ارشاد احمد / حاکم سنگھ (ڈوڈہ، جموں و کشمیر)

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

ارشاد احمد / حاکم سنگھ
(ڈوڈہ، جموں و کشمیر)

میرا پیدایشی نام حاکم سنگھ ہے۔ میں سناتن دھرم کے سوریہ ونشی گوتر خاندان میں گاؤں درون جمہانی تحصیل ٹھاٹھری ضلع ڈوڈہ ریاست جموں و کشمیر میں ١٩٦٩ء میں پیدا ہوا۔ میرے دادا جی کا نام روپا چودھری تھا۔ وہ اپنے زمانے کے بڑے رئیس زمیں دار تھے۔ میرے پتا (والد) کا نام بدری ناتھ ہے۔ یہ اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ میری دادی کے انتقال کے بعد دادا روپا چودھری نے دوسری شادی کی، جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ اس طرح سے میرے والد صاحب کے دو بھائی اور ایک بہن اور بن گئے۔ میرے والد صاحب کو دادا نے سنٹرل واٹر کمیشن C.W.C محکمے میں نوکری دلائی تھی، لیکن کچھ عرصے بعد زمیں داری کا کام کاج ہونے کی وجہ سے دادی کے کہنے پر والد صاحب سے نوکری چھڑائی گئی۔ اب والد صاحب نے کھیتی باڑی کا کام کاج سنبھالا اور اسی دور میں والد صاحب کی شادی بھی ہو گئی۔ اس طرح ہم پانچ بھائیوں اور ایک بہن نے اپنے ماں باپ کے گھر جنم لیا۔ مجھ سے ایک بھائی اور ایک بہن بڑے ہیں۔ تین بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں۔ میں بچپن سے ہی دھارمک وچار (دینی ذہن) کا ہوں اور صفائی پسند ہوں۔ اپنے آبائی دھرم (مذہب) کا پورا مطالعہ بچپن سے ہی کرتا رہا ہوں۔ برہم سوتر ”ایک برہما دویتے نستے ناہی نہ ناستے کنچن” کی مالا (تسبیح) غور سے جب بھی جپا (پڑھا ) کرتا تھا تو سکون محسوس کرتا تھا لیکن جب سماج میں لوگوں کو اس کے بالکل الٹ کرتے دیکھتا تھا تو مایوسی کے عالم میں کھو جاتا تھا۔ بڑے بڑے ہندو (سناتن دھرمی) Scholars کو مختلف اوتاروں اور تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے دیکھ کر پریشانی کے جال میں پھنسا رہتا تھا، یہی ایک خاص وجہ تھی، جو اپنی قوم کی ریتی رواج یا سوسائٹی کے اثرات قبول کرنے سے بارہ تیرہ سال کی عمر سے مجھے روکے ہوئے تھی۔

زندگی کے اسی دور میں ایک نئی گھٹنا (واقعے) نے دل کے دروازوں کو مزید وا کیا۔ ١٩٨٠ء کی بات ہے، جمعہ کا دن تھا۔ میرا ننھیال پرنوت گاؤں میں ہے۔ میرے والد اور والدہ پرنوت گئے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے حکم کے مطابق اسکول سے چھٹی کے بعد پرنوت پہنچ گیا۔ نانی نے مجھ سے کہا کہ گیہوں کی کٹائی ہو رہی ہے۔ آپ کے والد، والدہ کھیت پر ہیں آپ وہیں جائیں۔ اور ساتھ میں پانی کا ایک گاگر بھی ساتھ لے جائیں۔ میں پانی کی گاگر لے چلا۔ کچھ دور جا کر دو بوڑھی عورتیں گیہوں کاٹتی ہوئی نظر آئیں۔ تپتی دھوپ میں مجھے دیکھ کر انھوں نے پانی پلانے کو کہا۔ میں ان کے لیے اجنبی تھا۔ پانی پینے سے پہلے ہاتھ دھوتے ہوئے بڑھیا پوچھتی ہے آپ کا نام؟ میں نے بتا دیا۔ والد کا نام؟ وہ بھی بتا دیا۔ یہاں کس کے گھر آئے ہو؟ میں نے ایک بھگت (عبادت گزار) گھرانے کے ایک بڑے آدمی کا نام بتا دیا کہ اس کے گھر آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی بڑھیا نے پانی پینے سے انکار کر دیا۔ اس واقعے سے میرے دل کو بہت ٹھیس پہنچی۔ مجھے حق کی تلاش تو پہلے ہی سے تھی۔ اب میں تحقیق کے ایک اور سمندر میں جا پہنچا۔ دل سوچنے پر مجبور ہوا کہ پہلے تو ان بوڑھیوں نے مجھے مجبور کر کے پیاس کی وجہ سے بے تابی سے پانی پلانے کے لیے پاس بلایا، لیکن تعارف سنتے ہی ان کی پیاس کہاں چلی گئی؟ وہ کون سی خوبی ہے، جو ان میں ہے اور اس گھر میں نہیں ہے، جس گھر کے بڑے آدمی کا نام میں نے لیا تھا؟ یا پھر مجھ میں ہی وہ کون سی خامی ہے، جسے دیکھ کر انھوں نے ایک دم ہاں کو ناں میں بدل دیا؟ میرا وقت بھی برباد کیا اور میرا پانی بھی ہاتھ دھونے میں ضائع کیا۔ میں تو ہر روز نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑوں میں اسکول جایا کرتا ہوں اور یہ بڑھیا تو میلے کچیلے کپڑوں میں ہے۔ نسوار کے استعمال سے اس کے دانت کالے سیاہ ہو چکے ہیں۔ منہ سے نسوار کی بدبو آ رہی ہے۔ سر کے بالوں کی یہ حالت ہے کہ مشکل سے مہینے میں ایک بار ہی نہائی ہو گی۔ یہ کون سے اور کس قسم کے لوگ ہیں؟ اس قسم کے بہت سے خیالات دل میں ابھرتے رہے۔ سوچتے سوچتے میں اس کھیت میں پہنچ گیا، جہاں میرے باپ کئی دیگر لوگوں کے ساتھ گیہوں کی کٹائی کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر والد صاحب میرے پاس پانی پینے پہنچے۔ میں نے پانی پلایا۔ میں نے والد صاحب کو پیش آمدہ واردات کے بارے میں علیحدگی میں سنجیدگی سے بتایا۔ سب کچھ غور سے سننے کے بعد والد صاحب نے مجھے سمجھانے کی بھر پور کوشش کی۔ کئی من گھڑت اور بے سند مثالیں اور قصے کہانیاں سنائیں۔ ہندو سماج یعنی سناتن دھرم میں اونچ نیچ اور جاتی واد (ذات پات) کے اس بھید بھاؤ کو لے کر کئی بے سند کتابوں کا حوالہ بھی دیا، لیکن میرے دل میں ایک بات بھی نہیں اتری، بلکہ ایک اور نئی پریشانی پیدا ہوئی کہ ہمارے سماج میں کچھ لوگ اپنے آپ کو پاک دامن یعیھ ”شدھ” اور دوسروں کو ناپاک یعنی ”اشدھ” ٹھہرائے ہوئے ہںئ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور کیسے ہوا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے میں نے کبھی سکھ برادری میں جا کر تو کبھی پنڈت برداری میں تو کبھی راجپوت برادری میں تو کبھی میگھ برادری میں جا کر تحقیق کی، جس سے مجھے یہ معلومات ہوئیں کہ اچھوت یعنی ”اشدھ” ناپاک جن کا نام گاندھی جی نے ‘ہریجن” یعنی ایشور کے بیٹے رکھا تھا، جب تک وہ ہندوؤں میں رہیں گے، وہ انسانوں جیسے شرف و وقار سے محروم ہی رہیں گے، کیونکہ ہندوؤں کی مذہبی تعلیم کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اچھوت ہندو برادری سے نکالے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ نہ تو ہندوؤں کے مندروں میں داخل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کنوؤں اور نلوں سے پانی لے سکتے ہیں، جن سے اونچی ذات والے ہندو لیتے ہیں اور نہ وہ ان کے ساتھ کھا پی سکتے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں۔ دور افتادہ دیہاتوں میں اب تک اونچی ذات والے ہندو بہت تھوڑے معاوضے پر ان سے خدمت لینا اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ ہری جنوں کو اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ اور لوگوں کے مانند جوتے چپل پہن کر چل پھر سکیں۔

ایک سو بیس پچیس ملین یہ اچھوت ہندوستان میں تمام پست قبائل سے بھی پست تر لوگ ہیں۔ اور صرف اونچی ذات والوں کے نوکر چاکر اور خادم سمجھے جاتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اچھوت اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، جو انھوں نے پچھلے جنم میں کیے تھے اور پھر بعض ادیان علم کو صرف پروہتوں (پجاریوں) اور ایک مخصوص طبقے تک محدود رکھتے ہیں۔ اور ان ادیان کی اساس اس تصور پر ہے کہ ایشور (خدا) نے انسان کو مختلف طبقوں میں اس لیے جنم دیا ہے کہ بعض طبقے اس کے محبوب اور بعض طبقے اس کے مغضوب ہیں، چنانچہ مشہور ہندوستانی فلسفی منو اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ” برہما نے اپنے منہ سے برہمن کو، ہاتھ سے کھتری کو، ران سے ویش کو، اور پاؤں سے شودر کو پیدا کیا ہے۔” (1:31) اس لیے ان کی نظر میں بعض طبقے پست ہیں اور انھیں پست ہی رکھا جانا چاہیے، چنانچہ اسی باب کے نمبر ٥١ میں وہ فرماتے ہیں: ”ایشور نے شودر کو صرف ایک فرض نبھانے کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بلا چون و چرا برہمن ، کھتری اور ویش کی خدمت کرتا رہے۔” ( 1 تا 91) اس لیے وہ برہمنوں کو حکم دیتے ہیں کہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے۔ یہ سب باتیں جن کی میں تحقیق کرتا گیا، مجھے دن بدن اچنبھے اور حیرت میں ڈالتی گئیں۔ رفتہ رفتہ مجھے سماج کی ہر چھوٹی بڑی ذات والے سے نفرت سی ہونے لگی۔

غور و فکر کے نتیجے میں الجھن بڑھتی گئی اور میں تنہائی پسند ہو گیا۔ بچپن ہی سے میرا نصب العین یہ تھا کہ اپنی ذات کا عرفان حاصل کروں اور اس کے ساتھ ساتھ کائنات کے وجود میں لانے والے کی معرفت حاصل کروں اور اس بات کی واقفیت بھی کہ اس ہستی کی عبادت کیسے کی جائے۔ اس کھوج میں مجھے کبھی سکھ بننا پڑا، کبھی عیسائیوں کی مجالس میں جانا پڑا تو کبھی ست سنگھ آنند مارگ کے درس سننے پڑے۔ مگر توحید پر مبنی برہم سوت کے خلاف سب کو شرک میں ملوث پایا۔ اس کے علاوہ چھوت چھات، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کی لعنت میں بھی سب کو گرفتار پایا۔ ہندو سماج کو اس تضاد عملی پر غور کرنا چاہیے۔ میں ہندو سماج میں ہزاروں نہیں، بلکہ کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا پرستش کرتے دیکھ کر پریشان ہو اٹھتا۔ اور اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر جیتا تھا، اسی دور کی بات ہے کہ ١٩٨١ء میں گورنمنٹ مڈل اسکول میں پانچویں کلاس میں پڑھ رہا تھا، مجھے دیوی دیوتاؤں سے چڑ تھی، لیکن ماں باپ نے کسی دیوتا کی منت مانتے ہوئے میرے سر کے بال کٹوا کر ایک لمبی چوٹی سر پر چھوڑ دی تھی کہ ہمارا بچہ ٹھیک ٹھاک صحت مند رہے تو ہم یہ چوٹی دیوتا کے دربار میں جا کر کٹوائیں گے۔ اور وہاں بکرے یا بھیڑ کی بَلی (قربانی) بھی کریں گے۔ مجھے تو اس چوٹی سے نفرت اور چڑ تھی، بچے الگ میری چوٹی سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسکول میں میں نے بچوں کی شرارت کا بہانہ بنا کر اپنے سر کی اس لمبی چوٹی کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں جکڑ کر پوری طاقت سے اکھاڑ ڈالا اور اسکول کے باہر کھیت میں اس چوٹی کو جا پھینکا۔ اس عمل سے میرا سر لہو لہان ہو گیا۔ چوٹی کی جگہ پر ایک گہرا زخم بن گیا۔ اسکول کے کچھ سینئر طلبہ نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انھوں نے اس کی اطلاع اسکول کے ذمے داروں کو دی۔ اسکول کا اسٹاف مجھے دیکھنے کلاس میں آیا۔ مجھے خون سے بھرا دیکھ کر انھوں نے مجھے سنبھالا۔ میرے بڑے بھائی مول راج جی کو بھی پتا چلا، وہ بھی آئے۔ وہ بھی حیران تھے کہ اتنے سارے بالوں کا گچھا کیسے اکھڑ سکتا ہے۔ کئی استاد اور بچوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔ میرے بڑے بھائی دکھی تھے کہ جب والدین گھر میں پوچھیں گے تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے! بہرحال بڑے بھائی نے کچھ دوستوں کو ساتھ لے کر کھیت میں جا کر چوٹی کو ڈھونڈ نکالا اور گھر آ کر والدین کو پوری بات سنائی اور چوٹی بھی دکھائی۔ والدین مجھے دیکھ کر بہت گھبرائے کہ نہ جانے میرے دماغ پر اس زخم کا کیا اثر پڑے گا، اس کے علاوہ دیوتا کی ناراضی کا مسئلہ علیحدہ تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو مصیبت میں گھرا سمجھنے لگے۔ مجھے یہ بالکل احساس ہی نہیں تھا کہ زخم کی وجہ سے سر میں درد ہے۔ دیوتاؤں کی تو مجھے بالکل پروا ہی نہیں تھی۔ ان کی عقیدت سے میرے مولائے کریم نے مجھے پاک رکھا تھا۔

١٩٨٢ء میں میں چھٹی کلاس میں پہنچا تو ہمارے اس گورنمنٹ مڈل اسکول میں محمد شریف صاحب گاؤں ردرانہ، بھدرواہ سے ٹرانسفر ہو کر آئے۔ یہ اگرچہ کلین شیو تھے اور ان کی شکل و صورت ہندوؤں جیسی ہی تھی، لیکن بول چال، رہن سہن میں اور پڑھانے میں دوسرے اساتذہ سے مختلف تھے۔ میں ان کی ہر بات اور کام پر نظر رکھتا تھا۔ اتفاق سے انھوں نے میرے ننھیال گاؤں پرنوت میں نانا ہی کے گھر کا کمرہ کرائے پر لیا تھا، جس کی وجہ سے میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہو گئے۔ تعلیم میں ذہانت کی وجہ سے سب اساتذہ مجھے پسند کرتے تھے۔ میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور استادوں کی مذہبی روش پر بھی نظر رکھتا تھا۔ اپنوں کی عبادت کے طور طریقے سے تو میں واقف تھا ہی، اب مجھے اپنے ان نئے استاد کے مذہبی طور طریقوں پر نظر رکھنی تھی۔ اتفاق سے ایک دن میں اپنے ننھیال گاؤں پرنوت گیا۔ میں نے دیکھا کہ ماسٹر محمد شریف صاحب کچھ اٹھک بیٹھک سی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ میں دروازے سے چھپ کر دیکھ رہا تھا۔ نانی سے پوچھا کہ ماسٹر صاحب یہ کیا کر رہے ہیں؟ پتا چلا کہ یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا مذہب اسلام ہے۔ یہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ یہ ایشور (خدا) کو اسی طرح یاد کرتے ہیں۔ میں پھر جھانک کر دیکھنے لگا کہ ان کا دیوتا کہاں ہے؟ وہ کس کی طرف متوجہ ہیں؟ کوئی تصویر کوئی مورتی، کوئی نقشہ جو سامنے ہو، میں اسے دیکھوں، لیکن کافی دیکھ ریکھ کے بعد بھی میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس طرح میرے لیے تحقیق کا ایک اور نیا دروازہ کھل گیا۔ نماز کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ مسلمان نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ ہم ہندو نماز کیوں نہیں پڑھتے ہیں؟ ہمیں کسی نے نماز کیوں نہیں سکھائی؟ مسلمانوں نے نماز کیوں سیکھی؟ یہ مسلمان ٣٣ کروڑ دیوی دیوتاؤں کے عقیدت مند کیوں نہیں ہیں؟ یہ سب تو ماسٹر صاحب سے میں پوچھ نہیں سکتا تھا۔ اس وقت میں کم عمر تھا اور ماسٹر صاحب سخت مزاج کے تھے، اس لیے میرے دل کی بات میرے دل میں ہی رہ گئی۔ لیکن اس بات نے مجھے اور خاموش مزاج بنا دیا۔ ١٩٨٥ء میں میں نے ماڈل ہائی اسکول، بھلیہ میں نویں کلاس میں داخلہ لیا۔ یہ اسکول ہمارے لیے اس اعتبار سے نیا تھا کہ اسکول میں ہندو مسلم دونوں قسم کے طالب علم پڑھتے تھے۔

میری کلاس میں چار مسلمان لڑکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ جب بھی آپس میں ملتے ہیں تو السلام علیکم کہتے اور مصافحہ کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ بھی ایک نئی چیز تھی کہ یہ لوگ آپس میں السلام علیکم اور ہمیں السلام علیکم کے بجائے آداب عرض کیوں کہتے ہیں۔ اس اسکول میں اکثریت چونکہ ہندو طلبہ اور اساتذہ کی تھی، اس کی وجہ سے یہ مسلمان طالب علم کچھ دبے دبے سے رہتے تھے۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو السلام علیکم کہنا شروع کیا۔ اس پر ہمارے یہ مسلمان دوست بہت خوش ہوئے۔ آہستہ آہستہ مجھے انھیں السلام علیکم کہنے کی عادت پڑ گئی اور اس طرح میری ان سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔ میں نے ان سے السلام علیکم کا مطلب پوچھا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کا مطلب اللہ سے دعا کرنا ہے کہ اللہ کی تم پر سلامتی ہو لیکن دریافت کرنے پر وہ قرآن کا ترجمہ و تشریح نہیں کر پائے۔ دل میں سوالوں کا ایک سیلاب تھا، جن کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ماحول مجھے بے تاب کیے ہوئے تھا۔ ١٩٨٦ء میں میں نے میٹرک فرسٹ گریڈ میں ٧٥٠ نمبروں میں سے ٥٠٦ نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔ میں نے P.U.C میں میڈیکل سبجیکٹ لے کر داخلہ لیا۔ میرا مزاج حقیقی معبود کا متلاشی تھا۔ ذہنی پریشانی بڑھتی گئی۔ جیسے تیسے میں صرف 10+2 تک ہی پڑھ سکا۔ آگے پڑھنے کی تمنا ختم ہو گئی۔ معبود حقیقی کی تلاش کے لیے ١٩٨٩ء سے ١٩٩٥ء تک برابر کھوج میں لگا رہا۔ اس بیچ گورنمنٹ سروس کے لیے ایک دو بار آرڈر بھی آئے، لیکن کبھی دل کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ اپنے سے اوپر صرف مالک حقیقی کو ہی دیکھنا پسند کرتا تھا۔ اسی خیال سے سروس جوائن ہی نہیں کرتا تھا۔

نومبر ١٩٩٢ء میں میری شادی ہوئی۔ اسی دور میں میں نے فارمسسٹ (Pharmacist) کا کورس کیا۔ اپریل ١٩٩٥ء میں میں نے باتھری گاؤں میں میڈیکل شاپ شروع کی، اس وقت اس علاقے میں ملی ٹینسی زوروں پر تھی۔ علاقہ اگرچہ کافی بڑا تھا، لیکن دکانیں صرف آٹھ دس تھیں، ان میں صرف میں ہی ہندو تھا۔ پورے علاقے میں پانچ فی صد ہی ہندو لوگ تھے۔ ٩٥ فیصد مسلمان پورے علاقے میں آباد تھے۔ میرے ارد گرد کے مسلمان دکان دار اذان سنتے ہی مسجد کی راہ لیتے تھے۔ میں اکیلا پورے بازار میں رہ جاتا تھا۔ کبھی فوج، کبھی STF کے جوان آ کر میری دکان کے باہر بونچسں پر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی زندگی بندروں کی سی لگتی تھی۔ جو ملا کھاتے، جو منہ آیا بکتے۔ جسے چاہے لوٹتے۔ جسے چاہا مارتے پیٹتے اور جسے چاہا ستاتے۔ نہ اپنا پتا نہ اپنے پیدا کرنے والے کا پتا۔ اپنی ماں بہن کو گالی۔ دوسرے کی ماں بہن کی ایسی کی تیسی بکتے پھرتے، البتہ میں جب ان سے پوچھتا کہ فلاں شخص کیوں خاموش ہے تو جواب ملتا کہ خود ہی اسے پوچھو۔ تعارف ہونے پر نام ہی سے پتا چل جاتا کہ مسلمان ہے۔ میں حیران رہ جاتا کہ جس مستی سے دوسرے لوگ آرمی میں رہ رہے ہیں، یہ آدمی اس موج مستی سے کیوں دور رہتا ہے؟ میری دکان کے ساتھ ہی نثار احمد ملک ٹی اسٹال کا کام تھا۔ میں نے جب ان سے لفظ مسلمان کے معنی و مطلب پوچھے تو انھوں نے بتایا کہ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے والے شخص کو مسلمان کہتے ہیں۔ میں مطمئن ہو گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مسجد میں جا کر آپ چیخ چیخ کر اذان پڑھتے ہیں، اذان کا کیا مطلب ہے؟ ذرا مجھے سمجھائیے۔

نثار احمد ملک صاحب نے میرے کہنے سے نہ صرف نماز کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا بلکہ اس کا پورا ترجمہ مجھے لکھوا دیا۔ نماز کے بارے میں جان کاری سے میرے دل کے اندر برہم سوتر کا مفہوم تازہ ہو گیا، کیونکہ نماز میں پڑھی جانے والی ایک سورت سورۂ اخلاص کا معنی و مفہوم بھی یہی تھا۔ مجھے برسوں سے اسی کی تلاش تھی، میں جب کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا تو وہاں توحید کے راز بھی ملتے تھے، لیکن سماج کے لوگوں کو اس کے بالکل برعکس دیکھ کر دم گھٹنے لگا تھا، لیکن آج تو میں بے حد خوش تھا کہ مجھے ایک نیا راز ہاتھ لگا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ مسلمان بھائیوں نے اس راز کو میرے آبا و اجداد سے چھپائے رکھا تھا۔ اب میں نے بھائی نثار احمد صاحب سے پوچھا: اسلام آپ کا مذہب ہے۔ سنا ہے اسے قبول کرنے کے لیے کچھ کلمے پڑھنے پڑتے ہیں۔ میرے ہندو بھائی ان کلمات کا نام لینا، پڑھنا اور سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میں بچپن میں اپنی برادری میں ایک علاقے میں بطور مہمان گیا تھا۔ وہاں شام کو ہم برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک گاؤں کی مسجد سے اذان کی آواز زور زور سے آنے لگی۔ میں نے میزبان سے استفسار کیا کہ یہ کون ہے، جو اتنے زور زرو سے چلا رہا ہے؟ میں اذان سے واقف نہیں تھا۔ خیر، میزبان نے فوراً کانوں میں انگلیاں دیتے ہوئے کہا: حاکم سنگھ! فوراً کان بند کرلو۔ ہمیں اس آواز کو نہیں سننا چاہیے۔ میں نے بھی کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، تاکہ اگر یہ مصیبت ہے تو اس مصیبت سے میں بھی بچ جاؤں، لیکن دل میں سوال پیدا ہوا کہ یہ چلانے والے لوگ بھی تو انسان ہی ہیں، انھیں کچھ کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہمیں ہی اسے سن کر کوئی مصیبت آ سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آج ١٩٩٦ء میں اس اذان سے ڈرنے کا بھی پردہ فاش ہو گیا۔ جب نثار احمد ملک صاحب نے اذان کا ترجمہ کر کے مجھے بتایا۔ میں نے ان چھ کلمات کے بارے میں بھی جاننا چاہا تو انھوں نے شوق سے چھ کلمے لکھوائے اور ان کا معنی و مطلب بھی اچھی طرح سمجھایا۔

ان کلمات کو سمجھنے کے بعد میرے دل کی گیھ سلجھنے لگی اور دل کی دنیا آباد ہونے لگی۔ میں نے بہت پہلے پُران میں پڑھا تھا کہ سلمال دویپ (جزیرے) میں ایک انتم (آخری) مہارشی کلکی اوتار وشنوویش کے گھر میں جنم لے گا۔ وہ پوری دنیائے انسانیت و دنیائے جنات کے اوتار ہوں گے۔ اونچ نیچ، گورے کالے کے بھید بھاؤ کو ختم کر دیں گے۔ ایک مہابر پھوکی عبادت کرنے کا پرچار (تبلیغ) کریں گے۔ انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار کی ماتا (ماں) کا نام سومتی ہو گا۔ کلکی اوتار اناروں اور کھجوروں والی جگہ میں پیدا ہو گا۔ انتم (آخری) مہارشی کلکی کی پیدائش عظیم ترین فرزند کے ہاں ہو گی۔ کلکی کی تعلیم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایک پہاڑی میں پرسورام سے تعلیم حاصل کرے گا۔ انتم مہارشی کلکی شوا سے گھوڑا حاصل کرے گا۔ کلکی اپنے چار رفیقوں کے ہمراہ شیطان کو مات دے گا۔ انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار فرشتوں سے امداد حاصل کرے گا۔ کلکی خوب صورتی میں لاثانی ہو گا۔ انتم (آخری) مہارشی کلکی کا جسم معطر ہو گا۔ کلکی کی یوم پیدائش بارہ تاریخ کو ہو گی۔ انتم (آخری) مہارشی اچھا گھڑ سوار اور حامل تلوار ہو گا۔ اس کے والد اس کی پیدائش سے قبل اور والدہ اس کی پیدائش کے کچھ سمے (وقت) بعد اس جہان فانی کو خیر باد کیںن گے۔ جگت گرو (رہنمائے عالم) کے پاس ایک برق رفتار گھوڑا ہو گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کرے گا۔

پران تمام دنیا کوسات دویپوں (جزیروں) میں تقسیم کرتا ہے۔ عرب سلمال دویپ (جزیرے) میں واقع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جگت گرو یا نراشنز یا انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار عرب میں پیدا ہو ں گے۔ وشنوویش (وشنو بھگت) وشنو کے معنی خدا (اللہ) کے ہیں، بھگت کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں۔ اس طرح ایشور کی یاوشنو کی بھگتی (عبادت) کرنے والے کو وشنو بھگت (اللہ کا بندہ) کہتے ہیں اور یہی معنی عبد اللہ کے ہیں۔ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد کا نام نامی ہے۔ کلکی کی والدہ محترمہ کو سومتی کہا گیا ہے، جس کے لغوی معنی شانتی یا امن کے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اناروں اور کھجوروں والی جگہ میں پیدا ہوئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی عرب کے عظیم فرزند عبد المطلب کے گھر میں ہوئی، جو خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال کرنے والے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک پہاڑی پر ایک غار میں جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے تعلیم حاصل کی، یعنی ان پر وحی نازل ہوئی۔ محمد صیع اللہ علیہ وسلم نے اللہ ذو الجلال سے براق حاصل کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چار رفیقوں ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی مدد سے بت پرستی کو مٹا کر شیطان کو مات دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر میں فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوب صورتی میں بے مثال تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم پاک بھی انتہائی معطر اور ان کا پسینہ خوش بو دار تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی ١٢ ربیع الاول کو ہوئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھا گھڑ سوار ہونا ثابت ہے اور آپ اپنے ہمراہ تلوار رکھا کرتے تھے۔ یہ سب باتیں میرے ذہن و قلب میں پہلے سے نقش تھیں، جن کو میں نے بہت پہلے پڑھا تھا، اس لیے کلمۂ طیبہ ‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ میرے لیے سمجھنا مشکل نہ تھا، کیونکہ میں ایک برہما دویتیہ نست ناہی نہ نست کنچن کی مالا تو جپتا ہی تھا۔ مجھے صرف انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار ، جگت گرو (عالمی رہنما) نراشنز محمد کی تصدیق چاہیے تھی۔ جس کے میں انتظار میں تھا، وہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے پورے طور سے حاصل ہو گئی، اتنا ہی نہیں وہ میرے اندر ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر گئی۔

قرآن مجید سمجھنے کے لیے میں نے قرآن مجید ہندی مترجم مع عربی متن ترجمہ مولوی فتح خان صاحب جالندھری، تصحیح مولوی عبد المجید سرور صاحب حاصل کیا۔ میں اب صبح و شام قرآن مجید کا مطالعہ سوچ سمجھ کر کرنے لگا۔ جب بھی قرآن مجید پڑھنے بھتابہ تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ اس میں مجھ سے ہی ہدایت کی راہ پر آنے کو کہا جا رہا ہے اور عذاب کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ ہدایت کی راہ پر آنے کے بعد نیک عمل کرنے پر جن انعامات کی خوشخبری دی جا رہی ہے، وہ سب مجھے ہی بتائی جا رہی ہے۔ میرے دل نے میرے جسم کو کوسنا شروع کیا کہ یہ اللہ کی آخری کتاب اپنے آخری پیغمبر پر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اتاری گئی ہے، جس کے ذریعے سے اخروی اور ابدی زندگی سنور سکتی ہے اور اللہ وحدہ لا شریک کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا گیا تو منافقوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جاؤں گا۔ جو بھی خدائی علم حاصل ہوا ہے، فوراً اس پر عمل کرو اور دیر نہ کرو۔ اگر موت نے کسی وقت آ دبوچا تو وقت نکل چکا ہو گا۔ پھر اس پروردگار کے ہاں کیا جواب دے گا؟ کئی روز تک میں اسی غور و فکر میں لگا رہا۔ بت پرستی کی ہر قسم کا تو میں بچپن سے ہی منکر تھا، اب صرف مجھے اپنی رفیقۂ حیات کے قلب میں اس بات کو اتارنا تھا۔ بے چاری معصومہ کو نہ اپنے مذہب کا پتا تھا اور نہ کسی اور مذہب کا، اس لیے میں اسے ہر روز کچھ نہ کچھ دینی بات سنا دیتا تھا اور اسے یقین دلاتا تھا کہ یہ جو میں باتیں سناتا ہوں، یہ ٹائم پاس کرنے کے لیے راجے مہاراجاؤں کے قصے کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، جس پر ہر انسان کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ اس مذہب کی پائے تکمیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ہمیں جس انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار، جگت گرو (عالمی رہنما) ، نراشنز وغیرہ کی آمد کا انتظار تھا، وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور کلکی اوتار بالکل ہم معنی شخصیت ہیں، جو اس دنیا میں بمقام سلمال دویپ (عرب جزیرے) میں تشریف لائے اور اس دنیائے فانی سے تشریف بھی لے گئے ہیں۔ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں تھی۔ ہم تک اس علم کو کسی نے پہنچایا ہی نہیں ہے، اب جب کہ ہم کو اس بات کا پتا چل چکا ہے تو ہمیں اسلام قبول کرنے میں پہل کرنی چاہیے اور پھر ان تمام اصحاب کو بھی آگاہ کرنا چاہیے، جو کلکی اوتار کے ظہور کے منتظر ہیں۔ ان ہی شب و روز کے درمیان میں نے ایک رات خواب دیکھا، جو اس طرح ہے:

میں ایک وسیع عالی شان محل میں کھڑا ہوں۔ محل بے حد خوب صورت ہے۔ فرش پر جب نظر ڈالتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان گنت ہیرے جواہرات، لعل، یاقوت، موتی اس قدر کثرت سے بکھرے پڑے ہیں کہ میرے پاؤں تلے جو جگہ ہے، صرف وہی پاؤں کے فرش پر رہنے کی وجہ سے خالی ہے۔ باقی محل کا پورا فرش بھرا پڑا ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی دل کو ڈرانے لگا کہ میں یہاں اچانک کیسے پہنچا! یہ کیا ماجرا ہے! جس کسی کا یہ محل ہے، اگر اس نے مجھے یہاں کھڑا دیکھا تو وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا۔ میں یہاں کس راستے سے آیا ہوں! مجھے یہاں سے کس راستے سے باہر نکلنا ہے۔ اس محل کی یہ چمچماہٹ جو اس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی، تو پھر یہ کیسے اور کیوں ممکن ہے! میں اسی سوچ میں پریشان تھا کہ مجھے اچانک ایک سیڑھی جو مجھ سے کافی دوری پر تھی، دکھائی دیتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے، باہر نکلنے کے لیے یہی مناسب راستہ ہو، لیکن وہاں کیسے پہنچا جائے، کیونکہ پورے محل کا فرش ان چیزوں سے بھرا پڑا ہے۔ خیر ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ نیچے جھک کر ان چیزوں کو آرام کے ساتھ ہٹایا جائے۔ صرف پاؤں رکھنے کے لیے جگہ بنائی جائے، اسی طرح آہستہ آہستہ اس سیڑھی تک پہنچ سکتا ہوں۔ میں نے ٹھیک ایسے ہی کیا، میں سیڑھی کے قریب پہنچا، اوپر والی چھت جہاں یہ سیڑھی جا رہی تھی، میں جانا چاہتا تھا، لیکن سیڑھی کے ہر زینے پر یہ چیزیں بے شمار رکھی ہوئی ہیں۔ سیڑھی کے دونوں کناروں پر پھولوں کے پودے ہیں۔ پھولوں سے روشنی کی کرنیں میرے اوپر پڑ رہی ہیں۔ میں اچنبھے میں پڑا ہوا ہوں کہ یہ کیا بات ہے! یہ کس کا اتنا بڑا عالی شان محل ہو سکتا ہے، جو اس قدر سجایا گیا ہے۔ خیر میں اسی ترکیب سے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ جس ترکیب سے میں پیچھے سے آیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب میں اوپر والے محل میں پہنچا تو وہاں پر فرش پر سبز رنگ کی بہت بڑی قالین بچھی دیکھتا ہوں۔ ایک طرف سے یہ محل خالی پڑا ہوا ہے، تو دائیں طرف جب نظر ڈالتا ہوں تو باریش، سفید، لمبے کپڑوں میں ملبوس بہت سارے بزرگوں کو دیکھتا ہوں، جو شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے ہیں۔ مجھے ان کی اس بھنبھناہٹ کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں ان کی طرف چل دیا۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھتے ہی وہ سب کے سب کھڑے ہو گئے۔ ان لوگوں اور ان کے امام صاحب کے دائیں طرف ایک عالی شان نشست تی ، جو تکیوں سے سجی ہوئی تھی۔ مصافحے کے بعد مجھے اس پر بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ میں اس عالی شان گدی پر ان کے کہنے پر بیٹھ گیا، پھر وہ سب لوگ بھی بیٹھ گئے۔ امام صاحب سے مصافحے کے وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہوئی، یہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا ہوں۔ ان کی شکل و صورت کے دیدار سے دل پر کیا اثر پڑا، یہ بھی لفظوں میں بیان ناممکن ہے۔ گدی پر بیٹھنے سے جسم کو کیا محسوس ہوا، اس کے بھی بیان سے قاصر ہوں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ جسم پسینے سے شرابور تھا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اب اس منظر کو میں ہو بہو کئی بار اپنے دماغ کی آنکھوں سے دیواروں پر بھی دیکھنے لگا، اسی خیال میں اکثر کھو جانے لگا۔ چہرے پر داڑھی جو روزانہ میں تراشتا تھا، کافی دراز ہو گئی۔ اس کی طرف کئی مہینوں تک خیال بھی نہ آیا۔ دل ان ہی بزرگوں کی صحبت و نشست میں بیٹھنے کے لیے اداس ہونے لگا۔ ان سے مصافحہ کرنے کو دل اکثر تڑپنے لگا۔ یہ میرے دل کے اندر کی بات تھی، جسے میں نے اپنی رفیقۂ حیات سے بھی چھپائے رکھا تھا۔ وہ کئی بار اصرار کرتی کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ تباتے کیوں نہیں؟ چہرے کا کیا حال بنا رکھا ہے؟ حجامت کیوں نہیں کرتے ہو؟ میں خاموش مسکراتے ہوئے بات کو ٹال دیتا۔

اسی علاقے کے میرے ایک دوست جن کا نام محمد شریف بٹ ہے۔ یہ گاؤں بموں میں رہتے ہیں۔ میرے پاس اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ میری دکان میں تشریف لائے، جبکہ میں اس خواب کو اپنے دماغ کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ محمد شریف صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ خیر، انھوں نے کچھ صبر کرنے کے بعد مجھے جھنجھوڑا کہ بھائی حاکم سنگھ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ پہلے کی طرح نہیں رہے ہیں! میں کب سے یہاں بیٹھا ہوا ہوں۔ آپ تو دوسری طرف کہیں متوجہ ہیں! کیا بات ہے؟ آپ سہمے سہمے کیوں لگ رہے ہیں؟ فوج یا STF کے آدمی نے کہیں ڈرایا تو نہیں ہے یا کسی ملی ٹینٹ کی طرف سے خط تو نہیں آیا ہے۔ جو بھی بات ہے، آپ مجھے اپنے دل کی بات ضرور بتا دیجیے۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ میرا فوج یا STF یا ملی ٹینسی سے کوئی دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! انھوں نے مجھے بہت مجبور کیا تو میں نے جو خواب دیکھا تھا، انھیں سنا دیا۔ محمد شریف صاحب نے مجھے تسلی دی کہ آپ خوش قسمت ہیں، جو آپ نے ایسا خواب دیکھا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل و احسان ہے۔ میں اس کی تعبیر تو آپ کو نہیں بتا سکتا، البتہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ ہمارے علاقے کے ایک مشوبر بزرگ ہیں، جن کا نام جناب غلام قادر غنی پوری صاحب ہے، ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھ سکتے ہیں۔ آپ آج ہی رات کو میرے گھر چلیں، رات کو وہاں میرے گھر میں ٹھہریں۔ صبح سویرے ہی ان سے ملاقات کر کے خواب کی تعبیر پوچھ لیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہم یکم جنوری ١٩٩٧ء کی رات کو محمد شریف بٹ صاحب کے گھر ٹھہرے۔ صبح یعنی ٢ جنوری ١٩٩٧ء کی صبح کو جناب غلام قادری غنی پوری صاحب کے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں محمد شریف صاحب نے کہا کہ ہم جب بھی کسی خانقاہ یا مدرسے میں جاتے ہیں تو باوضو ہو کر جاتے ہیں، کیونکہ وہاں قرآن پڑھا اور سنا سنا سنایا جاتا ہے۔ وہاں بزرگ بھی باوضو رہتے ہیں، اس لیے ہمیں بھی باوضو ہی ہو کر جانا چاہیے۔ یہ اپنے دل کا فتویٰ ہے۔ شرعی فتوا نہیں ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا: ہم اچھی چیز کو ہی اپنائیں گے۔ وضو کر کے ہی جائیں گے۔ انھوں نے مجھے وضو کرنا سکھایا، بہرحال ہم باوضو ہو کر بزرگ کے گھر پہنچے۔ وہاں پر کافی لوگوں کی بھیڑ تھی۔ یکے بعد دیگرے سب فارغ ہوئے۔ ہمارا نمبر بھی آ گیا۔ تعارف کے بعد میں نے اپنا خواب انھیں سنایا اور اس کی تعبیر چاہی۔ بزرگ نے سب کچھ سن کر کچھ دیر خاموشی کے بعد قرآن کی کچھ آیات لکھ دیں اور صبح و شام ان کو پڑھنے اور ہر چالیس دن کے بعد ملاقات کرنے کے لیے کہا۔ میں اس سے زیادہ ان سے اور کچھ نہیں پوچھ سکا۔ میں اس فیصلے پر پہنچا کہ میرے اس خواب کی تعبیر یہی قرآن کی آیات ہیں، جن کا مجھے ورد کرنا ہے۔ ہم وہاں سے واپس لوٹ آئے۔ راستے میں میں نے شریف صاحب سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ مجھے ذرا ہندی میں لکھوائیے، میں عربی نہیں جانتا ہوں۔ انھوں نے مجھے ترتیب سے وہ سب کچھ لکھوایا، جو بزرگ نے لکھ کر دیا تھا۔ جب اس کا میں نے ترجمہ پڑھا تو اس کا مضمون اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر مشتمل تھا۔ بس، پھر کیا تھا، مجھے خواب کے ذریعے سے اپنی منزل آپ مل گئی تھی، جس کی تلاش میں میں برسوں سے بے تاب تھا۔ آج میرا وہ خواب پورا ہو چکا تھا۔ اب مجھے اسے ظاہر ہی کرنا تھا۔ میں وقتاً فوقتاً بزرگ کے پاس حاضری دیتا رہا۔ وہاں مجھے توحید کا درس بھی ملتا رہا، روح کی اصلاح بھی ہوتی گئی۔ ٢٥ اپریل ١٩٩٧ء کو جناب غلام قادر غنی پوری صاحب نے میرا نام ارشاد احمد رکھا۔ اب میری زندگی کی دنیا بدل گئی۔ اب میں مستند اسلامی لٹریچر خرید کر پڑھنے لگا۔ جوں جوں مطالعہ کرتا گیا، میرے ایمان کی کیفیت بڑھتی گئی۔ کچھ مہینوں کے بعد میں نے چھپ کر مسلم بےی رہنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لیے بزرگ سے ملاقات کرنے کے بعد عرض کیا۔ مجھے کورٹ جا کر اپنے اسلام قبول کرنے کی قانونی کارروائی کروانی چاہیے، کیونکہ میرے چہرے پر اب لمبی داڑھی ہو چکی تھی، لباس بھی اپنے آپ بدل گیا تھا۔ شناختی کارڈ پر جو فوٹو اور نام تھا، اب مرنی شکل اس سے نہیں ملتی تھی۔ ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ کو بھی اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنا تھا۔ بس اسی غرض سے ایک دن میں اپنے گھر آیا۔ والد اور والدہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں پانچ چھے مہینوں کے بعد گھر آیا ہوا تھا۔ چہرے پر داڑھی دیکھ کر ماں نے کہا: بیٹا، وہاں کیا حجامت بنانے کی بھی فرصت نہیں ہے؟ آپ پہلے کھانا وغیرہ کھا لیجیے اور پھر حجامت کر کے نہا لیجیے اور ذرا آرام کیجیے۔ میں نے کھانا وغیرہ کھایا۔ حجامت والی بات کو باتوں باتوں میں ٹال دیا۔ آرام کرنے کے بجائے ماں کے سامنے رسوئی میں بیٹھ کر ہاتھ میں تسبیح لیے اول کلمہ پڑھتا رہا۔ ماں نے پوچھا: یہ کیا پڑھ رہے ہو؟ ان کے لیے یہ کوئی نئی بات تو تھی نہیں، کیونکہ میں بچپن سے اسی مزاج کا تھ۔ یوں بھی کبھی کبھی ان کے سامنے ایسے ہی برہم سوتر کی مالا جپا کرتا تھا۔ میں نے جواب دیا: میں پہلے ایک کم برہما دوتیے نستے ناہے نانستے کنچن کی مالا چپتا تھا، اب میں ‘لا الہ الا اللہ’ کی تسبیح کر رہا ہوں۔ ماں کے پوچھنے پر میں نے کہا: انتم (آخری) مہارشی، کلکی اوتار، نراشنز ، جگت گرو (عالمی رہنما) جو عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے تشریف لائے تھے۔ اور اس دنیائے فانی کو خیر باد کہہ کر تشریف لے بھی گئے ہیں، ہمیں ان کا پتا ہی نہیں تھا۔ مجھے کچھ مہینے پہلے ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ ا ب میں انھیں دنیائے فانی کا آخری نبی مانتا ہوں۔ ان کے لائے ہوئے دھرم (مذہب) کو مان چکا ہوں۔ جو جو تعلیمات انھوں نے نلہ انسانی کو دی ہیں، انھیں تسلیم کرتا ہوں کہ اپنی طرف سے انھوں نے ایک بات بھی نہیں کہی ہے۔ سب کی سب ایشور (اللہ) کے حکم سے فرمائی ہیں، اس لیے آپ بھی ان پر ایمان لے آئیے۔ دوسروں کو بھی ان پر ایمان لانے کو کہیے اور اس پرانے دادا پردادا کے دین کو خیر باد کہیے، کیونکہ ان کے ظہور کے بعد پرانے جتنے بھی ادیان ہیں، وہ منسوخ ہو چکے ہیں۔ اب جو بھی ان پر عمل کرے گا، وہ آخرت میں ناکام ہو گا۔ اور جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو گا، وہ آخرت میں کامیاب اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرے گا۔، یہی وہ کلکی اوتار ہیں، جگت گرو (عالمی رہنما) ہیں، نراشنز ہیں، جن کا برسوں سے بڑے گیانیوں (عالموں) اور پروہتوں (مذہبی امور انجام دینے والوں) کو انتظار ہے۔ ماں نے جواب دیا: اچھا! آپ کا دل جس راہ میں خوش رہتا ہو، قبول کریں۔ آپ سے تو ہماری کچھ پیش نہیں چلتی ہے۔ آب جس طریقے سے بیم اس اوپر والے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، کریں۔ میں نے ماں سے پوچھا : مجھے نماز پڑھنی ہے۔ یہاں رسوئی میں پڑھ سکتا ہوں؟ ماں نے بخوشی اجازت دے دی۔ میں نے ماں سے کوئی صاف چادر لانے کو کہا۔ ماں نے صندوق میں سے اپنے سر کی نئی چادر نکال کر مجھے نماز پڑھنے کے لیے دے دی۔ میں نے نماز عصر، مغرب اور عشا اسی چادر پر پڑھی۔ شام کو سب گھر والوں سے اس بارے میں تفصیل سے بات ہوئی۔ میں نے انھیں آگاہ کیا کہ اسلام قبول کرنے کے لیے بعد میرے رہنے سہنے، کھانے پینے، عبادت کے طور طریقے آپ سے الگ ہوں گے، اس لیے آپ سب میرے ساتھ اسلام قوگل کر لیجیے۔ سب نے انکار کیا کہ ہم اپنے دادا پردادا کے دین سے نہیں پھر سکتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی کو جس طرح سے گزارنا چاہتے ہیں، گزاریے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ صرف ایک بات یاد رکھنا کہ ماں باپ کو کبھی بھی نہیں بھولنا۔ میں نے انھیں جواب دیا کہ اسلام تو مجھے آپ کی سیوا (خدمت) کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آپ اسلام میں داخل ہوں یا نہ ہوں۔ میری پوری کوشش ہو گی کہ میں اسلام کے حکم سے آپ ہی کا بیٹا رہوں گا۔ آپ کا سیوک (خادم) اور آپ کے سکھ دکھ کا پورا خیال رکھا کروں گا۔

٢٧ ستمبر ١٩٩٨ء کو میں ماسٹر بشیر احمد صاحب گاؤں گڑمالو والے کو ساتھ لے کر بھدرداہ سیشن کورٹ روانہ ہوا۔ رات کو ہم دونوں بھدردا میں مولوی حفظ الرحمن صاحب کے مدرسے میں ٹھہرے۔ مولوی صاحب بھی بہت خوش ہوئے۔ صبح ٢٨ ستمبر ١٩٩٨ء کو میں ماسٹر بشیر احمد صاحب اور مولوی حفظ الرحمن صاحب کے ہمراہ تقریباً ١١ بجے کورٹ میں پہنچا۔ مولوی صاحب کی جان پہچان کورٹ کے جج صاحب سے اچھی تھی، اس لیے مولوی صاحب نے چپراسی کے ذریعے ایک چھوٹے سے کاغذ کے ٹکڑے پر ملنے کا سندیش (پیغام) بھیجا۔ جج صاحب نے فوراً اندر سے چپراسی کو بھیجا کہ انھیں اندر آنے دیا جائے۔ ہم تینوں جج صاحب کے پاس گئے۔ انھوں نے ہمیں گیسٹ روم میں بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد خود بھی تشریف لائے۔ تعارف کے بعد میں نے اپنے آنے کی غرض بیان کی۔ جج صاحب نے تفصیل جاننا چاہی تو میں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انھیں اپنے بچپن سے لے کر آج تک کے روحانی سفر کا حال سنایا۔ میری روداد سن کر جج صاحب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انھوں نے تبدیلی مذہب کے متعلق سب کاغذات جلد مکمل کر دیے۔ جج صاحب نے کافی دیر تک مجھے گلے سے لگائے رکھا اور میری پیشانی پر بوسے دیتے رہے۔ میں جج صاحب کا یہ ہمدردی بھرا کردار دیکھ کر بہت ہی متاثر ہوا۔ ان جج صاحب کا نام ضیاء الاسلام سہروردی صاحب ہے۔ بڑے نیک سیرت و نیک صورت انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!

میں ١٤ مارچ ١٩٩٩ء کی شام والی گاڑی سے باتھری سے ڈوڈہ سٹی کے لیے اہلیہ اور بچوں کے کپڑے لے کر روانہ ہوا۔ March Closing کا بھی مہینا تھا، اس لیے کافی سارے پیسے بھی میرے پاس تھے۔ بس دیر سے ٹھاٹھری اسٹیشن پر پہنچی۔ اس اسٹیشن سے STF کے دس بارہ جوان اپنے آفیسر سمیت بس میں سوار ہوئے۔ کچھ دور جانے کے بعد انھوں نے گاڑی کو روکا اور سبھی STF کے جوان نیچے اتر گئے۔ مجھے بھی گاڑی سے نیچے اترنے کو کہا۔ میں ان کی اس بات کو نہیں سمجھ پایا۔ خیر میں نے سوچا کہ میرے لباس کی وجہ سے شاید ان کو کچھ شک ہوا ہے، تلاشی کے بعد مجھے چھوڑ دیں گے۔ یہ سوچ کر میں گاڑی سے نیچے اترا، لیکن انھوں نے کہا کہ اپنا پورا سامان بھی نیچے اتارو۔ میں نے سامان نیچے اتارا۔ میں نے ان سے اپنی اور اپنے سامان کی تلاشی لینے کو کہا، لیکن انھوں نے تلاشی نہیں لی، بلکہ ڈرائیور کو زبردستی بس آگے سفر پر لے جانے کا حکم دیا۔ مجھ سے زبردستی سامان اٹھوا کر اپنے ساتھ رات کو فکسو پوسٹ پر لے گئے۔ ان کا انچارج آفیسر سمپال نام کا تھا۔ جاتے ہی پوسٹ کے اندر ایک کمرے میں کپڑے اتروائے گئے۔ پاجامہ بھی نکلوایا گیا۔ میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف پیٹھ پر خوب کس کر باندھ دیے گئے۔ یہ سب اس آفیسر نے خود اپنے سامنے پونچھ علاقے کے کچھ سپاہیوں سے کروایا۔ ساتھ ہی وہ انتہائی گندی گندی گالیاں بکتا جا رہا تھا۔ مجھ سے اب پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ آپ کتنے ملی ٹینٹوں کو جانتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ آپ کا تعلق ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں نہ کسی ملی ٹینٹ کو جانتا ہوں اور نہ کسی سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اس پر وہ مجھے اتنا مارتے پیٹتے کہ میں درد سے چلا اٹھتا۔ میری سانس رک جاتی۔ میں ان کے بار بار پوچھنے پر یہی کہتا رہا کہ میں صرف ایک اللہ کو اور اس کے آخری رسول کو ہی جان سکا ہوں۔ اس کے علاوہ میرا کسی سے کوئی واسطہ ہے نہ تعلق۔ اس بیان پر انسپکٹر سمپال نے دو آدمیوں کو میرے اوپر مسلط کر دیا، ان میں سے ایک آدمی مسلسل کافی دیر تک میری دائیں ٹانگ پکڑ کر کھینچتا رہا تو دوسرا بائیں ٹانگ بے دردی سے زور سے کھینچتا رہا۔ جس سے میری کمر کے نیچے والے سارے جوڑ کڑکڑا اٹھے۔ میں جب تکلیف سے چلاتا، انسپکٹر سمپال میرے منہ میں ٹاٹ بھر دیتا، تاکہ کوئی میری آواز باہر نہ سننے پائے۔ اور دو آدمی میرے دونوں پاؤں کے تلووں پر زور زور سے ڈنڈے برساتے۔ جب انسپکٹر سمپال میرے منہ میں ٹاٹ بھرتا تو کہتا: یہ لے مسلمان کی جنت کے میوے کھا۔ اس کی اس بات سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے یہ سزا اسلام قبول کرنے پر دی جا رہی ہے۔ اسی طرح سے دو گھنٹے تک ان لوگوں نے مجھ پر جو ظلم کیا، اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ میری بے ہوشی میں بھی وہ مجھے مارتے پیٹتے رہے۔ اچانک جس کمرے کو بند کر کے وہ مجھے پیٹ رہے تھے، اس کے دروازے کو کسی نے زور زور سے کھٹکھٹایا۔ انھوں نے مجھے چھوڑ کر جلدی سے دروازہ کھول دیا، پھر وہ آپس میں کانا پھوسی کرنے لگے اور کچھ نچلی منزل کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے مجھے کچھ وقفے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ خیر کچھ دیر کے بعد وہ انسپکٹر واپس کمرے میں آیا اور میرے دونوں ہاتھ کھول دیے، پھر وہ مجھ سے نرم نرم باتیں کرنے لگا اور پوچھنے لگا کہ کیا تو جادو جانتا ہے؟ بول تو نے کیا کیا سیکھا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں جادو وادو کچھ نہیں جانتا ہوں، اور نہ اس بارے میں مجھے کچھ علم ہے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جانتا ہوں۔ یہ سن کر وہ آگے کچھ نہیں بول پایا۔ اس نے مجھے اٹھنے کے لیے کہا۔ میں اٹھ نہیں سکتا تھا، دو آدمیوں نے مجھے پکڑ کر اٹھایا اور مجھے اسی کمرے میں سہارا دے کر چلانے لگے، پھر اس انسپکٹر نے حکم دیا کہ اس کو نیچے والے کمرے میں لے جایا جائے،جہاں ان کے کچھ اور آدمی بھی رہتے تھے۔ مجھے وہاں لے جایا گیا۔ وہاں میرے پاس کوئی دودھ کا گلاس لے کر آتا، کوئی پانی کا گلاس ، کوئی کھانے سے بھری پلیٹ لے کر آتا۔ مجھے کیا کھانا پینا تھا۔ میں تو اندر سے چور چور تھا، آخر کار وہ سب سو گئے اور کچھ ادھر ادھر چلے گئے۔ میرے سامنے ان کا ایک آدمی مجھے دیکھ کر سسکیاں لے کر رو رہا تھا۔ میں نے اس سے اس کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: دراصل انھوں نے آج آپ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ نے انھیں ناکام کر دیا۔ میں نے اس سے پوچھا: وہ کےسم اور کیوں میری زندگی کو ختم کرنا چاہتے تھے؟ اس نے کہا کہ آپ کو چھوڑنے کی وجہ میں بیان کر سکتا ہوں، لیکن زندگی کو کیوں ختم کرنا چاہتے تھے، یہ مجھے معلوم نہیں۔ جب آپ کو انھوں نے دو گھنٹے تک بری طرح مارا پیٹا، آپ کی چیخیں کمرے کو ہلا رہی تھیں کہ اچانک اس کمرے میں ایک آگ کا گولا نمودار ہوا۔ وہ پھٹ گیا، ہم یہاں تین چار ہی آدمی تھے، باقی سبھی آپ کو مار پیٹ رہے تھے۔ جب وہ آگ کا گولا پھٹا تو چاروں طرف آگ ہی آگ ہو گئی، ہم ڈر گئے۔ ہمارے پاس جتنا پانی تھا، آگ بجھانے کے لیے آگ پر پھینکا، لیکن ایک عجیب بات ہوئی کہ ہم سب دنگ رہ گئے کہ پانی نے جیسے مٹی کے تیل کی طرح آگ پکڑ لی۔ آگ اور زیادہ پھیل گئی۔ ہم سب اوپر والی منزل میں دوڑ کر گئے، جہاں دوسرے آپ کو مار پیٹ رہے تھے۔ ہم نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور سمپال صاحب کو سب معاملہ سنایا۔ یہ نفری سمیت وہاں آیا۔ بڑی مشکل سے سب نے مل جل کر آگ بجھائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انھوں نے آپ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بلکہ آپ سے ہمدردی جتا رہے ہیں۔ میں خود یہ بات سن کر حیران رہ لیا اور اللہ کے حضور سجدۂ شکر میں گر پڑا۔ یہی میرا اللہ ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے۔ ہزاروں بار بھی اگر اس کی راہ میں قربان ہو جاؤں تب بھی اس کا شکر نہیں ادا کر سکتا ہوں۔ اس کا مجھ جیسے ناچیز پر بے پناہ فضل و احسان ہے۔ دوسری صبح مجھے ڈوڈہ JIC میں لا کر بند کر دیا گیا۔ یہاں پر ان دنوں کھجوریہ نام کا JIC انچارج ہوا کرتا تھا۔ بہت ظالم آدمی تھا۔ اسے بھی اس سمپال انسپکٹر نے جاتے جاتے میرے سامنے بتا دیا تھا کہ یہ آدمی جادو جانتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا۔

اس رات کومیں JIC ڈوڈہ میں نظر بند رہا۔ کجھوریہ نے بھی کافی بدتیزوی کی۔ دوسرے دن میرا فرضی بیان اس نے خود ہی اپنی مرضی سے لکھا اور جامہ تلاشی کی رپورٹ بھی بنائی اور میرے ریمانڈ آرڈر کے لیے جج صاحب کے پاس پیشی کا منصوبہ بنایا۔ میرے جسم کے دائیں طرف کے حصے کو کچھ ہو گیا تھا۔ دایاں ہاتھ ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا، اس لیے برائے نام انھوں نے مجھے ڈاکٹر کو بھی دکھانا تھا، چنانچہ مجھے ہتھ کڑی لگا کر چار پانچ سپاہیوں سمیت ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ڈوڈہ میں تشخیص کے لیے لایا گیا۔ ایمرجنسی میں کوئی ڈاکٹر صاحب تھے، جنھیں میں نہیں جانتا تھا۔ ڈاکٹر نے پولیس انچارج کو ڈانٹا کہ اس کا کیا چیک اپ کرنا ہے۔ اس کو تو بہت زیادہ توڑ پھوڑ دیا گیا ہے، اس لیے اسے جلد از جلد ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرو۔ یہ سن کر بھی پولیس انچارج کو رحم نہیں آیا اور بروفین کی تین چار ٹکیاں ہاسپٹل کے اندر کی دکان سے لیں اور جج صاحب کے پاس ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا۔ جج صاحب جموں سائڈ کے تھے اور جے آئی سی انچارج کھجوریہ بھی جموں کی طرف کا تھا۔ کھجوریہ جج صاحب کی کرسی کے پاس ہی جا بیٹھا تھا۔ جج صاحب میری فائل جو کھجوریہ نے تیار کی تھی، غور سے پڑھ رہے تھے۔ پوری فائل دیکھنے کے بعد انھوں نے کھجوریہ سے کہا: اس فائل میں جامہ تلاشی رپورٹ نہیں ہے۔ وہ کہاں ہے؟ کھجوریہ یہ بار بار ان سے کہا: جناب! اسی میں ہے، وہ پھر دیکھتے اور پھر پوچھتے، اس میں جامہ تلاشی رپورٹ کہاں ہے؟ کھجوریہ پھر کہتا: جناب! اسی میں ہے۔ اس پر جج صاحب کو کچھ شک ہوا۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: بیٹے! بولو یہاں کیسے پہنچے ہو؟ میں زیادہ تو کچھ بول نہیں سکتا تھا، لیکن میں نے اپنا دایاں ہاتھ جو بالکل ٹیڑھا میڑھا ہو گیا تھا، مشکل سے اوپر اٹھا کر انھیں دکھایا۔ اور عرض کیا کہ انھوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے، جن کو حکومت نے لوگوں کی رکھوالی کے لیے گاؤں گاؤں میں تعینات رکھا ہے۔ جج صاحب میرے حال کو دیکھتے ہی کھجوریہ پر انتہائی غصے میں آ کر برس پڑے اور پولیس کو ہی حراست میں بند کرنے کی دھمکی دی کہ آپ لوگوں نے یہ غیر قانونی کام کیسے کیا ہے؟ میں تم سب کو گرفتار کرواؤں گا۔ اسے فوراً ہسپتال مںو داخل کراؤ۔ اس طرح سے میں ایک مہینے کچھ دن ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ڈوڈہ میں زیر علاج رہا۔ پانچ دس دن تک پولیس کے آدمی بھی میرے ساتھ دن رات ہسپتال میں رہے، لیکن اس کے بعد اچانک و ہ سب رفو چکر ہو گئے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد جناب غلام قادر غنی پوری صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ خاص ڈوڈہ شہر میں ہی اپنا کاروبار کرو۔ یہاں ہمارے علاقے کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، چنانچہ ڈوڈہ میں میں نے دکان کرایے پر لے کر کاروبار شروع کیا۔ الحمد للہ ڈوڈہ کے معزز مسلمانوں نے مجھ سے بھر پور تعاون کیا اور ان کی ہمدردی و خلوص میرے شامل حال رہا۔ میں ان تمام حضرات کا بے انتہا مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!

الحمد للہ ١٩٩٩ء سے آج تک میں نے یہاں ڈوڈہ میں اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ کئی غیر مسلم بھائیوں تک دین کی دعوت پہنچائی ہے۔ ان میں متعدد نے قبولیت اسلام کے بعد اپنے نام بھی بدل لیے ہیں اور کئی اپنے نام بدلنے کے بارے مںی سوچ رہے ہیں۔ میں ان سے اکثر عرض کرتا ہوں کہ مذہب اسلام رنگ ونسل، قبیلے اور علاقائیت سے ماورا مذہب ہے۔ جو ایک منفرد فضیلت کا حامل ہے۔ اسی لیے جب کوئی فرد اسلام قبول کرتا ہے اور مذہب اسلام کو قریب سے دیکھتا ہے تو وہ روحانی طور پر ایک گونہ سکون و اطمینان و انبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے، اگرچہ اپنے آبا و اجداد کے مذہب کو چھوڑنا ایک بڑا کٹھن مرحلہ اور مشکل فیصلہ ہے، لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات اوراس کی وسعت نظری انسان کو اس انتخاب میں مدد دیتی ہے۔

میں اپنے دینی بھائیوں سے یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ آپس کے مسلکی اختلافات کو اپنے درمیان سے دور کریں۔ اپنے ایمان کی نعمت کو پہچانیں، کیونکہ ایمان کی ایک دن کی زندگی بغیر ایمان والی سیکڑوں زندگیوں سے بہتر اور افضل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام سرانجام دینے کی اپنی امت کو تلقین کی ہے، ان کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دین کی روشنی کی طرف دعوت دیں، اور منسوخ شدہ ادیان کے اندھیروں سے بھی دنیائے انسانی کو واقف کرائیں۔ خود کو ایک باعمل مسلمان بنائیں اور قرآن اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کریں۔

٭٭٭