مولانا منصور احمد

یہ ’’انقلاب‘‘ کیا رنگ لائے گا ؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 459)
آزادی اور انقلاب مارچ کے نام پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت جو بے حیائی ‘ فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا ہوا ہے ، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کم از کم نہیں ملتی ۔ جس طرح کھلم کھلا اسلامی احکامات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور غیرت و حمیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے ‘ ڈر یہ ہے کہ اگر علمائِ امت‘زعمائے ملت اور اہل ایمان نے بروقت اس کا نوٹس نہ لیا تو ہم بحیثیت قوم کسی اجتماعی عذاب کی پکڑ میں نہ آجائیں ۔
سیاستدانوں کی طرف سے مادر پدر آزادی کے یہ مظاہرے تو کسی حد تک سمجھ میں آتے ہیں لیکن جن لوگوں نے عوام کو دھوکہ دینے کیلئے جبہ و دستار کا سہارا لے رکھا ہے ‘ اُن کی طرف سے یہ صورت حال پیش آنا تو مزید افسوس اور کرب کا ذریعہ ہے ۔ اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلانے والے شخص کا کردار تو اس قابل نہیں کہ اُس سے کسی بھلائی کی توقع کی جاتی لیکن نجانے اُس کے پیروکاروں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ دین‘اسلام اور مذہب کے نام پر اتنا اودھم مچائے ہوئے ہیں ۔ کیا اسلام کی تعلیمات ‘ یہی نازیبا حرکات ہیں جو آج کھلم کھلا اُن کے اجتماع میں ہو رہی ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے ‘ شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے ، سود خوری کریں گے اور اس کو نام کچھ اور دے دیں گے ۔ غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بد ترین صورت ہوتی ہے ، کیوں کہ اس میں بھلائی کے لبادے میں برائی کی جاتی ہے ، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روارکھا جاتا ہے ، آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے ، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم و بیش یہی حالت تھی ، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے ، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں ، کسی قدر معمولی غور و فکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے ، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارا دور کہیں وہی نہ ہو ‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیف بکم اذا فسق فتیا نکم وطغیٰ نسا ء کم ؟ قالو ا یا رسول اللہ ! و ان ذالک لکائن؟ قال نعم واشد منہ ، کیف بکم اذا لم تامروا بالمعروف و تنہوا عن المنکر ؟ قالوا یا رسول اللہ و ان ذالک لکائن ؟ قال نعم و اشد منہ کیف بکم اذا رایتم المنکر معروفاً والمعروف منکراً۔
ترجمہ :… ’’ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہارے نوجوان بد کار ہو جائیں گے ، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا ؟ فرمایا : ہاں ، اور اس سے بڑھ کر ، اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا : جب نہ تم بھلائی کا حکم کرو گے ، نہ برائی سے منع کرو گے ، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا ؟ فرمایا : ہاں ، اور اس سے بھی بدتر ، اس وقت تم پر کیا گزرے گی ؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو برائی سمجھنے لگو گے۔‘‘ ( کتاب الرقائق ، ابن مبارک ص :۴۸۴)
ہمارے معاشرے کی بدلتی قدروں اور شروفتنہ کی نت نئی شکلوں کا جائزہ لیجئے تو آنحضرت ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صادق آتی ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب ہم جس طرح بڑی بڑی برائیوں اور فحاشی و غلاظت کی ایمان شکن کا رروائیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کر رہے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان و ایقان کی قوت مدافعت جواب دے چکی ہے ‘ ہمارے دلوں سے ایمانی غیرت اور دینی حمیت رخصت ہو چکی ہے ، اور ہماری ایمانی روح مر چکی ہے ۔ اب ہمیں اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہی ، اور ہمارے دل و دماغ اب فحاشی و عریانی کی غلاظت سے اٹھنے والی سرانڈ کے عادی ہو چکے ہیں ، اب ہمیں کوئی برائی ، برائی نہیں لگتی اور کسی اچھائی کی مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبو سے ہم نامانوس ہو چکے ہیں ۔
جب کوئی انسانی گروہ گناہ کا عادی ہو جاتا ہے اور جان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا طریقہ کا ر یہی ہوتا ہے کہ وہ بدی کو نیکی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے ، مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کر رکھی ہے ، آج بہت سی مسلّمہ اخلاقی برائیاں ، تہذیب و ثقافت کے نام سے رائج ہو گئی ہیں ، جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں ، اسے برا جانتے ہوں ، ان کو تہذیب جدید سے نا آشنا ، بنیاد پرست اور انتہاء پسند جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے ۔ پوری قوت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خوشی خوشی یا مجبور کر کے مغربی ثقافت و تہذیب کو اہل مشرق پر مسلط کر دیا جائے ۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ’’ فحاشی اور بے حیائی‘‘ کا فتنہ ہے جو ’’مختلف نام اور شکلوں‘‘ سے پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ قرآن کریم میں جا بجا ’’فحاشی ‘‘ کی مذمت اور اسے شیطان کا عمل قرار دیا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتا ء ذی القربی و ینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون (النحل :۹۰)
ترجمہ : ’’ اللہ حکم کرتا ہے انصاف اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نا معقول کام سے اور سرکشی سے ‘‘ ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں :
(۱)… بے حیائی سے ، (۲)… منکر یعنی ناجائز کام سے ،(۳)… سرکشی سے ۔
فحشائ: … ہر اس برے اور بے حیائی کے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہائی درجہ کو پہنچی ہوئی ہو اور عقل و فہم اور فطرتِ سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح ہو اور منکر کا اطلاق اس قول و فعل پر ہوتا ہے جس کے حرام اور ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو ۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے :
الشیطان یعدکم الفقر و یامر کم بالفحشائِ( البقرہ:۲۶۸)
ترجمہ :’’ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے ‘‘ ۔
ایک اور جگہ ارشاد باری ہے:
یا ایھا الذین امنو لا تتبعوا خطوات الشیطان و من یتبع خطوات الشیطان فانہ یا مر بالفحشاء والمنکر (النور:۲۱)
ترجمہ :’’ ایمان والو! شیطان کی پیروی نہ کرو جو شخص شیطان کے پیچھے چلے تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کی تلقین کرے گا ‘‘۔
غور کیا جائے تو لفظ منکر کے تحت فحشاء بھی داخل ہے ، اس کے باوجود قرآن کریم کی مختلف آیات میں ’’فحشاء ‘‘ کو الگ اور مستقل ذکر کیا گیا ہے اور دوسری منہیات سے مقدم فرمایا ، اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ فحشاء اور بے حیائی بہت سے منکرات اور معصیتوں کا ذریعہ بنتی ہے ، جب کسی معاشرے میں فحشاء کا رواج ہو وہاں بے غیرتی و بے حمیتی عام ہو جاتی ہے ، جذبۂ دینی ماند پڑ جاتا ہے ، اسلام و ایمان کے لئے زندہ رہنے کی فکر و قوت کمزور ہو جاتی ہے اور کئی گناہوں اور معصیتوں کی شناعت دل سے اٹھ جاتی ہے ۔
اسلام نے فحشاء کے برعکس حیا کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اسے ایمان کا حصہ قرار دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے ‘‘ ۔ (صحیح مسلم : ۷۵)
ایک انصاری صحابی اپنے بھائی کو سمجھا رہے تھے کہ زیادہ شرم نہ کیا کرو ، آپ علیہ السلام نے سنا تو ارشاد فرمایا :
’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے‘‘ ۔
اور ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ حیاء خیر لاتی ہے یعنی حیاء خیر ہی کا موجب ہوتی ہے ‘‘۔ (رواہ البخاری و مسلم ، مشکوٰۃ)
گویا انسان جس قدر با حیاء بنے گا اتنی ہی اس میں خیر بڑھتی جائے گی ، حیاء ان صفات میں سے ہے جس کی وجہ سے انسان آخرت میں جنت کا حقدار بنے گا ۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ حیاء ایمان کا حصہ ہے ، اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بے حیائی جفا ہے اور جفا جہنم میں لے جانے کا سبب ہے ‘‘۔
(رواہ احمد و الترمذی ، مشکوٰۃ المصابیح : ۴۳۱)
لہٰذا جو شخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت بن جاتا ہے ایسے انسان سے خیر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’جب حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کر‘‘ یعنی اگر آپ میں حیا نہیں تو جو جی میں آئے کریں ۔ ( رواہ البخاری ‘ مشکاۃ المصابیح ۴۳۱)
جنسی اشتعال انگیزی پر مشتمل حیا باختہ عورتوں کی تصاویر اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ گھریلو استعمال کی عام اشیاء کو بھی ان سے آلودہ کر دیا گیا ۔
اخبارات و رسائل کے سرورق پر فلمی اور ماڈلنگ کی دنیا کی نیم عریاں تصویروں کا چھپنا ایک عام معمول ہے ، جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی ، وہ ٹی وی چینلوں اور فیشن شوزنے پوری کر دی ، فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے برقی آلات گھر گھر عام کر دئیے گئے ہیں ، انٹرنیٹ اور موبائل کمپنیوں کے نت نئے پیکجز اور اسکیمیں اس وبا کو عام کرنے میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں اور یہ برقی آلات جس قدر کم قیمت پر پاکستان میں میسر ہیں ، پوری دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی‘ یہ مغربی قوتوں کا ایک خاص منصوبہ ہے جس کے تحت یہ سب کچھ بڑھایاجا رہا ہے ۔ مقدس مقامات ، ایام و مہینوں کا لحاظ کیے بغیر فیشن و یک جیسی مخلوط تقاریب و مجالس کا انعقاد عام ہے۔ جو جگہیں اور ایام مسلمانوں کے لئے عبادت و طاعت ، بندگی و عجز کے اظہار کے خاص دن ہیں ان کو بے حیائی کی نذر کر دیا جاتا ہے ۔
عریانیت اور بے حیائی پھیلانے کا جو سلسلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس انداز میں زور پکڑتا جا رہا ہے ، اگر اس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو عریانیت کی یہ آگ مہذب گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ بد تہذیبی اور جاہلیت کی ان حدوں کو ہم بھی جلد چھولیں گے جو مغربی معاشرہ کی اخلاقی اقدار کی تباہی کا باعث بن چکی ہیں اور جہاں حیوانیت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اکثر پیدا ہونے والے بچوں کو اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا ، مرد اور عورتیں بغیر شادی کئے ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ، جب کہ مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ فحاشی و عریانیت ان معاشروں میں اب بالکل بے معنی ہو کر ان کے رواج و سماج کا حصہ بن چکی ہیں ، جنہیں اب وہاں قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ ایک غیر اسلامی اور کفر کے معاشرہ میں اس بد تہذیبی اور جاہلیت کا ہونا کوئی عجیب بات نہیں ، مگر اس قسم کے رجحانات کا کسی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں پنپنا یقیناً لمحہ فکریہ ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’ہر دین کا ایک مخصوص شعار ہوتا ہے اور اسلام کا شعار ’’حیاء ‘‘ ہے‘‘
فحاشی اور بے حیائی نہ روکنے پر اور اس پر خاموش رہنے کی صورت میں جن خطرات کا ہم کو سامنا ہے ، ان خطرات کے آنے سے قبل ہی ہمیں اس کا سدباب کرنا ہوگا اور اس کے لئے انفرادی و اجتماعی ، حکومتی اور عوامی سطح پر کوشش کرنا ہو گی ورنہ یہ سیل رواں بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ، اللہ تعالیٰ اس وقت سے ہماری حفاظت فرمائے ۔
ہم اس موقع پر کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب آپ ﷺ کے اس مشہور فرمان سے ملتا ہے جس میں آپ نے ایمان کو تین درجات میں تقسیم فرمایا کہ برائی کو ہاتھ (طاقت و قوت ) سے روکنا اعلیٰ درجہ ہے ، برائی کو زبان سے روکنا درمیانہ درجہ ہے ، اس برائی کو دل سے برا جاننا ، اس سے بیزاری ظاہر کرنا یہ ایمان کا آخری درجہ ہے اور ہر شخص پر اپنی قوت ‘ طاقت اور اختیار کی حد تک ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
آج ہم جس بے راہ روی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں ، اور جو موجودہ ہماری صورت حال ہے ، اور اردگرد کا ماحول ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ، آج حیاء کا فقدان ہے ، اور بے حیائی اس قدر عام ہے کہ بے حیائی ، بے حیائی نظر ہی نہیں آتی ، اس کے نقصانات کا اندازہ تک ہم کو نہیں رہا ، بے حیائی کے امور کو فخر سمجھا جانے لگا ، بیان کرنے میں کوئی باک و شرم محسوس نہیں کی جاتی ۔ بے حیائی کے نقصانات و مفاسد اس قدر ہیں کہ خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں ، معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر شخص اس کو دوسرے کا مسئلہ سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کرتا ہے ۔ آج دھرنوں سے تباہ ہونے والی معیشت اور لولی لنگڑی جمہوریت کی فکر تو سب کو ہے لیکن برسرِ عام فحاشی کے مناظر سے کسی لیڈر کو تکلیف نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ یہ آزادی اور انقلاب یا بے حسی نجانے کیا رنگ لائے گی ۔
ضرورت اس کی ہے کہ اجتماعی منکرات کے مقابلے میں اجتماعی توبہ و استغفار کیا جائے اور ہر مسلمان اپنے حلقۂ احباب اور دائرہ اختیار تک اس آواز کو پہنچائے ۔
٭…٭…٭
آزادی اور انقلاب؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 458)
ہمارے پڑوس ‘ اسلام آباد میں آج کل آزادی اور انقلاب کے نعرے گونج رہے ہیں ۔ پاکستان کو شام ‘ عراق اور لیبیا کی طرح لا قانونیت اور قتل و غارت گری کی دلدل میں دھکیلنے کیلئے سازشیں عروج پر ہیں ۔ پاکستان میں آزادی اور انقلاب کی باتیں کرنے والے‘ اپنے عمل سے جو اپنی تصویر پیش کر رہے ہیں ‘ وہ سراسر اسلام دشمنی اور دین سے بیزاری کی ہے ۔ خود تو نہیں دیکھا لیکن دیکھنے والوں سے اتنی کثرت سے سنا کہ اب سب کو جھٹلانا مشکل ہے کہ آزادی اور انقلاب کے نام پر برپا ہونے والے یہ اجتماعات ‘ کسی طرح بھی کسی اسلامی ملک یا اسلامی معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ مرد و زن کا اختلاط ‘ نا چ گانے میں مست نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور نماز جیسے اسلامی فریضے کا اعلانیہ ’’بائیکاٹ‘‘ یہ سب نشانیاں ‘ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ یہ لوگ پہلے سے زخموں سے چور چور قوم کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ یقینا یہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے ۔
آج ہمیں بہت سے تاریخی حقائق بھلائے جا رہے ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے والے کھلاڑی ہمیں سطحی باتوں میں الجھا کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی بنیادوں کو اپنے لہو اور جذبوں سے سینچنے والی نسل کے افراد یکے بعد دیگرے بڑی تیزی سے اُٹھتے جارہے ہیں لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی نوعمری میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس مملکت کو وجود میں آتے دیکھا۔ وہ آج بھی بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جس نعرے نے جذبات کو مہمیز بخشی، بے بس اور کمزور لوگوں کو ہندوئوں اور انگریزوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا، وہ یہ ایمان افروز الفاظ تھے’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘
آپ پاکستان کے حصول کیلئے کی جانے والی جدوجہد کی تاریخ کو شروع سے آخر تک پڑھ لیں، آپ کو ہر قدم پر اسلام اور مسلمانوں کا حوالہ ملے گا۔خواہ وہ اقبال مرحوم کا خطبہ الہ آباد ہو یا شیر بنگال کی قرار دادِ پاکستان، وہ بانی پاکستان کی تقریریں ہوں یا ہجرت کرنے والے خاندانوں کی لہو رنگ داستانیں، آپ کو کہیں کسی موقع پر بھی سیکولرازم نامی چڑیا کا پَر بھی نظر نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی بات الگ ہے اور سیکولرازم الگ۔ اسلام اپنے دیس میں بسنے والے پر امن غیر مسلموں(ذمّیوں) کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور داعی ہے لیکن سیکولرازم تو اسلام کے خلاف ایک نظریہ اور تحریک کا نام ہے۔ اس لئے اقلیتوں کے حقوق کو سہارا بنا کر سیکولرازم کو ثابت کرنا، بدیہی حقائق کا منہ چڑانا ہے۔
زکی کیفیؔ مرحوم نے انہی واقعات کو کیا خوبصورت تعبیر بخشی تھی:
اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے
اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقا ہے
بنیاد پہ قائم نہ رہے گا تو فنا ہے
دنیا کی نگاہوں سے نہیں بات یہ مستور
ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور
یہاں یہ بات ذکر کر دینا بھی مناسب ہوگا کہ کسی ملک میں جو بھی قانون بنتے ہیں، اُن سب کی بنیاد اُس مملکت کا دستور ہوتا ہے۔ دستور میں اُس ملک کے نصب العین کی پوری تفصیل اور وضاحت درج ہوتی ہے، دستور کے خلاف قانون سازی اُس مملکت کی اساس سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دستور کا ابتدائی حصہ ایک قرار داد پر مشتمل ہے جس کو ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس کو عام طورپر ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے صرف دو مختصر اقتباسات نذر قارئین ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں ’’اسلامی مملکت‘‘ تھا یا بعض لوگوں کے زعم کے مطابق ’’سیکولر اسٹیٹ‘‘۔ اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:
’’اس کائنات کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہے اور اس نے پاکستان کے باشندوں کی وساطت سے مملکت پاکستان کو جو اختیارات دئیے ہیں وہ ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’آزاد و خود مختار مملکتِ پاکستان کے دستور میں اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘
پاکستان کی حقیقت اور حیثیت کے بارے میں یہ بحث چھیڑنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ملک بھر میں دین دشمن عناصر، آزادی اور انقلاب کے معاملہ کو ایشو بنا کر، اپنے بلوں سے طاعون کے چوہوں کی طرح یکدم باہر نکل آئے ہیں۔ چند اخلاق باختہ اور بے کردار عورتیں جنہیں نہ شرم و حیا کا پاس ہے، نہ اُن کے ہاں غیرت اور عصمت کا کوئی تصور ہے، وہ میڈیا کے سامنے ضرورتِ رشتہ کا اشتہار بنیں، اسلام اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہی ہیں۔ ایک ایک گاڑی کی سواریوں پر مشتمل جماعتیں بھی اسلام آباد میں دو درجن افراد کے عظیم مظاہرے کروا رہی ہیں۔
پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ روزِ اوّل سے اس کی ایلیٹ کلاس اور حکمران طبقہ اسلام سے کبھی مخلص نہیں رہا۔ ان لوگوں کا رویہ اسلام کے بارے میں یا تو معاندانہ رہا یا منافقانہ۔ اسی عناد اور نفاق نے آج تک پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کا عملی نمونہ بننے سے روکے رکھا۔
قربان جائیں رب کی قدرت اور اُس کی رحمت پر! جس نے دینِ اسلام میں ایسی لچک رکھی ہے کہ اس کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی میں بی بی سی سن رہا تھا، جس میں ترکی کے معروف شہر انقرہ سے ایک صحافی وہاں کی موجودہ صورتحال پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’آج بھی ترکی کے اسّی فیصد عوام پکے مسلمان ہیں اور وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، صرف بیس فیصد شہری علاقوں میں بسنے والے لوگ ایسے ہیں جو ترکی کو سیکولراسٹیٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور انہیں ترک فوج کی حمایت حاصل ہے‘‘
اللہ اکبر! کمال اتاترک کی سرزمین، جہاں صدیوں سے رائج اسلامی قانون کو منسوخ کرکے سوئٹزرلینڈ کے کفریہ قوانین مسلط کئے گئے، انگریزی ہیٹ عوام کے سروں پر مسلط کرنے کیلئے سینکڑوں بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، اذان پر پابندی عائد کردی گئی، مدارس اور تمام دینی ادارے ختم کردئیے گئے، ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے بدل کر رومن کردیا گیا، ترکی کے وزیراعظم عدنان مندریس مرحوم کو فوج نے صرف اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا کہ وہ پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کی ’’سازش‘‘ کر رہے تھے۔ مگر پون صدی گزرنے کے باوجود کسی مُلّا کے مطابق نہیں، بی بی سی کے کہنے کے موافق،آج بھی اسلام وہاں کی عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہاہے۔
ترکی کی عوام جب اتنے طویل عرصے تک سیکولرازم کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو پاکستان کی زمین اتنی بانجھ تو نہیں ہوئی کہ سات آٹھ سال کے عرصے میں یہاں اسلام کے نام لیوا ختم ہو جائیں۔ یہاں کی مائوں نے بچوں کے کانوں میں اذان اور قرآن کی لوری دینی تو نہیں چھوڑدیںکہ کوئی بزور طاقت انہیں بے دین اور ملحد بناتا رہے۔ یہاں ابھی دینی ادارے، تنظیمیں اور شخصیات تو ختم نہیں ہوئیں کہ اس ملک کا حلیہ ہی تبدیل کردیا جائے اور کوئی بولنے والا بول نہ سکے۔
حالات ایسے لگ رہے ہیں کہ پاکستان کو زبردستی سیکولرازم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا (اللہ نہ کرے) تو ملک میں انارکی اور قومی خلفشار کا وہ طوفان اُٹھے گا جس میں سب کچھ بہہ جائے گا۔ یاد رکھیں! ملک کا مذہبی طبقہ کبھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ یہ لوگ تو چوری کی بجلی اور بغیر ٹکٹ ریل کے سفر کو بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ پھر پاکستان تو ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ان کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔جب کہ شراب کے رسیا، امیتابھ بچن کے دیوانے، ملکی خزانوں کے اربوں روپے بغیر ڈکار لئے ہضم کرنے والے، سود خور اور عیاشیوں کے دلدادہ لوگوں کو پاکستان کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی انہیں ان کی بدمعاشیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا پاکستان منظور ہے، ان کی غلیظ خواہشات تو امریکہ، یورپ اور انڈیا میں زیادہ اچھی طرح پوری ہوسکتی ہیں پھر انہیں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی کیا ضرورت اور کیافکر ہو سکتی ہے؟
اس لئے ملک کے کروڑوں مسلمان بہرصورت اس باہمی تصادم سے بچنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ شرابی کبابی لوگوں کی بدولت دولخت ہونے والے وطنِ عزیز کو مزید کوئی جغرافیائی، علاقائی یا امن و امان کا صدمہ پہنچے۔ لیکن اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہوگا کہ یہ لوگ، مٹھی بھر بدمعاشوں کی خوشنودی کیلئے، ملک کو سیکولرازم کی گود میں جانے دیں گے اور نام نہاد لیڈروں کی طرف سے مسلط کردہ لادینیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیںگے۔ ایسا نہیں ہوگا اور یقینا نہیںہوگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
یوں لگتا ہے کہ آزادی اور انقلاب مارچ کے قائدین کے بارے میں ہی اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی ا پر رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم، بِنائے ملّت مٹا رہے ہیں
یہ زائرینِ حریم مغرب، ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا؟ جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
اللہ تعالیٰ پاکستان اور اہل پاکستان کی تمام دین دشمن قائدین کے شرور اور فتن سے حفاظت فرمائے اور ایسی صالح قیادت عطا ء فرمائے جو اُس سے ڈرنے والی اور خلقِ خدا پر رحم کرنے والی ہو۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
خوشبوئے سیرت
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 429)
اے ہمارے آقا و مولیٰﷺ!
آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار رحمتیں اور لامحدود سلام نازل ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو وہ بہترین سے بہترین صلہ عطا فرمائے جو کسی نبی کو اپنی قوم کی طرف سے یا کسی رسول کو اپنی امت کی طر ف سے دیا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے توہر طرف تاریکی کا دور تھا اور ظلم و ستم کا راج تھا۔ آپ ﷺ نے عدل و انصاف کے چراغ جلائے، مخلوق اور خالق کے درمیان فاصلے مٹائے اور انسان کو انسانیت کا راستہ دکھلا کر اس بنی نوع انسان پر بے شمار احسانات فرمائے۔
آدابِ نبوی کے خیال رکھنے کاتاکیدی حکم
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کروجیسا کہ تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ ﴿الحجرات: ۱۔۲﴾
ان آیات مبارکہ میں رحمت دو عالمﷺ کی مجلس کے آداب سکھائے گئے اور ان کی اتنی تاکید کی گئی کہ معمولی سی خلاف ورزی پر بھی یہ وعید ہے کہ تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے اور کوئی نیک کام فائدہ نہیں دے گا۔
ان آداب کی تشریح کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی پ لکھتے ہیں:
’’جس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حکم ملنے کی توقع ہو اس کافیصلہ پہلے ہی آگے بڑھ کر اپنی رائے سے نہ کر بیٹھو۔ بلکہ حکم الٰہی کا انتظار کرو جس وقت پیغمبرﷺکچھ ارشاد فرمائیں خاموشی سے کان لگا کر سنو۔ ان کے بولنے سے پہلے خود بولنے کی جرأت نہ کرو۔ جو حکم ادھر سے ملے اس پر بے چون وچراں اور بلا پس وپیش عامل بن جائو۔اپنی اغراض اور اہواء اور آراء ان کے احکام پر مقدم نہ رکھو۔ بلکہ اپنی خواہشات اور جذبات کو احکام سماوی کے تابع بنائو۔
حضورﷺ کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میںایک دوسرے سے بے تکلف چہک کر یا تڑخ کر بات کرتے ہو، حضورﷺ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلافِ ادب ہے۔ آپ سے خطاب کرو تو نرم آواز سے، تعظیم و احترام کے لہجے میں، ادب و شائستگی کے ساتھ۔ دیکھو! ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے ، لائق شاگرد استاد سے، مخلص مرید پیرو مرشد سے اور سپاہی اپنے افسر سے کس طرح بات کرتا ہے؟ پیغمبر کا مرتبہ تو ان سب سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آپ سے گفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھنی چاہئے۔ مبادا بے ادبی ہو جائے اور آپ کو تکدّر پیش آئے تو حضورﷺکی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔
تنبیہ: حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺکی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہی ادب چاہئے اور قبر شریف کے پاس حاضر ہو وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے۔ نیز آپ کے خلفاء ، علماء ربانیین اور اولوالامرکے ساتھ درجہ بہ درجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہئے تاکہ جماعتی نظام قائم رہے۔ فرق مراتب نہ کرنے سے بہت سے مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔‘‘ ﴿تفسیر عثمانی﴾
محبت رسولﷺ کی علامات
جس طرح دریا بغیر پانی کے ،درخت بغیر پھل اور جسم بغیر روح کے بیکار ہے، اسی طرح دعویٰ محبت حقیقی محبت کے بغیر دھوکہ اور سراب ہے۔
اس لئے رسول اکرمﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والوں کیلئے کچھ علامات علماء امت نے تحریر کی ہیں تاکہ اپنے باطن کو پرکھنا آسا ن ہو جائے۔
﴿۱﴾آنحضرت ﷺ سے حقیقی اور سچی محبت کی پہلی علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے طریقے کی پیروی آپﷺ کے نقش قدم کا اتباع اور آپﷺ کی ہر سنت مطہرہ پر دل و جاں سے مر مٹنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِ گرامی ہے:
’’آپ کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘﴿آل عمران۔۱۳﴾
خود رسول اللہ ﷺنے بھی اپنی سنت کی پیروی کرنے کو اپنی محبت کا معیار قرار دیا:
اے پیارے بیٹے! اگر تمہیں اس پر قدرت ہو کہ اس طرح صبح و شام کرو کہ تمہارے دل میں کسی کیلئے کھوٹ نہ ہو تو ایسا ضرور کرو۔
پھر مزید ارشاد فرمایا:
’’اے پیارے بیٹے !یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ ‘‘
﴿۲﴾ محبت رسولﷺ کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ آپﷺکا ذکر مبارک کثرت سے کرے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کی محبت سمائی ہوئی ہوتی ہے تو وہ بہانے سے اس کا ذکر چھیڑ دیتا ہے۔ سچ ہے:
ما ہر آنچہ خواندیم، فراموش کردہ ایم
الا حدیث یار کہ تکرار می کنیم
﴿ہم نے جو کچھ پڑھا تھا، سب بھلا دیا سوائے محبوب کی باتوں کے، وہی دہراتے رہتے ہیں﴾
حضرت ابو موسی اشعری ذ کے قبیلہ والے جب مدینہ کی طرف چلے تو بار بار یہ جملہ ان کی زبانو ں پر ہوتا تھا۔
غداً نلقی الاحبۃ . محمداً وصحبہ
﴿کل ہم اپنے محبوبوں یعنی محمد ﷺ اور ان کے صحابہ ڑ سے ملیں گے﴾
﴿۳﴾ آپﷺ کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ذکر انتہائی عظمت، توقیر اور احترام کے ساتھ کرے۔
اسحق یحییٰ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ. آپﷺ کے بعد جب بھی آپﷺ کو یاد کرتے .تو ان کی کھال کے بال کھڑے ہو جاتے .اور وہ خشوع کے ساتھ آپﷺکا ذکر کرتے۔
حضرت امام مالک پ سے ایک مرتبہ ابن مہدی نے. چلتے راہ کسی حدیث کے بارے میں پوچھ لیا. تو آپ پ نے فرمایا کہ افسوس ہے کہ آپ جیسا آدمی بھی چلتے چلتے حدیث رسول ﷺ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے۔
آپﷺ کے ذکر کے وقت ادب، احترام اور توقیر کا خیال کرنا انتہائی ضروری ہے ، ورنہ بسا اوقات انتہائی سخت گناہ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔قرآنِ مجید نے ان لوگو کو حبط اعمال ﴿نیک اعمال ضائع ہونے﴾ کی وعید سنائی تھی جو آپﷺ کے سامنے اونچا اونچا بولتے تھے اور آپﷺ کو عام لوگوں کی طرح مخاطب کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں ان لوگوں کو دلی تقوٰی کا اعزاز بخشا ہے، جو آپ ﷺ کے سامنے اپنی آواز پست رکھتے ہیں۔ ﴿الحجرات﴾
﴿۴﴾رسول اللہ ﷺ کی محبت کی ایک لازمی علامت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺسے متعلقہ دیگر تمام اشخاص اور اشیاء کی محبت انسان کے دل میں ہو۔
اسی لئے جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’جس نے صحابہڑ سے محبت کی اس نے در حقیقت میری محبت کی وجہ سے ایسا کیا اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے درحقیقت میرے بغض کی وجہ سے ایسا کیا ‘‘۔
اسی طرح ایک روایت میں حضرت حسن ذ کے بارے میں فرمایا:
’’اے اﷲ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، جو اس سے محبت کرے ، تو اس سے محبت فرما‘‘۔.
﴿۵﴾آنحضرت ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺسے بغض رکھنے والے سے بغض رکھے۔
قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ نے ان ایمان والوں کی تعریف فرمائی ہے جو اپنے ایسے رشتے داروں سے بھی محبت و مودّت کاتعلق نہیں رکھتے جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوں۔ ﴿المجادلۃ۔۲۲﴾
حضرت صدیق اکبرذ کے ایک صاحبزادے اسلام لانے کے کافی عرصے بعد آپ ذ سے کہنے لگے کہ ابا جان غزوۂ بدر میں آپ کئی مرتبہ میری تلوار کے سامنے آئے لیکن میں نے احتراماً اپنی تلوار روک دی۔ حضرت صدیق اکبرذ نے جواب دیا کہ بیٹا! اگر اس دن تم میری تلوار کے نیچے آجاتے تو میں کبھی بھی تلوار نہ روکتا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبد اللہذ نے کئی مرتبہ آنحضرت ﷺ کو پیشکش کی کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں اپنے والد کا سرکاٹ کر آپ کے پاس لے آئوں!
﴿۶﴾حب رسولﷺ کی علامت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺکے لائے ہوئے دین کیلئے بے لوث اور انتھک محنت کی جائے۔
آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی اس پیغام کو پھیلانے میں صرف کی اس کیلئے طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیںاور ہر طرف سے آنے والے مصائب کے طوفانوں کا مقابلہ کیا، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سے محبت کا دعویدار اس دین حق کی تبلیغ واشاعت کیلئے بے قرار نہ ہو۔
﴿۷﴾ آپﷺ سے محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺکی امت سے شفقت و رحم کا سلوک کیا جائے۔ ان کی ہدایت کیلئے کوششیں کی جائیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ بھی اپنی امت کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے۔ اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا:
﴿بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَو،ٔفُ رَّحِیْمٌ﴾
حجۃ الوداع کے موقع پر قربانی کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی امت کی طرف سے ذبح فرمایا تھا۔.
اس لئے رسول اللہ ﷺ کی محبت جیسی عظیم نعمت کی قدر اور حفاظت کی کوشش کرنی چاہیے ، جس کا سب سے آسان طریقہ درود شریف کی کثرت ہے اور دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اپنی ذات کے بعد پھر اس دولت کو نئی نسل تک منتقل کرنے کی فکر بھی کرنی چاہئے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کشمیر کب اور کیسے آزاد ہو گا ؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 432)
کشمیر کا لفظ اہلِ پاکستان کے لئے ایک محبوب، مقدس اور محترم حیثیت رکھتا ہے۔ اس خطہ ارضی سے اہلِ پاکستان کی محبت بلکہ عشق آج کا نہیں ۔ یہ تو ’’ قصّہ ہے صدیوں کا‘ دوچار برس کی بات نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی تمام قابل ذکر جنگیں کشمیر کے لئے ہی ہوئی ہیں۔ پاکستانی دریائوں کے سرچشمے کشمیر کی سرزمین سے پھوٹتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیروں کے ظلم و ستم اور اپنوں کی سازشوں کے باوجود کشمیر آج بھی اہلِ پاکستان کے لئے ایک شمع کی حیثیت رکھتا ہے جس پر جاں نثارانِ آزادی پروانہ وار اپنا تن من دھن قربان کر ڈالتے ہیں۔
اقبال مرحوم نے کشمیر کے ظاہری حسن اور خوبصورتی کا نقشہ کس خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے: ؎
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضائوں میں ہیں بیتاب
آج 5؍فروری ہے اور پوری قوم ‘ یوم یکجہتی کشمیر منا رہی ہے ۔ اگر پہلے کسی کو شک بھی تھا تو اب وہ ختم ہو چکا ہے کہ کشمیر کبھی بھی کشمیر ڈے منانے‘ ہڑتالیں کرنے اور جلسے جلوس سے آزاد نہیں ہو سکتا ۔ کشمیر کب اور کیسے آزاد ہو گا ؟ اس کو سمجھنے کیلئے تاریخِ کشمیر کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:
سب سے پہلے یہاں ہم تاریخِ کشمیر کے ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیںجس سے اس سوال کے جواب پر روشنی پڑتی ہے کہ کشمیر کیسے آزاد ہو گا؟ :
13 جولائی 1931ء کا دن کشمیر کی تاریخ میں اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہی وہ تاریخ ساز دن ہے جب کشمیر کے بائیس فرزندان توحید نے یکے بعد دیگرے اذان دیتے ہوئے ڈوگرہ پولیس کی گولیوں کے نتیجے میں جام شہادت نوش کیا۔ اور یوں اپنے مقدس خون سے تحریک آزادی کشمیر کا نقطئہ آغاز کیاہے، وہاں یہ اس حقیقت کا بھی واضح طور پر تعین کر دیتا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے کار فرماجذبہ بھی پہلے دن سے اسلام اور صرف اسلام تھا۔ اور نصب العین بھی اسلام اور صرف اسلام ہے۔
21 جون 1931ء کو ریاست جموں و کشمیر کے مشہور دینی مرکز خانقاہ معلی میں شمعِ حریت کے پروانوں کا عظیم الشان اجتماع ہوا۔ اس موقع پر وہ یادگار واقعہ پیش آیا جس نے تاریخِ کشمیر پر گہرے اثرات مرتب کئے۔
ہوا یہ کہ اجتماع کے آخر میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان عبدالقدیر جس کا کشمیر کے مسلمانوں سے نہ زبان اور علاقے کا تعلق تھا اور نہ رنگ و نسل کا بلکہ صرف اور صرف دین و عقیدے کا تعلق تھا، کھڑا ہو جاتا ہے اور سوز سے لبریز آواز میں مسلمانان کشمیر سے مخاطب ہو کر کہتا ہے:
’’مسلمانو! اب وقت آگیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ یادداشتوں اور گزارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ توہینِ قرآن کا مسئلہ حل ہو گا۔ تم اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائو اور ظلم کے خلاف لڑو‘‘۔ وہ اپنے ہاتھ سے راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتا ہے:
’’اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دو‘‘
اور جب اس نوجوان کے نعرۂ حق کی پاداش میں اس پر مقدمہ بغاوت قائم ہو جاتا ہے تو مسلمانانِ کشمیر اس کے ساتھ محض دین اور عقیدے کے تعلق کی بناء پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اور 13جولائی 1931ء کو جب سنٹرل جیل سری نگر میں اس کے مقدمے کی سماعت ہوتی ہے تو چشم فلک ایک ایسا ایمان افروز منظر دیکھتی ہے جو تحریک آزادی کشمیر کے لئے ایک منفرد اعزاز کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور طرۂ امتیاز کی بھی۔ یہ واقعہ جہاں اس تحریک میں ایک نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے وہاں اس تحریک کے اسلامی تشخص کو بھی مزید نکھار کر سامنے لاتا ہے۔ ہوا یہ کہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوتے ہی لاکھوں کی تعداد میں کشمیری فرزندان توحید اپنے بھائی سے اخوت و یکجہتی کے اظہار کے لئے جیل کے احاطے کے باہر جمع ہو گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو ایک نوجوان اذان دینے کے لئے کھڑا ہو گیا، ادھر سے پولیس کی گولی آئی اور وہ وہیں شہید ہو گیا۔ فوراً جذبہ ایمان سے سرشار ایک دوسرا نوجوان اٹھ کر آگے بڑھا اور اس نے اپنے پیش روکی جگہ کھڑے ہو کر اس سے آگے اذان دینا شروع کی، دوسری گولی آئی اور وہ بھی شہید ہو گیا۔ پھر تیسرا نوجوان اٹھا، پھر چوتھا، پھر پانچواں اور یوں اذان کی تکمیل تک بائیس فرزندان توحید شہید ہو گئے اور ان کے خون مقدس سے راہِ حق میں جان فدا کرنے کی تاریخ میں ایک نئے اور تابناک باب کا اضافہ ہوا۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
کشمیری مسلمان آج جن مصائب کی یلغار کا سامنا کر رہے ہیں اُس کا آغاز رنجیت سنگھ کے دور سے ہوتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جموں کے ایک ڈوگرا خاندان کے تین بھائیوں، دھیان سنگھ، گلاب سنگھ اور سچیت سنگھ نے نام پیدا کر لیا تھا۔ یہ سکھ نہیں بلکہ سخت متعصب ہندو تھے۔ ڈوگرے کشمیر کی ملحقہ پہاڑیوں کی ایک راجپوت قوم سے ہیں اور وادی کشمیر کے باشندے نہیں۔ دھیان سنگھ کو سکھ ریاست کے ایک اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا گیا اور گلاب سنگھ کو جموں کا راج مل گیا، جو رنجیت سنگھ نے 1820ء کے قریب ضبط کر لیا تھا۔ گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کے نام پر یکے بعد دیگرے کئی پہاڑی ریاستوں پر قبضہ کر کے کشمیر میں اپنی قوت اور اثر و رسوخ میں اضافہ کر لیا۔ اس طریقے سے اس نے کشتواڑ اور لداخ کو سکھ مملکت میں شامل کر لیا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی وفات اور اس کے بعد رونما ہونے والے جھگڑوں کی وجہ سے دھیان سنگھ کچھ عرصے کے لیے بہت طاقتور ہو گیا اور اس کی مدد سے گلاب سنگھ کو پہاڑی علاقوں میں اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کا موقع مل گیا۔ رجیت سنگھ سندھانو الیا کے ہاتھوں دھیان سنگھ اور مہاراجا شیر سنگھ کے قتل (1844ء) کے بعد گلاب سنگھ کچھ عرصے کے لیے اپنے پہاڑی مقبوضات میں چلا گیا، لیکن اس سے پہلے اسے ایک بغاوت کی سرکوبی کے لیے کشمیر بھیجا گیا تھا جس میں حاکم کشمیر میاں سنگھر مارا گیا تھا (1842ء)۔ اس نے یہ کام کامیابی سے انجام دیا، لیکن ملک ایک دفعہ پھر طوائف الملوکی کا شکار ہو چکا تھا اور باغی قبیلہ بمباسکھ فوجوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔1845ء میں جب خالصہ فوج انگریزوں کے خلاف جنگ میں کود پڑی تو گلاب سنگھ نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا، بلکہ جگن کے بعد نوجوان مہاراجا دلیپ سنگھ کے نمائندے کی حیثیت سے انگریزوں سے گفت و شنید میں شرکت کی۔ صلح نامہ لاہور کی رو سے دوآبہ بست جالندھر انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا، سکھوں پر پندرہ لاکھ اشرفی تاوان لگایا گیا اور مہاراج دلیپ سنگھ کی اتالیقی انگریز قائم مقام ہنری لارنس کو تفویض ہوئی۔ خزانے میں تاوان کی رقم پانچ لاکھ اشرفی سے زیادہ نہ نکلی۔ دس لاکھ اشرفیاں گلاب سنگھ نے دینے کا وعدہ کیا اور معاوضے میں کشمیر کی ریاست حاصل کر لی۔
لیکن گلاب سنگھ کو اپنی نئی مملکت کا قبضہ امن و آشتی سے نہیں ملا۔ حاکم کشمیر امام الدین نے بمبا قبیلے کی مدد سے گلاب سنگھ کی فوجوں کو شکست فاش دی۔ اب اسے وادی کا قبضہ دلوانے کے لیے انگریزی فوج بھیجی گئی جو بالاخر کامیاب ہوئی۔ گلاب سنگھ کی حکومت بحیثیت مجموعی مستحکم تھی لیکن اس کے زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی اور معاشی استیصا ل بری طرح کیا گیا۔ ریاست کے تمام چھوٹے اور بڑے عہدے ڈوگرا خاندان یا کشمیری پنڈتوں کے پاس تھے۔ مسلمان کاشتکاروں کے لیے مالیہ کی شرح ناقابل برداشت تھی۔ مسلمانوں پر ظالمانہ ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ کرنل نور نیز لکھتا ہے کہ گلاب سنگھ اپنا خزانہ بھرنے میں بے حد لالچی تھا۔ ۱۸۵۷ء میں اس کی موت کے بعد اس کا تیسرا بیٹا رنبیر سنگھ اس کا جانشین ہوا۔ اس نے ٹیکسوں میں پہلے کی نسبت بہت اضافہ کر دیا جس کی وصولی بڑی سختی سے کی جاتی تھی۔ ۱۸۷۷ء تا 1879 ء کے قحط سے ملک میں بڑی تباہی آئی اور ۱۸۸۵ء کے زلزلے سے بڑا نقصان ہوا۔ رنبیر سنگھ کا جانشین ۱۸۸۵ء میں اس کا سب سے بڑا بیٹا مہراجا پرتاب سنگھ ہوا۔ اس کے زمانے میں بھی ڈوگرا راج کا مسلمانوں پر خصوصی عتاب بیگاریا جبری محنت کی صورت میں جاری رہا، جسے قانونی تحفظ حاصل تھا۔ قحط اور زلزلے کے بعد 1893ء میں تاریخ کشمیر کا ایک بدترین سیلاب آیا۔
1911ء میں کشمیر کی آبادی1295201 ؍تھی۔ اس میں تقریباً 94فیصد مسلمان اور چھ فیصد ہندو تھے۔ جن میں سکھوں کی ایک قلیل تعداد بھی شامل تھی۔ ہندو زیادہ تر برہمن تھے، جنہیں عام طور پر پنڈت کہتے ہیں، خواہ ان کا پیشہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ قدیم زراعت پیشہ باشندے سب کے سب مسلمان ہو گئے تھے۔ غیر ملکی اقوام کی آمیزش بہت کم، بلکہ بالکل ہی نہیں ہوئی۔ کشمیریوں میں قدیم ذاتیں ابھی تک باقی ہیں، لیکن آپس میں شادی بیاہ کی اجازت ہے اور خاندانی نام (کرام) جو ابتداء ’’القاب تھے، بڑی حد تک ذاتوں کے ناموں کی جگہ استعمال ہونے لگے ہیں۔
سکھوں نے تقریباً تیس سال تک کشمیر پر حکومت کی اور یہ ظلم و تشدد اور جبر و استبداد کا تاریک ترین دور تھا۔ سکھوں نے مغلوں کے ہاتھوں جو شکستیں کھائی تھیں، ان کا بدلہ انہوں نے بے بس اور مجبور مسلمان کشمیریوں سے لیا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی اہمیت جانور سے زیادہ نہ تھی، حتیٰ کہ ایک مسلمان کو قتل کرنے کی سزا کسی سکھ کو صرف بیس روپے جرمانہ تھی۔ معاشی استحصال عام تھا، مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تھی اور مسلمان نماز با جماعت بھی ادا نہیں کرسکتے تھے۔
مہاراجا گلاب سنگھ بڑا متعصب ڈوگرا تھا۔ ڈوگروں نے برہمنوں کے ساتھ مل کر قبضہ ملتے ہی مسلم اکثریت پر ظلم و تشدد کا آغاز کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کی حیثیت کم مایہ قلیوں اور مزدوروں کی ہو کر رہ گئی۔ سیاسی و معاشی استحصال نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ ظالمانہ ٹیکسوں سے ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جاتا تھا۔ معاشرے میں وہ تمام سہولتوں سے محروم کر دیے گئے۔ اس پر طرہ یہ کہ انہیں شکایت کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ اگر کوئی مسلمان کسی سیاح کے سمانے بھی اپنی ہالت زار بیان کر تا تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا۔
مہاراجا کی فوج اور پولیس اور متعدد ہندو تنظیموں کے مظالم کی وجہ سے ریاست بھر کے مسلمانوں نے بغاوت کر دی تھی۔ مہاراجہ اپنی گھنائونی سازش کو ناکام دیکھ کر اپنے خاندان سمیت بھاگ گیا اور بلا تامل لارڈ مائونٹ بیٹن گورنر جنرل بھارت سے ریاست کے بھارت سے الحاق کی درخواست کر دی۔27 اکتوبر کو9 بجے صبح بھارتی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتر گئی اور مجاہدین آزادی کے خلاف لڑائی شروع کر دی۔ یہ ایک مسلمہ سازش تھی اور اسی کی بنا پر ریڈ کلف ایوارڈ میں ناانصافی کر کے گوراداسپور کا مسلم اکثریت والا علاقہ بھارت کو دے دیا گیا تھا تاکہ بھارت کو کشمیر تک راستہ مل سکے۔
کشمیر کے غیور اور بہادر عوام آج بھی بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے اسلام اور پاکستان سے اپنی بے لوث محبت کا کڑا امتحان دے رہے ہیں۔ درجنوں شہید ہوچکے ہیں، سینکڑوں گرفتار ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں جاں بلب ہیں۔ اُن کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے اُنھیں معاشی طور پر مفلوج کیا جارہا ہے، ہندو کی ظالمانہ ذہنیت کھل کر سامنے آچکی ہے، پاکستانی لیڈر اپنے اپنے مفادات کی خاطر چپ سادھے بیٹھے ہیں مگر پاکستانی عوام کے دل آج بھی اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
رُودادِ الم سُن سُن کے یہاں
سب لوگ ہیں گو دلگیر بہت
لیکن کشمیر کے شیروں کی
ہر دل میں ہے توقیر بہت
دشمن سے کہو اپنا ترکش
چاہے تو دوبارہ بھر لے
اِس سمت ہزاروں سینے ہیں
اُس سمت اگر ہیں تیر بہت
ایک امریکی صحافی نے فدائی حملوں پراپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے‘ یہ جملہ لکھا تھا ’’مسلمانوں بالخصوص عراق اور افغانستان کے مسلمانوں نے ثابت کردیا اگر انسان کے اندر مرنے کا جذبہ موجود ہو تو دنیا میں اس سے بڑا بم کوئی نہیں۔‘‘ عراق اور افغانستان کے ساتھ کشمیری مجاہدین نے بھی یہ ثابت کردیا ہے اگر آپ غریب ہیں، آپ کے پاس ٹیکنالوجی نہیں، آپ کے پاس ہتھیار اور فوج بھی نہیں تو بھی آپ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں، بس اس کے لیے آپ کو اپنے جسم کو بم بنانا ہوگا‘اپنے آپ کو مرنے کے لیے تیار کرنا ہو گا اور اپنی قوم کی بقا اور اپنے دین کی سربلندی کیلئے فنا ہونا ہو گا۔ ؎
فناء فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا ‘اسے جینا نہیں آتا
یہی ہمارے اس سوال کا جواب ہے کہ’’ کشمیر کب اور کیسے آزاد ہو گا ؟‘‘
٭…٭…٭
عزت کا محافظ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 433)
اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آج کل جہنم کے انگارے خوب پھیل رہے ہیں ۔ اخبارات اور ان کے صفحات پر شائع شدہ ٹی وی چینلز کی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ انگاروںکی اس دلالی میں پیش پیش ہیں ۔ ایسے نامانوس الفاظ اور اجنبی تعبیریں ‘ جن سے چند سال پہلے تک ہمارے ماحول میں چند لوگ ہی واقف تھے ‘ دجالی لشکر کے سپاہیوں نے اس طرح انہیں عام کر دیا ہے کہ اب شاید ہی کوئی بچہ بھی ان سے بے خبر ہو ۔
مثال کے طور پر آپ ’’ ویلنٹائن ڈے ‘‘کوہی لے لیں ۔ یہ اتنا عجیب و غریب لفظ کہ جس کا تلفظ بھی صحیح طور پر کرنا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں تھا ‘ آج کل نہ صرف یہ کہ زیر بحث بنا ہوا ہے بلکہ بڑے شہر وں کے پوش علاقوں میں اس دن کے استقبال کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں ۔ بے غیرتی ‘ بے شرمی ‘ بے حیائی اور مادر پدر آزادی میں لتھڑے ہوئے چند منچلے تو کھلم کھلا یہ دن مناتے ہیں اور اس دن نامحرم مرد و زن ’’محبت ‘‘ جیسے پاکیزہ لفظ کی آڑ میں شہوانیت اور شیطانیت کا وہ مکروہ کھیل کھیلتے ہیں ‘ جس کو سن کر بھی ہر شریف انسان کو پسینے آجاتے ہیں ۔
وہ لوگ جنہوں نے اپنے دل و دماغ یورپ کے پاس رہن رکھوا دئیے ہیں ‘ وہ انہی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور انہی کے ذہن سے سوچتے ہیں اور جو لوگ اتنے زیادہ ’’ترقی آفتہ‘‘ ہو گئے ہیں کہ اب اُن کے لیے غیرت و حمیت اور شرم و حیا بے کار اور بے معنی الفاظ بن گئے ہیں ‘ اُن سے تو کچھ کہنا اور انہیں اس تباہی سے خبردار کرنا ‘ جو ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے ‘ شاید بالکل ہی فالتو ہو لیکن جو لوگ آج بھی گناہوں کے تصور سے کانپ جاتے ہیں اور اپنے گھروں کو فحاشی کے کوڑھ سے بچانا چاہتے ہیں ‘ اُن سے یہ چند باتیں عرض کی جارہی ہیں ۔
وہ مرد حضرات اور وہ قابل احترام خواتین‘ جو نہیں چاہتے کہ ہمارے گھر اس سیلاب بلا خیز کی لپیٹ میں آئیں ‘ جس نے بہت سے خاندانوں کی چولیں ہلا دی ہیں ‘ بہت سے شرفاء کی عزت خاک میں ملا دی ہے اور بہت سے لوگوں کو موت کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے ‘ اُنہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت اور اہم حکم کی قدر کریں ‘ جسے ہم ’’پردہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ دین اسلام چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ‘ اس لیے وہ ایسی برائیوں کو جڑ سے ہی ختم کر دیتا ہے اور اس کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا کہ ایسی کوئی اخلاقی بے راہ روی مسلمانوں کے معاشرے میں پنپنے پائے ۔
’’پردہ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کے فوائد اور اس کے تفصیلی احکامات اس ایک مضمون میں نہیں سما سکتے لیکن یہ فقیر اپنے تجربے کی روشنی میں یہ ضرور عرض کرے گا کہ ’’پردہ‘‘ کی برکت سے آپ کے گھر ہر قسم کی اخلاقی بے راہ روی سے محفوظ رہیں گے اور شیطان آپ کے گھر میں کوئی ایسا نقب نہیں لگا سکے گا کہ جس سے دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت سہنی پڑے ۔ بے پردگی تباہی کی پہلی سیڑھی ہے ‘ جس کے بعد بڑی برائیوں تک پہنچنے میں بہت کم فاصلہ باقی رہ جاتا ہے ۔ ایسے واقعات جن میں آخر کار بڑوں کو افسردہ اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے عام طور پر وہ بے پردگی کی وجہ سے ہی پیش آتے ہیں ۔
لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ پردے سے میری مراد رسمی پردہ نہیں بلکہ حقیقی اور شرعی پردہ ہے ۔ سورئہ احزاب کی آیات مبارکہ کی روشنی میں علماء نے لکھا ہے کہ پردے کیلئے جو برقعہ یا بڑی چادر لی جائے ‘ اُس میں یہ صفات ضرورہونی چاہئیں ‘ تب ہی وہ پردے کے مقاصد کو پورا کریں گی ۔
(۱)…بدن کے مستثنیٰ اعضاء کے علاوہ پورا بدن اچھی طرح چھپ جائے ۔
(۲)… برقعہ یا چادر ایسی نہ ہو کہ وہ بذات خود ہی زیب و زینت میں داخل ہو جائیں جس کا چھپانا لازمی ہے جیسے آج کل کے مروجہ فینسی برقعے۔
(۳)… برقعہ یا چادر اتنی دبیز اور موٹی ہو کہ اس میں سے جسم نہ جھلکے ۔
(۴)… یہ برقعہ یا بڑی چادر تنگ نہ ہوں بلکہ کشادہ اور ڈھیلی ڈھالی ہو ں۔
(۵)… ان پر کوئی عطریا پرفیوم نہ لگایا گیا ہو۔
(۶)… یہ برقعہ وغیرہ مردوں یا کافر عورتوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو ۔
فینسی برقعہ پہن لینے یا صرف اسکارف اوڑھ لینے سے اپنے آپ کو تو پردے کا دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن یہ پردے کے شرعی حکم کے ساتھ صرف ایک بھونڈا مذاق ہے ‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
یہاں میں ایک اور اہم ترین بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بے پردگی صرف گھر سے باہر ‘ گلی کوچوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ بے پردگی گھر میں بھی ہو سکتی ہے اور یہ پہلے کی نسبت کم خطرناک نہیں ۔ بہت سی خواتین عام مردوں سے تو پردہ کرتی ہیں لیکن اپنے قریبی نا محرم رشتے داروں یا اپنے شوہر کے رشتے داروں سے پردہ نہیں کرتیں ۔ ایسی خواتین کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ شرعی پردہ نہیں ‘ جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ یہ صرف خاندانی شرافت ‘ ذاتی انانیت اور رسم و رواج کی وجہ سے کیا جانے والا پردہ ہے ۔ پردے کے تمام فوائد تب ہی ملیں گے جب مکمل طور پر شریعت کے حکم کے مطابق اس کو سرانجام دیا جائے ۔
بہت سے لوگ جن کے ہاں پرد ے کا رواج نہیں ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پردہ شروع کر دیا تو نجانے زندگی کتنی مشکل اور کٹھن ہو جائے گی حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ پردے سے زندگی محفوظ ‘آسان اور خیرو برکت سے لبریز ہو جاتی ہے۔
کچھ لوگ یہ طعنہ بھی دیں گے یہ تو رجعت پسندی ہے ۔ ایسے لوگوں سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
کیونکہ در حقیقت رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی پرانی روایت یا عادت اختیار کی جائے جو کسی نئی ، مفید اور نفع بخش چیز یا چلن کے خلاف ہو ۔ جب ہم ماضی کے اوراق پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بے پردگی فرعون اور مشرکین عرب کے دور کی خصوصیت تھی جو معاشرے پر چھائی رہی ۔ یہ بہت بری چیز تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بے پردگی کی ممانعت فرمادی :
’’ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ ‘‘
’’اور سابقہ دور جاہلیت کی سج دھج کی مانند زیب و زینت کی ( بے پردہ ہو کر ) نمائش نہ کرتی پھرو ‘‘۔
حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں : جاہلیت کے زمانے میں عورت گھر سے باہر نکلا کرتی تھی اور لوگوں کے سامنے کھلم کھلا پھرا کرتی تھی۔ یہی جہالت کی بے پردگی اور سج دھج ہے ۔
حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں‘ میں نیک بخت عورتوں سے کہتا ہوں کہ جب تم اپنے گھروں سے باہر نکلو تو زمانۂ جاہلیت جیسی سج دھج اور بے پردگی اختیار نہ کیا کرو ۔ جاہلیت میں عورتوں کی مخصوص چال ، ناز نخرے اور نسوانی نزاکت ہوا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں سے خواتین کو منع فرما دیا ۔
حضرت ابن حبان ؒ فرماتے ہیں ‘تبرج یہ ہے کہ عورت اوڑھنی محض اپنے سر پر ڈال لے مگر اسے لپیٹنے اور سینہ ڈھانپنے کی زحمت گوارا نہ کرے ، اپنے ہار ، بالیوں اور گردن کو کھلا رکھے اور یہ ساری سج دھج نمایاں ہوتی رہے ، بس یہی ممنوعہ بے پردگی ہے ۔
ثابت ہو گیا کہ بے پردگی بڑی قدیم روایت ہے۔ پس اگر کوئی خاتون بے پردہ ہے تو لا محالہ رجعت پسند قرار پائے گی ۔ لیکن جب کوئی خاتون پردہ کرتی ہے تو پھر اُسے کس رو سے رجعت پسند اور قدامت پرست قرار دیا جاتاہے ؟
کیا تہذیب و تمدن بے پردگی کا نام ہے ؟ اگر واقعی بے پردگی ہی کا نام تہذیب ہے تو یہ کن لوگوں کی تہذیب ہے ؟ مسلمانوں کی یا کفار کی؟ یہاں ضروری ہے کہ تہذیب کی تعریف پر غور کیا جائے ۔
تہذیب در حقیقت ایک پہچان اور شناخت کا نام ہے ۔ کسی قوم کے عقائد ، ان عقائد پر ان کے عمل ، جغرافیائی احوال اور اس کے طور طریقوں ، رہن سہن ، لباس ، صناعت ، روایات ، معاملات ، تہوار ، مقدس ایام منانے اور خوشی و غمی کی تقریبات کے طریقوں کے پیش نظر جو تصویر اور تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہی اس قوم کی تہذیب کہلاتا ہے اور اسی کے حوالے سے وہ قوم پہچانی جاتی ہے ۔
جب مسلمان کا لفظ کسی قوم یا شخص کے لیے بولا جاتا ہے تو اسلامی تہذیب کی روشنی میں ذہن میں ایک مخصوص تصویر اجاگر ہوتی ہے جس کے لباس ، طرز تکلم اور عقائد سے ہم اس کی شناخت کر لیتے ہیں کہ حقیقتاً یہ شخص مسلمان ہے ۔
اب ہم اپنے عقائد و نظریات کی روشنی میں اپنی تہذیب سے متصف اسلامی خاتون کا تصور کریں اور اس کا حلیہ دیکھیں تو کیا وہ ایسی خاتون ہے جس کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے ، جس کا گریبان ، گردن اور بازو کھلے ہوئے ہیں اور جس کا کھلا چہرہ اجنبی نگاہوں کو دعوتِ نظارہ دے رہا ہے ، جس کے بدن کا ایک ایک انگ ہوس بھری نظروں کا ہدف بن کر دعوت گناہ دے رہا ہے؟ یا اسلامی تہذیب اپنانے والی خاتون وہ ہے جو سر سے پائوں تک کسی بڑی چادر یا برقع میں چھپی ہوئی ہے اور بازاری مردوں سے بچتے ہوئے نہایت احتیاط اور وقار سے قدم اٹھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے؟
اب ایک مغربی فیشن کی دلدادہ یا کسی اخلاق باختہ بازاری ، شمع محفل قسم کی روشن خیال ، نام نہاد مسلمان عورت کا تصور ذہن میں لائیے ، اور بتائیے کہ یہ عورت کس تہذیب کی ترجمانی کررہی ہے ؟
تہذیب و تمدن اور رجعت پسندی کا فرق اب بالکل صاف اور بے غبار ہو گیا ہے ۔ اللہ کی قسم! پردہ اعلیٰ اقدار و روایات کی تہذیب کی نشانی ہے ۔ پردہ عورت کے وقار اور اعتبار میں اضافے کا ضامن ہے ۔ پردہ عورت کی آبرو کا نگہبان ہے ۔ پردہ عورت کی عظمت ، ہیبت اور سطوت میں اضافہ کرتا ہے ۔
اللہ کریم ارشا د فرماتے ہیں:’’ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہی طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے لوگ کرتے رہے ہیں اور وہ تمہاری طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ۔ اللہ تویہ چاہتا ہے کہ وہ تمہاری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو مگر جو لوگ خواہشات نفس کے پیرو کار ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر بہت دور نکل جائو ۔ اللہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘ ( النساء )
اقبال مرحوم نے ایک مسلمان خاتون کو کتنی عظیم اور گہری نصیحت کی ہے ۔ فرماتے ہیں :
اگر پندے ز درویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرؓ ے بگیری!
( اگر ایک درویش کی نصیحت کو تو قبول کر لے تو ساری دنیا فناء ہو جائے گی‘ تو فناء نہیں ہو گی اور وہ یہ نصیحت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرح بن جا اور لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہ کہ تیری گود میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ جیسی اولاد پرورش پاسکے)
پردے کے علاوہ بھی چند چیزیں جن کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے مثلاً آج کل کے فحش رسائل و جرائد اور ٹی وی چینلز ، یہ تباہی کے وہ آلات ہیں کہ جس گھر میں بھی یہ داخل ہوتے ہیں ‘ وہاں کوئی خیر اور بھلائی نہیں لاتے ۔ ہمیشہ شر اور فتنہ و فساد ہی پیدا کرتے ہیں ۔ اسی طرح اپنی اولاد کیلئے درسگاہ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کرکرنا چاہیے ۔ مخلوط تعلیم کے زہریلے اثرات بہت خطرناک ہوتے ہیں‘ جن سے بچناناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے ۔
بہرحال پردے کی برکت سے دیکھا یہ گیا ہے کہ باقی مخرب اخلاق چیزوں سے خود ہی نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور دیگر برائیوں سے بچنا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ پر جہاں شیطان کے چیلے ‘ مغربی تہذیب سے اپنی وابستگی کا اعلان کریں تو وہاں مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ غیرت و حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے پردے کو عام کریں ۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایسے شیطانی اثرات سے محفوظ رہیں ۔ اور وہ مغرب سے درآمد شدہ حیوانی تہذیب و ثقافت کے بجائے مدینہ منورہ سے سکھائی جانے والی پاکیزہ طرزِ زندگی کو اپنائیں ۔
٭…٭…٭
انجام یاد رکھیں …!
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 434)
ابن حزمؒ نے اپنی کتاب ’’طوق الحمامہ ‘‘ میں ایک بہت دلچسپ واقعہ لکھا ہے … اندلس میں ایک مشہور تاجر تھا … اُس کے اور دیگر چار تاجروں کے درمیان مقابلہ بازی تھی … ان کی آپس میں ایسی نفرت پیدا ہوئی کہ… ان چار مخالفین نے اُسے نیچا دکھانے کا عہد کر لیا… ایک دن صبح ‘ جب یہ تاجر سفید لباس اور سفید عمامہ پہن کر اپنی دکان کی طرف چلا … تو منصوبے کے مطابق اُن چاروں میں سے ایک اس کے پاس آدھمکا … اُس نے آتے ہی سلا م کیا اور کہا :

’’ واہ !یہ زرد عمامہ تو آپ پر کیا خوب جچ رہا ہے ‘‘
تاجر نے یہ سنتے ہی کہا :
’’ اے بھائی ! کیا آپ اندھے ہو گئے ہیں ‘ یہ تو سفید عمامہ ہے ‘‘ ۔
آنے والے نے کہا :
’’ نہیں بھائی ! یہ تو بالکل زرد ہے ‘ البتہ ہے بہت خوبصورت ‘‘ ۔
اب یہ پہلا شخص وہاں سے چلا گیا ۔ تاجر تھوڑا ہی آگے چلا تھا کہ دوسرا شخص اُسے ملا اور بڑے پرتپاک لہجے میں اس سے سلام دعا کر کے کہنے لگا :
’’ آج تو آپ نے کیا شاندار لباس پہن رکھا ہے ‘ خاص طور پر اس سبز عمامہ کی تو بات ہی کیا ہے ‘‘
تاجر نے جواباً کہا :
’’ بھائی! میرا عمامہ تو سفید ہے ‘‘ ۔
ملاقات کرنے والے نے کہا :
’’ نہیں بھائی ! یہ تو خوبصورت سبز عمامہ ہے ‘‘ ۔
تاجر نے تنگ آتے ہوئے کہا :
’’ بھائی ! یہ سفید ہے اور آپ اپنے کام سے کام رکھیں ‘‘ ۔
اب یہ بے چارہ اپنے آپ سے ہی کہتا ہوا جا رہا ہے کہ میرا عمامہ تو سفید ہے ‘ میرا عمامہ تو سفید ہے ۔ کبھی یہ اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے عمامہ کے کنارے کو بھی دیکھ لیتا ہے تاکہ اس کو یقین رہے کہ ہاں واقعی اس نے سفید عمامہ باندھ رکھا ہے ۔
تاجر اپنی دکان پر پہنچ گیا … ابھی وہ تالے کھول ہی رہا تھا کہ تیسرا شخص آپہنچا اور کہنے لگا :
’’ واہ بھائی واہ ! آج تو کیا خوب لگ رہے ہو ‘ خاص طور پر تمہارا یہ نیلا عمامہ تو غضب ڈھا رہا ہے ‘‘ ۔
تاجر نے ایک دفعہ اپنی آنکھیں ملیں ‘ عمامہ کو دیکھا اور آہستہ سے کہا :
’’ بھائی ! یہ تو سفید ہے ‘ سفید !‘‘
آنے والا نے کہا :
’’ بھائی ! پریشانی کی بات نہیں … ہے تو یہ نیلا لیکن بہت خوبصورت ہے ‘‘ ۔
اب وہ شخص بھی چلا گیا … تاجر اب زور زور سے چیخنے لگا … عمامہ سفید ہے ‘ عمامہ سفید ہے … وہ یہ کہتا جاتا ہے اور کبھی عمامہ کو دیکھتا اور کبھی اُس کو الٹتا پلٹتا۔
ابھی دکان پر بیٹھے تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ان حاسدین میں سے چوتھا شخص بھی آگیا اور آتے ہی کہنے لگا :
’’ اھلا ً و سھلا ً … ماشاء اللہ … بھائی ! یہ اتنا خوبصورت سرخ عمامہ آپ نے کہا ں سے خریدا ہے ؟‘‘
اب بے چارہ چیخ اٹھا …میرا عمامہ تو نیلا ہے … نہیں یہ تو سبز ہے … نہیں ‘ نہیں یہ تو زرد ہے … یہ تو سفید ہے … پھر وہ ہنسا … پھر چیخا … پھر رونے لگ گیا … اور مجنونوں کی طرح چھلانگیں لگانے لگا …
ابن حزم ؒ کہتے ہیں ! میں نے خود اُسے اندلس کی سڑکوں پر دیکھا کہ وہ پاگل ہو گیا تھا اور چھوٹے بچے اُسے کنکر مارتے تھے …
آپ کو شاید یہ واقعہ پڑھ کر تعجب ہوا ہو اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بھی یہ واقعہ بہت عجیب لگا تھا لیکن آج کل ذرائع ابلاغ نے جس طرح ہر مسئلے میں قوم کو پاگل بنا رکھا ہے ‘ اس واقعہ سے زیادہ اچھی مثال اس کی کہیں اور نہیں مل سکتی تھی ‘ اسی لیے ہم نے اسے یہاں نقل کر دیا ہے ۔ وہ نظریات جو آج سے چند سال پہلے تک اہلِ پاکستان کی پہچان تھے‘ آج بھانت بھانت کی بولیاں بول کر صحافیوں نے اُنہیں بھی متنازع بنا ڈالا ہے ۔
یہ صحافی اور صحافت ریاست کاپانچواں ستون ہیں۔ آج کے سلسلۂ گفتگو میں ہم ان کی بے مثال خدمات پر انہیں نذرانۂ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں خواہ وہ ان کے مزار مبارک پر پھول چڑھانے کی شکل میں ہی ہو۔
وہ مزار جس میں ’’الہلال‘‘ کے مولانا ابوالکلام آزاد ’’کامریڈ‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ کے مولانا ظفر علی خان سمیت مولانا حسرت موہانی جیسے درویشانِ خدامست آرام فرما ہیں۔ اب راہِ صحافت کے ان بلند میناروں کی مثال تو درکنار ان کے مزارات مقدسہ کے مجاور بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
پیشگی معذرت ہے ان اہل قلم کی خدمت میں جو آج بھی اخلاق وکردار کے فرسودہ اصولوں کو زندہ وتابندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جو اپنے دل ودماغ سے سوچنا، اپنی زبان سے کہنا اور اپنے قلم سے لکھنا جانتے ہیں۔ وہ جو صحافت کی گندی دلدل میں کنول کے خوبصورت پھول کی طرح کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ وہ جو ظلمت کدہ دہر کی تیرہ وتار فضاؤں میں روشن چراغ کی طرح گم کردہ راہان صداقت کو منزل وفا کا پتہ دے رہے ہیں۔
کوئی تیرہ سو برس گزرے کہ چین سے ایک سیاح علم ودانش کی تلاش میں ہندوستان آیا تھا۔ اس کا نام ہیونگ سانگ تھا۔ وہ شمال کے پہاڑ اور ریگستان طے کرتا ہوا یہاں پہنچا۔ اسے علم کا اتنا شوق تھا کہ راستے میں اس نے سینکڑوں مصیبتیں اٹھائیں اور ہزاروں خطروں اور مشکلوں کا مقابلہ کیا۔ وہ ہندوستان میں بہت دن رہا۔ خود سیکھتا تھا اور دوسروں کو سکھاتا تھا۔ زیادہ تر وہ نالندہ کی یونیورسٹی میں رہا جو سہر پاٹلی پتر کے قریب واقع تھی۔ اب اس شہر کو پٹنہ کہتے ہیں۔ ہیون سانگ پڑھ لکھ کر بہت قابل ہوگیا یہاں تک کہ اسے بدھ مت کے فاضل قانون کا خطاب دیا گیا۔ پھر اس نے سارے ہندوستان کا سفر کیا اور اس عظیم الشان ملک کے ان باشندوں کا جواب سے صدیوں پہلے یہاں رہتے تھے دیکھا بھالا اور ان کے متعلق پوری معلومات حاصل کیں، اس کے بعد اس نے اپنا سفر نامہ لکھا۔ کاش کہ وہ بھی صحافی ہوتا تو اتنی مشکلات سے بچ جاتا اور گھر بیٹھے بیٹھے ’’خصوصی ذرائع‘‘ سے ایک عدد زبردست رپورٹ تیار کرلیتا جس میں ’’اندرونی ذرائع‘‘ یعنی تخیل واوہام کا بھی کافی حصہ ہوتا۔
بہر حال اپنے سفرنامہ میں اس نے ایک دلچسپ کہانی لکھی ہے۔ یہ ایک شخص کا قصہ ہے جو جنوبی ہند سے شہر کرناسوورنا میں آیا تھا۔ یہ شہر صوبہ بہار میں بھاگل پور کے آس پاس کہیں واقع تھا۔ سفرنامے میں لکھا ہے کہ یہ شخص اپنے پیٹ کے چاروں طرف تانبے کی تختیاں باندھے رکھتا تھا اور سر پر ہمیشہ ایک جلتا ہوا چراغ رکھتاتھا۔ جب باہر نکلتا تو ہاتھ میں عصا پکڑے اکڑ اکڑ کر چلتا اور عجیب وغریب مضحکہ خیز ہیئت میں بڑی شان سے ادھر ادھر گھومتا۔ جب کوئی اس سے پوچھتا کہ جناب یہ کیا وضع قطع ہے؟ تو وہ پورے عالمانہ (بلکہ صحافیانہ) غرور سے جواب دیتا کہ میرے اندر اتنی حکمت بھری ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہیں میرا پیٹ نہ پھٹ جائے، اس لیے میں حفاظتی طور پر اپنے پیٹ پر تانبے کی تختیاں باندھ لی ہیں اور چونکہ تم سب لوگ جہالت کی تاریکی میں ہو اور مجھے تم پر بہت ترس آتا ہے اس لیے میں ہر وقت اپنے سر پر چراغ جلائے پھرتا ہوں۔
قارئین کرام! کیا خیال ہے اگر ان باہمت اور جوانمرد صحافیوں کو بھی یہی مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو پھٹنے سے بچانے کیلئے فولادی تختیوں کا انتظام کرلیں۔ ان ناجی نامی مہلک قسم کے لوگوں میں کتنی دانائی بھری پڑی ہے، اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگائیں کہ دنیا کے ہر علم وفن کا ماہر شخص دوسرے کے میدان میں رائے زنی سے احتیاط کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں جب اس لائن کا آدمی نہیں تو مجھے اس میں نہیں بولنا چاہئے لیکن یہ صحافی برادری ایسے ’’ہر فن مولا‘‘ لوگوں سے بھری پڑی ہے جو جس چراگاہ میں مرضی ہے منہ ماریں، ان پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں اور اگر کسی نے ان کو اپنی حقیقت بتانے اور آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو وہ آزادیٔ اظہار رائے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا جو جدید دور میں کلمۂ کفر کے برابر ہے۔
یہ تو آپ معلوم ہوگا کہ دنیا بھر کی صحافت پر یہودی بری طرح قابض ہیں جن کی اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے حکمرانوں کے سوا ہر کوئی جانتا ہے۔ ان کی صرف ایک ’’ہالنگر انٹرنیشنل پبلشنگ کمپنی‘‘ دنیا کے چار بڑے ممالک میں شیطان کی آنت کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں اس کا نام ’’ٹیلی گراف گروپ لمیٹڈ‘‘ ہے جو مشہور زمانہ ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ اور ہفـت روزہ ’’سنڈے ٹیلیگراف‘‘ شائع کرتا ہے۔ اسرائیل میں یہی کمپنی ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کی شکل میں موجود ہے جس کے زیر نگرانی ’’دی ویک ان اسرائیل‘‘ اور ’’یروشلم پوسٹ ریڈیو‘‘ کام کرتے ہیں۔ کینیڈا پہنچ کر اس کمپنی کی شناخت ’’ہالنگر کینیڈین پبلشنگ‘‘ بن جاتیہے جس کے چالیس مختلف شعبہ جات ہیں۔ امریکہ میں یہی کمپنی ’’شکاگو گروپ‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے جو ’’شکاگو سن ٹائمز‘‘ اور عوامی سطح کے ایک سو بیس اخبارات شائع کرتی ہے۔ پاکستان میں یہی لوگ کسی بھیس میں مصروف کارہیں؟ یہ تلاش کرنا اور نشاندہی کرنا آپ کا کام ہے۔ ہم فی الحال اس بکھیڑے میں نہیں پڑ سکتے، کیونکہ
’’جس کو ہوجان ودل عزیز، وہ اس گلی میں جائے کیوں؟‘‘
ابھی کل ہی اس قسم کے ایک صاحب مشق قلم میں لکھ گئے کہ ’’کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو جیش محمد (ﷺ)نے نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ اب ان ’’عقل کل‘‘ صاحب سے کوئی پوچھے کہ جن جانبازوں نے بغیر کسی مالی ومادی نفع کے اپنی جانوں پر کھیل کر اس مسئلے کو زندہ رکھا، انہوں نے تو اسے نقصان پہنچایا تو پھر یہ آپ جیسے سورماؤں کا کمال ہے کہ امریکہ اور بھارت کشمیر پر مذاکرات کیلئے بے قرار ہو رہے ہیں۔ پاکستان تو نصف صدی سے اقوام متحدہ کو دہائیاں دیتا آرہا ہے لیکن کسی بھارتی لیڈر کے پاس مذاکرات کیلئے وقت ہی نہ تھا اور کو ئی گھاس تک ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا۔
مشہور فاتح جرنیل نپولین بونا پارٹ کو انگریزوں نے عارضی طور پر شکست دینے کے بعد جب دور دراز ایک جزیرے میں قید کردیا تو فرانس میں اس کے مخالف، شاہ پرست اخباروں نے اس کیخلاف خوب دل کھول کر لکھا اور بغلیں بجائیں۔ عوام کو لڑنے والوں کے عبرتناک انجام سے ڈرایا دھمکایا۔ کچھ ہی عرصے بعد نپولین اس جزیرے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور ایک منظم فوج تشکیل دے کر فرانس پر قبضے کیلئے آگے بڑھا۔ اخبارات اس پر شہ سرخی جمائی:
’’وحشی درندہ، قید خانے سے بھاگ نکلا‘‘
نپولین جب فرانس کی سرحدوں کے قریب پہنچا تو اخبارات نے ہیڈنگ لگائی:
’’قاتل فرانس کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے‘‘
جب نپولین سرحد پار کرکے فرانس میں داخل ہوگیا تو کچھ تبدیلی آئی اور لکھاگیا:
’’نپولین بونا پارٹ فرانس میں وارد ہوگیا‘‘
جب وہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گیا تو اخبارات کی شہ سرخیاں کچھ یوں تھیں:
’’عالی مرتبت، جہاں پناہ، شہنشاہِ فرانس کل پیرس میں جلوہ افروز ہوں گے‘‘
ایسے ’’حق گو اور بے باک‘‘ صحافیوں کے نقش قدم پرچلنے والے اگر آج امریکہ اور بھارت کی کاسۂ لیسی میں مولوی، ملا اور جہاد ومجاہدین پر برس رہے ہیں توہمارے خیال میں یہ کوئی ناقابل فہم بات نہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہ معلومات کی مہارتوں کا دور اور زمانہ ہے … معلومات اچھی چیز ہیں بشرطیکہ دنیا یا آخرت کے لیے مفید اور کارآمد ہوں … ورنہ انسان کا وہی حشر ہوتا ہے جو اندلس کے اُس تاجر کا ہوا … جس کا واقعہ آپ شروع میں پڑھ چکے ہیں ۔
٭…٭…٭
صحت مند زندگی کا راز …!
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 435)
گزشتہ دنوں اپنے ایک محسن بزرگ کی عیادت کے سلسلے میں پاکستان کے ایک مشہور ہسپتال جانا ہوا ۔ ہسپتال کے صدر دروازے کے باہر لگے ہوئے ایک بڑے بورڈ پر نظر پڑی تو اٹھتے ہوئے قدم رک گئے اور میں خوشگوار حیرت سے ‘اُسے پڑھنے لگا ۔ وہ بورڈ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے لگایا گیا تھا اور اس پر صحت مند زندگی کے راز لکھے ہوئے تھے ۔

پہلے نمبر پر انہوں نے ’’نمازوں کی پابندی ‘‘ کو رکھا ‘ جو اسلام قبول کر لینے کے بعد ہر مسلمان کے ذمے عائد ہونے والا سب سے پہلا فرض ہے ۔ ایک ایمان والا ‘ نماز اس لیے نہیں پڑھتا کہ اُس کی صحت اچھی رہے بلکہ وہ تو اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنے عجز و نیاز کی پونجی پیش کرتا ہے اور رب العالمین کے سامنے سربسجود ہو کر ‘ اُس کی کبریائی اور اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے لیکن اللہ کی شان دیکھیں کہ آج ماہر ڈاکٹرز بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ انسان کے ظاہر و باطن اور قلب و قالب کی صحت کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی اور عمل نہیں ہو سکتا ۔
دوسر ے نمبر پر انہوں نے ’’سادہ طرز ِ زندگی ‘‘ کو رکھا جو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے ۔ سیرت طیبہ کی کتابیں اس کی مثالوں سے لبریز ہیں ۔ مستدرک ِ حاکم میں ہے کہ ایک مرتبہ رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے ہاں آئے ۔ آپ کو بھوک لگی تھی ۔ پوچھا :
’’ ہمارے کھانے کیلئے کچھ ہے ؟ ‘‘
حضرت ام ہانی ؓ نے عرض کیا :
’’ روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے ہیں ‘ آپ کو پیش کرتے ہوئے حیا آتی ہے ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری بشاشت سے فرمایا:
’’ وہ ہی لے آئیں !‘‘
حضرت ام ہانی ؓ روٹی کے وہ سوکھے ٹکڑے لے آئیں ‘ اُنہیں پانی میں بھگویا اور اوپر نمک چھڑک کر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ کھانے لگے اور پوچھا :
’’ کوئی سالن ہے ؟‘‘
انہوں نے عرض کیا :
’’ اے اللہ کے رسول ! تھوڑا سا سرکہ ہے ‘‘ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی لانے کا کہا اور پھر آپ نے اُسے بھی روٹی کے ٹکڑوں پر انڈیل لیا ۔ کھانا کھانے کے بعد ’’الحمد للہ ‘‘ پڑھا اور ارشاد فرمایا :
’’سرکہ تو اچھا سالن ہے ‘‘
آج کے دور میں جب مادی ترقی کی چکا چوند نے ہر آنکھ کو خیرہ کر رکھا ہے اور امیر تو کیا غریب بھی سادگی کو اپنے لیے باعث شرمساری سمجھتا ہے ‘ ایسے حالات میں بھلا ہم اُن مسلمان حکمرانوں کی سادہ طرزِ زندگی کا اندازہ کیسے کر سکتے ہیں ‘ جنہوں نے اپنے فضل و کمال اور عدل و انصاف کے انمٹ نقوش رہتی دنیا پر چھوڑے ۔
عمیر بن سعد ؓ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے ۔ قبیلہ اوس سے تعلق تھا ۔ ملک شام میں باز نطینی حکومت کے ساتھ قریباً سب لڑائیوں میں شریک رہے ۔سیدنا عمر ؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں انہیں حمص کا گورنر مقرر فرمایا ۔ آپ اس قدر عابد و زاہد تھے کہ ان کی عبادت و ریاضت اور ان کا زہد و تقویٰ حدِّ کرامت کو پہنچا ہوا تھا ۔
کنز العمال وغیرہ میں ہے کہجن دنوں یہ حمص کے گورنر تھے ، ان کے پاس امیر المومنین سیدنا عمر ؓ کا ایک خط پہنچا جس میں لکھا تھا :
’’ اے عمیر ! ہم نے تم کو ایک اہم عہدہ سپرد کر کے حمص بھیجا تھا مگر کچھ پتہ نہیں کہ تم اپنا یہ عہدہ خوش اسلوبی سے چلا رہے ہو کہ نہیں ؟ لہٰذا جس وقت میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچے ، فوراً جس قدر مال غنیمت تمہارے بیت المال میں جمع ہے ، سب کو اونٹوں پر لدوا کر اپنے ساتھ لے کر مدینہ طیبہ میرے سامنے حاضر ہو ‘‘ ۔
دربار خلافت کا یہ فرمان پڑھ کر اسی وقت کھڑے ہو گئے اور اپنی لاٹھی میں اپنی چھوٹی سی پانی کی مشک اور خوراک کی تھیلی اور ایک بڑا سا پیالہ لٹکا کر لاٹھی کندھے پر رکھی اور ملک شام سے پیدل مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہو گئے ۔ جب دربار خلافت میں پہنچے تو امیر المومنین ان کی خستہ حالی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے ۔ فرمایا …
’’ کیوں اے عمیر ! تمہارا حال اتنا خراب کیوں ہے؟ کیا تم بیمار ہو گئے تھے ؟ یا تمہارا شہر بد ترین شہر ہے ؟ یا تم نے مجھے دھوکہ دینے کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے ؟
امیر المومنین کے ان سوالوں کو سن کر سیدنا عمیرؓ نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا :
’’ امیر المومنین ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی جاسوسی سے منع نہیں فرمایا ؟ آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ میرا حال خراب ہے ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں بالکل تندرست و توانا ہوں اور اپنی پوری دنیا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے آپ کے سامنے حاضر ہوں ‘‘۔
امیر المومنین نے فرمایا :
’’عمیر ! تم دنیا کا کون سا سامان لے کر آئے ہو ؟ میں تو تمہارے ساتھ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا ۔ ‘‘
سیدنا عمیر ؓ نے عرض کی :
’’امیر المومنین ! دیکھئے ، یہ میری خوراک کی تھیلی ہے … یہ میری مشک ہے جس سے میں وضو کرتا ہوں اور اسی میں اپنے پینے کا پانی رکھتا ہوں ۔ اور یہ میرا پیالہ ہے اور یہ میری لاٹھی ہے جس سے میں اپنے دشمنوں سے بوقت ضرورت جنگ بھی کرتا ہوں اور سانپ وغیرہ زہریلے جانوروں کو بھی مارتا ہوں ۔ یہ سارا سامان میری دنیا نہیں تو اور کیا ہے ؟‘‘
یہ سن کر امیر المومنین نے فرمایا :’’ عمیر ! اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔ تم تو عجیب آدمی ہو۔‘‘
پھر امیر المومنین نے ان سے رعایا کا حال دریافت کیا اور مسلمانوں کی دینی زندگی اور ذمیوں(وہ کافر جو اسلامی ملک کے باقاعدہ شہری ہوں) کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے جواب دیا :
’’ الحمد للہ ! میری حکومت کا ہر مسلمان ارکان اسلام کا پورا پورا پابند اور اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ اور میں ذمیوں سے جزیہ لے کر ان کی پوری پوری حفاظت کرتا ہوں ۔ اور میں اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو نباہنے کی بھر پور کوشش کرتا رہا ہوں ۔
پھر امیر المومنین نے خزانہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیوں نہیں لائے ۔ میں نے تو تمہیں اس کے لانے کے لیے بھی کہا تھا ۔ اس صحابیٔ رسول نے جو جواب دیا وہ سننے کے قابل ہے عرض کی :
’’ امیر المومنین ! خزانہ کیسا ؟ میں ہمیشہ مالدار مسلمانوں سے زکوٰۃ و صدقات وصول کر کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دیا کرتا ہوں ۔ اگر میرے پاس فاضل مال بچتا تو میں ضرور اس کو آپ کے پاس بھیج دیتا‘‘۔
کیسا ذمہ دارانہ جواب دیا سیدنا عمیرؓ نے ۔ یہ نہیں کہا کہ میں زکوٰۃ و صدقات اور ملکی ٹیکسوں کو ہارس ٹریڈنگ یا غیر ملکی دوروں یا اپنی پارٹی اور جیالوں کی فلاح و بہبود کے لیے یا اگلے الیکشن کی تیاری کے لیے یا پھر اپنے میک اپ یا عیاشی پر خرچ کرتا ہوں بلکہ یہ جواب دیا کہ فقراء اور مساکین کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتا ہوں ۔ ان کی محتاجی کو دور کرنے پر خرچ کرتا ہوں ۔
پھر امیر المومنین ؓ نے پوچھا :
’’ عمیر ! تم حمص ( شام) سے مدینہ طیبہ تک پیدل سفر کر کے آئے ہو کیا تمہارے پاس سواری نہیں تھی ؟ اور اگر سواری نہیں تھی تو کیا تمہاری سلطنت کی حدود میں مسلمانوں اور ذمیوں میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں تھا جو تمہیں سواری کا ایک جانور دے دیتا ؟‘‘
عرض کی :
’’ امیر المومنین ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ ایسے حاکم ہوں گے کہ اگر رعایا خاموش رہے گی تو یہ حکام انہیں برباد کر دیں گے اور اگر رعایا فریاد کرے گی تو یہ حکام ان کی گردنیں اڑادیں گے ۔ اور میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا ہے کہ تم لوگ اچھی باتوں کا حکم دیتے رہو اور بری باتوں سے منع کرتے رہو ، ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط فرما دے گا جو بد ترین انسان ہوں گے ۔ اس وقت نیکوں کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی ۔ اے امیر المومنین ! میں ان برے حاکموں میں سے ہونا پسند نہیں کرتا۔ اس لیے مجھے پیدل چلنا گوارا ہے لیکن اپنی رعایا سے کچھ طلب کرنا یا ان کے عطیوں کو قبول کرنا ہر گز پسند نہیں ہے ‘‘ ۔
صحت مندانہ طرز ِ زندگی اپنانے کا ایک راز اپنی استطاعت کی حد تک صدقہ و خیرات کرنا بھی ہے۔ آج کل تو نت نئی قسم کی بیماریاں سامنے آرہی ہیں ۔ ان بیماریوں کے علاج میں لوگوں کے ہزاروں لاکھوں روپے صرف ہوتے ہیں بلکہ آج کل علاج سے زیادہ روپے تو ٹیسٹوں پر خرچ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی پوری طرح شفاء نہیں ہوتی جس کی ایک وجہ برے اعمال کو نہ چھوڑنا بھی ہے ۔ بلکہ موجودہ زمانہ میں تو ہر طرف بد اعمالی کی زیادتی ہو رہی ہے ۔ دوسری وجہ لوگ وہ اسباب اختیار نہیں کرتے جن سے شفا حاصل ہوتی ہے ۔ اگر لوگ اعمالِ بد کو ترک کر دیں اور ان اسباب کو اختیار کر لیں جن سے شفا حاصل ہوتی ہے تو اکثر بیماریاں ختم ہو جائیں ۔ جن معاشروں میں گناہ کم ہیں وہاں آج بھی بیماریاں کم ہیں ۔
احادیث نبویہ میں ہے کہ بیماریوں کے دفعیہ میں جہاں ترک معاصی اور علاج معالجہ اور دوا دارو کرنے کو دخل ہے وہیں صدقات کا بھی بڑا دخل ہے ۔ صدقہ کرنے سے بڑی بڑی تکالیف اور بیماریاں ختم ہوتی ہیں ۔ بلکہ بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قد س سرہ کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ آپ جب کبھی بیمار ہوتے تو طبیب کو بلا کر پوچھتے کہ میرے علاج پر کتنی رقم خرچ ہو گی ؟ تو وہ ایک تخمینہ بتاتا ۔ آپ اس اندازہ سے کچھ بڑھ کر صدقہ کر دیتے اور حق تعالیٰ شانہ انہیں شفا عطا فرما دیتے ۔ کیوں اصل شافی الامراض تو حق تعالیٰ شانہ کی ذات ہے ۔ دوائیں تو اس کا صرف ایک سبب ہیں ۔ اگر دوائیں سبب بن سکتی ہیں تو صدقات بھی سبب بن سکتے ہیں ، لہٰذا اس بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ پھر حدیث میں بھی تو آتا ہے کہ صدقہ بذات خود بیماریوں کے دفعیہ کا سبب ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حصنوا اموالکم بالز کوٰۃ ، داوَوا مرضا کم بالصدقۃ واعدو اللبلاء الدعاء (مجمع الزوائد، جلد ۳ ص ۶۳)
’’اپنے مالوں کی حفاظت زکوٰۃ سے کرو ، اور اپنے مریضوں کا علاج صدقات و خیرات کے ذریعہ کرو اور بلائوں کے دفعیہ کے لیے دعا کو استعمال کرو‘‘۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ آج کل یہ عام معمول ہو گیا ہے کہ صدقہ کے لیے ایک چھوٹا سا بکرا جس میں بمشکل پانچ چھ سیر گوشت ہوتا ہے اور چند ہزار میں آتا ہے ، اس کو ذبح کر کے کسی غریب کو دے دیتے ہیں اور وہ غریب اور نادار شخص اس کو تین چار سو میں فروخت کر کے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے ۔ اگر بکرے کی رقم ہی اس غریب آدمی کو دے دی جائے یا اُس کی ضرورت معلوم کر کے اُس کے مطابق مدد کر دی جائے تو یہ زیادہ بہتر اور مفید طریقہ ہے ۔
اسلام کی تمام تعلیمات ‘ خواہ عقائد کے متعلق ہوں یا عبادات و معاشرت اور معاملات و اخلاق کے بارے میں ‘ سب ہی انسانیت کیلئے بہت بڑی نعمت ہیں ۔ اگر انسان کو آج یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو کل سمجھ آہی جائے گی لیکن خوش قسمت شخص و ہ ہے جو ان احکامات کو اللہ تعالیٰ اور اُ س کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر مان لے اور ان کی تصدیق کیلئے کم علم اور کم فہم انسانوں کی باتوں کا انتظار نہ کرے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین متین کے تمام احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
٭…٭…٭
کھیل کود اور ہمارا طرزِ عمل
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 436)
گلیاں سنسان ‘ سڑکیں ویران ، شاہراہوں سے ٹریفک اور چوراہوں سے انسان ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ سب لوگ گھروں میں ایسے دبکے بیٹھے ہوئے جیسے باہر کوئی وبا نازل ہو گئی ہو ۔ ایسے میں اگر ہمارے جیسا کوئی بے ذوق ‘ کسی دکاندار سے پوچھ بیٹھے کہ خیر یت تو ہے ؟ یہ آج ساری مخلوق کہاں غائب ہو گئی تو جواب ملتا ہے کہ بھائی ! اسی دنیا میں رہتے ہو یا کسی سیارے سے آئے ہو ؟ آج تو پاکستان اور بھارت کا میچ ہے ۔ ساری قوم وہ دیکھنے میں مصروف ہے ۔
تھوڑی دیر بعد ٹریفک جام
‘ سڑکوں پر منچلوں کا راج ‘ نو عمر لڑکے بھارتی گانوں پر محور قص ‘ گاڑیوں کے چھتوں پر چڑھے نوجوان سیٹیاں بجاتے ہوئے ‘ نعرے لگاتے ہوئے ‘ اپنے ارد گرد کے ماحول سے غافل ‘ ایک ہنگامہ اور شور شرابہ ‘ جو کسی طرح رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ ایک طوفانِ بد تمیزی ‘ جس میں کسی شریف انسان کا باہر نکلنا مشکل ۔ اب اچانک کیا ہو گیا؟ معلوم کرنے پر پھر وہ ہی جواب کہ کہاں سے آئے ہیں ؟ معلوم نہیں ہماری قابلِ فخر ٹیم ‘ بھارت سے جیت چکی ہے ۔
کھیل کو اتنی سنجیدگی سے لینے پر اور اسے ایک اتفاقی معاملے کے بجائے ایمان و کفر کا جذباتی مسئلہ بنا دینے پر پاکستانی قوم کی عظمت کو سلام ۔ اگلے روز پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے تو اس میچ کے جیتنے پر باقاعدہ صدقہ و خیرات کی نذریں مان رکھی تھیں بلکہ کچھ تو ایسے پرخلوص پاکستانی بھی تھے ‘ جو ٹی وی کے سامنے جائے نماز بچھا کر اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے نوافل ادا کرتے رہے ۔ حقائق کی دنیا سے لا تعلق ‘ اپنی خیالی جنت میں مست و مگن ایسے بھولے بھالے دوستوں کو یہ فتح مبارک ہو ۔
کرکٹ اب ایک کھیل نہیں رہا ‘ ایک ناسور بن گیا ہے اور ایک ایسا ملک جہاں لوگ مہنگائی ، غربت اور بے روز گاری کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہوں ‘ جہاں والدین اپنی معصوم اولاد پر ’’ برائے فروخت ‘‘ کے بورڈ لگائے سڑکوں کے کنارے بیٹھے ہوں ‘ جہاں کروڑوں بچے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم‘ دو وقت کی روٹی کھانے کیلئے سخت مزدوری پر مجبور ہوں ‘ جہاں لاکھوں مریض علاج کی استطاعت نہ ہونے پر دم توڑ رہے ہوں ‘ وہاں کھیل کے نام پر اربوں روپے کا ضیاع صرف جنون اور پاگل پن ہے ۔
کھیل کود اور تفریح اچھی چیز ہے بشرطیکہ اس کا طریقہ ٔ کار صحیح ہو اور اپنی حدود میں رہے ۔ آج کل ہمارے ذرائع ابلاغ ‘ایک خاص حکمت ِعملی کے تحت‘ کھیل کو اتنی اہمیت دیتے ہیں ‘ گویا یہ ہی زندگی کا مقصد ہے ۔ اخبارات میں تو ہم نے خود دیکھا ہے کہ اس کیلئے مستقل صفحات شائع ہوتے ہیں اور کھلاڑیوں کی ایک سے ایک بیہودہ چیز بڑے اہتمام سے پیش کی جاتی ہے ۔ کھلاڑیوں میں اگر کوئی ذاتی طور پر نیک اور پارسا ہو تو ہم اس کو برا نہیں کہتے لیکن اُسے بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اُس کی نیکی ‘ صرف اُس کی ذات کی حد تک محدود ہے لیکن اُس کے وجود سے پھوٹنے والے شر نے تو پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ پھر اداکاروں ‘ فنکاروں اور کھلاڑیوں کو قوم کے قابل فخر افراد کی روپ میں پیش کر کے تو میڈیا نے تعلیمی اور اخلاقی پستی کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے ۔ اب قوم کے معصوم نونہال بھی جانتے بوجھتے ہوئے یا انجانے میں انہی کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی نظر بلند مقاصد سے ہٹ کر صرف چھچھوری حرکتوں تک ہی محدود ہو جاتی ہے ۔
مسلمان نوجوانوں کو کھیل و تفریح میں الجھا کر ‘ اُن کے دین ‘ مذہب ‘ ثقافت اور ان کے زریں ماضی سے اُن کا رشتہ توڑ ا جا رہا ہے ۔ ان کے دل و دماغ پر کفار کی برتری اور عظمت کا نقش بٹھایا جا رہا ہے ۔ ان بے چاروں کو کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ ان کے اسلاف ‘ کھیل کے میدانوں کے نہیں ‘ جنگ کے میدانوں کے فاتح تھے ۔ جب لشکر باہم دست و گریبان ہوتے تو دشمن بھی اُن کی جرأت اور بہادری کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔
یہ بھی تو ہماری تاریخ کا ہی ایک ورق ہے کہ صفر ۱۳ھ میں سیدنا ابو بکر ؓ نے اکابر صحابہ کرام ؓ کی ایک مجلس مشاورت طلب فرمائی اور اس میں آپ نے شام پر حملہ کرنے کے بارے میں اپنا پلان بیان فرمایا ۔ سب حاضرین نے بیک آواز کہا :
’’ اے خلیفہ رسول ﷺ ! آپ کی اطاعت ہم پر واجب ہے ، لہٰذا آ پ جو حکم کریں گے اس کو بجا لا یا جائے گا ۔‘‘
اس پلان کے تحت چار لشکر تیار کیے گئے جن کی قیادت سیدنا عمرو بن العاص ؓ ، سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ، سیدنا یزید بن ابی سفیانؓ اور سیدنا شرحبیل بن حسنہ ؓ کر رہے تھے ۔ ان لشکروں کو مختلف راستوں سے بھیجا گیا اور ان کی مجموعی تعداد تیس (۳۰)ہزار تھی ۔
قیصر روم نے ایک لشکر جرار جس کی تعداد لاکھوں میں تھی مسلمانوں کے مقابلہ میں بھیجا ۔ مجاہدین اسلام کو جب ان لشکروں کی تعداد اور ان کے جدید اسلحہ کا علم ہوا تو انہیں اپنی تعداد کی کمی کی وجہ سے کچھ اندیشہ ہوا ، چنانچہ انہوں نے بارگاہِ خلافت میں دشمن کی کثرت تعداد کی اطلاع دی ، لیکن بارگائہ خلافت سے یہ جواب آیا کہ …
’’ تم سب ایک جگہ اکٹھے ہو جائو اور اپنی قلت تعداد کا غم نہ کرو ۔ تم اللہ کے دین کے مدد گار ہو ۔ وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ، اور تم سب یرموک میں جمع ہو جائو ۔‘‘
سیدنا ابو بکر ؓ نے عراق سے خالد ؓ کو ان کی مدد کے لیے بلایا ۔ یہ نو ہزار کا لشکر لے کر منزلوں پر منزلیں طے کرتے اور مختلف شہروں کو فتح کرتے ہوئے یرموک پہنچ گئے ۔
مسلمانوں کی فوج کے چار جرنیل پہلے سے موجود تھے اور پانچویں خالد بن ولیدؓ عراق سے آگئے ۔ ان پانچوں نے مل کر جنگی چالیں سوچیں اور متفقہ طور پر سب نے سیدنا خالد بن ولیدؓ کو امیر لشکر منتخب کیا ۔ سیدنا خالدؓ نے ایک نئے ڈھنگ سے مسلمان فوج کو میدان میں اتارا ۔ سارا لشکر ۳۶ دستوں میں تقسیم کیا گیا اور قلب لشکر اور میمنہ اور میسرہ پر مختلف جرنیلوں کو مقرر کیا گیا ۔
اسلامی لشکر کی صف آرائی کے دوران کسی شخص کے منہ سے نکل گیا :
’’باز نطینی کتنے زیادہ اور مسلمان کتنے کم ہیں ۔ ‘‘
سیدنا خالدؓ نے جب یہ سنا تو فرمایا :
’’ مسلمان کتنے زیادہ اور بازنطینی کتنے کم ہیں ۔ مسلمانوں ! یاد رکھو ، فوجیں تعداد کی کثرت سے نہیں ہمت اور جرأت کی وجہ سے کم یا زیادہ ہوتی ہیں ۔ خدا کی مدد ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے جو بہادر اور جرأت مند ہوتا ہے ۔ الحمد للہ ! ہم بہادر بھی ہیں ‘ جرأت مند بھی ہیں اور صاحب ایمان بھی ۔ ہم سے کون مقابلہ کرے گا‘‘۔
جونہی لشکر آمنے سامنے ہوئے اور قاریٔ لشکر سیدنا مقداد بن اسودؓ نے سورۃ الانفال کی تلاوت کی تو مجاہدین اسلام کے دلوں کی گہرائی میں کلام الٰہی کا ایک ایک حرف اترتا چلا گیا ۔ احساس حمیت دمک اٹھا ۔ دل میں خدا کی یاد کا چشمہ ابلنے لگا ۔ زبان پر اللہ کا نام جاری ہوا اور دست و بازو میں شیر کی طاقتیں سمٹ آئیں ۔ طبل جنگ بجنے پر سرفروش اور جاں نثار شیروں کی طرح آگے بڑھے اور چیتوں کی طرح جھپٹے ۔ ہاتھوں میں تلواریں بجلی کی طرح کوندنے لگیں اور حریفوں کو جان کے لالے پڑنے لگے اور باز نطینیوں کی سٹی گم ہو گئی ۔
سیدنا خالد ؓ سپہ سالار لشکر کا تو عجیب حال تھا ۔ آخر سیف اللہ (اللہ کی تلوار ) تھے اور اللہ کی تلوار کو نہ تو کوئی توڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کند کر سکتا ہے ۔ وہ قلب لشکر میں گھس کر حملہ آور ہوتے ۔
جرجہ ایک رومی عیسائی تھا۔ خالدؓ کی بے مثال شجاعت اور بے پناہ عزم و حوصلہ سے وہ بہت متأثر ہوا ، اور امان پکار کر سیدنا خالدؓ کے سامنے آیا اور سیدنا خالدؓ کو پاس بلا کر پوچھنے لگا :’’ خالد ! ایک بات بتائو ؟ کیا تمہارے نبی ﷺ پر آسمان سے کوئی تلوار اتری تھی ؟‘‘ سیدنا خالدؓ نے جواب دیا :’’ نہیں ۔ ‘‘ جرجہ نے کہا :’’ پھر آپ کو اللہ کی تلوار کیوں کہا جاتا ہے ؟‘‘ سیدنا خالد ؓ نے جواب دیا :’’ اس لیے کہ ہمارے نبی ﷺنے میرے لیے نصرت خداوندی کی دعا فرمائی تھی ۔ میں مشرکوں کے لیے اللہ کی تلوارہوں ۔ ‘‘ جرجہ نے کہا : ’’ بے شک تم درست کہتے ہو اور تمہاری بہادری اور جرأت اس کی زندگی مثال ہے ۔ ‘‘
خالد ؓ کی باتوں اور ان کی جرأت و ہمت نے جرجہ کے دل پر خاص اثر کیا ۔ اس نے اپنی ڈھال کو پلٹ دیا جو اس بات کی علامت تھی کہ اس کے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے ۔ اور جرجہ عیسائی سے مسلمان ہو گیا ۔ یہ رومیوں کے مقدمۃ الجیش کا امیر تھا ۔
اس جنگ میں خالد ؓ اور اس کے ساتھیوں نے شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ حریف انگشت بد ندان تھا ۔ چار سو مسلمانوں نے باہم مل کر عہد کیا تھا کہ میدان جنگ میں شہید ہو کر رہیں گے ۔ ان میں سے اکثر نے جام شہادت نوش کیا ۔ ابو جہل کے بیٹے سیدنا عکرمہ ؓ ایک دستے کے سردار تھے ۔ انہوں نے اپنے دستہ کو بآواز بلند کہا:
’’ میں سرکار دو عالم ﷺ کے خلاف لڑتا رہا ہوں۔ کیا آج ان رومیوں سے بھاگوں گا ۔ بولو ! کون ہے جو آج میرے ساتھ موت پر بیعت کرتا ہے ‘‘۔
ان کے کہنے پر بہت سے لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ بالآخر یہ بھی اس جنگ میں جام شہادت نوش کر گئے ، لیکن ان کے ہاتھ موت کی بیعت کرنے والا دستہ انتہائی شجاعت کا ثبوت دے رہا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طبری کی روایت کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار افراد کھائی میں گر کر نذر اجل ہوئے ان میں اسّی (۸۰) ہزار وہ تھے جنہوں نے اپنے آپ کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔
ان حالات میں سیدنا خالدؓ کا یہ کہنا کہ مسلمان کتنے زیادہ ہیں اور رومی کتنے کم ، بالکل درست اور صحیح ہے ۔ اسی جنگ میں سیدنا خالدؓ نے رومی سردار باہان سے کہا تھا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ …
’’انا قوم نشرب الدماء ، وانہ بلغنا انہ لا دم اطیب من دم الروم فجئنا لذالک‘‘
’’ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو خون پیتے ہیں اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ رومیوں سے زیادہ کسی اور قوم کا خون لذ یذ اور اچھا نہیں ہے ۔ ہم صرف اس لیے آئے ہیں ‘‘۔
خالد ؓ کے اس فقرہ نے رومیوں کی جان نکال دی اور ان کی ہمتیں جواب دے گئیں اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو قلیل تصور کرتے تھے ۔
یرموک میں رومیوں کی شکست نے ان کی قوت کو اسی طرح پاش پاش کر کے رکھ دیا جس طرح قادسیہ میں ایرانیوں کی شکست میں ان کی قوت پارہ پارہ ہو گئی تھی ۔
بھارت سے میچ جیتنے کی خوشیاں منانے والے عوام اور پنجاب یوتھ فیسٹول ‘ سندھ کلچرل فیسٹول منانے والے حکمران یہ کیسے فراموش کر بیٹھے کہ ان کی ایک مسلمان بہن ‘ پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں گیارہ برس مکمل ہو چکے ہیں ۔ کیا جذبہ حب الوطنی صرف اُلٹے سیدھے بے کار عالمی ریکارڈ بنانے کا نام ہے یا فرزندان وطن کے دفاع اور تحفظ کی بھی کوئی اہمیت ہے ؟ جب سب ناچنے گانے اور تھرکنے میں لگ جائیں گے تو یہ فریضہ کون ادا کرے گا ؟
اللہ کریم ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو عقلِ سلیم اور فہمِ مستقیم عطا فرمائے ۔ (آمین)
٭…٭…٭
صرف ایک جملہ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 437)
پروپیگنڈے کے دور میں دل و دماغ کیسے بدل گئے ‘ تعبیر یں بدل گئیں اور معیارات تبدیل ہو گئے ۔ ملک و قوم کے بد خواہ‘ خیر خواہ لگنے لگے اور سچے خیر خواہ‘ جنہوں نے ملک و ملت کیلئے لا زوال قربانیاں دیں‘ وہ مخالف نظر آنے لگے ۔ چور ‘ ڈاکو اور لٹیرے مسند ِ اقتدار پر فائز ہوئے اور پاک باز ‘پاک سیرت بندگانِ خداتختۂ دار کے قابل ٹھہرے ۔

پھر چونکہ ترقی کا دور ہے ‘ اس لیے اس سلسلے میں بھی خوب ترقی ہوئی ۔ پہلے چور ‘ چوری کرتے تھے سزا پاتے تھے ‘ اب چور چوری کرتے ہیں تو انعامات سے نوازے جاتے ہیں ۔ پہلے چور ‘ چوری کرتے تو بد نامی بھی مول لیتے تھے ‘ اب چور ‘ چوری کرتے ہیں تو معززین شہر کہلاتے ہیں ۔ پہلے کوئی چور ایک یا دو گھروں کو متاثر کر سکتا تھا ‘ اب ایک چور ‘ پوری قوم بلکہ پوری دنیا پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے ۔
اگر ان باتوں پر یقین نہ آئے تو صوبہ سندھ کے پسماندہ ترین علاقے ضلع تھر پار کر کے حالات ملاحظہ کر لیں ‘ جہاں سینکڑوں لوگ خوراک ‘ پانی اور ادویات کی قلت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں اور ہزاروں بے نام و نشان موت کے انتظار میں پڑے ہیں ۔ صحرائے تھر اپنی وسعت کے اعتبار سے دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے ۔ انتظامی طور پر یہ پورا علاقہ پہلے ضلع تھر پار کر کہلاتا تھا ‘ پھر اسے تین اضلاع ‘ میر پور خاص‘ عمر کوٹ اور تھر پار کر میں تقسیم کر دیا گیا ۔ میر پور خاص چونکہ بارانی ضلع ہے اور زمینیں نہری ہیں ‘ اس لیے یہاں زندگی آسان ہے ۔ عمر کوٹ میں نہری اور ریتیلی دونوں طرح کی زمینیں ہیں لیکن تھر پارکر کا علاقہ تو ریت ہی ریت ہے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ تھر پارکرپاکستان وہ علاقہ ہے ‘ جہاں سب سے زیادہ این جی اوز پائی جاتی ہیں ۔ پورے ضلع میں جگہ جگہ این جی اوز کے بورڈ لگے نظر آتے ہیں ۔ یہ علاقے این جی اوز کیلئے سونے کی کان ہیں کیونکہ ان علاقوں کے نام پر وہ دنیا بھر سے کروڑوں ڈالر جمع کرتے ہیں ۔ یہ رقوم این جی اوز کے عہدیداران کے ذاتی اخراجات میں چلی جاتی ہے یا پھر اس سے کراچی اور اسلام آباد کے ائیر کنڈیشنز ہالز میں تھرکی غربت اور ثقافت پر شاندار سیمینار کروائے جاتے ہیں ‘ جن کے شرکاء کی اکثریت غیر ملکی سفیروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔
یہ بات بھی مزید دلچسپی کا باعث ہے کہ ان این جی اوز کا سارا کاروبار جھوٹ اور فریب کاری پر چل رہا ہے ۔ انہیں جب کسی عطیہ دینے والے کو علاقے کا دورہ کروانا ہوتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے میڈیکل کیمپ قائم ہو جاتے ہیں ۔ فنی تربیت کے مراکز وجود میں آجاتے ہیں ۔ میٹھے پانی کے ٹینکر پہنچ جاتے ہیں ۔ مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد یہ سب چیزیں ایسے ہی غائب ہو جاتی ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔
دن رات ملّا اور مدارس کو کوسنے والے ضمیر فروش صحافی اور پاکستان کی ہر خرابی کی جڑ اسلامی نظریات کو قرار دینے والے بے بال و پر قسم کے دانشور اس عظیم انسانی سانحہ اور المیہ پر ایسے دم سادھے بیٹھے ہیں‘ جیسے اُنہیں سانپ سونگھ گیا ہو ۔ پانچ ہزار سالہ پرانے کھنڈرات پر دھمال ڈالنے والے‘ سندھی عوام کو بے وقوف بنانے والے اور روزانہ دہشت گردی کے خلاف بیان بازی کا چسکا پورا کرنے والے‘ مٹھی ‘ جو ضلع تھرپارکر کا صدرمقام ہے ‘ وہاں بھوک کے ہاتھوں مجبور اور بے بس لوگوں کے سامنے مرغن غذائیں کھاتے رہے ۔ معلوم نہیں کس منہ سے یہ خود کو سندھی قوم کا لیڈر کہتے ہیں اور تُف ہے اُن پر بھی جو ان کو اپنا قائد اور راہنما سمجھتے ہیں ۔ سندھ کے اتنے بڑے علاقے میں لوگ آج بھی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں پہنچ کر یوں لگتا ہے جیسے انسان صدیوں پیچھے چلا گیا ہے ۔ خوراک وہاں نہیں ہے ۔ پانی جو انتہائی گہرائی میں ہے ‘ وہ بھی نمکین ہے ۔ صحت اور علاج معالجے کی سہولتیں نا پید ہیں ۔ پھر سندھ کے یہ موروثی بادشاہ ‘ جنہیں کئی مرتبہ پورے ملک کی بادشاہت بھی نصیب ہوئی ‘ اس صورت حال کو کیوں نہیں بدل سکے ۔
آپ کو یاد ہو گا کہ سندھ کی وزرات اعلیٰ پر فائز شخصیت نے چند دن پہلے ہی صوبے میں نئے مدارس کے قیام پر پابندی عائد کر نے کا اعلان کیا تھا ۔ مدارس سے اُنہیں یہی شکایت ہے کہ وہاں سے چور اور لٹیرے کیوں پیدا نہیں ہوتے ‘ وہاں سے قوم کے اربوں روپے لوٹ کر سراے محل خریدنے اور سوئز ر لینڈ میں اکائونٹ لینے والے جنم نہیں لیتے … ورنہ مدارس نے تو تھر پار کر میں یہ خوفناک صورت حال پیدا نہیں کی جس سے پورے ملک کا ہر با ضمیر شخص افسردہ ہو گیا ہے ۔ ضلع تھر پار کر کے ۱۶۷؍دیہات میں سے ۱۵۷سخت آفت زدہ ہیں ۔ یہاں قومی اسمبلی کی دو اور سندھ کی چار نشستیں ہیں‘ جن پر اسی پارٹی کے افراد قابض ہیں ۔ چاہیے تو یہ کہ پاکستا ن کی اعلیٰ عدالت ایسی سنگدل‘ بے رحم‘ ظالم اور نا اہل حکومت کو برخاست کر کے گھر بھیج دے‘ جس کے زیر اقتدار علاقے میں اتنا بڑا سانحہ جنم لے رہا ہو اور اُسے اس کی اطلاع تک نہ ہو ۔
سیاسی مداری تھر میں ہونے والی سینکڑوں اموات کو قدرتی المیہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں لیکن اس کا جواب کون دے گا کہ ہزاروں گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی رہ گئیں اور تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے گل سڑ کر ناقابل استعمال ہو چکی ہیں ۔ یہ قدرتی المیہ ہے یا حکومتی بد انتظامی؟ پھر قحط سے پہلے تھر کے لیے زکوٰۃمیں سے پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے ‘ جن میں سے صرف ایک لاکھ ستائیس ہزار روپے خرچ ہوئے ‘ باقی ابھی تک بینکوں میں انڈے بچے دے رہے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی المیہ ہے یا حکومتی بد انتظامی؟ افسوس ہے اُن لوگوں پر جو ایسے سنگدل انسانوں سے اپنی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔
ثناء خوانِ تقدیس ِ مغرب کو طالبان کی تعریف ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے ‘ جس کا اعتراف اپنوں کے سوا غیروں نے بھی کیا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے حکمرانوں نے سادگی‘ قناعت اور عوام کی فلاح و بہبود کی ایک مثال قائم کر دی تھی ۔ وہ اگرچہ اپنی عوام کا دامن مال و دولت سے نہیں بھر سکتے تھے اور اُنہیں مادّی ترقی کی بلند سطح پر نہیں پہنچا سکتے لیکن وہ خود بھی اپنی عوام ہی کی طرح روکھی سوکھی کھا لیتے ‘ چھوٹا موٹا پہن لیتے اور ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہ لیتے ۔ اُن کے ہاں اگر غربت اور تنگی تھی تو اُس کا اثر غریب کے جھونپڑے سے لے کر ایوانہائے حکومت تک برابر نظر آتا تھا ۔
آج مسلم ممالک کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ ان کے اکثر حکمران بگڑی ہوئی خصلتوں والے ‘ اسلامی تعلیم و تربیت سے دور اور مغرب کے سحر زدہ ہوتے ہیں ۔ بہت سے تو یورپ کی تعلیم گاہوں اور تربیت گاہوں کے سانچوں میں ڈھلے ہوتے ہیں ۔ ان کے سامنے طرزِ حکمرانی کی وہ اعلیٰ مثالیں ہوتی ہی نہیں ہیں‘ جنہوں نے تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ۔ یہ امر بنتے ہیں تو اپنی ہی قوم کے بچے اور بچیاں اٹھا کر ڈالروں کے عوض فروخت کر ڈالتے ہیں ۔ یہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہیں تو قائد ِعوام بن کر لوٹ مار اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھتے ہیں ۔
مغربی درسگاہوں میں انہیں کوئی ان کو بتانے والا نہیں ہوتا کہ اسلامی تاریخ میں ایک حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہما اللہ نام کے بھی گزرے ہیں ۔ امارت اور خلافت کا بوجھ ان کے کندھوں پر آیا تو ان کی زندگی کا رنگ ہی بدل گیا ۔ وہ عمر ؒجن کی گورنری پر تقرر کے وقت تیس اونٹ ان کا ذاتی سامان اٹھا کر لائے تھے ۔ جن کی خوش لباسی اور نفاست طبعی کا یہ حال تھا کہ جس لباس پر ایک مرتبہ کسی کی نظر پڑ جاتی تھی پھر اسے زیب تن نہ فرماتے تھے ۔ خوشبو یات کے شوق کی وجہ سے داڑھی پر عنبر کا سفوف چھڑکتے تھے ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ خوش لباس آدمی تصور کیے جاتے تھے اور محدث رجاء بن حیوہؒ کا بیان ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ خوش لباس ، خوشبویات کے دلدادہ اور ناز و انداز کی چال چلنے والے تھے ۔ لیکن جونہی خلافت کی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا اور مسند خلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی سیدنا ابو ذر غفاری ؓ ، سیدنا ابو ہریرہ ؓ اور دیگر درویش صفت صحابہ کرام ؓ کا قالب اختیار کر لیا ۔ دل کی دنیا بدلنے کے ساتھ ظاہری دنیا بھی بدل گئی ۔ اب نہ وہ زرق برق کا لباس تھا اور نہ وہ مشک و عنبر کی خوشبویات تھیں ۔ بار خلافت نے آخری ضرب لگائی تو یکایک آنکھیں کھل گئیں۔ سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول جب آپ کو شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے وہ واپس کر دی اور فرمایا ’’ میرے لیے میرا خچر کافی ہے‘‘۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلا کام جو کیا وہ غصب شدہ اموال اور جائیدادوں کی واپسی کا تھا ۔ بعض اموی عمال نے غریبوں اور زیر دستوں کے جو اموال اور جائیدادیں غصب کر رکھی تھیں اور شاہی خاندان کے افراد ، بعض اموی عمال اور عمائدین سلطنت نے غریبوں کی زمینوں کو اپنی جاگیر بنا لیا تھا ۔ یہ کام دیکھنے میں تو نہایت آسان تھا لیکن دراصل یہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا تھا ۔ سارے خاندان ، عمائدین سلطنت اور عمال بنو امیہ سے مخالفت مول لینا تھا ، لیکن آپ نے اس نازک اور کٹھن کام کو جو ایک کار خیر تھا اور زیر دستوں اور غریبوں کی دعائیں لینا تھا ، آپ نے اپنی اصلاحات میں اس کو ایک نمبر پر رکھا ۔ خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی جس کے بارے میں آپ یہ سمجھتے تھے کہ اس کو اپنے پاس رکھنا میرے لیے جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ آپ نے جب اس جاگیر کو واپس کرنے کا ارادہ کیا تو بعض خیر خواہوں اور دوستوں نے عرض کی کہ اگر آپ جاگیر واپس کر دیں گے تو اپنی اولاد کے لیے کیا انتظام کریں گے ؟‘‘ فرمایا :’’ میں ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ ‘‘
روایات میں ہے کہ اس کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے افراد کو اکٹھا کیا اور فرمایا :
’’ نبی مروان ! تم کو شرف اور دولت کا ایک حظِ وافر عطا ہوا ہے اور میرے خیال میں امت کا نصف یا دو تہائی مال تمہارے قبضہ میں ہے ۔ ‘‘
یہ دراصل انہوں نے ان لوگوں کو اشارتاً بتایا کہ تم غصب شدہ اموال اور جائیدادیں واپس کر دو ۔ وہ لوگ آپ کے اس اشارہ کو سمجھ گئے اور کہا :
’’خدا کی قسم! جب تک ہمارے سر ہمارے جسموں سے جدا نہ ہو جائیں اس وقت تک ہم یہ اموال اور جائیدادیں واپس نہیں کریں گے ۔ خدا کی قسم ! ہم نہ اپنے آبائو اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کو مفلس۔‘‘
ان کے یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا :
’’ خدا کی قسم! اگر اس معاملہ میںتم میری مدد نہیں کرو گے تو میں تم کو ذلیل و رسوا کردوں گا ۔ میرے پاس سے چلے جائو ۔ ‘‘
اس کے بعد آپ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا اور فرمایا :
’’ ان لوگوں ( خلفائے بنی امیہ )نے ہمیں ایسی جاگیریں اور عطایا دئیے جو بخدا ! انہیں دینے کا کوئی حق نہیں تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا ۔ اب میں ان سب کو ان کے حقیقی اور اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں ، اور اس کام کو اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کرتا ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر اسناد شاہی کا رجسٹرمنگوایا ۔ مزاحم ان اسناد کو نکال کر پڑھ پڑھ کر سناتے جاتے اور سیدنا عمر ؒ انہیں قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے ۔صبح سے لے کر نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کر دی حتیٰ کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہ رہنے دیا ۔
آپ کی اہلیہ فاطمہ کو اُن کے والد عبدالملکؒ نے ایک بیش قیمت پتھر دیا تھا ، اس کے بارے میں بھی آپ نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اس کو بیت المال میں داخل کر دو یا پھر مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائو ۔ آپ کی اہلیہ اگرچہ ایک خلیفہ کی بیٹی ‘ کئی خلفاء کی بہن اور ایک خلیفہ کی بیوی تھیں لیکن بڑی وفا شعار تھی ، اس لیے وہ ہیرا فوراً بیت المال میں داخل کر دیا ۔
حکمرانی کے بارگراں کی ذمہ داری سے چہرہ پریشان رہتا تھا کیونکہ اب عمر بن عبدالعزیز ؒ فکری ، فطری اور عملی لحاظ سے بدل چکے تھے ۔ دلوں کی اقلیم میں منٹوں اور لمحوں کے اندر انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے انقلاب سے اس دنیا کے بہت سے انقلابات وابستہ ہیں ۔ علامہ ابن جوزیؒ نے لکھا ہے کہ جونہی گھر پہنچے تو پریشان حال اور کبیدہ خاطر تھے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کوہ گراں آپ پر ڈال دیا گیا ہے ۔ خادمہ نے پوچھا ’’ خیر ہے ، آپ اس قدر متفکر کیوں ہیں؟‘‘ فرمایا :’’ اس سے بڑھ کر فکر و تشویش کی کیا بات ہو گی کہ مشرق و مغرب میں رسول اللہ ﷺ کی امت کا کوئی ایسا فرد نہیں ہے جس کا حق مجھ پر نہ ہو اور بغیر مطالبہ اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو ۔‘‘
کاش مسلمان سیاستدان اور حکمران ‘ یورپ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مارے مارے پھرنے کے بجائے اور سیاست میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بجائے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہما اللہ کے صرف اسی جملے کو پلے سے باندھ لیتے تو آج عوام بھی سکھ کا سانس لیتی اور ان کو بھی نیک شہرت نصیب ہوتی ۔
٭…٭…٭
دینی مدارس کیا کہتے ہیں؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 438)
اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمارے خطے ‘ برصغیر پاک و ہند کو آزاد مدارس دینیہ کی نعمت سے نوازا ہے ۔ انگریز کے دورِ اقتدار میں جب اُس کے ظاہری طمطراق سے مرعوب مسلمانوں نے اپنے عقائد و نظریات ہی بدلنا شروع کر دئیے تھے اور مسئلہ معجزات ‘ مسئلہ جہاد اور دیگر اسلامی احکامات کی ایسی تشریحات شروع کر دی تھیں ‘ جن سے صرف کفار ہی خوش ہوتے تھے ‘ ورنہ ان کا قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ ﷺسے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ گمراہی کے ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہی دینی مدارس کے موجودہ سلسلے کا آغاز ہوا۔
سرکاری مذہبی ’’اسکالرز ‘‘ کو انگریزوں نے اعزازات بھی دئیے اور انعامات سے بھی نوازا ۔ سر ‘ شمس العلماء اور دیگر ایسے الفاظ کے ذریعے کئی نامور اہلِ علم و اصحابِ قلم کے ضمیر خریدے گئے ۔ کئی ایسی معروف درسگاہوں کو بے تحاشہ مالی امداد بھی دی گئی ‘ جن کا بنیادی کام ہی یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو انگریزوں کے رنگ میں ایسے رنگ دیں کہ پھر دونوں کی معاشرت اور اخلاق و کردار میں کوئی فرق باقی نہ رہے ۔
تعلیم کے حوالے سے انگریزی حکومت کے عزائم کو واضح کرنے کیلئے یہی ایک حوالہ کافی ہے کہ میکالے نے تعلیمی پالیسی کے بارے میں کہا تھا:
’’موجودہ وقت میں ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ایک ایسے طبقہ کو پیدا کریں جو ہمارے اور محکوم باشندوں کے درمیان ترجمان بن سکے جو اپنے خون ورنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن اپنے مزاج، فکر، رائے، اخلاق اور ذہن کے اعتبار سے انگریز ہو۔ (منتخب تحریریں از میکالے (انگریزی) ص۲۴۹)
ساتھ ہی ذرا ایک نظر اس درسگاہ کی طرف بھی ڈال لیجئے، جسے مسلمانوں کی خوشحالی کے نام پر قائم کیا گیا تھا، صاحبزادہ آفتاب احمد نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا:
’’پس اصلی تعلیم کا یہ کام ہے کہ ہمارے طالب علموں کی حقیقت بیں طبیعتوں کو قوم انگلشیہ کی عالی صفات کے مطالعہ کرنے کا موقع دے۔ اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ تقریباً ہر ایک انگریز کے عمل اور فعل میں برک اور میکالے کم وبیش موجود ہیں، ضرورت اس کی ہے کہ انگریزوں کے متعلق صحیح حالات ہمارے نو عمروں کو معلوم ہوں۔ یہی وہ اصول ہے جو ابتداء سے علی گڑھ کالج کی تعلیم میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔
(رسالہ کانفرنس، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۱۹۱۱ئ)
ایسی سخت آزمائش کے حالات میں ‘ جن کا آج تصور کرنا بھی ہمارے لیے بہت مشکل ہے ‘ چند بوریہ نشین اللہ والے سامنے آئے اور انہوں نے دیوبند کی سر زمین پر ایک مسجد کے کونے میں انار کے درخت تلے ایک مدرسے کا آغاز کیا ۔ ظاہری حالات اور مادّی اسباب کی روسے دیکھا جائے تو اس درسگاہ کی عمر چند سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن پھر پوری دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس ’’تعلیمی ادارے‘‘ کا فیض چار دانگ عالم میں پھیل گیا ۔ اخلاص و للہیت کی بنیاد پر لگایا جانے والا یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت بن کر ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم اسلام کو اپنے راحت افزاء سائے اور روح پرور پھلوں سے مستفید کیا ۔
پورے ایشیا میں دارالعلوم دیوبند کی دینی، مذہبی، تالیفی، تصنیفی، تعلیمی، قومی، ملکی، ملی، اصلاحی اور فنی خدمات ہر شہر، ہر قصبہ، ہر دیہات میں دن رات مسلّم ہے۔
جب ہندوستان میں کفر کا طوفان تھا۔ شرک براجمان تھا۔ بدعات، رسومات، رواجات میں مبتلا انسان تھا۔ خرافات، ہزلیات، اغلوطات کا شکار مسلمان تھا۔ اسلام برائے نام تھا۔ مذہب بدنام تھا۔ ہر غلط کام تھا، عقیدہ خام تھا۔ جہالت کا اندھیرا تھا، ظلم کا بسیرا تھا، گمراہی کا ڈیرہ تھا، انگریز کی حکمرانی تھی، حکومت شیطانی تھی۔ ہر طرف حیرانی پریشانی تھی، ہر سو ویرانی تھی۔
خطیب ِ بے بدل حضرت مولانا عبدالشکور دین پوری ؒ نے ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند کی خدمات پر اپنے مخصوص انداز میں یوں تبصرہ کیا تھا :
’’جب علماء کو پھانسی پر لٹکایا گیا، دارورسن پر چڑھایا گیا، دریائے شور عبور کرایا گیا، حق گو لوگوں کا سر اڑایا گیا الکفرملۃ واحدۃ کا سماں تھا، نقشہ الحفیظ والاماں تھا۔ بڑے بڑے جاگیردار سرمایہ دار اور زمیندار حکومت کے وفادار تھے۔ ملک کے غدار تھے، مذہب سے بیزار تھے، اعلیٰ عہدوں کے طلب گار تھے، اکثر عیار ، مکار اور بے کار تھے، مناصب کے نشے میں سرشار تھے، مسلمان ذلیل وخوار تھے۔ قرآن کے نسخے جلائے گئے، اسلام کے نقشے مٹائے گئے۔ مجاہدوں پر مقدمے چلائے گئے درختوں پر لٹکائے گئے، کالجوں کی تعلیم تھی، مسلمانوں میں نہ تنظیم تھی، نہ اسلامی تعلیم تھی۔
حق پرستوں کا گروہ برسرِ پیکار تھا، ہندوستان میدان کار زار تھا، سب سے بڑا دشمن انگریز تھا، جو بڑا شر انگیز، چالاک تھا، تیز تھا، پھر بھی مقابلہ مقاتلہ کا معاملہ کیا گیا، مسلمانوں کی دینی تنزلی دیکھ کر غیور جاگ اٹھے۔ بالآخر انگریز اس ملک سے بھاگ اٹھے۔
دارالعلوم دیوبند نے ہزاروں مفسر، محدث، مفتی، متکلم، محقق، مدقق، مناظر، معلم، مبلغ، مؤرخ، مدبر، مفکر، سیاستدان، صحافی، شاعر، ماہر تیار کئے اور ہزاروں فقہائ، علمائ، فضلائ، فصحائ، بلغائ، ادبائ، اتقیائ، اذکیائ، اصفیائ، اکابر، شیوخ پیدا کئے‘‘۔
عجیب بات ہے کہ وطنِ عزیز کا کوئی بھی بحران ہو ‘ اُس کی تان بالآخر دینی مدارس کی اصلاحات پر آکر ٹوٹتی ہے ۔ ہر حکومت کو بھی ہر تھوڑے عرصے بعد یہی شوق چراتا ہے کہ کسی طرح ان دینی اداروں پر اپنا انتظامی شکنجہ کس کر ان کو بالکل بے دست و پا کر دے ۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں تو ’’ماڈل دینی مدارس ‘‘ کے نام سے ایک مستقل نیا تعلیمی نظام رائج کیا گیا تھا ، جس پر قومی خزانے کے اربوںروپے بے دردی سے لٹائے گئے اور اب موجودہ حکومت اس نئے نظام کو بالکل ختم کرنا چاہتی ہے جو اس کی ناکامی کی کھلی ہوئی دلیل ہے ۔
حقائق سے باخبر ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ یہ مدارس دینیہ ، دشمنان اسلام کی آنکھوں کا کانٹا بن کر کیوں کھٹکتے ہیں ؟ قومی خزانے میں سے ایک روپیہ ان پر خرچ نہیں ہوتا ۔ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ کبھی انہوں نے پیدا نہیں کیا ۔ ان اداروں میں طلبہ کی قومی اور لسانی تنظیمیں بھی موجود نہیں جو معمولی معمولی بات پر ایک دوسرے کا خون بہاتی ہیں ۔ ان اداروں سے آمدورفت کے اوقات میں کوئی راستہ بند نہیں ہوتا ، نہ ٹریفک جام ہوتا ہے ۔ ان اداروں سے تعلیم یافتہ ، کبھی جرائم پیشہ نہیں بنتے ۔ وہ کسی ڈکیت گروپ کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی عمومی طور پر وہ کسی اخلاقی برائی میں ملوث ہوتے ہیں ۔
مزید حقائق کی جستجو کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دینی مدارس کے کسی فاضل نے آج تک قومی خزانہ نہیں لوٹا ۔ملکی راز دشمنوں کے حوالے نہیں کیے ۔ ملک کو دو لخت کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ ملکی آئین کو پامال نہیں کیا ۔ قومی غیرت و حمیت کے منافی کوئی معاہدہ نہیں کیا ۔ پاکستان کے بیٹے بیٹیوں کو ڈالروں کے عوض دشمن ممالک کے حوالے نہیں کیا ۔ اپنے پارٹی مفادات کیلئے پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ پر حملہ نہیں کیا ۔ کسی چیف جسٹس اور ایٹمی سائنسدان کو برسرِ عام رسوا نہیں کیا ۔
سندھ اور پنجاب فیسٹیول کے نام قوم کے بچے بچیوں کو نچانے والے بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں ۔ صحرائے تھر میں سینکڑوں اموات کی ذمہ داری بھی کسی دینی درسگاہ کے فاضل کے سر پر نہیں ۔ یہاں تک کہ امن کیلئے جاری مذاکرات کے دونوں حقیقی فریقوں کا بھی براہِ راست مدارس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس سب کے باوجود ’’ برق گرتی ہے تو بے چارے مدارس پر ‘‘ ۔
مدارس دینیہ کے جرائم کیا ہیں ؟ اگر آپ نے کسی مدرسہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے یا سنی سنائی باتوں کے بجائے براہِ راست مدارس سے آپ کا واسطہ پڑا ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ مدارسِ دینیہ کا اگر کوئی قصور اور جرم ہے تو صرف یہ کہ وہ آج بھی قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ۔ وہ اس دور میں بھی اسلام کی تشریح ‘ اسلافِ امت کے مزاج و مذاق کے مطابق کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔ وہ اکیسویں صدی میں بھی احکامات ِ الٰہی کی کوئی ’’سوٹڈ بوٹڈ‘‘ مغرب زدہ تفسیر ماننے کے لیے تیار نہیں ‘ جس میں رضائے الٰہی سے زیادہ ’’رضائے کفار ‘‘ مطلوب و مقصود ہوتی ہے ۔ وہ آج بھی قرآن مجید اور احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کیے ہوئے تمام مسائل ‘ خواہ وہ فریضۂ جہاد و قتال ہو یا داڑھی اور پردے کے احکامات ‘ ان کو بلاکم دکاست بیان کر دیتے ہیں ‘ خواہ اس سے کسی حکمران وقت کی جبین شکن آلود ہوتی ہو یا اس سے عالم کفر کے کسی سر غنہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوتے ہوں ۔
آج کراچی سے خیبر تک جتنے حفاظ اور علماء موجود ہیں ‘ وہ سب انہی اداروں کے مرہون منت ہیں ۔ اربوں کے حکومتی بجٹ پر چلنے والے عصری تعلیمی اداروں سے حفظِ قرآن کریم یا تحصیل علم دین کی سعادت کرنے والا کوئی آپ خورد بین لگانے سے بھی نہیں ملے گا ۔ پھر ان مدارس سے نکلنے والی یہ پوری نسل اسی وطن سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے ‘ جتنا کسی اور کا ہے ۔ ہمارے حکمران بلا سوچے سمجھے ‘ دوسروں کے رٹے رٹائے بیانات دھرا دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مدراس کو قومی دھارے میں لائیں گے ۔ الحمد للہ تعالیٰ! یہ مدراس پہلے سے قومی دھارے میں ہیں ۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے نناوے فیصد سے بھی زائد بچے اور بچیاں اسی قوم کی ہیں ۔ ان مدارس کو اپنے لیے باعثِ عزت اور صدقۂ جاریہ سمجھ کر ان میں اپنا تعاون پیش کرنے والے بھی اسی قوم کے افراد ہیں ۔ اسی طرح ان مدارس کے منتظمین ‘ مہتممین اور اساتذہ کرام بھی چینی یا جاپانی نہیں ‘ خالص پاکستانی ہیں ۔ پھر ان کو قومی دھارے میں لانے کا اعلان سوائے تحصیلِ حاصل کے کچھ نہیں ۔
آج جب مدارسِ دینیہ کو ہر طرف سے خطرات نے گھیر رکھا ہے اور ملک کا لادین طبقہ ‘ اپنے آقا امریکہ کی سر زمین افغانستان پر بھیانک شکست کا بدلہ ‘ انہی علوم نبوت کے مراکز سے چکانا چاہتا ہے ‘ تو ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے مدارسِ دینیہ کے ابتدائی دور میں کس طرح انگریز کے جبر اور ہر سمت پھیلی مادّی مرعوبیت کا مقابلہ کیا تھا ۔
وہ کیا بنیادیں تھیں ‘ جنہوں نے ان بندگانِ خدا کو ایسی استقامت بخشی کہ انہوں نے دینی احکامات پر کوئی سمجھوتہ قبول کیا نہ ہی وقت کی تیز آندھیوں اور انگریزوں کے جبرو تشدد کے سامنے ہتھیار پھینکنا گوارا کیے ۔ وہ کیا اصول تھے ‘ جن کے نتیجے میں انہیں معاشرے میں ایسی اخلاقی برتری نصیب ہوئی کہ ہر دینی اور قومی تحریک میں وہ قیادت کے منصب پر فائز ہوئے اور عوام اہلِ ہند تو کیا خواص نے بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے لیے سعادت خیال کیا ۔
ہمیں یقین ہے کہ آج بھی انہی بزرگوں کے مجرب طریقہ کار کو اپنا کر مدارسِ دینیہ کا تحفظ کیا جا سکتا ہے ۔اب بھی اخلاص و للہیت ‘ سادگی ‘ قناعت ‘ زہد ‘ عاجزی ‘ دینی علوم میں پختگی اور ہر باطل کے خلاف استقامت کے روشن اصولوں کو اپنا کر ہی موجودہ ظلم و ستم کے سیلاب بلاخیز کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے ۔
کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے اکابر نے اگر انگریز استعمار کو ناکوں چنے چبوائے ‘ تو اُن کے اخلاف اُن کے نقشِ قدم پر چل کر امریکی استعمار کے منصوبوں کو خاک میں نہ ملا سکیں لیکن اس کیلئے ضرورت ہے ایسے جاں نثاروں کی جو کچھ لینا نہیں ‘ کچھ دینا چاہتے ہوں ‘ جو دنیا کی عارضی لذتوں کو آخرت کی دائمی راحتوں کی خاطر لٹانے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور جو صرف گفتار کے نہیں ‘ کردار کے غازی ہوں ۔
اللہ کریم مدارس دینیہ ‘اُن کے اساتذہ و مشائخ اور عزیز طلبہ کی ہمہ قسم آفات سے حفاظت فرمائے ۔ (آمین ثم آمین)
و صلی اللہ علی النبی الکریم و علی آلہٖ و صحبہ اجمعین
٭…٭…٭
آج کا فرعون … آج کے موسیٰ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 439)
آج ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت ثابت ہو گئی ہے کہ تاریخِ انسانیت میں سب سے زیادہ ظلم جنگ کے میدانوں کے بعد ‘ عدالت کے ایوانوں میں ہواہے ۔ برادر اسلامی ملک مصر کی ایک عدالت نے وہاں کے غاصب فوجی آمر کے اشارے پر ’’اخوان‘‘ کے ۵۲۹عہدیداروں اور کارکنوں کو صرف دو سماعتوں کے بعد سزائے موت سنا دی ہے ۔ اسرائیل کے ایجنٹ سیسی حکومت کی جانب سے یہ اتنا بڑا عدالتی ظلم ہے کہ دورِ جدید میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔
اس واقعہ کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مصر ‘ جو پہلے ہی سر زمینِ فراعنہ کے نام سے مشہور ہے ‘ وہاں ایک نیا فرعون جنم لے چکا ہے ۔ کبھی کوئی شخص اپنی خوبی یا برائی میں اتنا آگے نکل جاتا ہے اور اپنی صفات کے ساتھ اتنا مشہور و معروف ہو جاتا ہے کہ پھر اُس کا نام ‘ صرف ذاتی نام نہیں رہتا ‘ بلکہ اس کا نام پڑھتے یا سنتے ہی فوراً انسان کا ذہن ‘ اُس کی صفات اور اس کے کردار کی طرف چلا جاتا ہے ۔
ایسا ہی کچھ معاملہ سیدنا حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام اور فرعون کے نام کے ساتھ ہوا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی حق گوئی اور جرأ ت و استقامت میں اتنے مشہور ہوئے کہ اب موسیٰ نام آتے ہی فوراً اُن کا عظیم کردار آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ اسی طرح فرعون بھی اپنے ظلم و ستم میں اتنا معروف ہوا کہ اب اُس کا نام آتے ہی‘اُس کے کرتوت ذہن میں آجاتے ہیں ۔
اسی سے پھر عربی کی یہ مثل بن گئی کہ ’’ لکل فرعون موسیٰ‘‘ یعنی ہر باطل پرست اور ظالم و جابر کے مقابلے کیلئے اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی مرد غیور کو کھڑا فرما دیتے ہیں جو اُس کے تکبر و غرور کو خاک میں ملا دیتا ہے ۔ جنرل سیسی کو جو فرعون لکھا گیا تو وہ اسی معنی میں ہے اور یہ حقیقت تو بہت سے قارئین کے علم میں پہلے سے ہی ہو گی کہ فرعون درحقیقت کسی خاص بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ شاہانِ مصر کا ایک عمومی لقب تھا ۔
کہتے ہیں کہ تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہدِ سکندر ‘ ان فرعونوں کے اکتیس خاندان مصر پر حکومت کرتے رہے ۔ سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام ‘ جب کنویں کی قید سے آزاد ہو کر عزیز مصر کے گھر اور پھر مصر کے قید خانے میں پہنچے تو اُس وقت جس فرعون کی حکومت تھی ‘ اُس کا نام ’’ ہیکسوس ‘‘ تھا ۔ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قیامِ مصر کے دور میں جو فرعون تھا ‘ اُس کا نام مفسرین نے عام طور پر ولید بن مصعب بن ریان بتایا ہے اور بعض نے صرف مصعب بن ریان بھی لکھا ہے ۔ کچھ نے ریان بھی نام لکھا ہے لیکن حضرت مولانا محمد حفظ الرحمن سیوھارویؒ نے قصص القرآن میں بتایا ہے کہ زیادہ درست یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا نام منفتاح تھا ‘ جو رعمسیس ثانی کا بیٹا تھا ۔
ظاہر ہے اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اتنا ہی پتہ چل سکتا ہے ‘ فرعون کا شناختی کارڈ نمبر تو معلوم ہونے سے رہا ۔ اصل بات سوچنے کی یہ ہے کہ قرآن مجید کوئی قصے کہانیوں کی کتاب تو ہے نہیں ‘ یہ تو کتابِ ہدایت ہے ‘ پھر اس میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کو اتنی تفصیل سے کیوں ذکر کیا گیا ہے ۔ دکتور شوقی ابو خلیل نے اپنی کتاب ’’ اطلس القرآن‘‘ میں تفصیلی فہرست کے ذریعے دکھایا ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام ۱۳۶مرتبہ آیا ہے ۔ ان میں سے اکثر مقامات وہ ہیں جہاں ان کی فرعون کے مقابلے میں معرکہ آرائیوں کا تذکرہ ہے اور مصر میں انتہائی بے بسی اور بے کسی کی حالت میں جرأت و استقامت کے ساتھ دعوت حق کے زمزمے ‘ آج بھی قرآن مجید کی آیات میں گونجتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔
فرعون اور سیدنا موسی علیہ السلام کے ان تمام واقعات کا اگر خلاصہ نکالا جائے تو وہ بھی کئی صفحات چاہتا ہے لیکن بالخصوص جادو گروں کے ساتھ مقابلہ ‘ جادوگروں کا ایمان لانا اور فرعون کا اُن کو پھانسی پر چڑھانا ‘ یہ سب وہ واقعات ہیں جو ہر دور میں اہلِ حق کو اہلِ باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے ‘ راہِ حق میں اپنے آپ کو فدا کرنے اور نامِ خدا پر سب کچھ نچھاور کرنے کا سبق دیتے ہیں ۔اس لیے یہاں ان واقعات کا مختصر تذکرہ فائدے سے خالی نہ ہو گا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جب فرعون اور اس کے اہل دربار کی کچھ نہ بن پڑی اور ضد و تعصب کی بنا ء پر ماننے سے انکار کر دیا تو یہ کھلے معجزات دیکھ کر اہلِ دربار سے فرعون نے کہہ دیا کہ یہ کوئی بڑا جادو گر ہے اور یہ اس ارادے سے یہاں آیا ہے کہ تم کو تمہاری سر زمین سے بے دخل کر دے ‘ اہلِ دربار سے مشورہ لیا کہ اب تمہارا کیا خیال ہے ؟ اہلِ دربار نے یہ کہا کہ آپ موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دے دیں اور ملک کے نامور جادو گروں کو بلا لیں اور پھر ایک بڑے میدان میں ان سب کا مقابلہ کرائیں ، ہمیں قوی امید ہے کہ ہمارے ملک کے جادو گروں کے آگے موسیٰ اور اس کے بھائی کی کچھ نہ چلے گی اور اس طرح یہ کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا ، چنانچہ فرعون نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ تو جادو کے زور سے ہمارا ملک چھیننا چاہتا ہے تو مغرور نہ ہو ہم بھی جادو میں تیرا مقابلہ کر سکتے ہیں ، دن اور جگہ مقرر ہو جائے ہم بھی اس دن وہاں آجائیں اور تو بھی ، کھلے میدان میں سب کے سامنے ہار جیت کھل جائے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے منظور ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تمہارا عید کا دن مناسب ہے ۔
مدت مقرر ہو گئی ، دن اور وقت اور جگہ کا تعین بھی ہو گیا تو فرعون نے ادھر اُدھر سے جادو گروں کو جمع کرنا شروع کر دیا ، اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادو گر موجود تھے ، مقررہ وقت تک جادو گر بھی جمع ہو گئے اس میدان میں فرعون اپنا تخت نکلوا کر اُس پر بیٹھا اور تمام امراء وزراء بھی اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے رعایا بھی سب جمع ہو گئی ، جادو گروں کی ٹولیاں صفیں باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا کہ آج اپنا وہ ہنر دکھلائو کہ دنیا میں یاد گار رہ جائے ، تو جادو گروں نے کہاں کہ ہمیں اس کا انعام بھی ملے گا یا نہیں ؟
فرعون نے جواب دیا :
’’ ہاں ضرور ، اور تم اس وقت مقربین میں شامل کر لیے جائو گے‘‘ ۔
جادو گروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم اپنا وار پہلے کرتے ہو یا ہم پہل کریں ‘ کلیم اللہ نے ان کو فرمایا کہ تم پہل کر و ، چنانچہ انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں زمین پر ڈال دیں اور کہنے لگے کہ :
’’ فرعون کی عزت کی قسم! بلا شبہ ہم ہی غالب رہیں گے ‘‘ ۔
ان کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لاٹھیوں سے سارا میدان پُر ہو گیا اور وہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر اوپر تلے ہونے لگے ‘اس منظر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی خوفزدہ کر دیا ۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی ان کے کرتب کے قائل ہو جائیں اور اس باطل میں نہ پھنس جائیں ‘ جیسا کہ ارشاد ہے :
’’ پھر اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں ایسی معلوم ہونے لگیں کہ جیسے وہ دوڑ رہی ہوں یہ دیکھ کر موسیٰ نے اپنے دل میں تھوڑا سا خوف محسوس کیا ہم نے کہا ڈر نہیں یقینا تو ہی غالب رہے گا اور جو چیز تیرے دائیں ہاتھ میں ہے اسے میدان میں ڈال دے وہ سب کو نگل جائے گا جو انہوں نے بنایا ہے ۔ کیونکہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ جادو کا کرتب اور فریب ہے اور جادو گر خواہ کہیں بھی جائے گا کامیاب نہیں ہو گا ‘‘ ۔
وحی آئی کہ اپنے دائیں ہاتھ میں موجود لکڑی کو زمین پر پھینک دیں ، آپ نے جب لکڑی پھینکی تو وہ ایک بہت بڑا اژدہا بن گئی جس کے پیر بھی تھے اور سَر بھی تھا کچلیاں اور دانت بھی تھے ، اس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے میدان کو صاف کر دیا ۔ اس میں جادو گروں کے جتنے بھی کرتب تھے سب کو ہڑپ کر لیا ۔ اب سب پر حق واضح ہو گیا ، معجزہ اور جادو میں تمیز ہو گئی ، حق اور باطل میں پہچان ہو گئی ‘ سب نے جان لیا کہ جادو گروں کی بناوٹ میں اصلیت کچھ بھی نہ تھی ۔
جادو گروں نے جب یہ منظر دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کام انسانی طاقت سے خارج ہے وہ تو جادو کے فن کے ماہر تھے ایک نظر میں پہچان گئے کہ واقعی یہ اس اللہ کا کام ہے جس کے فرمان اٹل ہیں ، انہیں یقین ہو گیا اور اسی میدان میں سب کے سامنے بادشاہ کی موجودگی میں اللہ کے حضور سر بسجود ہو گئے ۔
فرعون نے جب یہ دیکھا کہ جن کو اس نے مقابلے کے لیے بلوایا تھا وہ تمام مجمع میں ہار گئے اپنے کرتوت کو جادو اور موسیٰ ؑ کے معجزے کو خدا کی طرف سے عطا کر دہ معجزہ تسلیم کر لیا ۔ تو اپنی شیطانی میں بڑھ گیا اور اپنی طاقت اور قوت دکھانے لگا ، اور کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو ، معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ تم سب کا استاد ہے اور تم اس کے شاگرد ہو اور یہ خفیہ تم نے آپس میں ساز باز کیا ہوا تھا اور اس کا انجام بھی تمہیں معلوم ہو جائے گا ، میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ کاٹ کر تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا اور بہت بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لیے عبرت ہو ، سولی کی سزا سب سے پہلے اس نے دی تھی لیکن ان نو مسلم جادوگروں پر اس کی دھمکی کا کچھ اثر نہ ہوا اور وہ بھری محفل میں کہنے لگے کہ :
’’تو جو کچھ کرنا ہے ہے کر ڈال ، تو صرف اس دنیا کی زندگی میں حکم چلا سکتا ہے ‘‘ ۔
ہم نے اپنے رب پر ایمان لایا ہے تاکہ وہ ہماری خطائوں کو معاف فرمائے اور یہ گستاخی جو تم نے زبردستی کرائی ہے اللہ کی قدرت کو جادو سے مٹانے کی یہ بھی معاف فرمائے ۔ خدا کی قسم جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے ‘ خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کرلے ، مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے نہ کہ تو جو کہ خود اس کا پیدا کردہ ہے نہ ہمیں تیری سزائوں سے ڈر ہے نہ تیرے انعام کی لالچ ہے ۔
چنانچہ فرعون نے ان سب کو اذیتیں دے دے کر شہید کر ڈالا ، سب کو الٹی سیدھی طرف سے ہاتھ پائوں کاٹ کر پھانسی پر چڑھا دیا صبح کو یہ جادو گر کافر اور جادو گر تھے اور شام کو پاکباز مومن اور راہِ الٰہی کے شہید تھے ۔
کہتے ہیں کہ ان کی تعداد اسی ہزار یا ستر ہزار تھی ، تیس ہزار ، انیس ہزار اور بارہ ہزار کی روایات بھی ہیں ، جب یہ سجدے میں گرے تو خدا تعالیٰ نے انہیں جنت دکھا دی اس طرح انہوں نے اپنی منزلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔ ( ابن کثیر )
آج کے اخبارات میں مصری عدالت کے فیصلے کی تفصیلات پڑھ کر دل و دماغ میں مسلسل یہی منظر نامہ گردش کر رہا ہے ۔ اگر ایک طرف ظلم و ستم کے کوڑے لہراتے ‘ یہودیوں کے ڈالروں پر پلنے والے وردی پوش سپاہی ہیں تو دوسری طرف جذبۂ استقامت سے لبریز ‘ اللہ تعالیٰ کے دین پر اپنی جانیں قربان کرنے والے ‘ اس کے محبوب بندے ہیں ۔ زبان پر اُن کی حفاظت کیلئے دعائیں ہیں اور دل اس یقین سے لبریز ہے کہ یہ پھانسی کے پھندے کبھی اہل حق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور اہل ستم ایسے ہی حربوں کے ذریعے خود اپنی تباہی کو دعوت دیتے ہیں ۔ مصر کی جیلوں میں اس وقت ۲۲ ہزار اہل ایمان جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ‘ جن میں پانچ سو عفت مآب خواتین بھی ہیں ۔ کیا اس مادّی دور میں ایمان پر جرأت و استقامت کے یہ نظارے یہ یقین کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ’’ لکل فرعون موسیٰ‘‘
’’ وقت کے ہر فرعون کو للکار نے کیلئے اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی موسیٰ کو بھیج ہی دیتا ہے ‘‘
دیکھیں ‘ غور کریں اور سوچیں کہ ہم کس قافلے اور کس لشکر کے ہم رکاب ہیں ؟؟؟
٭…٭…٭
ایک فرض … ایک قرض
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 440)
عجیب بات ہے کہ امریکی صدر ہو یا برطانوی وزیر اعظم ‘ ہمارے بڑے میاں صاحب ہوں یا چھوٹے میاں صاحب ‘ جعلی بھٹو اور اصلی زرداری صاحب ہوں یا انصاف خان صاحب ‘ سب ہی پاکستانی خواتین کیلئے سخت پریشان ہیں ۔ وہ پاکستانی خاتون جو پہلے سب گھروں میں اور اب بھی اُن گھروں میں جہاں اسلامی روایات اور مشرقی اقدار زندہ ہیں ‘ بڑے ٹھاٹھ اور عزت کے ساتھ زندگی گزارتی ہے ۔ یہ اُن خواتین کو بھی یورپ کے ڈگر پر چلا کر آزادی کے نام پر بربادی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔

پھر اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب دو غلے لوگ ‘ ایک ایسی پاکستانی خاتون کے بارے میں کچھ نہیں کہتے جسے کل ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۴ ء کو امریکی قید میں گیارہ برس مکمل ہو چکے تھے ۔ وہ نجانے روزانہ کتنی مرتبہ جیتی ہے اور کتنی مرتبہ مرتی ہے … جیل کی آہنی کھڑ کیوں کے پیچھے سے جھانکتی وہ پاکستانی خاتون جسے ڈالروں کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا ‘ آج اُس کی بے بسی کی داستان ہمارے سیاستدانوں ‘حکمرانوں ‘ عہدیداروں ‘ صحافیوں ‘ دانشوروں اور خواتین کی آزادی کے نام پر پلنے والی این جی اوز کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ سخت اور زناٹے دار طمانچہ ۔
کیا ان لوگوں کی نظر میں صرف وہ ہی خواتین ہیں‘ جو ایک وقت میں ہزار ہا روپے کا جوڑاپہن کر غیر مردوں کے سامنے ان کی نمائش کرتی ہیں ‘ جو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے کیمروں کے سامنے اسلامی احکام کا تمسخر اڑاتی ہیں ‘ جو لاکھوں روپے یومیہ کے ہوٹلوں میں ’’ عورت کی مظلومیت ‘‘ پر سیمینار سے بلا تکلف خطاب کرتے ہوئے اپنی قومی و ملی اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہیں ‘ جو ملّا اور مولوی کو کوسنے دینا تو اپنا فرض سمجھتی ہی ہیں لیکن اکبر الہ آبادی مرحوم اور اقبال مرحوم کو بھی اُن کے فرنگی تہذیب کے خلاف اشعار کی وجہ سے رجعت پسند اور دقیانوس قرار دیتی ہیں ۔
ہاں ! وہ ایک بیٹی … پاکستان کی بیٹی … ایک بہن … جس کی بہن بھی آج … اُس کی آزادی کیلئے … سڑکوں ‘ چوراہوں میں نکلنے پر مجبور ہے … ایک ماں … جس کے تین بچے … اُس کو نہیں معلوم کہ… زندہ ہیں یا مردہ … گھر پر ہیں یا اغواء کر لیے گئے ہیں … وہ ان کے نزدیک کسی حق کی مستحق ہے ‘ نہ آزادی کی حق دار …
حکمرانوں کو تو چھوڑیں کہ ان کو ملک و قوم سے جتنی محبت ہے ‘ سب کو معلوم ہے ۔ ان کے چڑیا گھر کا پالتو مور مر جائے تو ایسا زبردست اور فوی ایکشن ہوتا ہے کہ صحرائے تھر کے معصوم بچے بھی رات کو مائوں سے پوچھتے ہیں کہ اماں ! ہم انسان کیوں ہیں ؟ رائے ونڈ کے چڑیا گھر کے مور کیوں نہیں کہ ہمارے مرنے پر بھی کسی کے دل پر آرے چلتے ‘ کوئی آنکھ بھیگتی یا کسی کی رات کرب اور بے چینی کی نذر ہو جاتی ۔
مگر آج پوری قوم کوکیا ہو گیا؟کیا انہوں نے بھی عورت کی آزادی کا مطلب صرف اس کے دوڑنے اور چھلانگیں لگانا ہی لے لیا۔کیااب حقوق نسواں کا ان کے ہاں یہی مفہوم رہ گیا کہ کچھ مادرپدر آزاد قسم کی لڑکیوں کی کھیل کی ٹیمیں بنیں اور ملکوں ملکوں قومی غیرت کا جنازہ نکالتی پھریں ۔ مسلمان بھائی تو کبھی یوں اپنی بہن کو کفار کی قید میں دے کر سکون کی نیند نہیں سویا کرتے تھے ۔
معتصم باللہ اور محمد بن قاسم کا تو نام لیتے ہوئے بھی اب اپنے آپ سے عار محسوس ہونے لگتی ہے، لیکن اے کاش! کہ ہم نے اس سلسلے میں کفار سے ہی کچھ سبق سیکھ لیا ہوتا ۔ دنیا بھر میں کہیں ان کے شہری پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے ‘ وہ انگاروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک بھارتی خاتون سفارت کار کو جب امریکہ میں گرفتار کیا گیا تو پوری دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے سخت ترین ردّعمل کا اظہار کیا اور بالآخر امریکی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
قوم کے ان تمام طبقات کی بے حسی اور بے رخی کے باوجود اب بھی ایک طبقہ ہے جو قیدیوں کے بارے میں قرآن و حدیث کے احکام پر سر دُدھنتا ہے ۔ اب بھی ایسے جوان ہیں جو اپنی جوانیاں اپنی بہن کی عزت پر قربان کر چکے ہیں ۔ جو اپنا مقدس لہو اپنی بہنا کے اُس دوپٹے کے نام کر چکے ہیں ‘ جو کفار نے تار تار کر دیا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ بھائی وہ ہی ہوتے ہیں‘ جو اپنی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں ۔ شاید ایسے ہی جوانوں کو دیکھ کر اقبال مرحوم نے کہا تھا : ؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو یا دیگر اسیرانِ اسلام ‘ اتنی بات طے ہے کہ اپنے دیس میں بسنے والے ان پردیس کے باسیوں کا غم والم نہیں سمجھ سکتے ۔ آرام دہ اور نرم و گداز بستروں پر لیٹنے والے ، سخت اور سرد فرش پر سونے والوں کا تصور نہیں کر سکتے ، وسیع اور کشادہ مکانات کے مکین ان قبر نما ۴x۴ فٹ کی کوٹھڑیوں میں مقیم لوگوں کا درد نہیں بانٹ سکتے ، مگر اپنوں سے اتنی بے اعتنائی ، وفاداروں سے اتنی بے وفائی اور آشنائوں سے اتنی کج ادائی تو کبھی مسلمانوں کی عادت اور فطرت نہ تھی ۔
قرآن مجید میں اللہ جلَّ جلالہ کا ارشاد گرامی ہے :
’’ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے ، ان کمزوروں کی خاطر جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعاکر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں ۔ ‘‘ ( النساء ۔۷۵)
معروف مفسر امام محمد المالکی القرطبی ؒ اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کروائیں ، خواہ وہ قتال کے ذریعے ہو یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے ۔ پھر اس کیلئے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے کیونکہ اموال ، جانوں سے کمتر نہیں ۔ ‘‘ ( تفسیر قرطبی : جلد ۵؍ صفحہ ۲۶۸)
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں :
’’ ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کروانا واجب ہے ، اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ بچے ۔ علامہ ابن خویز مندادرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدیوں کو چھڑوانا واجب ہے ۔ اس سلسلے میں کئی آثار منقول ہیں کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قیدی چھڑوائے اور مسلمانوں کو قیدی چھڑوانے کا حکم دیا ۔ مسلمان ہمیشہ اسی پر عمل کرتے رہے ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے ۔ بیت المال سے قیدیوں کا فدیہ دے کر ان کو رہا کروانا واجب ہے ۔ اگر بیت المال نہ ہو تو یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ البتہ اگر کچھ لوگ اس فرض کو پورا کر لیں گے تو باقی لوگ گناہ سے بچ جائیں گے ۔ ‘‘ ( تفسیر قرطبی : جلد ۲؍ صفحہ ۲۶)
اس تحریر میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے ، وہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے :
’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بھوکے کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کروائو‘‘ ۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۴۳۷۳)
امام ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ یہ حکم کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑوایا جائے ، ہمارے لئے بھی ثابت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین و انصار کے درمیان یہ دستاویز لکھی تھی کہ وہ ایک دوسرے کی دیت ادا کریں گے اور قیدی کا فدیہ ادا کریں گے ، معروف طریقے کے مطابق ‘‘ ( احکام القرآن ۔ ۱؍۸۵)
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قیدیوں کو چھڑوانا بڑے واجبات میں سے ہے اور اس سلسلے میں وقف شدہ اور دیگر مال کو خرچ کرنا بہترین نیکیوں میں سے ہے ‘‘ ( فتاویٰ ابن تیمیہ ؒ ۔ ۲۸؍ ۶۳۵)
امام نووی شافعی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’ اگر کافر ایک یا کئی مسلمانوں کو گرفتار کر لیں تو کیا ( جہاد فرض ہو جانے میں ) اس کا حکم بھی وہی ہے جو کفار کا دارالاسلام میں داخل ہونے کا ہے ؟ اس بارے میں دورائے ہیں … ان دونوں میں سے صحیح بات یہ ہے کہ جی ہاں! اس کا حکم بھی یہی ہے ، کیونکہ ایک مسلمان کی حرمت جگہ کی حرمت سے کہیں زیادہ ہے ۔ (روضۃ الطالبین‘ ۱۰؍۲۱۶)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں:
’’مسلمانوں کے قیدیوں کا فدیہ دینا واجب ہے … فقہاء کرام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیدی چھڑوانے کیلئے لڑائی کرنا واجب ہے ، اگر ہم اس کے ذریعے قیدی چھڑوا سکتے ہوں ۔ ‘‘ ( المغنی ۔ ۹؍ ۲۲۸)
علامہ ابن العربی رحمہ اللہ شرعی حکم اور مسلمانوں کی حالت ِ زار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ اگر ہم اپنی تعداد کے ذریعے قیدیوں کو چھڑوا سکتے ہیں تو ہم میں سے کسی آنکھ جھپکنے والے کو باقی نہیں رہنا چاہیے ، یا ہمیں اپنا تمام مال ان کیلئے خرچ کر دینا چاہیے ، یہاں تک کہ کسی کے پاس ایک درہم بھی نہ رہے ۔ پس انا للہ و انا الیہ راجعون ! اس بات پر کہ لوگوں کے بھائی دشمن کی قید میں ہیں اور انہوں نے اپنے پاس بے شمار فالتو اموال اور طاقت جمع کر رکھی ہے ۔ ‘‘ ( احکام القرآن ۔ ۲؍ ۴۴۰)
یہ ہیں قرآن و سنت کی نصوص اور فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی آراء گرامی ، جو ہمیں غفلت اور بے حسی سے جھنجوڑ رہی ہیں ۔ یہ ہمیں وہ فرض یاد دلا رہی ہیں جو بحیثیت مجموعی ہم چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ کفار کے قید خانوں میں لٹتی عزتیں ، بہتے آنسو ، گرم لہو کے قطرے اور درد ناک چیخیں ، ہمیں اس بڑھیا کی طرح راستہ روک کر پوچھ رہی ہیں ، جس بڑھیا نے سلطان محمد تغلق کو ایک پل پر روکتے ہوئے کہا تھا :
’’ سلطان ! میرا فیصلہ اس پُل پر کرو گے یا قیامت کے دن پلِ صراط پر ؟‘‘
مسلمان قیدیوں کے حالات کو پریشان خیالی سمجھ کر جھٹک دینے والوں کو اس پر ابھی غور کر لینا چاہیے ۔
مسلمانوں کا ایک دور وہ تھا جب کفار کی قید میں ایک عورت پکارتی وامعتصماہ !… تو دارالحکومت سمیت پوری مملکت میں زلزلہ برپا ہو جاتا ، اپنے قیدیوں کی خاطر لشکر روانہ کئے جاتے ، ان کی آزادی اور رہائی کی تدبیریں کی جاتیں ، جیل خانے کی سلاخوں کے پیچھے ان تک ضروریات زندگی پہنچانے کی کوششیں ہوتیں۔ اس سلسلے کے واقعات اتنے ہیں کہ ان کیلئے مستقل کتاب درکار ہے ۔
ایک دور یہ ہے کہ مشرق و مغرب ہر سمت میں مسلمان قید خانوں میں سسک رہے ہیں ، جوانیاں دم توڑ رہی ہیں ، وحشیانہ ظلم و ستم آئے روز بڑھ رہا ہے ، انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپیئن خود حیوانیت کو بھی شرما رہے ہیں ، مگر پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں بسنے والے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے پاس ان قیدیوں کیلئے کچھ نہیں ہے ، اور اگر کچھ ہے تو چند طنزیہ فقرے اور کچھ بے سروپاباتیں …!
مسلمان قیدی ‘ وہ خواہ مرد ہوں یا خواتین‘ وہ بچے ہوں یا بوڑھے ‘ اُن کی رہائی کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا ہمارا شرعی فرض بھی ہے اور ہم پر اُن کا اخلاقی قرض بھی ۔ اللہ کرے کہ ہمیں اس کا احساس بھی ہو جائے ۔
٭…٭…٭
آزادی کی حفاظت کیسے ؟
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 457)
لاٹھی بردار خواتین… پولیس کی گاڑیوں پر حملہ آور… مسلح جتھے اور منظم دستے … ان کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے … پولیس اہلکار وں کی لاشیں … زخمیوں کی کرب انگیز تصاویر … یرغمال بنائے گئے باوردی پولیس والوں کی … اپنے دفاتر میں تذلیل و تحقیر… یہ سب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آپ نے بھی دیکھا اور سنا ہو گا ۔
انقلابی بابا جب سے پاکستان آیا ہے ‘ وہ روزانہ علی الاعلان تشدد پر اکساتا ہے ‘ مارنے اور مرنے کی ترغیب دیتا ہے ‘ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے ، دہشت پھیلاتا ہے اور یہ سب صرف ایسے بے سروپا انقلاب کیلئے ‘ جس کی تفصیلات کا خود اُس کو علم ہے نہ اُس کے پیروکاروں کو ۔ ایک ایسا شخص جس کا اپنا ماضی دغدار ہے اور اس کے ساتھ جتنے لوگ کھڑے ہیں‘ سب اپنے اپنے زمانے کے نامور چور ‘ ڈاکو اور قاتل ‘ ان کے بل بوتے پر جو انقلاب آئے گا ‘ اُس کا کچھ اندازہ تو بہر حال لگایا جا سکتا ہے ۔
عوام کیلئے یہ سب کچھ تکلیف دہ سہی ‘ وہ ذرائع آمدورفت سے محروم اور اشیائے خوردونوش کی قلت سے پریشان سہی لیکن انہیں اتنی تسلی رکھنی چاہیے کہ یہ سب انقلابی بابا اور اس کے حواریوں کا ’’جمہوری حق ‘‘ ہے ۔ ان سب کرتوتوں کے باوجود یہ لوگ دہشت گرد ہیں نہ حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے ۔ ان کے خلاف کوئی سیکورٹی ادارہ متحرک ہو گا ‘ نہ کوئی عدالت از خود نوٹس لے گی ۔ دانشور اور صحافی بھی چپ سادھے بیٹھے رہیں گے ۔
ہاں ! اگر یہی سب کچھ یا اس سے بہت کم نفاذِ اسلام کیلئے کیا جائے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی حکومت کی طرف سے گرائی جانے والی مساجد کے ردّعمل میں کیا جائے اور صرف اپنی مسجد اور ادارے کی حدود کے اندر کیا جائے تو اس سے پوری ریاست کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔ دہشت گردی شروع ہو جاتی ہے ‘ حکومتی رٹ چیلنج ہو جاتی ہے اور پھر ایسے لوگوں کی سزا ’’فاسفورس بم‘‘ سے کم نہیں ہوتی ۔ سانحۂ لال مسجد کے زخم آج کے اخبارات دیکھ کر ایک مرتبہ پھر ہرے ہو گئے ہیں اور سیکولر کہلانے والوں کی عملی منافقت بھی عیاں ہو گئی ہے ۔ قوم حیران ہے کہ یہ ملک’’اسلامی جمہوریہ ‘‘ ہے ‘ پھر اسلام کا نام لینا جرم کیوں اور جمہوریت کے نام پر ہر غلط کام جائز اور درست کیسے ؟ آج جب کہ اہلِ پاکستان اپنا یومِ آزادی منانے جا رہے ہیں‘ یہ بہت اہم اور ضروری سوال ہے ‘ جس پر غور کیا جانا چاہیے ۔
ابھی رمضان المبارک مکمل نہیں ہوا تھاکہ حکومت نے آنے والا یومِ آزادی پورے جوش و خروش سے منانے کا اعلان کر دیا تھا ‘مادر پدر آزادی کی علمبردار تحریک اور انقلابی بابا بھی حکومت کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں … لیکن زیادہ سے زیادہ ہو گا کیا ؟ حسبِ سابق لوگ گھروں پر اور حکومت نمایاں مقامات پر چراغاں کرے گی کچھ لوگ اپنے گھر ‘ دکان یا گاڑی پر پرچم لہرانے کا تکلف بھی گواراکر لیں گے ۔ حکمران چند رٹے رٹائے جملوں کے ذریعے قوم کو آزادی کی مبارک باد بھی پیش کریں گے اور اکثر اخبارات اس موقع پر اپنے خصوصی ایڈیشن شائع کریں گے اور یوں یومِ آزادی کا حق اُن کے خیال میں ادا ہو جائے گا ۔
اکثر لوگ ۱۴ ؍ اگست کے دن ہی شکوہ کناں ہی نظر آئیں گے کہ کیسی آزادی اور کونسی آزادی ؟ کس بات کی خوشی اور کس بات کا جشن ؟ کہاں کی تقریبات اور کس چیز کی مسرت ؟ ہماری خوشیوں کو تو حکمرانوں کی خرمستیاں کھا گئی ہیں اور مہنگائی نے ہمیں سب کچھ بھلا دیا ہے جی ہاں ! امریکہ جب چاہتا ہے ہماری سر زمین پر ڈرون حملہ کر دیتا ہے یا کسی شہری علاقے میں خفیہ آپریشن کر ڈالتا ہے ۔ بھارت کو بہت جلد وزارتِ خارجہ پسندیدہ ملک کا درجہ دینے والی ہے اور ہندوئوں کی حیا سوز فلمیں پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں دیکھی جا رہی ہیں ۔
انگریز ‘ جس سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی ‘ آج اُسی کا قانون اور اُسی کے ذہنی غلام ہم پر مسلط ہیں ۔اُسی کی رضا مندی اور خوشنودی ہمارا سب سے بڑا مقصد ہے ۔ کبھی ہم سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک تھے ‘ پھر پنجابی ‘ پٹھان ‘ سندھی اور بلوچ ہوئے ۔ اب پوٹھاہاری ‘ سرائیکی ‘ ہزاروی اور نجانے کیاکیا بن گئے ہیں ۔ وہ نسبتیں جو اللہ تعالیٰ نے صرف باہمی تعارف کیلئے بناتئی تھیں ‘ اب وہ وہی باہمی لڑائی جھگڑوں کا ذریعہ بن گئیں ۔
پھر آپ نے دنیا میں کوئی ایسا عقلمند نہیں دیکھا ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہو اور پائوں میں بیڑی ہو لیکن وہ یہ کہتا پھرے کہ میں تو آزاد ہوں ۔ ہم تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔ یہ تعلق اور رشتہ ہمیں اسلام نے عطا فرمایا ہے ۔ قرآن و حدیث نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے پھر جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی درجنوں مسلمان بہنیں کفار کے پنجۂ ستم میں سسک سسک کر جی رہی ہیں ‘ وہ روز جیتی اور روز مرتی ہوں ۔ ہمارے کتنے ہی قیمتی بھائی گوانٹا ناموبے سے ابو غریب تک اور شیر غان سے دنیا کے بد نام عقوبت خانوں تک اپنی زندگیاں بتا رہے ہوں ۔ ایسے میں آزادی کا دعویٰ کچھ عجیب ہی نہیں مضحکہ خیز بھی لگتا ہے۔
پھر اگر مقاصدِ آزادی کے لحاظ سے دیکھیں تو معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے ۔ سولہ لاکھ شہداء نے اس ارضِ وطن کے حصول کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ کتنے ایسے تھے جنہیں گھروں سمیت زندہ جلا دیا گیا ۔ کتنے ایسے تھے جنہیں ریل گاڑیوں کے نیچے زندہ کچل کر مار دیا گیا ۔ کتنی ایسی مائیں بہنیں تھیں جو اپنی عزت بچانے کیلئے کنووں میں کود گئیں ‘ چھتوں سے چھلانگیں لگا دیں اور کتنے ایسے معصوم بچے تھے جو بلکتے بلکتے ابدی نیند سو گئے ۔
کیا یہ سب قربانیاں صرف اس لیے تھیں کہ یہاں اسلام پابند اور کفر آزاد ہو گا ۔ یہاں مالدار اپنی دولت کے بل بوتے پر غریبوں کی پگڑیاں اچھالتے اور عزتیں لوٹتے پھریں گے ۔ یہاں حکومت اور اقتدار چند خاندانوں کی میراث بن جائے گا ۔ یہاں اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جائے گا ۔ یہاں کے تعلیمی ادارے ایسی پود جنم دیں گے جو امت مسلمہ کی ماں ‘ بہن ‘ بیٹی کا تحفظ تو کیا کریں گے ‘ ان کے ہاتھوں تو ان کے اپنے گلی محلے کی ماں ‘ بہن ‘ بیٹی ہی محفوظ نہیں ہو گی ۔
ہماری نئی نسل تو اقبال ؒ کے فریب خوردہ شاہین کی طرح ہے ‘ جس کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ انگریز اور ہندئو ‘ مسلمانوں کے کیسے ازلی دشمن ہیں اور ہمیں لاکھوں جانیں قربان کر کے ان سے آزادی لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ وہ کیا جانیں کہ ۱۸۵۷ء کے معرکے کیا تھے اور سلطان ٹیبو شہیدؒ ، نواب سراج الدولہ اور حضرت امیر المومنین سید احمد شہید ؒ کیوں جہاد ِ آزادی کی خاطر اپنی جانوں سے گزر گئے ۔ انہیں کیا معلوم کہ تحریکِ خلافت ‘ ترکِ موالات اور تحریک ِ ریشمی رومال ہماری آزادی کے کیسے سنگِ میل تھے ؟ یہ بے چارے تو اُن بزرگوں کے نام تک نہیں جانتے جنہوں نے اُس وقت انگریز استعمار سے ٹکرلی جب اُس کی سلطنت اتنی طویل و عریض تھی کہ اُس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور پھر اُس کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔
انہیں تو اگر پتہ ہے تو صرف اتنا کہ ۱۹۴۰ ء میں قرار دادِ پاکستان کا اعلان ہوا اور پھر سات سال کے مختصر عرصے میں مذکرات کے ذریعے ۱۴ ؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان وجود میں آگیا ۔ اتنی آسانی سے تو کسی کو حلوے کی پلیٹ بھی نہیں ملتی جتنی آسانی سے انگریز جیسی شاطر اور ظالم قوم سے آزادی ملنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔
افسوس کہ جدید تعلیم نے مسلمان بچوں سے اُن کی تاریخ اور اُن کے ہیرو بھی چھین لیے ہیں اور اب اُن کے سامنے کسی انگریز کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں یا کسی کھلاڑی اور فنکار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ مسلمان خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ سعیدہ وارثی جیسی مغرب زدہ عورتیں اُن کیلئے نمونۂ عمل ہیں ۔ کاش ہماری قوم کے سامنے اُن کے اسلاف کے روشن تذکرے لائے جاتے تو اُنہیں اتنا تو پتہ چل جاتا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور آزاد لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟ علامہ اقبال مرحوم کے بقول ؎
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیؓ سوز صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شبِ زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر گھر کو اپنے اسلاف اور بڑوں کے تذکروں سے مہکائیں اور اپنی نئی نسل کو تاریخِ اسلام کے اُن عظیم کرداروں سے روشناس کروائیں ‘ جن کی بدولت آج ہم مسلمان بھی ہیں اور آزاد بھی … ورنہ خدانخواستہ یہ رہی سہی آزادی بھی لٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو…
اس سلسلے میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’حکایات ِ صحابہ ؓ ‘‘ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ حیاۃ الصحابہؓ ‘‘ (جو اصل تو عربی زبان میں تھی لیکن اب اُس کا آسان اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے ) ‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ نقشِ حیات ‘‘ امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’فضائل جہاد ‘‘ جانباز مرزا مرحوم کی کتاب ’’ انگریز کے باغی مسلمان‘‘ اور اس فقیر کے قلم سے لکھی ہوئی کتاب ’’ سیرت ِ طیبہ کے واقعات کی روشنی میں ‘کامیاب زندگی کے سنہرے اصول ‘‘آپ کی بہت مدد کریں گی ان شاء اللہ تعالیٰ!
٭…٭…٭
غزہ آزاد رہے گا …
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 456)
ٹھیک انہی دنوں جب مسلمانان عالم اپنے ہاں عید الفطر منا رہے تھے ‘ ہر سمت خوشی کے شادیانے بج رہے تھے ، عمدہ کھانے پکائے جا رہے تھے ، بہترین لباس پہنے جا رہے تھے ، بڑے چھوٹوں میں عیدیاں بانٹ رہے تھے اور لوگ اپنے اہل و عیال کے ساتھ تفریح میں مست و مگن تھے‘ تب ہی اسرائیل نے فلسطین کے علاقے غزہ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔ رات دن وہاں کے رہنے والوں پر موت برس رہی تھی ، بے گناہوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو رہے تھے ‘ معصوم بچے موت کی وادی میں دھکیلے جا رہے تھے ‘ بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہو رہی تھیں اور ہر سمت درندگی اور وحشت کا راج تھا۔
اتنی بات صحیح اور سچی تو ہے لیکن مکمل نہیں ۔ پوری بات یہ ہے کہ غزہ میں جہاں اسرائیل اپنی درندگی کے ریکارڈ قائم کر رہا تھا ‘ وہیں حماس کے شیر بھی جرأت و استقامت کی لازوال داستان اپنے مقدس لہو سے رقم کر رہے تھے ۔ ظاہری سازو سامان اور جنگی اسلحہ کے اعتبار سے دونوں جانب دیکھا جائے تو کوئی تناسب ہی نہیں ۔ ایک طرف ایٹمی قوت ہے تو دوسری طرف نہتے مسلمان ۔ ایک طرف اسرائیل کی پشت پر دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ ہے اور دوسری طرف مسلم حکمرانوں کو تو چھوڑیں ‘ عرب قومیت کے پجاری بھی حماس کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں ۔
اس آسمان و زمین نے بہادری کے ایسے واقعات بہت کم دیکھے ہوں گے ‘ جب حماس جیسے ایک گروپ نے اسرائیل جیسے ایٹمی ملک کو ناکوں چنے چبوادئیے ہوں ۔ دونوں طرف نقصانات کی فہرست دیکھیں تو آپ کو حماس مجاہدین کا پلڑا بھاری نظر آئے گا ۔ اسرائیل کے تمام حملے عام شہریوں پر ہیں اور اب تک نشانہ بننے والے پونے دو ہزار افراد عام شہری ہیں‘ جن میں معصوم بچے اور بے بس خواتین کی بہت بڑی تعداد شامل ہے ۔ اس کے برخلاف حماس نے اب تک جن افراد کا شکار کیا ہے ‘ خود دشمن کے اعتراف کے مطابق وہ سب مسلح فوجی تھے ۔
ایک صاحب نے غزہ کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑی دلچسپ بات کی ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اب تک یہ سمجھتے تھے کہ غزہ اسرائیل کے قبضے میں ہے اور باقی تمام عرب ممالک آزاد ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ پورے عرب میں صرف غزہ ہی آزاد ہے ‘باقی تمام عرب ممالک مقبوضہ علاقے ہیں ۔
غزہ کے جرأت مند لوگ گر رہے ہیں‘ مر رہے ہیں لیکن مزاحمت کے علاوہ وہ کسی راستے کو اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل اور اُس کی پیٹھ تھپکنے والی دیگر قوتیں اہل غزہ کو آہستہ آہستہ موت کے گھاٹ اتارنا چاہتی ہیں ۔ برسوں سے وہ اپنے ہی علاقوں میں مہاجروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ پورا غزہ محاصرے کی کیفیت میں ہے ‘ جہاں ادویات ہیں نہ خوراک ‘ زندگی کی تمام تر سہولیات سے محروم وہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں کچھ بھی دستیاب نہیں ۔ اسرائیل نے خود تو غزہ کے تمام راستے پہلے ہی بند کر دئیے تھے لیکن دنیا کے کسی ملک یا ادارے کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ اہل غزہ کے سسکتے بلکتے بچوں کیلئے خوراک ہی فراہم کر دے ۔
غزہ کے موجودہ حالات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ عالمی ادارے ہوں یا عالمی برادری ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں یا کوئی اور انجمن ‘ مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع کی جنگ خود ہی لڑنی ہے اور یہ جنگ جلسے‘ جلوسوں کی شکل میں نہیں‘ صرف عملی جہاد کی شکل میں ہو گی اور جہاد ہی بہترین انتقام اور ظالم دشمن کا علاج ہے ۔ جب تک غزہ میں اہل ایمان کی لاشیں گرتی رہیں‘ گھر مسمار ہوتے رہے اور ہسپتال تک نشانہ بنائے جاتے رہے تب تک اقوامِ متحدہ کو کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن جوں ہی اُس کے سکول پر بمباری ہوئی فوراً مذمتی بیانات آنا شروع ہو گئے ۔ گویا مسلمانوں کا خون اور اُن کی لاشیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ‘ اینٹ پتھر کی بنی ہوئی عمارت بھی ان سے زیادہ قیمتی ہے ۔
اس موقع پر امریکہ کا جوشرمناک کردار تھا ‘ وہ بالکل حسب توقع ہے ۔ یہودو نصاریٰ دونوں اسلام دشمنی میں متفق و متحد ہیں ۔ بھارت جس نے عرصے تک فلسطینیوں کو بے وقوف بنائے رکھا ‘ اُس نے بھی اس موقع پر اپنا اصل چہرہ دکھا دیا اور اسرائیلی حملوں کی مذمت میں دو لفظ کہنے سے بھی انکار کر دیا ۔ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ آج کا نہیں‘ صدیوں کا قصہ ہے ۔
کفار سے تو ایسے ہی ردعمل کی توقع تھی لیکن عالم عرب کے حکمرانوں کا کردار تو سب سے شرمناک رہا ہے ۔ سعودی بادشاہ نے ہفتوں بعد جو بیان دیا تو وہ بھی ایسا کہ کچھ پتہ نہ چلے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ ظلم و ستم کے پہاڑ کون توڑ رہا ہے اور اپنے دفاع کا حق کون استعمال کر رہا ہے ۔ باقی رہے امارات کے شیوخ ‘ اردن کے بادشاہ اور امیرِ قطر تو یہ سب ابھی تک گم سم بیٹھے ہیں ۔ ترکی‘ جس نے صدیوں خلافت عثمانیہ کی شکل میں امت مسلمہ کی پاسبانی کی‘ اُس نے ایک مرتبہ پھر قائدانہ کردار ادا کیا اور پوری امت نے اُسے خراج عقیدت پیش کیا ۔
اس موقع پر حماس نے جو’’ حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ‘‘ کا دوسرا نام ہے ‘ امت مسلمہ کو جھنجوڑا ہے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو قبلۂ اول کی آزادی کی طرف عملی قدم اٹھانے کی دعوت دی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے تمام طور پر ایسی تجاویز دیتے ہیں‘ جن میں سے کچھ اپنی جگہ مفید تو ہوتی ہیں ‘ لیکن خود اُن لوگوں کو اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا پڑتا ۔
مثلاً کچھ لوگ آپ کو یہ کہتے سنائی دیں گے کہ تمام مسلمان حکمرانوں کو متفق ہو کر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دینا چاہیے ۔ ایک طرف سے تمام عرب کو اتحاد کی تلقین سنائی دے گی تو دوسری طرف سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ سامنے آئے گا ۔ ایک گروہ اقوامِ متحدہ سے اسرائیلی مظالم کا نوٹس لینے کا تقاضا کرے گا تو دوسرا گروہ عالمی ا نسانی حقوق کی تنظیموں کو پکارے گا اور کچھ لوگ صرف جلسے جلوس کر کے سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔
’’حماس ‘‘ نے فلسطین سے باہر رہنے والے ہر کلمہ گو مسلمان کو پکار ا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آپ عالم ہیں یا طالب علم ‘ تاجر ہیں یا مزدور ‘ انجینئر ہیں یا وکیل‘ ڈاکٹر ہیں یا ٹرانسپورٹر ‘آپ سب پر قبلۂ اول مسجد اقصٰی کا حق ہے ۔ جب دنیا بھر کے یہودی اپنے اموال اور صلاحیتوں کے ساتھ ظالم اسرائیل کی پشتیبانی کر رہے ہیں تو مسلمانانِ عالم کیوں مظلوم فلسطین کے بارے میں اپنے فرض کا احساس نہیں کرتے ۔
حماس نے ہر اُس مسلمان کو جو خود فلسطین میں اُن کے قدم بقدم شریک ِ جہاد نہیں ہو سکتا …قبلۂ اول اور فلسطین کی آزادی کیلئے چھ نکاتی دعوت پیش کی ہے۔
(۱)… سب سے پہلے تمام مسلمان اہلِ فلسطین کی سلامتی ‘استقامت اور کامیابی کیلئے اور اسرائیل اور اس کے حواری تمام کفریہ طاقتوں کی بربادی اور ہلاکت کیلئے اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ دعائوںکا اہتمام کریں ۔ اگر آپ ’’لشکر غزہ‘‘ میں شامل نہیں تو ’’لشکرِ دعا‘‘ میں تو شامل ہو جائیں ۔
(۲)… مسئلہ فلسطین کو صحیح تعبیر یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ تیزی سے اس طرح عام کیا جائے کہ یہ مسئلہ ہر گھر اور ہر مجلس کی گفتگو کا حصہ بن جائے ۔ آج دشمن کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اس مسئلہ سے اتنا غافل کر دیا جائے کہ وہ عمومی طور پر اس کو ویسے ہی فراموش کر دیں جیسے انہوں نے سر زمینِ اُندلس کو بھلا دیا ہے۔
اسی طرح دشمن کی یہ بھی کوشش ہے کہ ہماری جدوجہد کو جہاد فی سبیل اللہ کے بجائے‘ محض ایک علاقے ‘ ملک یا قوم و نسل کی جنگ ظاہر کر ے ۔ یہ انتہائی خوفناک سازش ہے اور ماضی میں بھی کئی مرتبہ دشمن نے ہمارے کئی لوگوں کو اسی طرح گمراہ کیا ہے اور وہ آخر کار ’’خسرالدنیا و الاخرۃ ‘‘ کا مصداق بن گئے ۔
مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے خطباء ‘خطبات دیں … اہل قلم اپنے قلم سے یہ فرض ادا کریں اور عام مسلمان اپنی نجی محفلوں اور گھریلو نشستوں میں ہی یہودیون کے وحشتناک مظالم اور قبلہ اول کی اہمیت پر بات کرتے رہیں تاکہ خدانخواستہ دشمن فلسطین کو دوسرا اندلس نہ بنا سکے۔
(۳)…مسلمانوں کے دلوں سے یہودیوں کے رعب کو نکالا جائے ۔ اسرائیل نے عالمی سطح پر کئی صحافیوں اور دانشوروں کو اس مقصد کیلئے خرید رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ خیال راسخ کرتے رہیں کہ یہودی نا قابل شکست قوم ہیں اور مسلمان کبھی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔یہودی سازشوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اُن کو عام انسانوں سے زیادہ با صلاحیت اور سمجھدار ثابت کرتے رہنا ‘ عام مسلمانوں میں مرعوبیت کو جنم دیتا ہے‘ جو مسئلہ فلسطین کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
’’ حماس ‘‘ کے لوگ پوری دنیا کے مسلمانوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم لوگ نصف صدی سے زائد عرصے سے یہودیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ ہمارے نو عمر بچے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے ‘ یہودیوں کے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘ ہمیں دربدر کر دیا گیا ہے‘ ہماری نسل کشی کی جا رہی ہے‘ ہمارا کوئی انسانی حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے لیکن ہم ہار نہیں مانتے ۔ ہم لڑتے ہیں اور قابل فخر شہادت کو گلے لگاتے ہیں ۔
موجودہ دنوں میں تو ہم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو دکھا دیا ہے کہ یہودی انتہائی بزدل اور چھوٹے دل کے لوگ ہیں ۔ یہ صرف لاشیں گرانا جانتے ہیں ‘ لاشیں اٹھانا نہیں ۔ہمارے کمزور سے راکٹ ‘ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ‘ ان کے اربوں ڈالروں سے تیار کئے ہوئے دفاعی اور حفاظتی منصوبوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں ۔ تو پھر مسلمانانِ عالم اپنی کم ہمتی کو بے بسی کا نام کیوں دیتے ہیں اور یہودیوں کے بارے میں خیالی کہانیوں سے متاثر کیوں ہو جاتے ہیں۔
(۴)… مالی امداد اور تعاون میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں‘ لیکن اس کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور اہلِ فلسطین تک اپنے اموال پہنچانا اتنا آسان نہیں ہے‘ جتنا کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں ۔ اس لیے اس بارے میں ’’حماس ‘‘ سے رابطہ میں رہا جائے ۔
(۵)… ایک ضروری اور لازمی کام یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان‘ تمام اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کر یں ۔ یا درکھیں! اگر آپ کی جیب سے نکلی ہوئی رقم سے یہودی ہمارے بچوں کو قتل کرتے رہے تو کل روزِ قیامت آپ کے گریبان ہوں گے اور ہمارے ہاتھ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عالم عرب اور دیگر مسلم ممالک ‘ اپنے قبلۂ اول کیلئے اتنا معمولی قدم بھی نہیں اٹھا سکتے کہ یہودیوں کی مصنوعات کو چھوڑ کر ہماری تباہی میں حصہ دار نہ بنیں ۔ آج مسلمانوں کے بازار اور مارکیٹیں ان ظالم درندوں کی کمپنیوں کی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ‘ نتیجہ یہ ہے کہ یہودی مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے ہیں اور اس کا خرچہ بھی مسلمانوں کی جیب سے ہی پورا کرتے ہیں۔
اہلِ علم اور با خبر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علاقے میں دستیاب ایسی مصنوعات سے عوام کو جلد از جلد آگاہ کریں اور عوام ایسی چیزوں کا استعمال چھوڑ کر دینی اور غیرت ِ ملّی کا ثبوت دیں ۔
(۶)… آخری بات ‘ جس کا بظاہر مسئلہ فلسطین کے حل سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن درحقیقت اس کا مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل سے گہرا تعلق ہے‘ وہ یہ کہ مسلمان اپنے معاشرے کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں‘ عریانی و فحاشی کے کاموں اور گانے بجانے کے آلات سے پاک کریں ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ کیلئے روانہ کر رہے تھے تو اہل لشکر کو یہ ضروری وصیت بھی کی تھی :
’’اے مسلمانو! تمہیں اپنے دشمنوں پر فتح اپنی تعداد یا اسلحہ کے بل بوتے پر نہیں ملتی بلکہ تم تو اپنے نیک اعمال کی بدولت کفار پر غلبہ پاتے ہو ۔ اس لیے اگر تم گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو تم اور دشمن اللہ کی نظر میں برابر ہو جائو گے اور پھر غلبہ دشمنوں کو ہی ملے گا ‘‘۔
سمجھ نہیں آتا کہ آج اہل فلسطین کی بے مثال عظمت و استقامت کو سلام پیش کیا جائے یا اُن کی بے پناہ مظلومیت کا نوحہ کیا جائے لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ جس دھرتی نے’’حماس ‘‘ جیسے سپوت جنم دئیے ہوں‘ اُس کو کوئی مستقل غلام نہیں بنا سکتا ۔ ۶۶ فوجیوں کے قتل پر روتے دھوتے اور ماتم کرتے یہودی ہمت ہار رہے ہیں اور ہزاروں افراد کی قربانیاں دینے والے اہلِ غزہ کے عزائم اب بھی بلند ہیں ۔ اسی لیے ہم یقین سے یہ کہتے ہیں کہ غزہ آزاد ہے اور آزاد رہے گا … ان شاء اللہ تعالیٰ۔
٭…٭…٭
تین کام کی باتی
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 455)
جب تک یہ مضمون اپنے قارئین کی نظروں سے گزرے گا ‘ ماہِ رمضان المبارک بالکل اپنے اختتام پر ہو گا اور عید الفطر کا دن بالکل قریب ہو گا ۔ اسی مناسبت سے چند باتیں پیش خدمت ہیں ۔
۱… قرآن مجید کے ساتھ دائمی تعلق
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ رمضان المبارک میں جب حافظ صاحب قرآن مجید مکمل کرتے ہیں تو آخر میں سورئہ الناس کے بعد سورئہ البقرۃ کی ابتدائی آیات دوبارہ کیوں پڑھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان آیات کی تلاوت تو شروع میں ہو چکی ہے ‘ پھر دوبارہ ان کے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ دراصل یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ قرآن مجید مکمل کر کے چھوڑ نہیں دینا کہ قرآن مجید چھوڑنے والا کلام ہے ہی نہیں ‘ ہم تو یہ مکمل کرتے ہی دوبار ہ شروع کر رہے ہیں ۔
ختم ِ قرآن مجید کے وقت تو ہم یہ آیات دوبارہ پڑھ کر اور سن کر اس عہد کا اقرار کر لیتے ہیں لیکن عملاً کیا ہوتا ہے ؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر شخص اپنے حالات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے ۔ عام طور پر تو ختم قرآن پاک کے ساتھ ہی اس پاک کلام سے بھی تعلق ختم کر لیا جاتا ہے اور اگر کوئی خوش قسمت اس کو ماہِ مبارک کے اختتام تک نباہ بھی لے تو رمضان گزرتے ہی یوں سمجھا جاتا ہے کہ بس قرآن مجید سے بھی اب تعلق ختم ۔
حالانکہ مسلمان اور قرآن کا دائمی رشتہ اور تعلق ہے۔ بلاشبہ ماہِ مبارک سے قرآن مجید کا تعلق بہت زیادہ ہے کہ یہ اس کے نزول کا مہینہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بقیہ گیارہ مہینے انسان قرآن مجید کو بالکل طاق نسیاں پر رکھ کر اس کے حقوق سے غافل ہو جائے ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی عمدگی سے مسلمانوں کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشادِ رسول ہے :
’’ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رجلاً قال : یا رسول اللہ !
ای الا عمال افضل ؟ قال : الحال المرتحل ‘ قال : یا رسول اللہ ! ما الحال المرتحل ؟ قال : صاحب القرآن یضرب من اولہ حتی یبلغ آخرہ و من آخرہٖ حتی یبلغ اولہ و کلما حل ارتحل (الترمذی‘شعب الایمان)
’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا : بہترین عمل کونساہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منزل پر پہنچ کر فوراً کوچ کرنے والا ۔ پوچھنے والے نے دوبارہ پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اس سے کیا مرا دہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ قرآن مجید پڑھنے والا جو شروع سے تلاوت کرتے ہوئے آخر تک پہنچے اور پھر آخر کے بعد دوبارہ شروع کر دے ۔ جہاں ٹھہرے پھر آگے چل دے‘‘ ۔
مسلمانوں کے درمیانی عام دنوں میں قرآن مجید سے جو غفلت اور بے حسی عام ہوتی ہے ‘ اس نے بے انتہاء برائیوں اور خرابیوں کو جنم دیا ہے ۔ جن گھروں سے صبح سویرے تلاوت قرآن کی مبارک آوازیں آیا کرتی تھیں ‘ اب وہاں سے رات گئے تک گانے بجانے کی منحوس آوازیں سننے کو ملتی ہیں ‘ کیا غریب اور کیا امیر سب ہی فسق و فجور کی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پھر اس پر حالات کی تنگی ‘ مصائب ‘ بے سکونی اور جادو ‘ آسیب کے شکوے شکایتیں ۔ بھلا جس گھر میں ہر وقت شیطانی آلہ بجتا رہے گا ‘ وہاں رحمت کے فرشتے تو آنے سے رہے ۔ یہی جن بھوت آئیں گے ۔
اگر ہر مسلمان صرف دو آسان کام کر لے تو اب بھی قرآن مجید کی طرف واپس پلٹا جا سکتا ہے اور گھروں میں قرآن مجید کے انوار و برکات آسکتے ہیں ۔ ایک تو روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کا معمول مقرر کر کے اپنے دن کا آغاز نماز فجر کے بعد تلاوت سے کرے یا دن میں کسی اور وقت کو اپنی آسانی سے متعین کر لے ۔ یہ معمول اگر انفرادی سطح کے بجائے گھریلو سطح پر ہو اور گھر کا ہر فرد اس کا اہتمام کرے تودنوں میں تبدیلی آسکتی ہے ۔
دوسرا یہ کہ اپنی اولاد کو بچپن میں ہی قرآن مجید کی معیاری تعلیم دلانے کا اہتمام کیا جائے ۔ جس شخص نے اپنی اولاد کو اس کچی عمر میں ہی قرآن مجید سے مانوس کر دیا ‘ اُس نے کائنات کی سب سے بڑی دولت اپنی اولاد کی جھولی میں ڈال دی اور جس شخص نے دنیا جہان کی نعمتیں اپنے بچوں کے قدموں میں ڈھیر کر دیں لیکن اُنہیں قرآن مجید کی دولت سے محروم رکھا ‘ اُس نے اپنی اولاد کے ساتھ بد ترین دشمنی کی ۔
۲… ماہِ مبارک کی نعمتوں سے محرومی
رمضان المبارک میں اللہ کریم ہر صاحب ِ ایمان کو کچھ نہ کچھ دینی نعمتوں سے ضرور نوازتا ہے ۔ کتنے بے نمازی اس مہینے میں نمازی بن جاتے ہیں ۔ کتنے غلط کار اس مہینے کی برکت سے اپنی غلطیوں سے توبہ تائب ہو جاتے ہیں ۔ شیطان مردود کے بند ہونے اور روزے کی وجہ سے یہ سارے کام عام دنوں کی نسبت بہت آسان ہو جاتے ہیں ۔
عید کا چاند نظر آتے ہی شیطان‘جسے قرآن مجید بار بار ہمارا کھلا ہوا دشمن قرار دیتا ہے ‘ وہ رہا ہو جاتا ہے ۔ وہ پچھلے ایک ماہ کا حساب کتاب برابر کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگا دیتا ہے ۔ اچھے خاصے پرہیز گار اور عبادت گزار لوگ بھی ’’ چاند رات ‘‘ کے فتنے میں مبتلا ہو کر پورے مہینے کی جمع پونجی ضائع کر دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی مثال مکہ مکرمہ کی اُس دیوانی عورت کی سی ہو جاتی ہے جو پورے دن محنت مشقت سے چرخے پر سوت کا تتی تھی لیکن شام ہوتے ہی وہ اُس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی محنت پر پانی پھری دیتی تھی ۔
یہ چاند رات اور عید کا دن ‘جسے ہمارے ہاں انتہائی خرافات اور لغویات کی رات اور دن سمجھا جاتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قدر قیمت ہے‘ اس کا اندازہ ایک طویل حدیث پاک کے اس حصے سے لگائیں :
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام گلیوں راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں، کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں میں تمہیں گواہ بناتوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندوں مجھ سے مانگو۔ میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجر وثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کِھل جاتے ہیں۔
(الترغیب ، فضائل الاوقات للبیہقی )
تعجب کی بات ہے کہ وہ عید کی ضروریات جو چند دن پہلے با آسانی مناسب قیمت پر بازار سے لے کر گھر میں رکھی جا سکتی ہیں لیکن شیطان ایسی مت مارتا ہے کہ اس کام کو چاند رات تک مؤخر کیا جاتا ہے اور پھر انتہائی بے غیرتی اور بے پردگی کے ماحول میں ‘ سخت ہجوم اور رش کی حالت میں ‘ مہنگے ترین داموں میں وہ ہی چیزیں خریدی جاتی ہیں ۔ کاش کہ یہ مسلمان سمجھتے کہ تھوڑی دیر کی بے وقوفی سے یہ کس طرح اپنے مہربان رب جل شانہ کو ناراض اور اپنے پکے دشمن شیطان کو راضی کر کے ‘ انہی مہینے بھر کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں ۔
۳… عید ضرور منائیں لیکن…
عید خوشی کا دن ہے لیکن ایک ایمان والے کی خوشی و مسرت یقینا اُن کاموں میں نہیں ہو سکتی جن سے اللہ کریم ناراض ہوتے ہوں ۔ مسلمانوں کی جیسے دیگر تمام عبادات اور معاشرات کے طریقے کفار سے مختلف ہیں ‘ اسی طرح خوشی منانے کا ہمارا طریقہ بھی باقی سب مذاہب سے الگ تھلگ ہے ۔ مسلمان اپنے عید کے دن کا آغاز دو رکعت نماز ِ عید سے کرتے ہیں ۔ گویا وہ زبانِ حال سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارعی خوشی اپنے رب کے سامنے سر جھکانے میں ہی ہے اور ہم ہر حال میں اپنے رب کے مطیع اور فرمانبردار رہیں گے ۔ یقینا اس اقرار پر پورا ترنے والے ہی حقیقی اور دائمی خوشیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔
عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے اُن مسنون اعمال کا اہتمام کرنا چاہیے ‘ جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن ثابت ہیں۔ عید کے دن کیلئے علماء کرام نے تیرہ سنتیں لکھی ہیں :
(۱)شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا (۳)مسواک کرنا (۴)اپنے کپڑوں میں سے سب سے عمدہ لباس پہننا (۵)خوشبو لگانا (۶)صبح کو بہت جلدی اٹھنا (۷)عیدگاہ جلد از جلد پہنچنا (۸)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجور کھانا (۹)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کردینا (۱۰)نماز عید، عیدگاہ میں ادا کرنا (یعنی بلا عذر مسجد میں نہ پڑھنا) (۱۱)عیدگاہ جانے اور آنے کیلئے راستہ تبدیل کرنا (۱۲)اگر زیادہ دور نہ ہوتو پیدل جانا (۱۳)عیدگاہ جاتے ہوئے راستے میں اﷲاکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد آہستہ آواز سے پڑھنا۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ عید ایک ایسے موقع پر آرہی ہے ‘ جب امت مسلمہ لہو لہان ہے ۔ غزہ پر قیامت بیت رہی ہے ۔ معصوم بچے‘ بے بس مائیں ‘ بہنیں ‘ بیٹیاں اور نہتے مسلمانوں پر روز موت کی بارش ہو رہی ہے ۔ محترمہ عافیہ صدیقی جیسی کتنی ہی عفت مآب خواتین ِ اسلام دشمنوں کی قید میں ہیں اور کتنے ہی علاقوں پر موت کے سائے منڈلارہے ہیں ۔ پاکستان میں آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے اہل ایمان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔
ہم مسلمان ہیں اور یہ سب ہمارے اپنے ہیں ۔ یہ ہمارے جسم کے ٹکڑے اور کلمہ کی روسے ہمارے رشتے دار ہیں ۔ اس لیے بندہ زخمی دل ‘ چھلنی کلیجے ‘ کپکپاتے ہونٹوں‘ لرزتے ہاتھوں ‘ ڈبڈباتی آنکھوں اور برستے آنسوئوں کے ساتھ عید الفطر ۱۴۳۵ھ کے موقع پر تمام مسلمانانِ عالم کو عید مبارک پیش کرتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ عید کے ان دنوں میں آپ راہِ حق کے فدائیوں ‘ شہیدوں اور اسیروں کے حقوق فراموش نہیں کریں گے کہ :
اخوت اس کو کہتے ہیں ‘ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
٭…٭…٭
لہو لہو فلسطین
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 454)
گذشتہ دنوں غزہ ‘ فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے بعد قبلہ ٔ اول ‘ بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے ۔ تحریکِ جہادِ فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے ‘ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے ۔ اہل ِ فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں اُن کے مقدس لہو سے لکھی گئی ہے ۔ فلسطین کے ہر چپہ بھر زمین پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے ‘ فلسطین کے معصوم بچے ‘ قابلِ عزت مائیں بہنیں اور جوان ‘ بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں اُس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبانِ حال یہی کہہ سکتے ہیں: ؎
تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا ‘تم موج صبا ‘ طوفان کا دھارا کیا جانو!
بیت المقدس ‘ مسجد اقصیٰ ‘ قبلۂ اول ‘ غزہ ‘ فلسطین اور حماس ۔ یہ سب وہ الفاظ ہیں جو آج کل ساری دنیا کی خبروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہلِ فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
فلسطین کا غم ‘ امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل ِ فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے ۔ ایک لمبا وقت گزر چکا ہے ‘ کئی نسلوں سے چلا آنے والا یہ المیہ آج بھی تازہ ہے ۔ اس موقع پرتُرکی کے صدر نے فلسطین کے معاملے صرف امت ‘ مسلمہ کی ترجمانی ہی نہیں کی بلکہ تاریخِ اسلام کی کئی بھولی بسری یادیں بھی تازہ کر دی ہیں ۔ یہ یادیں چونکہ یہود و نصاری کیلئے تو ہیں ہی سو ہانِ روح ‘ ساتھ ساتھ عرب قوم پرستوں کو بھی یہ اچھی نہیں لگتیں ‘ اس لیے ان کو بھلا دیا گیا ہے ۔ قوم پرستی اور بت پرستی میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو ہی جڑ سے اکھیڑ پھینکا تھا ۔
۴۹۲ ھ میں اہل ِ صلیب نے فلسطین پر جب اپنے خونی پنجے گاڑے تو موصل کے سلطان عماد الدین زنگیؒ آگے بڑھے ۔ وہ بھی نسلی اعتبار سے ترک تھے ۔ وہ قحطان کی نسل سے تھے نہ ہی اُن کا نسب نامہ عدنان سے ملتا تھا ۔ وہ تو اسلام کے سدا بہار گلشن کے پھول تھے ۔
۵۴۱ھ میں عماد الدین زنگیؒ نے جام شہادت نوش کیا تو اُن کے صاحبزادے ‘ جو واقعی صاحبزادے کہلانے کے لائق تھے ‘ سلطان نورالدین زنگیؒ نے آزادیٔ فلسطین کا پرچم بلند کیا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اتنی سختیاں جھیلیں ‘ مشقتوں کا سامنا کیا ‘ تلخ گھونٹ پیے اور مشکلات کا سفر طے کیا کہ لوگ اُنہیں چھٹا خلیفۂ راشد کہنے لگے ۔
نورالدین دمشق (شام ) تک تو جا پہنچے لیکن القدس کے اس بیٹے کا دل مسجد اقصیٰ میں ہی اٹکا ہوا تھا ۔ ۵۶۹ھ میں جب یہ بھی لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوئے تو یہ پرچم سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے تھام لیا ۔ یہ نسلی اعتبار سے کُرد تھے اور کوئی شک نہیں کہ سلطان جیسے لوگ صدیوں میں جنم لیتے ہیں اور مائیں ایسے بچے بہت کم جنا کرتی ہیں ۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم جرنیل کی تعریف اس کے بد ترین مخالف بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تو حالت یہ ہے کہ ان کا نام آتے ہی آنکھوں میں نور اور دل میں سرور اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔
۵۷۰ ھ مطابق ۱۱۷۴ء میں صلاح الدین ؒ نے دمشق میں داخل ہو کر مسلمانوں کو اس پرچم تلے متحد کیا ۔ پھر جو پے درپے معرکے شروع ہوئے تو ۲۵؍ ربیع الثانی ۵۸۳ھ ؍ ۱۱۸۷ء کو ’’حطین‘‘ کے مقام پر سلطان نے صلیب پرستوں کو ایسی فیصلہ کن شکست سے دو چار کیا کہ اب اُس کے اور القدس کے درمیان کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ نہیں تھی ۔ اسلامی لشکر سروں پر عزت کے تاج رکھے ‘ فتح کے پرچم لہراتا ہوا ، ۲۷؍ رجب المرجب ۵۸۳ھ کو بیت المقدس میں داخل ہوا ۔ اُس دن پورے عالم اسلام میں شکرانے کے نفل ادا کیے گئے اور اہلِ ایمان نے ہر طرح اپنی خوشیوں کا اظہار کیا ۔
تاریخ کا پہیہ ذرا آگے گھوما تو ۶۴۱ھ کو ملک کامل نے القدس فرنگی بادشاہ انبرٹن کے حوالے کیا تو سلطان نے اگلے ہی برس دوبارہ اسے واپس چھین لیا ۔ اس مرتبہ ان کے لشکر میں بہت بڑی تعداد خوارزمیوں کی تھی ‘ جو عرب کے باشندے تھے نہ گلشن عرب کے پھول ۔ وہ تو اسلام کے سپاہی تھے ۔
۶۵۶ھ ؍ ۱۲۵۸ء کو تاتاری لشکر کے ہاتھوں دارالخلافہ بغداد تباہ و برباد ہو گیا ۔ تب ظاہر بیبرس اور ملک مظفر مسلمانوں کیلئے امید کی کرن بن کر طلوع ہوئے ۔ ۶۵۸ھ کو ’’ عین جالوت ‘‘ کے مقام پر اس کے یہ فدائی ٹکرائے اور انہوں نے تاتاریوں کے ٹڈی دل لشکر کو تتر بتر اور تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔ اس عظیم فتح پر ملک مظفر ، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدئہ شکر ادا کرنے کیلئے اپنے گھوڑے کی پشت سے زمین پر آگرا ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بھی نسلی اعتبار سے عرب نہیں تھے ۔
ہاں وہ شریف مکہ حسین ضرور عرب تھا ‘ جسے برطانیہ نے عرب کی بادشاہت کا لالچ دیا تو اُس نے امت مسلمہ کے دل میں خنجر اتارتے ہوئے خلافت عثمانیہ ‘ ترکی سے بغاوت کر دی ۔ حالانکہ فلسطین چار صدیوں تک ( ۱۵۱۶ء تا ۱۹۱۸ئ) اس کے زیر سایہ ‘ دین ِ اسلام کی پیاری مہک میں بغیر کسی انتشار اور خلفشار کے پھلتا پھولتا رہا تھا ۔ یہ وہ ہی شریف مکہ ہے ‘ جس کا تذکرہ آپ کو بکثرت ‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ’’ اسیر مالٹا ‘‘ میں ملے گا ۔ اس نے برطانیہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ اور ان کے پاک باز ساتھیوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کیا تھا اور انگریزی حکومت نے انہیں پہلے مصر اور پھر جزیرہ مالٹا منتقل کر دیا جہاں یہ حضرات تین سال دو ماہ قید رہے ۔ ایک عجیب ستم بھرا اتفاق ملا حظہ فرمائیں کہ اس شریف ِ مکہ کو بھی اپنے سادات میں سے ہونے پر بڑا فخر تھا اور ایک ہمارا سابق کمانڈو غدار صدر بھی اپنے آپ کو سید کہلاتا رہا لیکن دونوں اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب امتیوں کو پکڑ پکڑ کر کفار کے ہاتھوں بیچتے رہے اور ماہِ جولائی میں اسی درندے کے ہاتھوں پیش آنے والے سانحۂ لال مسجد کو تو صدیوں نہیں بھلایا جا سکتا ۔
بات آئے القدس کے بیٹوں کی اور اُس میں خلافت عثمانیہ ترکی کے آخری تاجدار سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ آئے ۔ وہ عظیم ہستی جو دنیا سے اس مظلومیت کے ساتھ گئی کہ مسلمانوں نے بھی اُنہیں ڈکٹیٹر ، ظالم اور لالچی کے القابات دئیے اور غیبت کرنے والوں کی زبانیں اور قلم آج تک اُن کا گوشت نوچ رہے ہیں ۔ اُن کی وفات اور خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد جب مشہور یہودی لیڈر ہرتزل کی ڈائری شائع ہوئی تو پتہ چلا کہ سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ کو دراصل کس جرم کی سزا دی گئی تھی اور وہ تو فلسطین کے اُن عاشقوں میں سے جن کے بارے میں کہا گیا ہے : ؎
آئے عشاق ‘ گئے وعدئہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ ‘ چراغِ رخِ زیبا لے کر
یہودیوں کے اپنے اعترافات کے مطابق سلطان عبدالحمید سے یہودیوں کے رابطوں کی ابتدا ۱۸۸۲ء سے ہوئی جب ’’صہیون دوست تنظیم‘‘ نے اودیسا (روس) میں عثمانی قونصل کے سامنے فلسطین میں قیام کی اجازت کے لئے درخواست پیش کی- چنانچہ اس درخواست پر سلطان عبدالحمید کا جواب یہ تھا :
’’ساری سلطنت عثمانیہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ترکی کی جانب ہجرت کرنے کے خواہش مند یہودیوں کو فلسطین میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘-وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے جذبے کو اور مہمیز ملی اور انہوں نے وفد پر وفد سلطان کی خدمت میں بھیجنا شروع کئے مگر سلطان کی جانب سے انکار کے سوا کوئی جواب نہ ملتا تھا- امریکی سفیر نے مداخلت کی تو سلطان نے کہا:’’جب تک سلطنت عثمانیہ قائم ہے میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا‘‘-
پال کانگریس کے بعد صہیونی تحریک میں تیزی آگئی جس نے سلطان کو ۱۹۰۰ء میں وہ مشہور حکم جاری کرنے پر مجبور کردیا جو استانبول میں موجود ساری دنیا کے سفیروں کو پہنچایاگیا- اس حکم کے تحت یہودی زائرین کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین میں صرف تین ماہ قیام کرسکتے ہیں اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نقطہ دخول (انٹری پوائنٹ) ’’بندرگاہ باب عالی‘‘ پر اپنے پاسپورٹ سرکاری کارندوں کے حوالے کردیں- اس مدت سے زیادہ مدت قیام کرنے والے کو زبردستی نکالا جائے گا- سلطان نے یہودیوں کیلئے ’’سرخ پاسپورٹ‘‘ بھی جاری کیا تاکہ ان کو نکالنے میں آسانی ہو، اس وجہ سے جب یہودیوں کو قوت ملی تو انہوں نے سفارتی پاسپورٹ کا رنگ سرخ کردیا -اس پاسپورٹ کے حامل افراد کو بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر نہیں جانچا جاتا-
۱۹۰۱ء میں سلطان کے ایک حکم کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین کی ایک چپہ زمین بھی خریدنے سے منع کردیا-ہرتزل مایوس نہیں ہوا- ۱۹۰۲ء میں ’’قراصو‘‘ کے ہمراہ ایک وفد اور نہایت قیمتی تحائف لے کر سلطان عبدالحمید سے ملنے گیا مگر سلطان نے ملاقات سے انکار کردیا- چنانچہ سارے تحائف ان کے وزیر اعظم تحسین پاشا کے حوالے کردیئے-
سلطان عبدالحمید کیلئے جو بیش بہا تحفے یہودیوں کی طرف سے لائے گئے تھے ‘اُن کی تفصیل یہ ہے:
۱:۔۔۔۔ سلطان کی جیب خاص کے لئے پندرہ کروڑ انگریزی پائونڈ(۱۵۰ملین)-
۲:۔۔۔۔ سلطنت عثمانیہ کی تمام قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری- ان قرضوں کی مقدار تین کروڑ تیس لاکھ انگریزی اشرفیوں کے برابر تھی- (۳۳ملین)
۳:۔۔۔۔سلطنت عثمانیہ کے دفاع کے لئے بحری بیڑے کی تعمیر جس پر لاگت کا اندازہ دس کروڑ بیس لاکھ سنہری فرانک تھا- (۱۲۰ ملین فرانک)-
۴:۔۔۔۔ بیت المقدس میں عثمانی یونی ورسٹی کی تعمیر-
۵:۔۔۔۔ ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے تین کروڑ پانچ لاکھ گولڈن پائونڈ کی بطور قرض حسنہ فراہمی- (۳۵ ملین)
جیسا کہ خود ہرتزل کی ڈائری میں موجود ہے کہ ان ساری پیشکشوں کے جواب میں سلطان عبدالحمید نے کہا:’’ڈاکٹر ہرتزل کو نصیحت کرو کہ آئندہ اس موضوع پر سنجیدگی سے کوئی قدم نہ اٹھائے- میں اس سرزمین کے ایک بالشت سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ سرزمین میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ ساری عوام کی ہے- میری عوام نے اس کے حصول کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سینچا ہے- یہودی اپنے کروڑوں پائونڈ اپنے پاس رکھیں جس دن میری سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے وہ فلسطین کی سرزمین مفت میں حاصل کرسکیں گے- جب تک میں زندہ ہوں مجھے اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دیکھنا فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے الگ دیکھنے سے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے، یہ معاملہ نہ ہوسکے گا- میں جیتے جی اپنے جسم کی جراحی اور چیر پھاڑ کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘-
دین، سرزمین، خون اور عزت کی حفاظت پر بڑی لاگت آتی ہے، وقت کے چیلنجوں اور دشمنوں کی دھمکیوں کے سامنے صرف اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے لوگ ہی کھڑے رہ سکتے ہیں- وہی لوگ جو اﷲ تعالیٰٰ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں، جو اپنے ایمان کو دنیا کی حقیر متاع سے بلند سمجھتے ہیں او ر جو اپنے یقین کی قوت سے ہر طاغوت اور ظالم کا مقابلہ کرسکتے ہیں-اس ملاقات کے بعد یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو خلافت سے محروم کردینے کاپکا عزم کرلیا اور قراصو نے سلطان کے نام تار دیا کہ ’’تمہیں اپنی اس ملاقات کی قیمت اپنی جان اور تخت کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی‘‘-چنانچہ سلطان کے اس تخت کو بارود بھری گاڑی کے دھماکے سے تباہ کرنے کی کوشش کی جس پر وہ جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے- مگر اﷲ تعالیٰٰ نے ان کو بچالیا- اس کے بعد ’’فری میسن‘‘ (آزاد معمار) یہودی تنظیم کے ذریعے افسروں اور بڑے سرکاری ملازمین سے رابطے شرع کئے اور جگہ جگہ فری میسن کی انجمنیں قائم کیں- سالونیک پر خصوصی توجہ دی گئی، ان انجمنوں کے ذریعے دستور کے اعلان کا مطالبہ کیا، جس کا مطلب ’’یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمانوں کے برابر‘‘ قرار دلانا تھا-
فوج کے بعض یونٹوں نے حرکت کی اور ۲۳ جولائی ۱۹۰۸ء کو سلطان کو دستور کے اعلان پر مجبور کردیا، اس کے بعد ایسے نمائندگان کا انتخاب ہوا جس میں ’’فری میسن‘‘ کی انجمنوں میں پروان چڑھنے والے یہودی اور عیسائی بھی شامل ہوگئے، اور صرف نو ماہ کی قلیل مدت میں ۲۷ اپریل ۱۹۰۹ء کو ترکی کے روشن خیالوں کے ہاتھوں سلطان عبد الحمید کو تخت سے اتار دیا گیا، جس دن سلطان عبدالحمید کو تخت سے اتارا گیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دن دو عظیم حادثے رونما ہوئے:
۱:۔۔۔۔ایک عظیم اسلامی مملکت اور مسلمانوں کی عالمی اور اجتماعی پناہ گاہ کا خاتمہ –
۲:۔۔۔۔ یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین کا سقوط-
سلطان کی تخت سے محرومی گزشتہ صدی کے شروع میں اسلام پر سب سے کاری ضرب تھی-بظاہر کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ ایک ترک اپنی جان اور سلطنت قربان کرکے فلسطین کا دفا ع کر رہا ہے اور ایک عرب حرص و لالچ کے ہاتھوں دھوکہ کھا کر فلسطین یہود و نصاری کے حوالے کرنے کا راستہ ہموار کر رہا ہے ۔ لیکن یہ تو تاریخ میں ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے ۔ ایک طرف وفادار ہیں تو دوسری طرف دوکاندار ‘ ایک طرف سر فروش ہیں تو دوسری طرف ضمیر فروش ‘ ایک طرف اسلام کی خاطر جان و مال لٹانے والے ہیں تو دوسری طرف دنیا کے چند حقیر ٹکوں کی خاطر اپنی قوم ‘ اپنا وطن اور اپنا دین سب کچھ گنوانے والے ۔اسرائیل‘ فلسطینی مسلمانوں کا قاتل ہے اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست اور معاون‘ لیکن عرب اور غیر عرب مسلم ممالک بھی اسرائیل کو اپنا دشمن ‘لیکن امریکہ کو اپنا دوست کہتے ہیں ۔ ایسے میں اہلِ فلسطین کو آزادی ملے تو کیونکر ؟ آ ج تو مسجدِ اقصیٰ کسی صلاح الدین ایوبی jکی منتظر ہے جو اُسے اہلِ صلیب کے ناپاک قدموں سے پاک کر سکے ۔
غزوئہ بدر کے اس مہینے میں بدر والے جذبات پیدا کرنے چاہئیں … اور قبولیت کے اس مہینے میں اہل فلسطین سمیت تمام امت مسلمہ کی آزادی اور تحفظ کی دعائوں کی اشد ضرورت ہے ۔
٭…٭…٭
ایک بیماری اور اُس کا علاج
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 453)
دنیا میں بیماریاں تو بہت سی ہیں ۔ کچھ جان لیوا اور کچھ ایمان لیوا ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ کچھ بیماریاں جسمانی ہیں اور کچھ بیماریاں روحانی ہیں ۔ جسمانی بیماریاں ‘ مثلاً نزلہ ‘ زکام ‘ بخار اور شوگر وغیر ہ تو ہمیں تکلیف اور درد میں مبتلا کر دیتی ہیں لیکن روحانی بیماریاں تو انسان کو بسا اوقات انسانیت سے ہی محروم کر دیتی ہیں اور اُس کو جہنم کا ایندھن بنا کر ہی چھوڑتی ہیں ۔
آج کل جسمانی بیماریوں سے اپنے آپ کو بچانے کا تو بہت اہتمام ہے ۔ میڈیکل سائنس بھی اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ڈاکٹر صاحبان قصائی بن چکے ہیں اور ہسپتال مذبح خانے ۔ علاج کے بابرکت اور گھریلو طریقے چھوڑ دینے کی وجہ سے کئی لوگوں کے جسم تو پورے میڈیکل سٹور بن چکے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی صحت کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں ۔
ابھی ہمارا موضوع جسمانی علاج کے لیے تجاویز دینا نہیں لیکن پھر بھی ایک حدیث پاک ‘اُن حضرات کے لیے جو اپنے علاج سے مایوس ہو چکے ہوں ‘ عرض کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس پر بھی عمل کر کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ‘ رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
حصنوا اموالکم بالزکوٰۃ وداووامر ضا کم بالصدقۃ واعد وللبلاء الدعا ( مجمع الزوائد ۳؍ ۶۳)
’’ لوگو! اپنے مالوں کی حفاظت زکوٰۃ کے ذریعے کرو ۔ اپنے مریضوں کا علاج صدقات و خیرات کے ذریعے کرو ۔ آنے والی پریشانیوں کا مقابلہ دعائوں کے ذریعے کرو ‘‘۔
آج جس بیماری کے بارے میں عرض کرنا ہے ‘ وہ انتہائی خوفناک روحانی بیماری ہے اور رمضان المبارک اس کے علاج کاخاص موسم ہے ‘ جب کہ انفاق فی سبیل اللہ مہم اس سے جان چھڑانے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا جہاں بے شمار اجرو ثواب ہے ‘ وہیں اس کا بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس بیماری سے انسان کو شفا نصیب ہوتی ہے ۔
مال کی حرص و ہوس ‘ یہ وہ تباہ کن بیماری ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ۔ جو اس میں مبتلا ہو جائے پھر اس کے پاس نماز کے لیے وقت ہوتا ہے نہ تلاوت کیلئے ۔ یہ مال پھر اس کو اس کی قبر کے بارے میں سوچنے دیتا ہے نہ دیگر ضروری امور کے بارے میں ۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ضرورت سے زائد بے شمار مال موجود ہے لیکن وہ اس بیماری میں اس بری طرح مبتلا ہیں کہ اُن کی اولادیں ‘ اُن کی شکل دیکھنے اور اُن سے بات کرنے کیلئے ترستی ہیں ۔ بچپن میں ہم بے سرو پا کہانیوں میں پڑھتے تھے کہ جادو گر کی جان اُس کے طوطے میں ہوتی تھی ۔ اِدھر طوطے کی گردن شہزادے نے موڑی‘ اُدھر جادو گر کی روح پرواز کر گئی اور وہ مر گیا ۔ یہ تو یقینا جھوٹی اور من گھڑت باتیں ہیں لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ ایسے مالداروں کی روح اُن کے مال میں ہوتی ہے اور جونہی کوئی مالی نقصان کی اطلاع اُن کو ملی فوراً ہی دل تھام کے بیٹھ گئے ۔
مال کے حرص و ہوس ایسی بیماری ہے کہ انسان اس کے ہاتھوں بسا اوقات اپنا ایمان بھی لٹا دیا کرتا ہے اور جب اس کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو انسان کو ہر طرف بس یہی مال نظر آتا ہے ۔
ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے :
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال :
بادروا بالا عمال الصالحۃ فتکون فتن کقطع اللیل المظلم یصبح الرجل مومنا و یمسی کافرا و یمسی مؤمنا و یصبح کافراً یبیع دینہ بعرض من الدنیا ۔(صحیح مسلم ،کتاب الایمان۱۸۶ )
اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیک عمل جلدی جلدی کرلو ‘ جتنا وقت مل رہا ہے ‘ اس کو غنیمت جانو ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ بڑے فتنے آنے والے ہیں ‘ ایسے فتنے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے ۔ صبح کو انسان مؤمن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا یعنی ایسے فتنے آنے والے ہیں جو انسان کے ایمان کو سلب کر لیں گے ‘ صبح کو مؤمن بیدار ہو ا تھا ‘ لیکن فتنے کا شکار ہو کر شام کے وقت کافر ہو گیا ‘ اور شام کو مؤمن تھا ‘ صبح کو کافر ہو گیا ‘ اور یہ کافر اس طرح ہو جائے گا کہ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے سے سازو سامان کے بدلے میں بیچ ڈالے گا ۔ صبح کو مؤمن اٹھا تھا اور جب کاروبار زندگی میں پہنچا تو فکر لگی ہوئی تھی دنیا جمع کرنے کی ‘ مال و دولت جمع کرنے کی ‘ اور اس دوران مال حاصل کرنے کا ایک ایسا موقع سامنے آیا جس کے ساتھ شرط یہ تھی کہ دین چھوڑو تو تمہیں دنیا مل جائے گی ۔ اب اس وقت دل میں کش مکش پیدا ہوئی کہ اپنے دین کو چھوڑ کر یہ مال حاصل کر لوں ‘ یا اس مال پر لات مار کر دین کو اختیار کر لوں ۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی مال کے حرص کی بیماری میں مبتلا تھا اس لیے اس نے مال کی خاطر اپنا دین و ایمان تک چھوڑ دیا اور ( نعوذ باللہ ) اس بات نے اس کو کافر بنا ڈالا ۔
ایسے مریضوں کی ایک مخصوص ذہنیت ہوتی ہے کہ ان کو صرف روپے پیسے کی باتوں میں ہی مزا آتا ہے ۔ اس کے علاوہ آپ جتنی بھی اہم ‘ ضروری اور نصیحت آموز بات کر لیں ‘وہ اُن کے سر کے اوپر سے گزر جائے گی ۔ فارسی زبان کے مشہور شاعر و ادیب اور عظیم مصلح حضرت شیخ سعدیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’گلستان‘‘ میں ایسی ہی ایک بیمارکی دلچسپ داستان لکھی ہے … وہ فرماتے ہیں :
’’ میں نے ایک تاجر کو دیکھا جس کے پاس ڈیڑھ سو اونٹ سامان کے تھے اور چالیس غلام اور خدمت گار جو اس زمانہ میں بہت بڑا تاجر ہونے کی علامت تھی ۔ شیخ فرماتے ہیں کہ ایک رات وہ مجھے جزیرئہ کیش میں اپنے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا ۔ رات بھر وہ بہکی بہکی باتیں کرتا رہا ۔ نہ وہ خود سویا اور نہ ہی اس نے مجھے سونے دیا ۔ اس نے کہا میرا فلاں سامان ترکستان میں ہے اور فلاں مال ہندوستان میں ، اور یہ فلاں زمین کی دستاویز ہے ، اور فلاں چیز کا فلاں شخص ضامن ہے ۔ کبھی کہتا کہ میں اسکندریہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ وہاں کی آب و ہوا نہایت اچھی ہے ۔ پھر کہتا کہ نہیں کیونکہ دریائے مغرب میں طغیانی ہے ۔ پھر کہتا :’’ اے سعدی! ایک دوسرا سفر بھی درپیش ہے ۔ اگر وہ بھی کر لیا جائے تو باقی تمام عمر کے لیے گوشہ نشین اور خلوت گزین ہو جائوں گا اور پھر نہایت قناعت و سکون کے ساتھ اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزار دوں گا ‘‘ ۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کون سا سفر ہے ؟ اس تاجر نے کہا کہ میں ایرانی گندہک چین لے جائوں گا کیونکہ مجھے پتہ چلا ہے کہ چین میں اس کا اچھا بھائو ہے اور وہاں سے چین کے پیالے روم لے جائوں گا ، روم کا ریشم ہندوستان اور ہندوستان کا لوہا حلب لے جائوں گا۔ حلب سے آئینے یمن لے جائوں گا اور یمنی چادریں فارس لے جائوں گا ۔ بس پھر اس سفر کے بعد وطن میں ایک دوکان پر بیٹھ جائوں گا اور پھر کہیں کا کوئی سفر نہیں کروں گا‘‘۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ انصاف کی بات ہے کہ اس سودا گرنے یہ احمقانہ گفتگو اور پاگل پن کی باتیں اس قدر کیں کہ اس سے زیادہ کہنے کی اُس میں طاقت نہ رہی ۔ تاجر نے مجھ سے کہا :
’’سعدی !تم بھی کچھ کہو جو تم نے دیکھا یا سنا ہو ؟‘‘ سعدیؒ فرماتے ہیں :میں نے کہا :
آن شنید ستی کہ در صحرائے غور
بار سلارے بیفتاد ازستور
گفت چشم تنگ دنیا دار را
یا قناعت پر کند یا خاک گور
’’ تو نے سنا ہے کہ غور کے صحرا میں ایک سردار گھوڑے سے گر پڑا ، اور گرتے ہوئے اس نے کہا : دنیا دار کی تنگ آنکھ کو یا تو قناعت بھر سکتی ہے یا پھر قبر کی مٹی ‘‘۔
درحقیقت اس تاجر کی یہ داستان ایک حدیث پاک کی عملی تعبیر و تشریح ہے ‘ جس میں دولت ِ و دنیا کی حرص میں مبتلا شخص کی یہ سوچ بتائی گئی ہے کہ
لو کان لا بن آدم و ادیاً من ذھب احب ان یکون لہ وادیان ( صحیح بخاری ‘ الرقاق ۶۴۳۹)
’’ اگر ابن آدم کو ایک وادی سونے کی بھر کر مل جائے تو وہ یہ چاہے گا کہ دو وادیاں مل جائیں‘‘۔ (بخاری)
دیکھا جائے تو آج ہمارا حال بھی اسی تاجر جیسا ہو رہا ہے کہ لاکھ کے بعد دو لاکھ ‘ دو کے بعد چار اور چار کے بعد آٹھ کے چکر میں ہم نے سب کچھ بھلا رکھا ہے ۔ یہاں تک کہ ہم یہ بھی بھول گئے کہ ہمارا انجام ایک دن موت ہی ہے ۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ نے کیا خوب ہماری غفلت کا نقشہ کھینچا ہے :
یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ‘ ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا
تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہ دنیائے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہوئی آہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہیں عقل اتنی بھی مجذوبؔتجھ کو
سمجھ لینا اب چاہیے خوب تجھ کو
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
آج ہم دوسروں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جاتے ہیں ایک روز ایسا آئے گا کہ ہم کفن میں لپٹے ہوئے دوسرے کا ندھوں پر سوار اسی طرح اس قبرستان میں آئیں گے ۔ ؎
و اذا حملت الیٰ القبور جنازۃ
فاعلم بانک بعد ھا محمول
اور پھر جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب میت کو دفن کر کے لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آواز سنتی ہے اور اس سے اس کی قبر سے پہلے کوئی ہم کلام نہیں ہوتا … قبر کہتی ہے :
’’ اے ابن آدم !کیا تونے میرے حالات نہ سنے تھے ؟ کیا تجھے میری تنگی ، بد بو ، ہولناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا ؟۔ اگر ایسا تھا تو پھر تونے کیا تیاری کی ؟‘‘ (شرح الصدور للسیوطی )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو فکرِ آخرت عطا فرمائے ‘مال کے حرص و ہوس کی خوفناک بیماری اور اس کے برے نتائج سے محفوظ فرمائے (آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
اصل مقابلہ شروع
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 452)
رمضان کا مبارک ‘ مقدس اور پرنور مہینہ شروع ہو چکا ہے … ’’ انفاق فی سبیل اللہ مہم‘‘ بھی جاری ہے ۔ ایک فرشتہ ہمیںپکار پکار کریاد دلا رہا ہے کہ :
یا باغی الخیر اقبل ویا باغی الشر ا قصر
’’اے خیر اور بھلائی کے متلاشی ! ہمت کر اور آگے بڑھ ۔ اے برائی کے طلبگار !اب رک جا اور بس کر دے‘‘۔
نیکی کے دروازے چوپٹ کھول دئیے گئے ہیں ۔ روزے کی میٹھی اور لذیذ عبادت تراویح کی عاشقانہ عبادت ۔ صدقہ و خیرات کی والہانہ عبادت ۔ تلاوت قرآن مجید کے روحانی مزے اور تسبیحات و استغفار کی رونقیں ۔ سحر و افطار کے وقت دعائوں کی بہاریں ۔ کیا کیا نعمتیں ہیں اور کیا کیا مہربانیاں ہیں ۔ نفل کے بدلے فرض کا اجرو ثواب ۔ ایک فرض کے بدلے ستّر فرائض کا انعام ۔ دنیا کی لوٹ مار سیل بھلا رحمتوں کی اس چھم چھم برستی بارش کا کیامقابلہ کر سکتی ہے ۔
یہ نیکیوں کا موسمِ بہار تو اصل مقابلے کا موسم ہے ۔ ایک مقابلہ آج ہم نے آپس میں شروع کر رکھا ہے ۔ فرعون‘قارون اور ہامان بننے کا مقابلہ ۔ میں اس مقابلے کے بارے میں نہیں عرض کر رہا ۔ کیونکہ بہت سے لوگ تو رمضان آتے ہی یہ مقابلے شروع کر دیتے ہیں کہ کیسے مسلمانوں کی کھال اتاری جائے اور اُنہیں الٹی چھری سے ذبح کیا جائے ۔ یقین نہیں آتا تو عمرے کے ویزوں کی مثال ہی دیکھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ! ایسی لالچ اور حرص سے جو انسان کو درندہ بنا دے اور دل سے حلال و حرام کا فرق ہی اٹھ جائے ۔
میں تو اس مقابلے کی طرف توجہ دلانا چاہ رہا ہوں ‘ جس کا حکم خود رب کریم جل شانہ نے قرآن مجید میں دیا ہے اور ساتھ ہی مقابلے کا میدان بھی بتا دیا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ فاستبقوا الخیرات ‘‘
’’ لوگو ! نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ‘‘
پتہ چلا کہ مسلمانوں کا آپس میں مقابلہ مال و دولت کے حصول ‘ عزت و شہرت کے حصول اور دنیاوی اسباب و متاع کے حصول میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ مسلمانوں کے مقابلے کا اصل میدان تو یہ نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ و خیرات ‘ جہاد اور دین کیلئے قربانی پیش کرنا اور نیکی کے دیگر کام ہیں ۔ ان کاموں میں مقابلے اور مسابقہ ہونا چاہیے ۔اب ہمارا مقابلہ الٹا ہو گیا ہے ‘ اس وقت ہماری پوری زندگی ریس لگانے میں گزر رہی ہے ۔ لیکن ریس اس میں لگ رہی ہے کہ پیسہ زیادہ سے زیادہ کہاں سے آجائے ، دوسرے نے اتنا کما لیا ، میں اس سے زیادہ کمالوں ۔ دوسرے نے ایسا بنگلہ بنا لیا ، میں اس سے اعلیٰ درجے کا بنا لوں ‘ دوسرے نے ایسی کار خریدی ‘ میں اس سے اعلیٰ درجے کی خرید لوں‘ دوسرے نے ایسا سازو سامان جمع کر لیا ‘ میں اس سے اعلیٰ درجے کا جمع کر لوں ۔ پوری قوم اسی ریس کے اندر مبتلا ہے ‘ اور اس ریس میں حلال و حرام کی فکر مٹ گئی ہے ‘ اس لئے کہ جب دماغ پر یہ جذبہ سوار ہو گیا کہ دنیاوی سازو سامان میں دوسرے سے آگے بڑھنا ہے‘ تو حلال مال کے ذریعہ آگے نکلنا تو بڑا مشکل ہے ‘ تو پھر حرام کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح اب حلال و حرام ایک ہو رہے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز میں ریس لگانا اور مقابلہ کرنا شرعاً برا تھا وہاں سب مقابلے پر لگے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں ‘ اور جس چیز میں مقابلہ کرنا ‘ ریس لگانا ‘ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر کرنا مطلوب تھا ‘ اس میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دیکھئے کہ غزوئہ تبوک کے موقع پر انہوں نے کیا کیا ‘ غزوئہ تبوک بڑا کٹھن غزوہ تھا ۔ ایسا صبر آزما غزوہ اور ایسی صبر آزما مہم شاید کوئی اور پیش نہیں آئی جیسی غزوئہ تبوک کے موقع پر پیش آئی ‘ سخت گرمی کا موسم ، وہ موسم جس میں آسمان سے شعلے برستے ہیں‘ زمین آگ اگلتی ہے اور تقریباً بارہ سو کلو میٹر کا صحرائی سفر ‘ اور کھجوریں پکنے کا زمانہ ‘ جس پر سارے سال کی معیشت کا دارومدار ہوتا ہے ، سواریاں میسر نہیں ‘ پیسے موجود نہیں‘ اور اس وقت میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ہر مسلمان کے لئے نفیرِ عام ہے کہ وہ اس غزوہ میں چلے‘ اور اس میں شریک ہو ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوری میں کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ یہ غزوہ کا موقع ہے ‘ اور سواریوں کی ضرورت ہے‘ اونٹنیاں چاہئیں ‘ پیسوں کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر اس میں چندہ دیں ‘ اور جو شخص اس میں چندہ دے گا ‘ میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔
اب صحابۂ کرام کہاں پیچھے رہنے والے تھے ‘ جبکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ جملہ سن لیںکہ ان کے لئے جنت کی ضمانت ہے‘ اب ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دے رہا ہے‘ کوئی کچھ لا رہا ہے ‘ کوئی کچھ لا رہا ہے ۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھر گیا ‘ اور میں نے اپنے گھر کا جتنا کچھ سازو سامان اور روپیہ پیسہ تھا وہ آدھا آدھا تقسیم کر دیا ‘ اور پھر آدھا حصہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلا گیا ، اور دل میں خیال آنے لگا کہ آج وہ دن ہے کہ شاید میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آگے نکل جائوں ۔ یہ جو جذبہ ہے کہ میں ان سے آگے بڑھ جائوں‘ یہ ہے ’’مسابقت الی الخیرات‘‘ کبھی ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوا کہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیسے میں آگے بڑھ جائوں ‘ کبھی یہ جذبہ پیدا نہیں ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بہت پیسے ہیں‘ ان سے زیادہ پیسے مجھے حاصل ہو جائیں ‘ لیکن یہ جذبہ پیدا ہوا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے نیکی کا جو مقام بخشا ہے‘ ان سے آگے بڑھ جائوں۔
تھوڑی دیر بعد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تشریف لائے ‘ اور جو کچھ تھا حاضر کر دیا ، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے عمر ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )آدھا مال گھر والوں کے لئے چھوڑ دیا ‘ اور آدھا غزوہ کے لئے اور جہاد کے لئے لے آیا ہوں ۔ آپ نے ان کو دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت دے ۔ اس کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا : کہ تم نے اپنے گھر میں کیا چھوڑا؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! گھر میں اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں‘ جو کچھ گھر میں تھا سارا کا سارا سمیٹ کر یہاں لے آیا ہوں ۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دن مجھے پتہ چلا کہ میں چاہے ساری عمر کوشش کرتا رہوں لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
( ابو دائود ، کتاب الزکوٰۃ ،۱۶۷۸)
ایک مرتبہ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ آپ میرے ساتھ ایک معاملہ کریں تو میں بڑا احسان مند ہوں گا ۔ انہوں نے پوچھا : کیا معاملہ ؟ فاروق ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میری ساری عمر کی جتنی نیکیاں ہیں‘ جتنے اعمال صالحہ ہیں‘ وہ سب مجھ سے لے لیں ‘ اور وہ ایک رات جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غارِ ثور میں گزاری ‘ اس کا ثواب مجھے دے دیں …
غرض یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگی کو دیکھیں تو کہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ یہ سوچیں کہ فلاں نے اتنے پیسے جمع کر لئے ‘ میں بھی جمع کر لوں۔ فلاں کا مکان بڑا شاندار ہے ‘ میرا بھی ویسا ہو جاتا ۔ فلاں کی سواری بہت اچھی ہے‘ ویسی مجھے بھی مل جاتی ۔ لیکن اعمالِ صالحہ میں مسابقت نظر آتی ہے ۔ اور آج ہمارا معاملہ بالکل الٹا چل رہا ہے‘ اعمالِ صالحہ میں آگے بڑھنے کی کوئی فکر نہیں‘ اور مال کے اندر صبح سے لے کر شام تک دوڑ ہو رہی ہے‘ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں ہیں ۔
یاد رکھیں … رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کے مقابلے کا مہینہ ہے … اور یوں کہنا چاہیے کہ مقابلہ بہت سخت ہے اور وقت بہت کم ہے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو انتہائی پر اثر انداز سے یوں ارشاد فرمایا ہے …
جا ء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:
یا رسول اللہ ! ای الصدقۃ اعظم اجراً ؟ قال : ان تصدق وا نت صحیح شحیح تخشیٰ الفقر و تامل الغنی ولا تمھل حتی اذا بلغت الحلقوم قلت : لفلا ن کذا و لفلان کذا و قد کان لفلان ۔( صحیح بخاری ‘ کتاب الوصایا)
اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ‘ اور پوچھا کہ سب سے زیادہ ثواب والا صدقہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے اعلیٰ درجہ کا صدقہ یہ ہے کہ تم اپنی صحت کی حالت میں صدقہ کرو ‘ اور ایسے وقت میں صدقہ کرو جب تمہارے دل میں مال کی محبت ہو ‘ اور دل میں یہ خیال ہو کہ یہ مال ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے یونہی لٹا دیا جائے ‘ اور مال خرچ کرنے میں تکلیف بھی ہو رہی ہو اور یہ بھی اندیشہ ہو کہ اس صدقہ کرنے کے نتیجے میں بعد میں فقر کا شکار ہو جائوں گا ‘ اور بعد میں معلوم نہیں کیا حالات ہوں گے؟ اس وقت جو صدقہ کرو گے وہ بڑا اجر والا ہو گا ۔
اس کے بعد فرمایا کہ صدقہ دینے کا دل میں خیال آیا ہے تو اس کو ٹلائو نہیں … اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ کرنے کو ٹلاتے رہتے ہیں‘ اور یہ خیال کرتے ہیں کہ جب مرنے کا وقت بالکل قریب آجائے گا تو اس وت کچھ وصیت کر جائیں گے کہ مرنے کے بعد میرا اتنا مال فلاں کو دے دینا ‘ اور اتنا مال فلاں کو دینا ‘ اور اتنامال فلاں کام میں لگا دینا وغیرہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ تم یہ کہہ رہے ہو کہ اتنا مال فلاں کو دے دینا ؟ ارے اب تو وہ تمہارا مال رہا ہی نہیں‘ وہ تو کسی اور کا ہو گیا ‘ تم دو یا نہ دو ‘ یہ مال تو اب بہر حال تمہارے ساتھ قبر میں نہیں جائے گا۔ یہ تو اب اسی دنیا میں رہ جائے گااور جس وارث کا مقدر اور نصیب کا ہو گا‘اُسی کو ملے گا…پھر یہ شرعی مسئلہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں کوئی صدقہ کرے‘ یاصدقہ کرنے کی وصیت کرے کہ اتنا مال فلاں کو دے دیا جائے ‘ یا کسی شخص کو ہبہ کرے ‘ اور اسی بیماری میں اس کا انتقال ہو جائے تو اس صورت میں صرف ایک تہائی مال (تیسرا حصہ) کی حد تک صدقہ نافذ ہو گا ‘ اور باقی دو تہائی مال ورثاء کو ملے گا ‘ اس لئے کہ وہ وارثوں کا حق ہے ۔ کیونکہ مرنے سے پہلے بیماری ہی میں اس مال کے ساتھ ورثاء کا حق متعلق ہو جاتا ہے ۔
پہلے یہ سوچتے رہے کہ آخری عمر میں جا کر سارا مال کسی صدقہ جاریہ میں لگا دیں گے تو ساری عمر ثواب ملتا رہے گا ۔ حالانکہ وہ تو حالت ِ مجبوری کا صدقہ ہے‘ اوربہترین اجر و ثواب والا صدقہ تو وہ ہے جو صحت کے وقت میں مال کی ضرورت اور محبت اور اس کے جمع کرنے کے خیال کے وقت میں کیا جائے ۔
نیکیوں کا یہ مقابلہ بھی عجیب ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں گنتی اور تعداد نہیں دیکھی جاتی ‘ بلکہ جذبہ اور اخلاص دیکھا جاتا ہے ‘ ایک آدمی جس کی آمدنی سو روپے ہے‘ وہ اگر ایک روپیہ اللہ کی راہ میں دیتا ہے‘ وہ اس آدمی کے برابر ہے جس کی آمدنی ایک لاکھ روپے ہے‘ اور ایک ہزار روپے اللہ کی راہ میں دیتا ہے‘ بلکہ کچھ پتہ نہیں کہ وہ ایک روپیہ دینے والا اپنے اخلاص کی وجہ سے اس سے بھی آگے بڑھ جائے … اس لیے گنتی کو نہ دیکھیں۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کرنے کی فضیلت حاصل کرنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے اس مقابلے میں حصہ لینا ہے تو پھر اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کر یں ۔
نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ شروع ہو چکا ہے …میدان سج چکے ہیں اور شہسوار میدان میں اتر چکے ہیں… مقابلہ سخت ہے اور وقت بہت کم ہے… اللہ کریم سے انعام حاصل کرنے کے …متوالے اور شوقین پورے جوش و خروش سے …اس مقابلے میں شریک ہیں… دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مقابلے میں کامیاب و کامران فرمائے اور ہر قسم کی ناکامی اور محرومی سے ہماری حفاظت فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
وصلی اللہ علی النبی الکریم و علی آلہ و صحبہ اجمعین
٭…٭…٭
جہاد جاری رہے گا
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 451)
جہاد اور مجاہدین کے خلاف قلمی محاذ پر بر سرِ پیکار لوگوں کے دو نظریات اور قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی تردید ‘ آپ ان کالموں میں پڑھ چکے ہیں ۔ آج کی نشست میں ہم ان کے تیسرے گمراہ کن نظریے کا جائزہ لیں گے ۔
کفار کی طاقت سے مرعوب اور راہِ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے کنارہ کش لوگ ‘ جب قرآن مجید میں آیات ِ جہاد پڑھتے ہیں اور اُنہیں کلام اللہ کی پوری پوری سورتیں فریضۂ جہاد کے بارے میں نظر آتی ہیں ‘ اسی طرح وہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بدر کے میدان میں اور کبھی احد پہاڑ کے دامن میں کھڑے دیکھتے ہیں‘ کبھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کھو دتے ، بنو قریظہ کے قتل کا حکم دیتے ، خیبر اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرتے اور کبھی سینکڑوں میل دور تبوک کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں تو اُن کی یہ ہمت اور جرأت تو نہیں ہوتی کہ فریضۂ جہاد کا انکار کر دیں یا اس کے شرعی معنی کو بدل کر ہر نیکی کے کام کو جہاد قرار دے ڈالیں تو اس کیلئے وہ ایک نئے گمراہی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔
یہ جہاد کیلئے ایسی خود ساختہ اور من گھڑت شرائط عائد کرتے ہیں ‘ جن کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہے نہ آج تک کسی مفسر ، محدث یا فقیہ نے اُن کا ذکر کیا ہے ۔ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار ہوں ‘ بجائے جہاد کی تلقین کرنے کے الٹا اُن کی مسلح جدوجہد کو صرف اس لیے غلط قرار دیتے ہیں کہ یہ کسی منظم حکومت کے ماتحت نہیں ہے ۔ گویا جب تک اُن کی منظم حکومت ( وہ بھی ان نام نہاد دانشوروں کی نظر میں صرف وہ ہی حکومت ہو گی جسے کفار تسلیم کر لیں) قائم نہیں ہوتی ‘ تب تک اُن کا کام صرف مار کھانا اور ظلم سہنا ہی ہے ۔
ان میں سے بعض اقدامی جہاد کی شرائط اٹھا کر دفاعی جہاد پر چسپاں کر دیں گے اور بعض مجاہدین کی تعداد میں کمی کو بہانہ بنا کر جہاد کے غیر شرعی ہونے کے حکم صادر فرما دیں گے ۔ کچھ حضرات استطاعت اور مقابلے کی طاقت نہ ہونے کو بہانہ بنا کر جہاد سے پہلو تہی کریں گے ۔ حالانکہ جہاد کیلئے استطاعت اور تربیت حاصل کرنا ‘ یہ بھی تو خود ایک فرض ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو باقی تو پورے مدنی دور کے دین پر عمل کریں گے لیکن صرف جہاد کو چھوڑنے کیلئے فوراً الٹی قلابازی لگا کر مکی دور میں پہنچ جائیں گے ۔
اگر ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو یہ پوری ایک کتاب کا موضوع بن جائے گا ۔ اس لیے ہم اصولی طور پر زمانۂ رسالت سے صرف چند ایسے مستند واقعات پیش کرتے ہیں جن سے خود بخود ان لوگوں کے بے بنیاد خیالات کی تردید ہو جاتی ہے ۔
(۱)… صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد ﷺ کے پاس جائے گا ، محمد ﷺ اسے واپس کریں گے ۔ جب رسول کریم ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے تو ابو بصیرؓ نامی ایک مکّی مسلمان جنہیں مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں ، وہ چھوٹ کر بھاگ نکلے ۔ قریش نے ان کی واپسی کے لیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عہد و پیمان ہے ، اس کی پابندی کیجئے ۔ نبی ﷺ نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا ۔ یہ دونوں اسے لا رہے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر ایک چال کے ساتھ ابو بصیر ؓ نے ایک شخص کو قتل کر دیااور دوسرا بھاگ کر مدینے پہنچ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ’’ یہ خوفزدہ نظر آتا ہے ۔ ‘‘ اس نے کہا ’’بخدا ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ اتنے میں ابو بصیرؓ آگئے اور بولے:’’ یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا ۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ۔ ‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اسے کوئی ساتھ مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا‘‘ ۔ یہ سن کر ابو بصیر ؓ سمجھ گئے کہ انہیں پھر کافروں کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے ۔ ادھر ابو جندل بن سہیل ؓ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے یہاںتک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملکِ شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کر تے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی ﷺ کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا ، مامون رہے گا ۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے انہیں بلوا لیا اور وہ مدینہ آگئے ۔ ( فتح الباری :۷؍۴۳۹،زاد المعاد :۲؍۱۲۲)
ابو بصیرؓ اور ابو جندل رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف بدلہ لینے کے لیے منظم حکومت کی صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک کوئی شرط نہ تھی وگرنہ وہ اس شرط کا ضرور اہتمام کرتے ۔لیکن اگر ایسی کوئی شرط نام نہاد دانشوروں کے بقول تھی تو کیا یہ لوگ (نعوذ باللہ) ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر اپنی تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کا الزام لگانے کی ہمت کریں گے !
(۲)…نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حارث بن عمیر ؓ کو سفیر بنا کر بصریٰ کے حکمران کے پاس بھیجا تو قیصرروم کے گورنر شرجیل بن عمرو نے انہیں شہید کر دیا ۔ نبی ﷺ نے اپنے ایک صحابی کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اور اس پر تین امیر مقرر فرمائے ۔ پہلے امیر تھے زید بن حارثہؓ یہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اور یہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ ، اسے غزوئہ موتہ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دوران معرکہ ہی اس کے بارے میں صحابہ کو بتانا شروع کر دیا ( کیونکہ آپ پر وحی نازل ہوتی تھی اور یہ اللہ کے بتانے سے ہی بیان کیا ،) فرمایا علَم جہاد زید ؓ نے پکڑا وہ شہید کر دیے گئے پھر جعفر ؓ نے پکڑا وہ شہید ہو گئے پھر ابن رواحہؓ نے پکڑا وہ بھی شہید ہو گئے ۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔پھر اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار (خالد بن ولیدؓ ) نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے فتح عطا فرمادی ۔ اب فتح الباری میں ہے کہ ابو قتادہ ؓ کی حدیث ہے :
’’ثم اخذ اللواء خالد بن ولید ولم یکن من الامراء وھو امیر نفسہ ‘‘
’’ پھر خالد ؓ نے جھنڈا پکڑا اور وہ مقرر نہیں کئے گئے ، وہ خود ہی امیر بن گئے ‘‘ ۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی :
’’ اللھم ھو سیف من سیوفک فانصرہ‘‘
’’ اے اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما ‘‘ ۔ ( مسند احمد : ۵؍ ۲۹۹ )
یہی حدیث کتاب الجہاد میں ہے تو وہاں یہ وضاحت ہے :
’’ثم اخذھا خالد بن الولید من غیر امرۃ ‘‘
’’ پھر جھنڈاخالد بن ولید ؓ نے پکڑ لیا اور انہیں امیر نہیں مقرر کیا گیا ‘‘ ۔
اس حدیث میں بھی غور کریں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بغیر اجازت آگے بڑھے اور جہاد کیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا ‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن نو(۹) تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹی تھیں ۔سنن ابی دائود میںعوف بن مالک الاشجعی ؓ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو واپسی پر اپنی طرف سے مقرر کردہ امیر ہی قرار دیا ۔
(سنن ابی دائود ، کتاب الجہاد:۲۷۱۹ )
(۳)… ۴؍ ہجری کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبائل ) کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے کے لیے ہمارے ہمراہ روانہ کیجئے ۔ آپ نے کچھ لوگوں کو سیدنا عاصم بن ثابت ؓ کی امارت میں روانہ کر دیا ۔ جب یہ لوگ رجیع نامی چشمے پر پہنچے تو مذکورہ قبائل کے افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان کے پیچھے لگا دیا ۔ بنو لحیان کے تقریباً سو تیرا نداز ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے ان صحابہ تک جا پہنچے ۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر پناہ گزیں ہو گئے ۔ بنو لحیان نے انہیں گھیرے میں لے کر کہا کہ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے کہ اگر تم ہمارے پاس اتر آئو تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کر یں گے ۔ سیدنا عاصمؓ نے اترنے سے انکار کر دیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کر دی ۔ بالآخر سات صحابی شہید ہو گئے ۔ بنو لحیان نے اپنا عہد و پیمان پھر دہرایا تو باقی تین صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا ۔ اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ، ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ تو انہوں نے اسے بھی شہید کر ڈالا اور باقی دو صحابہ کو مکہ لے جا کر بیچ دیا ۔‘‘
( صحیح بخاری ۴۰۸۶، ابن ہشام :۲؍۱۶۹)
مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوا کہ اگر کہیں تین مسلمان بھی ہوں تو وہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر کے ظلم کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کریں گے اور اسلام انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کا حق دیتا ہے ۔
(۴)… عہد نبوی میں شہر بن باذان صحابی ؓ یمن کے گورنر مقرر تھے لیکن ان کی وفات پر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی قوم کو لے کر صنعاء (دارالحکومت) پر قبضہ جما لیا اور باذان کی بیوی ’’ مرزبانہ‘‘ کو زبردستی اپنے حرم میں شامل کر لیا ۔ اس طرح ایک اسلامی علاقہ کفار کے تسلط میں چلا گیا ۔ چنانچہ فیروز دیلمی قیس بن عبد یغوث ، دادویہ رضی اللہ عنہم اور کچھ دیگر صحابہ نے مرزبانہ کے ساتھ مل کر اسود عنسی کے خلاف کاروائی کا پروگرام تشکیل دیا ۔ حسب پروگروام مر زبانہ نے اس رات اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا کر مدہوش کر دیا جبکہ دیگر صحابہ نے اس محل کی دیوار میں نقب لگایا اور اندر جا کر اسود عنسی کو قتل کر دیا ۔ چنانچہ اس طرح اسود عنسی کے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ کیا گیا ۔
صحیح روایات کے مطابق نبی کریم ﷺ نے بذریعہ وحی اپنے صحابہ کو اس گوریلا کاروائی سے مطلع کیا اور جب یہ خبر یمن سے مدینہ پہنچی تو ابو بکر ؓ خلیفہ بن چکے تھے ۔
(فتح الباری :۸؍۹۳، دلائل النبوۃ :۵؍۳۳۴تا ۳۳۶)
نبی کریم ﷺ کے دور میں یہ گوریلا کاروائی کی گئی جبکہ یمن میں کوئی ’’منظم حکومت ‘‘ اس وقت موجود نہ تھی بلکہ اسود عنسی جس نے منظم حکومت کا شیرازہ بکھیر ا تھا ، اس کذاب کو ’’غیر علانیہ ‘‘ خفیہ طور پر اور بغیر کسی’’ منظم حکومت ‘‘ کے قتل کر کے اسلامی اقتدار بحال کیا گیا ۔
ان تمام واقعات میں غور کریں تو موجودہ دور میں جب جہاد مسلمانوں کیلئے سانس لینے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے ‘ جہاد کے خلاف جتنے وساوس اور شبہات پیدا کیے جاتے ہیں‘ سب مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ثابت ہوںگے ۔ یہاں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اہلِ حق کے درمیان امورِ مجتہد فیہا میں نصوص کے ثبوت اور ان کی تطبیق کی بابت اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اس کا مقصد کسی فریضے کا انکار ‘ اس میں بے جا تاویل یا اُسے معطل کرنا نہیں ہوتا بلکہ شرعی دلائل کی روشنی میں ‘شرعی حدود کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا مقصد ہوتا ہے ‘ ایسی صورت میں کسی کی تفسیق اور تضلیل درست نہیں ۔
کچھ لوگوں کا جہاد کے ساتھ یہ بھی عجیب رویہ ہے کہ اتنی عظمت والا عمل ‘ جو فرائض اسلام میں سے ہے‘ یہی تمام مفسرین ‘ محدثین اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے ‘ اس کی اہمیت کو امت مسلمہ کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کے لیے چند ایسی روایات کا سہارا لیتے ہیں ‘ جو یا تو بے بنیاد اور من گھڑت ہوتی ہیں یا اُن کا صحیح مفہوم نظر انداز کر کے خواہ مخواہ انہیں جہاد کے مقابلے میں پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ آسان سی بات ہے کہ جب جہاد کی فرضیت ‘ ترکِ جہاد پر وعیدیں اور مجاہدین کے فضائل یہ سب کچھ قرآن مجید کی آیات ِ مبارکہ اور صریح و صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں تو پھر دین ِاسلام کے کسی اور عمل کو اس کے مقابلے میں لانے کی کیا ضرورت ہے ۔
دینِ اسلام کے جتنے بھی احکامات ہیں‘ سب پر عمل ضروری ہے ۔ تمام اعمال کے اپنے اپنے فضائل ہیں ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمام کام بھی کیے ہیں اور ساتھ جہاد بھی کیا ہے ۔ پھر آج کے کسی مسلمان کیلئے یہ کیسے جائز ہو گیا کہ وہ کسی ایک کام کا انتخاب کر لے اور باقی کا انکار کر دے یا اُس کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جائے ۔
رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت تک جہاد جاری رہنے کی پیشین گوئی فرمائی ہے ۔ ایسی کئی روایات ہم اس سلسلۂ مضامین کیلئے عرض کر چکے ہیں ۔ آج دنیا بھر میں جہادی بہاریں امت مسلمہ کیلئے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر ان کی عملی تصدیق کر رہی ہیں ۔ اللہ کے نیک بندے ‘ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار امتی اپنے مقدس لہو سے فریضۂ جہاد کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ راہِ حق کے فدائیوں کے جذبات قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ کر رہے ہیں ۔ مسلمان خواتین کے خیالات کا رخ بھی بدل رہا ہے اور وہ حضرت ام عمارہؓ ، حضرت خنساء ؓ اور حضرت صفیہؓ کا کردار ادا کر نے کیلئے بے تاب ہیں ۔ مسلمانوں کے معصوم بچے بھی حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کر رہے ہیں ۔
ان تمام آسمانی اور زمینی حقائق کے پیش نظر ہمیں یقین ہے کہ منکرینِ جہاد جتنا بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں اور یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کیلئے جس قدر بھی قلم و قرطاس کا دامن داغدار کر لیں ‘ فتنۂ انکار ِجہاد اپنی موت آپ مر جائے گا اور جہاد جاری رہے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
٭…٭…٭
جہاد اور منکرین ِ جہاد ۳
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 450)
جن منکرین ِ جہاد نے فریضۂ جہاد کو صرف زمانۂ رسالت کے ساتھ ہی مختص گردانا ، انہوں نے درحقیقت دینِ اسلام کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار ہا حکمِ جہاد نازل فرما دیا اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی شکل کو بالکل واضح فرما دیا ‘ بدر سے لے کر تبوک تک ‘ پھر کسی دلیل کے بغیر یہ گمراہ کن دعویٰ کر دینا کہ یہ سب کچھ تو صرف نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے‘ امت کیلئے ان آیات و غزوات میں کوئی دلیل نہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کل کو کوئی دوسرا ملحد اور زندیق اٹھے اور یوں کہے کہ نماز تو برحق ہے‘ اس کیلئے جو آیات و احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ بھی درست ہیں لیکن یہ سب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھیں ‘ اب ان کا زمانہ نہیں ۔
اسی طرح کوئی شخص زکوٰۃ ، روزے ، حج اور دیگر احکامِ اسلام کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہے بلکہ ایک بے دین نے تو بہت پہلے شراب اور خنزیر کی حرمت کے بارے میں ایسا ہی فلسفہ پیش کیا تھا کہ چودہ سو برس پہلے یہ اشیاء چونکہ مضر صحت تھیں ‘ شراب گندے برتنوں میں تیار ہوتی تھی اور خنزیروں کی صفائی ستھرائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ، اس لیے یہ اُس وقت تو حرا م تھیں لیکن اب چونکہ شراب حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جاتی ہے اور اس میں مضر جراثیم بھی نہیں ہوتے ، اسی طرح خنزیر وں کی پرورش کیلئے بہترین فارم ہائوس ہیں ‘ جہاں گندگی کا گزر بھی نہیں ہوتا ‘ اس لیے (نعوذ باللہ) یہ اشیاء اب حرام نہیں رہیں۔
اللہ تعالیٰ کی پناہ ایسی گمراہی اور کج فہمی سے کہ جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ ابدی فرائض اور دائمی حرمات کو اپنے لغو اور لچر فلسفوں سے ختم کرنے کی کوشش کرے ۔
یادرکھیں کہ جو احکام ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے ‘ جنہیں ‘’’ خصائص ‘‘ کہا جاتا ہے ‘ یہ صرف وہ ہی احکام ہیں ‘ جن کے بارے میں شریعت نے بالکل وضاحت سے کہہ دیا ہے کہ یہ حکم سب کیلئے نہیں مثلاً چار سے زیادہ نکاح کرنا اور اہلِ علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھ کر ان کو واضح کیا ہے ۔ ان کے علاوہ جتنے احکام ہیں ‘ وہ اپنے اوقات اور اپنی شرائط کے ساتھ قیامت تک کے تمام انسانوں کیلئے ہیں ۔
جہاد کے بارے میں کسی ایک مفسر ‘ محدث یا فقیہ نے ’’ اِس زمانے‘‘ اور ’’اُس زمانے‘ ‘ کا فرق بیان نہیں کیا اور نہ ہی اس کو خصائص نبوی میں سے قرار دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو قرآن مجید نے ایمان والوں کیلئے اسوئہ حسنہ یعنی زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ قرار دیا ہے ‘ اب جب تک کسی خاص عمل کے بارے میں کوئی دلیل تخصیص نہ آجائے کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ حکم صرف جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے ‘ بقیہ امت کیلئے نہیں ‘ تب تک یہی سمجھا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال اور احکام کی پیروی کرنے کا حکم تا قیامِ قیامت باقی ہے ۔ جہاد کے بارے میں کسی آیت یا حدیث میں کوئی دلیلِ تخصیص نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں دو واضح اشارات ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کا عمل ‘ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی جاری رہے گا ۔
(۱)… غزوئہ احد کے حالات کو ذہن میں رکھیں کہ جب یہ افواہ اڑی کہ رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے تو کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دل برداشتہ ہو کر میدان سے پیچھے ہٹنے لگے کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ ‘ اس بات پر تنبیہ کرنے کیلئے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افا ئِن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشکرین(آل عمران ۱۴۴)
ترجمہ:’’ اور محمد تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت رسول گزرے پھر کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تو تم الٹے پائوں پھر جائو گے اور جو کوئی الٹے پائوں پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو ثواب دے گا ‘‘۔
اس آیت ِ مبارکہ پر غور کریں تو بغیر کسی ادنیٰ تردد کے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت صحابہ رضی اللہ عنہم کو بتایا جا رہا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے پردہ فرما لینا بھی ‘ جہاد چھوڑنے کا بہانہ نہیں بن سکتا اور تم لوگوں نے یہ جہاد ‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جاری رکھنا ہے ۔ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اُن کے بعد تابعین کرام رحمہم اللہ نے کس طرح دل و جان سے اس حکم کو نبھایا ‘ اس کی ایک مختصر سی جھلک یہ فہرست ہے ۔ اس فہرست کو غور سے پڑھیں اور اُن نام نہاد دانشوروں کی عقل و دانش کی داد دیں ‘ جو کہتے ہیں کہ جہاد کا حکم توصرف زمانۂ رسالت کے ساتھ خاص تھا :
عہد صدیقی ؓ کے اقدامات
(۱)…لشکر اسامہ کی روانگی رومیوں کے خلاف (۲)… منکرین، مرتدین اور جعلی نبیوں کی سرکوبی کے لیے گیارہ ٹیمیں روانہ کیں جن کے امراء یہ تھے :
(۱)… خالد بن ولید (۲)… عکرمہ بن ابو جہل (۳)… شرحبیل بن حسنہ (۴)… خالد بن سعید (۵) … عمرو بن عاص (۶)… حذیفہ بن محسن (۷)… عرفجہ بن ہرثمہ (۸) … طریفہ بن عاجز (۹) سوید بن مقرن (۱۰)… علاء بن حضرمی (۱۱)… مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہم۔
(۳)… جنگ ذات السلاسل (۴)… جنگ قارن (۵)… جنگ دلجہ (۶)… جنگ لیس (۷)… فتح حیرہ (۸)… فتح انبار (۹)… فتح عین التمر (۱۰)… جنگ حصید (۱۱)… جنگ مضیخ (۱۲)… جنگ فراض (۱۳)… جنگ یرموک ۔
خلیفۂ ثانی سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے اقدامات
(۱)… فتح دمشق (۲)… جنگ فحل (۳)… فتح بیسان (۴)… فتح صیدا ء (۵)… فتح حبیل (۶)… فتح عرقہ (۷)… فتح بیروت (۸)… فتح کرک (۹)… جنگ باقشیا (۱۰)… جنگ بویب (۱۱)… جنگ قادسیہ (۱۲)… فتح بابل و کوثی (۱۳)… فتح بہرہ شیر (۱۴)… فتح مدائن (۱۵)… معرکہ جلولا ء (۱۶)… فتح حمص (۱۷)… فتح قنسرین (۱۸)… فتح حلب وانطاکیہ (۱۹)… فتح بفراس و مرعش و حرث (۲۰)… فتح قیساریہ (۲۱)… فتح اجنادین (۲۲)…فتح بیت المقدس (۲۳)… فتح تکریت (۲۴) … فتح جزیرہ (۲۵)… فتح اہواز (۲۶)… فتح مصر (۲۷)… جنگ نہاوند (۲۸)… فتح ہمدان (۲۹)… فتح اردن (۳۰)… فتح رے (۳۱)… فتح جرجان (۳۲)… فتح طبرستان (۳۳)… فتح آذر بیجان (۳۴)… فتح باب (۳۵)… فتح توج (۳۶)… دارابجرہ کی فتح (۳۷)… فتح کرمان (۳۸)… فتح سجستان (۳۹)… فتح مکران (۴۰)… فتح آرمینیا۔
خلیفۂ ثالث عثمان ذوالنورین ؓ کے اقدامات
(۱)… فتح اسکندریہ (بغاوت کے بعد دوبارہ فتح ) (۲)… فتح آرمینیا (بغاوت کے بعد دوبارہ فتح ) (۳)… فتح افریقہ (جس میں طرابلس ، الجیریا ، تیونس ، مراکش اور طنجہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے ) (۴)… فتح قبرص (۵)… فتح روڈس وغیرہ ۔
امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے اقدامات
(۱)… سندھ کے علاقوں کی فتوحات اور معرکے (۲)… ترکستان کی فتوحات (۳)… شمالی افریقہ کی فتوحات ارواڈ اور روڈس کی فتح (۵)… قسطنطنیہ پر حملے ۔
یزید بن معاویہ کے اقدمات
ترکستانی اور افریقی علاقوں کی فتوحات اور پیہم معرکے ۔
عبدالملک بن مروان کے اقدامات
افریقی مقبوضات پر دوبارہ قبضہ اور بغاوتوں کا استیصال ۔
ولید بن عبدالملک
(۱)… ترکستان کی فتوحات (۲)… چین پر فوج کشی اور خاقان کی اطاعت (۳)… سمر قند کی فتح (۴)… فتح سندھ (۵)… فتوحات اندلس (۶)… فتح قرطبہ (۷)… تدمیر کی صلح (۸) … طلیطلہ پر قبضہ (۹)… قرمونہ پر قبضہ (۱۰)… اشبیلیہ کی فتح (۱۱)… ماردہ کی فتح (۱۲)… شمالی اندلس کی فتوحات (۱۳)… بشکنس کی فتح (۱۴)… استوانس کی فتح (۱۵)… جلیقیہ کی فتح (۱۶)… فتوحات شام (۱۷)… بحرروم کے جزائر کی فتوحات ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمہم اللہ بلکہ بعد میں آنے والے تمام زمانوں کے مجاہدین کی کاوشیں ‘ کوئی ہوس ملک گیری نہیں تھیں ‘ ان حضرات کے سامنے تو ایسی واضح احادیث مبارکہ تھیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد کے مبارک اور منور عمل نے قیامت تک جاری رہنا ہے ۔ یہ حضرات انہی بشارتوں کو حاصل کرنے کیلئے میدان ِ جہاد میں اترے اور آج ہم انہی کی بے بہا قربانیوں کی بدولت مسلمان ہیں ۔ ایسی کئی احادیث ’’ القلم کے گذشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہیں ۔ ایک حدیث مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے :
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اب (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) ہجرت کی ضرورت نہیں رہی لیکن جہاد اور (اُس کی ) نیت تو (ہمیشہ کیلئے ) ہے اور جب تمہیں جہاد کیلئے نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکل پڑو ‘‘ ۔ (بخاری ‘الجہاد)
(۲)… قرآن مجید کے ۲۶ ویں پارے میں سورئہ محمد ہے ‘ جس کا دوسرا نام مفسرین کرام نے سورۃ القتال بھی لکھا ہے ‘ اس سورت کی آیت نمبر ۴ میں ایک جملہ ہے:
حتی تضع الحرب او زارھا
’’ (ان کافروں کو قتل کرو ) یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ‘‘ ۔
اس جملے کے تحت معروف مفسر امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :
امام مجاہدؒ فرماتے ہیں : (کہ مطلب یہ ہے کہ جہاد کا سلسلہ جاری رہے گا ) یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نزول ہو جائے ۔ امام مجاہدؒ نے گویا کہ اس حدیث شریف سے یہ تفسیر سمجھی ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق حتی یقاتل آخر ھم الدجال
یعنی میری امت کی ایک جماعت برابر حق پر ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے قتال کرے گا ۔ اور مسند احمد اور نسائی کی روایت ہے کہ حضرت سلمۃ بن نفیل رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا لوگوں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا ہے اور اسلحہ رکھ دیا ہے اور ’’جنگ نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے ہیں‘‘ اور لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ اب قتال ہے ہی نہیں تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب قتال آچکا ہے میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر چھائی رہے گی اور جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزی عطا ء فرمائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم(یعنی قیامت کا وقت ) آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے خوب سن لو کہ مسلمانوں کی زمین شام میں ہے اور گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت کے دن تک خیر رکھ دی گئی ہے ۔
اور امام قتادہ فرماتے ہیں کہ حتی تضع الحرب اوزارھا کا مطلب یہ ہے کہ شرک باقی نہ رہے اور اس آیت کا مفہوم دوسری آیت وقتلو ھم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین للہ جیسا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر )
اسی طرح امام فخر الدین رازی ؒ فرماتے ہیں :
وہ کون سا وقت ہو گا جب جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی ؟ ہم کہتے ہیں اس میں کئی اقوال ہیں جن سب کا حاصل یہ ہے کہ یہ وہ وقت ہو گا جب کافروں کی کوئی جماعت ایسی نہیں رہے گی جو مسلمانوں سے لڑ سکے ، کہا جاتا ہے کہ ایسا دجال کے قتل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ہو گا ۔ ( تفسیر کبیر )
الحمد للہ تعالیٰ! ’’القلم‘‘ کے گزشتہ شمارے میں پیش کی گئی روایات ِ احادیث اور آج کی معروضات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ جہاد کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ صرف زمانۂ رسالت کے ساتھ خاص تھا اور اب اس کا حکم باقی نہیں رہا ‘ سراسر گمراہی اور دجل وفریب ہے ۔ اس امت میں کوئی بھی قابلِ ذکر شخصیت کبھی بھی اس نظریے کی قائل نہیں رہی ہے ۔
یہ نظریہ بلکہ شیطانی وسوسہ دورِ حاضر کی پیدا وار ہے اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کو فریضۂ جہاد سے دور کر کے یہود و نصاریٰ کو خوش کرنا ہے ۔ جس طرح پوری دنیا میں اہلِ ایمان کو کفار کی یلغار کا سامنا ہے ‘ مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے ‘ کلمہ گو ہزاروں قیدی کفار کی جیلوں میں سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں اور بالخصوص ہمارے پڑوس ہندوستان میں تو کھلم کھلا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے ‘ مساجد منہدم کرنے اور اذان پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘ ان حالات کے تناظر میں تو ضرورت تھی کہ اہلِ ایمان میں جذبۂ جہاد کو مزید عام کیا جائے اور شوق ِ شہادت سے دلوں کو گرمایا جائے تاکہ زمین میں ہر سو پھیلا ہوا فساد ختم ہو ‘ شعائر اسلام کی حفاظت ہو اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔
لیکن افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں لیکن اُن کی تمام ترجدوجہد کا محور صرف یہی ہے کہ اہلِ ایمان کو کیسے فریضۂ جہاد سے دور کیا جائے ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لوگ اپنی مذموم کاوشوں میں بری طرح ناکام ہوں گے اور ان شاء اللہ ‘جہادی پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہراتے رہیں گے ۔ (جاری ہے…)
٭…٭…٭
فتنۂ انکار ِ جہاد کا دوسرا نظریہ ۲
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 449)
اگر کوئی ماہر ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں انتہائی غور و خوض کے بعد یہ رائے دے کہ اس مریض کے جسم میں جراثیم اس طرح پھیل گئے ہیں کہ اب اس کی زندگی بچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس شخص کی ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ ممکن ہے کہ خراب اور سڑی ہوئی ٹانگ کے اثراتِ بد پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں اور یہ آدمی اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تو مریض کے رشتہ داروں عزیز و اقارب اور بہی خواہوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو ایک زندہ شخص کی چیر پھاڑ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دے۔ کوئی ایک زبان ایسی نہیں ملے گی جو اس سنگدلی پر صدائے احتجاج بلند کرے۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ اپنے مریض کی ٹانگ کاٹنے پر ڈاکٹر کے شکر گزار ہوں گے، اس کی مہارت کے قصیدے پڑھیں اور آخر کار اسے بھاری فیس بھی ادا کریں گے۔
کیا وجہ ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر کی اس نشتر زنی کو درست سمجھتے ہیں وہ جہاد کو اﷲ کی رحمت باور کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا برگزیدہ پیغمبر (صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے تجربے اور وحی الٰہی کے ذریعے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ لوگ اب کفر و ظلم میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان کیلئے نصیحت کی کوئی بات اور ہدایت کا کوئی طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا، اب یہ لوگ انسانی معاشروں کیلئے ایسا ناسور بن چکے ہیں جنہیں اگر بروقت کاٹ کر جدا نہ کر دیا گیا تو ان کے زہریلے اثرات سے پوری انسانیت متاثر ہوگی اور کفر و شرک‘ ظلم و شقاوت کے جراثیم پوری انسانی سوسائٹی میں پھیل جائیں گے تو وہ حکم ربانی کے تحت اپنے جانبازوں کو ساتھ لے کر میدان جہاد میں آجاتا ہے تاکہ مسلمانوں میں سے خوش بخت اور سعادت مند لوگ شہادت اور غازی ہونے کا شرف حاصل کرسکیں، کافروں کی شان و شوکت ختم ہو اور انسانی معاشرہ کفر و ظلم کے بڑھتے ہوئے جراثیم سے پاک ہو جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے کسی گوشے میں بھی آپ ﷺ کی سیرت اور جہاد کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی شخص جہاد کے معنی میں کتنی تحریف کیو ںنہ کرے اور اس کیلئے من گھڑت تاویلیں پیش کرے لیکن سیرت طیبہ کا ایک ایک ورق اس کی تردید کر دے گا اور مسلمانو ںکو بتائے گا کہ تمہارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد کس کو کہا تھا؟ خود جہاد کس طرح کیا تھا اور دوسروں کیلئے کس جہاد کی ترغیب دی تھی؟
جی تو چاہتا ہے کہ منکرین ِ جہاد کے پہلے طبقے کے بارے میں مزید چند باتیں بھی لکھی جائیں کیونکہ مرزا غلام قادیانی ملعون کی آراء اور اُس کے افکار بھی اسی کے قریب قریب ہیں اور جہاد کے شرعی معنیٰ میں تحریف بھی اکثر یہ پہلے نظریہ کے ماننے والے ہی کرتے ہیں لیکن چونکہ ایک تو ان کی گمراہی زیادہ واضح ہے اور ہر کس و ناکس ذرا سے غور سے اسے سمجھ سکتا ہے ‘ دوسرا اس موضوع کو ہم نے سمیٹنا بھی ہے ‘ اس لیے منکرین ِ جہاد کے دوسرے نظریے کی طرف آتے ہیں ۔
موجودہ زمانہ کے بہت سے منکرین ِ جہاد نے یہ نظریہ تراشا ہے کہ زمانۂ رسالت میں تو جہاد بمعنی قتال فی سبیل اللہ موجود تھا اور اہل ایمان اور کفار کے درمیان معرکہ آرائیاں بھی برحق ہیں لیکن اب یہ سب کچھ منسوخ ہے اور اس دور میں کفار سے لڑائی کا حکم باقی نہیں رہا ۔ ظاہر ہے کہ اس باطل دعوی کے ثبوت کیلئے کوئی ایک بھی ڈھنگ کی دلیل نہیں ہے ‘ اس لیے یہ عام طور پر صرف اپنے تخیلات اور قیاس آرائیوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں ۔ اگر یہ کسی ایک آیت میں غلط تاویل کر کے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں تو خود دوسری آیت ہی ان کی تردید کر دیتی ہے۔
ان کے بے بنیاد خیال کی غلطی تو اسی سے واضح ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے بالکل آخری دنوں میں حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کی سرکردگی میں لشکر اسلام کو روانہ فرما کر مسلمانوں کو اس بات کی عملی تعلیم دی تھی کہ جہاد کا عمل صرف اس وقت تک محدود نہیں جب تک اﷲ کے نبی امت کے درمیان موجود ہوں‘ بلکہ اس عمل کو ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین نے جہاد کے میدانوں کو آباد رکھتے ہوئے اسلام کو جزیرہ نما عرب سے نکال کر شمالی افریقہ اور افغانستان جیسے دور دراز علاقوں میں پہنچا دیا۔ اپنے وقت کی دو عظیم طاقتوں روم اور ایران کو اس فریضۂ جہاد کے ذریعے مسلمانوں کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبو رکر دیا اور دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہ رہی جو اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کے جان و مال کیلئے خطرہ بن سکے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عملی ترغیب کے ساتھ مختلف احادیث میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جہاد جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور اس کی مختلف عملی شکلیں بطور معجزے کے آپﷺ نے خود بیان فرمائیں۔
ا۔ اگر تم نے جہاد چھوڑ دیا تو
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے ( جو سود حاصل کرنے کی ایک شکل ہوتی ہے) اور تم گائے کی دم پکڑ لو گے اور تم کھیتی باڑی پر راضی ہو کر جہاد چھوڑ دو گے تو اﷲ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو صرف اسی صورت میں دور ہوگی جب تم اپنے دین کی طرف لوٹ آئو گے‘‘ ۔ (ابو دائود شریف ج ۲ ص ۱۳۴)
یہ حدیث ملتے جلتے مختلف الفاظ کے ساتھ مسند احمد‘ کتاب الزہد‘ سنن کبریٰ‘ بیہقی اور مسند ابو یعلیٰ میں بھی منقول ہے۔
۲۔ میری امت سمندروں میں جہاد کرے گی
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اﷲ عنہا کے گھر جایا کرتے تھے وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کھلایا پلایا کرتی تھیں ( کیونکہ وہ آپ ﷺکی رضاعی خالہ ہونے کی وجہ سے مَحرَم تھیں) حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا ‘ حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ تھیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے۔ حضورﷺ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نیند آگئی، پھر آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ ام حرام رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : ’’اے اﷲ کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ کے ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر میں اس طرح سوار ہو کر جہاد کریں گے جس طرح بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھتے ہیں۔‘‘ ام حرام رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سر مبارک رکھا اور سوگئے، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہنستے ہوئے بیدار ہوئے تو ام حرام رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا کہ کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے جیسی بات ارشاد فرمائی کہ مجھے میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے۔ ام حرام رضی اﷲ عنہا نے کہا کہ: اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان میں شامل فرما دے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم پہلے لشکر والوں میں سے ہو۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا بحری جہاد میں تشریف لے گئیں مگر سمندر سے نکلنے کے بعد اپنی سواری سے گر کر انتقال فرما گئیں۔ (بخاری ۔ مسلم)
ظاہر ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بحری جہاد کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ سمندر میں جہاد کی سعادت حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں حاصل کی تھی۔ صدیوں بعد عثمانی ترکوں کے بحری بیڑوں نے دنیا کے معروف بحری راستوں پر مسلمانوں کا تسلط قائم کرکے اس پیشین گوئی کو عملی شکل دی تھی۔
۳۔ قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا
ایک مرتبہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’قسطنطنیہ ضرور فتح ہوگا۔ اس وقت اس شہر کا امیر بہترین امیر ہوگا اور وہ لشکر بھی بہترین لشکر ہوگا۔‘‘ (مسند احمد)
اسی طرح بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ حدیث بھی منقول ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری امت کی پہلی فوج جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوگی اﷲ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔‘‘
قیصر روم اپنے زمانے کی دو عظیم طاقتوں میں سے ایک تھا اس سے اس کے شہر قسطنطنیہ کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ابھی مسلمان جزیرہ نمائے عرب سے ہی نہیں نکل پائے تھے، ایشیا کے کنارے پر واقع اس شہر کو فتح کرنا مسلمانوں کیلئے ناقابل تصور سمجھا جاسکتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث میں جو فضیلت وارد ہوئی ہے اسے حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں نے کئی مرتبہ کوششیں کیں۔ سب سے پہلے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ۴۸ھ ۶۶۸ ء میں ایک لشکر قسطنطنیہ روانہ فرمایا، اس لشکر میں ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ‘ ابن عباس رضی اﷲ عنہ‘ ابن عمر رضی اﷲ عنہ‘ ابن زبیر رضی اﷲ عنہ‘ عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ‘ ابو درداء رضی اﷲ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شریک تھے۔ مختلف ادوار حکومت میں اس شہر کی فتح کیلئے مسلمان لشکر کشی کرتے رہے لیکن یہ سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے ایک ترک حکمران محمد الفاتح کی قسمت میں لکھی، جس نے ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو ۵۳ دنوں کے محاصرے کے بعد اسے مکمل طور پر فتح کر لیا۔
۴۔ ہندوستان پر مسلمان حملہ کریں گے
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اﷲ نے آگ سے بچا لیا ہے، ایک وہ جماعت جو ہندوستان میں جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگی۔‘‘ (نسائی شریف ج ۲ صفحہ ۶۳)
اس حدیث کے ذریعے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غزوۂ ہند کی فضیلت بتائی ہے اور ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ غزوئہ بدر میں حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان برپا ہونے والا معرکہ ختم نہیں ہوگا بلکہ مسلمان‘ مشرکین مکہ کی طرح ایک دن مشرکینِ ہند کے خلاف بھی نبرد آزما ہوں گے اور فریضۂ جہاد جاری و ساری رہے گا۔ ہندوستان پر سب سے پہلے کامیاب حملے کا اعزاز محمد بن قاسم کو حاصل ہے۔ ان کے بعد سترہ مشہور حملوں کیلئے سلطان محمود غزنویؒ کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن کشمیر اور احمد آباد میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے زندہ آگ میں جلائے جانے کے واقعات مسلمانوں کو بتا رہے ہیں کہ بشارت کا یہ دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ، خوش بخت لوگ اب بھی عزوئہ ہند کی سعادت کو حاصل کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
۵۔ جہاد جاری رہے گا:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جہاد اس وقت تک جاری ہے جب سے اﷲ نے مجھے بھیجا یہاں تک کہ اس امت کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا۔ (اس جہاد کو) کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل ختم نہیں کرسکے گا۔‘‘ (ابو دائود بحوالہ مشکوٰۃ)
اس حدیث شریف میں محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا کہ سعادت مندوں اور خوش بخت لوگوں کیلئے جہاد کا راستہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہوا ہے اور اسے کوئی شخص بند نہیں کرسکتا۔
مسلمانوں میں سے روح جہاد ختم کرنے کیلئے جو کوششیں ہوئیں ان کی داستان بہت طویل اور دردناک ہے۔ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں انگریز کے پروردہ ایک شخص غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا۔ علمائے حق کی جدوجہد سے قادیانی فتنہ تو بے نقاب ہو گیا لیکن بعد ازاں کچھ ایسے لوگوں نے مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کی ذمہ داری سنبھالی جو بظاہر تو جہاد کا انکار نہیں کرتے تھے لیکن وہ جہاد کی محض ایسی تشریح کرتے جس کا سیرت طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ ایسا جہاد جس میں نہ تیر و تفنگ کی ضرورت پڑے ‘ نہ اس میں زخم لگیں اور نہ اس میں شہادت کی سعادت میسر آئے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جہاد کا قرآن و سنت میں ذکر کردہ جہاد سے فرق بالکل واضح ہے۔ آج بھی مسلمانوں کے درمیان ایسے نام نہاد دانشور موجود ہیں جن کے خیال میں کفار اپنے مظالم میں بالکل برحق ہیں اور ان کے خلاف فلسطین و کشمیر میں برسرپیکار مجاہدین دہشت گرد ہیں۔
جہاد کو ختم کرنے کی یہ سب کوششیں اپنی جگہ ہوتی رہیں گی لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح طور پر بتا دیا کہ کسی کا ظلم یا کسی کا عدل اﷲ کے اس فریضے کو ختم نہیں کرسکتا۔ اس لئے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے عشاق ‘ مسلمان مائوں‘ بہنوں کے محافظ اور قرآن و سنت پر پختہ یقین رکھنے والے نوجوان آج اس مادی دور میں بھی اپنا سب کچھ لٹا کر اس فریضے کا احیاء کر رہے ہیں۔
۶۔ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک قتال کرے گی
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت قتال کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔‘‘ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ)
اس حدیث شریف کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اس دین کی بقاء اور تحفظ کیلئے اﷲ تعالیٰ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے مجاہدین کو پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے راستے میں کفار سے لڑیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اسی لئے دیکھیں کہ مسلمان جب مایوسی کے گہرے اندھیروں میں گھرنے لگتے ہیں، وسائل ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور دنیا والے ان کو ختم کرنے پر متفق و متحد ہو جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ غیب سے کسی مجاہد کو کھڑا کر دیتا ہے اور وہ دوبارہ سے امت میں فریضہ جہاد کا احیاء کرکے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔
چونکہ بہت سی احادیث میں مسلمانوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا ذکر آیا ہے اور اسے مسلمانوں کا نقطئہ عروج بتایا گیا ہے اس لئے شکستہ دلوں سے مایوسی کو دور کرنے کیلئے ہم آخر میں ان مستند روایات کا ذکر کرتے ہیں جس میں اس جہاد کی تفاصیل آئی ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی مشرقی سمت میں سفید مینار کے پاس ( یا دوسری روایت کے مطابق بیت المقدس میں امام مہدی کے پاس) ہوگا اس وقت امام (مہدی) نماز فجر پڑھانے کیلئے آگے بڑھ چکے ہونگے اور نماز کی اقامت بھی ہو چکی ہوگی۔
امام مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امامت کیلئے بلائیں گے مگر وہ انکار کریں گے اور فرمائیں گے کہ ( یہ اس امت کا اعزاز ہے کہ) اس کے بعض لوگ بعض کے امیر ہیں۔ جب امام (مہدی) پیچھے ہٹنے لگیں گے تو آپ علیہ السلام(ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر) فرمائیں گے کہ تم ہی نماز پڑھائو کیونکہ اس نماز کی اقامت تمہارے لئے ہوچکی ہے، چنانچہ اس وقت کی نماز امام مہدی ہی پڑھائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور رکوع سے اٹھ کر ’’سمع اﷲ لمن حمدہ‘‘ کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمائیں گے ’’قتل اﷲ الدجال و اظھر المؤمنین‘‘ (اﷲ تعالیٰ نے دجال کو قتل کر دیا اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرمایا)
غرض نماز سے فارغ ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دروازہ کھلوائیں گے جس کے پیچھے دجال ہوگا اور اس کے ساتھ سترّ ہزار مسلح یہودی ہوں گے۔ آپ ہاتھ کے اشارے سے فرمائیں گے کہ میرے اور دجال کے درمیان سے ہٹ جائو۔ دجال ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے۔ اس وقت جس کافر پر عیسیٰ علیہ السلام کے سانس کی ہوا پہنچے گی ‘ مر جائے گا اور جہاں تک آپ کی نظر جائے گی وہیں تک سانس پہنچے گا۔
مسلمان پہاڑ سے اتر کر دجال کے لشکر پر ٹوٹ پڑیں گے اور یہودیوں پر ایسا رعب چھائے گا کہ ڈیل ڈول والا یہودی تلوار تک نہ اٹھا سکے گا۔ غرض جنگ ہوگی اور دجال بھاگ کھڑا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور فرمائیں گے کہ میری ایک ضرب تیرے لئے مقدرہوچکی ہے جس سے تو نہیں بچ سکتا۔ اس وقت آپ علیہ السلام کے پاس دو تلواریں اور ایک حربہ ہوگا جس سے آپ دجال کو بابِ لد پر قتل کردیں گے۔ پاس ہی افیق نامی گھاٹی ہوگی۔ حربہ اس کے سینے کے بیچوں بیچ لگے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا خون جو آپ کے حربہ پر لگ گیا ہوگا مسلمانوں کو دکھائیں گے، بالآخر دجال کے ساتھیوں ( یہودیوں) کو شکست ہو جائے گی اور مسلمان ان کو چن چن کر قتل کریں گے۔ کسی یہودی کو کوئی چیز پناہ نہیں دے گی حتیٰ کہ درخت اور پتھر بول اٹھیں گے کہ یہ ہمارے پیچھے کافر یہودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر دو۔ باقی ماندہ تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور مسلمان خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب توڑ دیں گے۔( بحوالہ علامات قیامت اور نزول مسیح علیہ السلام)
اس سلسلے کی مزید چند باتیں ان شاء اللہ اگلی ملاقات میں عرض کی جائیں گی ( جاری ہے…)
٭…٭…٭
فتنۂ انکارِ جہاد کے تین اصول
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 448)
اسلام کے محکم اور قطعی فریضے ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی گرفت دشمنانِ اسلام پر جتنی مضبوط ہوتی جا رہی ہے ، اس کے منکرین اور اس میں گمراہ کن تاویلات کا ارتکاب کرنے والے بھی اپنی کوششیں تیز تر کر رہے ہیں ۔ پرانے شکاری نئے جال لے کر میدان میں اتر رہے ہیں اور امت کو اس فریضے کی برکات سے محروم کرنے کیلئے اُن کے قلم تیزی سے رواں دواں ہیں ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ وہ عظیم فریضہ جسے رب العالمین جل شانہ نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا، جسے رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی شکل میں سر ا نجام دے کر اُس کا معنیٰ و مفہوم قیامت تک کیلئے دوٹوک انداز میں بیان فرما دیا، جس فریضے کی حقانیت پر چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین اور فقہاء متفق ہیں اور جس عمل کی آج امت مسلمہ شدید محتاج ہے، یہ علم و دانش کے نام نہاد علمبردار خود آگے بڑھ کر اُس کا پرچم تھامتے اور جہادی یلغار کو اپنی بے جا تاویلات کے خس و خاشاک سے روکنے کے بجائے کفار کے ظلم و ستم کو اپنے بازو سے روکتے ۔
ان سے یہ تو نہ ہو سکا کہ راہِ جہاد کا مبارک غبار اُن کا مقدر بنتا کہ یہ سعادت تو ہر شخص کی قسمت میں نہیں لیکن انہوں نے من گھڑت باتوں اور بے سرو پا تاویلوں کے بل بوتے پر وہ کام کر دکھانا چاہا جو کفار سے براہِ راست نہ ہو سکا ۔ وہ لوگ جن کے کپڑوں کی استری بھی کبھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے خراب نہیں ہوتی، اُن لوگوں کے خلاف صف آراء ہو گئے جنہوں نے اپنے خون سے گلشن اسلام کی آبیاری کی اور اپنی جانیں بھی مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے قربان کر دیں۔ یہ خونِ شہداء کی کرامت ہے کہ آج امت مسلمہ میں جہاد کے خلاف بولنے والے دانش فروشوں کی کوئی اہمیت نہیں اور ان کی طرف سے جتنی جہاد کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے، شمعِ جہاد کی لو اُتنی ہی بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے گویا:
نورِ خدا ہے ’’ ان ‘‘ کی حرکتوں پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
انکارِ جہاد پر آج تک جتنی تحریریں لکھی گئیں، وہ بنیادی طور پر تین نکات کے گرد گھومتی ہیں، گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ فتنۂ انکار ِجہاد کے تین بنیادی اصول ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان کے جوابات ذہن نشین کر لے تو باقی تمام وساوس اور شبہات کے کاٹھ کباڑ کو وہ خود ہی نذر آتش کر سکتا ہے ۔
منکرینِ جہاد میں سے جو طبیعت کے ذرا زیادہ تیز اور عقل کے کچے واقع ہوئے ہیں، ان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام تو امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ یہ تو ہمیں کفار کے سامنے مسکرانا اور جھکنا ہی سکھاتا ہے۔ لڑائی اور قتل و قتال نہ رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام کا حصہ تھے اور نہ آج ہیں ۔ اس نظریے کا باطل ہونا اتنا واضح ہے کہ قرآن و سنت کا ایک ابتدائی طالب علم بھی اس کی کافی و شافی تردید کر سکتا ہے اور وہ قرآن مجید سے فرضیت ِ جہاد کی چند آیات، ذخیرۂ احادیث سے جہاد کے موضوع پر چند فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت ِ طیبہ سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و سرایاکی صرف فہرست ہی پیش کر کے ایسے ملحد کا راستہ روک سکتا ہے اور اس نظریے کی گمراہی واضح کر سکتا ہے ۔
انکارِ جہاد کے پہلے اصول کے قائلین وہی لوگ ہیں جو اخلاق اور بے غیرتی و بزدلی کے درمیان فرق سمجھنے سے بھی محروم ہیں اور یہ تاریخِ انسانیت کے ہرموڑ پر پیش آنے والے اہلِ حق اور باطل کے بچاریوں کے درمیان اُن معرکوں سے بھی آنکھیں چرالیتے ہیں، جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال مرحوم نے کہا تھا:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ لو لہبی
ایسے لوگ اگر قرآن مجید پڑھتے ہیں تو نجانے سورۃ البقرۃ کی یہ آیت مبارکہ پڑھتے وقت اُن کے احساسات کیا ہوتے ہیں، جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کتب علیکم القتال و ھو کرہ لکم و عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم و عسی ان تحبو ا شیئا و ھو شر لکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون ۔
ترجمہ: ’’ تم پر کفار کے خلاف لڑنا فرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے، اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو اور اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘
معروف مفسر ابن کثیر ؒ اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایمان والوں پر لازم کر رہے ہیں کہ وہ دینِ اسلام سے دشمنوں کے شر کو دور کریں اور امام زھری ؒ فرماتے ہیں کہ جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ و عملی طور پر لڑ رہا ہو یا ابھی گھر بیٹھا ہو ۔ وہ اس طرح کہ جو ابھی پیچھے بیٹھا ہے اُس پر بھی فرض ہے کہ جب اُس سے مدد مانگی اور تعاون طلب کیا جائے یا اُسے بھی میدا ن میں نکلنے کا حکم دیا جائے تو وہ بھی نکل کھڑا ہو، ہاں اگر اُس کی ضرورت ہی نہ پڑے تو پھر وہ بے شک بیٹھا رہے۔ میں کہتا ہوں کہ جہاد کی اسی فرضیت کے پیش نظر تو حدیث صحیح میں ہے کہ ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے اللہ کے راستے میں لڑائی کی اور نہ اس کے دل میں اس کا شوق ابھرا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘
اب ذرا غور فرمائیں کہ کہاں قرآن مجید کی اتنی واضح آیت مبارکہ (اور یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسی درجنوں آیات بلا تکلف پیش کی جا سکتی ہیں) اور کہاں ان مدعیانِ اسلام کی دیدہ دلیری کہ اپنے مزعومہ اخلاق کو بنیاد بنا کر اسلام کے ایک اہم فریضے کا ہی انکار کر رہے ہیں ۔
اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے سیرتِ طیبہ کے اہم ترین معرکے غزوئہ بدر کی چند جھلکیاں بھی پڑھتے ہیں تاکہ ان لوگوں کے اس باطل دعویٰ کی حقیقت آشکارا ہو جائے کہ زمانۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد و قتال تھا یا نہیں؟
کون،کہاں قتل ہوگا؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ جس شب کی صبح کو بدر کا میدانِ کارزار گرم ہونے والا تھا، اس شب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو میدانِ کارزار کی طرف لے کر چلے تاکہ اہل مکّہ کی قتل گاہیں ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیں، چنانچہ آپااپنے دست مبارک سے اشارہ فرماتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ھذا مصرع فلان غداً ان شاء اللّٰہ (یہ ہے فلاں کی قتل گاہ صبح کو ان شاء اللہ) اور مقام قتل پر ہاتھ رکھ کر نام بنام اسی طرح صحابہ کو بتلاتے رہے۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپاکو حق دے کر بھیجا، (اگلے دن) کسی ایک نے بھی اس جگہ سے معمولی تجاوز نہ کیا جہاں آپانے اپنے دست مبارک سے اس کے قتل کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ (رواہ مسلم)
’’اے اللّٰہ! انہیں ہلاک فرما‘‘
معرکہ کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کی عظیم الشان جماعت کو پورے ساز وسامان کے ساتھ میدانِ کارزار کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو بارگاہ ایزدی میں عرض کیا:
’’اے اللہ! یہ قریش کا گروہ ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ مقابلہ کیلئے آیا ہے تیری مخالفت کرتا ہے اور تیرے بھیجے ہوئے پیغمبر کو جھٹلاتا ہے، اے اللہ! اپنی فتح و نصرت نازل فرما، جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا، اور اے اللہ ان کو ہلاک کر۔‘‘ (سیرۃ ابن ہشام، فتح الباری)
اے بنی ہاشم! اٹھو
جنگ بدر کی ابتداء میں جب کافر وں کے تین جنگجو میدان میں آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں سے اپنے مدّ مقابل طلب کئے تو انصارِ مدینہ میں سے تین حضرات ان کے مقابلے کیلئے نکلے، انہیں دیکھ کر مشرکین مکّہ نے کہا کہ ہم تو اپنی قوم کے افراد سے ہی مقابلہ کریں گے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم کو نام بنام پکار کر ان کے مقابلے کیلئے نکلنے کا حکم فرمایا۔ اس موقع پر آپا نے ارشاد فرمایا:
’’اے بنی ہاشم! اٹھو اس حق کے ساتھ جس کو اللہ نے تمہارے نبی کو دے کر بھیجا ہے، یہ لوگ باطل کو لے کر اللہ کا نور بجھانے آئے ہیں۔‘‘
اے اللّٰہ! میں تیرے عہد کے وفا کی درخواست کرتا ہوں
جب میدان کارزار گرم ہوگیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے بنائے گئے چھپّر سے برآمد ہوئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفوف کو ہموار کیا اور پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لئے ہوئے عریش (چھپّر) میں واپس تشریف لے گئے اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر چھپّر کے دروازے پر پہریداری کیلئے کھڑے ہوگئے، حضور پر نورانے جب اپنے اصحاب اور احباب کی قلت اور بے سروسامانی کو اور اعداء کی کثرت اور قوت کو دیکھا تو نماز کیلئے کھڑے ہوگئے، دورکعت نماز پڑھی اور دعاء میں مشغول ہوگئے اور یہ دعاء فرمانے لگے:
’’اے اللہ! میں تیرے عہد اور وعدہ کی وفا کی درخواست کرتا ہوں اور اے اللہ! اگر تو چاہے تو تیری پرستش نہ ہو۔‘‘
اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خشوع و خضوع کی ایک خاص کیفیت طاری تھی۔ بارگاہ خداوندی میں کبھی سر بسجود تضرع و ابتہال فرماتے اور کبھی سائلانہ اور فقیرانہ انداز میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر فتح و نصرت کی دعا مانگتے تھے۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ دوش مبارک سے چادرگر پڑتی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے بدر کے دن کچھ قتال کیا اور آپاکی طرف آیا، دیکھا کہ آپاسر بسجود ہیں اور یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ کہتے جاتے ہیں، میں لوٹ گیا اور قتال میں مصروف ہوگیا، کچھ دیر بعد پھر آپاکی طرف آیا پھر اسی حال میں پایا۔ تین مرتبہ اسی حالت میں پایا، چوتھی بار اللہ نے آپاکو فتح دی۔ (النسائی والحاکم، فتح الباری)
صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مشرکین مکہ ایک ہزار ہیں اور آپاکے اصحاب تین سو سے کچھ زیادہ ہیں، تو آپاعریش (چھپّر) میں تشریف لے گئے اور قبلہ رو ہو کر بارگاہ خداوندی میں دعاء کے لئے ہاتھ پھیلائے:
’’اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا فرما۔ اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی۔‘‘
دیر تک ہاتھ پھیلائے ہوئے یہی دعا فرماتے رہے کہ ’’اے اللہ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔‘‘ اسی حالت میں چادر مبارک دوش مبارک سے گر پڑی۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چادر اٹھا کر دوش مبارک پر ڈال دی اور پیچھے سے آکر آپ اکی کمر سے چمٹ گئے، یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ بخاری کی روایت میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپاکا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا:
’’ بس کافی ہے! آپ نے اپنے اللہ کے حضور میں بہت الحاح وآہ وزاری کی۔‘‘
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’بس اللہ سے آپ کا یہ سوال کافی ہے، وہ اپنے وعدہ کو ضرور پورا فرمائے گا۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
(ترجمہ) ’’یاد کرو اس وقت کو کہ جب تم اللہ سے فریاد کر رہے تھے، پس اللہ نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جو یکے بعد دیگرے آنے والے ہوں گے اور نہیں بنایا اللہ نے اس امداد کو مگر محض تمہاری بشارت اور خوشخبری کیلئے اور اس لئے کہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور حقیقت میں مدد نہیں مگر اللہ کی جانب سے، بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپااس وقت عریش (چھپّر) سے باہر تشریف لائے اور زبان مبارک پر یہ آیت تھی:
(ترجمہ) ’’عنقریب کافروں کی یہ جماعت شکست کھائے گی اور پشت پھیر کر بھاگے گی۔‘‘
ابن اسحٰق کی روایت میں ہے کہ دعا مانگتے مانگتے آپ اپر نیند طاری ہوگئی، تھوڑی دیر بعد آپ ابیدار ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:
’’اے ابوبکر تجھ کو بشارت ہو، تیر ے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبرئیل امین گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہیں، دانتوں پر ان کے غبار ہے۔‘‘
’’وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘
معرکۂ بدر کے دوران ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عریش سے باہر تشریف لائے اور جہاد و قتال کی ترغیب دی اور فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، آج جو شخص صبر و تحمل اخلاص اور صدق نیت کے ساتھ اللہ کے دشمنوں سے سینہ سپر ہو کر جہاد کرے گا اور پھر اللہ کی راہ میںمارا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اس وقت کچھ کھجوریں تھی، جن کے کھانے میںمشغول تھے۔ یکایک جب یہ کلمات طیبات ان کے کان میں پہنچے تو سنتے ہی بول اٹھے:
’’واہ، واہ میرے اور جنگ کے مابین فاصلہ ہی کیا رہ گیا، مگر صرف اتنا کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔‘‘
یہ کہہ کر کھجوریں ہاتھ سے پھینک دیں اور تلوار لے کر جہاد شروع کیا اور لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
عوف بن حارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! پروردگار کو بندہ کی کیا چیز ہنساتی ہے۔‘‘ (یعنی خوش کرتی ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ کا برہنہ ہو کر خدا کے دشمن کے خون سے اپنے ہاتھ کو رنگ دینا۔‘‘
عوف رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی زرہ اتار کر پھینک دی اور تلوار لے کر قتال شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
لیکن وہ اللّٰہ نے پھینکی
معرکہ کی ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین کے اشارے سے ایک مشت خاک لے کر مشرکین کے چہروں پر پھینک ماری اور صحابہ کو حکم دیا کہ کافروں پر حملہ کرو، مشرکین میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ اور ناک اور منہ میں یہ مٹی نہ پہنچی ہو۔ خدا ہی کو معلوم ہے کہ اس مشتِ خاک میں کیا تاثیر تھی کہ اس کے پھینکتے ہی دشمن بھاگ اٹھے۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
(ترجمہ) ’’اور نہیں پھینکی وہ مشتِ خاک آپ نے جس وقت کہ آپ نے پھینکی، لیکن اللہ نے پھینکی۔‘‘
ہم نے ا پنے ربّ کا وعدہ سچا پایا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو ایک نہایت خبیث، ناپاک اور گندے کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا ، کنویں میں جو ڈالے گئے وہ سردار کفار تھے اور باقی مقتولین کسی اور جگہ ڈلوادئیے گئے۔اور آپاکی یہ عادت شریفہ تھی کہ جب آپاکسی قوم پر غلبہ اور فتح پاتے تو تین شب وہاں قیام فرماتے۔ اسی عادت کے مطابق جب تیسرا روز ہواتو آپانے سواری پر زین کسنے کا حکم دیا۔ حسب الحکم پھر آپاچلے اور صحابہ آپاکے پیچھے چل رہے تھے۔ صحابہ کا یہ خیال تھا کہ شاید کسی ضرورت کیلئے تشریف لے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپااس کنویں کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے اور نام بنام فلاں بن فلاں کہہ کر آواز دی اور یا عتبہ اور یا شیبہ اور یا امیّہ اور یا اباجہل اس طرح نام لے کر پکارا اور فرمایا:
’’تم کو یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے بے شک جس چیز کا ہمارے ربّ نے ہم سے وعدہ کیا ہم نے اس کو حق پایا۔ کیا تم نے بھی اپنے ربّ کے وعدہ کوحق پایا؟‘‘ (بخاری)
ابن اسحٰق کی روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ ’’اے گڑھے والو! تم اپنے نبی کے حق میں بہت بُرا قبیلہ تھے، تم نے مجھ کو جھٹلایا اور لوگوں نے میری تصدیق کی، تم نے مجھ کو نکالا اور لوگوں نے ٹھکانہ دیا۔ تم نے مجھ سے قتال کیا اور لوگوں نے میری مدد کی۔ امین کو تم نے خائن بتلایا اور صادق کو کاذب کہا۔ اللہ تم کو بری جزا دے۔‘‘ بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ کیاآپ بے جان لاشوں سے کلام فرماتے ہیں؟‘‘ آپ انے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے کلام کو تم ان سے زیادہ نہیں سنتے، مگر وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (جاری ہے …)
٭…٭…٭
ایک ایمانی تحفہ
کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 447)
اسلام آباد کے مضافات میں واقعہ دینی ادارے ’’ مرکز الجمیل الاسلامی‘‘ میں آج عید کا سا سماں تھا۔ اساتذہ اور طلبہ سب ہی شاداں و فرحاں تھے کہ سالانہ اجتماع کی تقریب میں اُن کے سامنے مہمانانِ گرامی کا تانتا بند ھا ہوا تھا ، منتظمین جو کئی ہفتوں سے شب و روز اس اجتماع کی تیاری میں مصروف تھے ‘ آج وہ بھی رب کریم کے دربار میں سر بسجود نذرانۂ شکر ادا کر رہے تھے ۔
تلاوت کے بعد پہلے ایک طالب علم نے اپنی خوبصورت اور پر سوز آواز میں الاسماء الحسنیٰ سنائے ۔ نعتیہ کلام کے بعد دو طلبہ نے عربی میں تقاریر پیش کیں۔ ایک معصوم بچے نے عربی میں شمائل کی وہ مشہور روایت مجمع کو زبانی سنائی ‘ جس میں سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ اور حسن و جمال کا تذکرہ ہے ۔ آخر میں ایک نو عمر طالب علم نے دین کے پانچ شعبوں کے بارے میں چالیس احادیث مبارکہ ‘حوالہ اور آسان ترجمے کے ساتھ سنا کر اہل ایمان کے دل جیت لیے ۔ مہمان ِ خصوصی حضرت مفتی عبدالرئوف اصغر صاحب زید مجدھم نے بجا طور پر فرمایا کہ ان احادیث مبارکہ کے بعد تو کسی تقریر کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔
مجالس میں تشریف فرما بعض قابلِ احترام مہمانوں کا اصرار تھا کہ یہ 40احادیث ’’ القلم‘‘ میں بھی شائع ہونی چاہئیں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو یہ گلدستۂ احادیث یاد کروا سکیں ۔ اُنہی کے حکم کی تعمیل میں یہ معطر ‘ منور اور مبارک مجموعۂ نذرِ قارئین ہے ۔ آئیں!ان فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ایمان کو جلا بخشیں اور اندازہ لگائیں کہ الحمد للہ! آج بھی مدارسِ دینیہ کتنی قابلِ قدر دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
۱…ایمانیات
(۱) قَالَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اَنْ تُؤْ مِنَ بِا للّٰہِ وَ مَلٓائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ تُؤْ مِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ۔
( مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الایمان ) (ترجمہ) … ’’ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ پر ‘ اُس کے فرشتوں پر ‘ اُس کی کتابوں پر ‘ اُس کے رسولوں پر ‘ آخرت پر ایمان لائو اور تقدیر اچھی ہو یا بری اُس پر بھی ایمان لائو ۔‘‘
(۲)وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اَحَدٌ مِنْ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّاکَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ ۔
( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان )
(ترجمہ) … ’’اُس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اس امت میں سے جس یہودی یا عیسائی نے بھی میرے بارے میں سنا اور پھر مجھے جس دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے‘ اُس پر ایمان لائے بغیر مرگیا تو وہ جہنمی ہو گا ‘‘۔
(۳) اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَاَفْضَلُھَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَدْنَا ھَا اِمَا طَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان )
(ترجمہ) ’’ ایمان کے ستر سے زیادہ حصے ہیں ۔ ان میں سے بہترین لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے آسان راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا ہے ۔ ‘‘
(۴) اَلْحَیَاء شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان )
(ترجمہ) … ’’حیاء ایمان کا حصہ ہے ‘‘ ۔
(۵) ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ مَنْ رَضِیَ بِاللَّہِ رَ بًّا وَ بِا لْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان )
(ترجمہ) … ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ‘ اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا تو وہ ایمان کا مزہ چکھ لے گا ‘‘ ۔
(۶) اَلْمُؤْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَا ئِھِمْ وَ اَمْوَالِھِمْ ۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان )
ترجمہ :… ’’مؤمن تو وہ ہی ہے کہ لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں اس سے مطمئن رہیں ‘‘۔
(۷) اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَ سَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ ُمؤْمِنٌ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان )
ترجمہ :…’’ جب تمہیں تمہاری نیکی خوش کر دے اور تمہیں تمہاری برائی غمگین کر دے تو تم واقعی مؤمن ہو‘‘۔
(۸) لَا یُؤْ مِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہٖ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنْ ۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان )
ترجمہ :… تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں ہو سکتا ‘ جب تک میں اُسے اُس کے والد ‘ اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔
۲…عبادات
(۱) بَیْنَ الْعَبْدِ وَ بَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الصلوٰۃ)
ترجمہ :… ’’ بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز تو نماز ہے ‘‘ ۔
(۲) اِذَا اَتَاکُمُ الْمُصَدِّقُ فَلْیَصْدُرُ عَنْکُمْ وَھُوَ عَنْکُمْ رَاضٍ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الزکوٰۃ)
ترجمہ :…’’جب تم سے زکوٰۃ وصول کرنے والا آئے تو چاہیے کہ وہ تم سے خوش واپس جائے ‘‘۔
(۳) فِیْ الْجَنَّۃِ ثَمَانِیَۃُ اَبْوَابٍ مِنْھَا بَابٌ یُسَمَّی الرَّیَّانَ لَا یَدْخُلُہُ اِلَّا الصَّائِمُوْنَ ۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصوم)
ترجمہ :…’’ جنت میں آٹھ دروازے ہیں‘ ایک اُن میں سے باب الریان ہے‘ جس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے‘‘۔
(۴) اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَائٌ اِلَّاالْجَنَّۃُ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب المناسک)
ترجمہ :…’’ نیکی والا حج ‘ اس کا بدلہ تو جنت ہی ہے‘‘۔
(۵) مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔( مشکوٰۃ المصابیح، باب ذکر اللہ عزوجل)
ترجمہ :…’’وہ شخص جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ‘ ان کی حالت زندہ اور مردے جیسی ہے ‘‘۔
(۶) مَنْ قَرَأَ ثَلاَثَ اٰیَاتٍ مِنْ اَوَّلِ الْکَھْفِ عَصَمَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب فضائل القرآن)
ترجمہ :…’’ جو شخص سورئہ کہف کی ابتدائی تین آیات پڑھ لے تو دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا ‘‘۔
(۷) مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلٰوۃً وَّاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا۔( مشکوۃ المصابیح، باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ)
ترجمہ :…’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھے گا ‘ اللہ تعالیٰ اُس پر دس رحمتیں نازل فرمائیں گے ‘‘ ۔
(۸)مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَغْزُ وَ لَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ نِّفَاقٍ ۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجہاد)
ترجمہ :…’’ جو شخص اس حال میں مرا کہ اُس نے نہ تو جہاد کیا اور نہ ہی اُسے جہاد کا خیال آیا تو وہ منافقت کی ایک قسم پر مرے گا‘‘۔
۳… معاشرت
(۱) اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان )
ترجمہ :…’’ مسلمان تو وہ ہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی برائی سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ ‘‘
(۲) لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الایمان )
ترجمہ :…’’ اُس کاکوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں‘‘۔
(۳) لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہٗ ۔ (شعب الایمان ، الایفاء بالعقود)
ترجمہ:…’’ اُس کا کوئی دین نہیں ‘ جو عہد پورا نہیں کرتا ‘‘۔
(۴)اَلْمَجَالِسُ بِا لْاَمَانَۃِ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ مجلسوں کی خاص باتیں امانت ہوتی ہیں‘‘۔
(۵) لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ چغل خور ‘ جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔ ‘‘
(۶) لَیْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا اِلٰی عَصَبِیَّۃٍ وَلَیْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلٰی عَصَبِیَّۃٍ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ جو عصبیت یعنی قومیت وغیرہ کی دعوت دے وہ ہم میں سے نہیں‘ وہ جو عصبیت پر مرا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔
(۷)لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عَلٰی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب القصاص)
ترجمہ :…’’ پوری دنیا کا تباہ ہو جانا‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مسلمان شخص کے قتل سے ہلکا ہے ۔ ‘‘
(۸) لِجَھَنَّمَ سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ ‘ بَابٌ مِّنْھَا لِمَنْ سَلَّ السَّیْفَ عَلٰی اُمَّتِیْ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،باب ما یضمن من الجنایات)
ترجمہ :…’’ جہنم کے سات دروازے ہیں‘ ان میں سے ایک میں وہ لوگ جائیں گے ‘ جو میری امت پر ناحق تلوار تان لیں گے ‘‘۔
۴… معاملات
(۱) طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب البیوع)
ترجمہ :…’’ حلال روزی کمانا ‘ دیگر فرائض کے بعد ایک فرض ہے ‘‘ ۔
(۲) اِنَّ اَطْیَبَ مَا اَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَاِنَّ اَوْلَادَ کُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ ۔( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع)
ترجمہ :…’’ بے شک تم جو اپنی کمائی سے کھاتے ہو وہ سب سے پاکیزہ ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے ‘‘۔
(۳) لَعَنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ وَ شَارِبَھَا وَ سَا قِیَھَا وَ بَائِعَھَا وَ مُبْتَاعَھَا وَ عَاصِرَھَا وَ مُعْتَصِرَھَا وَ حَامِلَھَا وَالْمَحْمُوْلَۃَ اِلَیْہِ۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب البیوع)
ترجمہ :…’’ اللہ تعالیٰ نے شراب ‘ اُس کے پینے والے ‘ اُس کے پلانے والے ‘ اُس کے بیچنے والے ‘ اُس کے خریدنے والے ‘ اُس کے نچوڑنے والے‘ اُس کو نچوڑنے کا حکم دینے والے‘ اُس کو اٹھانے والے اور جس کے پاس لے جا رہا ہو‘ سب پر لعنت کی ہے ‘‘۔
(۴) اَلتُّجَّارُ یُحْشَرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا اِلَّامَنِ اتَّقیٰ وَ بَرَّ وَ صَدَقَ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ،باب المساھلۃفی المعاملات)
ترجمہ :…’’ تاجر قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اُن تاجروں کے جو متقی ‘ نیکی کرنے والے اور سچ بولنے والے ہوں‘‘۔
(۵) مَنْ مَّاتَ وَ ھُوَ بَرِیْ ٌٔ مِّنَ الْکِبْرِ وَ الْغُلُولِ وَالدَّیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ، باب الافلاس والا نظار)
ترجمہ :…’’ جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ تکبر ‘ خیانت اور قرض سے بری ہے ‘ وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘
(۶) اَلْبَیِّعَانِِِِِ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا۔‘‘ ( مشکوٰۃ المصابیح ، باب الخیار)
ترجمہ :…’’ جدا ہونے سے پہلے پہلے بیچنے اور خریدنے والے کو قبول کرنے کا اختیار رہتا ہے ‘‘۔
(۷) نَھَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْعِ السِّنِیْنَ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،باب المنھی عنھا من البیوع)
ترجمہ :…’’ رسول اللہ ﷺ نے باغات وغیرہ کی کئی سال پہلے خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے ‘‘ ۔
(۸) اَعْطُوْ ا الْاَ جِیْرَ اَ جْرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَّجِفَّ عَرَقُہٗ ۔( مشکوٰۃ المصابیح ،باب الاجارۃ)
ترجمہ :…’’ مزدور کو اُس کی مزدوری ‘ اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو ‘‘۔
۵… اخلاقیات
(۱) اِنَّ اَثْقَلَ شَیْ ٍٔ یُوْ ضَعُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ حَسَنٌ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ بے شک قیامت کے دن مؤمن کے ترازو میں سب سے بھاری عمل اچھے اخلاق ہوں گے ‘‘۔
(۲)اِنَّ لِلْمُسْلِمِ لَحَقًّا اِذَا رَاٰہُ اَخُوْہُ اَنْ یَّتَزَحْزَحَ لَہٗ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ بے شک مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب اُسے اُس کا مسلمان بھائی دیکھے تو وہ اُس کیلئے بطوراکرام جگہ دے دے ‘‘۔
(۳) اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِا للّٰہِ مَنْ بَدَأَ بِالسَّلاَمِ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح ،باب السلام)
ترجمہ :…’’ اللہ کے سب سے نزدیک وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے ‘‘۔
(۴) لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیْ وَ لٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَ صَلَھَا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب السلام)
ترجمہ :…’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو صرف برابر کا بدلہ دے دے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اُس کے ساتھ رشتہ توڑا جائے وہ تب بھی صلہ رحمی کرے‘‘۔
(۵) اِذَا اَکَلَ اَحَدُ کُمْ فَلْیَاْکُلْ بِیَمِیْنِہٖ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الاطعمہ )
ترجمہ :…’’ جب تم میں سے کوئی کھائے تو داہنا ہاتھ استعمال کرے ‘‘۔
(۶ ) مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یَّخْرُجَ الرَّجُلُ مَعَ ضَیْفِہٖ اِلیٰ بَابِ الدَّارِ ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح،باب الضیافۃ)
ترجمہ :…’’ یہ بھی سنت ہے کہ انسان اپنے مہمان کو رخصت کرنے کیلئے اُس کے ساتھ گھر کے دروازے تک آئے ‘‘۔
(۷) مَنْ رَاٰی عَوْرَۃً فَسَتَرَھَا کَانَ کَمَنْ اَحْیٰ مَوْء وْدَۃً ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح باب السلام)
ترجمہ :…’’ جس نے کسی کی برائی دیکھی اور اُسے دوسروں سے چھپالیا تو گویا اس نے زندہ دفن کی ہوئی بچی کو بچا لیا ۔
(۸) مَنْ قَضٰی لِاَ حَدٍ مِّنْ اُمَّتِیْ حَاجَۃً یُرِیْدُ اَنْ یَّسُرَّہٗ بِھَا فَقَدْ سَرَّنِیْ وَ مَنْ سَرَّنِیْ فَقَدْ سَرَّ اللّٰہَ وَ مَنْ سَرَّ اللّٰہَ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃََ۔
( مشکوٰۃ المصابیح‘ باب السلام) ترجمہ :…’’ جس شخص نے میرے کسی امتی کی ضرورت اس لیے پوری کر دی کہ وہ خوش ہو جائے تو گویا اُس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا گویا اُس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جو اللہ تعالیٰ کو خوش کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اُس کو جنت میں داخل کر دیں گے ‘‘ ۔
٭…٭…٭