تحیة المسجد کن اوقات میں پڑھنا ناجائز ہے؟کن صورتوں میں سلام ناجائز ہے؟


تحیة المسجد کن اوقات میں پڑھنا ناجائز ہے؟کن صورتوں میں سلام ناجائز ہے؟ Ruling on tahiyyat al-masjid and Salam
سوال: السلام علیکم، مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ تحیة المسجد کن اوقات میں پڑھنا ناجائز ہے؟
اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کن صورتوں میں سلام ناجائز ہے؟
براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: جب آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز تحیة المسجد کی نیت سے پڑھنا ثواب کا باعث ہے، حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے بشرطیکہ وقت مکروہ نہ ہو اورجماعت کھڑی نہ ہو۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/1305
…….
شامی
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=27&ID=978
………
(۱) نماز پڑھنے والے، تلاوت و ذکر کرنے والے، اذان دینے والے، پیشاب پاخانہ کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ (منع) ہے۔ تقریر ووعظ کہنے کی حالت میں علم دین کے مذاکرہ کرنے والوں کو بھی ایسی حالت میں سلام کرنا منع ہے۔
(۲) مسجد میں لوگ نماز تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں تو بلند آواز سے سلام کرنا جس سے نماز وتلاوت میں خلل ہو مکروہ ہے۔ وضو اور اذان وتلاوت کا بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ نمبر (۱) میں گذرا۔
(۳) مذکورہ کاموں میں مشغول لوگوں کو اگر کسی نے سلام کرلیا تو ان پر جواب دینا واجب نہیں ہے، جواب نہ دینے سے گناہ نہ ہوگا۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Rights–Etiquettes/20200
……….
علامہ علاء الدین الحصکفی رحمہ اللہ نے امام صدر الدین الغزی رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے کہ مندرجہ ذیل مواقع میں سلام کہنا مکروہ ہے:
سلامك مكروه على من ستسمع ومن بعد ما أبدي يسن ويشرع مصل وتال ذاكر ومحدث خطيب ومن يصغي إليهم ويسمع مكرر فقه جالس لقضائه ومن بحثوا في الفقه دعهم لينفعوا مؤذن أيضا أو مقيم مدرس كذا الأجنبيات الفتيات امنع ولعاب شطرنج وشبه بخلقهم ومن هو مع أهل له يتمتع ودع كافرا أيضا ومكشوف عورة ومن هو في حال التغوط أشنع ودع آكلا إلا إذا كنت جائعا وتعلم منه أنه ليس يمنع۔۔۔ كذلك أستاذ مغن مطير فهذا ختام والزيادة تنفع
الدر المحتار: ج2 ص451 تا453
کہ ان لوگوں کوسلام کرنا مکروہ ہے۔ نماز پڑھنے والا، تلاوت کرنے والا، ذکر کرنے والا، حدیث بیان کرنے والا، خطبہ دینے والا، خطبہ سننے والا، سبق کو دہرانے والا، قاضی جب قضاء کے لئے بیٹھا ہو، فقہ میں بحث مباحثہ کرنے والا، اذان دینے والا، اقامت کہنے والا، درس دینے والا، جوان اجنبی عورت، شطرنج کھیلنے والا یا ان جیسا غیر اخلاقی کھیل کھیلنے والا، مرد جب اپنی بیوی کے ساتھ ہو، کافر، ننگے بد ن والا ،جو قضا حاجت میں مصروف ہو، جو کھانا کھارہا ہو، ہاں اگر آپ کو بھوک لگی ہو اور آپ کو معلوم ہو کہ یہ شخص مجھے کھانا دینے سے انکار نہیں کرے گا تو اس شخص کو سلام کرسکتا ہے، اسی طرح گانا گانے والے اور کبوتر اڑانے والے کو بھی سلام کرنا مکروہ ہے۔
http://library.ahnafmedia.com/134-faqeeh/2013/jan/293-musafiha-wsalam-k-ahdab
……………..
نماز کے مکروہ اوقات کی تفصیل
فجر کی دو رکعت سنت طلوع آفتاب  سے پہلے
پانچ اوقات نماز کے لئے مکروہ قرار دیئے گئے ہیں۔ تین اوقات کی کراہت ایک حدیث سے اور دو کی ایک حدیث سے ہے۔
1۔۔ عین طلوع آفتاب کے وقت۔
2۔۔۔ زوال شمس کے وقت۔
3۔۔۔ سورج کے غروب کے وقت۔
عن عقبة بن عامر الجهني : ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا .حين تطلع الشمس بازغة حتي ترتفع .وحين يقوم قائم الظهيرة حتي تزول الشمس وحين تتضيف (تميل ) الشمس للغروب. صحيح مسلم.رقم 831.
4۔۔۔نماز فجر کے بعد یہاں تک کے سورج طلوع ہوکر بلند ہوجائے۔
5۔۔۔۔ بعد عصر سے غروب آفتاب تک۔
عن أبي سعيد الخدري قال سمعت رسول الله يقول :لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس.ولا صلاة بعد العصر حتي تغيب الشمس.ولفظ مسلم ولا صلاة بعد صلاة الفجر. صحيح البخاري رقم 584.
طلوع، غروب اور زوال کے وقت حنفیہ کے یہاں فرض، واجب، نفل، قضاء، نماز جنازہ، سجدہ تلاوت، سب ناجائز ہے۔۔ ہاں اگر اسی دن کی عصر چھوٹ گئی ہو تو اسے پڑھ لینے کی اجازت ہے۔
فریضہ فجر اور عصر کے بعد نوافل مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔ اس دن کی سنت فجر بھی۔ تحیہ المسجد کی نماز، نذر کی نماز، طواف کے دوگانہ،اور سجدہ سہو بھی ناجائز ہے۔ البتہ ان دو وقتوں میں فرائض کی قضاء یا وتر کی قضاء سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ جائز ہے۔
مالکیہ کے یہاں شروع کے تین اوقات میں صرف نوافل ناجائز ہیں فرائض نہین اور آخر کے دو وقتوں میں نوافل مکروہ تنزیہی ہیں۔۔۔۔شوافع کے یہاں اوقات ثلاثہ میں تمام نمازیں مکروہ تحریمی ہیں۔اور دو وقتوں میں مکروہ تنزیہی ہیں۔ سواء جمعہ کے کہ ان کے یہاں جمعہ زوال کے وقت جائز ہے۔۔۔۔حنابلہ کے یہاں پانچوں مکروہ اوقات میں فرائض کی قضاء بھی جائز ہے اور نذر کی نماز اور دوگانہ طواف بھی۔۔البتہ اوقات ثلاثہ میں حنابلہ کے یہاں بھی جنازہ کی نماز جائز نہیں ہے۔۔۔سنت فجر کی قضاء فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے اگرچہ فقہ حنبلی میں جائز لکھا ہے لیکن صاحب مذھب امام احمد بن حنبل نے اسکو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنے کو افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔۔حنابلہ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ تمام مکروہ اوقات میں سنن کی قضاء ناجائز ہے۔۔
قضاء صرف فرائض اور واجبات کی کی جاتی ہے۔ سنتوں کی قضاء اصولی طور پر نہیں ہے۔لیکن سنت فجر کی حدیثوں میں سخت تاکید آئی ہے۔ اس لئے ائمہ میں امام مالک واحمد بن حنبل اور حنفیہ میں امام محمد نے تنہاء سنت فجر کی قضاء کرنے کو کو کہا ہے ۔حافظ العصر علامہ انورشاہ کشمیری کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ ہاں اگر فرض سمیت سنت فجر چھوٹی ہو تو اب امام ابو حنیفہ اور ابویوسف بھی زوال سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں قضاء کے قائل ہیں۔ زوال کے بعد نہیں۔کیوں کہ اب فرض کی تبعیت میں سنت کی قضاء ہوگی مستقلا نہیں۔
(وعند ابی حنیفہ وابی یوسف لاقضاء بسنہ الفجر الفائتہ انفرادا واما اذا فات فرض الصبح فان السنہ تقضی تبعا لہ قبل الزوال۔۔ہدایہ 1/152۔153۔۔بذل المجہود 5/480۔)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک کسی بھی نفل نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے :
لا صلاة بعد صلاة الفجر حتي تطلع الشمس .بخاري رقم 584.
نیز مسند احمد اور جامع الترمذی میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جو شخص فجر کی دوگانہ سنت نہ پڑھ سکے اسے چاہیئے کہ طلوع آفتاب کے بعد ان دو رکعتوں کو پڑھلے۔ من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس .ترمذي رقم 423.
جو حضرات تنہا چھوٹی ہوئ سنت فجر کی قضاء کے قائل ہیں جیسے مالکیہ حنابلہ اور حنفیہ میں امام محمد تو اب انکے مابین اس میں اختلاف ہے کہ ان دو رکعتوں کو فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟؟
امام محمد ابوھریرہ کی مذکورہ صریح حدیث کی وجہ سے طلوع آفتاب ہونے اور وقت مکروہ نکل جانے کے بعد ان دو رکعتوں کی قضاء کے کے قائل ہیں۔فرض پڑھنے کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے اسکی قضاء کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور اسکی تائید بخاری میں ابوسعید خدری کی اس روایت سے  بھی ہوتی ہے۔لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس خ 584.۔
جبکہ قیس بن عمرو وغیرہ کی درج ذیل حدیث کی وجہ سے فقہائے حنابلہ وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ طلوع شمس سے پہلے فجر کی دوگانہ سنت جلدی سے پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔
عن قيس بن عمرو قال رأي رسول الله رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين فقال رسول الله :صلاة الصبح ركعتان فقال الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الأن. فسكت رسول الله ..أبوداود 1267..ترمذي 422.ابن ماجه 1154..حاكم 5/447….یعنی فجر کی نماز کے فورا بعد ایک صحابی نے سنت ادا کی۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا چھوٹی ہوئی سنت۔تب آپ نے سکوت فرمالیا۔بعض روایتوں میں آپ کی صراحتہ اجازت بھی ثابت ہے۔)
لیکن حضرات محدثین کے نزدیک یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہ سے غیر معتبر اور ناقابل استدلال ہے۔
1۔۔۔۔۔امام ترمذی جیسے عظیم محدث  اس کی سند میں انقطاع کے قائل ہیں۔قال الترمذي اسناد هذا الحديث ليس بمتصل رقم 422.
2۔۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے طلوع شمس سے پہلے دو رکعت کی قضاء صراحت کے ساتھ منع ہونا ثابت ہے (جیسا کہ اوپر گذرا ) لہذا آپ کی خاموشی دلیل جواز نہیں بن سکتی ۔
3۔۔۔۔یہ اجازت ممانعت سے پہلے تھی بعد میں منسوخ ہوگئ۔
4۔۔۔۔۔۔۔ ابن حبان نے کہا ہے : یہ حدیث ناقابل استدلال ہے (لا یجوز الاحتجاج بہذا الحدیث ۔عمدہ القاری۔4/109 )
5۔۔۔۔ اس حدیث کے راوی دراوردی پر جرح وتعدیل کے مختلف ائمہ نے سخت جرح کیا ہے ۔اسلئے اس حدیث کا اعتبار نہیں۔دیکھئے تہذیب التہذیب۔6/354۔
6۔۔۔۔۔۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دن سنت فجر قضاء ہوگئ تھی تو آپ نے اسے طلوع آفتاب کے بعد ہی ادا فرمایا ہے۔
عن أبي هريرة أن النبي نام عن ركعتي الفجر فقضاهما بعد ما طلعت الشمس .ابن ماجه رقم 1155.
مرقات 3/134.35.معارف السنن 4/89.حديث نمبر 420.باب نمبر 310..
آپ کا عمل خود سو دلیلوں کی ایک دلیل ہے کہ طلوع آفتاب سے قبل فوت شدہ سنت فجر کی قضاء جائز نہیں ہے۔
اسلئے بہتر یہ ہے کہ ان سنتوں کو طلوع آفتاب کے بعد ہی کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی