نمازِاستسقاء اور اس کے مسائل

نمازِاستسقاء اور اس کے مسائل
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 576)
وطن عزیز گزشتہ کئی ماہ بارشوں کی شدید کمی کا شکار رہا ہے ۔ الحمد للہ تعالیٰ! اب اکثر بالائی علاقوں میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے ‘ جہاں اب بھی پانی کی بہت کمی ہے اور لوگ بارشوں کے منتظر ہیں ۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جب کوئی نعمت نصیب ہو جائے تو اُس پر اللہ تعالیٰ کا خوب شکر ادا کیا جائے اور بہترین انتظامات کے ذریعے اس کے قطرہ قطرہ اور بوند بوند کی قدر دانی کی جائے اور جب کسی نعمت سے محرومی ہو تو خوب توبہ و استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے بار بار اس کا سوال کیا جائے ۔ پھر پانی جیسی نعمت کا تو پوچھنا ہی کیا ، انسان کی زندگی کا مدار تو پانی پر ہی ہے ، جتنے بھی ذی روح جانور ہیں ، ان کی زندگی کا بقاء بھی پانی ہی پر منحصر ہے ۔
تمام جاندار کی تخلیق اصل میں پانی ہی سے ہوئی ہے ۔ نباتات کا تو وجود ہی پانی پر موقوف ہے ، کہ اسی سے زمین سے کونپلیں نکلتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سایہ دار درختوں اور لہلہاتے ہوئے سر سبز پودوں کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں ۔ جو جمادات ہیں وہ بھی پانی سے بے نیاز نہیں ، چاہے زمین ہو یا نموپذیر زندہ پتھرہوں ، سب کو پانی کی ضرورت ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آب حیات بن کر بارش اس سے ہم آغوش ہوتی ہے اور اس طرح اس کے لیے زندگی کا ایک نیا سرو سامان مہیا کرتی ہے ۔
یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان ہے کہ وہ جب چاہتا ہے ، جتنا چاہتا ہے ، بارش برساتا ہے ۔
)ایک روز( رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اور خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو کسی نے کہا :
یا رسول اللہ ( بارش نہ ہونے سے ) ہمارے مال مویشی تباہ ہو گئے ‘ تمام راستے منقطع ہو گئے ۔
آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست ِ مبارک اٹھائے اور یہ دعا مانگی:
اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا‘ اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا
مفہوم:…’’اے اللہ !ہمیں بارش عطا فرما‘‘۔)تین مرتبہ(
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : خدا کی قسم ! آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا بھی تھا‘ اور نہ ہی ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر وغیر ہ تھا اچانک اس کے پیچھے سے بادل کا ایک ٹکڑ ا ڈھال کی مانند نمودار ہو ا ‘ جب وہ آسمان کے بیچ پہنچا تو ہر طرف پھیل گیا پھر بارش ہونے لگی۔
پھر بخدا ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا ‘ پھراگلے جمعہ ایک آدمی آیا ‘ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ‘ اس نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ( کثرتِ بارش سے ) ہمارے مال ہلاک ہو گئے اور راستے منقطع ہو گئے ‘ آپ ﷺ اللہ سے دعا فرمادیں کہ بارش بند ہو جائے ۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست ِ مبارک بلند کئے اور یہ دعا مانگی :
اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا ، اَللّٰھُمَّ عَلٰی الْاٰکَامِ وَالظِّرَابِ وَ بُطُوْنِ الْاَوْدِیَۃِ وَ مَنَابِتِ الشَّجَرِ۔
مفہوم:…’’اے اللہ ! یہ بارش ہمارے آس پاس کے علاقوں پر بھیج دے اور ہمیں اس کے نقصان سے بچا ۔
اے اللہ ! اس بارش کو ٹیلوں ‘ نالوں‘ وادیوں کے درمیان بنے ہوئے تالابوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر نازل فرما ‘‘۔
چنانچہ بارش بند ہو گئی ہم لوگ باہر نکلے اور دھوپ میں چلنے لگے ۔ ( اخرجہ البخاری ‘ رقم ۱۰۱۳(
’’ استسقاء ‘‘ کے معنی پانی طلب کرنے کے ہیں خواہ صرف دعا سے ہو یا نماز سے لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو ‘‘۔ گویا نماز اللہ سے مدد حاصل کرنے کی کلید ہے ، چنانچہ مختلف ضرورت کے موقع پر مخصوص نمازیں اور کسی بھی ضرورت کے مواقع پر مخصوص نمازیں اور کسی بھی ضرورت کے لیے نماز حاجت رکھی گئی ہے ، انسان کی ایک بڑی ضرورت جیسا کہ ذکر ہوا … پانی ہے ، چنانچہ اگر لوگ قحط سے دو چار ہو جائیں تو اس موقع کے لیے یہ مخصوص نماز ’’ استسقاء ‘‘ رکھی گئی ہے ، استسقاء سے متعلق ضروری احکام اس طرح ہیں :
)۱(… جب نہریں اور کنویں خشک ہو جائیں ، انسان و حیوان کے پینے کی ضرورت نیز کاشت کی ضرورت کے لیے پانی میسر نہ ہو ، یا پانی کی ناکافی مقدار ہو ، تو ایسی صورت میں استسقاء مسنون ہے:
)۲( …’’ استسقاء ‘‘کے اصل معنی پانی طلب کرنے کے ہیں ، اس لیے پانی کے لیے کی جانے والی دعا اور نماز دونوں کو ’’ استسقاء ‘‘ کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن خطبہ میں بارش کی دعا پر اکتفاء کرنا بھی ثابت ہے جیسا کہ ابھی گزرا ہے ، اور دو رکعت نماز استسقاء پڑھنا بھی ، اسی لیے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک دونوں باتوں کی گنجائش ہے ، یہ بھی کہ دعاء پر اکتفاء کیا جائے اور یہ بھی کہ باضابطہ نماز ادا کی جائے ، البتہ چونکہ قرآن مجید میں نماز کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی کلیدقرار دیا گیا ہے ، اس لیے نماز پڑھنا بہتر ہے ۔
)۳(… مستحب طریہ یہ ہے کہ نماز استقاء پڑھنے سے پہلے تین دن روزہ رکھا جائے ، گناہوں سے توبہ کی جائے اور اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہو تو اس کی تلافی کی جائے ۔
)۴(… پھر چوتھے دن نماز کے لیے نکلے ، پیدل جانا بہتر ہے ، پرانے دھلے ہوئے کپڑے ہوں ، اگر پیوند والے کپڑے ہوں تو وہ پہن لیے جائیں ، چلتے ہوئے سر جھکائے رہیں ، فروتنی اور عاجزی کی کیفیت ایک ایک ادا سے نمایاں ہو ، توبہ اور استغفار کرتے رہیں اور بہتر ہے کہ نکلنے سے پہلے کچھ صدقہ بھی کرلیں ۔
)۵(…استسقاء میں بوڑھوں ، بچوں ، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی ساتھ لے جانا مستحب ہے ، گویا یہ اللہ تعالیٰ سے رحم کی اپیل ہے کہ ان کمزوروں کے طفیل ہم سب کو پانی سے نواز جائے ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کو تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔
)۶(… نماز استسقاء مکہ ، مدینہ اور بیت المقدس میں تو مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں پڑھی جائے گی ، لیکن دوسرے مقامات پر بہتر ہے کہ باہر نکل کر صحرا ء میں نماز ادا کی جائے ۔
)۷(… نماز استسقاء انفراد اً یعنی تنہا تنہا بھی پڑھی جا سکتی ہے ، امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک نماز استسقاء کے لیے جماعت ضروری نہیں ، لیکن جماعت کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ یہ نماز ادا فرمائی ہے اور جس عمل سے جماعت ثابت ہو اس کو اجتماعی طور پر کرنا بہتر ہے ،کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے ۔
)۸(… نماز کی کیفیت یہ ہو گی کہ امام دو رکعت نماز پڑھائے گا ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو رکعت نماز پڑھائی ہے ۔
)۹(… بہتر ہے کہ نماز میں پہلی رکعت میں سورئہ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورئہ غاشیہ پڑھی جائے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقاء میں ان سورتوں کا پڑھنا ثابت ہے ، قرأت جہر کے ساتھ کی جائے گی ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح نماز استسقاء پڑھائی اور نماز عید میں قرأت زور سے کی جاتی ہے ۔
)۱۰(… نماز کے بعد امام خطبہ دے گا ، یہ خطبہ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک مسنون ہے ۔ جیسا کہ نماز عید کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے ، یہ خطبہ زمین ہی پر کھڑے ہو کر دیا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا ہے ۔
)۱۱(… خطبہ کے بعد امام قبلہ رخ ہو کر دعا کرے گا ، دعا زور سے بھی کی جا سکتی ہے اور آہستہ بھی ، دوسرے لوگ امام کے پیچھے قبلہ رخ بیٹھیں گے اور دعا کریں گے ۔
اگر امام بلند آواز سے دعا کر رہا ہو تو لوگ اس پر آمین کہتے جائیں گے ۔
)۱۲(… عام دعائوں میں ہاتھ سینے تک اٹھایا جائے گا ، لیکن نماز استسقاء میں ہاتھ سر تک اٹھانا مسنون ہے ، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اتنا بلند فرمایا کہ بغل مبارک کی سفیدی نظر آتی تھی ، البتہ ہاتھ کو سر کی مقدار سے اونچا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دعا کرنا منقول ہے ، خاص طور پر استسقاء کی نماز میں ہاتھ اس طرح اٹھایا جائے گا کہ پشت اوپر کی طرف ہو اور ہتھیلی زمین کی طرف ، کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل نقل کیا ہے ، بعض دوسری روایات میں بھی یہ بات منقول ہے ۔ البتہ اگر عام طریقے سے بھی دعا مانگ لی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
)۱۳(… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پر چادر کو پلٹ دیا تھا ، اسی لیے امام محمد ؒ کی رائے ہے کہ خطبے کا کچھ حصہ پڑھنے کے بعد چادر پلٹ دی جائے ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے پہلے ہی چادر پلٹ دی تھی اور روایات میں ہے کہ دعا سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کیا تھا ، اس لیے خطبہ کے بعد دعا سے پہلے ، یا نماز سے پہلے اس عمل کو کرنا چاہیے ، اس کا مقصد نیک فالی ہے کہ : اے اللہ ! ہماری اس حالت میں تغیر ہوا ہے ویسے ہی موسم میں بھی تغیر فرما دیجئے ۔
چادر کو پلٹنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ، پہلے اوڑھتے ہوئے جو حصہ اوپر تھا اب اسے نیچے کر دیا جائے ، یا جو حصہ دائیں تھا بائیں کر دیا جائے یا اندر کے حصہ کو باہر یا باہر کے حصہ کو اندر کر دیا جائے ۔
)۱۴(… دعا میں خوب الحاح کی کیفیت ہونی چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کے مختلف الفاظ منقول ہیں ، یہاں ایک مختصر دعا نقل کی جاتی ہے ، جسے امام ابو دائود نے حضرت عبداللہ بن جابر ؓ کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے :
اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیْثًا مُرِیْئًامُرِیْعًا نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلاً غَیْرَ آجِلٍ
)اے اللہ ! ہمیں بھر پور ، خوشگوار ، شادابی لانے والی ، نفع بخش ، غیر نقصاندہ ، جلدی، نہ کہ تاخیر والی بارش عطا فرمائیے )
اگر کسی علاقے میں بارشیں ضرورت سے زیادہ ہوں اور نقصان کا اندیشہ ہونے لگے تو ایسی صورت حال میں ایک دعا تو وہ مسنون ہے ، جو پہلے بخاری شریف کی روایت کے حوالے سے گزر گئی ہے ۔ بعض روایات میں یہ دعا بھی منقول ہے :
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَا فِنَا قَبْلَ ذٰلِک
اے اللہ ! ہمیں اپنے غصے سے تباہ نہ فرما اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ فرما اور ہمیں اس سے پہلے ہی عافیت عطا فرما دے ) آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭