نماز کا بیان – سبق نمبر 28:
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ فَكَبَّرَ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ فِي التَّكْبِيرِ.
رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ ﷺ کو بیٹھنا چاہیے تھا۔ جب آپ ﷺ نے نماز پوری کی تو آپ ﷺ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں الله اکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ ﷺ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ آج اکثر مسلمان نماز کے احکام ومسائل اور ارکان و شرائط وغیرہ سے ناواقف ہیں ، اور انہیں نماز کے اہم مسائل کا بالکل علم نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر آدمی نماز میں بھول جائے تو انہیں کب اور کس صورت میں سجدہ سہو کرنا چاہئے، سلام سے پہلے کرنا چاہئے یا سلام کے بعد کرناچاہئے۔ یا کن کن امور کی غلطی پر سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔
کوئی نماز فرض ہو یا سنت و نفل، چاہے وہ نماز وتر ہوسوائے نماز جنازہ کے جس نماز میں بھی نمازی سے کچھ بھول چوک ہو جائے اور وہ بھول بھی ایسی ہو کہ نماز کا کوئی رکن نہ چھوٹا ہومثلاً قیام یا رکوع و سجود ہی نہ چھوٹ جائیں کہ جن کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی اور جن کی ادائیگی کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ۔ بعض دیگر امور میں بھول ہو جائیں تو اس کا ازالہ نماز کے آخر میں 2 سجدے کرنے سے ہو جاتا ہے جنہیں ’’سجدہ سہو‘‘ کہا جاتا ہے۔
نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا اور اِدھر اُدھر کے خیالات سے بچنا باعث فضیلت و اجر ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان سے بھول چوک ممکن ہے۔ عام انسان تو کجاخیر البشر حضرت محمد ﷺسے بھی بعض اوقات نماز میں بھول ہو جایا کرتی تھی جس کاعلم صحیح احادیث میں مذکور متعدد واقعات سے ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم ابو دائود، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے :
’’میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں لہٰذا جب میں بھول جائوں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔ ‘‘
صحیح مسلم میں ارشادِ نبوی ﷺہے :
’’جب کوئی شخص اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہئے کہ (نماز کے آخر میں) 2سجدے کرے۔ ‘‘
نماز کے آخر میں سجدہ سہو کے وقت اور موقع و محل کی تعیین اور اس کے طریقہ سے قبل آئیے دیکھیں کہ سجدہ سہو کن کن صورتوں میں کیا جائے گا؟
(1) ان میں سے پہلی شکل یہ ہے کہ نمازی بھول کر نماز پوری ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر لے اور بعد میں کسی کے بتانے سے پتہ چل جائے کہ نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ ایک رکعت یا کم و بیش باقی ہے، ایسی صورت میں فوراً اُٹھ کر چھوٹی ہوئی نماز مکمل کر کے سجدہ سہو کرنا چاہئے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے کہ نبیﷺ نے ظہر کی نماز کی امامت کرائی اور صرف 2 رکعتیں پڑھ کر ہی سلام پھیر لیا اور ایک لکڑی کے پاس آ گئے جو کہ مسجد میں رکھی تھی اور اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ لوگ جلدی جلدی وہیں پہنچ گئے مگر کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
آخر ایک صحابی حضرت ذوالیدین ؓ (جن کا اصل نام حضرت خرباق سُلمی تھا) نے کہا:
اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہوگئی ہے؟ آپ نے اس بات کی دوسرے صحابہؓ سے تصدیق کرائی اور جب بات واضح ہو گئی کہ صرف 2 ہی رکعتیں پڑھی گئی ہیں تو آپ کی جو (2 رکعت) نماز چھوٹی تھی وہ ادا فرمائی پھر سلام پھیرا‘ پھر سہو کے 2سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔
(2) سہو کی دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کی رکعتیں زیادہ پڑھ لی جائیں جیسا کہ بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ‘ مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے کہ نبی نے ایک مرتبہ نمازِ ظہر کی5 رکعتیں پڑھا دیں ۔ آپ سے کہا گیا کہ کیا نماز زیادہ ہوگئی ہے؟ فرمایا:
’’کیا بات ہے؟ ۔ ‘‘
صحابہؓ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے 5 رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ نے سہو کے 2 سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔
(3) سہو کی تیسری شکل یہ ہے کہ نمازی قعدہ اولیٰ یا تشہد اوّل کیلئے بیٹھنا بھول جائے اور بیٹھنے کی بجائے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے چنانچہ صحاح ستہ و مسند احمد‘ مؤطا امام مالک اور بیہقی میں ہے کہ نبی نمازِ ظہر کی دو سری رکعت کے بعد تشہد پڑھے بغیر (تیسری رکعت کے لئے) کھڑے ہو گئے اور سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے سہو کے 2 سجدے کیے اور پھر سلام پھیراجبکہ ابو دائود‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ دارقطنی اور بیہقی میں ارشادِ نبوی ﷺہے :
’’ جب تم میں سے کوئی شخص دوسری رکعت میں قعدہ کئے بغیر کھڑا ہونے لگے لیکن اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑا ہو چکا ہو تو اسے چاہئے کہ پھر نہ بیٹھے بلکہ آخر میں سہو کے 2 سجدے کر لے۔ ‘‘
(4) سہو کی چوتھی شکل یہ ہے کہ کسی کو اس بات میں شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔ اس شکل کا ذکر صحیح بخاری و مسلم‘ ابو دائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ ابن حبان‘ مستدرک حاکم اور بیہقی میں ہے۔ نبی کا ارشاد ہے :
’’ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی رکعتوں کی تعداد بھول جائے اور اسے شک ہوجائے کہ نہیں معلوم اس نے 3 رکعتیں پڑھی ہیں یا 4 تو اسے چاہئے کہ اپنا شک دُور کرے اور یقینی بات پر بنیاد رکھ کر نماز پوری کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے 2سجدے کرے۔ اس طرح اگر اس نے 5 رکعتیں پڑھ لی ہوں گی تو (ان 2 سجدوں کی وجہ سے) وہ شفع (جفت یا جوڑی) ہو جائیں گی اور اگراس نے پوری نما ز ہی پڑھی ہو گی تو یہ (2سجدے) شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔ ‘‘
ایک دوسری حدیث میں شک زائل اور یقین حاصل کرنے کا طریقہ بھی لکھا ہے۔ ابو دائود‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد اور بیہقی میں ارشادِ نبو ی ﷺہے :
’’ جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا2 تو اسے چاہئے کہ اپنی ایک ہی رکعت سمجھے اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے 2 رکعتیں پڑھی ہیں یا 3‘ تو اسے چاہئے کہ اپنی2ہی رکعتیں سمجھے ‘ اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے 3 رکعتیں پڑھیں یا 4 تو اسے چاہئے کہ اپنی3 ہی رکعتیں سمجھے ‘ پھر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے 2 سجدے کر لے۔ ‘‘
ان دو نوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ 3 یا 4‘ 2یا 3 اور 2یا ایک میں شک ہو جائے مگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک پہلو ظنِ غالب سے راجح ہو تو پھر ظنِ غالب پر ہی بنیاد رکھے اور اگر کوئی پہلو بھی ظن غالب سے راجح محسوس نہ ہو تو پھر کم پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے 2 سجدے کر لے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سجدۂ سہو درج ذیل وجوہ کی بنا پر واجب ہوتا ہے :
۱۔ نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو بھول کر ترک کردے ، مثلاً سورۂ فاتحہ پڑھنا یا اُس کے بعد سورت ملانا بھول گیا۔
۲۔ کسی واجب کو اُس کے اصل مقام سے مؤخر کردے، مثلاً فرض کی پہلی دو رکعات اور باقی تمام نمازوں کی ہر رکعت میں پہلے سورت پڑھ کر پھر سورۂ فاتحہ پڑھی۔
۳۔ کسی فرض یا واجب کے ادا کرنے میں ایک رکن کی مقدار تاخیر کردی، مثلاً قعدۂ اولیٰ میں اَلتَّحیات پوری پڑھنے کے بعد ایک رکن کی مقدار خاموش بیٹھا رہا اور تیسری رکعت کے لئے قیام میں تاخیر ہوگئی۔
۴۔ کسی واجب کو دو مرتبہ ادا کرے، مثلاً فرض کی پہلی دو رکعتوں میں سے کسی رکعت میں سورۂ فاتحہ مکمل یا اُس کا اکثر حصہ دو بار پڑھ لیا۔
۵۔ کسی واجب کو تبدیل کردے، مثلاً ظہر اور عصر کی نماز میں قراء ت جہراً یعنی اونچی آواز سے کی یا مغرب، عشاء اور فجر کی نماز میں قراء ت آہستہ آواز میں کی۔
۶۔ کسی فرض یا واجب کو اُس کے اصل مقام سے مُقَدَّم کردے، مثلاً رکوع سے پہلے سجدہ کرلے ۔
۷۔ کسی فرض کو بھولے سے دو مرتبہ ادا کرے، مثلاً کسی رکعت میں دو مرتبہ رکوع کرلے یا تین سجدے کرلے۔
یعنی سجدہ سہو واجب ہونے کا اصول یہ ہے کہ نماز کا کوئی واجب چھوٹ جانے سے، یا فرض کی تاخیر سے، یا واجب کی تاخیر سے یا واجب کے تکرار سے سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔
سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں پوری التحیات پڑھنے کے بعد (درود شریف اور دعا پڑھے بغیر) دائیں طرف ایک مرتبہ سلام پھیر کر دو سجدے کرلیے جائیں ، اور ہر سجدے میں حسبِ معمول سبحان ربي الاعلي تین یا پانچ مرتبہ کہے اور سجدے کے بعد پھر بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر دائیں اور بائیں سلام پھیر دیا جائے۔
سجدہ سہو واجب ہونے کی صورتیں بہت زیادہ ہیں ، نیز بسا اوقات عام آدمی کا خیال ہوتاہے کہ سجدہ سہو واجب ہے، جب کہ واجب نہیں ہوتا، اور بعض اوقات سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے اور عام آدمی کو علم نہیں ہوتا؛ لہٰذا مذکورہ صورتوں کے علاوہ کسی صورت کے بارے میں سوال کرنا ہو، وہ متعین کر کے مقامی علمائے کرام سے دریافت فرمالیجئے تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ سجدہ سہو واجب ہے یا نہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین