عید قرباں؛ چند گزارشات

سب سے پہلے آپ میری طرف سے عیدِ قرباں کی مبارک باد قبول فرمائیں، عید کے یہ ایام آپ کے مستقبل کی مسرتوں کے لیے مضبوط بنیاد ثابت ہوں، میں بہت خوش ہوں، آپ بھی بہت مسرور ہیں، خدا کرے کہ شادمانی کی یہ بادِ بہاری ہم سب کی یوں ہی قدم بوس رہے۔۔۔

یہ بقرعید بھی ہے اور عید الاضحیٰ بھی:

آگے بڑھنے سے پہلے عوام کی غلط فہمی کے ازالے کے لئے یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ عید قرباں کے کئی نام ہیں، یہ نام دراصل وجہِ تسمیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، احادیث میں اسے عیدالاضحیٰ کہا گیا ہے، اسی کا ترجمہ “عیدِ قرباں” ہے، کسی دور میں ہندوستان میں اس عید کے موقع پر “گائے” کی قربانی ہی بیش تر ہوتی، اسی لئے اس کو “بقرعید” بھی کہا گیا، بقر کے معنیٰ گائے، بیل کے ہیں، یعنی گائے بیل کی قربانی والی عید ۔۔۔ بعض لوگ اسے بگاڑ کر “بکرا عید” کہتے ہیں، عرفاٗ یہ غلط ہے، اگرچہ اس اصطلاح کے تلفظ میں شرعاً کوئی خرابی نہیں، مگر دیکھا جائے تو یہ بقرعید کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے، اس لئے “بکراعید” کا املا بظاہر نادرست ہے ۔۔۔

عیدِ قرباں کی اہمیت

عیدِ قرباں کی فضیلت و اہمیت عام اور آشکار ہے، پہلی بات تو یہ کہ یہ ہمارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، معلوم ہے کہ ہمارا مذہب “ملتِ ابراہیمی” بھی کہلاتا ہے، پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اس عید سے بھی بڑی محبت تھی اور نماز کے بعد بڑے اہتمام سے قربانیاں فرماتے، قربان شدہ جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی کا وعدہ خود زبانِ رسالت نے سنائی ہے، یہ جانور پل صراط پر سواری کا بھی کام دیں گے، قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ اللہ کو کوئی عمل اتنا پسند نہیں، یہ ایک ایسی عبادت ہے کہ آم کے آم بھی ہیں اور گٹھلیوں کے دام بھی، اسی کو کہتے ہیں: “ہم خرما و ہم ثواب”، عوامی زبان میں اسی کو “دونوں ہاتھوں میں لڈو” سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، مسلمان گوشت بھی کھاتے ہیں اور ثواب بھی پاتے ہیں، ان دنوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ مسلمان اللہ کا مہمان ہوتا ہے، ان دنوں میں مسلمانوں کو قبولیت کی معراج مل جاتی ہے۔۔۔

قربانی کا گوشت مہینوں کیلئے ذخیرہ نہ کریں

آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو قربانی جیسی عظیم عبادت ادا کرنے کی توفیق ملی، آپ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ عرض بھی ہے کہ آپ قربانی کا گوشت شریعت کے مطابق استعمال کریں، غریبوں کو کھلائیں، دوست احباب کو ہدیہ کریں اور خود بھی کھائیں، جدید دور میں ایک بڑی خرابی ذخیرہ اندوزی کی آگئی ہے، لوگ بڑے بڑے فریج میں گوشت کا ذخیرہ کرلیتے ہیں اور مہینوں چلاتے ہیں، اس عمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گوشت کی تقسیم اچھی طرح نہیں ہوئی، دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کھانے سے صحت پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے، تیسری بات یہ کہ بسا اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گوشت درازئ زمانہ کی وجہ سے سڑ گیا، جس کے نتیجے میں اسے پھینک دیا گیا، ہماری بہاری زبان میں اسی کو کہتے ہیں: نہ تو کو، نہ موکو، چولھے میں جھونکو۔۔ یعنی کسی کے کام نہ آسکا، لہذا گوشت کا ذخیرہ اتنا ہی کیا جائے جسے زیادہ سے زیادہ دو تین ہفتوں تک چلایا جاسکے، واقعہ یہ ہے کہ جب سے فریج آیا ہے مستحقین تک گوشت پہونچنا مشکل ہو گیا ہے۔۔۔

مووی نہ بنائیں،تصویر نہ کھینچیں:

عبادت کوئی بھی ہو، اخلاص چاہتی ہے، اخلاص کے بغیر بڑے سے بڑا عمل جھاگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قربانی کی سکت دی ہے تو پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ خون بہائیں، اس کی تصویریں نہ بنائیں، اس کا ویڈیو تیار نہ کریں، یہ ویسے بھی حرام ہے، عبادات کی تصویر کشی اخلاص نہ ہونے کو بتاتی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والے نے یہ عبادت بغرضِ نمائش کی ہے، یہ ریاکاری جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، آپ یہ عبادت بصد شوق انجام دیں، مگر تصویر کشی سے باز رہیں، یہ میری آپ سے مخلصانہ گزارش ہے۔۔۔

سوشل میڈیا پر قربانی کی تشہیر نہ کری

بعض احباب بہرحال تصویریں بنا ڈالتے ہیں، یہ ان کا عمل ہے، وہ جانیں، مگر ان سے اتنی گزارش ہے کہ ویڈیو اور تصویریں سوشل میڈیا پر ہر گز نہ ڈالیں، معلوم ہے کہ حالات خراب ہیں، اسلام دشمن طاقتیں معمولی معمولی باتوں کا بہانہ لے کر اسلام میں مداخلت کرنے لگی ہیں، طلاق کا مسئلہ بالکل تازہ قصہ ہے، گاے بیل پر پابندی بھی کوئی پرانی بات نہیں ہوئی، اگر آپ قربان شدہ ‘جانوروں’ کی تصویریں عام کریں گے تو فساد بھڑک اٹھنے کا خطرہ ہے، پھر “جس کی لاٹھی، اس کی بھینس” کا معاملہ پیش آسکتا ہے، ہم مسلمان “آ بیل مجھے مار! ” کا فارمولہ نہیں اپناتے، فتنوں سے حتی الامکان دور بھاگتے ہیں۔۔۔

دوسرے اسلامی ممالک سے بھی درخواست

اس کے ساتھ ہی دوسرے اسلامی ممالک کے باشندگان سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اپنے ذبیحے کی متحرک اور جامد تصویریں سوشل میڈیا پر ہرگز نہ ڈالیں، کام آپ کریں گے اور یہاں پریشانی ہمیں ہوگی، ہر مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کا خیال رکھنا چاہیے، ہم اپنے عمل سے دنیا کو یہ دکھادیں کہ ہمارے یہاں دل شکنی نہیں، دل جوئی ہے، ہم عبادت کرتے ہیں، کسی کو اذیت نہیں پہونچاتے۔۔۔

چرمِ قربانی سے مدارسِ اسلامیہ کی امداد فرمائیں

ایک گزارش اور آخری گزارش یہ بھی ہے کہ قربانی کی کھالیں مستحق مدارسِ اسلامیہ کو عطا فرمائیں، رمضان کے بعد مدارس کے استحکام کا دوسرا موقع عیدالاضحیٰ بھی ہے، آپ ان پر توجہ دیں، ان کے اساتذہ اور طلبہ آپ تک پہونچیں تو ان کی مدد فرمائیں، مدارس کی خدمت دین ہی کی خدمت ہے، آپ حتی الامکان ان کے دست و بازو بنیں، آپ کو عید قرباں کی ایک بار پھر مبارکباد ۔۔۔

علامہ فضیل احمد ناصری