نماز کا بیان – سبق نمبر 5:
عَنْ مَالِكِ بْنِ الحُوَيْرِثِ، قَالَ: اَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي، فَقَالَ لَنَا: إِذَا سَافَرْتُمَا فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا، وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا. (رواه البخارى)
مالک بن الحویرث ؓ سے روایت ہے کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ایک چچا زاد بھائی بھی ساتھ تھے، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم سفر کرو تو نماز کے لیے اذان اور اقامت کہو اور جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے اور نماز پڑھائے۔ (صحیح بخاری)
صحیح بخاری ہی کی دوسری ایک روایت میں ہے کہ یہ مالک بن الحویرث اپنے قبیلہ کے بعض اور آدمیوں کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور دین سیکھنے اور حضور ﷺ کے فیض صحبت سے مستفید ہونے کی نیت سے قریبا بیس دن قیام کیا تھا، اپنی اس روایت میں انہوں نے حضور ﷺ کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے وہ غالبا اس وقت کا ہے جب وطن واپس جانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو رخصت فرمایا تھا۔ اس میں آپ ﷺ نے ان کو دو ہدایتیں فرمائی تھیں ایک یہ کہ سفر میں بھی نماز کے لیے اذان و اقامت کا اہتمام کیا جائے، اور دوسری یہ کہ جو بڑا ہو وہ امامت کرے، چونکہ دین اور علم دین کے لحاظ سے یہ اور ان کے ساتھی بظاہر برابر تھے، کسی کو دوسرے کے مقابلے میں کوئی خاص فضیلت اور فوقیت حاصل نہیں تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ تم میں عمر کے لحاظ سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے اور ایسی صورت میں یہی اصول اور مسئلہ ہے۔
حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان اور اقامت کے کلمات کو دودو مرتبہ کہا کرتے تھے۔ یعنی اذان کی طرح اقامت بھی دو دو کلمات ہیں ، ایک حدیثِ مبارک میں صاف وضاحت ہے کہ اقامت کے کلمات سترہ ہیں ۔
جماعت قائم ہونے سے پہلے ایک شخص مدھم (آہستہ) آواز سے جلد از جلد اذان کے الفاظ پڑھتا ہے اور اسی کو اقامت اور تکبیر کہتے ہیں ۔ اورتکبیر یعنی اقامت کہنے والے کو مکبر کہتے ہیں ۔
اذان اور اقامت کہنے میں یہ فرق ملحوظ ہوتے ہیں :
٭ اذان ٹھہر ٹھہر کر جبکہ اقامت جلدی جلدی کہی جاتی ہے۔
٭ اذان میں ہر جملہ الگ الگ جبکہ اقامت میں دو دو جملے ملا کر پڑھے جاتے ہیں اور ہر جملے کے آخری حرف کو سکون یعنی جزم کے ساتھ وقف کیے بغیر پڑھا جائے گا۔ اوراذان میں کانوں کے سوراخوں میں انگلیاں رکھتے ہیں اقامت میں نہیں ، اذان بلند جگہ اور مسجد سے باہر کہی جاتی ہے۔ اقامت جماعت کی جگہ صف کے اندر، نماز سے ملی ہوئی، امام کے دائیں یا بائیں کہی جاتی ہے اقامت کے کلمات بعینہٖ اذان کے کلمات کی طرح ہیں البتہ صرف ”حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ“ کے بعد ”قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰةُ “کا اضافہ کیاجاتاہے۔ جس مطلب یہ ہے کہ (نماز قائم ہو چکی نماز قائم ہو چکی)۔
اور تکبیر کہنے کا حق موذن یعنی جس نے اذان کہی اگر وہ موجود ہو تو تکبیر بھی اسی کا حق ہے ہاں اس کی اجازت سے دوسرا کہہ سکتا ہے اور اگر وہ موجود نہیں تو جو چاہے ، اقامت کہہ لے۔
زیاد بن حارث صدائی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ تم اذان پڑھو میں نے اذان پڑھی۔ اس کے بعد جب اقامت کہنے کا وقت آیا تو بلال نے ارادہ کیا کہ اقامت وہ کہیں تو حضور ﷺ نے (میرے متعلق) فرمایا کہ اس صدائی نے اذان پڑھی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جو اذان پڑھے وہی اقامت کہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)
اقامت کے شروع ہی سے امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہوجانا چاہیے ؛ تاکہ نماز شروع ہونے سے پہلے صفیں سیدھی ہوجائیں ، اگر چہ بعض روایات میں “حی علی الصلوٰۃ” کے وقت بھی کھڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے ، لیکن اول الذکر صورت زیادہ بہتر ہے،
عبد الرزاق نے ابن جریج سے، اور ابن جریج نے ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام موٴذن کے “اللہ اکبر” کہتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، یہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ساری صفیں درست ہوجایا کرتی تھیں ۔ (فتح الباری ۲: ۱۵۸)۔
اور علامہ سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ نے در مختار کے حاشیہ میں فرمایا:
ہمارے فقہائے کرام نے یہ جو فرمایا ہے کہ امام اور لوگ حي علی الفلاح پر کھڑے ہوں ، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بیٹھے نہ رہیں ، یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے نہ ہوں ؛ لہٰذا اس سے پہلے کھڑے ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (حاشیہ در مختار ۱: ۲۱۵ مطبوعہ مکتبہ اتحاد دیوبند)؛ بلکہ بہتر ہے، تاکہ پہلے سے لوگ نماز کے لیے تیار ہوجائیں اور صفیں بھی درست ہوجائیں ؛ کیوں کہ نماز میں صفیں سیدھی رکھنا نہایت اہم ؛بلکہ سنت موٴکدہ ہے، احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ (دیکھیے : مشکاۃ شریف، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف ۹۷ – ۹۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
اور امام محمدرحمہ اللہ نے اپنی کتاب: کتاب الصلاۃ میں فرمایا:
میں نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے دریافت کیاکہ ایک شخص نماز کے لیے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب مکبر حي علی الفلاح کہتا ہے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لا حرج،
کچھ حرج نہیں ۔
پھر دریافت کیا کہ ایک شخص شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجاتا ہے تب بھی یہی ارشاد فرمایا:
لا حرج،
کچھ حرج نہیں
اقامت کا جواب بھی اسی طرح ہے جیسے اذان کا، ہاں اس میں قدقامت الصلٰوۃکے جواب میں یہ کلمہ کہے :
اقامھا اللہ و ا دا مھا اللہ
اس کو قائم اور ہمیشہ رکھے۔
سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔
احادیثِ مقدسہ کے ذخیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کے اوقات میں دعا رد نہیں ہوتی، اذان کے فورًا بعد دعا کا اہتمام کر لیا کریں ؛ کیوں کہ محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت دعا کا رد نہ ہونا اس وقت کی عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے اور اس وقت کی عظمت اور شرافت کی وجہ سے ہے۔ پس جس شخص کو (اس وقت) دعا کرنے کی توفیق نصیب ہوگئی تو درحقیقت اس کے ساتھ خیر کاا اور قبولیت کا ارادہ کیا گیا ہے۔ آذان اور اقامت کے درمیان دعاکرنا اس ليے مستحب ہے کیونکہ انسان جب تک نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے، تو وہ نماز ہی میں رہتا ہے اور نماز دعا کی قبولیت کی جگہ ہے کیونکہ اس میں بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ اس وقت خوب دعا کریں ۔