی ہے  اور سچے  مسلمان تو آپ ہی ہیں کہ آپ نے  حق سامنے  آ جانے  کے  بعد اسے  قبول کر لیا، ہمارا کیا ہے  ہمیں تو اسلام ورثے  میں ملا ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ اس نے  ہمیں مسلمان گھرانے  میں پیدا فرما کر اسلام پر باقی رکھا، اچھا گھر والوں اور ظہور صاحب سے  ملاقات ہوتی رہتی ہے  کیا؟

 جواب  : نہیں احمد بھائی، گھر والوں سے  تو اس کے  بعد ایک بھی بار ملاقات نہیں ہوئی، البتہ ظہور صاحب سے  ملاقات ہوتی رہتی ہے، انھوں نے  مجھے  بیٹا بنا لیا ہے  وہ مجھ سے  ملنے  مدرسے  آتے  رہتے  ہیں اور مجھ سے  اپنے  بچوں کی ہی طرح محبت کرتے  ہیں اور ان کے  بچے  بہن بھائی کی طرح رہتے  ہیں اور دو بہنوں کی شادی بھی ہو گئی ہے، چھٹی گزارنے  میں ان کے  یہاں ہی جاتا ہوں۔

  سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

 جواب  : بہت زیادہ سکون محسوس کیا، قبول اسلام کے  بعد مجھے  سکون قلب مل گیا۔

  سوال  : عا  لمیت کے  بعد کیا ارادہ ہے ؟

 جواب  : عا  لمیت کے  بعد دعوت کا کام کرنا ہے، میں عا  لمیت کر ہی اسی لئے  رہا ہوں کہ اسلام کو ٹھیک سے  جاننے  کے  بعد اپنے  غیر مسلم بھائیوں کو اس کی طرف دعوت دوں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچاؤں، آپ سے  اور تمام قارئین ارمغان سے  بھی دعا کی درخواست ہے  کہ اللہ تعالیٰ مجھے  اس کام کے  لئے  قبول فرما لے۔

  سوال  : آمین۔ قارئین ارمغان کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

 جواب  : میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے  جن لوگوں کو اسلام سے  نوازا ہے  وہ اس کی قدر کریں اور چونکہ نبی اکرم  ﷺ کے  فرمان کے  مطابق ہر کچے  پکے  گھر میں اسلام داخل ہو گا ہی تو اس کے  لئے  دعا اور کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر گھر میں اسلام پہنچانے  میں آپ کا ہم دونوں کا بھی کچھ حصہ شامل فرمائے  اور میرے  اور آپ کے  لئے  بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو بھی اس کار خیر کے  لئے  مکمل طور پر قبول فرمائے۔

            دوسری ضروری بات نومسلم بھائیوں سے  بھی ارمغان کے  واسطہ سے  یہ کہنی ہے  کہ اگر آدمی اپنے  ایمان پر پکّا ہے  تو کتنی ہی مشکلیں آئیں مشکلیں خود کافور ہو جاتی ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرنے  والے  کے  ساتھ اللہ کی مدد آتی ہے، دوسرے  دعوت کے  لئے  کوشش کرنے  والوں کے  لئے  بھی اللہ کی مدد کا وعدہ ہے، ظہور صاحب کی اتنی مخالفت ہوئی مگر کوئی ان کا بال بیکا نہ کر سکا، ان کے  کھیتوں کو لوگوں نے  نقصان پہنچایا، ان کا کہنا ہے  کہ اگلے  سال ان کی فصل دوگنی ہو گئی، وہ مجھ سے  کہتے  ہیں کہ عمر میاں سچی بات یہ کہ تم نے  ہمیں سچا مسلمان بنا دیا، ہم لوگ رسمی مسلمان تھے، تمہیں بیٹا بنانے  کی وجہ سے  اللہ پر اور اللہ کی مدد پر ہمیں پکّا ایمان حاصل ہوا، اب ہم ہر مشکل میں صرف اللہ کو کارساز مانتے  ہیں، پہلے  یہ بات نہ تھی۔

  سوال  : سنا ہے  آپ نے  ختنہ بھی کرائی ہے ؟

 جواب  : ہاں احمد بھائی، ایک تو مجھے  یہ خیال تھا کہ ایک سنت چھوٹی ہوئی ہے  دوسرے  مجھے  ڈر بھی رہتا تھا کہ کہیں سفر حضر میں میری موت آ جائے  تو ہندو سمجھ کر مجھے  جلا دیں اور ان دونوں باتوں سے  زیادہ بات یہ تھی کہ پیشاب کے  بعد قطرہ رکا رہنے  کا ہر وقت خیال رہتا تھا اور یہ خیال ہوتا تھا کہ شاید میں پاک نہیں ہوا اور جب پاکی نہیں تو نماز روزہ سب بے  کار ہے، اس لئے  میں مولانا صاحب سے  اس کے  لئے  بہت اصرار کرتا تھا، مدرسہ کی ششماہی چھٹیاں ہوئیں تو میں پھلت آ گیا، مولانا صاحب نے  مجھے  سردھنہ بھیج کر میری ختنہ کرا دی، الحمدللہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور اب بہت اطمینان ہو گیا ہے۔

  سوال  : شکریہ جزاکم اللہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

 جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

                        مستفاد از ماہنامہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۷ء    

ڈاکٹر محمد اسعدصاحب {راجکمار} سے  ایک ملاقات

ڈاکٹر محمد اسعد : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

احمد اوّاہ                   : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

  سوال  : ڈاکٹر صاحب آپ بہت اچھے  موقع پر تشریف لائے، مجھے  آپ جیسے  کسی خوش قسمت کی تلاش تھی بلکہ گویا آپ کی ہی تلاش تھی۔

 جواب  : کیوں بھیا احمد ایسی کیا ضرورت تھی ؟ آپ تو اب ماشا ء اللہ بڑے  ہو گئے  ہیں

  سوال  : اصل میں کچھ زمانے  سے  ہمارے  یہاں ارمغان میگزین میں نو مسلموں کے  انٹر ویو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے  اس ماہ ابی کی خواہش تھی کہ فوجی کے  کسی ساتھی کا انٹر ویو چھپ جائے، اچھا ہوا آپ آ گئے۔

 جواب  : مگر ابی تو نو مسلم کی اصطلاح کو اچھا نہیں سمجھتے  اور میرا بھی یہ خیال ہے  کہ اس لفظ سے  نقصان ہوتا ہے، عام طور پر مسلمانوں میں اس کی الگ ہی حیثیت رہتی ہے  اور اسلام قبول کرنے  والا بھی عرصہ تک بہت سی غلط فہمیوں میں رہتا ہے، ان میں سب سے  بڑی بات یہ ہے  کہ وہ اپنی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے  ذمہ سمجھتا ہے  جو اس کے  لئے  بہت خطرناک ہے  اس لئے  میں اپنے  کو نو مسلم نہیں کہتا بلکہ نو مسلم سمجھتا بھی نہیں ہوں اور جب سے  پیارے  آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان سنا ہے  کہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے  اس کے  ماں باپ اسے  یہودی، مجوسی اور نصرانی بنا دیتے  ہیں، میں اپنے  کو پیدائشی مسلمان سمجھتا ہوں الحمدللہ، بہر حال آپ پھر بھی بتایئے  میرے  لائق کیا خدمت ہے  ؟

  سوال  : واقعی آپ کی بات ٹھیک ہے  ہندو گھر میں پیدا ہونے  کی وجہ سے  کچھ روز اسلام سے  ظاہری طور پر آپ بھٹکے  رہے، ورنہ آپ کے  پیدائشی مسلمان ہونے  میں کیا شک ہو سکتا ہے  جب نبی صادقﷺ کا ارشاد بھی صاف ہے  صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں دعوت کا کام کرنے  والوں کو فائدہ ہو۔

 جواب  : ضرور کیجئے  میرے  لئے  خوشی کی بات ہو گی۔

  سوال  : اپنا مختصر تعارف کرائیے ؟

 جواب  : اب الحمد للہ میرا نام اسعد ہے  میری پیدائش موضع سرور پور جو اب ضلع باغپت میں ہے  کے  ہندو جاٹ زمیندار گھرانے  میں ہوئی میرا نام میرے  والد محترم نے  راجکمار رکھا تھا، میری پرائمری تعلیم گاؤں میں ہوئی، بعد میں بڑوت سے  انٹر، سائنس میں اور بائیو لوجی سے  کیا اور الہ آباد سے  آیور ویدک کا ڈگری ک ورس بی، اے  ایم، ایس کیا۔

  سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں کچھ بتایئے ؟

 جواب  : میرے  قبول اسلام کا واقعہ اللہ کی صفت ہادی کا کرشمہ ہے، بی اے، ایم ایس کے  ہاؤس جاب کے  بعد میں نے  تین اپریل  ۱۹۹۳ء کو پھلت آ کر مولانا کلیم صاحب کے  ہاتھ پر اسلام قبول کیا پھر جماعت میں وقت لگایا اور اب میں مظفر نگر میں پریکٹس کر رہا ہوں، گاؤں میں میڈیکل پریکٹس شروع کی لیکن اللہ کو اور کچھ منظور تھا میری کلینک چل نہیں سکی حالانکہ تین سال تک پابندی کے  ساتھ میں نے  کلینک کی، میرے  ایک رشتہ دار نے  مجھے  مشورہ دیا کہ کاندھلہ کے  پاس ایلم گاؤں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے  تم وہاں کلینک کر لو، اپنی دوکان دینے  کی بھی پیش کش کی، میں نے  اپنے  والد صاحب سے  مشورہ کیا، ان کی رائے  ہو گئی اور میں نے  وہاں کلینک کر لی، ایک سال تک وہاں بھی پابندی سے  بیٹھنے  کے  بعد میری کلینک نہیں چلی ایلم گاؤں میں ان دنوں سنسر پال عرف فوجی کا آتنک (دہشت ) پھیلا ہوا تھا چاروں طرف فوجی کے  گینگ کی دہشت تھی خود ایلم گاؤں چھاؤنی بنا ہوا تھا پی، اے، سی لگی ہوئی تھی، مگر روز معلوم ہوتا تھا کہ فوجی آیا اس کو مار دیا اور کسی کو گولیوں سے  بھون دیا، ملک کے  اکثر اخباروں میں فوجی کی خبریں آتی تھیں پولیس نے  اس کو زندہ یا مردہ لانے  پر دو لاکھ روپیے  انعام طے  کیا تھا میری بھی اس سے  دور کی رشتہ داری تھی کلینک سے  مایوس ہو کر مجھے  بھی اس کے  ساتھ رہنے  کی سوجھی، کسی طرح میری ان سے  ملاقات ہو گئی فوجی قاتل اور ڈاکو کی صورت میں میں نے  ان کے  اندر ایک بڑے  انسان کو دیکھا پہلی ملاقات نے  مجھے  ان کا گرویدہ بنا دیا اور میں نے  ان کے  ساتھ رہنے  کا فیصلہ کر لیا۔

  سوال  : آپ ایک شریف گھرانے  کے  فرد تھے  آپ نے  ایک دم ایسا فیصلہ کیسے  کر لیا ان کے  اندر کیا خوبی دیکھی کہ اس قدر گرویدہ ہو گئے ؟ 

 جواب  : ان کی شخصیت کو سمجھنے  کے  لئے  آپ کو ان کی داستان سننی پڑے  گی، اصل میں وہ بہت شریف گھرانے  کے  ایک سجیلے  نوجوان تھے  ایسی وجاہت کے  نوجوان کہ جہاں سے  وہ گزرتے  آدمی ان کو دیکھنے  کے  لئے  مجبور ہو جاتا، ان کو فوج میں ملازمت مل گئی وہ بہت جذباتی اور مضبوط عزم کے  آدمی تھے، وہ جس افسر کے  ماتحت تھے  اس کے  بارے  میں انہوں نے  سنا کہ اس نے  رشوت لے  کر دشمن جاسوسوں کو راز دیئے  ہیں وہ تحقیق میں لگ گئے  اور بات سچ ہونے  کے  بعد انہوں نے  فیصلہ کیا کہ ایسے  غدار کو جینے  کا حق نہیں، مجھے  اس کو مارنا ہے، انہوں نے  اپنے  ارادہ کو پورا کیا اور اپنے  افسر کو گولی مار کر فوج سے  بھاگ آئے  اپنے  گھر وہ نہیں جاسکتے  تھے  اس لئے  جنگلوں میں در بدر پھرتے  تھے  پولیس ان کی تلاش میں تھی اس دوران وہ بڈھانہ میں ایک قاری صاحب کے  یہاں کبھی کبھی رات گزارا کرتے  تھے  قاری صاحب کو وہ اپنا ساؤ ( محسن ) سمجھتے  تھے  قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ مقدمہ فوجی عدالت میں گیا اور عدالت نے  ان کو بری کر دیا اسی دوران بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ ملک میں گرم ہوا، ایلم گاؤں میں کچھ مسلمان رہتے  تھے  ایک روز فوجی کے  پاس آئے  اور کہنے  لگے  بھائی فوجی ہمیں معاف کر دو ہم گاؤں چھوڑ کر جا رہے  ہیں، فوجی نے  وجہ پوچھی تو انہوں نے  بتایا کہ پر دھان جی کے  گھر والے  مسجد ڈھانے  کو کہہ رہے  ہیں اور جب ہماری مسجد ہی نہ رہے  گی تو ہمارا اس گاؤں میں رہنا بے  کار ہے، فوجی نے  جواب دیا جب تک میں زندہ ہوں تمہاری مسجد کو کوئی نہیں گرا سکتا تم آرام سے  گاؤں میں رہو ان لوگوں نے  پردھان سے  کہہ دیا کہ فوجی نے  کہا ہے  میرے  رہتے  ہوئے  کوئی مسجد نہیں گراسکتا، موجودہ پردھان سے  فوجی کے  خاندان کی چلتی تھی پردھان نے  کہا ایسے  فوجی سیکڑوں بھی ہوں گے  پھر بھی ہمیں ۶/ دسمبر کو مسجد ڈھانے  سے  کوئی روک نہیں سکتا، یہ لوگ بھی بے  وقوف تھے  انہوں نے  آ کر فوجی سے  یہ بات بھی کہہ دی، اس نے  رائفل اٹھائی پردھان اس کے  ایک بیٹے  اور ایک بھتیجے  کو گولی ماری اور مسجد کے  سامنے  گھسیٹ کر لا کر ڈال دیا اور مسلمانوں سے  بولا یہی تھے  تمہاری مسجد کو ڈھانے  والے  اب تو تمہیں کوئی ڈر نہیں ؟ اب تم آرام سے  رہو اس خاندان کے  بچے  ہوئے  لوگوں نے  کسی گینگ سے  تعلق قائم کیا اور فوجی کے  گھرانے  پر رات کو ڈاکہ ڈلوا دیا سامان لوٹنے  کے  علاوہ عورتوں کی بے  عزتی کی فوجی کے  بھابی اور چچی کی عزت لوٹ کر ان کو مارا اور ان کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں فوجی گھر نہیں تھے  ان کو معلوم ہوا بھابی اور چچی کی لاش دیکھ کر ان کا حال خراب ہو گیا انہوں نے  ان لاشوں کی سوگندھ (قسم ) کھائی کہ جب تک زندہ رہوں گا ان کے  گھر والوں کا روزانہ ایک آدمی ماروں گا پھر گینگ بنایا اور روزانہ ایک آدمی قتل کیا شاید ۱۶۵/ لوگوں کو قتل کیا پورے  صوبہ کی پولیس پریشان تھی مگر فوجی پر قبضہ کرنا مشکل تھا، مگر وہ عجیب ڈاکو تھے  ڈاکہ ڈالتے  تھے  لوگوں سے  مہینے  وصول کرتے  تھے  مگر اس میں سے  نہ خود پیسہ استعمال کرتے  تھے  نہ ساتھیوں کو کھانے  دیتے  تھے  غریبوں کی مدد کرتے  تھے  اور بیواؤں اور یتیموں کی شادیاں کراتے، عجیب بات یہ ہے  کہ غریب لوگ اکثر مسلمان تھے  اس لئے  زیادہ تر وہ مسلمانوں کی مدد کرتے  تھے، اسی دوران اللہ کی رحمت کو جوش آیا بڈھانہ میں قاری صاحب کے  حجرہ میں وہ رکے  ہوئے  تھے  مولانا کلیم صاحب ہریانہ کے  ایک سفر سے  صبح صبح واپس ہو رہے  تھے  ان کو قاری صاحب سے  کچھ کام تھا وہ مسجد میں آ گئے  قاری صاحب بہت خوش ہوئے  ان کو دیکھ کر فوجی کو ذرا تکلف  ہوا مگر قاری صاحب نے  کہا کہ میں آپ کا کون ہوں ؟ انہوں نے  کہا آپ میرے  ساؤ (محسن ) ہیں، قاری صاحب نے  کہا یہ میرے  ساؤ ہیں مجھے  آپ کو ان سے  ملانا تھا مولانا صاحب سے  وہ ان کا تعارف بڑوت سے  بڈھانہ تک کے  ایک سفر کے  دوران کرا چکے  تھے، مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ مسجد کی حفاظت کے  سلسلہ میں ڈاکو بننے  کی حالت نے  ان کو بہت متاثر کیا اور وہ بڈھانہ تک فوجی کے  ہدایت کے  لئے  دعائیں مانگتے  رہے  کہ یا اللہ آپ کے  گھر کی حفاظت نے  اس کو یہاں تک پہنچا دیا اس لئے  اس کو ہدایت ضرور دے  دیجئے، مولانا صاحب بھی ان سے  ملنے  کے  مشتاق تھے  مل کر خوش ہوئے، مولانا نے  فوجی سے  کہا : پورے  علاقہ میں یہ قتل عام تم نے  کیوں پھیلا رکھا ہے، فوجی نے  کہا میں نے  سوچاہے  موت تو میری قریب ہے  تھوڑا سا نام ہی کر جاؤں، مولانا صاحب نے  کہا موت کو قریب سمجھتے  ہو تو وہاں کی کچھ تیاری بھی کر رکھی ہے  ؟ یہاں کی پولیس اور عدالت سے  تو بچ سکتے  ہو وہاں کی عدالت سے  بچنا ممکن نہیں، فوجی نے  کہا موت کے  بعد کس نے  دیکھا ؟ مولانا صاحب نے  کہا جس نے  دیکھا ہے  اس نے  بتایا ہے، وہاں کا مسئلہ بڑا نازک ہے  وہاں کی تیاری کی فکر کرو، فوجی نے  کہا کہ لارے  کی بات تو میں سمجھتا نہیں جب میرے  ساؤ کے  ساؤہو تو بتاؤ آپ کیا چاہتے  ہو ؟مولانا صاحب نے  فرمایا کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ، فوجی نے  فوراً کہا پڑھاؤ، آپ کے  ابی بتایا کرتے  ہیں، میں نے  سوچا کہ مذاق میں کہہ رہا ہے  وہ اس وقت تک اس کے  عزم سے  واقف نہیں تھے  مگر انہوں نے  اس کو کلمہ پڑھایا اس نے  کلمہ پڑھا اور بولا جی میں مسلمان بن گیا اب موت کے  بعد میرے  لئے  سزا ختم ہو گئی؟ مولانا صاحب نے  کہا ہاں انشاء اللہ دن نکل رہا تھا اس نے  اپنے  ہتھیار اٹھائے  اور چلنے  لگا، مولانا صاحب نے  پوچھا کہاں جانا ہے  ؟ فوجی نے  بتایا ہمارے  مخالف ایک مخبر نے  ہمارے  ایک ساتھی کی غلط مخبری کر کے  پولیس سے  ہاتھ پاؤں توڑ وا دیئے  ہیں، آج حسین پور کے  ایک باغ میں اس کا کام کرنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا اب اس کا کوئی مطلب نہیں، اب تم کسی کا قتل نہیں کر سکتے، فوجی نے  کہا آپ نے  یہ تو نہیں کہا تھا مولانا صاحب نے  کہا کلمہ میں پہلا لفظ لا پڑھایا تھا جس کے  معنی ہیں نا، یعنی اللہ کی ہر نافرمانی قتل، ظلم، کفر اور ہر برائی یہ نا ہے، فوجی نے  کہا یہ ہتھیار تو بھینٹ مانگتے  ہیں مولانا صاحب نے  کہا اگر بھینٹ مانگتے  ہیں تو آج مجھے  قتل کر دو کل قاری صاحب کو قتل کر دینا، فوجی صاحب نے  کہا کہ میں کوئی باؤلا ہوں ؟ مولانا صاحب نے  کہا اس طرح تم روز قتل کرتے  ہو تو کیا تم راؤ لے  ( عقلمند ) ہو؟ فوجی نے  کہا اچھا تونا ہے ؟ مولانا صاحب نے  کہا بالکل نا ہے، فوجی نے  کہا اگر نا ہے  تو پھر آج کے  بعد فوجی قتل اور ڈاکا کچھ بھی نہیں کرے  گا۔

            فوجی وہاں سے  چلا گیا اس نے  اپنے  ساتھیوں کو اکٹھا کیا اس میں ۹/ غیر مسلم تھے  اور ۳۱/ مسلمان تھے  اس کو نہ جانے  کیوں ۴۰/ کی گنتی کا کچھ اعتقاد تھا اپنے  مسلمان ہونے  کی خبر دی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ مجھ پر جان سے  کھیلنے  والے  سارے  ساتھی مسلمان ہو جائیں دوسرے  روز فوجی کو گرفتار کر لیا گیا دیش کے  سارے  بڑے  اخباروں نے  فوجی کی گرفتاری کو سرخیوں میں چھاپا تہاڑ جیل میں انہوں نے  تین مہینے  گزارے  یوپی پولیس نے  معذرت کر دی تھی کہ فوجی چار بار جیل سے  فرار ہو چکاہے  اگر اب فرار ہواتو ہم اس کے  ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

  سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کی بات تو آپ نے  بتائی نہیں ؟

 جواب  : جیل میں ان کے  ایک بھائی ملائی کرنے  گئے  انہوں نے  سگریٹ کے  کاغذ پر ایک خط مولانا صاحب کے  نام لکھ کر میرے  پاس بھیجا اور پیغام بھیجا کہ ڈاکٹر راجکمار سے  کہنا اگر فوجی سے  محبت ہے  تو پھلت جا کر مولانا صاحب کے  پاس کلمہ پڑھ لے  اور جماعت میں چلا جائے  اور میرا یہ خط مولانا صاحب کو دے  دے  اور میرا سلام سوبار کہے، وہ مجھ سے  بہت محبت کرتے  تھے  میں وہ خط لے  کر پھلت آیا ۳/ اپریل ۹۳ء کو ۱۲ / بجے  کے  قریب میں پھلت پہنچا مولانا کو وہ خط دیا وہ خط ارمغان میں چھپا ہے  آج تک اس کا فو ٹو میرے  پرس میں رکھا رہتا ہے، یہ ہے  ( خط نکالتے  ہوئے  ) خط کا مضمون یہ ہے۔

            پریہ مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

            آپ کو تو سو یم آتما سے  پتا لگ گیا ہو گا تہاڑ جیل میں ہوں موت کے  منھ میں ہوں، جیل کی اس تنگ زندگی میں ایمان کے  بعد بادشاہت کا مزہ آ رہا ہے  دو انتم (آخری ) اچھائیں ہیں ایک یہ کہ میرے  سب ساتھی جو میرے  ساتھ سدا جان سے  کھیلتے  رہے  کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہو جائے  اور دوسری یہ کہ آپ ایک بار مل لیں ایمان سلامت ہے، آپ کے  احسان کا بدلہ اپنی کھال کی جوتیاں بنا کر بھی ادا نہیں کر سکتا۔

والسلام                         

آپ کا سیوک سنسر پال فوجی              

            مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا، کھانا کھلایا، میرا نام محمد اسعد رکھا تھوڑی دیر باتیں کیں مجھے  وضو کرا کے  مدرسے  لے  گئے  ظہر کی نماز میں نے  ساتھ پڑھی، مدرسہ کے  بچے  مجھے  گھور گھور کر دیکھ رہے  تھے، کیوں کہ میں نماز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مجھے  نماز آتی نہیں تھی، میں نے  دس ہزار روپیے  مولانا صاحب کو دیئے  کہ مجھے  جماعت میں جانے  کے  لئے  کہا ہے  میں اپنے  ان پیسوں سے  یہ کام نہیں کرنا چاہتا آپ یہ پیسے  لے  کر مجھے  اپنے  پاس سے  خرچ دے  دیجئے  مولانا صاحب نے  کہا یہ پیسے  تو ہم بھی نہیں لے  سکتے  مگر آپ کے  خرچ کا انتظام کر دیتے  ہیں انہوں نے  مجھے  خرچ دیا چار مہینے  کے  لئے  جماعت میں جانا تھا جماعت میں مجھے  بڑے  اچھے  امیر ملے  وہ بارہ بنکی کے  ایک ٹیچر تھے  انہوں نے  کہا جماعت میں اپنی جان اور اپنا مال لگانا چاہیے، اس لئے  صرف ایک چلہ لگا کر میں نے  اپنا کام کرنے  کا پروگرام بنایا اور کما کر اپنے  مال سے  باقی دو چلے  لگانے  کا ارادہ کیا لوٹ کر پھلت آیا مولانا صاحب پہلے  تو وقت سے  پہلے  واپس آیا ہوا دیکھ کر پریشان ہوئے  مگر جب وہ وجہ معلوم ہوئی تو بہت خوش ہوئے  مظفر نگر میں میں نے  کلینک شروع کی جو شروع میں نہ چل سکی ایک سال میں تین جگہیں بدلیں، مگر ایک سال کے  بعد مولانا صاحب نے  استغفار کی تسبیح بتائی اور روزانہ صدقہ کرنے  کو کہا اللہ کا شکر ہے  کام اچھا چل گیا اس کلینک سے  میں نے  اپنا گھر بنایا اور اب حال بہت اچھا ہے۔

  سوال   : فوجی صاحب کا کیا ہوا؟

 جواب  : مولانا صاحب بتایا کرتے  تھے  اس خط کو پڑھنے  کے  بعد ان کو تہاڑ جیل میں جا کر فوجی سے  ملنے  کی بڑی تڑپ ہوئی اور کچھ روز میں وہاں جانے  کا ایک بہانہ مل گیا مگر جس روز وہاں جانا تھا ہندوستان ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ سنسر پال نے  خود کشی کر لی مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ مجھے  اس خبر سے  حد درجہ صدمہ ہوا، پورے  اعصاب پر اس کا اثر ہوا انہوں نے   اپنے  شیخ کو اس المناک واقعہ کی اطلاع دی، مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ حضرت مولانا علی میاں صاحب کو سناتے  ہوئے  میری ہچکیاں بندھ گئیں حضرت مرحوم نے  مولانا صاحب کو بہت تسلی دی اور اطمینان دلایا کہ ہمیں امید ہے  کہ اس شخص نے  خود کشی نہیں کی ہو گی اور اگر ایک فی صد اس نے  خود کشی کی ہو گی تو ابھی اس کا مکلّف نہیں تھا انشاء اللہ اس کا خاتمہ بخیر ہو گا بعد میں وہاں کے  ایک مسلمان افسر جو اس وقت جیل کے  ذمہ دار تھے  انہوں نے  مولانا کو بتایا کہ اس سے  قبل فوجی صاحب جیل سے  چار بار فرار ہو چکے  تھے  اس لئے  یوپی پولیس نے  آئندہ کے  لئے  معذرت کر دی تھی اس لئے  تہاڑ جیل سے  لے  گئے  تھے  اور شاید الیکٹرک شاک سے  ان کو مار دیا گیا اور بعد میں خود کشی کی خبر پھیلا دی گئی، اس افسر نے  بہت افسوس کا اظہار کیا کہ اگر مجھے  پہلے  سے  معلوم ہو جاتا تو میں ضرور کچھ کرتا، اللہ کا شکر ہے  کہ فوجی صاحب کی خواہش کافی حد تک پوری ہوئی ۳۱/ غیر مسلم ساتھیوں میں سے  ۲۳/ الحمدللہ مسلمان ہیں ان میں سے  ۵، ۶/ تو ایسے  ہیں کہ عام لوگ اور خود ہم ان سے  دعا کو کہتے  ہیں ان میں سے  ہر ایک کی زندگی کا حال ایسا ہے  کہ ان پر کتابیں چھپیں عجیب اللہ کی شان ہے  کہ کس راستے  سے  رحمت کی ہوا چلائی۔

  سوال  : آپ کی شادی ہو گئی تھی آپ کے  خاندان کا کیا حال ہے ؟

 جواب  : ہاں میری شادی ہو گئی تھی میری بیوی میرے  ساتھ ہر حال میں جس طرح رہی وہ مثالی بات ہے  اس نے  میرے  اسلام قبول کرنے  کے  بعد ایک لمحہ میری مخالفت نہیں کی میرے  پوچھنے  پر اس نے  بتایا کہ مالک نے  مجھے  آپ کے  ساتھ باندھا ہے  میں بھارت کی ایک پتنی ہوں آپ کے  ساتھ خوشی سے  ستی ہونے  کو تیار ہوں جماعت سے  آنے  کے  بعد جب میں نے  اس کو اسلام کے  بارے  میں سمجھانا شروع کیا تو وہ بہت خوش ہوئی۔

            الحمد للہ میرے  تین بچے  ہیں بڑے  بیٹے  کا نام ابو بکر ہے  چھوٹے  کا محمد عمر ہے  لڑکی کا نام میں نے  فاطمہ رکھا ہے، بڑا بیٹا حفظ کر رہا ہے  چھوٹا بچہ تیسری کلاس میں پڑھ رہا ہے  فاطمہ بھی اب مدرسہ جانے  لگی ہے  میرا ارادہ ہے  کہ ان سب کو اور اللہ جتنی اولاد دے  گا سب کو عالم، حافظ اور دین کا داعی بنانے  کی کوشش کروں گا گھر والوں نے  شروع میں مخالفت کی اور کچھ روز ناراضگی رہی مگر میں نے  تعلق رکھا اور والدین کی خدمت کرتا رہا، ہر ماہ ان کے  پاس کچھ نہ کچھ لے  کر جاتا ہوں اب وہ خوش ہیں اور اسلام کے  بھی قریب ہو رہے  ہیں، میرا خیال ہے  کہ اللہ نے  خدمت کی بڑی تاثیر رکھی ہے  خدمت سے  پتھر دل موم ہو جاتے  ہیں، اسلام سے  پہلے  ہم نے  والدین کی خدمت نہیں کی مگر اب میں اور میری بیوی جب بھی گھر جاتے  ہیں بہت خدمت کرتے  ہیں اب وہ سارے  بہن بھائیوں میں ہم سے  ہی زیادہ محبت کرتے  ہیں۔

  سوال  : مسلمانوں کے  لئے  کچھ خاص پیغام آپ دینا چاہیں گے  ؟

 جواب  : اس کے  لئے  بڑا لمبا وقت چاہئے  میرا خیال ہے  کہ ہم مسلمانوں کا باہر کا کوئی دشمن نہیں ہے  اسلام سے  دوری ہماری سب سے  بڑی دشمن ہے  بلکہ اسلام سے  دور رہ کر ہم ساری انسانیت سے  دشمنی کر رہے  ہیں، اس لئے  کہ ایمان واسلام ان کی سب سے  بڑی ضرورت ہے  وہ خود مسلمانوں کو اسلام سمجھتے  ہیں اور مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کے  نام سے  گھبراتے  ہیں، اپنی سب سے  بڑی ضرورت اور اپنی نجات کے  راستے  سے  وہ ہماری وجہ سے  دور ہیں میرا خیال ہے  کہ ہمیں اپنے  لئے  نہیں تو ساری انسانیت پر رحم کھا کر ان کو اسلام کا تعارف کرانے  کے  لئے  کم از کم ظاہری طور پر مسلمان بن جانا چاہیے، خدا کے  لئے  اس درد ناک پہلو کی طرف توجہ کریں۔

  سوال  : واقعی اس سلسلے  میں ایک مستقل نشست چاہئے، انشاء اللہ اگلی بار اس سلسلے  میں باتیں کریں گے، شکریہ جزاک اللہ

 جواب  : انشاء اللہ ضرور، میرے  لئے  یہ بڑا دردناک موزوں ہے  جس کا ہم سے  زیادہ دعوت کاکام کرنے  والے  مسلمانوں کو تجربہ ہے، میرے  اللہ کا شکر ہے  کہ مجھے  اس نے  اسلام کی طرف ہدایت عطا فرمائی، احمد بھائی آپ بھی ذرا ہادی اور کریم مالک کی کرم فرمائی اور قدرت دیکھئے  کہ ڈاکا کے  اندھیرے  راستے  سے  اسلام کی روشنی کی طرف مجھ گندے  کونکال لائے، روتے  ہوئے، میں اپنے  اللہ کے  قربان جاؤں، صدقہ جاؤں اس کی رحمت کے۔  

 مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۴ء

٭٭٭

جناب محمد حسن صاحب {رویندر ملک} سے  ایک ملاقات

 احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 محمد حسن  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : بھائی رویندر ملک صاحب آپ پچھلے  اتوار کو پھلت تشریف لائے  تھے، تو ابی نے  آپ کا واقعہ بتایا تھا اب آپ پھر اتوار میں آ گئے  تو ابی نے  حکم کیا کہ میں آپ سے  انٹرویو لوں، اصل میں ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ارمغان ‘‘نکلتی ہے  اس میں جن لوگوں کو مالک اپنے  کرم سے  ہدایت فرما کر کلمہ پڑھنے  اور اسلام لانے  کی توفیق دیتے  ہیں ان کی آپ بیتی چھاپی جاتی ہے ؟

  جواب  :جی ہاں مولانا احمد صاحب !حضرت صاحب ابھی مجھے  بتا کر گئے  ہیں میں آج ہی مرادآباد سے  آیا ہوں اور پھر جانا بھی آج ہی ہے، اصل میں پچھلے  مہینے  میرا وہاں ٹرانسفر ہوا تھا اب پھر لکھنو ہو گیا ہے، سرکاری نوکری وہ بھی پولیس کی، بس بستر بندھا رہتا ہے۔

  سوال  :آپ کے  لئے  تو بڑا اچھا ہے، ہمارے  نبی  ﷺ نے  فرمایا ہے :کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلُ (دنیا میں اس طرح رہو گو یا تم مسافر ہو یا راستہ پار کرنے  والے )آپ کو تو اللہ نے  ایسے  حالات میں رکھا ہے  کہ آپ سفر میں رہتے  ہیں۔

  جواب  :یہ تو جب ہو جب اپنی مرضی سے  اپنے  کو مسافر سمجھے۔ہر وقت بستر بندھا رہتا ہے  مگر سوچتے  یہ ہیں کہ ہزارسال جئیں تو کم ہے  ایسے  مسافر ہونے  سے  کیا فائدہ ایسا مسافر تو مولانا صاحب آدمی جب ہی بن سکتا ہے  کہ اس کو آخرت ہر وقت اپنے  سامنے  دکھائی دے  جیسا ہمارے  نبیؐ  کے  صحابیوں کا حال تھا کہ جنت دوزخ پر ایسا یقین تھا کہ آنکھوں سے  دیکھنے  سے  کچھ تعجب نہ ہو۔

  سوال  :بلا شبہ یہ بات تو ہے، ماشاء اللہ ایک ہفتہ میں آپ نے  خوب سمجھا؟

  جواب  :سمجھنے  کے  لئے  ایک منٹ انسان کو کافی ہے  مولوی صاحب، اور نہ سمجھنے  والے  کے  لئے  سیکڑوں سال بھی بے  کار ہیں، گائے  بھینسوں کی طرح آدمی جی کر چلا جاتا ہے، اپنے  حقیقی گھر کی فکر پیدا نہیں ہو تی۔

  سوال  :بلا شبہ آپ سچ فرماتے  ہیں اچھا آپ برائے  کرم پہلے  اپنا پریچے  (تعارف) کرایئے ؟

  جواب  :سب سے  سچا تعارف تو وہ ہے  جو قرآن نے  کرایا ہے  سڑی ہوئی مٹی سے  بنایا گیا یا ناپاک بوندسے  بنا ہوا انسان ہوں میں ستائیسویں پارہ میں پڑھ رہا تھا اللہ نے  کیسی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمہاری ماں کے  پیٹوں میں سے  جانتے  ہیں کیوں اپنی پاکی بگھارتے  ہو، ماں کے  پیٹ میں ہم ماہواری کا خون پی کر پلے  ہیں کل مر کر سڑ کر مٹی میں جائیں گے  اور دو کلو پاخانہ پیٹ میں ہے  پسینہ میں بدبو، پاخانہ میں بدبو، پیشاب میں سڑانداور دو روز منھ صاف نہ کریں تو منہ میں پاخانہ کی سی بدبو بس یہ ہے  ایک گندے  انسان کا پریچے، اس پر ہر ایک یہ سمجھتا ہے  کہ میں یہ ہوں وہ ہوں۔

  سوال  :یہ تو بہت حکیما نہ تعارف ہے  میں اصل میں خاندانی تعارف کی بات کر رہا ہوں ؟

  جواب  :میں ضلع میرٹھ کے  ایک گاؤں کے  جاٹ خاندان میں ۲/اکتوبر  ۱۹۵۴ء کو پیدا ہوا، میرے  پتاجی (والد صاحب )ایک کسان ہونے  کے  ساتھ ایک سرکاری ملازم بھی تھے  میرے  تاؤڈی ایس پی سے  ریٹائر ہوئے  ہیں میرے  پھوپھا بھی پولیس میں تھے  میں نے  انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن بڑوت سے  کیا، پولیس میں انسپکٹر کی ملازمت مل گئی، پانچ سال پہلے  میرا پرموشن ہوا اور پولیس انسپکٹر ہو گیا کچھ روز سہارن پور میں رہا دو سال سے  مظفر نگر اور میرٹھ میں رہا اس دوران کئی بار مظفر نگر آتا جاتا رہا، جولائی کے  شروع تک مظفر نگر سی آئی ڈی میں تھا ایک مہینہ پہلے  مرادآباد ٹرانسفر ہوا اور اب پرموشن ہو کر لکھنو جانا ہو رہا ہے  دو روٹیوں کے  لئے  جو اللہ نے  مقدر میں پہلے  سے  لکھ رکھی ہیں کس قدر دھکے  کھا نے  پڑ رہے  ہیں، کبھی کبھی تو دل بہت دکھی ہو جاتا ہے۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

  جواب :آپ کے  علم میں ہے  کہ مئی کے  مہینہ میں کاندھلہ میں دعوتی ٹریننگ  کیمپ حضرت نے  لگوایا تھا جو ایک ہفتہ چلا تھا۔

  سوال  :ہاں اصل میں وہ تین مہینے  کا کیمپ دہلی میں لگا تھا اس کا ایک ہفتہ کا کیمپ کاندھلہ میں پریکٹیکل کے  طور پر لگا یا گیا تھا ؟

  جواب  :جی ہاں اسی  کیمپ کی بات ہے  اصل میں  کیمپ سے  پہلے  کاندھلہ کے  حالات اچھے  نہیں تھے  دو روز پہلے  ایک مسلمان نے  ایک ہندو کو قتل کر دیا تھا، اس کے  علاوہ ایک لڑکی کے  معاملہ میں ہندو مسلم تناؤ چل رہا تھا دو لڑکوں نے  ایک ایک کر کے  اسلام قبول کیا تھا اور وہ گاؤں سے  چلے  گئے  تھے  ان کے  گھر والوں نے  ہندو تنظیموں کو ساتھ لے  کر مسلمانوں کے  خلاف مظاہرہ کیا تھا، ایسے  میں دعوتی ٹریننگ  کیمپ لگا، اصل میں وہ ماحول بظاہر کیمپ کے  لئے  مناسب نہیں تھا، مگر کیمپ پروگرام کے  تحت پہلے  سے  طئے  تھا بعض ذمہ داروں نے  منع بھی کیا مگر حضرت نے  کہا کہ مخالف حالات میں  کیمپ کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے  تا کہ معلوم ہو جائے  کہ حق دینے  والوں اور محبت کا پیغام دینے  والے  خیر خواہوں کے  لئے  کوئی مشکل نہیں ہوتی پہلے  روز جب کام کرنے  والے  فیلڈ ورک کے  لئے  (غیر مسلم بھائیوں کو دعوت دینے  کے  لئے  )گئے  تو شرپسندوں میں اشتعال ہوا، اگلے  روز ’دینک جاگرن ‘میں خبر چھپی کہ سعودی عرب سے  لوگ آئے  ہیں اور وہ دھرم کا پرچار کر کے  ماحول خراب کر رہے  ہیں اور آپتّی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے  ہیں، اس سے  لوگوں میں شور مچا مسلمان بھی ڈرے  کاندھلہ کے  ایک ذمہ دار سرپرست نے  حضرت صاحب اور ان کے  لوگوں سے  کہا کہ فی الحال یہ  کیمپ بند کر دیں کاندھلہ تھانہ کے  انچارج نے  بھی مولوی اسامہ کاندھلوی جو مقامی  کیمپ کے  میزبان اور ذمہ دار تھے، سے  زور دے  کر اس وقت اس  کیمپ کو بند کرنے  کو کہا حضرت مولانا سے  فون پر مشورہ ہوا اور خیال تھا کہ کیمپ کیرانہ یا شاملی لگا لیا جائے  مگر حضرت نے  کہا کہ آپ داروغہ سے  کہئے  کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے  اور کوئی واقعہ ناخوشگوار ہو گا تب آپ کہنا مولانا اُویس نانوتوی جو  کیمپ کے  ذمہ دار تھے  وہ تھانہ انچارج سے  ملے  اور ان کو مطمئن کر دیا مگر مقامی لوگوں میں خوف تھا ایک ذمہ دار تو کاندھلہ چھوڑ کر چلے  گئے  کہ فسادوغیرہ نہ ہو جائے، اخبار کی خبر پر مجھے  اور میرے  ایک ساتھی کو انکوائری کے  لئے  کاندھلہ بھیجا گیا ہم لوگ پہلے  کاندھلہ تھانہ پہنچے، اس کے  بعد ہم لوگ ایک پولیس والے  کے  ساتھ جامع مسجد پہنچے  وہاں پر لوگوں نے  بتایا کہ ذمہ دار کہیں گئے  ہوئے  ہیں ہم لوگوں نے  کہا آ جائیں تو ان کو بھیج دیں ہم لوگ مسجد سے  جا رہے  تھے  کہ راستہ میں دو مولانا ملے  ایک مولانا اسامہ جو مقامی طور پر میزبان تھے  اور ایک مولوی اویس جو  کیمپ کے  امیر تھے، دونوں نے  ہمیں روکا ہم لوگ تھانہ میں آپ سے  ملنے  گئے  تھے  آپ سے  ضروری بات کرنی ہے، مولوی اسامہ کے  گھر پر سب لوگ بیٹھ گئے  اور مولوی اویس نے  ہم سے  کہا کہ ہم آپ ایک ماں باپ کی اولاد خونی رشتہ کے  بھائی ہیں مرنے  کے  بعد ہمیشہ کی زندگی ہے  جس مالک نے  ہمیں پیدا کیا وہ ہمارا آپ کا اکیلا مالک ہے  اس نے  اس زندگی میں کچھ ذمہ دار یاں ہمیں سونپی ہیں اس کے  لئے  ہمیں معلوم ہوا تھا کہ آپ مظفر نگر سے  آئے  ہوئے  ہیں اس لئے  ہم آپ سے  مرنے  کے  بعد کی زندگی کیلئے  کچھ باتیں کرنا چاہتے  ہیں اس لئے  ہم تھانہ گئے  تھے  اس کے  بعد قرآن پڑھ کر اللہ کے  ایک ہونے  اور مرنے  کے  بعد کے  حساب کتاب کے  بارے  میں بتاتے  رہے  مولانا صاحب عربی میں قرآن پڑھتے  تھے  تو دل پر عجیب اثر ہوتا تھا، انھوں نے  ہمیں مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنے  کے  لئے  کلمہ پڑھنے  اور مسلمان ہونے  کو کہا اور ہمیں حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی میں نے  یہ کتاب لی، دیکھی میں نے  کہا یہ تو وہ کتاب ہے  جو پھلت والوں کی لکھی ہوئی ہے  سب نے  کہا کہ ہاں یہ پھلت والے  حضرت کی لکھی ہوئی کتاب ہے، میں نے  کہا یہ وہ کتاب ہے  جس کی پشٹی(تصدیق) مہاراشٹر میں ہو چکی ہے، انھوں نے  کہا ہاں یہ وہی کتاب ہے  ہم لوگ پھلت والے  صاحب کی طرف سے  ہی آئے  ہیں، میں نے  کہا جو سعودی عرب سے  لوگ آئے  ہوئے  ہیں اور آپتی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے  ہیں وہ کون ہیں ؟ مولانا اویس نے  کہا کوئی سعودی عرب سے  نہیں آیا وہ ہم لوگ ہی ہیں اور ہم بس یہ کام کر رہے  ہیں جس کے  لئے  آپ سے  ملنا چاہتے  تھے  اور یہی وہ کتاب ہے  جو لوگوں کو پیش کر رہے  ہیں، ان کی محبت بھری اور خیر خواہی کی باتوں سے  ہم دونوں بہت متاثر ہوئے، ہم نے  کہا اب ہم دینک جاگرن اخبار کے  نمائندہ کے  پاس جائیں گے  اس کا آبھار ویکت (شکریہ ادا ) کریں گے  ایک مٹھائی کا ڈبہ اس کے  لئے  لے  جائیں گے  کہ نہ وہ خبر چھاپتے  نہ ایسے  اچھے  لوگوں سے  ملاقات ہوتی اور ایسی اچھی باتیں سننے  کو ملتیں اور نہ یہ کتاب ملتی۔

  سوال  :اویس بھائی نے  آپ کو کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا ہو گا، آپ نے  کلمہ نہیں پڑھا ؟

 جواب  :نہیں !میں نے  ان سے  کچھ مہلت دینے  کے  لئے  کہا اور کہا میں اس کتاب کو پڑھوں گا اور دو بار پڑھوں گا پھر آپ سے  ملوں گا۔

  سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا، آگے  بتایئے ؟

 جواب   :ایک انکوائری بڈھانہ کی اور تھی، ہم لوگ بڈھانہ ہو کر مظفرنگر آ گئے، رات میں میں نے  ’آپ کی امانت ‘پڑھی، اس کتاب نے  دل اور دماغ کے  جالے  جھاڑ دیئے، اسلام کے  لئے  دل میں جگہ ہو گئی میرے  ایک دوست ڈاکٹر قمر جن سے  ایک سال پہلے  ایک کیس کے  سلسلہ میں تعلقات تھے، میں نے  ان سے  اسلام پر کچھ اور کتابیں دینے  کے  لئے  کہا، انھوں نے  کہا اچھا ہے  ہم لوگ پھلت چلیں، وہاں پر ہمیں صحیح گائڈینس ملے  گی، ایک اتوار کو ہم لوگ پھلت گئے  مگر مولانا صاحب نہیں ملے  مگر وہاں سے  ہمیں کتابیں مل گئیں ’’اسلام ایک پریچے  ‘‘مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’قرآن مجید ‘‘ہندی انواد (ترجمہ)ہم لے کر آئے  ان کتابوں کو خاص طور پر جیسے  جیسے  میں نے  قرآن مجید پڑھا اسلام میری پسند بن گیا، مگر پورے  سماج سے  ٹکر لینا میرے  لئے  یہ بڑی مشکل تھی، اس لئے  میں ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا اس دور ان میرا ٹرانسفر مرادآباد ہو گیا، مگر بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے  ابھی گھر شفٹ نہیں کیا تھا، اسکول میں ایک فنکشن تھا اس کی وجہ سے  دو دن کی چھٹی لے  کر مظفر نگر آیا ہوا تھا ابھی رمضان سے  چا ر دن پہلے  کی بات ہے  میں قرآن پڑھ کر سویا تو میں نے  خواب دیکھا ایک حضرت صاحب ایک مسجد میں ہیں، بہت خوب صورت پرکاش (نور) کا چاند ی کی طرح ان کا گھیرا بنا ہوا ہے  سفید پگڑی میرے  سر پر ہاتھ رکھا اور بولے  بیٹا تم نے  اسلام کو سمجھ لیا ہے ؟میں نے  کہا :اجی !اسلام تو بالکل میری سمجھ میں آ گیا ہے  انھوں نے  کہا تم نے  آپ کی امانت نہیں پڑھی ؟میں نے  کہا جی پڑھی ہے  انھوں نے  کہا سمجھ میں آ گئی؟ میں نے  کہا جی بالکل سمجھ میں آ گئی انہوں نے  کہا جب سمجھ میں آ گئی تو اسلام کیوں نہیں قبول کرتا؟دیر کرنے  میں نقصان اٹھا و گے  جلدی کرو، آپ کی امانت ایک بار اور پڑھو، میں وہاں سے  واپس ہوا تو ہمارے  ڈاکٹر قمر صاحب ملے، بولے  ملاقات ہو گئی میں نے  پوچھا کس سے ؟انھوں نے  کہا ہمارے  نبی حضرت محمد ﷺ سے، میں نے  جو باتیں ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب سے  بتائیں، ڈاکٹر صاحب نے  کہا واقعی بات جو انھوں نے  کہی ہے  اس سے  زیادہ اور کس کی بات سچی ہو سکتی ہے  وہ سارے  سچوں کے  سچے  ہیں وہ ایسے  سچے  ہیں کہ جان کے  اور ایمان کے  دشمن ان کو سچا، ایمان دار کہہ کر پکار تے  تھے، آنکھ کھل گئی صبح کے  تین بجے  تھے، میں نے  چاہا کہ کروٹ بدل کر سوجاؤں مگر نیند نہ آئی گھر میں بچے  سو رہے  تھے، میں باتھ روم گیا، نہایا اور ڈرائنگ روم میں جا کر ’آپ کی امانت ‘ایک بار پڑھی، صبح ارادہ کیا مجھے  پھلت جانا چاہئے، موٹر سائیکل اٹھائی ڈاکٹر قمر صاحب کے  یہاں گیا اتفاق سے  وہ منگلور گئے  ہوئے  تھے، صبح مجھے  بچوں کے  اسکول میں فنکشن میں شریک ہونے  جانا تھا ڈاکٹرسریندر صاحب ایک انگلش میڈیم اسکول چلا تے  ہیں، CBSEبورڈ کا معیاری اسکول ہے  کئی سائنس اکزی بیشن بھی انھوں نے  لگائی ہیں، ان کو حکومت یوپی نے  ایوارڈ بھی دیئے  ہیں، میں اسکول پہنچا میرے  سی آئی ڈی میں ہونے  کی وجہ سے  ڈاکٹر صاحب میرا خیال رکھتے  ہیں، پروگرام کے  بعد ان سے  ملاقات ہوئی میرے  ہاتھ میں ’آپ کی امانت ‘تھی دیکھ کر بولے  یہ کتاب آپ کو کہاں سے  ملی ؟یہ تو ہمارے  حضرت صاحب پھلت والوں کی کتاب ہے  میں نے  ڈاکٹر صاحب سے  پوچھا آپ ان کو جانتے  ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب نے  کہا میرے  اسکول کا انوگریشن (افتتاح )انھوں نے  کیا تھا ایک ملا جی ہمارے  دوست ہیں وہ مجھے  پھلت لے  کر گئے  تھے  وہ بڑی محبت کے  آدمی ہیں مجھے  بھی یہ کتاب دی تھی، ان کے  آشیرواد کی وجہ سے  میرا اسکول اتنی ترقی کر رہا ہے، میرے  یہاں اسکول میں وہ تین بار آ چکے  ہیں، وہ سائنس کے  بہت اچھے  اسٹوڈنٹ رہ چکے  ہیں، میں نے  کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے  یہ کتاب پڑھی ہے  انھوں نے  کہا پڑھی ہے، میں نے  کہا پھر سمجھ میں کچھ بات آئی، انھوں نے  کہا یہ کتاب ایسی ہے  کہ پڑھنے  والا یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب سمجھ میں نہیں آئی، میں نے  کہا پھر آپ نے  کیا فیصلہ کیا ؟ ڈاکٹر صاحب نے  کہا فیصلہ تو لینا ہی پڑے  گا مگر سماج سے  لڑنے  ہمت نہیں ہوتی، کبھی کبھی رات کو بے  چینی ہوتی ہے  کہ اگر آج موت ہو گئی تو ایمان کے  بغیر نرک (دوزخ)میں نہ چلا جاؤں، سوچتا ہوں کہ صبح کو پھلت جا کر دین لوں گا مگر صبح کو ہمت نہیں ہو پاتی ایک ہفتہ سے  تو تین بار حضرت خواب میں آئے  ہیں اور کہتے  ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری محبت کو ٹھکرا کر مکتی (نجات )نہیں ملے  گی، پرسوں کہہ رہے  تھے  کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان تو ہونا ہی پڑے  گا، میں نے  اپنا حال ڈاکٹر صاحب سے  بتایا اور کہا چلو دونوں چلتے  ہیں، ڈاکٹر صاحب نے  کہا حضرت کا ملنا تو مشکل ہے  میں نے  کہا ڈاکٹر قمر صاحب سے  کہہ کر وقت طئے  کر لیتے  ہیں، مجھے  بڑا اطمینان ہوا کہ ایک ساتھی اس مشکل اور ضروری سفر کے  لئے  ساتھ میں ملا، ڈاکٹر قمر صاحب کو فون کیا انھوں نے  اگلے  اتوار کا وقت طئے  کیا میں مرادآباد چلا گیا، اتوار تک کا وقت میرے  لئے  مشکل سے  گزرا، بار بار یہ ڈر ہوتا تھا کہ ہمارے  نبی ﷺ نے  فرمایا تھا کہ دیر کرو گے  تو نقصان اٹھاؤ گے  کہیں کچھ ہو نہ جائے  خدا خدا کر کے  ہفتہ آیا، میں ہفتہ کی شام کو مرادآباد سے  مظفر نگر آیا، پھر پچھلے  اتوار کو میں ڈاکٹر سریندر اور ڈاکٹر قمر صبح نو بجے  پھلت پہنچے  وہاں لوگوں نے  بتایا کہ صبح دس بجے  حضرت مسجد جائیں گے  تب ملاقات ہو گی مجھے  چونکہ اپنے  لکھنو ٹرانسفر کی خبر مل گئی تھی، اس لئے  اسی دن مرادآباد لوٹنا چاہتا تھا اس لئے  جلدی تھی میں نے  ایک بچے  سے  گھر میں کہلوایا کہ مظفر نگر سے  سی آئی ڈی والے  آئے  ہیں آپ سے  ضروری کام کے  لئے  ملنا چاہتے  ہیں حضرت صاحب نے  کہلوایا کہ بیٹھیں پانی بھجوایا اور کہلوایا کہ نماز پڑھ کر آتے  ہیں، حضرت صاحب آئے  تو میں نے  کہا معاف کیجئے  ہمیں جلدی تھی اس لئے  کہلوا دیا کہ سی آئی ڈی والے  آئے  ہیں ہوں تو میں سی آئی ڈی انسپکٹر مگر میں آیا ہوں اپنے  مطلب کو حضرت صاحب نے  کہا میں تو اس لئے  جلدی آیا ہوں کہ آپ ہمارے  مہمان ہیں کسی مجبوری میں جلدی ہو گی، آپ اگر کسی سرکار کے  سی آئی ڈی ہیں تو مالک کا کرم ہے  کہ ہم بھی ایک مضبوط اور بڑی سرکار کے  سفیر اور افسر ہیں، ڈاکٹر قمر صاحب کو حضرت خوب جانتے  تھے  ڈاکٹر سریندر کو بھی پہچانتے  تھے، اسکول اور گھر کی خیر خیریت لی ڈاکٹر قمر صاحب نے  بتایا کہ یہ رویندر ملک سی آئی ڈی کے  انسپکٹر ہیں اور یہ آپ کے  ڈاکٹر سریندر پرانے  مرید ہیں، یہ کلمہ پڑھنے  آئے  ہیں حضرت صاحب نے  کہا آپ کو کلمہ پڑھوا دینا چاہئے  تھا آپ نے  اتنی دیر کیوں کی ؟اگر ان میں سے  کسی کی موت ہو جاتی تو پھر سب کے  لئے  خطرہ تھا، حضرت صاحب نے  کلمہ پڑھوایا اور کہا کہ نام بدلنا ضروری نہیں لیکن اچھا ہے  نام بدل لیں، اس کا انسان پر نفسیاتی اثر پڑھتا ہے، کہ کفر و شرک کو چھوڑا ہے  کفر و شرک سے  جڑا نام بھی آدمی نے  چھوڑ دیا، آپ اپنا نام محمد حسن اور ڈاکٹر سریندر اپنا نام محمد حسین رکھ لیں، یہ ہمارے  نبی ﷺ کے  بہت لاڈلے  نواسے  تھے، حضرت صاحب نے  ہمیں مرتے  دم تک ایمان کی حفاظت پر زور دیا اور بتایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے  کہ آپ ایمان کی اس سچائی کی سب لوگوں خصوصاً گھر والوں کو نرمی اور محبت سے  دعوت دیں اور یہ بھی کہا کہ آپ گھر والوں کے  ساتھ محبت، نرمی اور اچھا سلوک کریں تا کہ ان کو یہ لگے  کہ کسی چیز نے  ان میں بہت تبدیلی کی ہے  اور وہ اسلام کو اس تبدیلی کا ذریعہ سمجھ کر اسلام کی طرف آئیں۔

  سوال  :ماشاء اللہ !آپ نے  اس کے  بعد کام شروع کیا؟

  جواب  :میں مرادآباد گیا اور اس کے  بعد لکھنو چلا آیا، راستہ میں ٹرین میں لکھنوجانے  اور آنے  میں دو لوگوں کو دعوت دی الحمد للہ دونوں مسلمان ہونے  کے  لئے  تیار ہو گئے  اور میں نے  حضرت صاحب سے  فون پر کلمہ پڑھوایا، مجھے  محسوس ہوا کہ جیسے  جیسے  میں دوسروں کو ایمان کی دعوت دیتا ہوں اسلام پر میرا یقین اور میرا ایمان بڑھتا ہے۔

  سوال  :آپ نے  نماز وغیرہ سیکھنی شروع کی ؟

  جواب  :اللہ کا شکر ہے  میں نے  نماز یاد کر لی ہے  اور نماز پڑھ رہا ہوں، سارے  روز ے  بھی رکھ رہاہوں۔

  سوال  :آپ نے  گھر والوں سے  بتا دیا کہ میں ……

  جواب  :میں نے  کل رات اپنی مسیز (بیوی)سے  بات کی، اور ان کو صاف صاف بتا دیا اصل میں میں اسلام کو تو کئی مہینے  سے  پڑھ رہا تھا وہ مجھ سے  کہتی تھی کہ مجھے  تو ایسا لگتا ہے  کہ آپ ملاؤں کے  چکر میں پڑ گئے  ہیں، اور آپ مسلمان ہو جاؤ  گے، میں نے  رات کو ’آپ کی امانت ‘پڑھ کر سنائی اس کو بہت پسند آئی اور بولی میں سوچتی تھی کہ اچانک چودھری صاحب کو کیا ہو گیا ہے  اس کتاب کی مٹھاس اور محبت نے  آپ پر جادو کر دیا ہے، اللہ کا شکر ہے  انھوں نے  کلمہ تو پڑھ لیا ہے  اور ساتھ رہنے  کا وعدہ کیا ہے، ہم نے  دونوں بچوں کو بھی کلمہ پڑھوا دیا، انشاء اللہ جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھیں گے  تو اسلام خود ان کے  دل و دماغ کے  جالوں کو دور کر دے  گا۔

  سوال  :اب آپ کو لکھنو شفٹ ہونا پڑے  گا یعنی فیملی کے  ساتھ؟

  جواب  :ظاہر ہے  زیادہ دن الگ تو نہیں رہ سکتے، حضرت صاحب نے  بتایا کہ لکھنو میں میرے  لئے  زیادہ آسانی رہے  گی، رشتہ دار، پریوار کے  لوگ ادھر نہیں ہیں دین کو پڑھنے  اور ماننے  کیلئے  ماحول بھی مل جائے  گا۔

  سوال  :بہت بہت شکریہ حسن صاحب، اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔آپ کو بھی مبارک ہو اور ہمیں بھی مبارک ہو۔

  جواب  :دعا کیجئے  بس اللہ تعالیٰ ایمان پر جمائے  رکھے  حضرت صاحب نے  بتایا کہ ایمان کا حق یہ ہے  کہ آدمی (دھڑ دھڑی لیتے  ہوئے  )آگ کے  الاؤ میں گرنا اسلام سے  پھر نے  کے  مقابلہ میں آسان سمجھے، بلا شبہ دوزخ کی آگ۔جب میں قرآن میں دوزخ اور دوزخیوں کا حال پڑھتا ہوں تو میرے  تو ہوش خراب ہو جاتے  ہیں، کبھی کبھی تو بالکل دل پھٹنے  کو ہوتا ہے  بس دعا کیجئے  کہ اللہ دوزخ کی آگ سے  بچائے۔

  سوال  :ارمغان کے  پڑھنے  والوں کے  لئے  کوئی اپنا پیغام آپ دیجئے ؟

  جواب  :میں آٹھ روز کا مسلمان کیا پیغام دے  سکتا ہوں، مگر اس ایک مہینہ کے  اسلام میں میں نے  تجربہ کیا ہے  کہ ایمان کو بچانے  اور بڑھانے  کے  لئے  اس ایمان کو دوسروں تک پہنچا نا سب سے  آسان راستہ ہے۔

  سوال  : بہت بہت شکریہ ! واقعی کیسی پتہ کی بات آپ نے  کہی ہے۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ

                                      مستفاد از ماہنامہ ’ارمغان‘ اکتوبر  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

جناب اقبال احمد سے  ایک ملاقات

 احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 اقبال احمد :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  : ابی نے  مجھے  بھیجا ہے، کہ بٹلہ ہاوس مسجد میں اقبال صاحب بیٹھے  ہیں ان سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لے  لو، آپ کے  علم میں ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک ماہنامہ ارمغان اردو میگزین نکلتا ے، اس میں اللہ کے  فضل خاص سے  ہدایت یاب لوگوں کے  حالات زندگی اور آپ بیتیاں شائع ہوتی ہیں، اس کا مقصد دعوت کا کام کرنے  والوں کے  لئے  حوصلہ افزائی اور تجربات حاصل کرنا ہے، اس کے  لئے  آپ کو بھی زحمت دینی ہے ؟ 

  جواب  : جی !حضرت صاحب ابھی مجھے  فرما گئے  تھے  کہ احمد آ رہے  ہیں وہ آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کریں گے، میں بھی ارمغان پڑھوا کر سنتا ہوں، دو مہینے  سے  صرف ارمغان پڑھنے  کے  لئے  میں نے  اردو پڑھنی شروع کی ہے  کہ دوسرے  کا محتاج کب تک رہوں گا، ایک سال تو انتظار کر تے  گذر گیا شاید اللہ تعالیٰ کو مجھے  اردو پڑھوانی تھی اس لئے  ارمغان ہندی کے  چھپنے  میں دیر ہو رہی ہے۔

  سوال  :واقعی اللہ کی رحمت سے  ہر فیصلہ ہوتا ہے  ورنہ ارمغان ہندی کب سے  شروع ہو جانا چاہئے  تھا، خدا کرے  جلد اس کی سبیل بنے، بہت تقاضا اس کا ہو رہا ہے، اب مسلمانوں میں بھی اردو کا رواج بہت کم ہو گیا ہے  ؟

  جواب  :احمد بھائی !میرا خیال یہ ہے  کہ اب ہندوؤں میں اردو پڑھنے  کا شوق بڑھ رہا ہے  ہمارے  علاقہ میں دسیوں ہندو بڑے  شوق سے  شاعری کر رہے  ہیں، حضرت فرماتے یں اللہ تعالیٰ اسلام کے  لئے  راستے  ہموار کر رہے  ہیں۔

  سوال  :بلا شبہ ایسا ہی ہے۔آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے  ؟

  جواب : میں ہر یانہ کے  ایک یادو خاندان میں ۲۵/مارچ ۱۹۷۵ء میں پیدا ہوا، ہائی اسکول کرنے  کے  بعد کرکٹ کا ذوق بڑھا، ضلع کی ٹیم میں پھر اسٹیٹ کی ٹیم میں سلیکشن ہوا، نیشنل ٹورنامنٹ کھیلے  رنجی ٹرافی میں ہریانہ کی طرف سے  ریکارڈ رن بنائے۔بارہویں کلاس کرتے  ہی کام لگ گیا، کھیل کی وجہ سے  مجھے  ریلوے  میں ملازمت مل گئی، ابھی بھی ریلوے  میں ملازمت کرتا ہوں اور ریلوے  ٹیم کی طرف سے  کھیلتا ہوں، کئی مرتبہ نیشنل ٹیم میں سلیکشن ہونا طے  ہوا، مگر سیاسی اٹھا پٹخ کا شکار ہو گیا، میرے  والد سرکاری اسکول میں پرنسپل ہیں، میرا ایک چھوٹا بھائی ہے  جو ڈاکٹر ہے  خاندان کے  لوگ پہلے  سے  زمیندار ہیں۔

  سوال  :آپ کرکٹ میں بالر ہیں یا بیٹسمین ؟

  جواب  :میں یوں تو آل راونڈر ہوں، میں نے  رنوں کے  رکارڈس بنائے  ہیں، رنجی ٹرافی کے  ایک ٹورنامنٹ میں سب سے  زیادہ کیچ لینے  کا رکارڈ میرے  نام ابھی تک ہے، میں اچھی بالنگ بھی کر لیتا ہوں، مگر اصلاً میرا شوق بیٹنگ ہے۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کی کہانی سنائیں ؟

  جواب  :اردو کا ایک شعر ہے      ؎

خدا کی  دین کا  موسیٰ سے  پوچھئے   احوال

کہ آگ لینے  کو جائیں اور پیمبری مل جائے 

            میرے  ساتھ اللہ کی طرف سے  ہدایت کا بس یہی معاملہ ہے، ہوا یہ کہ  ۲۰۰۴ ء میں ہم چندی گڑھ میں ایک ٹورنامنٹ کھیلنے  کے  لئے  گئے  تھے، میرے  ساتھ ریلوے  ٹیم میں ایک گرمیت سنگ بھی کھیلتے  تھے، ان کے  والد پرم جیت سنگ جی ریلوے  میں افسر تھے  گرمیت سنگ سے  میری دوستی تھی، اس کی خواہش پر میرا قیام اس کے  گھر رہا، دو ہفتے  ان کے  یہاں گھر کی طرح رہا، پرم جیت کی ایک چھوٹی بہن ہے، بے  پردہ ساتھ رہنے  کی خرابی رنگ لائی، پندرہ دن میں ہم دونوں ایک دوسرے  کے  اس قدر قریب آئے  کہ ایک دوسرے  کے  لئے  بالکل پاگل سے  ہو گئے، اس ٹورنامنٹ میں میری کار کردگی بھی بالکل صفر رہی، میرا دل کہیں لگتا ہی نہیں تھا، ہم دونوں نے  شادی کا پروگرام بنایا اور دونوں نے  ایک دوسرے  سے  عہد کیا کہ اگر ہمارے  گھر والے  ہماری شادی نہیں کریں گے  تو ہم خود کشی کر لیں گے، نہ آشا کور کے  گھر والے  اور نہ میرے  گھر والے  اس کے  لئے  تیار ہونے  والے  تھے، دونوں کا گھر پرانی روایات کا حامل تھا، آشا سے  زیادہ میرے  گھر والے  تو بہت ہی روایات کے  ماننے  والے  تھے، چندی گڑھ سے  واپسی کے  بعد بھی مجھے  آشا کے  علاوہ کچھ سوجھتا نہ تھا، بالکل مجنوں سا ہو گیا تھا، میرے  گھر والے  اور آشا کے  گھر والے  ہم دونوں سے  پریشان تھے، بہت سے  سیانوں کے  پاس توڑ کرانے  دونوں گھر والے  گئے  کچھ تعویذ کرنے  والے  مولویوں کے  پاس بھی گئے، میرے  چچا کاندھلہ حضرت جی سے  بھی تعویذ لائے  مجھے  اور آشا کو معلوم ہوا تو ہم بہت فکر مند ہوئے، کہیں تعویذوں سے  ہمارا دل ہٹا نہ دیا جائے، اس کے  لئے  آشا کے  مشورہ سے  میں نے  بھی سیانوں اور جیوتشوں سے  رابطہ کیا، کئی لوگوں نے  مشورہ دیا کہ مولویوں سے  ملنا چاہئے، سائیں عبداللہ ایک پہاڑوں میں رہتے  ہیں ان کے  پاس بھی گئے، بوڑیہ کے  پیر جی کے  پاس بھی گیا، سہارن پور بھی پیر صاحب کے  پاس گیا، کسی نے  مجھے  پھلت کا پتہ بتایا، پھلت میں ایک حضرت جی اس کے  لئے  مشہور ہیں وہاں گیا انھوں نے  مجھے  تعویذ دے  دیئے  ایک صاحب جو مجھے  پھلت لے  کر گئے  تھے، انھوں نے  مجھے  بتایا کہ یہاں پر ایک اور حضرت ہیں، وہ تعویذ وغیرہ نہیں کرتے  مگر دعا کرتے  ہیں چلو ان سے  بھی مل لو، وہاں گئے  معلوم ہوا، حضرت صاحب سفر پر گئے  ہیں، وہاں ایک جو ان مولوی صاحب ملے، دبلے  پتلے، مولوی عمر ان کا نام ہے، حضرت صاحب ان کے  نانا لگتے  ہیں، انھوں نے  مجھے  بتایا کہ حضرت صاحب تو ابھی ایک ہفتہ کے  بعد آئیں گے، ہمارے  حضرت ہر آنے  والے  کو خود مالک سے  مانگنے  کا طریقہ بتاتے  ہیں اس کے  لئے  ایک جاپ بھی بتاتے  ہیں، صبح سویرے  نہانے  کے  بعد یہ سوچ کر کہ اپنے  مالک کو یاد کر رہا ہوں سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھ لیا کریں، رحیم اور ہادی کا ترجمہ بھی مجھے  ہندی میں بتایا، انھوں نے  کہا اس کے  بعد سیدھے  اپنے  مالک سے  اپنی پریشانی کہئے، ساتھ میں حضرت صاحب کی ایک کتاب بھی دی جس کا نام ’’آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘ہے  میں نے  کتاب گاڑی میں رکھ دی، صبح سویرے  اٹھ کر اشنان کیا اور سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھا، مجھے  بہت ہی شانتی (سکون )ملی، میں نے  شام کو بھی پڑھا، جو بے  چینی اور جنون بلکہ بالکل پاگل سا ہو رہا تھا اس کا اثر کم ہوا، ایک ہفتہ کے  بعد مجھے  مالک سے  عجیب سا تعلق ہونے  لگا، مجھے  خیال ہوا کہ جب ان کے  بتائے  ہوئے  جاپ سے  ایسی شانتی مل رہی ہے  تو حضرت صاحب کی کتاب پڑھنی چاہئے، شاید اس میں اور بھی جاپ لکھا ہو، میں نے  آپ کی امانت پڑھی، ایک دفعہ پڑھ کر دوبارہ پڑھی، چھوٹی سی اس کتاب نے  میری سوچ اسلام کے  بارے  میں بدل دی، اب مجھے  مکتی اور شانتی کے  لئے  اسلام میں ایک راہ دکھائی دیتی تھی، مولانا عمر صاحب کو فون کیا، مجھے  اسلام پر اور کتابیں بتایئے، انھوں نے  ’’اسلام کیا ہے ؟‘‘اور ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟‘‘بتائی، میں نے  دہلی سے  وہ کتاب منگوائی اس کے  بعد میں نے  قرآن مجید پڑھنا ضروری سمجھا اور قرآن مجید پڑھنے  لگا، اس دوران ایک ٹورنامنٹ کھیلنے  جے  پور گیا، ایک روز ہم لوگ جے  پور دیکھنے  نکلے، بازار سے  شاپنگ کرنی تھی ایک تبلیغی جماعت ایک مسجد سے  دوسری مسجد کی طرف جا رہی تھی، میرا دل چاہا ان سے  ملوں، میں نے  گاڑی روکی، اور جیسے  ہی مسجد کے  اندر وہ داخل ہوئے  میں بھی ساتھیوں سے  ذرا دیر ٹہر نے  کو کہہ کر مسجد میں داخل ہو گیا، میں نے  ان لوگوں سے  کہا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں، انھوں نے  مجھے  امیر صاحب سے  ملوایا، امیر صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نماز کیوں پڑھنا چاہتے  ہیں، میں نے  کہا میں نے  اسلام کو پڑھا ہے، اور میں اسلام کو مکتی اور شانتی کا واحد راستہ سمجھتا ہوں، اس لئے  چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ اسلام کو فالو کروں، انھوں نے  اپنے  بیگ سے  ’’آپ کی امانت ‘‘نکالی اور مجھے  دینی چاہی میں نے  کہا، میں نے  یہ کتاب تین بار پڑھی ہے  اور اس کے  لکھنے  والے  حضرت صاحب کے  گاؤں میں بھی گیا ہوں ضلع مظفر نگر میں پھلت ایک جگہ ہے، امیر صاحب نے  مجھ سے  کہا آپ مولانا صاحب سے  نہیں ملے، میں نے  کہا وہ وہاں نہیں تھے، انھوں نے  پوچھا آپ نے  کلمہ پڑھ لیا ہے ؟ میں نے  کہا کہ نہیں ابھی میں نے  کلمہ نہیں پڑھا ہے، پھلت میں مولانا عمر صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھنے  کو کہا تھا مگر میں نے  کتاب پڑھ کر بعد میں پڑھنے  کو کہہ دیا تھا، میں نے  امیر صاحب سے  کہا، آپ مولانا کلیم کو جانتے  ہیں انھوں نے  کہا میں مولانا کا مرید ہوں، میوات کا رہنے  والا ہوں اور ہماری جماعت میں چار ابھی چند روز پہلے  مسلمان ہونے  والے  لوگ ہیں جن میں ایک مندر کے  بڑے  پجاری بھی ہیں، جنھوں نے  چند روز پہلے  اپنے  بال وغیرہ کٹائے  ہیں، ان چاروں سے  امیر صاحب نے  مجھے  ملوایا، پھر مجھ سے  کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا تھوڑی دیر سوچنے  کے  بعد میں تیار ہو گیا، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور فون پر حضرت صاحب سے  میری بات کروائی، اللہ کا شکر ہے  فون پر بات ہو گئی، امیر صاحب نے  حضرت سے  کہہ کر مجھے  کلمہ دوبارہ پڑھوا یا اور مجھے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا، ٹورنامنٹ ختم ہو گیا تھا، میں نے  وہیں سے  ڈاک سے  چھٹی کی درخواست لگائی اور اسی جماعت کے  ساتھ ۳۵/روز لگائے، پانچ دن ان کے  ہو گئے  تھے، امیر صاحب نے  اپنے  ساتھیوں کی تشکیل کی کہ بھائی اقبال کے  پانچ دن کم رہ گئے  ہیں ہم لوگ ان کا چلہ پورا کروا دیں اور پانچ پانچ دن اور بڑھا دیں، تین لوگوں کو ضروری کام تھا، وہ چلے  گئے  باقی لوگوں نے  میرا چلہ پورا ہونے  تک میرے  ساتھ وقت لگایا۔

  سوال  :جماعت سے  آ کر آپ نے  گھر والوں سے  یہ سب بتا دیا؟

  جواب  :گھر آ کر میں نے  گھر والوں سے  بتا دیا، گھر میں وبال آنا طے  تھا، گھر والے  بہت بر ہم ہوئے  اور سب کو خیال ہوا کہ یہ سب آشا سے  شادی کرنے  کا ڈھونگ ہے، گھر والے  میرے  ساتھ بہت برا سلوک کرنے  لگے، مجھے  گھر چھوڑنا پڑا، گھر چھوڑ کر میں پھلت پہنچا، حضرت صاحب سے  پھلت میں پہنچنے  کے  چوتھے  روز ملاقات ہوئی، حضرت صاحب نے  مجھے  گھر جا کر رہنے  کا مشورہ دیا اور خاموشی سے  گھر والوں پر کام کرنے  کو کہا، میرے  چھوٹے  بھائی جو ڈاکٹر ہیں، کافی کوشش کے  بعد پھلت حضرت سے  ملنے  کے  لئے  تیار ہو گئے، میں ان کو لے  کر پھلت گیا، حضرت نے  مولوی عمر صاحب کو بلا کر ہم سے  ملنے  اور بات کرنے  کے  لئے  کہا، الحمد للہ انھوں نے  اسی وقت کلمہ پڑھ لیا، میرے  کہنے  پر حضرت نے  دو بارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام محمد افضل رکھا۔

            بھائی کے  مسلمان ہو جانے  کے  بعد میرے  لئے  گھر کا ماحول کافی سازگار ہو گیا، جب حضرت نے  مجھے  گھر جانے  کے  لئے  کہا تھا تو مجھے  عجیب سا لگ رہا تھا، بلکہ مجھے  یہ لگ رہا تھا کہ یہ لوگ مجھے  قبول نہ کر کے  بوجھ سمجھ کر واپس کر رہے  ہیں، اندر دل میں عجیب غلط سا گمان ہو رہا تھا، مگر بھائی کے  مسلمان ہو نے  کے  بعد مجھے  لگا کہ انھوں نے  بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے، یہ اللہ کا کرم تھا کہ میں نے  ناگوار ہوتے  ہوئے  بھی فیصلہ مان کر گھر جانا گوارہ کیا، حالانکہ میں گھر سے  کہہ کر آیا تھا کہ میں گھر والوں کو صورت نہ دکھاؤں گا، میرے  بھائی ڈاکٹر نے  مجھے  بہت طعنہ بھی دیا تھا کہ آشا نے  اور مسلمانوں نے  ٹھکانے  لگا دیا، سمجھ میں آ گیا کہ گھر والے  گھر والے  ہی ہوتے  ہیں، میں نے  جھینپ مٹانے  کے  لئے  کہا کہ گھر والوں کی یاد نے  رہنے  نہیں دیا خاص طور پر بھیّا تیرے  بغیر تو میرے  لئے  رہنا بہت کٹھن (مشکل )ہے۔

  سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟باقی گھر والوں کا کیا حال ہے ؟

  جواب  :میرے  بھائی ڈاکٹر افضل نے  بھی چلہ لگا لیا ہے، الحمد للہ ہماری کوشش سے  ماں بھی مسلمان ہو گئی ہیں، ابھی میں نے  سرکاری طور پر ملازمت میں نام وغیرہ نہیں بدلا ہے، ہاں اکثر لوگوں کو معلوم ہے  کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، ڈیوٹی پر ہوتا ہوں تو بھی نماز پڑھتا ہوں۔

  سوال  :آشا کور کا کیا ہوا؟

  جواب  : میں جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھتا گیا میرا عشق ٹھنڈا ہوتا گیا، اس نے  بھی چند دنوں تک تو فون کیا مگر بعد میں اس نے  بھی رابطہ ختم کر دیا، دو مہینے  پہلے  معلوم ہو ا ہے  کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔

  سوال  :آپ کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ جس کی وجہ سے  آپ مسلمان ہوئے  اس کے  ایمان کی آپ کو فکر کرنی چاہئے  ؟

  جواب  :شروع شروع میں مجھے  خیال آتا تھا، مگر حضرت نے  اس کا پتہ لے  کر کہا، آپ اس کی فکر چھوڑ دیجئے، ہمارے  ساتھی چندی گڑھ میں ہیں جو خود اس کو دعوت دینے  کی فکر کریں گے، میں نے  حضرت کے  حکم کے  بعد اس کی فکر چھوڑ دی۔

  سوال  :ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

  جواب  :دنیا کے  سارے  نقشے  دھو کے  کے  ہیں، دل لگانے  کے  لائق بس ایک ذات وہ ہے  جو سارے  حسینوں کے  حسن کی خالق ہے  اور جس سے  دل لگانے  کے  بعد ہر بے  چینی چین میں بدل جاتی ہے، یہ میرا خود اپنے  لئے، سارے  انسانوں کے  لئے  پیغام ہے۔

  سوال  :بہت بہت شکریہ، السلام علیکم رحمۃ اللہ

  جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

ایک نو مسلم بھائی عبید اللہ {ونود کمار گوئل} سے ایک ملاقات

احمد اواہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبید اللہ  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :عبید اللہ بھائی بڑی خوشی ہوئی آپ تشریف لے  آئے  آج ابی مجھ سے  فرما رہے  تھے  کہ کل تمہیں نوئیڈا جا کر عبید اللہ صاحب سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے، اچانک پتہ لگا کہ آپ خود یہاں آ گئے  ہیں۔

  جواب  :مجھے  حضرت سے  کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا کہ ان کا فون آیا کہ احمد ارمغان کے  لئے  باتیں کرنے  آئیں گے، میں نے  حضرت سے  درخواست کی کہ اگر آپ کے  پاس کوئی وقت ہو تو میں خود اوکھلا حاضر ہو جاؤں حضرت نے  اجازت دے  دی، الحمد للہ ملاقات ہو گئی ملاقات و مشورہ کے  بعد الحمد للہ بڑی تسلی ہو گئی، آپ فرمائیں ہمارے  لئے  کیا حکم ہے  ؟

  سوال  :جیسا کہ ابی نے  آپ کو بتا دیا ہو گا کہ پھلت سے  نکلنے  والے  دعوتی میگزین کے  لئے  آپ سے  باتیں کرنی ہیں ؟

  جواب  :جی، جی اسی کے  لئے  معلوم کر رہا ہوں۔

  سوال  :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

  جواب  :میری پیدائش ۶/دسمبر  ۱۹۷۰ء میں جلال پور گاؤں جو اب نوئیڈا (گوتم بدھ نگر ) میں ایک گوئل خاندان میں ہوئی، پتاجی بجلی بورڈ میں ملازم تھے، میرا نام انہوں نے  نام ونود کمار گوئل رکھا تھا، پرائمری تک گاؤں کے  اسکول میں پڑھا اس کے  بعد دلی پبلک اسکول سے  بارہویں کلاس کی، اور کمپیوٹر سائنس سے  سافٹ ویر انجینیرنگ کی، بعد میں ایک امریکی کمپنی میں نوئیڈا ہی میں ملازمت لگ گئی، ابھی بھی وہیں پر کام کر رہا ہوں میرے  ایک چھوٹا بھائی ہے  پرمود کمار اس کا نام ہے، اور ایک بہن ہے، میرے  پتاجی اب ریٹائرڈ ہو گئے  ہیں وہ پروپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتے  ہیں اس کاروبار میں اللہ نے  ان کو بہت ترقی دی ہے۔

   سوال  :اپنے  قبول اسلام کا حال سنایئے ؟

  جواب  :مولانا احمد صاحب اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو ان کے  چاہے  بغیر گردن پکڑ کر جنت میں لے  جاتے  ہیں اور وہ خود بار بار دوزخ کی طرف بھاگتے  ہیں میں شاید ان میں سے  ایک نالائق خوش قسمت ہوں۔

  سوال  :آپ نے  خوب بات کہی، نالائق خوش قسمت ہیں، وہ نالائقی اور خوش قسمتی ذرا بتایئے۔

  جواب  :چار سال پہلے  میں نے  اس کمپنی میں ملازمت شروع کی میرے  ساتھیوں میں ایک لڑکا کان پور کا برہمن فیملی سے  تعلق رکھتا تھا، اس نے  اسلام قبول کر کے  محمد یوسف اپنا نام رکھ لیا تھا، اور بہت مذہبی مسلمان ہو گیا تھا، اس نے  داڑھی رکھ لی تھی اور پینٹ شرٹ چھوڑ کر کرتا پائجامہ اور شیر وانی پہننے  لگا تھا، مجھے  اس کے  مذہب بدلنے  پر حیرت تھی، میں اس سے  اس کے  فیصلے  پر بہت بحث کرتا تھا اور اس کو واپس ہندو بننے  کے  لئے  کہتا تھا، گھنٹوں اس سے  بات ہوتی رہتی تھی، وہ بحث میں اکثر مجھ سے  کہتا تھا ونود بھائی میں اپنے  اللہ سے  دعا کر رہا ہوں آپ مجھے  ہندو بننے  کو کہہ رہے  ہیں آپ کو خود مسلمان ہونا پڑے  گا، بحث کرتے  جتنی مرتبہ بھی وہ یہ بات کہتا میرا دل اندر سے  ڈر جاتا تھا کہ کہیں میرے  بھاگیہ میں مسلمان ہونا نہ ہو میں ڈر کر بحث بند کر دیتا تھا، تقریباً چار مہینے  تک دیر دیر تک مذہب پر ہماری باتیں ہوتی رہیں ایک روز صبح صبح یوسف آفس آئے  اور مجھ سے  کہا کہ آج ہم دونوں کمپنی سے  چھٹی لے  کر کسی پارک میں چلتے  ہیں اور بیٹھ کر کچھ باتیں کریں گے، میں نے  پہلے  تو منع کیا کہ باتیں کرنے  کے  لئے  چھٹی لینے  کی کیا ضرورت ہے، مگر یوسف نے  بہت ضد کی اور میں نے  بھی چھٹی لے  لی اور ہم پارک میں گئے، بہت محبت سے  وہ مجھے  اسلام قبول کرنے  اور کلمہ پڑھنے  کو کہتا رہا، اور مجھے  اس درد سے  سمجھایا کہ مجھے  ماننا پڑا، اور میں نے  کلمہ پڑھ لیا، اس نے  کہا کہ رات خواب میں مجھے  تمہارا نام عبید اللہ بتایا گیا ہے، میں تمہارا نام عبید اللہ رکھنا چاہتا ہوں ہم لوگ چائے  وغیرہ  پی کر گھر چلے  گئے، اگلے  روز وہ کچھ کتابیں لے  کر آیا اور مجھے  دیں کہ ان کو پڑھنا ہمارے  آفس میں ایک جاؤ ید نام کا لڑکا بستی کا اور کام کرتا تھا، میری یوسف نے  اس سے  ملاقات کرائی اور قبول اسلام اور نئے  نام سے  تعارف کرایا، ایک ہفتہ کے  بعد ایک روز آفس آیا اور مجھے  بتایا کہ کچھ گھر یلو حالات کی وجہ سے  اب نو کری چھوڑ کر جانا ہو گا، میں نے  دو بئی میں نوکری تلاش کر لی ہے  اور پرسوں میری فلائٹ ہے، مجھ سے  کہا کہ آپ کو ایمان پر جمنا ہے، ایمان اس کائنات کی سب سے  قیمتی چیز ہے  آدمی تانبہ خریدتا ہے  تو کچھ قیمت دینی پڑتی ہے، چاندی خریدے  تو اور قیمت دینی پڑتی ہے، سونے  کے  لئے  اور بھی زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے، ایمان تو بہت قیمتی چیز ہے  اس کے  لئے  بڑی قیمت دینی پڑے  گی تو دیکھو ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنا، اس کے  بعد وہ دوبئی چلے  گئے، جاؤ ید بہت مذہبی مسلمان نہیں تھا، وہ مجھے  میرے  چاہنے  کے  باوجود وقت نہیں دے  سکا، میں نے  ایک مولانا صاحب سے  جا کر نماز وغیرہ سیکھنا شروع کی، ہمارے  گھر میں گھر کا ایک چھوٹا سامندر تھا جس میں بہت سی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں، میں نے  ایک روز ایک مورتی گنیش جی کی اس میں سے  اٹھائی اور نہر میں ڈال دی مورتی کو نہر میں ڈالنا تھا کہ شیطانوں کو طیش آ گیا، ہمارے  گھر پر مصیبت آنا شروع ہو گئی، میری موٹرسائیکل اچانک پیڑ سے  ٹکرا گئی، میرا پیر ٹوٹ گیا، پلاسٹر چڑھایا ہڈی نہیں جڑ سکی آپریشن کرانا پڑا، میں ابھی ٹھیک نہیں ہو ا تھا کہ چھوٹے  بھائی پرمود زینے  پر سے  پھسل گیا، اس کے  بہت چوٹ آئی، پتاجی (والد صاحب )بیمار ہوئے، بہنوئی اسپتال میں، کبھی کوئی حادثہ ہوتا تھا، میرے  پتاجی نے  بہت سے  جیوتشیوں سے  رائے  لی، سیانوں کو دکھایا سب لوگ یہی کہتے  تھے  کہ کسی بات کی وجہ سے  کوئی دیوتا ناراض ہیں، گر علاج کسی سے  نہ ہو پایا، دادری میں ایک پیر جی صاحب رہتے  تھے، لوگ ان کو بہت صاحبِ کمال سمجھتے  تھے، بڑی دیر میں ان کے  یہاں نمبر آتا تھا، پریشان ہو کر ہمارے  پتاجی ان کے  یہاں گئے، میں بھی ان کے  ساتھ تھا، انہوں نے  بتا یا کہ آپ کے  بچوں میں سے  کسی نے  اپنا دھرم چھوڑ کر دوسرے  دھرم کو اپنا یا ہے  اسی وجہ سے  پریشانی ہے، اچانک یہ بات سن کر میں ان کا بہت معتقد ہو گیا، میں نے  ان کو صاف صاف بتا دیا، انہوں نے  مجھ کو بتایا کہ جب تک تم اسلام سے  توبہ کر کے  اپنے  آبائی ہندو دھرم میں نہ آؤ گے  اسی طرح گھر میں پریشانی ہوتی رہے  گی۔

 سوال  :پیر جی نے  یہ بات کہی؟

  جواب  :جی ہاں، بڑی لمبی داڑھی اور بہت سارے  ان کے  چیلے  انہوں نے  یہ بات کہی، میں نے  بھی انکے  سامنے  ا قرار کیا کہ میں نے  تین مہینے  پہلے  اسلام قبول کر لیا ہے، میرے  پتاجی نے  مجھے  سمجھایا اور میں بھی اچانک پیر جی کے  بتانے  سے  ان کا بہت معتقد ہو گیا تھا، روز روز کی پریشانی سے  میں بھی عاجز آ گیا تھا، اس لئے  گھر والوں اور پیر جی کے  زور دینے  پر میں مرتد ہونے  پر تیار ہو گیا، میرے  پتاجی مجھے  لے  کر ایک پنڈت جی کے  یہاں گئے، اور پنڈت جی نے  ہنومان مندر میں مجھے  نہلا کر شدھی کی، میرے  مرتد ہو کر ہندو بن جانے  سے  گھر کی پریشانیوں پر جیسے  آگ پر پانی ڈال دیا جاتا ہے  والا معاملہ ہو گیا، گھر میں سکون و چین ہو گیا، مگر اندر سے  مجھے  بڑی بے  چینی ہوتی تھی، کئی بار سوتے  سوتے  جیسے  یوسف کی آواز میرے  کانوں میں آتی تھی اس ایمان کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا، تانبہ خریدنے  کے  لئے  قیمت دینی پڑتی ہے، چاندی خریدنے  کے  لئے  اور بھی زیادہ اور سونے  کے  لئے  اور بہت زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے، ایمان کا ئنات کی سب سے  قیمتی چیز ہے  اس کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا اور میری آنکھ کھل جاتی، اور مجھے  کئی کئی روز بے  تابی سی رہتی، کسی مسلمان کو دیکھتا میں بے  چین سا ہو جاتا، کسی مسجد کے  مینار دیکھتا تو عجیب سی بے  چینی کی کیفیت مجھ پر طاری ہو جاتی۔

  سوال  :اس دوران آپ پوجا وغیرہ کرنے  لگے  ؟

  جواب  :ہاں میں پریشانیوں سے  بچنے  کے  لئے  پوجا وغیرہ کرتا تھا، مگر میری پوجا عقیدت سے  نہیں بلکہ شر سے  بچنے  کے  لئے  ڈر کی وجہ سے  تھی، جیسے  کوئی بد معاشوں یا پولیس سے  ڈر کر کوئی کام کر ے  یا بیان دے۔

  سوال  :اس کے  بعد پھر اسلام کی طرف دو بارہ کس طرح آنا نصیب ہوا؟

  جواب  :میں نے  کیا؟ میرے  اللہ نے  میرے  چاہے  بغیر مجھے  ایمان و اسلام کا سایہ عطا کیا، ہوا یہ کہ ایک روز میں آفس سے  آیا تو ہمارے  گاؤں میں ایک جماعت آئی ہوئی تھی، جماعت والے  گشت کر رہے  تھے، میں گھر جا رہا تھاراستے  میں میں نے  جماعت کو دیکھا، میرے  دل میں بے  چینی ہو ئی کہ مجھے  ان کے  ساتھ مسجد میں جانا چاہئے  اور نماز پڑھنا چاہئے، مگر مجھے  بہت ڈر لگا کہ اگر میں نے  نماز پڑھی تو گھر میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے  رات تک عجیب بے  چینی کی کیفیت رہی، رات میں سویا تو میں نے  خواب دیکھا کہ کچھ جماعت والے  مجھے  بلانے  آئے  کہ مسجد میں ہمارے  حضور ﷺ تشریف رکھتے  ہیں، آپ کو بلاتے  ہیں، میں خوشی سے  بولا، مجھے  ؟مجھ گندے  کو ہمارے  نبی نے  بلایا ہے، انہوں نے  کہا ہاں، آپ کو ہی بلایا ہے، میں نے  کہا کہہ کر بلایا ہے ؟انہوں نے  کہا کہ آپ نے  فرمایا ہے  کہ عبید اللہ کو بلا کر لاؤ، میں بہت خوش ہوا، اور مسجد میں گیا تو بہت ہی خوبصورت نورانی شکل میں ہمارے  نبی ﷺ ممبر پر تشریف رکھتے  ہیں، میں نے  سلام کیا آپ نے  کھڑے  ہو کر مجھے  گلے  لگا یا اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے  کہ میں نے  ہی تمہارا نام عبید اللہ رکھا ہے، تمہیں معلوم ہے  عبید اللہ کا مطلب ہے  صرف اللہ کا بندہ اور تم شیطانوں سے  ڈر گئے  یہ دنیا تو مومن کا قید خانہ ہے  اور کافر کی جنت ہے  جب تم یہاں کی مشکل سے  ڈر گئے  اور برداشت نہ کر سکے  تو آخرت میں جہنم کی سزا کس طرح برداشت کر سکتے  ہو، میری آنکھ کھل گئی، صبح کے  ساڑھے  چار بجے  تھے، سردی کا زمانہ تھا، میں بے  چین ہو گیا، میں نے  غسل کیا اور مسجد پہونچ گیا، جماعت کے  کچھ لوگ اٹھ گئے  تھے  میں نے  ان سے  معلوم کیا کہ امیر صاحب جاگ گئے  ہیں ؟انہوں نے  کہا کہ ہاں، وہ نماز پڑھ رہے  ہیں، میں ان کے  پاس گیا اور ان سے  خوشامد کر کے  وقت لیا اور پھر اپنا خواب اور اپنا حال بتایا، وہ میوات کے  رہنے  والے  عالم تھے، ایک مدرسہ میں پڑھاتے  تھے، انہوں نے  مجھے  دوبارہ کلمہ پڑھا کر ایمان کی تجدید کے  لئے  کہا، میں نے  کلمہ پڑھا اور پھر تہجد اور فجر کی نماز پڑھی، امیر صاحب نے  مجھے  اوکھلا جا کر آپ کے  والد صاحب مولانا محمد کلیم صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا، اور بار بار زور دے  کر آج ہی جا کر ملنے  کے  لئے  مجھ سے  وعدہ لیا، اور پتہ اور فون نمبر ان کے  پاس تھا دیا، میں گھر گیا، صبح آفس گیا، فون پر رابطہ تو نہیں ہو سکا، دن میں دو پہر پہلی بار یوسف کا دوبئی سے  فون آیا، میرا حال معلوم کیا میں نے  ان سے  کہا کہ مجھے  لمبی بات کرنی ہے، فون کاٹ دیا، آفس سے  نکل کر باہر میں نے  یوسف کو فون ملایا اور پوری داستان، رات کا خواب اور ایمان کی تجدید کی بات بتائی، یوسف نے  بتایا کہ آپ کا نام میں نے  خواب میں اللہ کے  رسول ﷺ کے  بتانے  پر رکھا تھا، مجھے  خواب دکھائی دیا تھا کہ تم چلے  جاؤ  گے  تو اسے  کون دعوت دے  گا، جاؤ  اس کو کلمہ پڑھواؤ اور اس کا نام عبید اللہ رکھو۔

            یوسف نے  بھی مجھے  حضرت صاحب سے  ملنے  پر زور دیا اور بتایا کہ میں نے  ان ہی کے  ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا، میں اپنے  اسلام کے  لئے  کئی مہینے  بھٹکتا رہا، پھر کسی نے  مولانا صاحب کا پتہ بتایا تھا، انہوں نے  مجھے  فوراً کلمہ پڑھوایا اور میرا نام محمد یوسف رکھا اور قانونی کاروائی پوری کرائی، میں شام کو آفس سے  ذرا جلدی اجازت لے  کر اوکھلا گیا، بٹلہ ہاوس جامع مسجد پہونچا، امام صاحب نے  بتایا کہ ابھی مغرب کی نماز حضرت نے  یہاں ہی پڑھی ہے، شاید ابھی ابھی نکلے  ہیں، انہوں نے  کسی کو دوڑا یا اور حضرت کو اطلاع دی، حضرت مولانا باہر نکلے  ہی تھے  واپس آئے  مسجد میں بیٹھ کر ملاقات ہوئی، میری پوری داستان بہت غور سے  سنی، اٹھ کر مجھے  گلے  لگایا، بہت مبارک باد دی، کئی بار میری پیشانی کو بوسہ دیا، آپ کیسے  خوش قسمت ہیں شان ہدایت نے  خود آپ کو قبول کیا ہے  اور کس شان سے  قبول کیا ہے، مگر اب دو بارہ چانس نہیں ملے  گا، اب ہر قیمت پر ایمان کی حفاظت کرنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ یوسف میاں کو مجھ سے  رابطہ کرا کے  جانا چاہئے  تھا، شاید ایک بار وہ آفس کے  کسی انجینئر کے  اسلام پر بحث کا ذکر کر رہے  تھے، وہ شاید آپ کا ہی ذکر کر رہے  تھے، میں نے  کہا ہاں، مہینوں سے  میری ہی بحث ان سے  ہوتی رہی، حضرت صاحب نے  مجھ سے  بتایا کہ شیطان، جنات اصل میں انسان کو ہدایت سے  ہٹا نے  کی کوشش کرتے  تھے  اگر آپ جمے  رہتے  تو اللہ تعالیٰ بادل چھانٹ دیتے  آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے  تھا۔

  سوال  :اس کے  بعد آپ نے  گھر والوں کو بتایا دیا ؟

  جواب  :مولانا احمد صاحب، اب میرا اسلام پہلے  اسلام سے  بالکل مختلف تھا، میرے  اللہ نے  میری مدد فرمائی اور مجھے  ہمت دی اور پوری دنیا بلکہ اگر کہوں کہ پوری کائنات سے  مخالفت مول لے  کر میں نے  اللہ کا صرف اللہ کا ہونے  کا عزم کیا تھا، میں نے  رات کو جا کر گھر والوں کو جمع کیا تھا اور کہا جس چیز کو میرا دل، میرا دماغ، میرا ضمیر حق جان اور مان چکا ہے  میں ان جھوٹے  دیوتاؤں کے  ڈر سے  اسے  نہیں چھوڑ سکتا، اب آپ پر آفت آئے  یا کچھ ہو، میں نے  اسلام قبول کیا ہے  اسے  چھوڑ نہیں سکتا، میرے  گھر والوں نے  مجھے  پچھلی مصیبتیں یاد دلائیں، میں نے  کہا اس سے  ہزار گنا آفتیں آئیں تو آئیں، میں حق سے  نہیں ہٹ سکتا، اب اگر میرا اسلام تمہیں پسند نہیں ہے  تو میں آپ اور آپ کے  گھر کو چھوڑسکتا ہوں، میرے  گھر والوں نے  مجھے  پیار سے  سمجھایا، اور جب میں نے  سخت رخ اختیار کیا تو میرا چھوٹا بھائی پرمود غصہ میں آ گیا، میرے  والد نے  بھی اس کا ساتھ دیا، میں رات کو گھر چھوڑ کر جانے  لگا، میری ماں مجھے  ایک کمرے  میں لے  گئی، دیر تک روتی رہی، میری پیدائش اور پھر پرورش کی مصیبتیں رو رو کر یاد دلاتی رہی، میں بھی روتا رہا اور بار بار ماں کو سمجھاتا رہا، میری ماں آپ نے  پال کر مجھ پر احسان کیا ہے، اس کے  بدلے  میں آپ سے  کہتا ہوں یہ دنیا دھوکے  کا گھر ہے، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایئے  اور مرنے  کے  بعد کے  جیون کو بنا لیجئے، بعد میں وہ بھی غصہ ہو گئی، اور رات کے  ایک بجے  میں گھر سے  نکل آیا، سردی کی رات تھی، کچھ دور پارک میں جا کر ایک شیڈ کے  نیچے  بیٹھ گیا، میں نے  سامنے  ایک ٹنکی سے  وضو کیا اور گھانس میں اللہ کے  حضور نماز کی نیت باندھی، نماز پڑھ کر اللہ کے  حضور گریہ و زاری شروع کی، اللہ کے  حضور میں گھنٹوں فریاد کی، میرے  اللہ میرا نام آپ نے  اپنے  نبی سے  عبید اللہ رکھوایا، میرے  اللہ میں صرف آپ کا بندہ ہوں نا، میرے  اللہ جب آپ نے  مجھے  صرف اپنا صرف اپنا بندہ بنا یا ہے  تو پھر آپ کے  کرم سے  میں نے  اپنے  محبت کرنے  والے  بھائی، بہنوں، اپنے  گھر بار کو شفقت سے  پالنے  والے  باپ کو اور بلکتی اور سسکتی ماں کو صرف آپ کے  لئے  چھوڑ آیا ہوں، میرے  اللہ بس آپ اپنا ہی بندہ بنا لیجئے، میرے  اللہ اب پھر مجھے  دوبارہ گمراہ ہونے  سے  بچا لیجئے، مجھے  یاد آیا حضرت مولانا نے  ایک دعا مجھے  لکھ کر دی تھی، اور اس کو روزانہ ذکر کرنے  کے  لئے  کہا تھا،

            رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْ بَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابَ (آل عمران:۷)

ترجمہ :اے  ہمارے  پروردگار تو ہمارے  دلوں کو کج نہ کیجئے  بعد اس کے  کہ آپ ہم کو ہدایت کر چکے  ہیں اور ہم کو اپنے  پاس سے  رحمت (خاص )عطا فرما یئے، بلا شبہ آپ بڑے  عطا فرمانے  والے  ہیں۔

            بار بار اس کا ہندی ترجمہ پڑھتا رہا۔مولوی احمد اس رات کی دعا اور اللہ کے  حضور فریاد کی لذت اور مزہ میں بتا نہیں سکتا، ایسا لگتا تھا اللہ کی رحمت میری بلائیں لے  رہی ہے، اور مجھے  سب کچھ چھوڑ کر اندھیری سردی کی رات میں اس میدان میں آسمان کی چھت کے  نیچے  اللہ کا بندہ بن جانے  میں ایسا مزہ آیا اور پھر اچانک مجھے  خیال آیا کہ جب یہاں اس کے  بننے  کی آرزو میں ایسا مزہ ہے، جنت میں جمعہ کے  دن اللہ کا دیدار کرنے  میں کتنا مزہ ہو گا، ایک عجیب سا نشہ اور مزہ نہ جانے  سردی کی لمبی رات جیسے  پلوں میں ختم ہو گئی ہو۔

  سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟

  جواب  :میں صبح کو اوکھلا آیا مولانا صاحب کو تلاش کیا کہ مشورہ کروں مگر مولانا صاحب فجر کے  بعد سفر پر جا چکے  تھے، مجھے  کسی نے  مرکز نظام الدین جانے  کا مشورہ دیا، وہاں پر لوگوں نے  پھر مولانا صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا، اگلے  روز مولانا صاحب سے  ملاقات ہوئی، مولانا صاحب نے  مجھے  اپنے  ایک دوست کے  یہاں چند روز کے  لئے  بھیج دیا، دور روز تک مشورہ ہوتا رہا میں بار بار اسلام پڑھ کر ایک عالم اور داعی بننے  کی خواہش کرتا رہا۔مولانا نے  میرے  کاغذات بنوائے  اور پہلے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا چالیس روز کے  لئے  میں جماعت میں چلا گیا، واپس آیا تو مولانا کے  مشورہ سے  کرناٹک کے  ایک مدرسہ میں اپنی جماعت کے  امیر صاحب کے  ساتھ جا کر داخلہ لے  لیا، دو سال پہلے  مولانا صاحب سے  ملنے  آیا تو انہوں نے  گھر والوں سے  دعوتی سلسلہ میں رابطہ کے  لئے  کہا، میں نے  کہا کہ میں نے  اللہ کے  لئے  چھوڑ دیا تو چھوڑ دیا، پھر کہیں ان کی وجہ سے  نہ بھٹک جاؤں مولانا نے  کہا جس طرح اللہ کے  لئے  چھوڑ نے  میں مزہ ہے  اسی طرح اللہ کے  لئے  ملنے  اور اللہ سے  ان کو ملانے  میں اس سے  زیادہ اللہ کا قرب ملے  گا، میں نے  گھر فون کیا ممی نے  فون اٹھایا اور بلک بلک کر رونے  لگیں، میرا پتہ معلوم کیا، میں نے  ہمایوں کا مقبرہ کا پتہ بتایا، وہ ملنے  آئیں اور گھر میں جو حالات آئے  بڑے  درد کے  ساتھ بتاتی رہیں، میں نے  کہا یہ ہمایوں کا مقبرہ ہے، کیسے  کیسے  بڑے  چھوٹے  سب مر گئے، ممی ہمیں بھی مرنا ہے، میری ماں میں آپ کا بیٹا ہوں آپ سے  سچی محبت کرتا ہوں، آپ کلمہ پڑھ لیجئے، میری ماں میری محبت میں بالکل سوکھ گئی تھیں، میرے  اللہ کا کرم گھنٹوں کی خوشامد کے  بعد وہ تیار ہو گئیں اور میں نے  ان کو حضرت مولانا سے  ملوایا حضرت نے  ان کو دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام سلمہ رکھا، میری چھوٹی بہن بھی ساتھ تھیں مولانا نے  ان کو سمجھایا وہ بھی تیار ہو گئیں حضرت نے  ان کا نام اسماء رکھا۔

  سوال  :اس کے  بعد آپ کی تعلیم کا کیا ہوا؟

  جواب  :والد ہ نے  گھر جانے  کا اصرار کیا، حضرت صاحب کی خوشامد کرتی رہی، حضرت نے  مجھے  حکم دیا کہ ماں کی بات مان لو، اور والد سے  ایمان پر جمنے  کی نصیحت کی اور وعدہ کیا کہ میں نوئیڈا میں ایک استاذ کا نظم کر دوں گا جو آپ کو عا  لمیت کرا دے  گا، میں گھر چلا گیا شروع میں والد صاحب نے  بہت مخالفت کی مگر اللہ نے  میرا ساتھ دیا، میرے  رب کا کرم ہے، میرے  والد اور میرے  بھائی الحمد للہ مسلمان ہیں۔

  سوال  :خاندان والوں اور سماج کی طرف سے  کچھ مخالفت نہیں ہوئی۔

  جواب  :بہت ہوئی، اسکی لمبی داستان ہے، یہ دو سال ان کی مخالفتوں کے  ساتھ ایک لمبی زندگی ہے  حضرت کے  مشورہ سے  ہم نے  وہاں سے  ہجرت کر لی، اور دہلی میں رہنے  لگے  ہیں، ان مخالفتوں میں کیونکہ اللہ نے  ایمان عطا فرما دیا تھا عجیب مزہ تھا۔

  سوال  :کچھ بتایئے ؟

  جواب  :وہ ایک لمبی کہانی ہے، کسی وقت پھر فرصت سے  سن لیجئے  گا۔

  سوال  :اچھا ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیجئے۔

 جواب  :ہر چیز پر جمنے  کے  لئے  استقامت کی ضرورت ہے، ساری کائنات اور کل مخلوق کی نفی کر کے  اس اکیلے  کا بن جانے  کا مزہ اس دنیا کی بلکہ اگر میں کہوں کائنات کی سب سے  بڑی نعمت اور مزہ کی چیز ہے، تو بالکل بجا ہے، انسان کمزور ہے، بس اللہ تعالیٰ ذرا ارادہ اور نیت دیکھتے  ہیں اور اپنے  کو یکسو (حنیف )بنا لے  پھر وہ ہمت بھی دیتے  ہیں، اور توفیق بھی، قربان اس کی رحمت کہ مزہ بھی اور لذت بھی دیتے  ہیں، اور اس پر نور علی نور آخرت میں اجر عظیم بھی، ایسے  دینے  والے  کریم و رحیم رب کے  علاوہ کون ہے  دل لگانے  کے  لائق ؟اور قربان ہونے  کے  لائق اور روتے  ہوئے۔۔۔۔۔۔مگر اس کا ہو جانے  کے  لئے  سب کی نفی ضروری ہے، لا الہ الا اللہ میں پہلے  نفی بعد میں اثبات ہے  سب کو ٹھکرائے  اور سب سے  ٹکرانے  کے  عزم کے  بنا اس کا بننا چاہے  تو بس دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔

  سوال  :بہت شکریہ عبید اللہ بھائی اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس نفی و اثبات کا مزہ چکھا دے۔

  جواب  :آپ شرمندہ کر رہے  ہیں۔

  سوال  :نہیں نہیں بلکہ سچ ہے  کہ آپ کو اس کا حق الیقین اللہ نے  عطا کیا ہے، آپ کے  کہنے  سے  میرے  رونگٹے  کھڑے  ہو رہے  ہیں۔

  جواب  :مولوی احمد، اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔

                                    مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘جنوری  ۲۰۱۰ئ

٭٭٭

محمد اقبال ایڈوکیٹ {راجندر ملک }سے  ایک ملاقات

احمد اواہ                :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اقبال ایڈوکیٹ :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :وکیل صاحب پھلت سے  نکلنے  والے  اردو میگزین ارمغان کے  دستر خوان پر ہم آپ کا قارئین ارمغان اور کارکنان ارمغان کی طرف سے  پر خلوص استقبال کرتے  ہیں اور درخواست کرتے  ہیں کہ آپ پہلے  قارئین ارمغان سے  اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

  جواب  :میں ہریانہ کے  کرنل ضلع کے  ایک جاٹ پریوار (خاندان )کا ایک معمولی آدمی ہوں، میرے  پتاجی (والد صاحب) نے  میرا نام راجندر ملک رکھا تھا، میرا جنم ۲۲/فروری ۱۹۷۴ء کو ہوا گاؤں کے  اسکول میں پڑھائی ہوئی پھر ہریانہ بورڈ سے  بارویں کلاس پاس کیا اور روہتک یونیورسٹی سے  میں نے  L.L.Bکیا پانی پت کورٹ میں وکالت شروع کی اور بعد میں یونیورسٹی سے  ہی L.L.Mبھی کیا۔میری شادی کیتھل ضلع کے  زمین دار خاندان میں اب سے  دس سال پہلے  ہوئی، میری بیوی بھی B.Aاور L.L.Bہے  دو بچے  مجھے  میرے  مالک نے  دئے  ہیں۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

  جواب  :ہمارے  گاؤں میں میرا ایک بچپن کا دوست نریش آریہ تھا، گریجویشن تک وہ اور ہم ایک کلاس میں پڑھتے  رہے، بعد میں وہ MBAکرنے  لگا میں نے  L.L.Bمیں داخلہ لے  لیا، مگر دوستی بہت پکی تھی، اس کے  پانی پت کے  ایک پنڈت خاندان کی لڑکی سے  تعلقات ہو گئے، دونوں ایک دوسرے  کے  دیوانے  ہو گئے  گھر والے  شادی کے  لئے  تیار نہیں ہوئے  کسی مسلم وکیل سے  ان کی دہلی میں ملاقات ہوئی اس نے  ان کو دھرم بدل کر شادی کر لینے  کا مشورہ دیا، کچھ روز پہلے  چاند اور فضا کے  معاملہ کا خوب چرچہ تھا، ان دونوں نے  مسلمان ہو کر شادی کرنے  کا ارادہ کر لیا مگر کوئی ان کو اس طرح مسلمان کر کے  شادی کرانے  کے  لئے  تیار نہ ہوتا تھا، نریش کا حال خراب ہوا جا رہا تھا مجھے  ڈر ہوا کہیں پاگل نہ ہو جائے  اس لئے  میں اور میرے  ساتھ دو وکیل اور تھے  ان کو لے  کر جامع مسجد دہلی گئے، امام صاحب سے  ملاقات ہوئی انھوں نے  کہا مسلمان تو ہم ان کو بنا لیں گے  مگر شرط یہ ہے  کہ علاقہ کے  دو ذمہ دار مسلمان کو جو ان دونوں کو جانتے  ہوں لے  کر آئیں ہم نے  کہا ہم دو کے  بدلے  میں تین وکیل گواہی دیتے  ہیں انھوں نے  کہا مسلمان کو لے  کر آؤ ہم لوگ واپس پانی پت گئے  کئی روز کی کوشش کے  بعد دو لوگوں کو لے کر دہلی گئے، امام صاحب نے  ان کو کلمہ پڑھوایا اور لڑکے  کا نام نریش عبداللہ اور لڑکی کا نام مریم فاطمہ رکھا، ہم نے  نکاح کے  لئے  کہا تو انھوں نے  منع کیا کہ نکاح قاضی سے  پڑھوائیے، ہمارا مقصد صرف شادی ہی تھا ہم اس سے  مایوس واپس آ گئے  دہلی میں شام تک قاضی تلاش کیا مگر کوئی قاضی نہیں ملا، پانی پت آ کر بھی کئی مسجدوں میں گئے  کہ کوئی ان کا نکاح پڑھا دے  مگر کوئی تیار نہیں ہوا، کیرانہ کے  ایک صاحب ملے، ان سے  میں نے  نریش کی بات رکھی، انھوں نے  کہا، آپ ان کو لے  کر کیرانہ آ جائیں، ہمارے  یہاں کے  امام صاحب ان کا نکاح پڑھا دیں گے، ۱۵/جنوری کو ہم تینوں وکیل ساتھی کیرانہ پہنچے، امام صاحب سے  ملے  انھوں نے  کہا کہ آپ کا یہ کام پھلت میں ہو جائے  گا، آپ پھلت چلیں، ہم نے  ان سے  کہا ہم بہت دھکے  کھا چکے  ہیں آپ ساتھ چلیں تو ہم پھلت کیا کلکتہ بھی جا سکتے  ہیں، وہ ساتھ جانے  کے  لئے  تیار ہو گئے، پھلت پہنچے  سخت سردی ہو رہی تھی، پھلت پہنچ کر مولانا کلیم صاحب (آپ کے  والد صاحب )کے  گھر پہنچے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مولانا صاحب پھلت میں ہیں، امام صاحب نے  بتایا کہ آپ کی قسمت ہے  کہ حضرت مل گئے  ورنہ سفر میں رہتے  ہیں، بہت لوگ ملنے  والے  آئے  ہوئے  تھے، بڑی بھیڑ لگی تھی، بڑی مشکل سے  وقت ملا الگ کمرے  میں بات ہوئی، امام صاحب نے  بتایا کہ یہ دونوں مسلمان ہونا چاہتے  ہیں اور مسلمان ہو کر پھر شادی بھی کرنا چاہتے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا :جہاں تک مسلمان ہونے  اور ایمان لانے  کا سوال ہے  تو ہر ایک کو جلد از جلد مسلمان ہونے  کی، اور ہر مسلمان کو اپنے  ہر بھائی بہن تک، جن سے  ہمارا خون کا رشتہ ہے  ہمیشہ کی نرک اور دوزخ سے  بچانے  کے  لئے  مسلمان بنانے  اور کفر و شرک سے  توبہ کرانے  کی کوشش کرنی چاہئے، اس لئے  آپ کو کیرانہ میں ہی کلمہ پڑھوا دینا چاہئے  تھا، جہاں تک شادی کا تعلق ہے  تو یہ کام تو وکیلوں کے  ذریعہ ہو سکتا ہے، اچھا تو یہ ہے  کہ اپنے  گھر جا کر ماں باپ کو تیار کرنا چاہئے  ماں باپ اولاد سے  بہت محبت کرتے  ہیں، اگر ان سے  بغاوت کا راستہ اختیار کرنے  کے  بجائے  ان کی خوشامد کی جائے  تو وہ سماج کے  خلاف بھی اپنی اولاد کی خوشی کے  لئے  تیار ہو جاتے  ہیں، میرا مشورہ ہے  کہ آپ لوگ گھر جائیں بلکہ زور دے  کر آپ سے  درخواست ہے  کہ ان کو ان کے  گھر لے  جا کر ان کے  ماتا پتا کو راضی کر کے  شادی کریں، جب ہی وہ شادی ہو گی، میں نے  کہا گھر والے  تیار نہیں ہوئے  بہت کوشش کر لی، وہ کسی طرح تیار ہونے  والے  نہیں، حضرت نے  کہا تو شادی تو عدالت میں ہی ہونا ضروری ہے، ہم لوگ اس طرح کے  چکر میں نہیں پڑتے  اور نا جائز ساتھ رہنے  والوں کو اللہ کے  قانون میں ساتھ رہنے  کا قانونی حق دلانے  اور گناہ سے  بچانے  کے  لئے  اگر ہم لوگ نکاح پڑھوا بھی دیتے  ہیں تو ہمارے  پاس نکاح نامہ کاغذات وغیرہ نہیں ہوتے، یہ چیزیں جو لوگ نکاح پڑھاتے  ہیں وہ دیتے  ہیں ہم نے  کہا آپ ان کو مسلمان تو کر لیں اور نکاح کر دیں جب یہ مسلمان ہو جائیں گے  تو آپ کو ہی یہ کام کرنا ہو گا، اگر یہ ہندو رہتے  تو مندر میں پھرے  ہوتے، حضرت صاحب نے  کہا بہت یہ ہے  کہ کلمہ تو میں پڑھوا دیتا ہوں، اور آپ میرٹھ چلے  جائیں وہاں پر وکیل ہیں وہ کسی سے  نکاح بھی پڑھوا دیں گے  اور قانونی کاروائی بھی کروا دیں گے۔

            ہم نے  کہا آپ مسلمان کر کے  نکاح پڑھا دیں قانونی کاروائی ہم خود کروا لیں گے  ہم تینوں وکیل ہیں مولانا صاحب نے  کہا اصل میں نکاح نامہ تو آپ کو بھی چاہیئے  ہو گا، ایسا کرتے  ہیں کہ کلمہ میں پڑھواتا ہوں اور ہمارے  یہاں حافظ عبداللہ صاحب ہیں وہ گاؤں میں نکاح پڑھواتے  ہیں، آپ جا کر وہاں نکاح پڑھوا لیں وہ نکاح نامہ بھی بنوا دیں گے، آپ اس کو عدالت میں رجسٹرد کروا لیجئے، میں نے  کہا ٹھیک ہے  آپ مسلمان تو بنا لیں۔

  سوال  :مسلمان تو وہ جامع مسجد دہلی میں بن گئے  تھے  آپ نے  بتایا نہیں ؟

  جواب  :مولوی احمد صاحب مجھے  ڈر ہوا کہ یہ سمجھیں گے  کہ امام صاحب نے  نکاح نہیں پڑھایا تو کوئی دال میں بڑا کالا ہے، اس لئے  میں نے  نہیں بتایا۔

  سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا، بتایئے ؟

   جواب  :مولانا صاحب کو جلدی تھی، جلدی میں مولانا صاحب نے  ان دونوں کو سامنے  بٹھا کر بتایا اور ہم تینوں سے  بھی کہا کہ آپ بھی سنیں جس دیش میں آدمی رہتا ہو وہ اس کے  حاکم مالک کو نہ مانے  تو باغی اور غدار ہے، کسی باغی اور غدار کو دیش کی شہریت (نیشنلٹی )نہیں ہوتی، اس کو دیش کی چیزوں سے  فائدہ اٹھانے  کا حق حاصل نہیں ہوتا وہ جب پکڑا جائے  گا تو ہمیشہ کی جیل یا پھانسی کی سزا پائے  گا، یہ پوری سرشٹی (کائنات)کا مالک اور حاکم اکیلا اللہ ہے، اس کا فائنل اور اپ ٹو ڈیٹ موجودہ دستور کانسٹی ٹیوشن قرآن مجید ہے  وید بھی ہیں مالک کی طرف سے  بھیجا گیا قانون تھا وہ دستور کا قدیم ایڈیشن (آدی گرنتھ )تھے، فائنل اور مکمل شکل کا ایڈیشن قرآن ہے، اب جو آدمی اللہ کو نہ مانے  اور اس کو اکیلا نہ مانے  اور اس کے  فائنل قانون قرآن کو نہ مانے  وہ غدار اور باغی ہے   اسے  اللہ کی زمین میں رہنے، یہاں کا پانی پینے  اور ہوا تک استعمال کرنے  کا حق نہیں ہے، اس لئے  کسی ملک کا حق شہریت حاصل کرنے  یا کوئی عہدہ قبول کرنے  کے  لئے  سنودھان (دستور)کی شپتھ(قسم)اس کو دلائی جاتی ہے، اللہ کی کائنات میں رہنے  کا حق حاصل کرنے  کے  لئے  بغاوت اور غداری سے  توبہ کر کے  اس کا سچا وفادار رہنے  کا عہد اور اس کے  فائنل دستور قرآن کے  پرتی وچن بدھتا(اس کے  مطابق زندگی گزارنے )کی شپتھ(قسم)لینا ضروری ہے، اسی کو کلمہ پڑھنا کہتے  ہیں اور اسی کو ایمان لانا کہتے  ہیں، ورنہ موت کے  چیک پوسٹ پر امیگریشن اسٹاف اللہ کے  فرشتے  چیکنگ کریں گے  اور ایمان نہ ہونے  پر ہمیشہ کی جیل، نرک میں ڈال دیں گے، اس لئے  سچے  دل سے  مالک کو حاضر ناظر جان کر دو لائن پہلے  عربی میں کہہ لیں کہ مسلمان ہونے  کے  لئے  میں حلف لے  رہا ہوں اور عہد کر رہا ہوں کہ جیون قرآن کے  مطابق گزاروں گا، حضرت نے  کہا کہ ہم سبھی پڑھ لیں ہم تینوں سے  کہا کہ وکیل صاحب آپ تو قانون کے  آدمی ہیں، آپ کے  لئے  ان سے  زیادہ ضروری ہے  کہ آپ ضرور شپتھ(قسم) لیں۔

            مولانا صاحب نے  ہم سب کو عربی میں کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ذرا کھول کر مطلب کہلوایا، مولانا صاحب نے  کہا اب آپ حافظ عبداللہ کے  یہاں جائیں اور ان سے  نکاح پڑھوا لیں البتہ یہ یاد رہے  کہ یوں تو جو آدمی ایمان نہ لائے  وہ کتے  سے  بھی گیا گزرا ہے  کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے  مالک کے  در پر پڑا رہتا ہے  در نہیں چھوڑتا، پھر جو دردر بھٹکتا پھرے  وہ کتے  سے  بھی گیا گذرا ہے، مگر اصل میں ایمان کی ضرورت موت کے  وقت پڑے  گی، اس لئے  اس حلف پر موت تک جمنا ہے  اور ایمان وہ معتبر ہے  جو اس دلوں کے  بھید جاننے  والے  کو قبول ہو جائے  اس لئے  بھی آتما سچے  دل سے  حلف لینے  والا اس مالک کے  یہاں ایمان لانا ہے، حضرت صاحب نے  ہم پانچوں کو اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘منگا کر دی، ماسٹر اکرم صاحب کو بلایا اور ہم سبھی لوگوں کو گرم اور اچھی چائے  اور ناشتہ کرانے  کو کہا اور ہمیں حافظ عبداللہ صاحب کے  پاس ایک صاحب کے  ذریعہ بھیج دیا بعد میں اپنے  نواسے  مولانا محمد عمر صاحب کو ہمارے  پاس بھیجا   انھوں نے  ہمیں اسلام اور ایمان کے  بارے  میں بتایا، ناشتے  اور چائے  سے  فارغ ہو کر ہم لوگ حافظ عبداللہ صاحب کے  پاس گئے، انھوں نے  نکاح پڑھانے  سے  منع کر دیا کہ پہلے  آپ قبول اسلام کا ایفی ڈیوٹ (حلف نامہ )بنوائیں اس کی ایک کاپی ہمارے  پاس ہونا چاہئے، میں نے  کہا کہ ہمارے  پاس امام بخاری کا سرٹیفکٹ ہے، حافظ صاحب نے  حضرت کو فون کیا حضرت صاحب نے  کہا اس سرٹیفکٹ کی ایک کاپی لے  کر نکاح پڑھواؤ۔نکاح پڑھوا کر ہم لوگ رات کو لوٹ گئے  اور گھر پہنچ گئے۔

  سوال  :کیا آپ نے  سچی آتما سے  ان سب کے  ساتھ کلمہ پڑھا تھا ؟

  جواب  :نہیں بلکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہہ رہے  ہیں تو پڑھ لوں کہیں یہ نکاح کو منع نہ کر دیں، البتہ جو بات مولانا صاحب نے  بتائی وہ دماغ میں جم گئی دل بھی کہتا تھا کہ بات تو بالکل سولہ آنہ ٹھیک ہے، حضرت نے  یہ بھی کہا تھا کہ قرآن کے  بارے  میں یہ جانا اور سمجھا جاتا ہے  کہ قرآن مسلمانوں کا دھارمک گرنتھ ہے  حالانکہ قرآن مجید مالک کی طرف سے  بھیجا ہوا پورے  سنسار کے  لئے  مکمل اور آخری سنودھان ہے  اس کا جاننا اور ماننا جس طرح عبداللہ اور محمد عمر کے  لئے  ضروری ہے  سی طرح نریش اور راجیندر کے  لئے  بھی ضروری ہے۔

  سوال  :ابی کو آپ نے  اپنے  نام بتا دیئے  تھے  ؟

  جواب  :نہیں بس وہ تو ایسی ہی مثال کے  طور پر نام لے  رہے  تھے  اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صرف ہمیں کہہ رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  یہ بھی بتایا کہ یہ تو ٹھیک ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کو اپنے  خونی رشتہ کے  غیر مسلم بھائیوں تک پہنچائیں اور اس کے  نہ پہنچانے  کے  جرم میں وہ میدان محشر (نیائے  دوس)میں پھنسیں گے، مگر آپ بھی اس پر بچ نہیں سکتے  کہ ہمیں پہنچایا نہیں گیا تھا، اس لئے  کہ ساری دنیا کے  قانون کے  مطابق قانون کا نہ جاننا سب سے  بڑا قانونی جرم ہے  مجھے  لگا کہ بات بالکل ٹھیک ہے  اور میں نے  قرآن پڑھنے  کا ارادہ وہیں کر لیا رات کو آ کر سو گیا اگلے  روز اپنے  ایک مسلمان ساتھی وکیل سے  میں نے  قرآن مجید مانگا اس نے  کہا منگوا دوں گا، اس نے  کئی روز کے  تقاضے  کے  بعد چھوٹے  قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لا کر دیا، میں نے  پڑھنا شروع کیا، مولوی احمد جیسے  میں نے  پڑھنا شروع کیا، میرے  پاس شبد (الفاظ)نہیں کہ میں اپنی حالت بیان کر سکوں، جیسے  جیسے  قرآن مجید پڑھتا گیا مجھے  لگا کہ تو نے  کچھ بھی نہیں پڑھا اور سارا جیون برباد کر لیا لگتا تھا پڑھتا رہا دو روز تک کچہری بھی نہیں گیا منشی سے  کہہ دیا تاریخیں لگا دے، حالانکہ بڑے  مقدموں کی بحث کی تاریخ بھی تھی، قرآن مجید ختم کر کے  دوبارہ پڑھنا شروع کیا، ’’آپ کی امانت ‘‘بھی تلاش کی مالک کا کرم مل گئی اس کو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ بالکل موٹے  ذہن کو سامنے  رکھ کر حضرت صاحب نے  محبت کے  شہد میں قرآن مجید کے  نسخہ کا خلاصہ پڑھنے  والے  کو پلایا ہے، حضرت صاحب سے  پھر ملنے  اور اب سچے  دل سے  ایمان قبول کرنے  کی خواہش ہوئی، کیرانہ امام صاحب کے  پاس گیا، امام صاحب نے  حضرت کا فون لگایا کئی بار فون کی گھنٹی بجی فون کٹتا رہا، امام صاحب نے  کہا حضرت سفر میں ہوں گئے، پھلت کسی صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا حضرت راجستھان کے  سفر پر ہیں بہت مایوسی اور بے  چینی میں اچانک امام صاحب کے  فون کی گھنٹی بجی، حضرت صاحب نے  فون کیا تھا، امام صاحب نے  یہ کہہ کر کہ وہ وکیل صاحب جو پانی پت سے  ہمارے  ساتھ آئے  تھے  آپ سے  بات کرنا چاہتے  ہیں مجھے  فون دے  دیا، حضرت صاحب نے  کہا کہ میں مصروف تھا بار بار فون کاٹنے  کے  باوجود کئے  جا رہے  میں تو بہت ناگوار ہو رہا تھا، پھر اچانک خیال آیا کوئی پریشان حال دکھیارا نہ ہو کہ اس کو تسلی کی ضرورت ہو اس کو میرے  کہنے  سے  تسلی ہو جائے  اور میرا مالک مجھے  معاف کر دے  اس وجہ سے  میں نے  دل نہ چاہتے  ہوئے  بھی فون کیا میں نے  کہا حضرت صاحب میں واقعی بہت دکھیارا اور تسلی کا محتاج ہوں L.L.Mمیں نے  کیا L.Dکرنا چاہتا تھا، مگر آپ نے  جو سنودھان پڑھوایا اس نے  میری نیند اڑا دی، کتنے  بڑے  مقدمہ میں کتنی بڑی عدالت میں ہمیں جانا ہے  حضرت صاحب آپ نے  مجھے  بیمار تو کر دیا اب علاج کون کرے  گا، حضرت نے  کہا کہ وکیل صاحب آپ نے  صرف وکیل کی حیثیت سے  قرآن پڑھا ہے  میں نے  کہا نہیں حضرت میں نے  ملزم کی حیثیت سے  پڑھا ہے  اور پڑھ کر خود طے  کر لیا کہ میں ملزم نہیں مجرم ہوں اور میرے  لئے  نرک کی سزا طے  ہے  اور اگر یہ ہو گا تو ججمنٹ بالکل صحیح ہو گا بس بچنے  کی شکل مجھے  بتایئے  حضرت صاحب نے  کہا اصل میں آپ نے  وکیل ہو کر وکیل یا ملزم کی حیثیت سے  قرآن مجید پڑھا ہے، ایک بار آپ قرآن مجید اس طرح پڑھئے  کہ ایک ماں سے  ستر گنا ممتا رکھنے  والے  سارے  حسینوں کو اپنے  جمال سے  حسن و جمال دینے  والے  محبوب مالک کا محبت نامہ پڑھ رہے، ہیں میں نے  کہا میں ضرور پڑھوں گا، ہزاروں بار قرآن مجید پڑھوں گا بلکہ جنم کے  آخری سانس تک پڑھتا ہی رہوں گا مگر بغاوت کے  جرم سے  تو مجھے  نکالئے  حضرت نے  کہا آپ نے  سچی آتما سے  کلمہ نہیں پڑھا تھا، میں نے  کہا میں نے  نریش کا نکاح پڑھوانے  کے  لئے  کلمہ پڑھا تھا، اب سچے  دل سے  ایمان لانا چاہتا ہوں، حضرت صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا حضرت صاحب نے  مجھے  فون پر دوبارہ کلمہ پڑھوایا، اور میرا نام محمد اقبال رکھا پھر مجھ سے  معلوم کیا ان دونوں کا کیا ہوا، میں نے  کہا چندی گڑھ ہائی کورٹ میں کاروائی کروانے  کے  لئے  گئے  ہیں، حضرت نے  کہا ان کو بھی سچا مسلمان بنانے  کی فکر کریں، اور ان کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ گھر والوں پر کام کریں اور اپنے  اپنے  گھر والوں کو اسلام کی دعوت دیں اور مجھے  یہ بھی بتایا کہ اپنے  دونوں ساتھی وکیلوں کو بھی قرآن مجید پڑھوائیں میں نے  کہا، میں نے  ان کو اپنے  ساتھ ہی قرآن مجید کے  دوران رکھا ہے۔

  سوال  :یہ کب کی بات ہے ؟

  جواب  :یہ کل کی بات ہے، مجھے  بہت بے  چینی ہوئی کہ حضرت صاحب سے  ملاقات ہو دہلی کا پتہ معلوم نہیں تھا، پھلت فون کیا اطمینان نہ ہوا، یہ تو معلوم ہو گیا کہ راجستھان سے  پھلت آ رہے  ہیں، میں رک نہیں سکا آج پھلت آیا وہاں اکرام بھائی نے  بتایا کہ اگر دہلی میں آج ہوں گے  تو خلیل اللہ مسجد میں نماز پڑھیں گے، آپ کوشش کر لیجئے  الحمد للہ ظہر کی نماز کے  وقت تھوڑی دیر پہلے  پہنچا اور فوراً میرے  اللہ نے  ملاقات کرا دی، حضرت صاحب نے  ہمارے  دونوں ساتھیوں کو بھی دو بارہ کلمہ پڑھوایا ہم تینوں جنم مرن کے  دوست ہیں مالک کا شکر ہے  کہ یہ دوستی ہمارے  بڑے  کام آئی حضرت صاحب نے  کہا یہ دوستی ایمان کے  بعد اب مرنے  کے  بعد کے  لئے  پکی اور رجسٹرڈ ہو گئی ہے، حضرت صاحب نے  کہا کہ آپ ارمغان کے  لئے  ایک انٹرویو دیں دے، میں نے  کہا بھی کہ میں ایک دن کا بھی ابھی مسلمان نہیں ہوں، میں کیا بتاؤں گا، مگر حضرت صاحب کو اپنا پیر مانا تو بات ماننا ہے  اس لئے  میں نے  اپنی داستان آپ کو بتایا۔

  سوال  :اب آئندہ آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

  جواب  :میں نے  ارادہ کیا ہے  کہ قرآن مجید اور قرآن کے  پیغام کو ساری دنیا میں پھیلاؤں گا میں دیکھتا ہوں کہ لوگ کس طرح اندھیرے  کو پھیلا رہے  ہیں چوراہوں پر بڑے  بورڈ لگا کر ایکسپائر  دواؤں کو بیچ رہے  ہیں اور جو سچائی ہے  سچا پیغام ہے  اس کی لوگوں کو خبر بھی نہیں، سچی بات یہ ہے  کہ میں خود قرآن مجید کے  بارے  میں یہ جانتا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے  جس میں کافروں کو قتل کرنے  کی باتیں ہیں اور فتوے  ہیں۔

  سوال  :آپ اسلام قبول کر کے  کیا محسوس کرتے  ہیں ؟

  جواب  :مولانا صاحب بالکل ایسا جیسے  ایک مجرم کو کال کوٹھری میں بند کر دیا جائے  اور اس کے  گلے  میں پھانسی کا پھندہ لگا دیا گیا ہو، اور اچانک پھندا اس کے  گلے  سے  نکال کر بری کر کے  آزاد کر دیا جائے، ایمان سچے  دل سے  قبول کرنے  کے  بعد کل سے  میں ایسا محسوس کر رہا ہوں۔

  سوال  :ماشاء اللہ، اردو کا ایک شعر ہی    ؎

خدا کی دین کا  موسیٰ سے  پوچھئے  احوال

کہ آگ لینے  کو جائیں اور پیمبری مل جائے 

            اللہ کے  ایک نبی حضرت موسیٰ ؑ کو طور ایک پہاڑ پر آگ کی تلاش کرنے  گئے  تھے  اور اللہ نے  ان کو اپنا نبی بنا لیا تھا، آپ کے  ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

  جواب  :آپ نے  بالکل ٹھیک کہا، اصل میں کسی انسان کے  ساتھ بھلائی مالک کے  یہاں ضرور قبول ہوتی ہے، اصل میں مجھے  نریش کے  حال پر ترس آیا، مجھے  خیال آیا اگر ایسے  ہی یہ پاگل ہو گیا یا سوسائڈ (خود کشی )کر کے  مر جائے  تو اس سے  تو اچھا ہے  کہ اس کی شادی ہو جائے۔ادھرم ہو جائے  جان تو بچ جائے، میں نے  ترس اور ہمدردی میں اس کا ساتھ دیا، مارا مارا پھرا، میرے  مالک کو رحم آ گیا، کہ ہمارے  بندہ پر ترس کھا رہا ہے، بندہ گناہ گار سہی، بس اللہ نے  مجھ کمینے  کو ایمان کے  لئے  قبول کر لیا۔

  سوال  :ارمغان پڑھنے  والوں کو کچھ پیغام آپ دیں گے  ؟

  جواب  :بس دعا کریں کہ مالک موت تک ایمان پر جمائے  رکھے، اور قرآن کو دنیا کے  کونے  کونے  میں رہنے  والوں تک پہنچانے  کے  لئے  میری مراد کو پورا کرا دیں۔

  سوال  :ماشاء اللہ بہت مبارک، بہت مبارک، بہت شکریہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

  جواب  : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

                                                مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘فروری  ۲۰۱۰ء

٭٭٭

بھائی محمد رئیس {رمیش کمار} سے  ایک ملاقات

احمد اواہ                :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اقبال ایڈوکیٹ :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

  سوال  :  رئیس صاحب آپ خیریت سے  ہیں، دہلی آپ کا کب آنا ہوا تھا ؟

  جواب  :  الحمد للہ خوب خیریت ہے  اور آج تو بہت ہی خیریت ہے، میں دس روز سے  دہلی میں ہوں، پکا ارادہ کر کے  چلا تھا کہ حضرت صاحب سے  ملاقات کرنی ہے، ۱۰/فروری کو دہلی آیا تھا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ممبئی کے  سفر پر گئے  ہیں، چار پانچ روز میں آئیں گے  میں نے  سوچا کہ گھر جا کر کارخانہ وغیرہ میں پھنس جاؤں گا، مل کر ہی جاؤں گا نظام الدین چلا گیا تھا ۱۷/کی صبح کو آیا تو معلوم ہوا کہ ابھی حضرت نہیں آئے  ہیں، آج کسی وقت آ جائیں گے، پھر چلا گیا ۱۸/کی صبح کو آیا تو معلوم ہو ا کہ حضرت فجر کی نماز پڑھ کر نکل گئے، کل آئیں گے  اب کل سے  ادھر ہی رک گیا ہوں کہ بس جب بھی آئیں گے  ملاقات ہو جائے  گی، سچی بات یہ ہے  کہ جب آدمی تلاش کرتا ہے  پاتا ہے، سچی نیت سے  کوشش کرنے  والے  کو مالک مایوس نہیں کرتے، چاہے  تھوڑا انتظار کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے  حضرت سے  الحمد للہ اچھی ملاقات ہو گئی تسلی ہو گئی۔

  سوال  :ابی نے  آپ کو بتا دیا ہو گا کہ پھلت سے  نکلنے  والے  میگزین ارمغان کے  لئے  مجھے  آپ سے  کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

  جواب  :جی ہاں حضرت مجھے  مسجد میں روک کر گئے  ہیں کہ احمد میاں آئیں گے  آپ اپنی کارگذاری ان کو بتائیں تا کہ وہ رسالہ میں چھپ کر لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔

  سوال  :برائے  کرم آپ اپنا خاندانی تعارف (پریچے ) کرائیں ؟

  جواب  :میں مشہور شہر فتح پور سیکری کے  ایک راجپوت خاندان میں ۳/جنوری ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا میرا نام میرے  پتاجی نے  رمیش کمار رکھا تھا، بارھویں کلاس میں دو مرتبہ فیل ہو جانے  کی وجہ سے  پڑھائی چھوڑنی پڑی، میرے  چچا کا کار مرمت کا کارخانہ تھا، پتاجی نے  ان کے  پاس کار کا کام سیکھنے  کے  لئے  چھوڑ دیا اور میں کار مکینک بن گیا۔۱۹۸۷ء میری شادی ہوئی اور دہلی جے  پور ہائی وے  پر میں نے  ایک ورکشاپ کھول لیا میرے  والد نائب تحصیلدار سے  ریٹائرڈ ہوئے  ہیں، میرے  ایک بڑے  بھائی قانون گو ہیں اور چھوٹے  بھائی پولیس میں آگرہ میں محکمہ آئی جی میں انسپکٹر ہیں، میری بیوی بھی ایک اچھے  پریوار کی ہے  وہ گریجویٹ ہے  میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

  سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

  جواب  :اصل میں مولانا احمد صاحب مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ سب کچھ کرنے  والا اس دنیا میں اپنی حکمت سے  جو کرتا ہے  کرتا ہے  اور یہ پورا سنسار (دنیا) بلکہ سرشٹی (کائنات)کٹھ پتلی کی طرح اس کی انگلی کے  اشارے  پر ناچتی ہے  بس وہ جس پر دیا رحم کر دے  اس کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے، نہ جانے  میرے  مالک کو مجھ پر کیسے  ترس آیا اور میرے  لئے  ہدایت کا انتظام کر دیا یا ہو سکتا ہے  کہ حضرت مولانا جی کو میری تلاش تھی وہ دعا کرتے  تھے  اللہ نے  ان کی سن لی اور مجھے  ہدایت بھی دے  دی اور گردن پکڑ کر مولانا صاحب کے  پاس بھیج دیا۔

  سوال  :  وہ تفصیل ہی تو ہمیں آپ سے  سننی ہے ؟

 جواب  : جی سنا رہا ہوں، میرے  چھوٹے  بھائی آئی جی میں انسپکٹر ہیں وہ آگرہ میں پوسٹڈ تھے  دو سال پہلے  آگرہ میں ایک سیمی کانو جوان پکڑا گیا تھا اس کے  گھر سے  جو سامان برآمد ہوا، اس میں ایک بریف کیس تھا جس میں ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘بھی تھی جو بیاور ضلع اجمیر راجستھان سے  چھپی ہوئی تھی میرے  بھائی سریش کمار نے  اس کتاب کو پڑھا، یہ کتاب ایسے  پریم بھاؤ(محبت کے  جذبہ) سے  لکھی گئی ہے  کہ سریش کے  دل میں چبھ گئی، مگر چونکہ افسروں کے  سامنے  برآمد سامان کی سوچی (فہرست) بنائی گئی تھی، اس لئے  وہ کتاب محافظ خانہ میں جمع کرنی پڑی، میرے  بھائی نے  کتاب کا نام اور چھپانے  والے  کا پتہ لکھ لیا آج ہی حضرت صاحب نے  بتایا کہ اس کتاب کی وجہ سے  ڈی آئی جی سہارنپور نے  حضرت صاحب کی انکوائری کرائی تھی، اور یہ کتابیں حضرت صاحب نے  مظفر نگر سی آئی ڈی ڈپارٹمنٹ میں بھی بھیجی تھیں، اللہ کا شکر ہے  کہ ایک انسپکٹر مظفر نگر میں بھی مسلمان ہوا تھا، میرے  بھائی سریش نے  اس پتہ پر جہاں بیاور سے  وہ کتاب چھپی تھی خط بھی لکھے  کہ مجھے  ہر قیمت پر وہ کتاب وی پی بھیج دیں مگر خطوں کا جواب نہیں آیا، میں جب بھی فتح پور سیکری جاتا اور بھائی سے  ملاقات ہوتی تو وہ مجھ سے  تقاضا کرتے  کہ آپ تو راجستھان میں ورکشاپ چلاتے  ہیں، آپ وہ کتاب کسی طرح منگا لیں میں ان سے  کہتا کہ ایسی کیا کتاب ہے  کہ جب ملتا ہوں ’’آپ کی امانت‘‘ کی رٹ لگاتے  ہیں، سریش کہتا کہ بھیا جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے  تو آپ کو معلوم ہو گا کہ لکھنے  والے  نے  کتنی مقدار میں پیار کا شہداس میں گھولا ہے  مین ہائیوے  پر ورکشاپ ہونے  کی وجہ سے  راجستھان کے  لوگ گاڑیاں لے کر نکلتے  رہتے  ہیں گاڑی خراب ہو جائے  تو ہمارے  پاس آتے  رہتے  ہیں ہمارے  پتاجی نے  ہمیں بچپن سے  راہ گیروں ضرورت مندوں کی سیوا کو سب سے  بڑا دھرم بتایا ہے  میں نے  ورکشاپ کیا تو میرے  پتاجی (والد صاحب ) نے  مجھے  بلا کر نصیحت کی کہ مین روڈ پر ورکشاپ کھول رہے  ہو تو یہ یاد رکھنا کہ وہاں جو آئے  گا زیادہ تر راہ گیر ہوں گے، کم سے  کم ان کی مجبوری سے  فائدہ نہ اٹھانا رات کو کوئی آ کر اٹھائے  تو اٹھنے  میں سستی نہ کرنا اور رات کو جس کی گاڑی ٹھیک کرو مزدوری مت لینا اسے  پوجا سمجھ کر کرنا اس کی مزدوری اوپر والا دے  گا، ابھی دسمبر میں ایک گاڑی بیاور کی آئی وہاں کے  لالہ لوگ تھے  ان کی گاڑی خراب ہو گئی گاڑی ٹھیک کی تو معلوم ہوا وہ بیاور کے  رہنے  والے  ہیں میں چار روز پہلے  فتح پور سیکری گیا تھا پتاجی (والد صاحب )کی طبیعت خراب تھی سریش بھی آیا ہوا تھا، اس نے  تقاضا کیا تھا، میں نے  لالہ جی سے  کہا کہ میں آپ سے  مزدوری نہیں لوں گا بس آپ ایک کام کر دیں مجھے  ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘لا دیں  انھوں نے  کہا آپ مزدوری تو لے  لیں ہم وعدہ کرتے  ہیں کہ ہم آپ کو ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘لا کر دیں گے، میں نے  پیسے  لینے  سے  انکار کر دیا میں نے  کہا بس میری مزدوری یہی ہے، اگر میں مزدوری لے  لوں گا تو آپ پر دباؤ نہیں رہے  گا۔ورنہ آپ یہ تو سوچیں گے  کہ اس کی مزدوری ہمارے  ذمہ ہے  وہ ضد کرتے  رہے  کہ میں مزدوری لے  لوں آخر میں نے  کہا کہ اگر آپ کی امانت لا کر دیں گے  تو میں مزدوری بھی لے  لوں گا، انھوں نے  بتایا کہ اس کے  لیکھک لکھنے  والے  ہمارے  یہاں بیاور میں آتے  تھے، یہ کتاب ہمیں بھی وہاں پروگرام میں بانٹی گئی تھی، ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ٹاپک پر ہی پروگرام ہوا تھا، بہت لوگ بلکہ شہر کے  سب ذمہ دار خاص طور پر ہندو سنستھاؤں، تنظیموں کے  ذمہ دار، آریہ سماج، آرایس ایس وشو ہندو پریشد کے  سب ذمہ ار اس پروگرام میں تھے  اصل میں بیاور ہندوؤں خصوصاً  آریہ سماج کی وجہ سے  بہت اتہاسک (تاریخی) شہر سمجھا جاتا ہے  سب لوگ اس پروگرام میں آ گئے  تو ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ اگر یہی اسلام ہے  تو یہ اسلام تو مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں ہے، پھر ہندوؤں کو اگر غلط فہمی ہے  تو ان کی کیا خطا ہے  اور لوگ کہہ رہے  تھے  کہ شہر میں اس پریم وانی (محبت کی آواز )کا کیسا سماں بندھ گیا ہے  میں نے  ان کا ہاتھ پکڑ کر خوشامد کر کے  کہا کہ آپ بھول مت جائیے  وہ چلے  گئے  ان کے  اس پریچے  سے  میرے  دل میں بھی اس کتاب کے  پڑھنے  کی اچھا (خواہش )پیدا ہوئی اگلے  اتوار کو دہلی جاتے  ہوئے  وہ میرے  پاس آئے  اور بولے  کہ ایک اخبار کے  نمائندے  جو اس پروگرام کو کر رہے  تھے  انھوں نے  اپنے  ساتھیوں لالہ بھائی اور شرماجی کے  ساتھ مل کر اس پروگرام کی روپ ریکھا بنائی تھی ان سے  میں نے  کتاب کے  لئے  کہا، انھوں نے  بتایا کہ وہ کتاب ہمارے  پاس ختم ہو گئی ہے، اجمیر سے  وہ منگا کر دیں گے، اور دہلی میں اوکھلا کے  علاقہ میں ایک دفتر ہے  وہاں سے  وہ کتاب مل سکتی ہے، ہم دہلی جا رہے  ہیں وہاں سے  واپسی پر آپ کو کتاب لا کر دیں گے  وہ بے  چارے  دہلی گئے  تو اردو بازار میں گئے  وہاں کسی نے  ان کو مدھر سندیش سنگم کا پتہ بتایا انھوں نے  اپنے  نوکر کو بھیجا نوکر دس کتابیں اوکھلا سے  جا کر لے  آیا واپسی میں منگل کے  روز انھوں نے  مجھے  کتاب دی میرا منگل کا برت تھا، میں نے  سمجھا کہ آج برت کا دن ہے، اچھا ہے  کہ اچھی پستک(کتاب )مل گئی ہے  گاڑی پر دو بڑے  مستری کو لگا کر میں نے  ہاتھ دھوئے  اور کتاب پڑھی اور بس کتاب ختم ہونے  تک میں ہندو دھرم جو اصل میں اب کچھ دھرم نہیں ہے، دین قیم اسلام کی بگڑی ہوئی شکل ہے  چھوڑ چکا تھا، میں نے  اشنان(غسل) کیا برت توڑ دیا اور کتاب کھول کے  کلمہ شہادت سچے  دل سے  پڑھا اور رات کو ایک مولانا صاحب جو بہروڑ میں رہتے  ہیں ان کے  پاس گیا اور ان سے  کہا مجھے  پاک رہنے  کا طریقہ اور نماز سکھائیں وہ میوات کے  رہنے  والے  ہیں انھوں نے  مجھے  اس کتاب کے  لکھنے  والے  مولانا کلیم صدیقی صاحب سے  ملنے  اور جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا ایک کتاب رکھ کر میں نے  باقی کتابیں اپنے  کارخانہ کے  ایک ملازم لڑکے  کے  ہاتھ سریش کے  پاس آگرہ بھیج دیں اور موقع لگا کر چالس دن جماعت میں لگانے  کا پروگرام بنایا، میں دہلی گیا اوکھلا میں مولانا صاحب کا دفتر معلوم کیا مولانا صاحب تو سفر میں تھے، وہاں پر جنید نام کے  ایک حافظ تھے  انھوں نے  میرا ایفی ڈیوٹ بنوایا اور مرکز جا کر جماعت میں جڑنے  کا مشورہ دیا مرکز کی بھیڑ میں مجھے  کچھ رستہ نہیں لگا میں ذرا مایوس ہو کر نکل رہا تھا تو مرکز کے  بڑے  مولانا سعد صاحب کا ڈرائیور مجھے  مل گیا اس نے  مجھے  دارارقم جانے  کا مشورہ دیا، میں نے  بتایا کہ میں وہاں سے  ہی آیا ہوں میرے  کاغذات بن گئے  ہیں انھوں نے  مجھے  بھوپال کی جماعت میں جوڑ دیا جماعت کا وقت تو لکھنو میں لگا جماعت کے  لوگ پڑھے  لکھے  بہت اچھے  سوبھاؤکے  تھے  جماعت سے  جنوری میں واپس آیا اوکھلا جا کر ملاقات کی کوشش کی مگر مولانا صاحب پھر سفر میں تھے، ایک رات کے  بعد بہروڑ آ گیا معلوم ہوا کہ پتاجی بہت بیمار ہیں، میں فتح پور پہنچا تو دیکھا کہ سب رو رہے  تھے، معلوم ہوا کہ ابھی ایک گھنٹے  پہلے  میرے  پتاجی (والد صاحب )کا دیہانت (انتقال )ہو گیا ہے (بہت دیر تک روتے  رہے )

  سوال  :رئیس بھائی آپ کا نام رئیس کس نے  رکھا؟

 جواب:ذرا چپ ہوتے  ہوئے، وکیل سرفراز صاحب جنہوں نے  میرے  کاغذات بنوائے  تھے  انھوں نے  میرے  لئے  رمیش سے  ملتا جلتا نام رئیس رکھا(پھر رونے  لگتے  ہیں )

سوال  :آپ کے  والد ایسے  نیک آدمی تھے  کیسی اچھی تعلیم انھوں نے  آپ کو دی، انسانیت سے  محبت کرنے  والے  تھے، ابی تو کہتے  ہیں ایسے  لوگوں کو مالک اپنے  فرشتے  بھیج کر کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں ؟

 جواب :نہیں احمد بھائی وہ اپنی (پراکرتی)فطرت میں مسلمان تھے، کسی نے  ان کو اسلام بتایا نہیں میرے  پیارے  بھائی مولانا احمد آپ ذرا سوچ کر دیکھئے  میرے  سامنے  مجھے  پالنے  والے  مجھ سے  عاشقوں کی طرح پیار کرنے  والے  میرے  بخار سے  تڑپ جانے  والے  باپ کو کاش میرے  اللہ میرے  بجائے  ایمان دے  دیتے۔مولانا احمد میرے  بخار سے  تڑپ جانے  والے  باپ کو میرے  سامنے  دشمنوں نے  نہیں ان کا آدر کرنے  والوں نے  اور سب سے  پہلے  بڑے  بھائی اور قانون گو پڑھے  لکھے  بیٹے  نے  آشیش چودھری نے  لکڑیوں میں گھی چھڑک کر آگ لگا دی، میرے  چھوٹے  بھائی جو اب ’آپ کی امانت ‘پڑھ کر مسلمان ہو گئے  ہیں محمد عمر انھوں نے  اپنا نام رکھا ہے  ہم دونوں بھیک مانگتے  رہے  کہ ہندو روایت کے  ساتھ ہی ان کی سمادھی بنا دی جائے  ان کو جلایا نہ جائے  مولانا صاحب آگ کا انگارہ ہاتھ میں رکھ کر دیکھئے  تو کیا ہوتا ہے  میرے  پیارے  پتاجی صرف اور صرف مسلمانوں کے  باخبر نہ کرنے  کی وجہ سے  چتا میں جل گئے  اور اگر۔۔۔۔۔۔روتے  ہوئے۔۔۔۔۔۔اگر وہاں جہنم کی آگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں احمد بھائی مجھ سے  یہ مت کہلوایئے  ورنہ ان تمام ظالم مسلمانوں کو اللہ رحیم اور عادل خدا ہر گز معاف نہیں کریں گے  جن کے  نہ بتانے  کی وجہ سے  میرے  ایسے  پیارے  باپ نرک میں چلے  گئے  وہ ایمان والے  نہیں بلکہ سب سے  بڑے  بے  ایمان ہیں۔

  سوال  :نہیں رئیس بھائی ایسا مت کہئے ؟

  جواب   :مولانا صاحب آپ میری جگہ ہوتے  تو ذرا محسوس کرتے  میرے  پتاجی کے  دوست بہت سے  مسلمان تھے، ایک مولانا صاحب ان کے  ساتھ کتنا وقت گذارتے  تھے  اس بد بخت بیٹے  کی بد نصیبی کہ اس کو اللہ نے  بنا چاہے  ہدایت دی مگر اس کا محسن باپ اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے  والا باپ اپنی گود میں لے  کر اس کو اسکول میں داخل کرانے  والا اس کا باپ روز رات کو ہمارے  جیون بنانے  کی فکر میں ایک ایک لفظ یاد کرانے  والا، ہماری ہر خواہش پوری کرنے  والا اور سب سے  زیادہ ہماری بھلائی اور انسانیت کا پاٹھ (سبق)دینے  والا ماؤں کی طرح مامتا رکھنے  والا پیارا باپ میرے  سامنے  جلا یا جا تا رہا اور جلتے  جلتے  میرے  سامنے  اس کا سر پھوڑا گیا جلتے  جلتے  لاٹھیاں مار کر جیسے  کوئی دشمن اپنے  دشمن کے  ساتھ سلوک کرتا ہے  اور ہم مولانا صاحب ہم دونوں میرا بھائی رمیش (محمد عمر)سب کچھ جان کر دیکھتے  رہے  مولانا صاحب آپ شاید ہمارے  درد کو سمجھ نہیں سکتے  آپ سوچ کر دیکھئے  یہ کوئی ناول کی بات نہیں، کوئی ڈرامہ نہیں بلکہ سوچئے  بالکل سچ ہو رہا تھا اور ہماری آنکھوں کے  سامنے  ہو رہا تھا مجھے  لگتا ہے  کہ ہندوؤں کو تو معلوم نہیں وہ تو ناسمجھ ہیں، مسلمانوں    کا بھی بس نام کے  لئے  یہ عقیدہ ہے  کہ بغیر ایمان کے  چتا ہے  اور اس کا راستہ نرک (دوزخ  ) ہیں ورنہ مولانا صاحب ذرا سوچئے  آ پ کے  سامنے  کوئی آگ کی بھٹی میں کودنے  لگے  تندور میں چھلانگ لگائے  اور آپ دیکھتے  رہیں آپ اپنی دکان اپنے  کاروبار میں لگے  رہیں، لوگ نہر اور کنویں میں کسی کودتے  دیکھ کر سب کچھ چھوڑ کر اسے  بچانے  کی کوشش کرتے  ہیں اور کتنے  ڈوبتے  کو بچانے  کے  لئے  خود ڈوب کر جان دے  دیتے  ہیں، آگ میں ہمارے  سامنے  پتھر نہیں ایک لکڑی نہیں، ہمارے  ساتھ رہنے  والا، ہم پراحسان کرنے  والا، ہمارے  ساتھ معاملہ کرنے  والا چتا میں جلایا جائے  اور پھر ہر ایمان والے  کا یہ ایمان ہو کہ پھر ہمیشہ کی دوزخ کی آگ ہے  اور پھر بھی وہ اپنے  کاروبار اپنے  گھر بار میں لگا رہے  اور ذرا کوشش بھی نہ کرے  یہ کس طرح ممکن ہے  وہ مسلمان مسلمان کیا انسان بھی نہیں بلکہ درندے  ہی ہو سکتے  ہیں، جو اپنے  ساتھ رہنے  والوں کو آگ کے  راستہ پر دوڑنا گوارہ کریں۔

  سوال  :اصل میں آپ کے  لئے  یہ جذباتی معاملہ ہے، واقعی آپ کو ایسا ہی سوچنا چاہئے ؟

  جواب  :مولانا احمد صاحب صرف مجھے  نہیں آپ کو بھی ایسا ہی سوچنا اور کم از کم ہر مسلمان کو جس کا جنت دوزخ کے  برحق ہونے  پر یقین ہے  ایسا ہی سوچنا چاہئے، کیا ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔

  سوال  :بلا شبہ ضرور ایسا سوچنا ہی چاہئے  اور ابی یہی کہتے  ہیں واقعی آپ سچ کہتے  ہیں ہم لوگوں کے  ایمان کی کمی ہے  کہ ہم اس الم ناک حادثہ کو سرسری لے  لیتے  ہیں اور اس میں گھلتے  نہیں ہیں۔آپ نے  بتایا کہ سریش بھائی بھی محمد عمر ہو گئے  ہیں وہ کیسے  ہوا؟

  جواب :ان کے  یہاں کتاب پہنچی تو انھوں نے  بار بار پڑھی اور پھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا آگرہ میں ایک جماعت کے  امیر صاحب ہیں ڈاکٹری کرتے  ہیں ان کے  پاس جا کر وہ مسلمان ہو گئے  ہیں ان کا نام انھوں نے  محمد عمر رکھا، وہ فتح پور سیکری گھر گئے، والد صاحب بہت بیمار تھے  وہ بالکل بے  ہوشی سی میں ایک وقت تک رہے، بھائی محمد عمر گھر والوں کو کہہ کر گئے  تھے  اگر پتاجی کو ہوش آ جائے  تو آپ کی امانت ان کو ضرور پڑھوائی جائے  ایک روز ان کو ہوش آیا انھوں نے  لیٹے  لیٹے  کتاب پڑھنا شروع کی کچھ پڑھی تھی بولے  کیسی سچی اور اچھی پستک (کتاب )لکھی ہے  اور پھر دورہ ہوا اور بے  ہوش ہو گئے، اس کے  بعد انتقال تک ہوش نہیں آیا۔

  سوال  :تو پھر فکر کی بات نہیں شروع کے  چند صفحے  بھی پڑھ لئے  تو توحید تو مان ہی لی، انشاء اللہ اتنا بھی کافی ہو گا۔

  جواب  :دل کو بہلانے  کو یہ کہا جا سکتا مگر سچی بات تو یہی ہے  کہ اسلام و ایمان سمجھ کر ا قرار و قبول کئے  بغیر نہیں ہوتا ہے  ہائے  میرا غم۔۔۔۔۔۔جس کا علاج ممکن نہیں کتنی سچی بات کہتے  تھے  اللہ کے  رسول ﷺ کے  سچے  دوست حضرت ابو بکر صدیق ؓ کاش میں پرندہ ہوتا کاش میں گھاس کا تنکا ہوتا، کاش میری ماں نے  مجھے  جنا بھی نہ ہوتا۔ یہ غم میرے  باپ کے  چتا میں جلائے  جانے  کا غم اور اس کے  بعد دوزخ میں جلائے  جانے  کا غم جو موت کے  بعد بھی ختم نہیں ہو گا بلکہ شاید وہاں اور بھی زیادہ ستائے  گا، ہمیشہ ہمیشہ جلائے  جانے  کا یقین دوزخ پر یقین کسی کو کیا احساس ہو سکتا ہے  رئیس کے  تڑپتے  کلیجہ کا، اس کے  چہیتے  باپ کے  ہمیشہ ایمان سے  محروم رہ کر جہنم رسید ہونے  کا۔۔۔۔۔۔۔۔(بہت دیر تک روتے  ہوئے، پانی پلایا گیا )

  سوال  :(ذرا رخ بدلتے  ہوئے )جے  پور ہائی وے  پر ایک مستری کا ابی بہت ذکر کرتے  تھے  کہ رات کو گاڑی خراب ہو گئی تھی انھوں نے  بہت تعاون کیا تھا، راتوں کو لے  کر پھرے  تھے  ابی اس تعلق سے  راجستھانی لوگوں کی شرافت اور انسانیت نوازی کا بہت ذکر کرتے  ہیں ؟

  جواب  :احمد بھائی وہ مستری خوش قسمت اور بد قسمت میں ہی ہوں، آج ہی مولانا نے  بتایا کہ آخر جنوری میں فتح پور شیخاوٹی گئے  تھے  بہروڑ سے  گذرے  تو مجھے  یاد آیا کہ ایک بار ہم سردی کی رات میں یہاں سے  گذر رہے  تھے  ہماری ایمبیسڈر گاڑی کی پین بیلٹ خراب ہو گئی تھی، ایک مستری صاحب کو گھر سے  اٹھایا وہ کئی جگہ لے  کر گئے  مگر بیلٹ اس نمبر کی نہ ملی تو انھوں نے  ورک شاپ میں کھڑی گاڑی کی اتار کر دی تھی اور پیسے  لینے  سے  منع کر دیا کہ میں چند پیسوں کے  لئے  راتوں کو دھکے  کھانے  والا نہیں ہوں، میں اس لئے  پھر رہا تھا کہ آپ ہمارے  مہمان ہیں اور انسانیت کے  رشتہ کی وجہ سے  میں نے  آپ کی سیوا کی مولانا کہہ رہے  تھے  کہ ہمارے  ساتھ ہمارے  ایک ساتھی داعی عبدالرشید صاحب تھے  جو ہریدوار کے  رہنے  والے  ہیں ہم نے  پروگرام بنایا تھا کہ عبدالرشید کو وہاں چھوڑیں گے  جتنے  بھی کارخانے  والے  گاڑی کے  ہیں سب کو دعوت دیں گے  تا کہ اس احسان کرنے  والے  تک بات پہنچ جائے  میں نے  کہا اس سردی کی رات میں جب آپ جوس والے  کے  ساتھ آئے  تھے  ہمارے  گھر میں اسپئر پارٹس والے  کے  گھر اس کو لے  کر جو اسٹور پر گیا تھا حضرت صاحب وہ آپ کا چور میں ہی تھا، میرے  مالک نے  آپ سے  کیسے  ملوایا مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ اس رات کو دہلی آ کر تہجد میں میں نے  بہت دعا مانگی کہ میرے  اللہ مجھ پر اس محسن کا احسان ہے  کسی طرح اس سے  ملوا دیجئے  اور اس کو ہدایت بھی دیجئے۔میں نے  مولانا صاحب سے  کہا آپ کی اس دعا کی وجہ سے  ہی میں آپ کے  پریم (محبت) کا بندی (قیدی)دس روز سے  گھر پریوار اور ورک شاپ چھوڑ کر دہلی میں پڑا ہوں اور دہلی میں میری پہچان والا بھی کوئی نہیں ہے  بس ارادہ یہ کیا تھا کہ ایک سال بھی رکنا پڑے  گا تو یہاں کسی ورک شاپ میں نوکری کر لوں گا اور مولانا صاحب سے  مل کر جاؤں گا حضرت صاحب محبت سے  سجدہ میں گر گئے  اور فوراً دو رکعت نماز پڑھی بہت دیر تک دعا مانگتے  رہے۔

  سوال  :ماشاء اللہ تو وہ مستری صاحب جن کا ابی ذکر کرتے  تھے، آپ ہی ہیں، واقعی کیا اللہ کی شان ہے  اللہ نے  کس طرح ملوایا عبدالرشید بھائی کو گھر بھیجنا بھی نہیں پڑا اب آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟

  جواب  :پہلے  تو عمر بھائی جو میرے  چھوٹے  بھائی آئی جی ہیں میں ان کو حضرت سے  ملواتا ہوں حضرت نے  اس جوس والے  کو دعوت دینے  کی ذمہ داری مجھے  دی ہے  جو حضرت کو لے  کر میرے  پاس آیا تھا اور گھر والوں پر کام کرنا ہے، میری بیوی اور بچے  تو الحمد للہ مسلمان ہو گئے  ہیں محمد عمر کی بیوی ذرا سخت ہیں آج کل ان کے  گھر میں اسلام پر جھگڑا چل رہا ہے  حضرت صاحب سے  دعا کے  لئے  کہا ہے  انشاء اللہ اب زندگی حضرت صاحب کی مرضی سے  دعوت کے  لئے  گذارنی ہے  اور کوشش کرنی ہے  کہ میرے  والد کی طرح لوگ خود اپنے  گھر والوں کو جلانے  کے  سلسلہ میں ہوش میں آئیں۔

  سوال  :ارمغان کے  لئے  کوئی پیغام دیں گے  ؟

  جواب  :بس میرے  لئے  دعا کریں اللہ مجھے  خاندانی مسلمانوں کی طرح دوزخ کے  سلسلہ میں بے  حس نہ بنائے  اور میں اپنے  والد کے  زخم کو گلے  لگائے  رکھ کر انسانیت کو آگ میں جلنے  سے  بچانے  کی فکر کروں اور مسلمان بھی اس واقعہ کو ناول یا ڈرامہ نہ سمجھ کر اسے  ایمان و یقین کے  ساتھ سچ جان کر دوزخ میں جانے  والوں کی فکر کریں۔

  سوال  :ماشاء اللہ بہت ہی اہم بات آپ نے  کہی بہت بہت شکریہ۔جزاکم اللہ خیر الجزاء  والسلام علیکم

  جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔

                                    مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘مارچ  ۲۰۱۰ئ

٭٭٭

سلمان صدیقی  {ارون کمار} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ  :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سلمان صدیقی:  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ

  سوال  :جناب سلمان صاحب خوشی ہوئی، آپ تشریف لے  آئے، ابی فرما رہے  تھے  کہ اس بار کسی بالکل نووارد کا انٹر ویو ارمغان میں آنا چاہئے، بلکہ کئی بار یہ بھی فرمایا کہ ہریدوار جا کر ہی میں آپ سے  باتیں کروں، اصل میں مجھے  ہریدوار جانا بھی تھا اور کچھ عرصہ سے  گایتری سماج کے  مرکز شانتی کنج سے  لوگ رابطہ کر رہے  ہیں وہ ابی کو وہاں بلانا چاہتے  ہیں۔ پچھلے  دنوں رامپور میں ایک پروگرام میں ابی کو بلا یا گیا تھا تب سے  تو بار بار ان کے  فون آتے  ہیں، ابی یہ فرما رہے  تھے  کہ ایک دو بار تم ہو آو، اللہ نے  آپ کو بھیج دیا ؟

 جواب  :مجھے  حضرت صاحب سے  ملنے  کی بہت بے  چینی تھی، پچھلے  ہفتے  ہم لوگ آئے  تھے  مگر ہماری گاڑی خراب ہو گئی تھی، مستری کے  یہاں دیر ہو گئی اور ہمارے  آنے  سے  آدھا گھنٹہ پہلے  حضرت صاحب نکل گئے  تھے، شاید ہمارے  اندر کوئی کھوٹ ہو گا کہ ملاقات نہیں ہو سکی، آج تو میں نیت کر کے  آیا تھا کہ بس مل کر جاؤں گا، چاہے  چند دن کے  بجائے  چند سال پھلت میں پڑا رہنا پڑے، اللہ کا شکر ہے  کہ آتے  ہی ملاقات ہو گئی۔

  سوال  :ابی نے  آپ کو شاید بتا ہی دیا ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ ارمغان‘‘ نکلتا ہے  اس میں اسلام میں آئے  نئے  لوگوں کے  حالات شائع کئے  جا رہے  ہیں، اس کے  لئے  آپ سے  بھی کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

  جواب  : جی ہاں ابھی ابھی حضرت صاحب بتا کر گئے  ہیں، مگر میں سوچتا ہوں کہ میں ایک مہینہ سے  بھی کم دنوں کا مسلمان ہوں،  میں کیا میری کہانی ہی کیا ؟حضرت صاحب نے  کہا کہ نہیں آپ ضرور حالات سنائیں، دوسرے  لوگوں کے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنے  گا تو آپ کو بھی ثواب ملے  گا۔

  سوال  : جی بالکل یہی بات ہے۔آپ اپنا خاندانی(پریچے ) تعارف کرائیے ؟

جواب  :  میں بریلی ضلع کے  ایک چھوٹے  سے  گاؤں کے  برہمن پریوار میں ۲/جنوری ۱۹۵۳ء میں پیدا ہوا، میرا نام میرے  پتا جی(والد صاحب)نے  ارون کمار مشرا رکھا۔ میرے  والد ایک جونئیر ہائی اسکول کے  ہیڈ ماسٹر سے  ریٹائر ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی اسکول ہی میں ہوئی، کچھ روز میں اپنے  چاچا کے  یہاں جن کے  کوئی اولاد نہیں تھی، احمد نگر مہاراشٹر میں رہا، وہاں سے  میں نے  گریجویشن کیا، سائکالوجی میں ایم اے  اور پی ایچ ڈی کیا، اور روہیلکھنڈ یونیورسٹی میں لیکچرر ہوا، بعد میں ریڈر اور پروفیسر بن گیا، شادی ایک سیاست سے  جڑے  خاندان میں ہوئی، میرے  سسر یوپی کے  بہت سرگرم سیاسی لیڈر ہیں، بلکہ لیڈروں کے  لیڈر ہیں، وہ مجھے  راج نیتی (سیاست) میں لانا چاہتے  تھے  اس کی وجہ سے  مزاج نہ مل سکے  اور پریوارِک(خاندانی) زندگی ناخوشگوار رہی اور یہی بات میرے  لئے 

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لینے  کا ذریعہ بن گئی۔

  سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے۔

 جواب  :  ۲۰۰۲ء میں میں نے  نوکری سے  استعفا دے  کر سنیاس اختیار کر لیا اور ہریدوار چلا گیا، ایک کے  بعد ایک آشرم میں شانتی کو تلاش کرتا رہا، بڑی تپسیا کی، بڑے  بڑے  جاپ کئے، مگر شانتی اور سکون کہیں نہیں ملا، جہاں جاتا قریب لگنے  کے  بعد ایسا لگتا کہ دھرم (مذہب) ایک پروفیشن ہے، ایک کاروبار ہے، ایک دھندہ ہے، میرا حال بھی کبھی لگتا تھا کہ نمک کی کان میں جو گیا نمک ہو گیا، میں نے  بھی ایک آشرم بنا لیا’’ شانتی ون آشرم‘‘ کے  نام سے، مگر روڈ ہی الٹی ہو تو منزل کہاں مل سکتی ہے، منزل پر پہونچنے  کے  لئے  راستہ کا صحیح ہونا ضروری ہے، بے  چینی اور بے  یقینی بڑھ جاتی، کبھی کبھی دل میں آتا کہ واپس پریوارک جیون میں چلا جاؤں، مگر آشرم کے  بندھنوں سے  بندھ گیا تھا چھوڑ نہ سکا، کئی بار آشرم کو بیچنے  کی بات بھی ہوئی، چند مہینے  پہلے  بالکل سودا ہو گیا تھا، مگر ساتھیوں نے  مشورہ دیا کہ مہا کنبھ آ رہا ہے  اس کے  بعد بیچ دینا، مہا کنبھ سے  پہلے  میں نے  پورے  ہریدوار اور رشی کیش کا حال دیکھا   جیسے  کسی کاروباری سیزن سے  پہلے  دوکاندار اپنے  گاہکوں کو رجھانے  اور للچانے  کی تیاری کرتے  ہیں، اس طرح میں نے  ہر جگہ دیکھا، مہا کنبھ کے  لئے  سب آشرموں میں تیاری میں بہت خرچ کیا گیا تھا، مگر پولیس نے  بھیڑ سے  بچنے  کے  لئے  آتنک واد (دہشت گرد ی ) کا ہوّا بٹھا دیا، لوگ ڈر کی وجہ سے  نہیں آئے، بار بار پولیس نے  کہیں کوئی بیگ پھینک کر، کبھی کوئی چیز رکھ کر افواہ بھی پھیلا دی، آشرم والوں اور دھارمک گرووں نے  بہت صفائی بھی کی کہ پولس کا پروپیگنڈہ ہے، مگر لوگ امید سے  دسواں حصہ بھی نہ آئے، فورس اس قدر لگائی گئی تھی کہ شردھالو(زائرین ) دیکھ کر خود بھی سہم جاتے  کہ ضرور کوئی خطرے  کی بات ہے، سارے  آشرموں میں بہت مایوسی کا ماحول تھا، اتنا خرچ کیا گیا تھا اور چڑھا وا کچھ بھی نہیں، میں چونکہ سائکالوجی میرا سبجیکٹ(مضمون) رہا ہے  اپنے  فن سے  پورے  سسٹم(نظام)کو دیکھتا تو اس قدر جھلا جاتا کہ مذہب کے  نام پر یہ دھندا، کبھی میں اپنی انتر آتما (ضمیر) سے  لڑتا اور سوچتا کہ چھوڑ کر چلا جاؤں۔

 مہا شیو راتری سے  ایک روز پہلے  میں ایک بڑے  آشرم میں ایک بڑے  دھرم مہا گرو کے  یہاں گیا، میں نے  وہاں پر جو کاروباری حال دیکھا تو میرا دل اس دھندے  سے  بالکل بد دل ہو گیا، جب دھوکا دینا ہی ہے  تو لیڈر بن کر ہی کرنا چاہئے، دھرم کے  نام پر یہ دھندہ تو بہت ہی شرم کی بات ہے، مجھے  خود اپنے  حال پر شرمندگی ہوئی، اس سے  اچھا تھا کہ گھر والوں کے  ساتھ رہتے، اپنے  بچوں اور گھر والوں کی سیوا کرتے  تو شاید مالک مل جاتا، رات کو دیر تک مالک سے  شکایت کرتا رہا، بار بار آنسو آتے  رہے، میرے  مالک آپ کو تلاش کرنے  میں سب کچھ چھوڑ کر آیا مگر تو اور بھی زیادہ پردہ میں ہے، شاید اس علاقہ میں آپ کو ڈھونڈنا تو اونٹ کو چھت پر ڈھونڈنا ہے، دیر تک نیند نہیں آئی، دو بجے  آنکھ لگی تو سپنا دیکھا حضرت محمد ﷺ تشریف لائے، سفید، بالکل سفید کپڑے، بہت ہی خوبصورت چہرہ، نور ہی نور، چہرے  کے  چاروں طرف جیسے  چاند کا گھیرا، میں نے  آشیرواد کے  لئے  سر جھکایا تو میری کمر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا پنڈت جی اگر ستیہ (سچ )کی تلاش ہے  تو جوالا پور جا کر مفتی یوسف سے  ملئے، آنکھ کھلی تو پانچ بج رہے  تھے، اٹھا اشنان وغیرہ کیا، ناشتہ کیا، دھلے  کپڑے  پہنے  اور آشرم میں اپنے  سادھووں سے  جوالا پور کا راستہ معلوم کیا، تو معلوم ہوا کہ بالکل پاس ہے، نو بجے  صبح بس اسٹینڈ پر پہونچا تو دیکھا چار پانچ مولانا صاحب بس سے  اترے، میں نے  ان میں سے  جوان میں بڑے  لگ رہے  تھے  معلوم کیا کہ آپ لوگ کہاں سے  آئے  ہیں ؟ بولے  جوالا پور سے، میں نے  کہا :وہاں پر کوئی مفتی یوسف صاحب ہیں ؟وہ چونک کر بولے  آپ ان کو کیسے  جانتے  ہیں ؟میں نے  اپنا پورا تعارف کرایا اور اپنا رات کا حال اور خواب بتایا، وہ بولے  کہ میرا نام محمد یوسف ہے  اور میں مفتی ہوں، مگر میں جوالا پور کے  پاس ایک گاؤں کا رہنے  والا ہوں، میرے  علاوہ اس علاقہ میں مفتی یوسف کہلایا جانے  والا کوئی آدمی نہیں ہے، رات میں نے  ساتھیوں سے  مشورہ کر کے  پروگرام بنا یا تھا کہ ہمارے  حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کہتے  ہیں کہ سچائی کی تلاش میں آئے  کتنے  مخلص لوگ ہیں جو اللہ کو اور سچے  راستے  کو تلاش کرتے  ہیں ان کا حق ہے  کہ ہم حق ان تک پہنچائیں، تو مہا کنبھ میں ہم کو جانا چاہئے، رات کو میرے  ساتھ یہ چار ساتھی تیار ہو گئے  اور صبح کتابیں لے  کر یہاں آئے  ہیں، آپ سچ کو واقعی تلاش رہے  ہیں تو ہمارے  حضرت کی کتاب پڑھئے  اور انہوں نے  ہمیں ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ کتاب دی کہ آپ اس کو پڑھئے  آپ ہم سے  ملنے  جا رہے  تھے، مالک نے  آپ کے  پاس خود ہمیں سچ لے  کر بھیج دیا، میں نے  وہ کتاب لی اور بس اسٹینڈ پر ایک بینچ پر بیٹھ کر وہ کتاب پڑھنا شروع کی، سیدھے  سادے  انداز میں اندر کی سچائی کے  ساتھ لکھی گئی یہ کتاب پڑھ کر مجھے  ایسا لگا کہ میرے  مالک نے  میری فریاد سن لی اور جس سچ کی مجھے  تلاش تھی وہ مجھے  مل گیا، میں نے  مفتی صاحب سے  کہا کہ مجھے  مولانا صاحب کے  پاس لے  چلو مفتی صاحب نے  فون ملانے  کی کوشش کی، مگر فون نہ مل سکا، میں نے  ان لوگوں کو اپنے  آشرم چلنے  کے  لئے  کہا، انہوں نے  کہا کہ آدھے  گھنٹے  کے  بعد ہم خود آ جائیں گے، میں نے  ان کو پتہ بتایا اور اپنے  ایک ساتھی کو ان کے  ساتھ چھوڑ کر آشرم میں ناشتے  کی تیاری کے  لئے  آ گیا، آدھے  گھنٹے  بعد وہ آ گئے  اور بولے  حضرت صاحب ممبئی سفر پر ہیں، آپ ان سے  بات کر لیجئے، فون ملایا، مولانا صاحب سے  میری بات ہوئی، میں نے  کہا، مجھے  آپ کی کتاب پڑھنے  میں اتنا آنند آیا تو آپ سے  بھینٹ کرنے  (ملنے  میں ) کتنا آنند (مزہ)آئے  گا، حضرت صاحب نے  کہا نہ میری کتاب میں وہ مزہ ہے  نہ مجھ سے  بھینٹ میں، بس مزہ تو اپنے  مالک کا سورگ (جنت میں ) درشن کرنے  (دیدار) میں آئے  گا، اور وہ، پنڈت جی بغاوت سے  توبہ کر کے  مالک کے  آخری اور مکمل قانون کا حلف لئے  بغیر نہیں ہو سکتا، پھر مولانا صاحب نے  ایمان لائے  اور کلمہ پڑھے  بغیر انسان کتنے  خطرے  میں ہے، اس کے  بارے  میں بتایا اور مجھے  فوراً کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا، میں نے  کہا کہ ہم پھلت آنا چاہتے  ہیں آپ ہمیں وقت دے  دیں، مولانا صاحب نے  اپنے  سفر کے  بارے  میں بتایا اور مجھے  بہت زور دے  کر فوراً مفتی یوسف صاحب سے  کلمہ پڑھنے  کو کہا، پہلے  تو میں پھلت آ کر ہی کلمہ پڑھنے  کو کہتا رہا مگر بعد میں میں تیار ہو گیا، مفتی صاحب مجھے  کلمہ پڑھوانے  لگے  تو مجھے  یہ خیال ہوا کہ ان کے  پیر صاحب سے  ہی کلمہ پڑھنا چاہئے، میں نے  مفتی صاحب سے  یہ بات کہی، مفتی صاحب نے  پھر فون ملایا اور بتایا کہ یہ آپ سے  ہی کلمہ پڑھنا چاہ رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا کہ بات کرائیے، میں نے  بات کی تو حضرت صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا اور زور دے  کر مجھے  راضی کیا، فون پر کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ترجمہ بلکہ ذرا تفصیل سے  عہد کرایا، مجھ سے  فرمایا کہ نام بدلنا کوئی ضروری نہیں لیکن اچھا ہے  کہ آپ کوئی اسلامی نام پسند کر لیں، میں نے  مفتی صاحب سے  کہا کہ حضرت صاحب ہی میرا نام رکھیں تو اچھا ہے، حضرت نے  فون پر بتایا کہ پرانی مذہبی کتابوں کے  عالم حضرت سلمان فارسی تھے  اس نام کی برکت حاصل کرنے  کے  لئے  اگر ان کا نام سلمان مشرا رکھ دیا جائے  تو اچھا ہے، میں نے  کہا مشرا و ِشرا چھوڑئیے  بس پورا سلمان فارسی رکھ دیجیے، حضرت صاحب نے  کہا کہ فارسی تو ایران کا رہنے  والا ہونے  کی وجہ سے  ان کے  نام میں لگتا ہے، آپ سلمان بریلوی رکھ لیں میں نے  کہا کلیم صدیقی کی طرح اگر سلمان صدیقی رکھیں تو کیسا ہے  ؟حضرت صاحب نے  کہا آپ نے  سچے  دل سے  تصدیق کی ہے، آپ صدیق نام رکھ سکتے  ہیں، میں نے  کہا بس سلمان صدیقی بہت پیارا نام ہے۔

  سوال  :بہت خوب، اس کے  بعد کیا ہوا  ؟

  جواب  :حضرت صاحب سے  فون پر بات ہوتی رہی، مفتی صاحب ہمارے  آشرم میں ہی رہ رہے  ہیں اور اللہ کے  شکر سے  جماعت سے  نماز ہو رہی ہے، ساری مورتیاں ایک ایک کر کے  نکال دی گئی ہیں، میں حضرت صاحب سے  ملنے  کے  لئے  بے  چین تھا، ایک ہفتے  پہلے  بھی آیا تھا، آج ملاقات ہو گئی، حضرت صاحب نے  گھر والوں کو ہریدوار بلانے  یا خود بریلی جانے  کے  لئے  کہا ہے   کچھ روز پھلت آ کر ذکر وغیرہ کرنے  کا بھی مشورہ دیا ہے ، حضرت صاحب کے  مشورے  سے  پھلت میں،  یا حضرت صاحب کہہ رہے  تھے  کہ ان کے  پیر صاحب کی جگہ تو رائے  پور ہے، سہارنپور ضلع میں، وہاں جا کر چند ماہ رہوں گا، ابھی تو ہم لوگ مہا کنبھ میں رہیں گے  تاکہ سچ کی تلاش میں بری طرح بھٹکنے  والے  لوگوں کو تلاش کر کے  ان پر ہو رہے  ظلم سے  ان کو نکالیں۔

  سوال  :ابھی تک کچھ اور لوگوں پر آپ لوگوں نے  کام کیا ہے  ؟

  جواب   :اللہ کا شکر ہے۔ ابھی ہم لوگ آشرم ہی میں رہ رہے  اور کام کر رہے  ہیں۔

  سوال  :ابی بتارہے  تھے  کہ آپ نے  بڑے  اچھے  اچھے  خواب دیکھے  ہیں ؟

  جواب   :الحمدللہ میں نے  سات بار اپنے  پیارے  نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، ایک بار میں نے  سو لوگوں کو اللہ کے  رسول ﷺ کے  سامنے  لے  جا کر خواب میں کلمہ پڑھوایا، جن میں گایتری سماج کے  تین بڑے  لوگ بھی تھے، اللہ کرے  اس کی سچی تعبیر جلد سامنے  آئے۔

  سوال  : آپ نے  اپنے  گھر پر کچھ بات کی، یعنی بریلی میں ؟

  جواب   : ہاں میں نے  حضرت صاحب سے  ملنے  کے  بعد پھلت سے  اپنی بیوی کو فون ملایا، وہ بہت رو رہی تھی، جب میں نے  بتایا کہ ایک بڑے  دھرم گرو اور صوفی یہاں، یہاں صوفی سنتوں کی  مہان بستی پھلت میں رہتے  ہیں، انہوں نے  مجھے  آشرم چھوڑ کر گھر میں بال بچوں کے  ساتھ رہنے  کا حکم دیا ہے  اور جلد ہی میں آنے  والا ہوں، آٹھ سال کے  بعد وہ یہ سن کر بس پاگل سی ہو گئی، بولی مجھے  ان دھرم گرو اور صوفی جی کا پتہ ضرور بتائیں تاکہ میں بھی ان کی شرن میں آ جاؤں اور ان سے  آشیرواد لوں، میں ضرور اپنے  تینوں بچوں کے  ساتھ ان کے  یہاں آؤں گی۔

  سوال  : ماشاء اللہ آپ کا مسئلہ تو حل ہو اسا لگتا ہے۔

  جواب   : جی مجھے  بھی ایسا ہی لگ رہا ہے  وہ تو حضرت سے  اتنا متاثر ہو گئی ہے  کہ لگتا ہے  پہلی مرتبہ کہنے  سے  کلمہ پڑھ لے  گی۔

  سوال  :آپ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

  جواب  :  مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ ہر انسان کو میرا یہ پیغام ہے  کہ جو بھی سچی آتما کے  ساتھ حق کو تلاشتا ہے  اس کو حق ملتا ہے  اور حق کو تلاش کرنے  والے  ہر غلط راہ پر بھٹکتے  رہتے  ہیں، مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے  کہ انسانوں کو غلط راستے  پر چلتے  دیکھ کر ان سے 

نفرت کرنے  کے  بجائے  نر می کے  ساتھ ان کی رہنمائی کریں۔

  سوال  :بہت بہت شکریہ سلمان صدیقی صاحب، اللہ تعالی آپ کی حقیقی صدیقیت کا کوئی حصہ ہم رسمی اور بدنام کرنے  والے  لئے  نسبی صدیقیوں کو بھی نصیب فرمائے۔

  جواب   :آپ شرمندہ کر رہے  ہیں۔      

                                    ماخوذ از ماہنامہ ارمغان اپریل  ۲۰۱۰ء

٭٭٭

تشکر ادارہ ماہنامہ ’ارغوان‘ اسور جناب عمر کیرانوی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا