واجباتِ نماز (حصہ اول)

نماز کا بیان – سبق نمبر 11:

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ‏‏‏‏ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ.

سیدنا حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

واجب وہ حکم شرعی ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو، اور جسے ادا کرنے کا شرع نے لازمی مطالبہ کیا ہو اس کے بجا لانے پر ثواب اور چھوڑنے پر سزا ملتی ہے البتہ فرض کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور واجب کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔

واجب کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ جس کام کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور عبادت دائما کیا ہو اوراس کے ترک پر وعید فرمائی ہو، فرض” اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی دلیل مثلًا:

قرآن کریم کی کسی واضح آیت یا متواتر حدیث سے ثابت ہو، جب کہ “واجب” ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے، نیز فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا۔

نماز کے کچھ واجبات ہیں اگر ان میں سے کوئی بھولے سے چھوٹ جائے توسجدہ سہو کر لینے سے نماز درست ہو جاتی ہے اگر بھولے سے چھوٹ جانے پر سجدہ سہو نہ کیا یا قصداً کسی واجب کو چھوڑ دیا تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہو جاتا ہے پس اگر نہیں لوٹائے گا تو فاسق و گناہگار ہو گا کیونکہ ترک واجب سے نماز مکروہِ تحریمی ہوتی ہے اور اس کا لوٹانا واجب ہوتا ہے، اسی طرح سجدہٴ سہو کسی فرض کو اس کے وقت سے بھول کر موٴخر کرنے سے بھی لازم آتا ہے۔ نماز میں درج ذیل چودہ امور واجبات میں سے ہیں :

واجباتِ نماز:

1۔ فاتحہ پڑھنا۔:

سورہ فاتحہ کو کسی اور سورت سے پہلے پڑھنا واجب ہے۔ یعنی اگر کسی شخص نے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے بھول سے کوئی دوسری سورت شروع کردی، لیکن یاد آنے پر فورًا سورۂ فاتحہ شروع کردی تو دیکھا جائے گا کہ اس نے سورہ فاتحہ سے پہلے دوسری سورت سے جتنی قرأت کی ہے اس کی وجہ سے ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر (یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر) تاخیر لازم آئی ہے یا نہیں ، اگر ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر (یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر) تاخیر ہونے کے بعد یاد آنے پر سورت فاتحہ پڑھنی شروع کی ہو تو اس صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا، لیکن اگر رکن کی ادائیگی کے بقدرتاخیر ہونے سے پہلے ہی سورہ فاتحہ شروع کردی تو پھر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ حکم فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت کے بارے میں ہے۔ فرض کی تیسری یا چوتھی رکعت میں فاتحہ کی جگہ بھولے سے سورت یا آیت پڑھ لی تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔

2۔ فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور واجب، سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا واجب ہے۔ لہذا سنت، نفل اور وتر کی آخری رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورت یا چھوٹی تین آیات یا بڑی ایک آیت چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا۔

3۔ فرض نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔ اگر کوئی سورہ فاتحہ پڑھنا بھول جائے یا اس کے ساتھ سورت ملانا بھول جائے مگر دونوں میں سے ایک عمل کر لے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی فرائض کی پہلی دو رکعات، سنن و نوافل اور وتر کی تمام رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت ملانا بھول جائے یا سورہ فاتحہ بھول جائے مگر کوئی اور سورہ پڑھ لے تو سجدہ سہو کرنے سے اس کی نماز ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر سورہ فاتحہ نہ پڑھے یا سورہ نہ ملائے تو نماز لوٹانا واجب ہے۔

4۔ پہلی دو رکعتوں کو سورت کے لیے متعین کرنا۔ فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کے لیے متعین کرنا واجب ہے یعنی پہلی دو رکعتوں میں قرآ ت کرنایعنی فرض نماز میں قراءت کی فرضیت کا محل صرف پہلی دو رکعتیں ہی ہیں ، یعنی چار رکعات والی فرض نمازوں میں فرضیت صرف پہلی دو رکعتوں میں قراءت کرنے سے پوری ہو جاتی ہے، باقی دو رکعتوں میں قراءت کرنا فرض نہیں ، اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اصل نماز دو دو رکعات ہی تھی، بعد میں سفر کی نماز کو اصل پر باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز کو بڑھا دیا گیا، اس وجہ سے بھی اصل اور بڑھائی ہوئی نماز میں قراءت کے فرض ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے فرق رکھا گیا ہے کہ جو اصل نماز تھی اس میں قراءت فرض رکھی گئی اور جو نماز بعد میں اضافہ شدہ ہے، اس میں قراءت فرض نہیں رکھی گئی۔ لہذا معلوم ہوا کہ چار رکعات والی فرض نمازوں میں صرف پہلی دو رکعتوں میں ہی قراءت کرنا فرض ہے، باقی دو رکعتوں میں قراءت کرنا فرض نہیں ہے۔

5۔ تعدیلِ اَرکان یعنی رکوع سجدہ اور جلسہ میں اطمینان سے ادا کرنا تعدیلِ ارکان واجب ہے، تعدیلِ ارکان کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے دوران ہر رکن ادا کرتے وقت اس طرح اطمینان حاصل ہو جائے کہ ہر ہر عضو اپنی جگہ ٹھہر جائے ، اس کی کم سے کم مقدار ایک تسبیح کی ہے، اگر کوئی شخص قصداً تعدیلِ ارکان چھوڑ دے تو وقت کے اندر دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے، اور اگر سہواً تعدیلِ ارکان فوت ہو جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب ہے۔ کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلد بازی میں پڑھی ہوئی نماز کو نماز ہی شمار نہیں کیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی بھی داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دے کر فرمایا:

واپس جا کر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، وہ واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھ کر حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ فرمایا کہ واپس جاکر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین مرتبہ فرمایا۔ وہ عرض گزار ہوا۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، مجھے اس سے بہتر نہیں آتی، لہٰذا سکھا دیجئے۔ فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو۔ پھر قرآن مجید سے جو تمہیں آتا ہو وہ پڑھو۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔ پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جائو۔ پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سر اٹھائو تو اطمینان سے بیٹھ جائو اور ساری نماز میں اسی طرح کرو۔

6۔ قومہ کرنا یعنی رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونایہ بھی واجبات میں سے ہے ۔ اسی طرح جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ جانا۔ مفتی بہ قول کے مطابق قومہ میں ایک مرتبہ تسبیح کہنے کی مقدار ٹھہرنا واجب ہے۔ اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان ایک مرتبہ تسبیح کہنے کی مقدار بیٹھنا واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قومہ اور جلسہ سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اٹھ کر پہلے سیدھا کھڑے ہوتے تھے پھر سجدہ میں جاتے تھے، اسی طرح سجدہ سے اٹھ کر سیدھا بیٹھتے تھے، پھر دوسرا سجدہ فرماتے تھے، لہذا مسنون یہ ہی ہے کہ قومہ میں نمازی اطمینان و اعتدال سے سیدھا کھڑا ہوجائے اور جلسہ میں اعتدال کے ساتھ سیدھا بیٹھ جائے، باقی نوافل اور انفرادی نماز میں رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ منقول ہے کہ عموماً جتنی دیر رکوع اور سجدہ میں صرف فرماتے تھے، اتنی ہی دیر قومہ اور جلسہ میں صرف فرماتے تھے۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کسی آدمی کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدے میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔

7۔ پہلا قعدہ کرنا اور اگرکوئی شخص قعدہ اولیٰ بھول گیا پھر اسے اس حال میں یاد آیا کہ وہ حالت قعود سے زیادہ قریب ہے تو وہ شخص لوٹ جائے اور قعدہ کر کے تشہد پڑھ لے، اس لیے کہ جو چیز کسی چیز سے قریب ہوتی ہے وہ اس شئے کا حکم لے لیتی ہے، پھر ایک قول یہ ہے کہ تاخیر کی وجہ سے وہ شخص سجدہ سہو کرے اور اصح قول یہ ہے کہ وہ سجدہ سہو نہ کرے، جیسے اس صورت میں جب وہ کھڑا نہ ہو۔ اور اگر قیام سے زیادہ قریب ہو تو واپس نہ لوٹے، اس لیے کہ وہ شخص معناً قائم کی طرح ہے اور سجدہ سہو کرے، اس لیے کہ اس نے واجب کو ترک کر دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ نمازی جس رکن کے قریب ہو اس میں داخل ہوجائے مگر واجب کو ترک کرنے یا فرض میں تاخیر ہونے کی وجہ سے آخر پر سجدہ سہو کرلے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔