نماز کا بیان – سبق نمبر 36:
عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ۔ (ترمذی، السنن، کتاب الصلاة،، 1: 440، رقم: 415)
ام المؤمنین ام حبیبہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص رات اور دن میں بارہ رکعت سنت پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے ۔
احادیث مبارکہ میں فرائض کے علاوہ دیگر نمازوں کی ترغیب دی گئی ہے، اورنبی کریم ﷺ کا اس سلسلہ میں متواترعمل بھی ثابت ہے۔ یعنی جو نمازیں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے تواتر اور اکثر پابندی کے ساتھ ادا کی ہوں ؛ وہ سنتِ مؤکدہ کی ذیل میں آتی ہیں ۔ امت محمدیہ کے لیے ان نمازوں کے ترک کو لائقِ ملامت قرار دیا گیا ہے۔ سنتِ مؤکدہ کا چھوڑنا بُرا ہے اور اس کے چھوڑنے کی عادت بنالینا گناہ میں شمار ہے۔ سفر، مرض یا وقت کی تنگی کے باعث نہ پڑھ سکے تو ملامت نہیں ہے۔ اوردوسری وہ نمازیں ہیں جو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے علاوہ پڑھیں لیکن ان کی پابندی نہیں کی۔ جن نمازوں کی ترغیب دی گئی ہو مگر ان کے چھوڑنے پر ملامت نہ کی گئی ہو، وہ سنتِ غیر مؤکدہ ہیں اور اسی کو مستحب اور مندوب بھی کہا جاتا ہے۔ سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں اختیار ہے، خواہ پڑھے یا چھوڑ دے۔ وقت گزرنے کے بعد سنت کی قضا نہیں ہوسکتی اور فجر کی سنتیں نصف النہار سے پہلے پہلے پڑھ لینی چاہئیں ۔
گھر پر سنتیں پڑھنا افضل ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ گھر کا ماحول پُرسکون ہو اور اس کو گھر جاتے ہی گھریلو کاموں کی تشویش لاحق نہ ہو جائے، اگر ایسا اندیشہ ہو تو مسجد میں سنتیں پڑھنا افضل ہے۔ سنت و نفل کے لیے مطلق نماز کی نیت کافی ہے، اس میں وقت اور رکعات کی نیت کرنالازم اور ضروری نہیں ۔
نماز سے پہلے اور بعد کی جو سنتیں ہیں ان کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آپ ﷺ ان سنتوں کو نہایت اہتمام سے ادا فرمایا کرتے تھے، عام طور پر جو کوتاہی اور لاپرواہی اس حوالہ سے بر تی جارہی ہے، وہ بہت ہی تکلیف دہ ہے، بالخصوص نوجوان طبقہ اس کازیادہ شکار ہے، اس باب میں ہر نماز کے سنن سے متعلق مستقل فضائل ہیں ، مجموعی لحاظ سے بھی ان سنن کی فضیلت آئی ہے، جو ہمیں عمل پر ابھارنے کے لیے کافی ہے ؛چنانچہ جو بندہ دن میں بارہ رکعتیں اہتمام سے ادا کرتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک محل اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کو دیا جائے گا،
قال رسول اللہ ا من صلیٰ فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ بنی لہ بیت فی الجنۃ (ترمذی)
وہ کونسی بارہ رکعتیں ہیں:
دو فجر سے پہلے کی، چار ظہر سے قبل اور دو بعد ظہر کے، دو مغرب بعد کی، اورعشاء کے بعدکی دو رکعتیں ۔ ان میں سے ہر نماز کی سنتوں کی علیحدہ فضیلت ہے، جس کاعملاً التزام ہم پرضروری ہے ۔
فجر کی سنتوں کے متعلق فضائل:
دن کے آغاز میں جو نماز پڑھی جاتی ہے وہ فجر کہلائی جاتی ہے، اس کی سنتوں کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے بڑے جامع فضائل ارشاد فرمائے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا فجر کی دو رکعت سنت نہ چھوڑو اگر چہ تمہاری یہ حالت ہو کہ گھوڑے تم کو دوڑارہے ہوں ، (ابو داؤد۔ بروایت ابو ہریرہ ؓ)
مطلب یہ کہ تم کہیں سفر پر تیزی سے جارہے اور گھوڑوں کی پیٹ پر سوار ہو تب بھی اس سنت کو ترک نہ کرو، ایک مقام پر سنت فجر کی فضیلت یوں بیان فرمائی
نبی اکرم ﷺ نوافل میں سب سے زیادہ فجر کی دو رکعت سنت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، سنتوں میں سے کسی سنت کی قضا نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکاۃ۔ بروایت عائشہؓ)
مگر فجر کی سنت کی قضا احادیث سے ثابت ہے
نبی ﷺ نے فرمایا جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہیے وہ سورج نکلنے کے بعد ادا کرے، (ترمذی، معارف الحدیث۔ راوی ابو ہریرہؓ)
ان روایات کی روشنی میں حضرت حسن بصری ؒ کے نزدیک اور امام ابوحنیفہ ؒکے ایک قول کے مطابق فجر کی سنت واجب ہے، (تحفۃ القاری، محدث پالنپوریؒ)۔
علاوہ ازیں یہ حکم بھی فجر کی سنت کے ساتھ خاص ہے کہ جب کوئی آدمی نماز فجر کے لیے مسجد میں داخل ہوا ور فرض نماز شروع ہوچکی ہو، اس نو وارد کویہ گمان غالب ہو کہ اس کو کم ازکم دوسری رکعت یا قعدہ اخیرہ مل جائے گا، تواس کو چاہیے کہ اول سنت ادا کرے، پھر نماز میں شامل ہوجائے،
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوئے، نماز شروع ہوچکی تھی، تو آپ ؓ نے پہلے سنت ادا کی، پھر جماعت میں شامل ہوئے، (شرح معانی الاثار)
دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ؓ کے نزدیک فجر کی سنت کی کس قدر اہمیت تھی، اور انہوں نے اس سنت کا کس طرح اہتمام کیا۔
ظہر کی سنتوں کے متعلق فضائل:
زوال شمس کے بعد پڑھی جانے واالی نماز ظہر کہلاتی ہے، اس کی سنت کے فضائل بھی قریب قریب فجر کی سنت کے ہیں ، آپ ﷺ ارشاد فرمایا جو ان سنتوں کی حفاظت کرے گا، (یعنی روزانہ ادا کرے گا) اللہ اس کو دوزخ کی آگ پر حرام کردے گا۔ (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ۔ بروایت ام حبیبہ ؓ)
ایک دوسری روایت میں حدیث کا یہ مضمون آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں جن کے درمیان سلام نہ پھیرا جائے، ان کے لیے آسمان کے دروازے (یعنی جنت کے دروازے ) کھل جاتے ہیں ، (سنن ابو داؤد۔ ابن ماجہ، راوی ابو ایوب الانصاری ؓ)
عصر کی سنتوں کے فضائل:
نماز عصر جو دن کے درمیانی حصہ میں اداکی جاتی ہے، اس نماز کی سنت کے سلسلہ میں صرف آپ ﷺ کاترغیبی ارشاد ملتا ہے، جس کا اہتمام کرنے پر بندہ مستحق ثواب ہوتا ہے، آقا ﷺ کا فرمان ہے اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔ (مسند احمد بحوالہ معارف الحدیث، راوی ابن عمرؓ)
اگرچہ اس سنت کا حکم کو ئی تاکیدی نہیں ہے، مگر طالب آخرت کے لیے اعمال صالحہ بہترین سرمایہ ہے، جو اسی دنیا میں وہ کرسکتا ہے، اسی طرح آپ ﷺ سے عصر سے پہلے دو گانہ نمازادافرمانا بھی ثابت ہے، (ابوداؤد، مشکاۃ، بروایت حضرت علی ؓ)
چونکہ یہ سنت – سنت غیر موکدہ ہے، اس سلسلہ میں اس سنت کا حکم یہ کہ اس کے پڑھنے والے کوثواب، اورنہ پڑھنے والے کو کوئی گناہ نہیں ؛ البتہ سنت موکدہ باصرارچھوڑنے والا گنہگار ہوگا، اگر ہم ایسے وقت مسجد پہنچے اور کچھ وقت جماعت کے لیے باقی ہو، تو بجائے قیل وقال یعنی باتیں کرنے کے کے دو یا چارکعت پڑھ کر اس فضیلت کوحاصل کریں ۔
جیسا کے روایات سے معلوم ہوا۔
مغرب کی سنتوں کے فضائل:
نماز مغرب غروب آفتاب کے فوراً بعدپڑھی جاتی ہے، اس کی سنتوں کی بھی بڑی فضیلت احادیث میں واضح طور پر آئی ہیں ، ،
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جس نے بعد نماز مغرب بات کرنے سے پہلے دو یا چار رکعات نماز پڑھی، اللہ اس کی نماز کو جنت کے اعلی ٰ مقام علیین تک اٹھائے گا، (مشکاۃ)
مطلب یہ ہے کہ اس کے اس عمل کو ساتویں آسمان تک اٹھایا جائے گا،
ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں اس کا یہ عمل اللہ سے قرب کا ذریعہ بنے گا (باب السنن وفضلھا، ص۲۹۸ لمعات شرح مشکاۃ)۔
آپ ﷺ فرماتے تھے جو بندہ مغرب کے بعدچھ رکعت سنت پڑھے اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے اگر چہ سمندر کے کف کے برابر ہوں ۔ (طبرانی)
اللہ کی رحمت اپنے بندوں پر کس طرح مہرباں ہے، ذرا سی کوشش سے بندہ اپنی ڈھیر سارے گناہ بخش والے، اور پاک ہوجائے، در حقیقت یہ فضائل ہمارے لیے ہیں ، دن رات آدمی اللہ کی کتنی نافرمانی کرتا ہے، پھر بھی اللہ ہمارے لیے بخشش کے دروازے کھولے ہوئے ہے۔
عشاء کی سنتوں کے فضائل:
دن کی آخری نماز عشاء کی نمازہے، اس کے سنن کا اہتمام بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ثابت ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہامیں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپﷺ کے گھر میں عشاء کے بعد دو رکعت نماز پڑھی (بخاری ومسلم)
اور ابو داؤد کی روایت میں نبی ﷺ کا یہ عمل مذکور ہے کہ آپ ﷺ جب بھی حضرت عائشہؓ کے یہاں تشریف لاتے چار یاچھ رکعات ضرور ادا فرماتے۔ (ابو داؤد، معارف الحدیث، بروایت عائشہؓ)
اس حدیث کے ذیل میں محدثین فرماتے ہیں جمہور ائمہ کے نزدیک تو وہی دو رکعت سنت موکدہ ہیں جو ابن عمرؓکی روایت سے منقول ہے، البتہ ان دورکعت کے علاوہ آرام فرمانے سے پہلے مزید دو یا چار رکعت آپﷺ پڑھتے تھے۔ ان فضائل کے ہوتے ہوئے بھی سنتوں کے سلسلہ میں اگر ہمارا معاملہ کوتاہی والا ہے تو سمجھوبہت بڑی محرومی ہم اپنے سر لے رہے ہیں ، جس کا اندازہ ہمیں کل قیامت میں ہوگا۔
نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں جس میں آپ نے فرمایا کہ فرض نماز کے ادا کرنے والے کے فرض میں جو نقص اور کمی رہ جاتی ہے ’ اسے سنتوں اور نفلوں کے ذریعے پورا کیا جاتاہے۔
اور ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے فرض کامل اور مکمل ہیں اور نقص و کمی سے خالی ہیں ؟ ہم میں سے ہر ایک اس کمی کو پورا کرنے کا محتاج ہے اور اگر وہ سنن ونوافل سے بھی محروم ہوگیا تو پھر اس کی یہ کمی کیسے پوری ہوگی؟ اس لئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ ان سنن کا اہتمام کیا جائے تا کہ یہ نقصان اسے گناہ کے قریب نہ لے جائے۔
اس لئے ان سنن کو حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک کردینا اور کہنا کیا ہوا سنتیں ہی تو تھیں ۔ ان کی کیا حیثیت ہے؟ سنت کی تحقیرواستخفاف جرم ہے اور ایسا شخص یقیناً گناہ کامرتکب ہوگا بلکہ سنت کو خاطر میں نہ لانے والا یا اس کا مذاق اڑانے والا کفر تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ اسلئے جو شخص نماز کی ان سنتوں کو حقیر و معمولی سمجھ کر ان کی ناقدری کرتا ہے اور انہیں ترک کردیتا ہے ایسا شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اس حد تک جانے سے احتراز کرناچاہئے اور معصیت سے بچنا چاہئے۔