جماعت سے پہلے جماعت کرنا؟

سوال: حضرت ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے کہیں پر چلے گئے اور نمازی حضرات جو ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے ہیں اور وہ اپنی اپنی نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں. پھر بعد میں جب امام صاحب آئے تو پتہ چلا کہ ابھی جماعت نہیں ہوئی ہے تو ایک دو آدمی اور بھی تھے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی تو جو مسجد میں امام کی جگہ ہے تو اس جگہ پر اس وقت جماعت کرسکتے ہیں کہ نہیں
ذرا مدلل وبحوالہ جواب عنایت فرمائے مہربانی عظیم ہوگی مفتیان عظام صاحب

الجواب: چونکہ ابھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہیں ہوئی ھے اس لئے امام کے آنے پر اور چند لوگ کے ساتھ مل کر امامت کی جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں
اس لئے کہ اب تک جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی گئی ھے، جماعت ثانیہ مکروہ ھے اور وہ یہاں پائی نہیں گئی ھے
جی ہاں جماعت کرواسکتے ہیں
قال ابن عابدین: (قوله: وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه أن رسول اللہ – صلى اللہ عليه وسلم – خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول اللہ – صلى اللہ عليه وسلم – في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة، ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس ” أن أصحاب رسول اللہ – صلى اللہ عليه وسلم – كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى “؛ ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون فتكثر وإلا تأخروا. اهـ. بدائع. وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى أهله فيه فإنهم يصلون وحدانا، وهو ظاهر الرواية ظهيرية. وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار وإلا فلا. وعن أبي يوسف إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية. اهـ. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ وسيأتي في باب الإمامة إن شاء اللہ تعالى لهذه المسألة زيادة كلام.(قوله: إلا في مسجد على طريق) هو ما ليس له إمام ومؤذن راتب فلا يكره التكرار فيه بأذان وإقامة، بل هو الأفضل خانية.
(رد المحتار علی الدر المختار)