نماز کا بیان – سبق نمبر 23:
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
اِجْعَلُوْا أَئِمَّتَكُمْ خِيَارَكُمْ فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيْمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ. (رواه الدار قطنى والبيهقى (كنز العمال)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں جو اچھے اور بہتر ہوں ان کو اپنا امام بناؤ، کیوں کہ تمہارے رب اور مالک کے حضور میں وہ تمہارے نمائندے ہوتے ہیں ۔ (دار قطنی بیہقی)
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امام اللہ تعالیٰ کے حضور میں پوری جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس لئے خود جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس اہم اور مقدس مقصد کے لئے اپنے میں سے بہترین آدمی کو منتخب کرے۔ رسول اللہ ﷺ جب تک اس دنیا میں رونق افروز رہے خود امامت فرماتے رہے اور مرض وفات میں جب معذور ہو گئے تو علم و عمل کے لحاظ سے امت کے افضل ترین فرد حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امامت کے لئے نامزد اور مامور فرمایا۔ اس لئے حدیث میں حق امامت کی جو تفصیلی ترتیب بیان فرمائی گئی ہے اس کا منشاء بھی دراصل یہی ہے کہ جماعت میں جو شخص سب سے بہتر اور افضل ہو اس کو امام بنایا جائے أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ اور أَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ یہ سب اسی بہتری اور افضلیت فی الدین کی تفصیل ہے۔ افسوس ہے کہ بعد کے دور میں اس اہم ہدایت سے بہت تغافل برتا گیا اور اس کی وجہ سے امت کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔
امامت کے صحیح ہونے کی شرائط دو قسم پر ہیں
اول شرائط امامت، دوم شرائط اقتدا
قسم اول شرائط امامت، یہ چھ ہیں
1.اسلام یعنی مسلمان ہونا، کافر و مشرک کے پیچھے نماز درست نہیں بدعتی جو کافر نہ ہو اور فاسق کے پیچھے نماز درست ہو جائے گی مگر مکروہِ تحریمی ہے۔
2.عاقل ہونا ہر وقت مست و مجنون رہنے والے کے پیچھے نماز درست نہیں
3.بالغ ہونا، نابالغ لڑکے کے پیچھے بالغ کی نماز درست نہیں خواہ تراویح و نوافل ہی ہوں عمر کے لحاظ سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ ہے اگر علامت کے لحاظ سے اس عمر سے پہلے بالغ ہو جائے تو اس کی پیچھے نماز درست ہے۔
4.مذکر (مرد) ہونا، مرد کی اقتدا عورت یا خنثیٰ مشکل کے پیچھے درست نہیں ۔
5.قرأت یعنی بقدر جواز نماز قرآن یاد ہونا اور وہ کم سے کم ایک آیت ہے اور ایسے شخص کو حنفی فقہ کے نزدیک قاری کہتے ہیں اور جس کو اس قدر بھی یاد نہ ہو اس کو امی کہتے ہیں پس قاری کی اقتدا اُمّی کے پیچھے درست نہیں اسی طرح قاری کی اقتدا گونگے کے پیچھے درست نہیں ۔
6.صحیح ہونا یعنی عذرات سے بچا ہوا ہونا پس صحیح (غیر معذور) کی اقتدا معذور کی پیچھے درست نہیں عذرات یہ ہیں ۔
1.ہر وقت پیشاب جاری رہنا، نکسیر یا زخم سے خون جاری رہنا، ریاح جاری رہنا۔
2. توتلا یا ہکلا ہونا۔
3. نماز کی شرطوں میں سے کسی شرط کا نہ پایا جانا (معذور اپنے جیسے معذور کی امامت کر سکتا ہے اسی طرح اُمّی اُمّی کی امامت کر سکتا ہے اور نابالغ نابالغوں کی امامت کر سکتا ہے وغیرہ)
قسم دوم شرائط اقتدا
1.نیت اقتدا یعنی مقتدی کو امام کی متابعت یعنی اس کی پیچھے نماز پڑھنے کی نیت کرنا اور اس نیت کا تحریمہ کے ساتھ ہونا یا تحریمہ پر اس طرح مقدم ہونا کہ دونوں کے درمیان کوئی نماز کو توڑنے والافعل نہ ہو، جمعہ و عیدین میں اقتدا کی نیت ضروری نہیں ۔
2.مرد امام کو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا عورتوں کی نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے لیکن جمعہ و عیدین میں یہ شرط نہیں ہے۔
3.مقتدی کا امام سے آگے نہ ہونا یعنی مقتدی کا قدم امام کے قدم سے آگے نہ ہو اور اس میں ٹخنوں یعنی ایڑیوں کا اعتبار ہے پس اگر مقتدی کا ٹخنہ و ایڑی امام کے ٹخنے اور ایڑی سے پیچھے ہو لیکن امام کا پاؤں چھوٹا ہو اور مقتدی کا پاؤں بڑا ہونے کی وجہ سے پنجہ امام کے پنجے سے آگے ہو تو اقتدا درست ہے۔
4.اتحادِ نماز، یعنی امام اور مقتدی کی نماز کا متحد ہونا، پس دونوں کی نماز ایک ہی ہو جیسے ظہر کی نماز اسی ظہر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے لیکن ظہر کی نماز عصر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں ، یا مقتدی کی نماز امام کی نماز کو متضمن (شامل) ہو جیسا کہ نفل پڑھنے والے کی نماز فرض پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے کیونکہ فرض نفل کو متضمن ہے لیکن اس کے برعکس درست نہیں کیونکہ نفل فرض کو متضمن نہیں اسی طرح ہر قوی نماز والے کی اقتدا ضعیف نماز والے کے پیچھے درست نہیں لیکن ضعیف نماز والی کی اقتدا قوی نماز والے کے پیچھے درست ہے مثلاً نذر نماز والے کی اقتدا نفل نماز والے کے پیچھے درست نہیں ، مسبوق کی اقتدا مسبوق کے پیچھے، ادا نماز والے کی اقتدا دوسرے دن کی وہی قضا نماز پڑھنے والے کی پیچھے، مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت نکلنے کے بعد درست نہیں وغیرہ۔
5.اتحادِ مکان، امام اور مقتدی کے مکان کا ایک ہونا، پس سواری سے اتر کر نماز پڑھنے والی کی اقتدا سوار کے پیچھے یا ایک سواری پر نماز پڑھنے والی کی اقتدا دوسری الگ سواری پر نماز پڑھنے والے کی پیچھے درست نہیں ۔
6.امام اور مقتدی کے درمیان عام راستہ (سڑک) نہ ہونا، وہ راستہ جس میں بیل گاڑی یا لدے ہوئے اونٹ و خچر گزر سکیں مانع اقتدا ہے جب کہ صفیں ملی ہوئی نہ ہوں ، اگر اس سے کم فاصلہ ہو یا صفیں ملی ہوئی ہوں ، تو مانع اقتدا نہیں ایک آدمی کے درمیان میں کھڑا ہونے سے صفیں نہیں ملتی دو میں اختلاف ہے تین آدمی کھڑے ہوں تو بلا اتفاق صفیں متصل ہو جائیں گی۔
7.بڑی نہر درمیان میں نہ ہونا، جس نہر میں کشتیاں اور بجرے (چھوٹی کشتیاں ) گزر سکیں اور اس پر پل وغیرہ کے بغیر گزر نہ ہو سکے وہ نہر بڑی ہے اور وہ عام راستہ کے حکم میں ہے اس میں صفوں کا اتصال پل کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اگر نہر خشک ہو تو راستے کی طرح اس میں صفیں متصل ہو جانے سے اقتدا درست ہے ، چھوٹی نہر جس میں کشتیاں اور بجرے نہ گزر سکین مانع اقتدا نہیں ہیں ۔
8.کوئی بڑا میدان یعنی خالی جگہ امام اور مقتدی کے درمیان حائل نہ ہونا پس اگر میدان میں جماعت کھڑی ہو تو اگر امام اور مقتدی کے درمیان اتنی جگہ خالی ہے جس میں دو صفیں یا زیادہ قائم ہو سکے تو اقتدا درست نہیں ہے ، اس سے کم فاصلہ مانع اقتدا نہیں اور نماز درست ہو جائے گی، اسی طرح کوئی سی دو صفوں کے درمیانی فاصلے کے پچھلی صف کے لئے مانع اقتدا ہونے یا نہ ہونے کے حکم کی بھی یہی تفصیل ہے بہت ہی زیادہ بڑی مسجد میں بھی صفوں میں فاصلہ کے حکم کی تفصیل یہی ہے یعنی وہ میدان کے حکم میں ہے عام مسجد اگرچہ بڑی ہوں مکان واحد کے حکم میں ہیں اور ان میں فاصلہ خواہ دو صفوں کے برابر ہو یا زیادہ ہو مانع اقتدا نہیں ہے ، لیکن بلا ضرورت مکروہ ہے ، فنائے مسجد (صحن) مسجد کے حکم میں ہے ، بڑا مکان جو چالیس گز شرعی یا اس سے زیادہ بڑا ہو میدان کے حکم میں ہے اس سے کم عام مسجد کے حکم میں ہے
9.مقتدی پر امام کا حال مشتبہ نہ ہونا، اگر امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کا حال مقتدی کا معلوم ہو خواہ امام یا مقتدیوں کو دیکھ کر ہو یا امام یا مکبر کی تکبیر کی آواز سن کر ہو تو اقتدا درست ہے خواہ دیوار یا منبر وغیرہ درمیان میں حائل ہوں ۔
10.امام اور مقتدی کے درمیان عورتوں کی پوری صف کا حائل نہ ہونا، اگر عورتوں کی پوری صف امام کے پیچھے ہو گی تو ان کے پیچھے مردوں کی جتنی صفیں ہوں گی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح اگر مقتدیوں کی صفوں کے درمیان میں عورتوں کی صف ہو گی تو ان کے پیچھے والی مردوں کی سب صفوں کی نماز فاسد ہو جائے گی، چار یا زیادہ عورتیں ہونگی تو پوری صف کا حکم ہو گا، تین عورتیں ہوں گی تو پیچھے والی تمام صفوں کے ان تین تین آدمیوں کی نماز فاسد ہو گی جو ان عورتوں کی سیدھ میں پیچھے ہوں گے دو عورتیں پیچھے والی صف کے دو آدمیوں کی اور ایک عورت پیچھے والی صرف پہلی صف کے صرف ایک آدمی کی نماز فاسد کرے گی اور اگر مردوں کی صف کے درمیاں میں ایک یا زیادہ عورتیں ہوں گی تو ان کے برابر والے داہنی و بائیں طرف کے ایک ایک آدمی کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی
11.امام کی نماز کا مقتدی کے مذہب پر صحیح ہونا اور مقتدی کا اپنے گمان میں اس کو صحیح سمجھنا۔
12.مقتدی کا ارکان نماز میں امام کے ساتھ شریک ہونا یعنی ہر رکن کو امام کے ساتھ یا اس کے بعد متصل ہی ادا کرنا پس اگر کسی رکن کو چھوڑ دے گا یا امام سے پہلے ادا کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اگر اس رکن میں جس کو امام سے پہلے کر لیا ہے اپنے امام کو پا لیا مثلاً امام کے رکوع میں جانے سے پہلے چلا گیا اور رکوع میں یہاں تک رہا کہ امام نے بھی رکوع کر دیا یا وہ رکوع سے اٹھ گیا تھا لیکن پھر امام کے ساتھ رکوع میں واپس آ گیا تو اب امام کے ساتھ شرکت ہو کر نماز درست ہو جائے گی اور اگر اس صورت میں امام کے رکوع میں جانے سے پہلے اٹھ گیا اور پھر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نہیں ہوا تو اقتدا درست نہ ہو گی اور نماز فاسد ہو جائے گی۔
13.ارکان کی ادائگی میں مقتدی کا امام کے مثل یا اس سے کم ہونا پس امام اور مقتدی دونوں رکوع و سجود سے نماز پڑھتے ہوں یا دونوں اشارے سے نماز پڑھتے ہوں یا امام رکوع و سجود سے پڑھتا ہو اور مقتدی اشارہ سے پڑھتا ہو تو اقتدا درست ہے ، اور اگر امام اشارے سے نماز پڑھتا ہو اور مقتدی رکوع و سجود سے تو چونکہ مقتدی کا حال امام سے قوی ہے اس لئے اقتدا درست نہیں۔
14.شرائطِ نماز میں مقتدی کا امام سے زیادہ جامع نہ ہونا، بلکہ امام کے مثل یا اس سے کم ہونا مثلاً سب شرائط کا جامع مقتدی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو درست ہے ، یا ننگا آدمی دوسرے ننگے آدمی کے پیچھے پڑھے یا ننگا آدمی سب شرائط کے جامع امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اقتدا درست ہے لیکن اگر امام ننگا ہو اور مقتدی ستر ڈھانپے ہوئے ہو تو اقتدا درست نہیں۔
اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین