ترغیب الصلوٰۃ


قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ zالَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلٰوتِہِمْ خٰشِعُوْنَ
بلاشبہ کامل ایمان وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں
تمہید:۔
حضرات مضمون نہایت اہم ہے اس لئے کہ جس عبادت کا ذکر اس وقت مقصود ہے ،اس کا درجہ رئیس العبادت کا ہے یہی عبادت مومن اورکافر کے درمیان امتیاز کرنے والی ہے ،اسی سے مسلمان کو دونوں جہانوں کی سرفرازی حاصل ہوتی ہے اور اسی سے انسان مراتب عالیہ پر فائز ہوتا ہے۔
ایمان اگر مضبوط ہوتو بغیر نماز کے چارہ کار نہیں رہتا کامل ایمان انسا ن کا دل نماز اور مسجد سے معلق رہتا ہے نمازی نماز میں ایک عجیب قسم کی فرحت محسوس کرتا ہے اگر نماز قضاء ہونے لگے تو طبیعت بے ذوق ہونے لگتی ہے اس لئے حبیب کبریا ؐ نے فرمایا ہے۔
قرۃ عینی فی الصلوٰۃ
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے
حضرت ؐکا دوسرا ارشاد :۔
الصلوٰۃ عماد الدین من اقامہافقد اقام الدین ومن ترکہا فقد ہدم الدین (مشکوٰۃ )
نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو چھوڑ دیا پس اس نے دین کو گرادیا۔
جس طرح ستون پر مکان کی چھت کا مدار ہوتا ہے اسی طرح دین کے مکان کا مدار نماز پر ہے۔
متقین کی صفات سے ایک صفت نماز کا ادا کرنا بھی ہے :۔
اآمآzذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَzالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمْوْن الصَّلٰوۃَ وَمِمَّارَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ(پ ۱)
یہ وہ کتا ب ہے جس میں شک نہیں ہے متقین کے لئے رہنما ہے متقین وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ساتھ غیب کے اور قائم کرتے ہیں نمازکو اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔
نماز میں سستی کرنے والا جہنم کی ہولناک وادی میں ڈالا جائے گا :۔
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنzَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاٰتِہِمْ سَاہْوْنَ (پارہ ۳۰)
پس عذاب ہے ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی نمازوں میں سستی کرتے ہیں ۔
ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے جس سے تمام وادیاں پنا ہ مانگتی ہیں اس شدید ترین وادی میں نماز میں سستی کرنے والے ڈالے جائیں گے ۔رہے تارکین صلوٰۃ وہ اپنا انجام خود سوچ لیں کہ ان کے ساتھ قیامت کے روز کیا برتاؤ ہوگا ۔
اس دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بلایا جائے گا اور حکم دیا جائے گا کہ سب کے سب سربسجود ہوجائیں پس نمازی تو سجدوں میں گر جائیں گے لیکن بے نمازوں کی پیٹھ تختے کی طرح بن جائے گی جس کی وجہ سے وہ جھک نہیں سکیں گے تو خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے کہ جہنم کے گرزوں سے ان کی پیٹھ پر مارا جائے
اب قیامت کا دن کتنے برس کا ہوگا اس کا جواب قرآنی آیت سے سنئیے
کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ(پ۲۹)
قیامت کی مقدار پچاس ہزار برس ہوگی۔
پچاس ہزار برس جسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے فرمایئے اس کی کس قدر بری حالت ہوگی؟
آسانی ہی آسانی :۔
اگر ایک انسان کھڑا ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتاتو شریعت اجازت دیتی ہے کہ بیٹھ کر نماز ادا کرے اگر خدانخواستہ بیٹھ کر بھی ادا نہیں کرسکتا تو لیٹ کر سہی ،رہا رکوع وسجدہ تو وہ دونوں سرکے اشاروں سے ادا ہوجائیں گے اگر پانی ملنا مشکل ہے تو تیمم کی اجازت موجود ہے
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْامَآءً فَتَیَمَّمُوْاصَعِیْدًاطَیِّبًا(پ ۵)
پس اگر تم نہ پاؤ پانی کو تو تیمم کرلو پاک مٹی پر
نہ سر کے مسح کی ضرورت اور نہ مضمضہ اور استنشاق کا فکر بس آ�ؤتیمم کرو اور نماز میں مشغول ہوجاؤ فارغ ہونے کے بعد تم خدا کے ہوگئے اور خداتعالیٰ تمہار اہوگیا۔
تم کو شکوہ ہے ہمارا مدعا ملتانہیں
دینے والے کو گلا یہ ہے گدا ملتا نہیں
بے نیازی دیکھ کر بندے کی کہتا ہے کریم
دینے والا دے کسے دست دعا ملتا نہیں
بدنصیب اور بدقسمت انسان :۔
اولاد کی محبت کا مرکز والدین کا دل ہوتا ہے اور والدین کا قلب اولاد کے جسم کے ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح جکڑا ہوا ہوتا ہے خوش قسمت ہیں وہ بچے جس کے والدین باہر سے آئیں تو ان کے لئے جیبیں مٹھائیوں سے بھر کر لائیں جب مٹھائی سارے بچوں میں تقسیم کردی جاتی ہے اور سارے بچے قبول کرلیتے ہیں ان میں سے ایک بچہ قبول نہیں کرتا۔
والد منت سماجت کرتا ہے بھائی کوشش کرتے ہیں لیکن بچہ ہے کہ نہیں مانتا جب والد ہ کو پتہ چلتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ پہلے دن کا بدقسمت ہے جب بھی کبھی اس کے لئے اچھی چیز لائی گئی ہے اس نے قبول نہیں کی ہے۔
حضرات :۔
اگر والد بچے کے لئے مٹھائی لائے اور وہ قبول نہ کرے تو بدقسمت ہے لیکن بارگاہ ربوبیت سے حضور علیہ السلام امت کے لئے نماز کا تحفہ بطور شیرینی کے لائیں اور امت نماز کی طرف تو جہ نہ دے اور قبول نہ کرے تو اس کی بدقسمتی کا خود اندازہ لگالیجئے؟
اسی طرح حرام خور کہا جاتا ہے اس پہرے دار کو جو باوقت پہرہ دینے کے لئے حاضر نہ ہو حالانکہ ساٹھ روپے محض اس لئے مقرر کیئے گئے تھے ۔فرمایئے جو ساٹھ روپے لے کر حاضری نہ دے وہ توحرام خور ٹھہرا اور جو پروردگار عالم کی ساری نعمتیں کھا کر چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت بھی خدا تعالیٰ کے دربار میں باقاعدہ حاضری نہ دے وہ کیسے حلال خورکہلایا جاسکتا ہے؟
چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ :۔
آپ ساری رات آرام کیجئے صبح کے وقت وضو کرکے دس منٹ نما زصبح کے لئے وقف فرمایئے پھر دوپہر تک اپنا کام کیجئے ،سایہ ڈھلے تودربارر بوبیت میں حاضری دیجئے ، اب پندرہ منٹ میں نماز ظہر ادا کیجئے فارغ ہوکر اپنا کام ختم کرکے عصر کے لئے مسجد میں تشریف لائیے صرف پانچ منٹ لگایئے اورواپس چلے جایئے۔ شام کے کھانے کا انتظام کیجئے اب سورج غروب ہورہا ہے رات کا اندھیرا افق عالم پر چھا رہا ہے اب صرف پندرہ منٹ دربارالہی میں آکر سینے کو نورالہٰی سے منور کیجئے اورچلے جائیے روٹی کھا کر خداتعالیٰ سے آخری ملاقات کیجئے اورکچھ معروضات دربار قدوسیت میں پیش کیجئے۔ ہوسکتا ہے کل تک زندگی ساتھ نہ دے صرف بیس منٹ لگا کر رضائے خدا حاصل کیجئے اب آپ پر خدا تعالیٰ کی رحمت موسلادھار بارش کی طرح برسنے لگے گی
خداتعالیٰ آپ سے چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ لینا چاہتا ہے اور وہ بھی مسلسل نہیں پانچ منٹ کسی وقت دے دو دس منٹ کسی وقت پندرہ منٹ کسی وقت ،بس اللہ آپ پر راضی ہوگا آپ خدا تعالیٰ پر
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہر و منزل ہی نہیں
نماز جہاد کے میدان میں بھی معاف نہیں ہے :۔
وَاِذَاکُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْآاَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَاسَجَدُوْافَلْیَکُوْنُوْامِنْ وَّرَآءِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخُرٰی لَمْ یُصَلُّوْافَلْیُصَلُّوْامَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْاحِذْرَہُمْ وَاَسْلِحَتَہُمْz (النسا ء)
اور جوآپ ان میں ہوں پس قائم کی ہے آپ نے ان کے لئے نماز پس چاہیئے کھڑا ہوجائے ان میں سے آپ کے ساتھ اور لے لے اپنے ہتھیار پس جب سجدہ کرچکیں پس وہ چلے جائیں اور آجائے دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی پس وہ پڑھیں آپ کے ساتھ اورچاہیئے کہ لے لیں اپنا سامان اور ہتھیار ۔
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں
نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
صاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
خداوندی پیغام بندگان خدا کے نام :۔
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُقِیْمُوالصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْامِمَّارَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّابَیْعٌ فِیْہِ وَلَاخِلٰلٌ z
فرمادیجئے میرے ایمان دار بندوں کو کہ قائم کریں نماز اور ہمارے دیئے ہوئے سے خفیہ اور ظاہر خرچ کریں اس دن سے پہلے جب کہ نہ بیع ہوگی اور نہ دوستی ۔
برائیوں سے روکنے کا علاج :۔
آج دنیا برائیوں سے رکنے کے لئے نسخے تلاش کررہی ہے حالانکہ خداتعالیٰ کا بتایا ہو نسخہ اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
اُتْلُ مَآاُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَتَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِz (پ ۲۱)
اے محمد مصطفی ا پڑھتے رہیئے جوکہ نازل کی گئی آپ کی طرف کتاب اور قائم کرتے رہو نماز کیونکہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
خلفاء اربعہ کی نمازیں
صدیق اکبرؓ کی نماز :۔
جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک لکڑی گڑی ہوئی ہے۔ (تاریخ الخلفاء )

فاروق اعظمؓ کی نماز :۔
جب آپ کو خنجر ماراگیا، اور آپ کے جسم مبارک سے خون بہنے لگا او رآپ کو اطلاع دی گئی تو فورًا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔
حضرت عثمان غنیؓ کی نماز :۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام رات جاگتے اور ایک رکعت میں پورا قرآن پاک ختم کرلیتے ۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کی نماز :۔
جب نماز کا وقت آتاتو آپ کے وجود پر کپکپی سی طاری ہوجاتی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا امانت خداوندی کے بوجھ کی ہیبت سے۔
نما زمیں محویت :۔
حضور علیہ السلام ایک جنگ سے واپس تشریف لارہے تھے ،اورایک جگہ رات کو قیام فرمایا آپ ا نے دریافت کیا کہ آج کی رات چوکیداری کون کرے گا؟ پس ایک مہاجر اور ایک انصاری نے عرض کیا یا حضرت ؐ ہم دونوں مل کر یہ ڈیوٹی ادا کریں گے۔
آپ ا ایک پہاڑی پر چڑھ گئے ،جہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہوسکتا تھا اور بتا دیا کہ اس جگہ دونوں تعینات ہوجاؤ،بفرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں وہاں تشریف لے گئے جب وہاں پہنچے تو انصاری نے مہاجر سے کہا۔
انصاری :۔
مہاجر بھائی ،اگر تیرا خیال ہو تو رات کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا جائے ،رات کا پہلا حصہ میں جاگتا ہوں اور تو سوجا ،اور رات کے دوسرے حصے میں میں سو جاؤ ں گا اور تو جاگتے رہنا ۔
مہاجر :۔
میں آپ کا ہر ارشاد ماننے کے لئے تیار ہوں۔
انصاری :۔
اس طریقے سے ساری رات جاگنے سے حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر بھی تعمیل ہوجائے گی اور کسی کے لئے بارگراں بھی نہ ہوگا۔
مہاجر :۔
بہت اچھامیں آپ کے حکم کے مطابق سوجاتا ہوں اورآپ جاگتے رہیئے اور اگر خدا نخواستہ کوئی خطرہ لاحق ہوتو مجھے فورًا جگالینا۔
چنانچہ انصاری حسب مشورہ جاگنے بیٹھ گیا اور مہاجر سو گیا ،اب انصاری نے سوچا کہ جاگنا تو ویسے ہی ہے ،نماز کی نیت کیوں نہ باندھ لوں اس طریقے سے پرور دگار عالم کے دربار میں حاضری بھی رہیگی اور جاگتا بھی رہوں گا پس نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے،
تھوڑی دیر کے بعد دشمن کی طرف سے ایک آدمی آیا اور اس نے تیر مارنا شروع کیا ،تیر بدن میں گھستا گیا اور انصاری نکال نکال کر پھینکتا گیا اور نہایت اطمینان کے ساتھ رکوع کیا ،سجدہ کیا ،جب نماز پوری ہوگئی تو ساتھی کو جگایا دشمن دو انسانوں کی آواز سن کر بھاگ گیا کہ نظر تو دو آرہے ہیں خدا جانے ان کی امداد کے لئے اور کتنے باقی ہوں گے۔
جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ مقامات سے خون بہہ رہا ہے۔
مہاجر :۔
(انصاری )سے آپ نے مجھے جگا کیوں نہ لیا؟
انصاری :۔
میں اس وقت قرآن مجید اور نماز کی لذت میں مسرور تھا میرا دل نہ چاہتا تھا کہ نماز اور قرآن کو چھوڑ کر آپ کی طرف متوجہ ہوجاتا ۔
حضرات :۔
یہ تھیں ان لوگوں کی نمازیں جن کی لذت میں ان کو اپنی جان کی بھی پرواہ نہ رہی ۔
نماز مؤمنوں کے لئے معراج ہے :۔
معراج کی شب حضور علیہ السلام کو حسب ذیل چیزیں نصیب ہوئیں ،قرب الہٰی ، انوار الہٰی ، پرو ر دگار عالم سے کلام وتخاطب۔
نمازی جب نماز میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کا روئے خطاب بغیر ذات خداوندی کے اور کسی سے نہیں ہوتا۔
(۱)۔۔۔جب نمازی الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو پرور دگار عالم فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں حمدنی عبدی میرا بندہ میری حمد کررہا ہے ۔
(۲)۔۔۔جب نمازی الرحمن الرحیم ملک یوم الدین کہتا ہے تو پرور دگار عالم فرماتے ہیں مجدنی عبدی میر ابندہ میری بزرگی بیان کررہا ہے
(۳)۔۔۔ جب نمازی ایاک نعبد وایاک نستعین کہتا ہے توخداتعالیٰ فرماتے ہیں ہذابینی وبین عبدی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے یعنی وہ عابد ہے تو میں معبود ہوں وہ ساجد ہے تو میں مسجود ہوں
(۴) ۔۔۔جب نمازی اھد نالصراط المستقیم کہتا ہے تو آواز آتی ہے لک ماساء لت جو کچھ تو نے مانگا ہے وہ تجھے دے دیا۔
نما زمیں رؤیت الہٰی :۔
جبریل امین ؑ نے انسان کی شکل میں متشکل ہو کرجہاں حضرتﷺ کے دربار میں اور چیزیں دریافت کیں وہاں احسان کے متعلق بھی دریافت کیا
ما الاحسان یارسول اللہ؟
یاحضرت ؐ احسان کیا چیز ہے ؟
آپ انے فرمایا
ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
خدا تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرے گویا کہ تو خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اگر تواسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔
نما زمیں قرب الہٰی :۔
قرب کا اندازہ تو اس سے لگائیے کہ خداتعالیٰ کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ عابد معبود کے درمیان میں سے کوئی شخص گزر جائے
وہ جس کی دید کو موسیٰ عمر بھر ترسے
اور ارماں بن کے قطرے سے دیدہ یعقوب برسے
نماز آئی کہ معراج امت مرحوم نے پائی
تجلی طور کی ہردید محروم نے پائی
بہرحال نماز مسلمان اور کافر کے درمیان فارق ہے اسی لئے حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الفرق بین العبد والکفر ترک الصلوٰۃ من ترک الصلوٰۃ متعمد ا فقد کفر۔
بندے اور منکر کے درمیان فارق نماز ہے جس نے نماز کو دیدہ دانستہ چھوڑ دیا اس نے عملی طور پر کفر کا ارتکاب کیا ۔
ان دو حدیثوں سے روز روشن کی طرح یہی مستناد ہوتا ہے کہ نماز ایک اہم فریضہ ہے اس کا ادا کرنا ایمانداری کا ثبوت ہے اور اس کا ترک کردینا اور ادا نہ کرنا علامت کفر ہے
خداتعالیٰ ہم سب کو نمازی بنائے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین