نماز کا بیان – سبق نمبر 3:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ:
لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا إِلَّا أَنْ یَسْتَهِمُوْا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوْا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر لوگ جانتے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کیا (فضیلت)ہے اور پھر قرعہ اندازی کے بغیر(یہ سعادت) حاصل نہ کر سکتے تو قرعہ اندازی کرتے۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اذان کب شروع ہوئی اور اسکا سبب؟اذان ہجرت کے پہلے سال شروع ہوئی، اور اسکا سبب یہ ہے جب اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ کوئی ایسی نشانی رکھی جائے جس کی وجہ سے سارے لوگ نماز کا وقت پہچان سکیں ۔ تو مسلمانوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا تو رات کوسیدنا حضرت عبداللہ بن زیدرضي الله تعالیٰ عنہ نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا جس نے گھنٹی اُٹھائی ہوئی تھی تو حضرت عبداللہ بن زید رضي الله تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کو کہا یہ ناقوس مجھے بیچ دو۔ [ ناقوس: گھنٹی کو کہتے ہیں ]
تو اُس آدمی نے کہا آپ اسکا کیا کرو گے تو حضرت عبداللہ رضي الله تعالیٰ عنہ نے کہا ہم اسکے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف بُلائیں گے۔ اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں آپکو اس سے بہتر چیز کی طرف رہنمائی نہ کروں؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیوں نہیں! پس اُس نے معروف اذان اور اقامت سکھلا دی۔ [ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے ]
حضرت عبداللہ رضي الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ!ﷺ کے پاس آیا اور جو میں نے دیکھا تھا اسکی خبر دی۔ رسول اللہ نے فرمایا “بے شک وہ سچا خواب ہے۔ اگر اللہ نے چاہا۔ پس بلال کے ساتھ کھڑا ہو جا اور اسے یہ کلمات سکھا۔ بے شک وہ تجھ سے زیادہ بلند آواز والا ہے “۔ [ اس حدیث کو امام ابو داؤدنے روایت کیا ہے ]
اذان کی حکمت:
1۔ نماز کے وقت کے داخل ہونے کا اور اُسکی جماعت کی جگہ کا اعلان کرنا۔
2۔ جماعت کی نماز پر اُبھارنا۔
3۔ غفلت کرنے والوں کوتنبیہ کرنا، بھولے ہوؤں کونماز کی ادائیگی یاد دلانا جواللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔
’’اذان‘‘ لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کے لئے چند مخصوص الفاظ کے دہرانے کو ’’اذان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر نماز کا وقت آنے پر نماز کے لیے ایک خاص قسم کا اعلان کیا جاتا ہے۔ تاکہ نماز ی آدمی مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی تیاری کریں ، اسے اذان کہتے ہیں ۔
اِس میں شک نہیں کہ ’’اذان‘‘ اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین اور ایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتاہے ، لوگوں کو کامیابی و کامرانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ اوراذان اسلام کا شعار ہے، اس کی اہمیت اور عظمت مسلم ہے، اور مؤذن کا بھی بہت اونچا مقام ہے، احادیث میں مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں بہت ساری روایتیں وارد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ’’اذان‘‘ دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات بہ کثرت وارد ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ ’’مؤذن‘‘ ہوں گے۔ (صحیح مسلم)
مُؤَذِّن، جو شخص مسلمانوں کے نماز کا وقت داخل ہونے پر اذان دیتا ہے مؤذن کہلاتا ہے۔ تاکہ موذن مسلمانوں کو نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف متوجہ کرسکے۔ اسلامی تعلیمات میں اذان دینے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسلامی مآخذ میں اس کام کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
’’مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں ۔ پچیس (۲۵) نمازوں کا ثواب (اُس کے زائد اعمال میں) اُس کے لئے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ ‘‘(احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الصلوٰۃ‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الفلاح‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولاقوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ایک شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ‘‘(صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں دس مرتبہ اُس پررحمت نازل فرماتا ہے، پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لئے (اللہ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعاء کرو! ’’وسیلہ‘‘ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لئے وسیلہ کی دُعاء کرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
’’قیامت کے دن تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے، اور دوسرا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ پانچ نمازوں کے لئے اذان کہتا ہو۔ ‘‘(جامع ترمذی)
مؤذن جس طرح اذ۱ن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کا ترانہ گاتا ہے، اسی طرح کا اس کو اجر بھی رب العزت مرحمت فرمائیں گے کہ قیامت کے دن یہ تمام پر بلند ہوگا، اس کو امتیازی شان حاصل ہوگی، اور وہ ساری کائنات جس نے اس کی آواز سن لی ہے، اس کے حق میں گواہی دے گی۔ یہ وہ اجر ہے جو حدیثوں میں مذکور ہے، احادیث میں بعض فضیلت پنچ وقتہ نمازوں کے لیے اذان دینے کے ساتھ خاص ہیں ، اور بعض ایک معتد بہ وقت تک مستقل اذان دینے کے لیے، لیکن باقی دیگر احادیث مطلقاً اذان دینے والے کی فضیلت میں وارد ہیں ، جیساکہ آپ نے اوپر اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائی ہے، لہذا اللہ کی رضا کے لیے جو اذانیں دی گئی ہیں قیامت میں اس کا اجر اور اذان دینے والے سے متعلق جو فضیلتیں وارد ہیں ان شاء اللہ اذان دینے والے کو وہ فضیلتیں حاصل ہوں گی، البتہ جو فضیلت ایک خاص وقت (مثلاً سات سال) تک اذان دینے کی ہے ازروئے حدیث وہ اسی مقررہ وقت تک اذان دینے کی صورت میں حاصل ہوگی، لہذا جب بھی موقع ملے یہ سعادت حاصل کرتے رہناچاہیے۔
الغرض! اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بہ کثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کے لئے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیروں میں جاکر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں ، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام پانچ مرتبہ نماز کی طرف اور کامیابی و کامرانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔