بڑے شہروں میں سفر کی حدود


اس زمانہ میں جبکہ آبادی کی حد بہت بڑھ گئ ھے تو مسافر کے گھر سے نکلنے کے بعد قصر نماز کی ابتداء کرنے کے لئے فنائے شہر سے تجاوز کی شرط لگائی جاتی ھے
تو اب پوچھنا یہ ھے کہ شہروں میں آبادی اور فناء سے تجاوز کرنے کی حد کیا ھوگی جہاں سے مسافر قصر نماز پڑھ سکے؟
مدلل جواب دیکر ممنون و مشکور ھوں.
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
ولا یعتبر مجاوزۃ الفناء الا اذاکان بینہ وبین المصر اقل من غلوۃ ولیس بینہما من مزرعۃٍ اوکانت القریٰ متصلاً بربض المصریعتبرحینئذ مجاوزۃ الفناء (مجاوزۃ) القریۃ (بزاز یۃ مع الہندیۃ، ص:۷۱)
(۳) وظاہر کلام المصنف انہ لایشترط مجاوزۃ القریۃ المتصلۃ بربض المصر وفیہ اختلاف وظاہر المجتبی ترجیح عدم الاشتراط وہو الذی یفید کلام اصحاب المتون(البحرالرائق،ج:۱،ص:۱۲۹)
(۴) ویشترط ان یکون قدجاوز ایضاً۔ ما اتصل بہ ای بمقامہٖ الی قولہ وان انفصل الفنابمزرعۃ اوقضاء قدر غلوۃ لا یشترط مجاوزۃ الفناء(مراقی الفلاح مع الطحطاوی،ص:۲۳۰)
(۵) اورالبحرالرائق میں ہے:ویقال لحرم المسجد ربضاً ایضًا (البحرالرائق، ج:۲، ص:۱۲۹)
ان عبارتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جن بڑے شہروں میں میلہا میل تک مسلسل محلے اور آبادیاں پھیلی ہوئی ہوں جیسے بمبئی کلکتہ وغیرہ ان شہروں میں جب کوئی شخص موجود ہ کیلومیٹر کے حساب سے سواستہتر کلومیٹر یااس سے بھی زیادہ مسافت تک جانے کی نیت سے اپنے مقام سے چلے تو اس شہر کے تمام محلوںاور آبادیوں کے باہر جانے کے بعد بھی قصر شروع کرنے کا یہ حکم دینا صحیح نہ ہوگا مزاج شرع وشارح علیہ السلام کے خلاف ہوگا بلکہ ایسے شہروں میں حکم شرع ان عبارات فقہیہ کی روسے یہ ہوگا کہ اگر ایسے محلہ اور آبادی سے متصل اس کا فناء یا ربضہ ہوں تواس فناء یا ربضہ سے باہر نکلنے کے بعد مسافر شمار ہوجائے گا۔ اور اگر اس آبادی سے اس کا فناء یاربضہ متصل نہ ہوتو اس محلہ کی آبادی سے باہر نکلتے ہی مسافر شمار ہوکر اس پر قصر فی الصلوٰۃ کا حکم متوجہ ہوجائے گا——-
از نظام الفتاوی
العبد محمد اسلامپوری
…………
سوال: (۱) میں تبلیغی جماعت میں گیا اور بمبئی کھار کے علاقہ میں جماعت نے کام شروع کیا، مسئلہ یہ ہے کہ کسی شہر میں پندرہ روز کی نیت سے ٹھہرے تو مقیم ہوجاتا ہے تو پوری نماز پڑھنا ہوگی اور جماعت کے امیر کا کہنا تھا کہ
قصر کرے گا۔ مرکز سے متعین کردیاگیا کہ جماعت جو گیشوری اور ملاڈ کام کریں گی جو گیشوری اور ملاڈ میں بہت سے محلے ہیں یہ محلے قائم مقام گائوں کے ہیں اس لیے قصر کریں گے۔ امر طلب یہ ہے کہ بمبئی جیسے شہر میں جب کہ ایک چلہ کی نیت سے ٹھہرے تو نماز قصر کرنی ہوگی یا پوری پڑھنی ہوگی جب کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ ٹھہرنا ہے۔
جواب: بڑے شہر وں کے بڑے بڑے حصے اپنی وسعت وفاصلہ کی وجہ سے الگ الگ شہر اور قریہ کے حکم میں ہوتے ہیں اس حکم پر مسائل سفر کا مدار ہوگا لہٰذا اگر شہر کے  ایک ہی محلہ میں پورے پندرہ دن اقامت کی نیت ہے تو وہ مقیم شمار ہوگا اور اپنی نمازیں پوری پڑھے گا اور اگر ایک محلہ میں ٹھہرنے کی نیت نہیں ہے بلکہ مختلف محلوں میں قیام کا ارادہ ہے تو اس صورت میں وہ مسافر ہی رہے گا اور قصر کرے گا۔
لایزال علی حکم السفر حتی ینویَ الاقامۃ فی بلدۃ اوقریۃ خمسۃ عشریوما اواکثر وان نویٰ اقل من ذلک قصر (ہدایہ باب صلوٰۃ المسافر )
نظام الفتاوی
……
✮محمد عبد اللہ✮ shaikh:
وطن اصلی کی تعریف میں کہا جاتا ھے کہ جہاں اس کی پیدایش ھوئی ھو یا اس جگہ اس نے نکاح کیا ھو
تو اب پوچھنا یہ ھے کہ وطن اصلی  بننے کے لئے صرف نکاح ھی کافی ھے یا نکاح کے ساتھ ساتھ اس جگہ بیوی بچوں کا ھونا ضروری ھے ؟
باحوالہ جواب دیں،
وفی فتح القدیر وطن اصلی وھومولدالانسان اوموضع تاھل بہ ومن قصدہ التعیش بہ لاالارتحال