نماز کا بیان – سبق نمبر 24:
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
« يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ » (رواه مسلم)
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہو، اور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو، اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں (یعنی سب کا زمانہ ہجرت ایک ہی ہو) تو پھر وہ شخص امامت کرے جو سن کے لحاظ سے مقدم ہو، اور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں اس کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ (صحیح مسلم)
دین کے تمام اعمال میں سب سے اہم اور مقدم نماز ہے اور دین کے نظام میں اس کا درجہ اور مقام گویا وہی ہے جو جسم انسانی میں قلب کا ہے، اس لئے اس کی امامت بہت بڑا دینی منصب اور بڑی بھاری ذمہ داری، اور رسول اللہ ﷺ کی ایک طرح کی نیابت ہے۔ اس واسطے ضروری ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو موجودہ نمازیوں میں دوسروں کی بہ نسبت اس عظیم منصب کے لئے زیادہ اہل اور موزوں ہو، اور وہ وہی ہو سکتا ہے، جس کو رسول اللہ ﷺ سے نسبۃً زیادہ قرب و مناسبت حاصل ہو اور آپ ﷺ کی دینی وراثت سے جس نے زیادہ حصہ لیا ہو، اور چونکہ آپ ﷺ کی وراثت میں اول اور اعلیٰ درجہ قرآن مجید کا ہے، اس لئے جس شخص نے سچا ایمان نصیب ہونے کے بعد قرآن مجید سے خاص تعلق پیدا کیا، اس کو یاد کیا اور اپنے دل میں اتارا، اس کی دعوت، اس کی تذکیر اور اس کے احکام کو سمجھا، اس کو اپنے اندر جذب اور اپنے اوپر طاری کیا، وہ رسول اللہ ﷺ کی وراثت کے خاص حصہ داروں میں ہو گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو اس سعادت میں اس سے پیچھے ہوں گے آپ ﷺ کی اس نیابت یعنی امامت کے لئے زیادہ اہل اور زیادہ موزوں ہو گا۔ اور اگر بالفرض سارے نمازی اس لحاظ سے برابر ہوں تو چونکہ قرآن مجید کے بعد سنت کا درجہ ہے اس لئے اس صورت میں ترجیح اس کو دی جائے گی جو سنت و شریعت کے علم میں دوسروں کے مقابلے میں امتیاز رکھتا ہو گا اور اگر بالفرض اس لحاظ سے بھی سب برابر کے سے ہوں تو پھر جو کوئی ان میں تقویٰ اور پرہیزگاری اور محاسن اخلاق جیسی دینی صفات کے لحاظ سے ممتاز ہو گا امامت کے لئے وہ لائق ہو گا، اور اگر بالفرض اس طرح کی صفات میں بھی یکسانی سی ہو تو پھر عمر کی بڑائی کے لحاظ سے ترجیح دی جائے گی، کیوں کہ عمر کی بڑائی اور بزرگی بھی ایک مسلم فضیلت ہے۔ حدیث کے لفظ اقرأھم لکتاب اللہ کا لفظی ترجمہ وہی ہے جو یہاں کیا گیا ہے۔ یعنی ” کتاب اللہ کا زیادہ پڑھنے والا ” لیکن اس کا مطلب نہ تو صرف حفظ قرآن ہے اور نہ مجرد کثرت تلاوت، بلکہ اس سے مراد ہے حفظ قرآن کے ساتھ اس کا خاص علم اور اس کے ساتھ خاص شغف تھا۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز کی امامت کے لئے زیادہ اہل اور موزوں وہ شخص ہے جو کتاب اللہ کے علم اور اس کے ساتھ شغف و تعلق میں دوسروں پر فائق ہو، اور ظاہر ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں یہی سب سے بڑا دینی امتیاز اور فضیلت کا معیار تھا، اور جس کا اس سعادت میں جس قدر زیادہ حصہ تھا وہ اسی قدر رسول اللہ ﷺ کی خاص وراثت و امانت کا حامل اور امین تھا۔ اس کے بعد سنت و شریعت کا علم فضیلت کا دوسرا معیار تھا (اور یہ دونوں علم یعنی علم قرآن اور علم سنت جس کے پاس بھی تھے، عمل کے ساتھ تھے۔ علم بلا عمل کا وہاں وجود ہی نہیں تھا) اس لئے فقہائے کرام نے صلاح و تقوے میں فضیلت و فوقیت کو ترجیح کا تیسرا معیار قرار دیا ہے جو بالکل بجا ہے۔ ترجیح کا چوتھا معیار اس حدیث میں عمر میں بزرگی کو قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر مذکورہ بالا تین معیاروں کے لحاظ سے کوئی فائق اور قابل ترجیح نہ ہو تو پھر جو کوئی عمر میں بڑا اور بزرگ ہو وہ امامت کرے۔ حدیث کے آخر میں دو ہدایتیں اور بھی دی گئی ہیں ایک یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے شخص کی امامت و سیادت کے حلقہ میں جائے تو وہاں امامت نہ کرے بلکہ اس کے پیچھے مقتدی بن کر نماز پڑھے۔ (ہاں اگر وہ شخص خود ہی اصرار کرے تو دوسری بات ہے) ۔ اور دوسری یہ کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے کے گھر جائے تو اس کی خاص جگہ پر نہ بیٹھے، ہاں اگر وہ خود بٹھائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں ہدایتوں کی حکمت و مصلحت بالکل ظاہر ہے۔
الغرض!تمام حاضرین میں سے جس میں امامت کے سب سے زیادہ اوصاف پائے جائیں اس کو امام بنانا چاہئے لیکن بادشاہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس کی اجازت کے بغیر حق امامت نہیں ہے ، اس کے بعد والی پھر قاضی پھر مسجد کا امام معین یا گھر میں صاحب خانہ جب کہ امامت کا اہل ہو ہر حال میں مقدم ہو گا۔
1.امامت کے لئے سب سے مقدم وہ شخص ہے جو عالم ہو یعنی نماز کے مسائل سب سے زیادہ جانتا ہو اگرچہ دوسرے علوم میں کم ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ اس کے اعمال اچھے ہوں اگر اس میں دو آدمی برابر ہوں تو جو
(2) زیادہ قاری ہو اور قرآن مجید قواعد کو مطابق زیادہ صحیح پڑھتا ہو پھر جو
(3) زیادہ پرہیزگار ہو یعنی حلال و حرام میں شبہ سے بھی بچتا ہو
(4) پھر جو عمر میں زیادہ ہو یعنی اسلام کی حالت میں زیادہ عرصہ سے ہو
(5) پھر جو اخلاق میں زیادہ اچھا ہو
(6) پھر جو خوبصورتی میں زیادہ ہو اس سے مراد تہجد زیادہ پڑھنے والا ہے کیونکہ اس سے چہرے پر خوبصورتی زیادہ آتی ہے اور یہ جماعت کی کثرت کا سبب ہے
(7) پھر جو حسب میں زیادہ ہو
(8) پھر جو نسب میں یعنی خاندان کے لحاظ سے زیادہ شریف ہو مثلاً سید اور لوگوں پر مقدم ہے
(9) پھر جس کی آواز زیادہ اچھی ہو
(10) پھر جس کے پاس حلال مال زیادہ ہو
(11) پھر جو جاہ و وقار میں زیادہ ہو
(12) پھر جو عمدہ لباس پہنے
(13) پھر جس کا سر تناسب کے ساتھ دوسروں سے بڑا ہو یہ عقل کی بڑائی کی دلیل ہے غیر متناسب (بہت ہی زیادہ) بڑا نہ ہو
(14) مقیم مسفر پر مقدم ہے جب باقی نمازی مقیم ہوں یا مقیم و مسافر ملے جلے ہوں
(15) پھر آزاد اصلی آزاد شدہ غلام پر مقدم ہے ،
جب کسی صفت میں دو شخص مقابل و برابر ہوں تو جو زیادہ عرصہ سے اس صفت کا اہل ہو مقدم ہو گا مثلاً دونوں عالم ہیں تو جس کا علم پہلے سے ہے یا دونوں قاری ہیں تو جس کو فن قرأت دوسرے سے زیادہ عرصہ سے آتا ہے وغیرہ، اگر یہ ساری صفتیں دونوں یا زیادہ شخصوں میں جمع ہو جائیں اور کوئی وجہِ ترجیع نہ ہو تو قرعہ ڈالا جائے یا جماعت کے اختیار پر چھوڑ دیں اور مقتدیوں کے اختیار کی صورت میں اگر اختلاف ہو تو کثرت رائے کا اعتبار ہو گا اگر مسجد کا امام معین ہو اور جماعت کے وقت اس سے افضل کوئی شخص آ جائے تب بھی امام معین اس اجنبی شخص سے زیادہ مستحق ہے۔
اورجن لوگوں کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔
1.بدعتی جب کہ اس کی بدت کفر کے درجہ کی نہ ہو
2.فاسق جو علانیہ فسق کرتا ہو جیسے شرابی، جواری، زناکار، سود خوار وغیرہ داڑھی منڈھانے والا یا داڑھی کٹا کر ایک مشت سے کم رکھنے والا بھی علانیہ فاسق ہے
1.غلام (جو شرع کی رو سے غلام ہو)
2.جاہل گنوار
3.ولد الزنا (حرامی) ان تینوں میں تربیت نہ ہو سکنے کی وجہ سے جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے مکروہِ تنزیہی ہے لیکن اگر ایسا شخص قوم میں زیادہ علم والا اور نیک ہو تو اسی کو امام بنانا اولیٰ ہے اور جب اس سے افضل اور کوئی شخص موجود نہ ہو تو اس کی امامت بلا کراہت جائز ہے
4.بالغ نوجوان جس کے ابھی داڑھی نہ نکلی ہو با وجہ خوفِ شہوت یا غلبہ جہل مکروہ ہے لیکن اگر زیادہ عالم یہی ہو تو کراہت رفع ہو کر یہی امامت کے لئے اولیٰ ہو گا
5.اندھا اور وہ شخص جس کو دن اور رات میں کم نظر آئے اس کی امامت نجاست سے نہ بچ سکنے کی وجہ سے مکروہ ہے اور اگر وہ بچنے والا اور احتیاط کرنے والا ہو اور اہل علم ہو تو یہی اولیٰ ہے
6.کم عقل
7.فالج زدہ اور برص وبہق والا یعنی جس کو سفید یا سیاہ داغ کا مرض پھیل گیا ہو جزام والا، لنگڑا یعنی جو قدم کا کچھ حصہ لگا کر کھڑا ہوتا ہو پورا پاؤں نہ لگاتا ہو، ایک ہاتھ والا، جس کا پیشاب بند ہو گیا ہو، ان سب کی پیچھے علت تنفر یا پوری طرح طہارت ممکن نہ ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین