خیرالنسا (شالنی دیوی)


میں نے اسلام کیسے قبول کیا

خیرالنسا (شالنی دیوی)

میں تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یو پی) کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ میر ا پرانا نام شالنی دیوی تھا۔ میرے والد کا نام چودھری بلی سنگھ تھا۔ میری شادی ہریانہ میں پانی پت ضلع کے ایک قصبے میں کرپال سنگھ سے ہوئی۔ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ چودہ سال رہی۔ اب سے آٹھ سال پہلے میرے اللہ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ اللہ کے شکر سے میرے پانچ بچے ہیں جو میرے ساتھ مسلمان ہیں۔

مجھے بچپن ہی سے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی۔ میں پیڑ، پودوں، پھولوں، چاند، ستاروں کو دیکھتی تو سوچتی کہ ایسی خوب صورت اور سندر چز وں کو بنانے والا خود کتنا سندر ہو گا۔ میرے سسرال کے گاؤں میں یو پی کے بہت سے مسلمان کپڑے وغیرہ کی تجارت کے لیے آتے تھے۔ وہ مجھے ایک مالک کی پوجا اور اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علہے وسلم کی باتیں بتاتے۔ میرے ساتھ میرے بچے بھی بڑی دل چسپی سے ان کی باتوں کو سنتے۔ ان کے جانے کے بعد میرے بچے مجھ سے کہتے کہ ماں ہم سب مسلمان ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ کچھ دنوں بعد میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور گنگوہ کے علاقے کے دو مسلمانوں کے ساتھ جا کر اپنے بچوں سمیت مسلمان ہو گئی۔

اسلام قبول کرتے ہی میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے قیامت برپا کر دی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے حد ستایا۔ ہم سب کو جان سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر موت زندگی کا مالک ہماری حفاظت کرتا رہا۔ میرے اللہ پر مجھ کو بھروسا رہا اور ہر موڑ پر میں مصلے پر جا کر فریاد کرتی رہی۔ اور اللہ نے میری ہر موڑ پر مدد کی۔

میں کس منہ سے اپنے مالک کا شکر ادا کروں۔ میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے جو بڑے زمیندار بھی ہیں مجھے منانے کی ہر ممکن کوشش کی جب میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں مر تو سکتی ہوں مگر اسلام سے نہیں پھر سکتی تو پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑ ی سختی کی۔ مجھے پیڑ سے لٹکا دیا۔ دسیوں لوگ مجھے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنے لگے مگر وہ لاٹھیاں نہ جانے کہاں لگ رہی تھیں۔ میں اللہ سے فریا د کرتی رہی۔ مجھے ایسا لگا کہ مجھے نیند آ گئی ہے یا میں بے ہوش ہو گئی ہوں۔ بعد میں مجھے ہوش آیا تو پولیس وہاں موجود تھی اور وہ لوگ بھاگ گئے تھے۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس پٹائی میں خود میرے چچا اور جیٹھ کے ہاتھ ٹوٹ گئے۔ وہ میرے بچوں کو مجھ سے چھین کر لے گئے۔ میرے بڑے بیٹے جس کا نام میں نے عثمان رکھا ہے ، اس کو گھر لے جا کر بہت مارا۔ وہ دو روز بعد کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ تھانہ بھون میں اس نے اپنے ایک مسلما ن دوست کے ہاں پنا ہ لی مگر میرے سسرال نے اسے وہاں بھی ڈھونڈ لیا۔ اس کو مارنے کے لیے وہ بہت سے بدمعاشوں کو چھروں اور چاقوؤں کے ساتھ لے آئے۔ تیرہ سال کا بچہ اور آٹھ دس لوگ چھریوں سے اسے مارنے لگے۔ میرے بچے نے چھری چھیننے کی کوشش کی۔ اسی کوشش میں نہ جانے کسطرح چھری خود مارنے والوں میں سے ایک کے پیٹ میں گھس گئی۔ اور وہ فوراً مر گیا۔ اتنے میں ایک بس آ گئی۔ بس والے نے بس روک دی۔ سواریاں اتریں تو وہ سب لوگ بھاگ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہاں ایک لڑکا تھا جس کے سارے جسم پر زخم تھے اور ایک شخص مرا ہوا پڑا تھا۔ پولیس آئی اور میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا۔ جیل میں اس کی پٹائی ہوتی رہی۔ اس نے صاف بیان دیا کہ چھری چھینتے ہوئے میرے ہاتھ سے اس کے پیٹ میں گھس گئی۔ لڑکے کو آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ میں رات رات بھر مصلے پر پڑی رہتی۔ میں نے سہارے کے لیے ایک مسلمان سے نکاح بھی کر لیا۔ عورتیں مجھے ڈراتیں کہ تیرے بچے اب تجھے ملنے والے نہیں۔ اور تیرے بچے کی ضمانت کوئی نہیں کرائے گا۔

میرا بیٹا عثمان آگر ہ جیل میں نماز پڑھتا اور دعا کرتا۔ ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک پردہ آسمان سے آیا اور لوگ کہہ رہ رہے ہیں کہ بی بی فاطمہ آسمان سے عثمان کی ضمانت کرانے آئی ہیں۔ ایک ہفتے بعد آگرہ کی ایک دولت مند عورت نے عثمان کی ضمانت کرائی۔ وہ مظفر نگر آیا کرتی تھیں۔ ضمانت ہو گئی تو میں نے اسے دین سیکھنے کے لیے تبلیغی جماعت میں بھیج دیا۔ میں اپنے چار بچوں کی وجہ سے رویا کرتی اور میرے بچے بھی بہت تڑپتے۔ میری بچی چھپ کر نماز پڑھتی۔ اس کو نماز پڑھتا دیکھ کر میرے سسرال والوں نے اس پر مٹی کا تیل چھڑ ک دیا اور آگ جلانا چاہی مگر میرے اللہ نے اسے بچا لیا۔ انہوں نے چار بار دیا سلائی جلائی مگر ایک بال بھی نہیں جلا۔ پھر انہوں نے مشورہ کر کے کھیر پکائی اورکھیر میں زہر ملا دیا۔ وہ کھیر میری دونوں بچیوں کو کھلا دی مگر انہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ میری جٹھانی کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو زہر ہی نہ تھا۔ اس نے کھیر چکھی اور فورا ً مر گئی۔

میرا بیٹا عثمان جماعت سے آیا۔ میں اور وہ پانی پت کے پاس ایک جگہ جا رہے تھے۔ کہ ہمارے سسرال والوں نے ہمیں گھیر لیا۔ انہوں نے گولیاں چلائیں۔ مگر ایک فائر بھی ہمیں نہ لگا ، گولیاں ہمارے دائیں بائیں سے گزر جاتی تھیں۔ آخر تیئسواں فائر انہیں کے ایک آدمی کے لگ گاس اور وہ مر گیا۔ اس پر وہ بھاگ گئے۔ میں اپنے اللہ سے بچوں کو مانگا کرتی، میرے اللہ مجھے میرے بچے مل جائیں۔ ایک روز ایک عالم مولوی غوث علی شاہ مسجد میں آئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا قصہ سنایا کہ اللہ نے فرعون کے گھر میں ان کو ان کی ماں سے کیسے ملایا۔ میں گھر گئی اور سجدے میں گر گئی میرے اللہ جب توموسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کی گود میں پہنچا سکتا ہے تو میرے بچوں کو کیوں نہیں ملا سکتا۔ میں تجھ پر ایمان لائی ہوں میں فریاد کرنے کس سے جاؤں۔ میں تیرے علاوہ کسی سے فریاد نہ کروں گی۔ ساری رات سجدے میں پڑی رہی۔ اسی عالم میں سو گئی۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے اللہ کی بندی خوش ہو جا تیرے بچے تیرے ساتھ ہی رہیں گے۔ صبح میرا بیٹا عثمان پانی پت سے کرنال کے لےی بس اڈے گیا۔ اس نے دیکھا کہ تینوں بہنیں چھوٹے بھائی کے ساتھ بس سے اتریں۔ وہ موقع پا کر بھاگ آئے تھے اور اندازے سے پانی پت آ رہے تھے۔ عثمان چاروں کو لے کر خوشی خوشی گھر آیا۔ میں پھر ساری رات سجدے میں پڑی رہی۔ شکرانے میں۔ اس کے بعد پانچ چھ بار ایسا ہوا کہ میرے سسرال والے مجھے اور میرے بچوں کو تلاش کرتے کرتے آئے۔ ہم انکو دیکھ لیتے مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے تھے۔ مجھے ہر موڑ پر میرے مالک نے سہارا دیا میں اسکا کسطرح شکر ادا کروں۔

عثمان نے قرآن مجید پڑھ لیا۔ ہر سال تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی جاتا ہے۔ میں دعا کر کے اسے بھیج دیتی ہوں کہ حفاظت کرنے والا میرا مالک ہے۔

بڑی دو بیٹیوں کی شادی کر دی ہے دونوں داماد بہت دین دار اور نیک ہیں۔ میری بیٹیاں بھی بہت پکی اور سچی مسلمان ہیں۔ ان کی شادی کے وقت میرا بیٹا جیل میں تھا میرے اللہ نے اس کی ضمانت کا انتظام کر دیا۔ اور اس نے خود اپنی بہنوں کو خوشی خوشی رخصت کیا۔ اب وہ اللہ کے فضل سے بری ہو گیا ہے۔ چھوٹی بچی اور بچہ مدرسے میں پڑھ رہے ہیں۔

میں نے ایمان لانے کے بعد قدم قدم پر اللہ کی مدد دیکھی مجھے نماز میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں نے چھ سال سے تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین نہیں چھوڑی۔ میں نے کیا نہیں چھوڑی میرے مالک نے چھوڑنے نہیں دی۔ جب بھی کوئی ضرورت ہوتی ہے مصلے پر جاتی ہوں اور اپنے مالک سے فریاد کرتی ہوں مشکل حل ہو جاتی ہے۔

ہمارے مسلمان بھائی بہن جن کو باپ دادوں سے اسلام مل گیا ہے انہیں اس کی قدر نہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی اللہ پر کامل یقین کریں اور پھر اس کی مدد دیکھیں۔

اب میرا ارادہ قرآن مجید حفظ کرنے کا ہے۔ اور اپنی دونوں بچیوں کو بھی دین کا سپاہی اور داعی بنانا ہے۔ چھوٹے بچے کو چاہتی ہوں کہ وہ بھی اجمیر والوں کی طرح لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنائے۔ مجھے امید ہے میرے اللہ میری تمنا َضرور پوری کر ے گا اس نے آج تک میری کوئی درخواست رد نہیں کی۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘اللہ کی پکار’ نئی دہلی ، مئی ٢٠٠٨ ص ٤٢ تا ٤٥)