نماز وتر کی فضیلت واہمیت (1)

نماز کا بیان – سبق نمبر 34:

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:

‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ وَهِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ الْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَهَا لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ.

رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا:

اللہ نے ایک ایسی نماز کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لیے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے ۔

عبادت قرب الہی کا ذریعہ ہے اور وترعبادتوں میں سے قرب الہی کا عظیم ذریعہ ہے ۔ یہ ایک مستقل نماز ہے جو رات میں عشاء اور فجر کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ملتی ہیں ۔ مثلا:

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جس شخص کو رات کے آخری حصے میں قیام نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو، وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے اور جو شخص رات کے آخری حصے میں قیام کرنے کے متعلق پر امید ہو تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر ادا کرے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں اور یہ (وقت عبادت کے لیے) افضل ہے۔ ‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نمازوں کی طرح فرض نہیں لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک طریقہ جاری فرمایا اور ارشاد فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، پس اے اہل قرآن (مسلمانو!) تم بھی وتر پڑھا کرو۔ ‘‘اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور ابو داود نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حضرت علی کی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وتر کے معنیٰ طاق کے ہیں ۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے ؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سفروحضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم ﷺ نے نماز وتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے۔

آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کاحکم متعدد مرتبہ دیا ہے۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے۔ رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز وتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم ﷺکا مستقل معمول بھی یہی تھا۔ البتہ وہ حضرات جورات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔

حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ نمازِ وتر حق ہے، جو وتر ادا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں بعض روایت میں یہ حدیث ”الوتر واجِبٌ“ کے لفظ سے مروی ہے۔

نمازِ وتر کا وقت:

نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے، بعض علماء نے نماز فجر کی ادائیگی تک نماز وتر کا وقت تحریر کیا ہے ؛ مگر جمہور علماء کے نزدیک صبح ہونے کے بعد وتر ادا نہ کیے جائیں ؛ بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد نمازِ وتر کی قضا کی جائے ؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہونے کے بعد سے طلوع آفتاب تک صرف دو رکعت سنت موٴکدہ اور دو رکعت فرض ادا کی جائیں ۔

رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز وتر کی ادائیگی افضل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول بھی یہی تھا؛ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کرسکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کرلیں ۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جس کو خوف ہے کہ وہ آخری رات میں اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتاہے تو وہ رات کے شروع حصہ میں ہی وتر ادا کرلے ؛ البتہ جس کو رغبت ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نماز وتر ادا کرے تواُسے ایسا ہی کرنا چاہیے ؛ کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ادا کی گئی نماز کے وقت فرشتے حاضر رہتے ہیں اور یہی افضل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں تمام فقہاء وعلماء نمازِ وتر کی قضا کی مشروعیت پر تو متفق ہیں ، لیکن قضا کے وقت میں ان کی آراء مختلف ہیں ، اگرچہ تقریباً تمام ہی فقہاء وعلماء طلوعِ آفتاب سے زوالِ آفتاب تک کے وقت کو نماز وتر کی قضا کا بہترین وقت قرار دیتے ہیں ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو شخص وتر سے سوتا رہ جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے (یا وہ جاگے) تو اسی وقت پڑھ لے۔ سنن بیہقی میں یہ حدیث قدرے وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو شخص وتر پڑھے بغیر سوگیا، وہ صبح کو پڑھے اور جو بھول گیا وہ یاد آنے پر پڑھے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما، حضرت عبادہ بن صامت وغیرہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فجر کے بعد وتر پڑھے (یعنی بروقت نہ پڑھ سکے تو بعد میں بطور قضا پڑھے)

وضاحت:

جوحضرات رات کے آخری حصہ میں نمازِ وترکا اہتمام کرتے ہیں تو کبھی کبھی بشری تقاضے کی وجہ سے وہ نمازِ وتر وقت پر ادا نہیں کرپاتے ہیں ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ … کو فرماتے ہوئے سنا:

جس شخص کا رات کا کوئی معمول سونے کی وجہ سے رہ جائے اور وہ فجر کے بعد ظہر سے قبل ادا کرلے تو اس کے لیے ایسا ہی ہے، جیساکہ اس نے اس کو معمول کے مطابق ادا کیا۔

وتر کی تعداد رکعت:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد طریقوں سے یہ وتر ادا کیے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ طریقے آج تک امت مسلمہ میں زندہ رکھے ہیں ، مندرجہ ذیل دو طریقے امت مسلمہ میں زیادہ رائج ہیں :

(1) ایک سلام اور دو قاعدوں کے ساتھ نمازِ مغرب کی طرح وتر کی تین رکعت ادا کی جائیں ۔

(2) وترکی ۳ رکعت اس طرح ادا کی جائیں کہ ۲ رکعت پر سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت ادا کی جائے، یعنی ۳ رکعت دو تشہد اور ۲ سلام کے ساتھ۔

نوٹ:

کچھ حضرات نے سہولت پر عمل کرنے کاکچھ زیادہ ہی مزاج بنالیا ہے ؛ چنانچہ وہ صرف ایک ہی رکعت وتر ادا کرلیتے ہیں ، صرف ایک رکعت وتر ادا کرنے سے بچنا چاہیے ؛کیونکہ فقہاء وعلماء کی ایک جماعت کی رائے میں ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔

اِن مذکورہ دونوں شکلوں میں وتر کی ادائیگی صحیح ہے ؛البتہ فقہاء وعلماء کرام نے اپنے اپنے نقطئہ نظر سے وتر کی کسی ایک شکل کو راجح قرار دیا ہے، مثلاً سعودی عرب کے علماء نے پہلی صورت کو راجح قرار دیا ہے ؛ جب کہ دیگر فقہاء وعلماء مثلاً شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۸۰ھ -۱۵۰ھ) نے پہلی شکل کو مندرجہ ذیل احادیث شریفہ کی روشنی میں راجح قرار دیا ہے :

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں ”قُل یَا أیُّھَا الکَافِرُون“ اور تیسری رکعت میں ”قُلْ ھُوَ اللہُ أحَد“ پڑھتے تھے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ وہ رات میں تہجد کی ۸/ رکعت پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (۱۶)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ وتر تین رکعت ہے، نیز تین رکعت وتر کے جواز پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہٴ کرام کو بھی تین وتر پسند تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور بعد میں آنے والے جمہور اہل علم کا پسندیدہ عمل بھی یہی ہے کہ وتر کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ، دوسری رکعت میں سورہٴ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورہٴ اخلاص پڑھی جائے ۔

ایک رکعت وتر پڑھنے میں علماء امت کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا قوتِ دلائل کے ساتھ ساتھ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وتر میں تین رکعت ہی پڑھی جائیں ۔