آوازنہیں آرہی!
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد لاکھوں قبائلی مسلمانوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات نے کچھ ایسا بے چین کردیا کہ ہم سے رہا نہ گیا اور ہم اپنے دو دوستوں انور ذہین اور جمال الدین کے ہمراہ جنوب سے شمال کی جانب عازم سفر ہوگئے۔ ہم متاثرین کے لیے کوئی امدادی سامان لے کر جانے کی پوزیشن میں تو نہیں تھے تاہم متاثرہ بھائیوں کے درمیان جاکر ان کے دُکھ درد میں شریک ہونے کا جذبہ ہی ہمارا وہ سامان سفر تھا جس کے بل بوتے پر ہم نے ایک لمبے راستے کا نتخاب کیا۔
اگلے روز ہم قبائلی علاقوں سے آئے متاثرین کے ایک بڑے کیمپ میں موجود تھے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے خیموں میں پورے پورے خاندان بسے ہوئے تھے اور ہر خیمے کے اندر دُکھ، درد، پریشانی، غم اور مشکلات کی ایک الگ کہانی تھی۔ کہیں بڑے بوڑھے خاندان کے لیے راشن اور ضروریات زندگی کے حصول کے لیے سرگردان تھے تو کہیں پھول جیسے بچے چلچلاتی دھوپ اور سخت گرمی کے موسم میںننگے سر اور ننگے پیر اِدھر اُدھر چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے معصوم چہروں پر خوف و دہشت، بے یقینی اور اپنے گھر بار، اسکول، کھلونوں اور جانوروں سے دور ہونے کے دکھ کا احساس صاف طور پر پڑھا جاسکتا تھا۔
ہم نے کندھے پر راشن کا تھوڑا سا سامان اٹھائے ہوئے ایک قبائلی کو روک کر اسے اس کی مشکلات کا پوچھا تو اس نے سامان نیچے رکھتے ہوئے پہلے تو ایک لمبا سانس لیا اور پھر گویا ہوا: ’’بھائی! ہمارا سب کچھ لٹ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہاں اس کیمپ میں ہمیں اپنے بچوں کے لےا تھوڑا سا راشن مل جاتا ہے،
مگر ہم اس طرح مانگ کر کھانے کی زندگی کے تو عادی نہیں ہیں۔ ہم دوسروں کو کھلانے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے بھر ے پرے گھر چھوڑنے پڑے ہیں۔ یہاں اس گرمی میں ہمیں ایک عذاب کا سامنا ہے، نجانے کب تک ہم اس طرح کسمپرسی میں رہیں گے۔ یہاں بچوں اور پردہ دارخواتین کے لیے رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم نے مشترکہ عارضی بیت الخلائوں اور غسل خانوں کے استعمال کا کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ ‘‘
قبائلی تفصیل کے ساتھ ہمیں اپنا دکھ بیان کر رہا تھا لیکن گرمی شدت اتنی تھی کہ ہمارے لیے کھڑا رہنا محال ہوگیا۔ ہم اندازہ کرسکتے تھے کہ آگ بر ساتا سورج خیموں کے اندر موجود بزرگوں، بیماروں، خواتین اور بچوں پر کیا کیا قیامتیں ڈھا رہا ہوگا۔ ہمارے ساتھی انور ذہنی نے اپنا ڈیجیٹل کیمرہ نکالا اور دُکھ اور دَرد کے ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا شروع کردیا تاکہ سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے عامۃ امسلمین اور مخیر حضرات کو متاثرین کی امداد کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔ ’’خاموش پکار‘‘ عنوان سے روزنامہ اسلام کے فرنٹ صفحے پر دُکھ بھری داستانیں لکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کیمرہ تو نہیں تھا، تاہم ہمیں یہاں ایک عدد خورد بین کی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ ننگی آنکھ سے ہمیں یہاں جوکچھ دکھائی دے رہا تھا، اس میں بھوک اور پیاس سے بلکتی انسانیت تو نظر آرہی تھی، مگر انسانیت کے وہ خرس خواہ اور غم خوار کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے جو میڈیا میں ہمیشہ انسانیت کی بات کرتے ہیں، جن کی نیندیں دکھی انسانیت کی خاطر حرام ہوجایا کرتی ہیں۔
ہم کسی این جی او، سول سوسائٹی کی تنظیم یا غیر ملکی ادارے کے کسی ایک فرد کو دیکھنے کے متمنی تھے جو ہمیں بتاتا کہ اس میدان غم و آلام میں سسکتے انسانوں کے لیے وہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان صحافیوں، اینکرز اور کالم نگاروں سے بھی یہاں ملنے کا اشتیاق تھا جو صبح شام حکومت اور فوج کوقبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کی ہلا شیری دے رہے تھے۔ ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بھی ملنا تھا جن کے رہنما ’’مارو اور کچل دو‘‘ کے نعرے لگاکر حکمرانوں کو قبائل میں کشت و خون پر اکسا رہے تھے، مگر اے بسا آرزو کی خاک شدہ۔ ہمیں یہاں مذکورہ تمام طبقات میں سے کوئی ایک فرد بھی دکھائی نہیں دیا۔
یہاں اگر کچھ چلت پھرت نظر آئی تو ان چندڈاڑھی اور پگڑی والے افراد اور دینی رفاہی اداروں کے کارکنوں کی نظر آئی جن کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے، جن پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، جن کے اثاثے منجمد کیے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ صورت حال عجیب لگی۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کسی اور دنیا میں ہیں۔ ہم نے صورت حال کو سمجھنے اور قبائلی متاثرین کے لیے انسانیت کے مقامی اور عالمی علم برداروں کی خدمات اور سرگرمیوں کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے اپنے دوست مسٹر کلین کو فون ملایا اور انہیں بتایا کہ ہم متاثرین کے کیمپ میں موجود ہیں، یہاں دہشت گرد تنظیموں کے ارکان تو کام کر رہے ہیں، مگر این جی اوز کا کہیں وجود نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ مسٹر کلین نے ہماری بات سن کر پہلے تو کہا: ’’ آپ کی آواز نہیں آرہی۔ ‘‘ ہم نے فون کاٹ کر دوبارہ ملادیا تو کہنے لگے: ’’ملاجی! اس وقت میری فیورٹ ٹمہ برازیل کا میچ چل رہا ہے، اس ٹاپک پر بعد میں بات کریں گے…‘‘ یہ کہہ کر مسٹر کلین نے فون بند کرلیا۔ ٭٭٭
بجنگ آمد!
گزشتہ ہفتے سندھ و بلوچستان کے ساحلی علاقے طوفانی لہروں کی زد میں رہے۔ میڈیا نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر طوفان کے خطرے کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ،جیسے یہاں سب کچھ بہہ جانے کا امکان ہے، اس لیے ساحلی علاقوں میں رہنے والے لوگ خاصے سراسیمہ رہے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ شہر میں ہلکی پھلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد گلی میں نکلی ہوئی اس بوندا باندی سے ’’مستفید‘‘ ہورہی تھی اور ہم یہ سارا منظر دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ اتنے میں دیکھا، ہمارے دوست مسٹر کلین سر پر اخبار کا شیڈ سا بنائے آرہے ہیں، مگر ان کے چہرے پر تازگی کی بجائے خوف و دہشت کے سے آثارردکھائی دے رہے ہیں۔ موصوف گرد و پیش سے بے نیاز ہمارے پاس سے گزرنے لگے تو ہم نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان کے حسبِ حال ایک شعر پڑھا؎
کاغذ کی ناؤ سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آلیا!
مسٹر کلین نے چونکنے کے انداز میں ہماری طرف دیکھا۔ چہرے پر طاری خوف کی کیفیت چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگے
: ’’کیوں ملا جی! بارش کے سہانے اور رومانٹک موسم میں بھی آپ لوگوں کو موت سے ڈرانے کا فریضہ سر انجام دینے نکلے ہیں کیا؟ کچھ انجوائے کرنے دیں بچوں کو…۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’دیکھیں! ہم تو خود بھی انجوائے ہی کر رہے ہیں موسم کو۔ ہم نے آپ کو حسب حال شعر سنایا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم بھی اس رومانٹک موسم سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں تو آپ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔لگتا ہے میڈیا پر طوفان کے خطرے کی پیشینگوئی نے آپ کو پریشان کردیا ہے ۔ کچھ نہیں ہوتا، میڈیا تو چائے کی پیالی میں بھی طوفان اُٹھاتا رہتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ ڈر گئے؟‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’اس طوفان سے کون ڈرتا ہے؟ اس طرح کے طوفان تو معمول کی بات ہے۔ میں تو اس طوفان سے ڈر رہا ہوں جو مشرق وسطیٰ اور خلیج میں آیا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مسٹر کلین نے سر پر دھرا اخباری شیڈ اُتار دیا جو نیم تر ہوچکا تھا۔ اخبار کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا،
جس میں عراق اور شام میں مزاحمت پسند گروپوں کی پیش قدمی کی خبریں اور تصویریں شامل تھیں۔ مسٹر کلین نے کہا: ’’دیکھیں! یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ان جہادی لوگوں نے پوری دنیا کو فساد کی آماجگاہ بنادیا ہے۔یہ کون سا جہاد ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی مسلمانوں کے علاقے فتح کر رہے ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ دنیا خاموشی سے یہ سب ہوتا د�ام دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اس نظام کی اصلاح پر توجہ دینا ہوگی اور منافقت کا طرز عمل ترک کرنا ہوگا…‘‘ ہم یہاں تک پہنچے تھے بوندا باندی تھوڑی تیز ہونے لگی۔ مسٹر کلین نے ایک بار پھر اخبار کا شیڈ بنالیا اور سر پر رکھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔