وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَھَنَّمَ دَاخِرِینَ0)غافر:۶۰(
ترجمہ:تمہارے رب کا حکم وفرمان ہے،مجھ سے دعاء کرو میں قبول کروں گا،جو لوگ میری عبادت )دعاء سے کہ یہ بھی عبادت ہے( تکبر واعراض کرتے ہیں ذلت وخواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص دعاء اوراللہ پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے دعاء سے گریز کرتا ہے اپنی حاجت کے اقرار اور پیش کرنے کو خلاف شان سمجھتا ہے جو تکبر اوربے نیازی پر متفرع ہے،ایسے شخص کو خداوند قدوس ذلت وخواری کے ساتھ دوزخ میں ڈالیں گے۔
مضطر بے کس و مجبور کی دعاء کے قبول ہونے کے متعلق ارشاد الہی ہے:
أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاھُ وَیَکْشِفُ السُّوئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْأَرْضِ أَاِلٰہَ مَعَ اللَّھِ قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ0 )النمل:۶۲(
ترجمہ:کون ہے جو بے کس و مضطر کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے جب وہ )اس سے( دعاء کرتا ہے اور تم کو زمین پر خلیفہ )متصرف( بناتا ہے ،کیا اس کے ساتھ کوئی معبود شریک ہے،کم ہی لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں۔
فائدہ:یعنی مضطر وبے کس و بے سہارا لوگوں کی پریشانیوں کو کون دور کرتا ہے،ایسوں کی دعاؤں کو صرف اللہ پاک ہی قبول فرماتے ہیں،وہی حوادث مصائب کو ان سے دور کرتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ مضطر کی دعاء کو خصوصی طور پر خدا وند قدوس قبول فرماتے ہیں،احادیث میں بھی ایسوں کی دعاء کی قبو لیت کا ذکر ہے۔