میں نے اسلام کیوں قبول کیا
سسٹر امینہ جناں،امریکہ
میں جنوری 1945ء میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کے علاقے ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسنٹ عیسائی تھے اور ننهيال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھی کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دلچسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور ویمن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادی نسواں) کی پر جوش کارکن تھی۔
ہائی اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو میری شادی ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی میں ماڈلنگ کے پیشے سے منسلک ہو گئی۔ خدا نے مجھے اچھی شخصیت عطا کی تھی اور میں خوب محنت کرتی تھی، اس لیے میرا کاروبار خوب چمکا۔ پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ شوفر، بہترین گاڑیاں غرض آسائش کا ہر سامان میسر تھا۔ حالت یہ تھی کہ بعض اوقات ایک جوتا خریدنے کے لیے میں ہوائی سفر کر کے دوسرے شہر جاتی تھی۔ اس دوران میں میں ایک بےٹر کی ماں بھی بن گئی، مگر سچی بات ہے کہ ہر طرح کے آرام و راحت کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ بے سکونی اور اداسی جان کا گویا مستقل آزار بن گئی تھی اور زندگی میں کوئی زبردست خلا محسوس ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ماڈلنگ کا پیشہ ترک کر دیا۔ دوبارہ مذہبی زندگی اختیار کر لی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کی رضاکارانہ خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ خیال تھا کہ اس بہانے شاید روح کو کچھ سکون ملے گا۔ اس وقت میری عمر تیس سال تھی۔
اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ ملا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشانی ہوئی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ عام یورپین آبادی کی طرح ،میرے خیال میں بھی، اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکہ اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخین یہی کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی، پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشنری ہوں۔ کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان کافروں کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہو، اس لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے چنانچہ میں نے صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویہ، دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور با وقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیاں بیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔
میں نے اپنی کوششوں کو یوں بے کار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہو کر مسلمان طالب علموں کو زچ کر سکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری، مضمون نگار اور مؤرخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرت میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقت ِ حال سے آگاہی حاصل کروں۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر میں نے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔ عیسائیت پر غور و فکر کے دوران اور بائبل کے مطالعے کے نتیجے میں ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے، مگر کسی پادری یا دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا اور یہی تشنگی روح کے لیے مستقل روگ بن گئی تھی، مگر قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے، جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔ مزید اطمینان کے لیے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفتگوئیں کیں۔ تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطۂ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔
مزید اطمینان کی خاطر میں نے پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں، خصوصاً انھوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں طبعاً بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد حیا دار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لیے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے ہیں تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا مقام جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ”جنت ماں کے قدموں میں ہے” اور آپ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اٹھی کہ ”عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے” اور ”تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔”
قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے میں مطمئن ہو گئی اور تاریخ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں میری ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا اور میرے ضمیر کو میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ تو میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ21مئی 1977ء کو میرے پاس چار ذمے دار مسلمانوں کو لے آئے۔ ان میں سے ایک ڈینور (Denever) کی مسجد کے امام تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کیے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی۔
میرے قبول اسلام پر پورے خاندان پر گویا بجلی گر پڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبول اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں اسے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا ور اس نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمہ داری قرار پائی۔
میر ے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آئے تاکہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر کے چلے گئے۔ میری بڑی بہن ماہر نفسیات تھی، اس نے اعلان کر دیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ میری تعلیم مکمل ہو چکی تھی، میں نے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کر لی، لیکن ایک روز میری گاڑی کوحادثہ پیش آ گیا اور تھوڑی سی تاخیر ہو گئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدایشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی، جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کر دی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے حضور سر بسجود ہو گئی اور گڑ گڑا کر خوب دعائیں کیں۔ اللہ کریم نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور دوسر ے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹر سیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلا معاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور اللہ کے فضل سے یہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ تندرست ہو گیا اور میری جان میں جان آئی۔، لیکن آہ! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا، آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ”جمہوری” ملک کی” آزاد ” عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہو گا اور تہذیبی اعتبار سے انھیں نقصان پہنچے گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دستبردار نہیں ہو سکتی، چنانچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیے گئے۔
اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور تبلیغ دین میں منہمک ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری محرومیوں کے باوجود ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی۔ میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی با عمل مسلمان سے عقد ثانی کر لینا چاہیے کہ عورت کے لیے تنہا زندگی گزارنا مناسب و مستحسن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کر لی۔ یہ صاحب ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قرآن خوب خوش الحانی سے پڑھتے اور سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ میں دین سے ان کے گہرے تعلق سے بڑی متاثر ہوئی اور ان سے نکاح کر لیا۔ عدالت نے میری رقوم وا گزار کر دی تھیں، چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں، مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں، میں تمھارے لیے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لیے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے اسے جو بھاری رقم دی، چونکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لیے وہ بھی اس نے ہضم کر لی اور اس کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی رچا لی۔
طلاق کے چند ماہ بعد اللہ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا ماشاء اللہ دس برس کا ہے۔ وجیہ و شکیل اور بڑا ذہین ہے۔ اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو اللہ کے فضل سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔ امریکہ میں اس وقت قرآن کے ستائیس ترجمے دستیاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے، فون پر عربی کے کسی سکالر سے معلوم کر لیتی ہوں۔ الحمد للہ میں مختلف کتب حدیث یعنی بخاری، مسلم، ابو داؤد اور مشکوٰۃ کا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہوں اور اسلام کو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لیے مختلف مسلمان علما کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن، حدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کما حقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
ایک زمانہ تھا کہ میں اتوار کا دن آرام کرنے کے بجائے کسی سنڈے اسکول میں بچوں کو عیسائیت کے اسباق پڑھاتی تھی۔ آج اللہ کے کرم سے میں اتوار کا دن اسلامک سنٹروں میں گزارتی ہوں اور وہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم دینے کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھاتی ہوں۔ لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی نمائشوں، کانفرنسوں اور مجالس مذاکرات کا اہتمام کر کے غیر مسلموں تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں نے آپ لوگوں کو تبدیلی مذہب کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لیے زحمت دی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسلام سے کیوں وابستہ ہوں، زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور انسان اور اللہ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ میں بحمد للہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
یہ بھی اللہ ہی کی توفیق ہے کہ میں نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جن میں غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ اسی امریکہ میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھی اور ایک عورت کو گھوڑے سے بھی کم قیمت پر یعنی ڈیڑھ سو روپے میں خریدا جا سکتا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی عورت کو باپ یا شوہر کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ ملتا تھا، حتیٰ کہ اگر وہ شادی کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر شوہر کے گھر میں لے جاتی اور چند ہی ماہ بعد طلاق حاصل کرنا پڑتی تو وہ ساری رقم شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی۔ تعلیم کے مواقع بھی اسے میسر نہ تھے۔ اور اس ایٹمی و سائنسی دور میں بھی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں عملاً عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے، مگر معاوضہ ان سے کم پاتی ہے، وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پندرہ برس کی کم عمر کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے اور اسے خود ملازمت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے اور طلاق کے بعد جو یورپین زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، نہ والدین اور نہ بھائی اس کا غم بانٹتے ہیں۔ بچوں کی ذمہ داری بھی اس کے سر پڑتی ہے اور سابق شوہر بچوں کا بمشکل تیس فی صد خرچ برداشت کرتے ہیں، یعنی پچاس ڈالر ماہوار کے حساب سے ادا کرتے ہیں، جس سے ایک بچے کا جوتا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
میں خواتین کو بتاتی ہوں کہ اس کے برعکس اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے تھے، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسے خاص احترام اور حقوق حاصل ہیں۔ باپ، خاوند، بھائیوں اور بیٹوں کی جائیداد سے اسے حصہ ملتا ہے اور طلاق کی صورت میں اولاد کی کفالت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر خاوند کی حیثیت کے مطابق اسے معقول رقم (یعنی مہر) کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھے اور اس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اس باپ کے لیے جنت میں اعلیٰ ترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے، جو اپیت بچیوں کی محبت اور شفقت سے پرورش کرتا اور ان کی دینی تربیت کر کے انھیں احترام سے رخصت کرتا ہے اور اس اعزاز کی تو کہیں ادنیٰ سی بھی مثال نہیں ملتی کہ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے اور باپ کے مقابلے میں اسے تین گنا واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے۔
میں جب یہ تقابلی موازنہ کرتی ہوں تو امریکی عورتوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وہ تحقیق کرتی ہیں ، مطالعہ کرتی ہیں اور جب انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں صحیح بات کرتی ہوں اور واقعتاً اسلام نے عورت کو غیر معمولی حقوق و احترام عطا کیا ہے، تو وہ اسلام قبول کر لیتی ہیں، چنانچہ اللہ کا شکر ہے کہ اب تک میرے ذریعے سے تقریباً چھ سو امریکی خواتین دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔
خواتین میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ میرا ہدف شعبہ تعلیم ہے، جس کے نصابات میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات و الزامات ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی جا بے جا اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے، چنانچہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح کرنی چاہیے، اس کے لیے میں اکیڈمی آف ریلی جیس سائنس کے کار پردازوں سے ملی، یہی لوگ نصابات اور ٹی وی پروگراموں میں اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے اصرار کے ساتھ ان سے بحث مباحثہ کیا اور انھیں قائل کیا کہ اگر نشان دہی کر دی جائے تو وہ متعلقہ حصوں کی اصلاح کر دیں گے، چنانچہ میں نے مسلمان والدین کو توجہ دلائی۔ امریکہ میں مختلف قسم کی انجمنوں سے رابطہ قائم کیا اور انھیں آمادہ کیا کہ وہ بچوں کی نصابی کتب میں غلط اور قابل اعتراض باتوں کی نشان دہی کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامک فاؤنڈیشن (IFOD) کا قاںم عمل میں آیا، جس کے تحت نصابی کتابوں میں اسلام کے خلاف منفی اور قابل اعتراض مواد کی نشان دہی کی جاتی ہے، اسی طرح امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون یہودی، عیسائی اور ہندو پڑھاتے ہیں۔ ہم نے IFOD کی وساطت سے یہ مطالبہ کیا کہ اسلامیات کی تدریس پر صرف مسلمان اساتذہ کا تقرر کیا جائے، مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم یہ مطالبہ منظور کرا لیں گے۔
آخر میں یہ خوش کن خبر بھی سناتی جاؤں کہ میرا وہ خاندان جس نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، اللہ کے فضل سے اس کے بیش تر افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ میرے والد جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، مسلمان ہو چکے ہیں اور والدہ ، سوتیلے والد، دادی، دادا اور خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ میرا وہ بیٹا جو اپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا تھا اور جس کی مذہبی تربیت عیسائیت کے عین مطابق بڑے اہتمام سے ہو رہی تھی، ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا : ”ممی! اگر میں اپنا نام تبدیل کر کے فاروق رکھ لوں تو آپ کے نزدیک کیسا رہے گا؟” میں پہلے حیرت اور پھر مسرت کے بے پناہ احساس سے سرشار ہو گئی، میں نے اسے گلے سے لگا لیا، پیار کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ لیا۔ فاروق اب بھی باپ کی تحویل میں ہے، مگر راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ میری وہ بہن جو مجھے پاگل سمجھتی تھی، ایک تقریب میں اس نے میری تقریر سنی، تو بے اختیار تعریف کرنے لگی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ بھی ایک روز دائرۂ اسلام میں آ جائے گی۔یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے باپردہ زندگی گزار رہی ہوں۔ اس ملک میں چہرے پر نقاب ڈال کر ادھر ادھر جانا تو ممکن ہی نیںا کہ اس سے بے شمار مشکلات آڑے آتی ہیں، تاہم چہرے اور ہاتھوں کے سوا میں سارے جسم کو ڈھیلے لباس میں مستور رکھتی ہوں، تاہم اس میں بھی قدم قدم پر تعصب اور تنگ نظری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک مرتبہ مںا اسی لباس میں ایک بینک میں گئی تو جب تک وہاں موجود رہی، بینک کا گن مین میرے سر پر رائفل تانے کھڑا رہا۔ ایک پی ایچ ڈی خاتون ملازمت کے لیے منتخب ہوئی مگر اسے پہلے روز ہی اس لیے فارغ کر دیا گیا کہ وہ حجاب میں تھی۔ اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ ایک بار میں نے ریڈیو پر بچوں کا پروگرام کیا، اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، مگر تقریب سے ایک روز قبل جب کمیٹی کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے اسلامی لباس میں دیکھا تو کمال ڈھٹائی سے انھوں نے ایوارڈ منسوخ کر دیا۔بہرحال یہ ہے امریکہ کا ماحول اور یہ ہیں وہ رکاوٹیں، جن میں رہ کر مجھے تبلیغ دین کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت عطا کرے اور میں آخر وقت تک نہ صرف خود ایمان و یقین سے سرشار رہوں، بلکہ یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچاتی رہوں
٭٭٭